Print this page

مناسک حج کا فلسفہ اور پیغام

Rate this item
(0 votes)
مناسک حج کا فلسفہ اور پیغام

حوزہ نیوز ایجنسی | اللہم ارزقنا حج بیتک الحرام فی عامنا ھذا و فی کل عام واغفرلنا تلک الذنوب العظام فانہ لایغفرھا غیرک یا رحمان یا علام ۔

موسم حج قریب ہے اور بہت سے اہل توفیق حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے کے لئے مکہ معظمہ کی مقدس سرزمین پر باریاب ہو چکے ہیں۔

ہم اس عظیم مناسبت کی تعظیم کرتے ہوئے تمام مسلمانوں کی خدمت میں " مناسک حج کا فلسفہ اور پیغام " کے عنوان سے ایک دینی و معنوی سوغات پیش کرنے کی کوشش کر ر ہے ہیں۔

امید ہے کہ اس سوغات کے ذریعہ ان شاءاللہ ہم سب کی حج بیت اللہ سے متعلق معرفت و عقیدت میں ضرور اضافہ ہوگا۔

 

حج کا معنیٰ و مفہوم :

1- حج کے لغوی معنی ارداہ کے ہیں (1) اور ظاہر ہے کہ ارادہ کے لئے متعلق کا ہونا ضروری ہے یعنی حج کا مطلب ہے ارادہ !! تو سوال یہ ہے کس کا ارادہ ؟

جواب : اللہ کا ارادہ ، اس کی رضا و خوشنودی کا ارادہ ، اس کی طاعت و عبادت کا ارادہ ، اور اس کی قربت و نزدیکی کا ارادہ۔

2- بلاشبہ یہ ارادہ بڑا عظیم ارادہ ہے اور یہ عظیم اس لئے ہے کہ خدا وندعظیم سے متعلق ہے۔

انسان جب یہ ارادہ کرتا ہے تو اپنا ملک ، اپنی سرزمین ، اپنا وطن ، اپنی جائیداد ، اپنا گہر ، اپنا کاروبار ، اپناخاندان اور اپنے اقارب و احباب سب کو چھوڑدیتا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ حج اپنے نام ھی سے ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ دیکہواگر تم چاہواور ارادہ کرلو تو اللہ تعالی کی خاطر سب کچھ چھوڑ سکتے ہو۔

3- گویا حج " اللہ اکبر " کے مفہوم کو مجسم کرکے ہمارے سامنے پیش کرتا ہے ، مسلمان قدم قدم پہ " اللہ اکبر" کا نعرہ لگاتا ہے ، دن میں پچاسوں مرتبہ اس کلمہ کی تکرار کرتا ہے۔

اذان میں " اللہ اکبر" کہتا ہے ، اقامت میں " اللہ اکبر " کہتا ہے ، ہرنماز میں دسیوں مرتبہ " اللہ اکبر " کہتا ہے۔

لیکن اسے باقاعدہ مجسم کرکے اس وقت دکھاتا ہے جب حج بیت اللہ کا ارادہ کرتا اور اس کی ادائیگی کے لئے قدم آگے بڑھاتا ہے۔

4- وہ اپنا ملک چھوڑ کے ثبوت دیتا ہے کہ ملک پست ، حقیر اور چھوٹا ہے اور اللہ ، اکبر ہے۔

جائیداد و کاروبار چھوڑ کے ثبوت دیتا ہے کہ یہ پست و حقیر ہیں اور اللہ ، اکبر ہے۔

غرضکہ سارے روابط و تعلقات کو چھوڑ کر اللہ کا بندہ عزم حج کرکے ثبوت دیتا ہےکہ ہرتعلق و رابطہ چھوٹا ہے اور اللہ عز وجل سے رابطہ و تعلق اعلی ، اعظم ، اہم اور اکبر ہے۔

5- یاد رکھئے حج کا پیغام ، اخلاص و عبودیت کا پیغام ہے۔

حج کا پیغام ، خالص بندگی کا پیغام ہے۔

حج کے اندر بندگی بھی ہے اور سلیقہ بندگی بھی ہے۔

حج کے اندر ، اخلاص بندگی بھی ہے اور اظہار بندگی بھی.

6- شائستہ ہے کہ حج کرنے والا معرفت کے ساتھ حج کرے چونکہ امام صادق علیہ السلام کا ارشاد مبارک ہے لا یقبَلُ اللہ عملا الا بمعرفۃ۔(2)

اللہ معرفت کے بغیر ، کوئی عمل قبول نہیں فرماتا۔ حاجی کو چاہیئے کہ حج پہ جانے سے پہلے حج کے فلسفہ اور اس کے پیغامات پر ضرور توجہ دے تاکہ حج کا فریضہ ، معرفت کے ساتھ انجام پاکر اللہ کی بارگاہ میں شرف قبولیت حاصل کرسکے۔

7- ہم یہ بیان کرچکے ہیں کہ حج کے معنی ارادہ کے ہیں اور ارادہ انسان کی شخصیت کی تعمیر و تخریب دونوں میں خشت اول کی حیثیت رکھتا ہے۔

شاید اسی لئے کہا گیا ہے " الاعمال بالنیات " (3) تمام اعمال و افعال کا دار ومدار نیت اور ارداہ پر ہے۔

ارادہ انسان کو قوت پرواز عطا کرتا ہے ، جتنا بلند ارادہ ہوگا اتنی ھی بلند پرواز ھوگی۔

جتنا نیک ارادہ ہوگا اتنا ھی نیک عمل ہوگا۔

جنتا مستحکم ارادہ ہوگا اتنا ھی مستحکم اقدام ہوگا۔

سرکار امیر المومنین علیہ الصلوۃ والسلام نے کیا خوب فرمایا ہے :

"المرء یطیر بہمتہ " (4)

انسان اپنے ہمت و ارادہ کی بیس پر اڑتا اور پرواز کرتا ہے۔

مولائے کائنات علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک دوسری حدیث میں یوں ارشاد فرمایا ہے :

" انَّ اللهَ یُحِبُّ أَنْ تَكونَ نِیّةُ الانسانِ جَمیلةً" (5)

بیشک اللہ دوست رکھتا ہے کہ انسان کی نیت اور اس کا ارادہ خوبصورت ہو

پس خوبصورتی اور بدصورتی کا دار و مدار ظاہری شکل و صورت پہ نہیں ہے بلکہ نیت و ارادہ پر ہے۔

ارادہ چھوٹا بھی ہوتا ہے اور بہت چھوٹا بھی۔

ارادہ بڑا بھی ہوتا ہے اور بہت بڑا بھی ، البتہ بہت بڑا بلکہ سب سے بڑا ارادہ وہ ہوتا ہے جو اللہ اکبر کے لئے ہوتا ہے۔

اخلاص و للہیت :

ہم بشکل حج جو ارادہ کرتے ہیں :

اسے فقط اور فقط اللہ کے لئے ہونا چاہیئے ، اس اردہ کو فقط اور فقط الہی ، دینی اور ایمانی خوشبو سے معطر ہونا چاہیئے۔

اس ارداہ میں ذرہ برابر بھی کسی اور کی شمولیت نہیں ھونی چاہیئے۔

ہمارے ارادہ میں کلمہ توحید" لا الہ الا اللہ " کو مجسم ہونا چاہیئے۔

ہمارے ارداہ کو " قل ان صلاتی و نسکی و محیای و مماتی للہ رب العالمین " (6) کی تصویر ہونا چاہیئے۔

ہمارے ارادہ کو " انا للہ وانا الیہ راجعون " (7) کا آئینہ ہونا چاہیئے ۔

ایسا نہ ہوکہ اس عظیم ارادہ کو ریاکاری و شہرت اور حاجی کہلانے کی ہوس ، حقیر و بے مقدار بنا دے۔

۲ حج اور جج :

ہر حاجی کو یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ حج قیامت کے دن اس کے لئے " جج " بھی بن سکتا ہے۔

اگر یہ حج خالص اللہ کے لئے ہوگا تو جج بن کر آپ کے حق میں فیصلہ دے گا۔

لیکن اگر اللہ کے بجائے سیر و تفریح ، تبدیلئ آب وھوا ، ریا و شہرت یا زندگی بہر کے لئے حاجی کا مبارک لقب حاصل کرنے کی ہوس میں ہوگا تو یہ " جج" بن کر آپ کے خلاف گواھی دے گا۔

چونکہ قرآن حکیم کی صراحت موجود ہے قیامت کے دن زبانوں کو سیل مہر کردیا جائے۔

اور روایات کے مطابق تمام اچہے برے اعمال مجسم ہوکے سامنے آئیں گے۔

حج ، مجموعہ عبادات

حج کا امتیاز اور حج کی بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ بظاہر دوحرفوں پر مشتمل ایک عبادت ہے لیکن حقیقتا اس دوحرفی عبادت کے اندر بہت سی عظیم عبادتیں پائی جاتی ہیں مثلا :

۱- ہجرت اس میں پائی جاتی ہے۔

۲- جہادبالمال اس میں پایا جاتا ہے۔

۳- جہاد بالنفس اس میں پایا جاتا ہے۔

۴- نماز اس میں پائی جاتی ہے۔

۵-طواف اس میں پایا جاتا ہے۔

۶- ذبح و قربانی اس میں پائی جاتی ہے۔

۷ واجبات پر نہایت سختی سے عمل اس میں ہوتا ہے ۔ ۸- محرمات سے سختی کے ساتھ پرہیز اس میں کیا جاتا ہے۔

۹- حقوق اللہ کا پورا پورا لحاظ اس میں رکھا جاتا ہے۔

۱۰- حقوق الناس بلکہ حقوق الحیوانات کا بھی پورا پورا خیال اس میں کیا جاتا ہے۔

حج ، دینی و انسانی اقدار کی مجسم تصویر :

ایسا لگتا ہے حج ، حج نہیں ہے بلکہ دینی ، اسلامی اور انسانی اقدار کی مجسم تصویر ہے اور تصویر بھی ایسی جو تمام دنیا کے لئے باقاعدہ قابل مشاہدہ ہے۔

بلاشبہ حج بشکل عبادت ، ایک ایسا عظیم دینی و انسانی باعظمت پروگرام ہے کہ جس کی ظرافتوں ، نزاکتوں ، لطافتوں ، باریکیوں ، منفعتوں ، مصلحتوں اور حکمتوں کا اندازہ لگانا کوئی آسان کام نہیں ہے اسی لئے اس سے اور آس کے مناسک و ارکان سے ملنے والے تمامتر پیغامات کو بیان کرنا بھی کوئی معمولی عمل نہیں ہے، لیکن ہم اپنی بساط کے مطابق کچھ پیغامات مختلف مناسبتوں اور زاویوں سےآپ کی خدمت میں پیش کرتے رہیں گے۔

حج اور ہجرت :

سب کے لئے ظاہر و آشکار ہے کہ حج ایک ایسی عظیم عبادت اور ایسا اہم عمل ہے جو ہجرت کے بغیر وجود میں نہیں آتا ہے۔

اور با مقصد " ہجرت " دینی و اسلامی اعتبار سے بڑا نیک اور باعظمت عمل ہے۔

ہجرت کے لئے یہ شرف کم نہیں ہے کہ اسے اسلامی تاریخ اور کلنڈر کا آغاز و مبدا قرار دیا گیا ہے۔

اسلامی و فقهی اعتبار سے کبهی هجرت واجب ہوتی ہے جیسے اس سرزمین سے ہجرت کرنا واجب ہے جہاں دین پر عمل کرنا مقدور نہ ہواور کبھی ہجرت حرام ہوتی ہے جیسے اسلامی سرزمین سے غیر اسلامی یعنی ارض کفر و شرک کی طرف ہجرت کرناکہ جہاں دین پر عمل کرنا مقدور نہ ہو، حرام ہے۔

ہجرت کے اقسام :

ہجرت کی بہت سی قسمیں ہیں :

۱۔ علم و کمال حاصل کرنے کے لئے ہجرت کرنا۔

۲۔ کفر سے اسلام کی طرف ہجرت کرنا۔

۳۔ ظلمت سے نور کی طرف ہجرت کرنا۔

۴۔ گناہ و معصیت سے الھی طاعت و عبادت کی طرف ہجرت کرنا۔

ہجرت ، حج کے لئے :

۱۔ البتہ حج کے نام پر حاجی " ملک " سے " مالک الملک کی طرف ہجرت کرتا ہے۔

۲۔ وطن سے " خالق الاوطان " کی طرف ہجرت کرتا ہے۔

۳۔ عزیزوں سے " رب عزیز " کی طرف ہجرت کرتا ہے۔

۴۔ اقارب سے " نحن اقرب الیہ من حبل الورید " (8) کی طرف ہجرت کرتا ہے۔

۵۔ احباب سے " اشد حباٌ للہ " (9) کی طرف ہجرت کرتا ہے۔

۶۔ مال سے " کعبہ مآل " کی طرف ہجرت کرتا ہے۔

۷۔ عیش و عشرت سے " قبلہ رشد و ھدایت " کی طرف ہجرت کرتا ہے ۔

۸۔ دنیائے معصیت سے " عالم طاعت " کی طرف ہجرت کرتا ہے۔

یقیناً یہ ہجرت ایک عظیم ہجرت ہے۔ البتہ سب سے باعظمت ہجرت ، گناہ و معصیت سے اللہ کی طاعت و عبادت کی طرف ہجرت کرنا ہے ، جیساکہ سرکار امیرالمومنین علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں :

لوگ کہتے ہیں ہم نے ہجرت کی ہے حالانکہ انھوں نے ہجرت نہیں کی ہے چونکہ حقیقی ہجرت گناھوں اور برائیوں سے طاعت اور اچھائیوں کی طرف ہجرت کرنا ہے۔ (10)

الحمدللہ حج میں یہ عظیم ہجرت بھی پائی جاتی ہے۔

پیغام :

حج بیت اللہ کے پیغامات میں سے ایک پیغام ہجرت ہے۔

حج کے بجا لانے کے لئے اپنے ملک ، اپنے وطن ، اپنے اقارب و احباب ، اپنے عیش و آرام اور شغل و کاروبار سے جو ہجرت کی جاتی ہے اس کا مقصد اللہ تعالی سے رشتہ ، رابطہ اور تعلق مضبوط و مستحکم کرنا ہوتا ہے۔

لھذا اس سے یہ پیغام حاصل ہوتا ہے کہ جب بھی خدا نخواستہ زندگی میں اللہ تعالی سے ہمارا رابطہ و رشتہ کمزور ھوجائے تو ہمیں ہجرت کرنی چاہیئے۔

اب یہ رابطہ ، کسی کاروبار کی وجہ سے کمزور پڑے تو اس کاروبار سے ہجرت کرنی چاہیئے۔

کسی شہر اور ملک کی وجہ سے کمزور پڑے تو اس شہر و ملک سے ہجرت کرنی چاہیئے۔

کسی شخص کی وجہ سے کمزور پڑے تو اس شخص سے ہجرت کرنی چاہیئے۔

اور کسی عمل کی وجہ سے کمزور پڑے تو اس عمل سے ہجرت کرنی چاہیئے۔

اللہ تعالیٰ پر توکل و اعتماد :

چونکہ فریضہ حج انجام دینے کے لئے انسان کو ہجرت کرنی پڑتی ہے اور اپنے گہربار ، کاروبار ، جاگیر و جائیداد ، فیملی خاندان سبھی کو چھوڑنا پڑتا ہے ، تو حاجی کو چاھئے کہ ان سب کو اپنے اللہ پر توکل کرتے ھوئے چھوڑے اور اللہ کو ان سب کا حافظ و محافظ قرار دے چونکہ "فاللہ خیر حافظا وھو ارحم الراحمین" (11)

یعنی حج کے لئے ھجرت خود بخود انسان کو اللہ پر توکل کرنے کی طرف متوجہ کرتی ہے۔

اور اللہ کی ذات اقدس پر توکل بہت بڑی اور عظیم نعمت ہے، توکل کا مطلب ہےاللہ تعالی کی ذات اقدس پر اعتماد اور بھروسہ کرنا ، لیکن اللہ تعالی کی ذات پر مکمل اعتماد اور بھروسہ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہےبلکہ اس کےلئے دل میں پختہ ایمان ھونا ضروری ہے۔

ظاھر ہےجسے اللہ تعالی کی معرفت نہیں ھوگی جسے اس کی ذات پر ایمان نہیں ھوگا وہ اللہ پر مکمل توکل اور بھروسہ نہیں کرسکتا۔

یعنی توکل وہ عظیم نعمت و دولت ہےجو بے ایمانوں کو نصیب نہیں ہوتی بلکہ فقط ایمان داروں کو عطا کی جاتی ہےشاید اسی لئے قرآن حکیم میں ارشاد ھواہے" و علی اللہ فلیتوکل المومنون " (12) اللہ پرتو اھل ایمان ھی توکل کرتے ہیں۔

اور جب اللہ تعالی کی ذات اقدس پر یقین و ایمان رکھنے والے بندے توکل اور مکمل بھروسہ کرتے ہیں تو ان سے اللہ تعالی قرآن حکیم میں کھل کر اپنی محبت کا یوں اعلان فرماتا ہے:

ان اللہ یحب المتوکلین (13)

توکل کی برکتیں اور فائدے :

۱۔ توکل سے انسان کے عزم ، ارادہ اور ھمت کو قوت حاصل ہوتی ہے۔

۲۔توکل سے اطمینان قلب حاصل ھوتا ہے۔

۳۔توکل سے اضطراب اور خوف و ھراس دور ھوجاتا ہے۔

۴۔توکل سے اللہ کی محبت حاصل ہوتی ہے۔

قرآن اور کعبہ محترم :

قرآن حکیم کے سورہ حج میں خداوند سبحان نے کعبہ ، معمار کعبہ اور بیت اللہ کا طواف کرنے اور اس میں نماز پڑھنے اور رکوع و سجود بجا لانے والوں کا ذکر اس طرح فرمایا ہے:

و اذ بَوٌانا لٍابراھیمَ مکانَ البیتٍ اَن لا تٌشرکْ بی شیئاً و طھٌر بیتٍیَ للطائفین والقائمین والرکعٍ السجود۔(14)

سورہ حج ، پارہ ۱۷ آیت ۲۶۔

ترجمہ :

یاد کریں اس وقت کو جب بیت کعبہ کی جگہ ھم نے ابراھیم کے لئے آمادہ کردی تو ان سے کہا کہ کسی کو میرا شریک قرار نہ دو اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں کے لئے ، قیام کرنے والوں کے لئے ، رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لئے پاک رکہیں۔

پیغامات :

اس آیہ مبارکہ سے ھم حسب ذیل پیغامات حاصل کر سکتے ہیں :

۱۔ اہم باتوں کو یاد دلانا ، اللہ تعالی اور قرآن حکیم کی سنت ہےلھذا ھمیں بھی اللہ و قرآن کی اس سنت پر عمل کرتے ھوئے اہم چیزوں کو خود بھی یاد رکھنا چاھیئے اور دوسروں کو بھی یاد دلانا چاھیئے۔

۲ ۔ کعبہ مقدس اور حضرت ابراھیم علیہ السلام دونوں کو یاد رکھاجائے۔

یعنی اھل اسلام و ایمان کو عمارت کے ساتھ ساتھ معمار کی بھی حرمت و قدر کرنی چاہیئے ۔

۳۔ مقدس مقامات کو مقدس لوگوں کے ہاتھوں میں ھونا چاہیئے۔ ایسا نہ ھو کہ مسجد متولی پیسی۰

۴۔ ان لا تشرک بی شیئا ، پہلے طھارت باطنی کی حفاظت کی جائے اس کے بعد طھارت ظاھری کا لحاظ کیا جائے۔

۵۔ اللہ کے گھر کی طھارت و قداست ، پاسداری اور اس کی خدمت کی ذمہ داری ، حضرت ابراھیم علیہ السلام کا اعزاز و افتخار ہےلھذا ھمیں بھی یہ کام عزت و شرف سمجھ کر کرنا چاھیئے۔

۶۔ طھر بیتی للطائفین والقائمین ، تنہا خود عبادت کرنا کافی نہیں ہےبلکہ دوسروں کے لئے عبادت کرنے کا انتظام و اھتمام بھی کرنا چاھئے۔

۷۔ طھربیتی ، مقدس مقامات کو ھمیشہ پاک رکھنا چاھیئے۔

۸۔ طھر بیتیَ ، ہرمسجد اللہ کا گھر ہےلیکن کعبہ کی خصوصیت یہ ہےاللہ نے اسے اپنا گھر کہکر یاد کیا ہے۔

یہ کعبہ سے اللہ کی محبت کی دلیل ہےکعبہ اللہ کو بہت محبوب ہےلھذا اللہ کا بندہ ھونے کے ناطے ھمیں بھی کعبہ سے بہت محبت کرنی چاھیئے۔

۹ ۔مسجد الحرام کا حق ، طواف ، نماز اور قیام ہےالبتہ طواف کرنا کعبہ اور مسجدالحرام کا خصوصی حق ہےلیکن قیام و نماز برپا کرنا دنیا کی ہرمسجد کا حق ہےجسے ہرمسلمان کو ادا کرنا چاہیئے ورنہ مسجدیں بارگاہ خداوندی میں شکایت کریں گی۔

حج کے شرائط :

حج بہت بڑی اور عظیم عبادت ہے، اسے بجالانا آدمی کی زندگی بدل دیتا ہے، حج کرنے سے آدمی کے وارے نیارے ھوجاتے ہیں۔

حج انسان کو نہایت پاک و پاکیزہ اور اللہ عزوجل کا محبوب و مقرب بنا دیتا ہے۔

لیکن شرط یہ ہےاس سفر و عبادت میں تین اہم چیزوں کا لحاظ رکھا جائے :

۱-حج مکمل خلوص کے ساتھ ھو۔

خلوص کیا ہے:

اس کی وضاحت سرکار امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

خالص عمل وہ ہےجس پر تم اللہ کے علاوہ کسی سے بھی تعریف نہ چاھو۔ (15)

حضرت امام صادق علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا ہے:

الحج حجان : حج للہ و حج للناس ، فمن حج للہ کان ثوابہ علی اللہ الجنۃ ، و من حج للناس کان ثوابہ علی الناس یوم القیامۃ (16)

حج دو طرح کا ھو تا ہے:

ایک اللہ تعالیٰ کے لئے اور ایک لوگوں کے لئے۔

پس جو اللہ کے لئے حج کرے گا ، اس کا ثواب بمشکل جنت اللہ کے ذمہ ھو گا اور جو لوگوں کے لئے حج کرے گا اس کا ثواب روز قیامت لوگوں کے سر ھوگا۔

اخلاص کے ساتھ حج کرنے کی قدر ومنزلت کیا ہے، اسے سرکار امام زین العابدین علیہ الصلوۃ والسلام نے یوں ارشاد فرماتے ہیں:

من حَجٌَ یرید بہ وجہَ اللہ لایرید ریاءً ولا سمعۃً غفر اللہ لہ البتہ۔۔(17)

جو حج کو اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے بجا لائے اور اس کے ذریعہ ریاکاری اور شہرت نہ چاہے، اللہ یقیناً اس کی مغفرت فرمائے گا۔

۲۔ حج حلال اور پاک مال سے ادا کیا جائے۔

حضرت امام باقر علیہ السلام کا ارشاد مبارک ہے:

لایقبل اللہ حجا ولاعمرۃ من مال حرام۔(18)

یعنی اللہ اس حج اور عمرہ کو قبول نہیں فرمایا جو مال حرام سے کیا جائے۔

۳۔ حاجی ، حج پہ جانے سے پہلے اپنے ہرگناہ سے توبہ و استغفار کرے۔

گناہ دوقسم کے ھوتے ہیں :

۱۔ ایک وہ جن کےلئے فقط اللہ تعالی سے معافی و بخشش ھی سے طلب کی جاسکتی ہےاور اس کے علاوہ کچھ نہیں کیا جاسکتا۔

۲۔دوسرے گناہ وہ جن کےلئے استغفار بھی کیا جاسکتا ہےاوران کا تدارک بھی ممکن ہے۔

جیسے اگر کسی نے نمازیں قضا کی ھوں تو اللہ سے معافی بھی مانگے اور ضروری ہےکہ حتی المقدور انہیں ادا بھی کرے ، خمس نہ دیاھو تو اللہ سے معافی بھی مانگے اور اسے ادا بھی کرے ، اسی طرح کسی مومن کا حق دبایا ھو، غیبت کی ھو ، اسے ستایا ھو توحج پر جانے سے پہلے اس سے معافی مانگے اور اسے خوش کرنے کی کوشش کرے۔

اگر ایسا نہ کرے گا تو ممکن ہےحج ھزار زحمتوں اور محنتوں کے باوجود قبول نہ ھو۔

علی ابن یقطین اور ابراھیم جمال کا واقعہ :

علی ابن یقطین اور ابراھیم دونوں شیعہ اور عبد صالح سرکار امام کاظم علیہ الصلوۃ والسلام کے عقیدت مند تھے۔

علی ابن یقطین عہدہ و منصب کے لحاظ سے ھارون رشید کے وزیر اعظم تہےاور انھوں نے عباسی دربار کی ملازمت ، حضرت امام کاظم علیہ الصلوۃ والسلام کے اذن و حکم ھی سے قبول کی تھی۔

ایک دن کوفہ سے ابراھیم جمال کسی کام سے علی ابن یقطین سے ملنے ان کے گھر پہنچے تو ابن یقطین نے ملاقات سے انکار کردیا۔

کچھ دن بعد جب ابن یقطین حج بیت اللہ سے مشرف ھوئے تو غنیمت سمجھا کہ مدینہ پہنچ کر اپنے مولا و اما م حجت خداوند متعال ، فرزند رسول حضرت امام کاظم علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت کا شرف بھی حاصل کریں۔

وہ بصد اشتیاق مولا کے شریعت کدہ پر پہنچے تو حضرت نے ملنے سے انکار کردیا ، دوسرے دن پھر در دولت پہ پہنچے ، جیسے ھی مولا کو دیکھا ، سوال کیا مکرے مولا : میرا گناہ کیا ہے؟ کہ آپ نے مجہےاذن زیارت مرحمت نہیں فرمایا؟

آپ نے فرمایا : تم نے اپنے بھائی ابراھیم جمال سے ملاقات نہیں کی تھی !!

خداوند متعال اس وقت تیرے اعمال کو قبول نہیں فرمائے گا جب تک ابراھیم معاف نہیں کریں گے۔

ابن یقطین نے عرض کی : اے میرے سید و آقا ! میں ابراھیم سے کیسے معذرت کروں جبکہ وہ کوفہ میں اور میں مدینہ میں ھوں؟

آپ نے فرمایا: جب رات ھو جائے تو اکیلے ، کسی کو بتائے بغیر بقیع میں جانا وہاں ایک تیار شدہ اونٹ تمہیں ملے گا ، اس پر سوار ھو کر کوفہ چلے جانا۔

ابن یقطین رات کے وقت بقیع پہنچے تو سواری تیار تھی اس پر سوار ھوئے اور چشم زدن میں کوفہ ابراھیم کے گھر پہنچ گئے ، اونٹ کو بٹھایا اور ان کے دروازہ کو کھٹکھٹایا ، ابراھیم نے پوچھا کون ہے؟

انھوں نے جواب دیا : میں علی ابن یقطین ھوں۔

ابراھیم نے کہا : علی ابن یقطین کا میرے دروازہ پر کیا کام؟

ابن یقطین نے کہا : باھر آؤ کہ ایک عظیم امر در پیش ہےاور انہیں قسم دی کہ اذن دخول عطاکریں۔

جیسے ھی داخل ھوئے ، اپنا واقعہ بیان کیا اور ان سے معافی طلب کی ، ابراھیم نے کہا : اللہ تمہیں بخشے۔

پس ابن یقطین زمین پہ لیٹے اور ابراھیم سے کہا کہ میرے چہرے کو اپنے پاؤں سے روندے ڈالو ، ابراھیم نے انکار کیا تو ابن یقطین نے انہیں ایسا کرنے کی قسم دی اور ابراھیم کو یہ کام کرنا پڑا ، جب ابراھیم یہ کام کر رہےتہےتو ابن یقطین بار بار یہ کہہ تہےتہےاے اللہ گواہ رہنا ، اے اللہ گواہ رہنا۔

ابراھیم کو راضی کرکے ابن یقطین اسی رات مدینہ لوٹ آئے اور مولا کی خدمت میں حاضر ھوئے تو مولا نے ان کی حاضری قبول فرمائی۔ (19)

جب ھم اس واقعہ کی کڑیوں پر غور کرتے ہیں تو ھمیں حسب ذیل پیغامات حاصل ھوتے ہیں :

۱۔ ہمارا ہرامام ، خداداد علم کا حامل ھوتا ہےاس لئے ھمارے تمام اعمال و افعال اس کے زیر نظر ھوتے ہیں ، لہذا ھمیں خلاف دین و شریعت کوئی عمل نہیں کرنا چاھیئے۔

۲۔ گناہ ، گناہ ہےچاہےوزیر اعظم ھی سے کیوں نہ سرزد ھو ، لہذا ھمیں بڑے لوگوں کے گناہوں کو چھوٹا اور چھوٹے لوگوں کے گناھوں کو بڑا کرکے دکھانے کی کوشش نہیں کرنی چاھیئے۔

۳۔ امام اپنے شیعوں کے گناہوں سے چشم پوشی نہیں فرماتے بلکہ ان کے سلسلہ میں زیادہ حساس ھوتے ہیں چونکہ شیعہ کے معنیٰ مطیع و فرمانبردار کے ہیں نہ معصیت کار و گناھگار کے۔

۴۔ ایک شیعہ کا دوسرے شیعہ کے دل کو توڑنا یا دکھانا ، ایسا سنگین گناہ ہےکہ حج جیسے نیک عمل پر بھی پانی پھیر سکتا ہے۔

۵۔ شیعیت ، ایسا دینی و ایمانی قوی سسٹم ہےجو ھم سب کو ھزار مادی اختلافات کے باوجود اخوت و برادری کے رشتہ میں اس طرح جوڑ دیتا ہےوہ وقت کے وزیر اعظم کو ایک جمال ( اونٹوں کے رکھوالے ) کے دروازہ پر لاکر کھڑا کر دیتا ہے، ۶۔ ابن یقطین کا لمحوں میں مدینہ سے کوفہ پہنچنا اور اسی طرح پھر وہاں سے مدینہ پلٹنا دلیل ہےکہ ائمہ طاھرین ، اللہ تعالیٰ کے اذن سے تمام عالم ھستی پر حق تصرف رکھتے ہیں۔

۷۔ اگر گناہوں کا واقعی احساس ھو جائے تو پھر انسان مادی و ظاہری عہدہ و منصب کو نہیں ، اپنی طہارت و نجات کو اہم سمجھتا ہے۔

۸۔ھم مومنین کے حقوق ضائع کرکے ، امام سے قریب نہیں ھو سکتے ۔

۹۔ اگر اھل ایمان پر زیادتی کی ہےتو صرف استغفار کرنا ، کافی نہیں بلکہ ان سے معافی مانگنا اور انہیں راضی کرنا بھی ضروری ہے۔

۱۰۔ گناہ ، ظلم ہے، اھل بیت ظلم و ظالم کی نہیں بلکہ مظلوم کی نصرت و حمایت کرتے ہیں۔

۱۱۔گنہگار شیعہ ، اگر نادم ھو جائے اور ضائع شدہ حق مومن کا تدارک کرنا چاہےتو اھل بیت اس کی مدد اور نصرت سے بھی گریز نہیں فرماتے۔

۱۲۔ بے شک اھل بیت ہرقسم کے رجس و آلودگی سے پاک و منزہ ہیں ، پس اگر ھم واقعاً ان کا تقرب چاھتے ہیں تو ھمیں ہرگناہ و آلودگی سے بچنا چاھیے اور خدانخواستہ اگر آلودہ ھو گئے ہیں تو ابن یقطین کی طرح اس آلودگی کو دور کرنا چاھیئے۔

سفرحج کے آداب :

حج کا سفر نہایت مبارک سفر ھوتا ہے، یہ سفر ظلمت سے نور کی طرف ھوتا ہے، اضطراب سے سکون و اطمینان کی طرف ھوتا ہے، اپنے گھر سے اللہ کے گھر کی طرف ھوتا ہےاور درحقیقت مادیت سے للہیت و معنویت کی طرف ھوتا ہے۔

لھذا اسمیں دین کے معین کردہ آداب و اقدار کا بہت لحاط رکھنا چاھیئے جن میں سے کچھ یہ ہیں:

۱۔ اس سفر کو خالص اللہ کے لئے انجام دے اور اپنے اوپر اللہ ، رسول ، اھلبیت کے عشق و محبت کو طاری رکھے۔

۲۔ اس سفر میں جو بھی عمل انجام دے اللہ ، رسول اور دین کے مطابق انجام دے۔

۳۔ اس سفر کو للھیت و معنویت کی خوشبو سے معطر رکہےاور ایک لمحہ کے لئے بھی اسے مادیت کی بدبو سے آلودہ نہ ھونے دے۔

۴۔ تنہا سفر کرنا مکروہ ہےاس لئے اس سفر میں بھی رفیق سفر تلاش کرے۔

۵۔ رفیق سفر کو متدین ، خوش اخلاق اور صابر و متحمل اور عقیل و فہیم ھونا چاھیئے۔

۶۔ جو بھی سفر میں رفیقان سفر کا زیادہ خیال رکہےگا ، ان کے ساتھ زیادہ نرمی و خوش اخلاقی سے پیش آئے گا اللہ تعالی کے نزدیک اس کا اجر زیادہ ھوگا۔

۷۔ سفر سے پہلے حاجی کو دورکعت نمازپڑھنی چاھیئے اور اپنے کو اور اپنے اھل و عیال ، عافیت اور دنیا و آخرت کو اللہ تعالی کے سپرد کرنا چاھیئے۔

سرکار رسالتمآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں جو ایسا کرے گا اللہ تعالی اس کی حاجت پوری فرمائے گا ۔ (20)

۸۔ دوران سفر اپنے ساتھیوں کی زیادہ سے زیادہ خدمت کرنے کی کوشش کرنی چاہئے چونکہ روایت میں آیا ہے" سید القوم خادمھم فی السفر "(21)

۹۔ حدیث میں آیا ہےکہ سرکار رسالتمآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں ایک شخص ذکر کیا گیا کہ وہ اچھا ہےاور یہ کہا گیا : یارسول اللہ وہ ھمارے ساتھ حج کے سفر میں تھا ، جہاں بھی ھم لوگ اترتے تہےوہ مسلسل نماز پڑھتا رھتا تھا یہان تک کہ ھم پھر سفر شروع کر دیتے تہے، اثناء سفر میں بھی وہ قرآن پڑھتا رھتا یا ذکرخدا کرتا رھتا تھا ، یہاں تک کہ ھم پھر رک کر پڑاؤ ڈال دیتے تھے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سوال فرمایا :

پس کون اس کے اونٹ کو گھاس کھلاتا اور کون اس کے کھانے کا انتظام کرتا تھا؟

انھوں نے عرض کی : ھم سب ، تو آپ نے فرمایا : تم سب اس سے بہتر ھو۔(22)

۱۰۔ امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں ایک حاجی آیا اور کہنے لگا کہ ھم جیسے ھی مکہ مکرمہ پہنچے ، میرے ساتھی طواف بیت اللہ الحرام کرنے چلے گئے اور مجہےسامان کی رکھوالی کے لئے چھوڑ گئے آپ نے اس کی یہ بات سن کر فرمایا : انت اعظھم اجرا۔ (23)

تمہارا آجر ان سب سے عظیم ہے۔

۱۱۔ دو دوست مدینہ منورہ گئے ایک بیمار پڑگیا دوسرا اسے چھوڑ کر مسجد میں نماز و زیارت کے لئے چلا گیا اس بیمار نے سفر سے لوٹ کر اپنے اس دوست کی شکایت اس کے والد سے کی۔

وہ اپنے باپ سے یہ شکایت سن کر مولا امام صادق علیہ السلام کی خدمت آیا اور واقعہ بیان کیا تو آپ نے اس سے فرمایا :

قعودک عندہ افضل من صلاتک فی المسجد۔(24)

تیرا اس بیمار دوست کے پاس بیٹھنا ، مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل و برتر تھا۔

۱۲۔اس سے پتہ چلتا ہےحج و زیارت انسان کی الھی ، دینی و انسانی تربیت کا ایک عظیم اھتمام و انتظام ہے۔

لھذا اس کے تمام تعلیمات اور مناسک و اعمال پر گہرائی کے ساتھ نظر کرنی چاھیئے اور پوری معرفت کے ساتھ حج کرنا چاھیئے اور حج کے ذریعہ ھمارا اللہ ھماری جیسی تربیت کرنا چاھتا ، ھمیں اس طرح اپنے نفس کو تربیت دینی چاہیے ۔

حج ، حق خداوند متعال :

حج ، بندوں کے اوپر اللہ تعالیٰ کا ایک حق ہےجس کا وجوب قرآن حکیم کے سورہ آل عمران کی آیت ۹۷ سے ثابت ہے، اس آیہ مبارکہ میں ارشاد ھوا ہے:

" وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلاً و من کفر فان اللہ غنی عن العالمین "

اللہ کی خاطر بندوں پر واجب ہےکہ اس کے گھر کا قصد و ارادہ کریں (البتہ) وہ لوگ جو اس راستہ کی توانائی رکھتے ہیں۔

اور جو نافرمانی کرے (استطاعت ھوتے ھوئے حج کو نہ جائے جان لے کہ) بیشک اللہ تمام عالمین سے بے نیاز ہے۔

حدیث میں آیا ہےجو استطاعت کے ھوتے ھوئے حج نہ کرے وہ یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ محشور ھوگا۔

پیغام :

حج ، اللہ کا وہ عظیم حق ہےکہ مستطیع ھونے کے بعد جسے ترک کرنا ، مسلمان کو اسلام سے خارج کرکے یہودیت و عیسائیت کی صف میں پہنچا دیتا ہےیعنی ھدایت و نجات سے محروم کردیتا ہے۔

میقات :

1- ابھی حاجی کئی کیلومیٹر مکہ معظمہ ، بیت اللہ الحرام اور مرکز عشق و مودت سے دور ہےاور حکم ھوتا ہےکہ اتر جاؤ ، نیچے آجاؤ سواریوں سے ، پیادہ ھوجاؤ اور ظاھری اعتبار سے بھی اپنے کو بدل ڈالو ، اتاردو اپنے زرق و برق لباس کو ، اتار دو اپنے جبہ و دستار کو

، گویا " فاخلع نعلیک " پر پوری طرح سے عمل کرو جبکہ ابھی وادئ مقدس کافی دور ہےجانتے ھو یہ کونسی جگہ ہے؟

اسے " میقات" کہتے ہیں ۔

2- میقات کسے کہتے ہیں اس کی تعریف کیا ہے؟

اھل مکہ کے علاوہ ساری دنیا سے جو لوگ حج یاعمرہ کرنے آتے ہیں انہیں اس کے لئے کچھ معین اور خاص مقامات سے احرام باندھنا پڑتا ہےانہیں مقامات کو میقات کہتے ہیں اور میقات کی جمع مواقیت ہے۔

گویا میقات سے اعمال حج کی شروعات ہوتی ہےیہاں حج و عمرہ کے لئے احرام باندھا جاتا ہے۔

3- احرام کیا ہے؟

یعنی اپنے من پسند لباس کو اتار دینا اور الھی و دینی لباس پہننا۔

احرام یعنی مردوں کو ایک لنگی اور ایک ردا پہننا جو سلی ھوئی نہ ھوں ، نقش دار نہ ھوں اور رنگ برنگی نہ ھوں بلکہ سفید ھوں۔

حاجی کو احرام سے پہلے ناخن ، بغل اور زیرناف بالوں کو نورہ سے صاف کرلینا چاھیئے اور قربت کی نیت سے احرام باندھنا چاہیئے اور اس کے بعد غسل کرنا چاھیئے۔

احرام کے کچھ محرمات اور ان کے پیغامات :

۱۔ ھرقسم کے عطر و خوشبو کا استعمال حرام ہے۔

پیغام :

حج میں انسان کو اسلام ، ایمان ، یقین ، رضا و تسلیم ، عشق خداوند متعال اور مودت اھل بیت طاھرین کے عطر سے پوری معطر ھونا چاھیئے حاجی اگر اس عطر میں ھوجائے تو پھر کسی عطر و خوشبو کی ضرورت نہیں رھتی۔

۲۔ معطر لباس پہننا بھی حرام ہےچاہےوہ پہلے سے معطر ھو۔

پیغام :

لباس تقوی پہننے کے بعد کسی معطر لباس کی ضرورت نہیں ہے۔

۳۔ آئینہ دیکھنا حرام ہے۔

پیغام :

اللہ کے گھر جاکر اور اس کا مہمان بن کر فقط الہی و دینی آئینہ میں اپنی تصویر دیکھنی چاھیئے ، اور ہمیشہ اسی آئینہ میں اپنی حقیقت دیکھنے کا عادی بن جانا چاھیئے۔

۴۔ سلا ھوا کپڑا پہننا حرام ہے۔

پیغام :

کفن کی طرح بغیر سلا اور سفید لباس پہننا ہےتاکہ اللہ سے ملاقات اور موت کا منظر ھمہ وقت نگاھوں کے سامنے رھے۔

۶۔ سرمہ لگانا۔

پیغام :

حاجی کو اللہ کے گھر کے گرد و غبار کو اپنا سرمہ چشم بنا لیناچاھیئے ،

اور پھر یہ کہ انسان سرمہ جمال و خوبصورتی کے لئے استعمال کرتا ہےپس جو آنکہیں سرزمین وحی اور کعبہ مقدس کے جمال زیارت سے منور اور حسین و جمیل ھو جائیں تو انہیں پھر مادی سرمہ کی ضرورت کہاں رہ جاتی ہے۔

طواف اور اس کے آداب :

مناسک و اعمال حج میں ایک اہم عمل طواف ہے۔طواف یعنی اللہ تعالی کے مقدس گھر کعبہ کے اردگرد سات مرتبہ گھومنا اور چکر لگانا۔

اس کا پیغام یہ ہےکہ :

1- کعبہ شمع اسلام اور یادگار معشوق ہےلھذا ہرمسلمان اور عبدٍ عاشق کو اس کے اردگرد پروانہ وار گھومنا چاھیئے اور یہ عمل معرفت اور عشق الھی میں ڈوب کر انجام دینا چاھئے۔

2- طواف کرتے وقت دعا کرنی چاھئے کہ اے اللہ مجہےتوفیق دے کہ ساری زندگی تیرے دین کے اردگرد گھومتا رھوں۔

3- طواف کے شرایط میں سے ایک شرط یہ ہےکہ حجراسود سے شروع کرے اور اسی پر ختم کرے۔

اس سے یہ پیغام حاصل کرنا چاھیئے کہ اللہ ھماری ابتداء و انتہا تیری ذات اقدس ہے، لھذا جس طرح تونے ھماری ابتدا اپنے دین اسلام پر قرار دی ہےاسی طرح ھماری انتہا یعنی موت بھی اسلام پر قرار دینا۔

4- ھمیں کسی بھی حالت میں شرق و غرب کے چکر نہیں لگانے چاھئے بلکہ مادی و معنوی دونوں قسم کے امور کی اصلاح کے لئے اللہ کے گھر کعبہ یا مسجد کے چکر لگانے چاھیئیں۔

5- طواف اس طرح کرنا ہےکہ حاجی کی بائیں طرف کعبہ مقدس کی طرف ھو ، اس اصل فلسفہ تو اللہ ، رسول اور اھل بیت ھی جانتے ہیں۔

لیکن اس سے یہ پیغام لیا جاسکتا ہےکہ انسان کا قلب و دل بائیں طرف ھوتا ہےگویا اسے کعبہ سے قریب کرکے خود اس کے سپرد کرنا ہےتاکہ اس میں اسلام و ایمان گھر کرلے اور کبھی بھی اس کے اندر کفر ، شرک اور نفاق داخل نہ ھونے پائے۔

منیٰ میں قربانی کامقصد اور پیغام :

حاجی منیٰ میں پہلا عمل جو بجا لاتا ہےاس کا نام " رمئ جمرات " ہےاور اس کے بعد منیٰ کا دوسرا عمل " قربانی " ہے۔

چونکہ " قربانی " کا عمل شیطان کے پتھر مارنے گویا اسے اپنے سے دور کرنے کے بعد انجام دیا جاتا ہے، اس لئے اس سے یہ پیغام ملتا ہےکہ دین و مذھب یا اللہ تعالی کے بندوں کےلئے اگر انسان قربانی دینا چاھتا ہےتو وہ شیطان سے دور ھونے کے بعد ھی دے سکتا ہے۔

یعنی ایثار و قربانی دینے کے لئے شیطان کو اپنے سے دور کرنا اور اسے پسپا کرنا بہت ضروری ہے۔

قربانی ، مالی ھو جانی دونوں کے لئے اپنی ھوائے نفس کو کچلنے کے ساتھ ساتھ شیطان کے وسوسوں کو کچلنا ضروری ھوتا ہے۔

منیٰ میں قربانی کرنے کی کچھ حکمتیں ہیں۔

۱۔ یہ حکم خداوند متعال کی اطاعت ہےاور عبودیت و بندگی کا اظہار ہے۔

۲۔ یہ حضرت ابراھیم و اسماعیل علیھما الصلوۃ والسلام کے جذبہ خلوص و للہیت کو خراج عقیدت پیش کرنا ہے۔

۳۔اور ان کے اس بیمثال و گرانقدر جذبہ عشق و للہیت سے اپنے عشق وخلوص میں اضافہ کرنا ہےاور اس میں ترقی لانا ہے۔

۴۔ اس قربانی کے ذریعہ قربانئ ابراھیم و اسماعیل کوذھن میں لاکر متوجہ ھونا کہ اللہ تعالی کا حکم ، اسکا فرمان اور اس کی رضا اتنی اہم ہےکہ اس کی خاطر جان ، مال ، آل ، اولاد اور عزت و آبرو سب کچھ قربان کیا جاسکتا ہے۔

۵۔ اس قربانی سے ھمیں اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنا ہے۔

۶۔ اس قربانی سے یہ درس لینا ہےکہ جو جتنا اللہ تعالی کا مطیع و فرمانبردار ھوتا ہےاسی اعتبار سے اس کی اللہ تعالی کی طرف سے آزمائش ہوتی ہےاور اسی اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اس کی عظمت و اہمیت ہوتی ہے۔

۷۔ منیٰ میں جو جانور قربانی کے لئے لے جاتا ہےوہ خود ، اس کا خون اور اس کاگوشت و پوست سب اللہ تعالی کی نظر میں محترم ھوجاتا ہے۔ یہ ھمارے لئے سوچنے کامقام ہےکہ جب ایک جانور اللہ کی راہ میں قربان ھونے کی وجہ سے اتنا محترم ھوجاتا ہےتو پھر انسان اگر اس کی راہ میں قربان ھوجائے تو کتنا محترم ھوگا۔

۸۔ سرکار امام صادق علیہ الصلوۃ والسلام ارشاد فرماتے ہیں :

«و اذبح حنجرتی الهوی والطمع عند الذبیحة» (25)

یعنی قربانگاہ منیٰ میں جب قربانی کے جانور کو ذبح کرو تو اپنی ھواھوس اور طمع وحرص کے گلے پر بھی خنجر چلا ڈالو۔

۹۔منیٰ میں یہ قربانی دو صورتیں رکھتی ہے:

پہلی صورت ظاھری ہےاس میں ھم اللہ تعالی کی رضا کی خاطر ایک حیوان کو ذبح کرتے ہیں۔

دوسری صورت باطنی ہے۔

جسمیں ھمیں اس حیوان کی طرح اپنے اندر چھپے ھوئے حیوان اور جانور کو قتل کردینا چاھیئے۔

حلق و تقصیر :

عادت ایک ایسی شے ہےجسے ترک کرنا بہت دشوار اور مشکل ھوتا ہے، عادت کو ترک کرنا کتنا دشوار اور مشکل ھوتا ہےاسے سرکار امام حسن عسکری علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے اس ارشاد میں بیان فرمایا ہے:

ردالمعتاد عن عادتہ کالمعجز۔ (26)

اھل عادت کا ، اپنی عادت کو چھوڑ دینا ، معجزہ کے مانند ہے۔

اور یہ معجزہ ھمیں موسم حج میں قدم قدم پر دیکھنے کو ملتا ہے، حج بیت الحرام میں یہ معجزہ مردوں سے بھی ظاھر ھوتا ہے، عورتوں سے بھی ظاھر ھوتا ، بوڑھوں سے بھی ظاھر ھوتا ہےاور لحیم شہیم جوانوں اور نوجوانوں سے بھی ظاھر ھوتا ہے۔

وہ جیسے ھی اپنے اپنے میقات تک پہچتے ہیں اپنے من پسند شاندار اور خوبصورت کپڑوں کو اتار کر ایک طرف رکھ دیتے ہیں اور اپنی پسند اور ھواھوس کے گلے پر پاؤں رکھکر بالکل سادہ البتہ صاف ستھرا سفید الھی و دینی لباس زیب تن کرلیتے ہیں۔

یہ لباس ، موت اور آخرت کی یاد دلانے کے ساتھ ھرحاجی اور دیکھنے والے کو اپنے دامن کردار سے گنا ھوں کے داغوں کو آب خلوص ، آب توبہ اور اشک استغفار سے دھونے اور اسے لباس احرام کی طرح بالکل صاف ستھرا بنانے کی دعوت دیتا ہے۔

اللہ اکبر ، جب کہ لباس انسان کے لئے بہت زیادہ اہم ہے، ھم نے دیکھا ہےاگر انسان کو اسکا من پسند لباس فراہم نہیں ھوتا تو وہ بہت پروگرامس میں شرکت نہیں کرتا ، بہت سی شادیوں میں جانا کینسل کردیتا ہے۔

لیکن یہی انسان جب حج پہ جاتا ہےتو اللہ تعالی کی خاطر بالکل سادہ بلکہ زندگی میں کفن پہننے پہ تیار ھوجاتا ہے، گویا کعبۃ اللہ کی زیارت کے لئے کفن پہن کر وہ عند اللہ جانے کی تیاری کا اعلان کرتا ہے۔

جبکہ بعض معاشروں میں سفید لباس بچوں اور نوجوانوں کا پہننا مرغوب نہیں سمجھا جاتا بلکہ اسے موت کو دعوت دینا خیال کیا جاتا ہے، لیکن لباس احرام پہن کر تمام حجاج بالخصوص نوجوان حاجی اس خرافات اور باطل فکر و رسم کے گلے پر بھی پاؤں رکھ کر اسے کچل ڈالتےہیں۔

اسی طرح " حلق" ہے۔

" حلق " کے معنیٰ سر تراشنے کے ہیں ، جو پہلی بار حج واجب کے لئے جائے اس پر سرکا منڈانا واجب ہے۔ یہ سچ ہےکہ سر کے بال اکثر لوگوں کے لئے بڑی اہمیت کے حامل ھوتے ہیں۔ اور انہیں اپنی خوبصورتی

اور زینت کا راز سمجتہےہیں۔

حقیقت بھی یہی ہےکہ سر کے بال آدمی کو ظاھری جمال و زینت عطا کرتے ہیں اور واقعا اس کے قیافہ میں خوبصورتی پیدا کر دیتے ہیں۔

اسی لئے بعض لوگوں کو سر کے بالوں سے عشق کی حد تک محبت ہوتی ہے۔

دیکھا گیا ہےکہ بعض کالجوں ، مدرسوں یا ملازمتوں میں سر منڈانے یا بال چھوٹے رکھنے کی قید ہوتی ہےتو بالوں کے عاشق افراد ان کالجوں اور ملازمتوں کو جوائن نہیں کرتے یا جوائن کرنے کے بعد اپنے بالوں کو بحال رکھنے کی وجہ سے چھوڑ دیتے ہیں۔

یعنی بعض افراد اس حد تک بالوں سے وابستہ ھوجاتے ہیں کہ بعض اوقات اس طرح کی وابستگیاں خطرناک ثابت ہوتی ہیں اور کبھی کبھی دین و ایمان کو بھی واقعاً خطرہ میں ڈال دیتی ہے ۔

حلق اور عرب سماج :

عرب سماج میں سر کا منڈا ھونا غلامی کی علامت سمجھا جاتا تھا ، عام طور سے رواج تھا کہ عرب اپنے غلاموں کو سر منڈا رکھتے تہےگویا اس سے آقا و غلام ، آزاد و بندہ مخدوم و خادم اور مطاع و مطیع کے درمیان فرق حاصل ھو تا تھا۔

تاریخ بتاتی ہےکہ سقیفہ کے شوم و مبحوس حادثہ کے رونما ھونے کے بعد جب کچھ اصحاب رسول اور مولا علی کے طرفداروں نے آپ کو ظالم و غاصب حکومت کے خلاف قیام کی رائے دی اور اس سلسلہ میں اپنی حمایت اعلان کیا تو ان سے مولا نے یہی فرمایا تھا : اگر اس امر میں مصمم ھو تو فلاں روز فلاں ، فلاں وقت اور فلاں مقام پر سر منڈا کر حاضر ھونا۔

اس سے پتہ چلتا ہےکہ عرب میں سر کا منڈوانا کوئی آسان کام نہیں تھا لیکن ھم موسم حج میں دیکھتے ہیں کہ دنیا بھر کے مسلمان بصد خوشی و رغبت اپنے پروردگار کی خوشنودی کے لئے یہ کام انجام دینے کے لئے صف بصف کھڑے نظر آتے ہیں جو ان کے اللہ رب العزت کے سامنے سراپا تسلیم ھونے اور اس کی خاطر سب کچھ کر گزرنے کی واضح دلیل ہے۔

شائستہ ہےکہ ہرحاجی اسی روح تسلیم و اطاعت کو زندگی بھر اپنے اندر باقی رکہےاور اسے فقط موسم حج سے مخصوص نہ سمجھے۔

آخرکلام میں رب کریم سے دعا ہےکہ ھمیں جلد از جلد بامعرفت حج کرنے کی توفیق عطاکرتے ھوئے دنیا و آخرت میں اس کے فیوض و برکات سے بہرہ مند فرمائے۔

 

حوالے :

۱۔ المنجد ، ج ۱ ، کلمہ حج ، بی نا ، بی تا

۲۔ اصول کافی ، ترجمہ مصطفوی ، ج ۱ ، ص۵۴ ، بی نا، بی تا۔

۳۔ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، موسسه الوفاء، ج67، ص 211.

۴۔ خواجه نصیر الدین طوسی، آداب المتعلمین ، ترجمه: محسن احمدوند، قم، نهاوندی، چاپ دوم، 1385، ص 27

۵۔ آمدی ، عبد الواحد ، غرر الحکم و درر الکلم , جلد۱ , صفحه۲۵۳، بی نا ، بی تا۔

۶۔ قرآن حکیم ، سورہ انعام ، آیہ ۱۶۲

۷۔ قرآن حکیم، سورہ بقرہ ، آیہ ۱۵۶

۸۔ قرآن حکیم ، سورہ ق ، آیہ ۱۶

۹۔ قرآن حکیم ، سورہ بقرہ ، آیہ ۱۶۵

۱۰۔ قمی شیخ عباس ، سفینۃ البحار ،قم ، مکتبۃ السنائی ، مادہ ھجر، بی تا۔

۱۱۔ قرآن حکیم ، سورہ یوسف ، آیہ ۶۴۔

۱۲۔ " " ، سورہ ابراھیم ، آیہ ۱۲۔

۱۳۔ " " ، آل عمران ، آیہ ۱۵۹۔

۱۴۔ " " ، سورہ حج ، آیہ ۲۶

۱۵۔ عاملی ، حر ، وسائل الشیعہ ، ج ۱ ، ص ۶۰ ، بی نا، بی تا۔

۱۶۔ محمدی ، ری شہری ، میزان الحکمہ ، ج ۲ ، انواع الحج ، بی نا، بیتا۔

۱۷۔ احسائی ، ابن ابی جمہور ، عوالي اللئالي العزيزية في الأحاديث الدينية ،جلد۴، صفحه۳۰۔

۱۸۔مجلسی ، محمد باقر ، بحارالانوار ، ج ۹۶ ، ص ۱۲۰

۱۹۔ سید احمد مستنبط(ره) ، القطرہ ، جلد1، بخش امام موسی بن جعفر الکاظم(ع) ، صفحه 592۔

۲۰۔

۲۱۔ طبرسی ، حسن ابن فضل ، مکارم الأخلاق , جلد۱ , صفحه۲۵۱۔

۲۲۔

۲۳۔شھید مطہری ، مرتضیٰ ،داستان راستان ،ج ۱ ، ھمفسرحج ۔

۲۴۔ کلینی ، محمد ابن یعقوب ، فروع كافى، ج 4، ص 545

۲۵۔ مصباح اشریعه و مفتاح الحقیقه ، بیروت ، موسسه الاعلمی للمطبوعات ، ص ۴۹-

۲۶۔ ابن شعبہ حرانی ، تحف العقول ، ج ۱، ص ۴۸۹

۲۷.احمد ابن ابی یعقوب ، تاریخ یعقوبی، ج2، ص 126، بی نا ، بی تا۔

تحریر : ظہور مہدی مولائی

Read 794 times