واقعہ کربلا کا آغاز یزید کی اعلان جانشینی سے ہی ہوگیا تھا۔ معاویہ نے اپنی موت کے بعد یزید کو تخت خلافت کے لیے منتخب کردیا تھا۔ یزید کرسی خلافت پر متمکن ہوتے ہی مطالبہ بیعت کرنے لگا ۔ لوگوں نے اس کی اطاعت قبول کرنا شروع کردی لیکن کردار کے سچے اور اسلام کے محافظ نے اس کی بیعت سے صریحی انکارکردیا۔ اس نے اما م حسین علیہ السلام کے انکار بیعت پر قتل کا حکم صادر کیا ہوا تھا۔ اس لیے اندرونی خطرات اور بیرونی حالات سے موافقت کرکے آپ نے جانب مکہ ہجرت فرمادی اور وہاں چار ماہ سے زائد قیام کیا ۔ اس مدت میں آپ نے متعدد بیانات سے بنی امیہ کے تشدد اور اسلام کی محافظت کی جانب لوگوں کوبلایا ۔آپ ایک بڑے فتنہ سے بچنے کے لیے لوگوں کوبیدارکرہے تھے۔اسی دوران اہل کوفہ نے آپ کے حمایت میں خطوط ارسال کرنا شروع کردیا ۔ خطوط کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہوتا رہا ۔ مکہ کے نامساعد حالات اور کوفہ کی ظاہرانہ حمایت سبب بنی کہ آپ جوابی خطوط کے طور پر اپنے قابل اعتماد شخص جناب مسلم بن عقیل کو جانب کوفہ روانہ کردیں۔
مسلم بن عقیل ، حضرت عقیل کے فرزند تھے ۔ جناب عقیل ، حضرت ابوطالب کے فرزند ۔ امام علی علیہ السلام ، حضرت ابوطالب کے فرزند ۔امام حسین علیہ السلام ، حضرت علی علیہ السلام کے فرزند ۔ اس اعتبار سے جناب عقیل اورامیر المومنین کے والد محترم ، حضرت ابوطالب ہوئے ۔ اب رشتہ داری کے منظر سے دیکھاجائے توجناب عقیل ، امام حسین علیہ السلام کے چچا زاد بھائی قرار پاتے ہیں۔آپ کی پرورش نے خاندان اہل بیت میں ہوئی ۔ آپ نے امام علی علیہ السلام، امام حسن علیہ السلام ، امام حسین علیہ السلام سے بہت کچھ کسب فیض کیا۔ امام علی علیہ السلام کے دوران خلافت ، جنگ صفین میں شریک جنگ رہے ۔امام حسن علیہ السلام ، امام حسین علیہ السلام اور عبد اللہ بن جعفر کے ساتھ لشکر میمنہ میں دشمنوں سے نبردآزما رہے۔ امام حسن علیہ السلا م کے زمانہ میں بھی امام کے خاص اصحاب میںشمار کئے جاتے تھے ۔ امام دوم کی شہادت کے بعد امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ راہی مکہ ہوگئے ۔
مکہ میں امام نے اپنا سفیر بنا کر کوفہ روانہ کردیا۔ نصف ماہ رمضان ۶۰ھ کو مخفیانہ طور سے جانب مدینہ کوچ کرگئے اور قیس بن مسہر صیداوی ، عبدالرحمان بن کدن ارحبی اور عمارہ بن عبید سلولی کو اپنا ہم سفر بنایا ۔ مدینہ پہونچنے پر مسجد نبی میں دو رکعت نماز ادا کی ۔ نصف شب میں اپنے اقرباکے یہاں گئے اور ان سے رخصت آخر لیا۔(تاریخ طبری، ابو جعفر، ج ؍ ۵، ص؍ ۳۵۴) ۔سا تھ ہی قیس عیلان قبیلہ کی دو فر د کو بطور رہنمائے سفر ساتھ لیا ۔ رات ہی کو کوفہ کی راہ پکڑلی ۔ شدت پیاس کے سبب راستہ میں ہی دونوںرہنمائے سفر کا انتقال ہوگیا۔اس لیے آپ اور آپ کے ہمراہیوںکے لیے کوفہ تک رسائی بہت مشکل ہوگئی ۔ آپ نے قیس بن مسہر کے وسیلہ امام کو راہ کے مشکلات سے آگاہ کیا۔ امام نے منفی جواب دیا اورسفر جاری کرنے کی ہدایت دی۔آپ ۵؍ شوال کو داخل شہر ہوئے اور مختار ثقفی کے گھر میں قیا م کیا۔
آپ کی آمد کی خوشحال خبر سنتے ہی شیعان اہل بیت کی آمد ورفت کا سلسلہ شروع ہوگیا اورمسلم بن مسیب کے گھر میں نائب امام کی بیعت کا تانتا بندھ گیا۔ آپ نے امام حسین علیہ السلام کے متن خط کو پڑھا ۔لوگ امام کے شوق دیدار میں گریہ کناں ہوگئے ۔ اس وقت عباس ابن ابی شبیب شاکری بلند ہوئے اور حمد الٰہی بجالانے کے بعد کہا: میں لوگوں کی جانب سے کچھ نہیں کہتا اور مجھے علم نہیں کہ ان کے دل میں کیا ہے لیکن میں اپنے باطن سے آگاہ کررہا ہوں ۔ اللہ کی قسم! جس وقت بھی مجھے آواز دیں گے ، حاضر خدمت رہوں گااور تادم حیات آپ کی رکاب میں دشمنوں سے جنگ کرتا رہوں گا اور سوائے انعام حق کے کسی شے کا طالب نہیں رہوں گا۔ اس کے بعد حبیب ابن مظاہراور سعید بن عبد اللہ حنفی بلند ہوئے اور عابس کی باتوں پر تائید لبیک کہا ۔ پھر لوگوں نے بیعت شروع کی۔ (الفتوح ، ابن عاصم ، ج؍ ۵ ، ص ؍ ۴۰۔تاریخ طبری، ابوجعفر ، ج ؍ ۵، ص ؍ ۳۵۵)
ابتدا میں بیعت کرنے والوں کی تعداد بارہ ہزار تھی لیکن بہت تیزی سے تعدا د میں اضافہ ہوا اور اٹھارہ ہزار تک پہونچ گئی ۔ اسی کے بعد آپ نے امام حسین علیہ السلام کو خط لکھا اور کوفہ آنے کی دعوت دی۔ (البدایہ والنہایہ، ابن کثیر ، ج ؍ ۸، ص ؍۱۶۳)جب حاکم کوفہ نعمان بن بشیر کو اس بات کا علم ہوا تووہ مسجد گیااور لوگوں کو فتنہ، خون ریزی اور یزید کی مخالفت سے منع کیا مگر بنی امیہ کے بہی خواہوں کو یہ بات ’نرمی کا برتاؤ‘معلوم ہوئی ۔ سو عبد اللہ بن مسلم بن سعید حضرمی بلند ہوا اور اس نے کمزوری کا الزام لگا کر یزید کو ایک خط لکھا اور سارے حالات سے باخبر کردیا۔ یزید نے معاویہ کے غلام سرجون سے مشور ہ لے کر عبید اللہ بن زیاد کو کوفہ روانہ کردیا اور کوفہ کی حکومت اس کے ہاتھ میں دے رکھی۔ اسی طرح اس کو فرمان دیا کہ مسلم کو ایک’ گمشدہ مہرہ‘ کی مانند تلاش کرو اور جس وقت بھی ہاتھ آجائے ، اسے قتل کردو اور اس کے سر کو یزید کے پاس بھیج دو۔ (مناقب آل ابوطالب، ابن شہر آشوب ، ج ؍ ۳، ص ؍ ۲۴۲)
۔۔۔عبیداللہ ابن زیاد جب کوفہ کے قریب پہنچا تو انتظار کیا تاکہ فضا میں تاریکی چھاجائے۔ اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ اس حالت میں شہر میں داخل ہوا کہ اس کے سر پر سیاہ عمامہ تھا اور منھ پر تالے لٹکے ہوئے تھے۔ اُس راہ سے داخل ہوا جہاں سے اہل حجاز آتے ہیں ۔یہ چال اس لیے تھی تاکہ لوگوں کوچکمہ دے سکے کہ وہ حسین بن علی ہے۔ اہالیان کوفہ امام حسین علیہ السلام کے منتظر تھے ۔ خیال کیا کہ یہ حضرت امام حسین ؑ ہی ہیں ۔ خوشیاں منانے لگے اور سلام کا تسلسل بندھ گیا اور وہ کہتے :اے فرزند رسول! مرحبا! ہم آپ کے حامی و مددگارہیں اور ہماری تعداد چالیس ہزار سے زائدہے۔ لوگ اس کے گھوڑے کے گرد ریلا لگائے ہوئے تھے ۔اسی دوران عبید اللہ مجبور ہوا کہ کچھ بولے ۔ زبان کھولنا تھا کہ ایک شخص نے اس کی آواز پہچان لی اور کہا: خدائے کعبہ کی قسم! یہ ابن زیاد ہے۔ ۔۔۔بہرکیف، دیر سے ہی سہی سارا پردہ فاش ہوگیا کہ ابن زیاد کوفہ کا حاکم مقرر ہوچکا ہے۔ اس نے آتے ہی حالات پر مکمل دہشت پھیلادی اور حکومتی ہرکارے کو جاسوسی پر مقرر کردیا۔ اس وجہ سے جناب مسلم کو رات ہی میں سالم بن مسیب کے یہاں سے نقل مکانی کرکے ہانی بن عروہ کے مکان جانا پڑا۔ ظاہر ہے کہ اب لوگوں نے آپ کے یہاں بیعت شروع کردی۔
مسلم بن عقیل کا عزم تھا کہ ابن زیاد کے خلاف قیام کریں لیکن ہانی نے کہا: جلد ی نہ کریں ۔ (الفتوح ، ابن اعثم، ج ؍۵، ص ؍ ۴۱)جناب مسلم نے دوبارہ عباس بن ابی شبیب کے ذریعہ امام کے نام خط لکھا اور کہا: نامہ بر جھوٹ نہیں بول رہا ہے ۔ اٹھارہ ہزار لوگوں نے میرے ہاتھوں پر بیعت کی ہے ۔ جس وقت بھی میرا خط ملے ،تیزی سے میری طرف آجائیں ۔ تمام لوگ آپ کے ساتھ ہیں اور قلبی طور پر بھی خاندان معاویہ سے کوئی رغبت و دلچسپی نہیں رکھتے ہیں ۔ (تاریخ طبری، ابو جعفر، ج ؍ ۵، ص ؍ ۳۷۵)یہ خط آپ کی شہادت سے ۲۸؍ روز پہلے ، ذی قعدہ کے آخری ایام میں امام حسین علیہ السلام تک پہنچا ۔ (البدایہ والنہایہ، ابن کثیر ، ج ؍ ۸، ص ؍ ۱۷۰)
ابن زیاد نے اپنے غلام’ معقل‘کو لوگوں کے درمیان اتار دیا۔وہ مسجد کوفہ گیا اور مسلم بن عقیل کے قریبی فرد مسلم بن عوسجہ سے آشنائی حاصل کرلی اور رفتہ رفتہ دوستوں کی نشست میں شناسائی حاصل کرنے لگا ۔ اس نے ابو ثمامہ صائدی کواموال کی جمع آوری اور اسلحہ کی خریداری کے لیے تین ہزار درہم بھی دیئے ۔ اس طرح وہ مسلسل ان خبروں کو ابن زیادتک منتقل کرتا رہا۔ (ارشاد، شیخ مفید، ج ؍ ۲ ، ص ؍ ۴۸)ادھر دوسری سمت ’مالک بن یربوع‘ نے ’عبداللہ بن یقطر‘سے لیے خط کو ابن زیاد کے سامنے پیش کیا ۔ اس خط میں جناب مسلم نے لوگوں کی بیعت کے احوال لکھے تھے اور امام کو جلد آنے کی دعوت بھی دی تھی۔ اس کے بعد ہی ابن زیاد نے ہانی کو دارالامارہ بلوا لیا ۔ اس نے ہانی سے کہا: اپنے گھر میں مسلم کو پناہ دی ہوئی ہے اور اس کے لیے اسلحہ اور لوگوں کو جمع کررہے ہو۔اس پر گمان ہے کہ یہ سب ہم سے مخفی رہے۔(مناقب آل ابی طالب ، ابن شہر آشوب م ج ؍ ۳، ص ؍ ۲۴۳)ہانی بن عروہ نے جواب دیا: اپنے خاندان کو اٹھاؤ اور شام چلے جاؤ۔ وہیں زندگی بسر کرنا ۔ چوں کہ تجھ اور یزید سے بہتر کی یہاں آمد ہوچکی ہے۔ اس جواب کو سن کر ابن زیاد سیخ پا ہوگیا اور آپ کو زد وکوب کرنے لگا۔ اس کے بعد زندان کے حوالہ کردیا۔
یہ المناک خبر جناب مسلم کے لیے ناقابل برداشت تھی ۔ آپ چارہزارشیعوں کے ساتھ اٹھے اور دارالامارہ کی جانب بڑھ گئے ۔عبد اللہ بن حازم نے ’یا منصور امۃ‘کا نعرہ لگایا ۔اسی نعرہ کے ساتھ لوگ دارالامارہ کی جانب بڑھنے لگے ۔ابن زیاد کو مسلم کی آمد کی خبر مل گئی۔ وہ مسجد کوفہ میں لوگوں کو اطاعت یزید کی جانب ورغلا رہا تھا۔ جیسے ہی اس نے یہ خبر سنی ، تیزی سے دارالامارہ کی جانب دوڑا اورمحل میں خود کو قید کرلیا۔ محل کے اندر تیس سپاہی ، بیس بزرگان کوفہ اور ابن زیاد کا خاندان موجود تھا۔ (تاریخ طبری، ابوجعفر، ج ؍ ۵، ص ؍ ۳۴۸۔۳۶۹،البدایہ والنہایہ ، ابن کثیر، ج؍ ۸، ص ؍ ۱۶۶، الامامہ والسیاسہ ، ابن قتیبہ ، ج ؍ ۲ ، ص ؍۸)
مسلم نے قصر دارالامارہ کا محاصرہ کرلیا تھا ۔ عبید اللہ بالائے محل پر چلا آیاتھا۔ لوگ اس کو دیکھتے اور اس پر پتھر پھینکتے اوراس کے باپ کو زیادہ برا کہتے۔ اس نے جناب مسلم کو گھیرنے کی سازش رچی۔’ کثیر بن شہاب حارثی ‘کو’ باب الرومیین‘ سے باہر نکالااور یہ اپنے ہمراہیوں کے ساتھ مل کر جناب مسلم کے ساتھیوں کے درمیان رخنہ انداز ی کرنے لگے ۔ انہیں حاکم وقت کی سلاخوں سے خوف دلانے لگے ۔دوسری جانب محمد بن اشعث اپنے ہرکاروں کو لیے پرچم امان بلند کئے ہوئے تھا اور لوگوں کو جنگ نہ کرنے کی دعوت دے رہا تھا۔ اس طرح دونوں جانب سے مجمع کو بٹور لیا گیا اور خوف نے جناب مسلم کے ہمراہیوںکو گھر میں ہی قید کرلیا۔کتنوں کو حاکم وقت نے زنجیر بھی پہنائی ۔ رات کے وقت چار ہزار سپاہیوں میں سے صرف تین سو افراد بچے اور نماز بعد صرف تیس آدمی۔ مسلم بن عقیل مسجد سے باہر نکلے ۔ ایک کوچہ تک تو دس آدمی ساتھ رہے ۔ اس کے بعد سب کی سب ندارد ۔
اب جناب مسلم کوفہ کی گلیوں میں گردش لگاتے محلہ بنی جبلہ میں پہنچے ۔ ایک گھر کے سامنے کھڑے ہوئے اورطلب آب کیا۔ طوعہ نامی ایک ضعیف عورت گھر سے نکلی اور اس نے تشنگی بجھائی ۔ آپ وہیں کھڑے رہے۔ سوالات وجوابات کے تبادلہ نے سارا ماجرا بیان کردیا۔ اب آپ طوعہ کے گھر میں ٹھہر گئے۔ اس ضعیفہ کا لڑکا’ بلال‘جب گھر آیا تو اسے آپ کے قیام کی خبر لگ گئی ۔ماں کی حکم عدولی کرتے ہوئے اس نے صبح کو عبدالرحمن بن اشعث کے سامنے سارے راز اگل دیئے ۔ عبد الرحمن نے بھی قصر دارلامارہ میں بیٹھے اپنے باپ کو بتادیا ۔اس کے بعد یہ خبر ابن زیاد کو معلوم ہوگئی ۔ اس نے ، مختلف روایات کی بناپر ، ساٹھ ، ستر یا تین سو سپاہیوں کو محمد ابن اشعث کے ہمراہ طوعہ کے گھرروانہ کردیا۔گھوڑوں اور فوجیوں کی آواز نے بتادیا کہ آپ کی گرفتاری کا ارادہ ہے۔ آپ نے اپنے گھوڑے کو آماد ہ کیا۔ لجام کسی ، زرہ زیب تن کی ،سر پر عمامہ رکھا اور ہاتھ میں تلوار لیے راہ خدا میں جہاد کے لیے نکل پڑے۔ لشکر گھر میں داخل ہوگیا۔آپ کو مجبوراً گھر میں ہی دفاع کرنا پڑااور آپ نے زور بازو سے ان کو گھر سے باہر نکل پھینکا۔ جب جنگ شدت پر آئی تو آپ کئی ایک کو واصل جہنم کرچکے تھے ۔ اب سپاہیوں کے حوصلے پست ہوچکے تھے۔ ابن اشعث نے مزید فوج کا مطالبہ کرلیا ۔ ابن زیاد کے ہواس، باختہ ہوگئے کہ میں نے صرف ایک آدمی کی گرفتاری کے لیے اتنوں کو بھیجا ہے۔ اس نے امان نامہ کی تجویز پیش کی۔ جناب مسلم نے صریحی انکار کردیا۔ جب سارے حربے ناکام ہوگئے تو سب نے مل کر ایک ساتھ حملہ کردیا اور ابن زیاد کے بہی خواہوں نے آپ کو گرفتا رکرلیا۔ اس وقت آپ کی آنکھوں سے موتی کی لڑیا جد اہورہی تھیں ۔ موت کے خوف سے نہیں بلکہ امام حسین علیہ السلام اور آپ کے خاندان کے کوفہ آنے کے سبب۔
ابن زیاد نے آپ کے قتل کی ذمہ داری ابن حمران کو دی ہوئی تھی ۔ یہ وہی شخص تھا جس کو آپ نے (کاری) ضرب لگائی تھی۔ بُکیر ، جناب مسلم بن عقیل کو بالائے محل لے گیا ۔آپ کے سر کو تن سے جدا کردیااور جسم کو قصر کے باہر گرادیا۔ آپ کے سر کو ہانی بن عروہ کے سر کے ساتھ شام بھیج دیاگیا ۔ یزید نے حکم دیا کہ دمشق کے بارہ دروازوں میں سے کسی ایک دروازے پر لٹکادیں ۔ (الفتوح ، ابن عاثم ، ج ؍ ۵، ص ؍ ۶۲)آپ کے جسم کو بازار قصاب میں زمین پر کھینچا جا تارہا۔ تین دن بعد نماز جنازہ ادا ہوئی اور دارالامارہ کے قریب دفن کردیا گیا۔ تاریخ نے بتایا کہ ابن زیاد چاہتا تھا کہ شیعوں پر نگاہ رکھے ، اس لیے اپنے محل کے قریب قبر بنوائی یایہ انہیں ماتم اور سوگ و عزا سے دور رکھے ۔ اس لیے دفن کے لیے اس جگہ کا اہتمام کیا۔ ماہ شعبان سن ۶۵ھ میں مختار ثقفی کے حکم سے آپ کی قبر پر عمارت تعمیر ہوئی اور سنگ مرمر سے اس کا گنبد مزین کیاگیا۔ اس کے بعد مختلف عہد میں اس کی جدید تعمیرات ہوتی رہی ہیںاور اس وقت کوفہ میں آپ کا عالی شان روضہ دشمنوں کے منھ پر طمانچہ ہے۔
تحریر: عظمت علی