حضرت امام محمد تقی(ع) شیعوں کے نویں امام ہیں آپؑ کی والدہ ماجدہ حضرت سبیکہ(س) اورآپؑ کے والد بزرگوار حضرت امام علی بن موسیٰ الرضا علیہ السلام ہیں آپؑ کی کنیت ابوجعفر ثانی اور مشہور القاب جواد، ابن الرضا اور تقیؑ ہیں۔
مؤرخین کے مطابق آپ کی ولادت باسعادت سنہ ۱۹۵ ہجری میں مدینہ منورہ میں ہوئی، لیکن آپؑ کی ولادت کے دن اور مہینے کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔
مورخین نے آپ (ع) کی تاریخ ولادت شب جمعہ 19 رمضان المبارک کی شب، بیان کی ہے اور بعض دوسروں نے لکھا ہے کہ امام (ع) پندرہ رمضان المبارک کو پیدا ہوئے. تا ہم شیخ طوسی کتاب "المصباح" میں لکھتے ہیں کہ حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کا یوم ولادت 10 رجب المرجب سنہ 195 ہجری ہے۔ (بحار الانوار، ج 50، ص 1 تا 14)
بابرکت مولود:
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی ولادت سے پہلے بعض واقفیہ یہ کہتے تھے کہ حضرت علی بن موسیٰ رضا (ع) کی نسل باقی نہیں رہے گی اور ان کے بعد ان کی نسل میں سلسلہ امامت منقطع ہو جائے گا۔ یہی سبب ہے جس وقت امام محمد تقیؑ کی ولادت ہوئی حضرت امام رضاؑ نے فرمایا: ’’ هذا المولود الذي لم يولد مولود أعظم بركة على شيعتنا منه‘‘(یہ وہ مولود ہے جس سے زیادہ بابرکت مولود ہمارے شیعوں کے لئے اب تک دنیا میں نہیں آیا)۔ (کلینی، الکافی، ج1 ص321)
ابن اسباط اور عباد بن اسمعیل نیز ابویحیٰ صنعانی کہتے ہیں:’’ إنا لعند الرضا عليه السلام بمنى إذ جبئ بأبي جعفر عليه السلام قلنا: هذا المولود المبارك ؟ قال: نعم، هذا المولود الذي لم يولد في الاسلام أعظم بركة منه ‘‘ ( ہم حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے ساتھ تھے جب ابو جعفر کو ان کے پاس لایا گیا۔ ہم نے عرض کیا: کیا وہ بابرکت مولود یہی ہے؟ فرمایا: ہاں! یہی وہ مولود ہے جس سے زيادہ برکت والا اسلام میں پیدا نہیں ہوا)۔ (مجلسی، بحار الانوار، ج50، ص20و23و35۔ شیخ مفید، الارشاد ص 279۔ کلینی رازی، الكافي ج1 ص321)
ازدواج اور اولاد:
امام جوادؑ کی شادی سنہ 215 میں مامون عباسی کی بیٹی ام فضل سے ہوئی یہ شادی مامون کی درخواست پر ہوئی اس شادی سے امامؑ کی کوئی اولاد نہیں ہوئی اور آپ کی تمام اولادیں آپؑ کی دوسری زوجہ مکرمہ سمانہ مغربیہ سے ہوئیں۔( قمی، منتہی الامال، ج2، ص235)
شیخ مفید علیہ الرحمہ کی روایت کے مطابق حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی اولاد کی تعداد چار ہیں جن کے نام امام علی نقیؑ، موسیٰ مبرقعؑ،فاطمہ اور امامہ ہیں۔( مفید، الارشاد، ج2، ص284)
امامت:
کم سنی میں امامت کے حوالے سے ہونے والے اعتراضات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وصال کے بعد سے پہلی مرتبہ اہل تشیع کو ایک نئے مسئلے کا سامنا تھا اور وہ مسئلہ کم سنی میں امام جواد علیہ السلام کی امامت کا مسئلہ تھا. کیونکہ امام رضا علیہ السلام کی شہادت کے وقت حضرت امام محمد تقی علیہ السلام سات برس کے تھے اور اسی عمر میں ہی مرتبہ امامت پر فائز ہوئے. چونکہ اس سے پہلے ائمہ طاہرین علیہم السلام کے بارے میں ایسا مسئلہ پیش نہیں آیا تھا لہذا امام جواد علیہ السلام نے خود ہی کئی مرتبہ اس شبہے کا ازالہ فرمایا. ابراہیم بن محمود کہتے ہیں: ’’میں خراسان میں امام رضا علیہ السلامی کی خدمت میں حاضر تھا. اسی وقت امام (ع) کے ایک صحابی نے سوال کیا: اگر آپ کو کوئی حادثہ پیش آئے تو ہم کس سے رجوع کریں؟امام علیہ السلام نے فرمایا: میرے بیٹے محمد سے.اس وقت امام علیہ السلام کی عمر بہت کم تھی اور امام علیہ السلام نے ممکنہ شبہے کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: خداوند متعال نے حضرت عیسی علیہ السلام کو میرے محمد (محمد تقی الجواد) کی موجودہ عمر سے بھی کم عمری میں نبی بنا کر بھیجا اور ان کو ایک نئی شریعت قائم کرنے کی ذمہ داری سونپ دی جبکہ میں اپنے بیٹے کو اسلام کی مستحکم شدہ شریعت کی برپائی اور حفاظت کے لئے متعارف کررہا ہوں. (بحارالانوار، ج 50، ص 34، ح 20.)
حضرت امام علی رضا علیہ السلام امام محمد تقی (ع) کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟
کلیم بن عمران کہتے ہیں: میں نے امام رضا علیہ السلام سے عرض کیا: اللہ تعالی سے التجا کریں کہ آپ کو اولاد نرینہ عطا فرمائے. امام علیہ السلام نے فرمایا: میری قسمت میں ایک ہی بیٹا ہے جو میرا وارث ہوگا.جب امام جواد علیہ السلام دنیا میں تشریف لائے تو امام رضا علیہ السلام نے اپنے اصحاب سے مخاطب ہوکر فرمایا: خداوند متعال نے مجھے ایسا فرزند عطا فرمایا ہے جو حضرت موسی علیہ السلام کی طرح دریاؤں کو شکافتہ کرنے والا ہے اور حضرت عیسی بن مریم کی طرح ہے جس کی ماں مقدس ہے اور پاک و طاہر متولد ہوا ہے۔ میرا یہ فرزند ناحق مارا جائے گا اور آسمان والے اس پر گریہ و بکاء کریں گے اور اللہ تعالی اس کے دشمن پر غضبناک ہوگا اور بہت تھوڑا عرصہ بعد اس کو دردناک عذاب سے دوچار فرمائے گا. (بحار الانوار، ج 50، ص 15، ح 19)
کرامات:
صاحب تفسیرعلامہ حسین واعظ کاشفی کا بیان ہے کہ حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی کرامات بے شمارہیں (روضة الشہدا ص ۴۳۸) میں بعض کا تذکرہ مختلف کتب سے کرتا ہوں ۔
۱ ۔ ایک شخص نے آپ کی خدمت میں حاضرہو کرعرض کیا کہ ایک مسماة (ام الحسن) نے آپ سے درخواست کی ہے کہ اپنا کوئی جامہ کہنہ دیجیے تاکہ میں اسے اپنے کفن میں رکھوں آپ نے فرمایا کہ اب جامہ کہنہ کی ضرورت نہیں ہے روای کا بیان ہے کہ میں وہ جواب لے کرجب واپس ہوا تومعلوم ہواکہ ۱۳ ۔ ۱۴ دن ہو گئے ہیں کہ وہ انتقال کرچکی ہے۔
۲ ۔ ایک شخص (امیہ بن علی) کہتا ہے کہ میں اورحماد بن عیسی ایک سفرمیں جاتے ہوئے حضرت کی خدمت میں حاضرہوئے تاکہ آپ سے رخصت ہولیں، آپ نے ارشاد فرمایا کہ تم آج اپنا سفرملتوی کردو، چنانچہ میں حسب الحکم ٹہرگیا، لیکن میراساتھی حماد بن عیسی نے کہا کہ میں نے ساراسامان سفرگھرسے نکال رکھا ہے اب اچھا نہیں معلوم ہوتا کہ سفرملتوی کردوں، یہ کہہ کروہ روانہ ہوگیا اورچلتے چلتے رات کو ایک وادی میں جا پہنچا اوروہیں قیام کیا، رات کے کسی حصہ میں عظیم الشان سیلاب آ گیا،اوروہ تمام لوگوں کے ساتھ حماد کوبھی بہا کر لے گیا (شواہدالنبوت ص ۲۰۲) ۔
فرامین:
۱۔ ’’ مَنْ خَطَبَ إلَيْكُمْ فَرَضيتُمْ دينَهُ وَ أمانَتَهُ فَزَوِّجُوهُ، إلّا تَفْعَلُوهُ تَكْنُ فِتْنَةٌ فِى الأرْضِ وَ فَسادٌ كَبير‘‘ ( جس نے تم سے [بیٹی یا بہن کا] رشتہ مانگا اور تمہیں اس کا دین پسند آیا تو وہ رشتہ قبول کرو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو تمہارا یہ عمل روئے زمان پر عظیم برائی کا سبب بنے گا)۔
۲۔ ’’مَنْ أتَمَّ رُكُوعَهُ لَمْ تُدْخِلْهُ وَحْشَةُ الْقَبْرِ ‘‘(جو شخص اپنی نماز کا رکوع مکمل اور صحیح طور پر انجام دے وہ قبر میں وحشت سے دوچار نہ ہوگا)۔
۳۔’’إنَّ اللّهَ عَزَّ وَ جَلَّ يَخْتارُ مِنْ مالِ الْمُؤْمِنِ وَ مِنْ وُلْدِهِ أنْفَسَهُ لِيَأجُرَهُ عَلى ذلِكَ ‘‘(بے شک خداوند متعال مؤمن کے مال و اولاد میں سے بہترین مال اور فرزند منتخب کرکے لے لیتا ہے تا کہ انہیں اس کے بدلے اجر عظیم عطا فرمائے)۔
شہادت:
عباسی خلیفہ معتصم نے حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کو مدینہ سے بغداد بلوایا؛ امام علیہ السلام ۲۸ محرم الحرام سنہ ۲۲۰ کو بغداد پہنچے اور اسی سال ذیقعدہ کے مہینے اسی شہر میں شہید ہوگئے ، البتہ بعض ماخذ میں ہے کہ آپ ؑ نے پانچ یا چھ ذی الحج یا بعض میں آیا ہے کہ ذیعقدہ کی آخری تاریخ کو شہادت پائی۔