Print this page

پہلا سورہ جو رسول خدا ۖ پر نازل ہوا

Rate this item
(0 votes)
پہلا سورہ جو رسول خدا ۖ پر نازل ہوا

ستائیس رجب سنہ چالیس عام الفیل کو پیغمبراکرم ۖ غار حرامیں اپنے رب سے دعاؤمناجات میں مشغول تھے کہ یکایک فرشتۂ وحی حضرت جبریل نازل ہوئے اور اپنے ہمراہ مژدۂ رسالت لاۓ اورسورۂ علق کی آیات کی تلاوت کی۔

اس خداکا نام لیکر پڑھو جس نے پیداکیاہے

اس نے انسان کو جمے ہوۓ خون سے پیداکیاہے

پڑھو اور تمھارا پروردگار بہت کریم ہے

جس نے قلم کے ذریعے تعلیم دی ہے اورانسان کو وہ سب بتادیاہے جو اسے نہیں معلوم تھا۔

۔۔۔۔۔

اس طرح خداکے نام اور توحید کے ساتھ تعلیم سے وحی و بعثت کا آغاز ہوا۔ یہاں ہم عید مبعث کے بارے بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رہ) کے میں نظریات پیش کررہےہیں۔

بعثت کہتے ہیں قیامت اور ہنگامہ کو، یا کسی کام کے لۓ اٹھایا جانا۔ یوم مبعث وہ دن ہے جس دن خداکی طرف سے پیغمبر اسلامۖ مبعوث بہ رسالت ہوۓ۔ بعثت پیغمبرۖ انسان کے لۓ شرک، بے انصافی، نسلی امتیاز اور جہل و فساد سے نجات پانے کی راہ کا آغاز ہے تاکہ انسان توحید، معنویت، اور عدالت وکرامت کی سمت قدم بڑھاۓ۔

بعثت نبویۖ۔ معنوی تحریک سے شروع ہوئی ۔اور عالم انسانیت میں ایک انقلاب برپاکردیا۔ یہ روحانی تحول مادہ پرست انسانوں کے لۓ مبدۂ خلقت کی سمت ہدایت کا باعث بنا۔ برائی سے روکا اور نیکیوں کی ترغیب دلائی۔ بعثت، رسالت نبویۖ ، تاریکیوں سے انسان کے نکلنے اور روشنی کی جانب حرکت کے آغاز سے شروع ہوئی۔

حضرت امام خمینی (رہ) نے اپنے جدّ بزرگوار حضرت رسول اکرمۖ کی بعثت کے دن کو سارے عالم کا افضل اور اشرف ترین دن قرار دیا۔آپ کی نظر میں رسول ختمی مرتبت ۖکی بعثت کےروزسے کسی بھی دن حتی بعثت انبیاۓ الوالعزم کے یوم بعثت کا بھی موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔

آپ فرماتے ہیں کہ یوم مبعث ایسا عظیم دن ہے کہ ازل سے ابد تک جس کی مثال نہیں ملتی۔اور نہ ملے گی۔ ایسے پیغمبرکا یوم مبعث، کہ جس نے تمام نفسانی اور ملکوتی مقامات کو درک کیاہے۔اور تمام ظاہری اور باطنی شریعتوں کا عالم ہے۔اور اس کے بعد کسی دوسرے نبی ورسول کی ضرورت ہی نہیں ہے۔بعثت، شائستہ انسانوں کے برائیوں سے پاک ہونے کا مژدہ ہے۔

حضرت امام خمینی(رہ) بعثت کے موضوع پر، تزکیہ کو پہلی نظرمیں اس الہی اقدام کے ایک رکن کی حیثیت سے پیش کرتےہیں۔ تزکیہ، یعنی نیک صفات کا حامل ہونا، غلط رفتار کی اصلاح کرنا اور بری صفتوں کو دور کرنا۔ در حقیقت تزکیہ، انسان کے باطن کی تطہیر سے شروع ہوتاہے اور باطنی تطہیر کے بعد فرد کی ہستی اور شخصیت کے تکامل کا باعث بنتا ہے۔

حضرت امام خمینی(رہ) تزکیہ کے مسئلے پر روشنی ڈالتے ہوۓ انسانی معاشرے کے تمام افراد کے لۓ اخلاقی صفات کی اہمیت کو ایک عظیم ہدف بتاتے ہیں۔ آپ کے خیال میں تزکیہ، بعثت کے بنیادی مقصد کے اعتبارسے معاشرے کے کسی خاص طبقہ سے مختص اور کسی جغرافیائی علاقےمیں محدود نہیں ہو سکتاہے۔

حضرت امام خمینی رہ تزکیۂ نفس کی مزید وضاحت کے لۓ سورۂ جمعہ کی دوسری آیت کی جانب اشارہ کرتےہیں جس میں خداوند کریم اپنے پیغمبر کی بعثت کا مقصد یوں بیان کرتاہے۔ وہ خدا وہ ہے جس نے امیین میں ایک رسول بھیجا جو انھیں میں سےہے۔ جو آیات الہی کی ان پر تلاوت کرتاہے۔ ان کے نفسوں کو پاکیزہ بناتاہے اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتاہے۔ اگر چہ وہ اسکے پہلے کھلی ہوئی گمراہی میں تھے۔ اس آیۂ شریفہ کے مطابق خدانے لوگوں کے درمیان سے اپنا رسول مبعوث فرمایا اور اسکو چند امور پر مامور کیا ایک کام، لوگوں پر اللہ کی عظیم کتاب قرآن کریم کی آیات کی تلاوت کرناہے۔ قرآن کریم ایک دسترخوان ہےخدا نے پیغمبر اکرمۖ کے ذریعے انسانوں کے درمیان جسے چنوادیاہے اور ہر فرد اپنی توانائی کے مطابق اس سے استفادہ کر رہاہے۔

حضرت امام خمینی(رہ) اس بارے میں فرماتےہیں ہدف بعثت، نزول سے انتہائے زمانہ تک، لوگوں کے درمیان اس دستر خوان کو بچھائےرکھناہے۔ رسول جو قرآن کی تلاوت اور اسی کتاب نیز اسی کتاب میں موجود حکمت کی تعلیم دیتاہے۔ بنا بریں بعثت کا ہدف نزول قرآن ہے اور تلاوت قرآن کا مقصد یہ ہے کہ انسان تزکیۂ نفس پیداکرے اور نفوس ظلمات اور تاریکیوں سے نجات اور اس کتاب کی تعلیم اور حکمت درک کرنے کی صلاحیت حاصل کریں۔

حضرت امام خمینی (رہ)اس حقیقت کی مزید وضاحت یوں فرماتے ہیں۔جب تک تزکیہ نہ ہو کتاب و حکمت کی تعلیم ناممکن ہے۔جب تک انسان اپنے نہایت ہی تاریک حجاب سے نہیں نکلے گا۔خواہشات نفسانی میں گرفتار رہےگا۔خود پسندی کا شکار رہےگا۔اور اپنے نفس اور باطن میں ایجاد کردہ چیزوں میں الجھا رہےگا۔ اوراس وقت تک اس کے دل میں نور الہی جلوہ گرہونے کی صلاحیت اور توانائی پیدا نہیں ہو سکتی۔

۔۔۔۔۔

تزکیہ، جو بعثت کے ایک اہم اہداف میں سے ہے۔ اسکے معنی ہیں ظلمت نفس سے نکلنا اور معنویب کی پاکیزہ فضامیں داخلے کے لۓ اندرونی اور نفسانی خواہشات کا مقابلہ کرنا۔حضرت امام خمینی (رہ) کے نقطۂ نظر سے لوگوں کے مابین تمام اختلافات کی جڑ، بلاشبہ وہ سر کشی ہے جو نفس انسان میں موجود ہے۔ اگر انسان اپنے مقام و منصب پر قانع نہ ہو تو یہ امر جارحیت اور اور اختلاف کا باعث بن سکتاہے اوریہ چیز ایک مزدور اور دیہاتی سے لےکر سربراہان مملکت تک میں پائی جاتی ہے چنانچہ تزکیہ اور پاکیزہ نفسی کا نہ ہونا، حکام اور سربراہان مملکت کے لۓ زیادہ خطرناک ہے۔

حضرت امام خمینی (رہ) اس مطلب کی وضاحت کرتے ہوۓ فرماتےہیں۔اگر معمولی افراد عدم تزکیہ کا شکار ہوں اور سرکشی کریں تو ان کی سرکشی بہت ہی محدود ہوگی۔ اگر ایک فرد،بازار۔ یادیہات میں سرکشی کرےتو یہ ممکن ہے کہ ایک محدود مقام اور علاقے میں فساد پھیلاۓ۔ لیکن اگر طغیان اور سرکشی کسی ایسی فرد میں پیدا ہو جائے جسے عوام نے تسلیم اور قبول کر لیاہے یعنی ایک ایسے عالم میں پیداہو گئی جس کو لوگ عالم دین کی حیثیت سے قبول کرتے ہیں۔ یا ایک بادشاہ میں جسے لوگوں نے اپنا سلطان مان لیاہے، یا ایسے سربراہوں میں پیدا ہوگئی جنھیں عوام نے تسلیم کرلیاہے، تو یہ سرکشی کبھی ایک ملک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ کیونکہ جس نے زمام امور اپنے ہاتھ میں لے رکھی ہے اسکا تزکیہ نہیں ہواہے۔
۔۔۔۔۔

پہلا سورہ جو رسول خدا ۖ پر نازل ہوا اور آپ کے مبعوث بہ رسالت ہونے کا باعث بنا، سورۂ علق تھا۔اس سورے کی ساتویں اور آٹھویں آیت میں خدا فرماتاہے:


یقینا انسان سرکشی کرتاہے، 

جب وہ اپنے آپ کو مستغنی اور بے نیاز سمجھنے لگتاہے۔

اسی لۓ حضرت امام خمینی (رہ) نے اپنے دوسرے مرحلے میں۔انسان کی سرکشی۔اور اس سے پیداہونے والے منفی نتائج اور خطرات کی جانب اشارہ کرتےہوۓ فرمایاہے۔تمام انسانوں کی صورت حال یہ ہے کہ ایک ذرا مستغنی بنےتو سرکشی کرنےلگتےہیں۔یعنی اگر تھوڑی سی دولت آگئی۔تو اسکے مطابق سرکشی پیداہوگئی۔ تھوڑا علم حاصل ہوگیا تو اس کے بقدر سرکشی آگئی۔مقام ومنصب ملا تواس کے معیار کے مطابق غرور اور سرکشی پیدا ہوگئی۔بعثت کامقصد۔یہ ہے کہ ہمیں ان سرکشی اور طغیان کی زنجیروں سے نجات دلاۓ۔اور ہمیں اپنے آپ کا تزکیہ کرنا چاہیے۔سامعین طغیان کہتےہیں اپنی حد سے آگے بڑھ جانے کو۔لفظ غنی کے معنی امیر اور تونگر ہے ۔اور یہ صفت خدا کے لۓ اس معنی میں ہے کہ وہ اتنااور ایسا غنی اور تونگر ہے کہ کسی کا بھی محتاج نہیں ہے ۔وہ خود قادر مطلق ہے لیکن انسان ۔جو احتیاج اور ناتوانی کا مظہر ہے ۔اگر وہ بےنیازی اور استغناء کا احساس کرے۔تو یہ اس کے غرور اور استکبار کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔

استغنا اور بے نیازی اور اس کے نتیجے میں انسان کی سرکشی اور غرور و تکبر کے مصادیق بے شمار ہیں۔ جو چیز سرکشی اور فسادو برائی کا باعث بنتی ہے، خداکو فراموش کرنا اور اس کی مدد ونصرت کی عدم ضرورت کا احساس پیدا ہونا ہے۔ مالی استغنا پیداہونے کا ایک اہم عامل، اقتصادی اور مالی ضرورت سے بظاہر بے نیازی ہے اور مالی استغنا سماجی زندگی میں بے شمار برائیوں کاسرچشمہ ہے۔ علمی استغنا بھی۔طغیان اور سرکشی کے دیگر مصادیق میں سے ہے۔ایسا انسان اپنےآپ کو علامہ سمجھنے لگتاہے۔اور یہی امر اس کے غرور علمی اور راہ حق سے منحرف ہونے کا باعث بنتاہے۔

علمی استغنا انسانی معاشروں میں بےشمار نقصانات کا باعث بنتاہے اور کمال وسعادت کی سمت پیشر رفت کے لۓصحیح راستے کے انتخاب میں رکاوٹ بنتاہے۔ سیاسی استغنابھی، اقتدارپسندی جاہ ومقام پرستی میں متجلی ہوتاہے۔ استعماری اصول طاقت برائے اقتدار اور غلط سیاست۔ مذھب اخلاق اور تمام انسانی قدروں کا گلا گھونٹ دیتی ہے اور یہ سبھی خداکو فراموش کرنے اور اقتدار کے وقت خداسے احساس بے نیازی کا مصداق ہیں۔

حضرت امام خمینی(رہ)بعثت کا ایک ہدف ومقصد ظلم کا خاتمہ ہے۔ آپ اس بارے میں فرماتےہیں۔بعثت رسول خداۖ اس لۓ ہے کہ انسانوں کو رفع ظلم کا طریقہ بتاۓ تاکہ لوگ بڑی اور استکباری طاقتوں کامقابلہ کر سکیں۔ بعثت اس لۓ ہوئی کہ لوگوں کے اخلاق کو سنوارے، اور ان کو روحانی اور جسمانی اعتبار سے ظلمتوں اور تاریکیوں سے نجات دلاۓ۔ تاریکیاں دور کرے اس کی جگہ نورلے آۓ۔ جہالت کی تاریکی دور کر کے ۔اس کی جگہ علم ودانائی کی روشنی پھیلائے اور ظلم کی تاریکی کی جگہ نور عدالت و انصاف جاگزیں کرے۔ بعثت نے ہمیں یہ سب کچھ بتایاہے۔ ہمیں بعثت نے یہ بتایا ہے کہ تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور انہیں آپس میں متحد اختلاف و نزاع کا شکار کا نہیں ہونا چاہیے۔

 

Read 2966 times