Print this page

امام خميني (رہ) كي نگاہ ميں اتحاد

Rate this item
(1 Vote)
امام خميني (رہ) كي نگاہ ميں اتحاد

اسلامي فرقوں كے درميان سياسي اختلافات كي وجہ سے زيادہ گہرے ہوجانے والے نظرياتي اور عقائدي اختلافات كو مدنظر ركهتے ہوئے اتحاد كي راہ ميں دو طرح كے اقدام كئے گئے: بعض افراد نے تقريب مذاہب كا بيڑا اپنے سر اٹها ليا جس ميں شيعہ حوزہ ہائے علميہ اور الازهريونيورسٹي نے اپني علمي حيثيت و منزلت كے مطابق اتحاد كي راہ ميں قدم آگے بڑهائے۔ دوسرے بعض افراد نے بهي مذہبي اختلافات كے سلسلہ ميں گفتگو سے پرہيز كركے سياسي اتحاد برقرار كرنے كي كوشش كي اور مسلمانوں كي بےنظير طاقت كو مدنظر قرار ديا۔ • اتحاد؛ كاميابي كا ضامنجن اسلامي دانشوروں نے معاشرے ميں اتحاد كے سلسلہ ميں گفتگو كي ہے ان ميں سے آيت اللہ بروجردي جيسي كاميابي كم ہي افراد كو ملي۔ افسوس كہ دونوں مذاہب ميں متعصب اور تفرقہ پسند افراد نيز مذہبي اختلافات كو ہوا دينے كے لئے استعماري سازشوں كي وجہ سے بہت سي جگہوں پر اتحاد كے سلسلہ ميں كي جانے والي كوششيں ناكامياب رہيں۔ مسئلہ اتحاد بين المسلمين كا تعلق صرف اسلامي جمہوريہ كے قيام سے نہيں ہے بلكہ امام خميني(رہ) نے اسلامي انقلاب كي كاميابي سے پہلے اس كي جانب متوجہ كيا تها: ’’ہميں كاميابي كي اس كليد يعني اتحاد كلمہ اور قرآن مجيد پر اعتماد كي حفاظت كرني چاہئے اورہم سب لوگ شانہ بہ شانہ ہو كر قدم آگے بڑهائيں اور ايران ميں اسلامي جمہوريہ قائم كريں" آپ نے اسلامي انقلاب كي كاميابي كے بعد بهي اس اہم مسئلہ كي جانب اشارہ فرمايا اور كہا:"اگر ہم اتحاد كلمہ اور اسلامي زندگي كي اس خصوصيت كہ جسميں تمام چيزِيں شامل ہيں، كا خيال ركهيں تو ہم آخر تك كامياب رہيں گے اور اگر خدانخواستہ وہ اس ميں خلل ڈاليں يا ہم سستي كا مظاہرہ كريں اور انكا مقابلہ نہ كريں يا اپنے طور پر يہ سوچ كر بيٹهے رہيں كہ ہم كامياب ہيں اور اس طرح سست ہوجائيں تو مجهے اس بات كا ڈر ہے كہ كہيں وہ انہي مسائل كو دوسرے نتائج كے ساته ہمارے سامنے نہ لے آئيں۔ اگر ہم استقامت كا مظاہرہ كريں اور اپنے پاس موجود افراد وطن كي صورت ميں موجود اس طاقت كي حفاظت كريں ، اتحاد كلمہ كي حفاظت كريں تو ہم سب كامياب رہيں گے"۔ امام خميني (رہ) اتحاد بين المسلمين كو اسلامي نظام كي علت وجود اور علت بقاء جانتے ہيں اور اسي عنصر كو مسلمانوں كي بقاء كا ضامن سمجهتے ہيں:"اگر مسلمان اس عزت و عظمت كو دوبارہ حاصل كرليں جو انہيں صدراسلام ميں حاصل تهي ، اسلام اور اتحاد كو مدنظر قرار ديں ، وہ اسلام كے سلسلہ ميں ہونے والا اتفاق نظر ہي تها كہ جسكي وجہ سے وہ غيرمعمولي طاقت و شجاعت كے مالك بن گئے تهے"۔ • اتحاد ايك شرعي فريضہامام (رہ) كے فرض شناس نظريہ كے مطابق سياسي اقدام بنيادي طور پر شرعي ذمہ داري ہے۔ اسي وجہ سے بہت سے سياسي مسائل ميں شركت مثلاً انتخابات ميں شركت يا مظاہروں اور اجلاس كے ذريعہ نظام كي حمايت جو سياسي دانشوروں كي نگاہ ميں لوگوں كے "حقوق" ميں سے ہيں، امام(رہ) كے نظريہ كے مطابق عوام كا فريضہ بهي ہے۔ آپ اتحاد پر توجہ نہ كرنے اور اسے ترك كرنے كو "گناہ كبيرہ" اور "عظيم جرم" شمار كرتے ہيں:"اگر كبهي ايسا اتفاق پيش آئے تو وہ بهي جرم ہے۔ آج اتحاد كو كمزور كرنا بہت بڑا جرم ہے"۔ يہي مسئلہ اس بات كا باعث بنا كہ امام اتحاد كي حفاظت اور اختلاف سے پرہيز كي خاطر (رہ) بہت سے مسائل يا امور كے سلسلہ ميں سكوت اختيار فرمائيں جو آپكے نظريہ كے موافق نہيں تهے ليكن عہديداران حكومت اور ذمہ دار افراد اس پر متفق تهے بلكہ آپ نے ايسے مواقع پر اتحاد كي فضا كو مزيد مستحكم كيا۔ آپ فرماتے ہيں:"ہم اپني خواہشات نفساني سے مكمل طور پر پرہيز نہيں كرسكتے ہيں ، ہمارے پاس ايسي طاقت نہيں ہے، ليكن اتني طاقت تو ہے كہ اسكا اظہار نہ كريں۔ ہم بات پر قادر نہيں ہيں كہ اگر كسي كے واقعاً مخالف ہيں تو دل ميں بهي مخالفت نہ ركهيں ليكن اس بات پر قادر ہيں كہ ميدان عمل ميں اسكا اظہار نہ كريں"۔ امام خميني(رہ) كي نگاہ ميں اتحاد كي حدودامام(رہ) كي نگاہ ميں اتحاد بہت وسيع حدود پر مشتمل ہے جس ميں داخلي قوتوں اور امت مسلمہ كا اتحاد شامل ہے۔ اسلامي انقلاب كي كاميابي سے پہلے داخلي عناصر كے سلسلہ ميں امام (رہ) كي نگاہ ميں سب سے اہم چيز ملك كے ديني اور ثقافتي عناصر كا آپسي اتحاد تها۔ آپ نے خداداد ذكاوت و ذہانت كي بنياد پر اس بات كي كوشش كي كہ داخلي گروہوں اور طاقتوں كے درميان اتحاد برقرار كريں كہ جنميں سے بعض كي جانب اشارہ كيا جارہا ہے:• مدرسہ اور يونيورسٹي كا اتحادامام(رہ) كي شخصيت ايسي تهي كہ آپ كو مدرسہ اور يونيورسٹي كي زيادہ تر شخصيات مانتي تهيں اسي وجہ سے آپ ہميشہ ان دونوں طبقوں كے درميان اختلاف كے خطرہ كے سلسلہ ميں متوجہ كرتے تهے۔آپ فرماتے ہيں:"ہم نے متعدد سال كي زحمتوں كے بعد يونيورسٹيز كو علماء، ديني مدارس اور طلاب ديني سے نزديك كيا ہے۔ ان مختلف طبقوں كو ايك دوسرے كے نزديك كيا ہے اور ہميشہ اس بات كي تاكيد كي ہے كہ اپنے درميان اتحاد كلمہ برقرار ركهئے تاكہ آپ خدمات انجام دے سكيں"۔اسكے بعد آپ مدرسہ اور يونيورسٹي كي مہارت كے سلسلہ ميں اشارہ فرماتے ہيں اور بعض افراد كو اسلامي مسائل كا ماہر اور بعض كو ملكي امور اور سياسي مسائل كا ماہر بتاتے ہيں نيز اسي وجہ سے دونوں كو مستقبل كي كاميابي كے لئے ضروري جانتے ہيں۔ آپ انقلاب اسلامي كے سلسلہ ميں اپني ايك تجزياتي گفتگو كے درميان فرماتے ہيں:"اگر اس تحريك كا نتيجہ صرف علماء اور روشن خيال افراد كا اتحاد ہو تب بهي مناسب ہے" آپكے مطابق مدرسہ اور يونيورسٹي كو اپني صلاحتيوں كے مطابق ايك دوسري كي تكميل كرني چاہئے اور انقلاب و نظام كے آخري ہدف كي راہ ميں قدم بڑهانا چاہئے۔ اسي وجہ سے آپ فرماتے ہيں:"ہم سب اس حقيقت سے واقف ہيں كہ يہ دو مركز درحقيقت ايك شجرہ طيبہ كي دو شاخيں ہيں اور ايك جسم كے دو ہاته ہيں كہ اگر يہ اصلاح كي كوشش كريں ،اپنے معنوي عہد و پيمان كي حفاظت كريں ، ايك دوسرے كے شانہ بہ شانہ خدمت خدا اور خلق خدا كے لئے قيام كريں تو قوم كو مادي اور معنوي دونوں اعتبار سے كمال كي منزلوں تك پہنچاديں گے اور ملك كي آزادي اور اسكے استقلال كي حفاظت كريں گے"۔ انقلاب كي كاميابي كے بعد داخلي عناصر ميں اختلافات كے حالات زيادہ فراہم ہوگئے اسي طرح جنگ كے دوران مليٹري، سپاہ اور كميٹي كے درميان اختلاف بهي بہت اہم تها۔ امام(رہ) ہميشہ عسكري طاقتوں كے اتحاد اور انكے "يدواحدہ" ہونے پر تاكيد كرتے تهے اور انكے اختلاف كو جنگ ميں شكست كے مترادف سمجهتے تهے۔ دوسري جانب اسلامي ملك ميں موجود مختلف قوميتوں اور لہجوں نے بهي قومي اور مذہبي اختلافات كي راہ ہموار كردي تهي۔ كردستان، سيستان، تركمن صحرا وغيرہ كا بحران؛ ان سب كا تعلق امت مسلمہ كو منتشر كرنے اور اسكے درميان مذہبي اختلافات كو ہوا دينے كي خاطر تها۔ امام خميني(رہ) نے اپني گفتگو كا ايك محور ان گروہوں ميں اتحاد اور ساري ايراني عوام كے مسلمان ہونے پر تاكيدكو قرار ديا۔ انقلاب كي كاميابي كے بعد حكومت اور عوام كا اتحاد، حكومت كے مختلف شعبوں كے درميان اتحاد، سياسي پارٹيوں كےدرميان اتحاد اور انہيں اسلام كے محورپر متحد كرنے كے سلسلہ ميں امام (رہ) نے خاص توجہ دي۔ بيروني معاملات ميں بهي مسلمانوں اور مستضعفوں كے درميان اتحاد آپكي ديرينہ آرزو تهي جسكے متعلق آپنے انقلاب سے پہلے اور اسكے بعد بہت زيادہ تاكيد فرمائي۔ اسرائيل كے مقابلہ ميں اتحادبين المسلمينامام خميني(رہ) كے بيانات اور تحريروں كے درميان بہت سے ايسے موضوعات ملاحظہ كئے جاسكتے ہيں جنكے ذيل ميں آپ نے اسرائيل سے مقابلہ كرنے كے لئے مسلمانوں كے متحد ہونے كي تاكيد كي ہے اور مظلوم فلسطيني عوام پر اس غاصب حكومت كے مظالم بيان كئے ہيں ۔ قابل توجہ بات يہ ہے كہ آپ ان بيانات كا تعلق انقلاب اسلامي كي كاميابي كے صرف بعد كے دور سے نہيں ہے بلكہ اس سے پہلے بهي آپ ان مسائل كي جانب افراد كو متوجہ كرتے رہتےتهے۔ آج مظلوم فلسطيني قوم پر صہيونيوں كے مظالم اور اسلامي ممالك كي مجرمانہ خاموشي كو مدنظر ركهتے ہوئے آپ كے ان اقدامات كي اہميت دوچنداں ہوجاتي ہے۔ ايك ايسا وقت تها جب صہيوني گماشتے ايران ميں حكمراني كررہے تهے اور انتہائي مخفيانہ طور پر كام كرنے والي جاسوسي تنظيم "ساواك" صہيوني ماہروں كے زير تعليم و نگراني كام كررہي تهي۔ ايران ميں انكانفوذ بے مثال تها۔ اگرچہ آپ عراق ميں جلاوطني كي زندگي گزار رہے تهے ليكن وہاں سے آپ نے بہ كمال شجاعت يہ پيغام ديا: "غيروں كا نشانہ قرآن اور علماء ہيں ․․․ ہم امريكا اور فلسطين كے يہوديوں كي خاطر ذلت برداشت كريں! قيد و بند كي صعوبتيں تحمل كريں اور سزائے موت كا سامنا كريں اور اس طرح غيروں كے مفادات كي قرباني بنتے رہيں!" ميں اپني شرعي ذمہ داري ادا كرتے ہوئے ايراني عوام اور مسلمانان عالم كو متوجہ كرتا ہوں كہ قرآن اور اسلام خطرے ميں ہے، ملك كا استقلال اور اسكا اقتصاد صہيونيوں كے قبضہ ميں ہے"۔ آپ صہيونيوں كے جرائم طشت از بام كرنے كي توجہ سے جيل جاتے ہيں، جلاوطن ہوتے ہيں ليكن آپ اس سلسلہ ميں كوئي كوتاہي نہيں كرتے ہيں۔ ايك دوسري جگہ آپ فرماتے ہيں:"ميں تقريباً بيس سال عالمي صہيونيت كے خطرات كي جانب متوجہ كررہا ہوں اور ميں آج بهي دنيا كے تمام آزادي طلب انقلابوں اور ايران كے انقلاب اسلامي كے لئے اسكے خطرہ كو پہلے سے كم نہيں سمجهتا ہوں۔ دنيا كو نگلنے كا ارادہ كرنے والي ان جونكوں نے مختلف حربے اپنا كر مستضعفين عالم كے خلاف اقدام اور قيام كيا ہے۔ دنيا كي آزاد قوموں كو ان خطرناك سازشوں كے مقابلہ ميں شجاعت و دليري كے ساته كهڑے ہوجانا چاہئے"۔  دوسري جانب فلسطين كي مظلوم عوام كي حمايت ميں مسلمانوں كو بيدار كرنے كے لئے روز قدس (ماہ مبارك رمضان كا آخري جمعہ) كا اعلان آپ كے اہم كارناموں ميں ہے۔ اقسام اتحادمجموعي طور پر امت مسلمہ كے تين طرح كے اتحاد كا تصور كيا جاسكتا ہے: اتحاد مطلقاتحاد مطلق سے مراد ہے عقايد ، احكام اور اسلامي تعليمات كے تمام اصول و فروع ميں متفقہونا۔ خصوصيات اور كفيات ميں آزادي فكر و نظر نيز اسلام كے بنيادي اصولوں ميں استدلال كي اہميت كو مدنظر ركهتے ہوئے يہ اتحاد ناممكن ہے۔ بالخصوص مختلف سليقوں اور طرز فكر كے باعث دانشوروں ميں اختلاف نظر، اسلامي مآخذ كے سلسلہ ميں معلومات كي كمي و زيادتي اور استدلال و مسائل كو سمجهنے ميں موثر ذہانت و ذكات كے اختلاف كو مدنظر ركهتے ہوئےيہ اتحاد غيرعملي ہے۔ مصلحتي اور وقتي اتحادوقتي اتحاد ديني تعليمات سے قطع نظر بيروني عوامل كي وجہ سے وجود ميں آتا ہے۔ كبهي كبهي ايسا ہوتا ہے كہ ان عناصر سے اسلامي سماج كو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ عام طور پر سنگين حالات ميں فرقہ وارانہ اختلافات بالائے طاق ركه دئے جاتے ہيں اور لوگوں ميں ايك قسم كا اتحاد پيدا ہوجاتا ہے۔ چونكہ اس طرح كا اتحاد بيروني عوامل سے موثر ہوتا ہے اور ديني تعليمات سے اسكا تعلق-

Read 2149 times