واقعہ کربلا انسانی تاریخ کا وہ واحد اور عظیم سانحہ ہے، جو نہ اس سے پہلے وجود میں آیا تھا اور نہ آئندہ آئے گا۔ اس کی عظمت اور بزرگی کی واضح دلیل یہ ہے کہ چودہ سو سال کے بعد بھی اس کی تازگی ایسے ہی ہے جیسے کل ہی دنیا میں رونماء ہوا ہو۔ واقعہ کربلا کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ اگر یہ واقعہ پیش نہ آتا اور سرزمین کربلا، شہداء کربلا کے خون سے رنگین نہ ہوتی تو تمام انبیاء کی کوششیں رائیگاں جاتیں اور انسانوں کی ہدایت کے لئے بنایا گیا الہیٰ نظام ناکارآمد ثابت ہوتا۔ واقعہ کربلا صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ ایک عظیم انقلاب ہے، جو بشریت کی نجات، حریت اور سعادت کی ضمانت ہے۔ ہم اس عظیم انقلاب کی اہمیت کو انسانی تاریخ کے آئینہ میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
انسانی تاریخ مجموعی طور پر شخص واحد کی مانند ہے، جو بچپن سے لیکر پڑھاپے تک سوچ، سمجھ اور فہم و فکر کے مختلف مراحل طے کرتا ہے۔ جس طرح انسان بچپن میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہوتا ہے، اس طرح انسان نے ابتدائی تاریخ میں پڑھاپے میں قدم کیوں نہ رکھا ہو، اس کی فکر کمزور اور عقل ناقص تھی۔ جوں جوں تاریخ کے ادوار بدلتے آئے ہیں، انسانوں کی عقل تکمیلی مراحل طے کرتی آئی ہے اور رسول اکرم کے دور میں انسان فہم، سوچ، سمجھ اور عقل و فکر کے اعتبار سے اس مقام تک پہنچا کہ وہ اپنی ہدایت کے وسائل خود سنبھال سکتا تھا، اس لئے اللہ نے انبیاء کے سلسلے کو ختم کر دیا۔ شریعت اور الہیٰ مکاتب بھی ان تعلیمی مراکز کی مانند ہیں، جس میں بچے کے بچپن کے دور سے لے کر اعلیٰ تعلیمی مراحل تک ہر دور کے لئے خاص تعلیمی نظام کا بندو بست کیا جاتا ہے۔
جب انسان یورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے گریجویٹ ہوتا ہے تو اس میں ہر قسم کی سوچ سمجھ آجاتی ہے، اس کو نفع اور نقصان کی پہچان ہوتی ہے، اپنی کامیابی کے تمام اسباب اور علل سے واقف ہوتا ہے اور جو چیزیں اس کی کامیابی اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں، ان سے آگاہ ہوتا ہے، اس کے علاوہ زیادہ فائدہ اور مستقبل کے فائدے کو دیکھ کر کم فائدہ اور عارضی نفع کو نظر انداز کرنے کی صلاحیت بھی انسان کی اندر آجاتی ہے۔ اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں انسان، الہیٰ مکتب سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرچکا تھا اور اس کی عقل کافی حد تک تکمیل کے مراحل میں پہنچ چکی تھی۔ انبیاء الہیٰ کی بے شمار قربانیوں اور شب و روز محنت کے نتیجے میں انسان مجموعی طور پر اپنی ہدایت کے اسباب اور سعادت کے وسائل سے مکمل آگاہ ہوگیا تھا اور ہدایت کے خواہشمند افراد کی ہدایت کی ضمانت ہوچکی تھی۔
انسانوں کی ہدایت اور سعادت کے تمام عوامل اور مقدمات فراہم ہوچکے تھے، لیکن مشکل موانع اور رکاوٹوں میں تھی، کیونکہ انسان کی ہدایت کے راستے میں دو طرح کے موانع حائل ہوسکتے ہیں۔ ایک وہ موانع ہیں، جو کھل کر سامنے آتے ہیں اور انسان کو انبیاء الہیٰ کی تعلیمات کے توسط سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مانع ہے اور یہ اس کو ترقی کی بلندیوں کی طرف جانے سے روکتا ہے۔ اگرچہ وہ موانع انسان کی خواہشات نفسانی کے ساتھ سازگار ہوں اور اس کا نفس یہی چاہتا ہو، لیکن انسان کی سوچ سمجھ اتنی طاقتور ہوتی ہے کہ وہ ان دلفریب چیزوں کو اپنی ترقی اور کامیابی کی خاطر نظر انداز کرسکتا ہے۔ لیکن دوسرے وہ موانع ہیں، جو معاون کی شکل میں سامنے آتے ہیں، وہ ظاہری طور پر اور بادی النظر میں انسان کی کامیابی اور سعادت کے لئے فرشتہ نجات ثابت ہوتے ہیں، لیکن حقیقت میں انسان کی ہدایت کے راستے میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔ ان کی پہچان بہت مشکل کام ہے، یہ انسان کے کے لئے ایک کٹھن مرحلہ ہے۔
اب اللہ نے انسانی کی ہدایت کے تمام اسباب فراہم کرنے کے علاوہ وہ موانع جو واضح اور آشکار طور پر ظاہر ہوتے ہیں، ان کی پہچان کی بصیرت بھی دی ہے، لیکن باطل جب حق کا لباس اڑھ لیتا ہے، مانع معاون کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے اور فتنے کا اندھیرا فضا ہوتا ہے، اس وقت ایک ایسی عظیم قربانی کی ضرورت تھی، جو رہتی دنیا تک حق اور باطل کی شناخت انسانوں کے لئے واضح کر دے اور باطل کے چہرے سے حق کا لبادہ اٹھا لے اور باطل کے چہرے کو سب کے لئے نمایاں کر دے۔ کربلا میں امام حسین علیہ السلام اور ان کے باوفا ساتھیوں کی قربانی ایسی قربانی تھی، جس نے باطل کا چہرہ سب کے لئے واضح کر دیا، اب ہر قسم کے موانع چاہے معاون کی شکل میں سامنے آئیں، انسان کو اس کی پہچان میں مشکل نہیں ہوگی۔ یہاں سے معلوم ہوا کہ اگر امام حسین علیہ السلام کی شہادت نہ ہوتی تو تمام انبیاء کرام کی کوششیں رائیگاں جاتیں اور ہدایت کا الہیٰ انتظام کارآمد نہ ہوتا۔
تحریر: مولانا فدا حسین ساجدی