کائنات کا حسین ترین جوان!
یہ نوجوان اپنے باپ کے پاس آیا۔علی اکبر(ع)کی عمر اٹھارہ سے پچیس سال کے درمیان لکھی گئی ہے۔ یعنی کم از کم اٹھارہ سال اور زیادہ سے زیادہ پچیس سال۔ وہ کہتا ہے: "علی ابن الحسین باہر آئے” علی ابن الحسین لڑنے کے لیے خیمہ گاہ سے نکلے۔ یہاں ایک بار پھر راوی کہتا ہے: "یہ نوجوان کائنات کے خوبصورت نوجوانوں میں سے ایک تھا۔” خوبصورت،رشید اور بہادر۔ اس نے اپنے باپ سے جا کر لڑنے کی اجازت مانگی، امام نے بغیر تاخیر کے اجازت دے دی۔
علی اکبر(ع)کو اذن جنگ!
قاسم ابن الحسن کے معاملے میں،پہلے امام نے اجازت نہیں دی،اور پھر قاسم ع نے کچھ دیر تقاضا کیا یہاں تک کہ امام نے اجازت دے دی۔لیکن "علی اکبر بن الحسین” جیسے ہی آئے،کیونکہ وہ انکا اپنا بیٹا تھا،جیسے ہی اس نے اجازت مانگی،امام نے کہا کہ جاؤ۔پھر امام ع نے اپنے نوجوان کو مایوس نظروں سے دیکھا جو میدان کی طرف جا رہا ہے اور اب واپس نہیں آئے گا۔امام ع نے اپنی آنکھیں موند لیں اور بلند آواز سے رونے لگے۔یہ رونا بے صبری کے باعث نہیں تھا بلکہ یہ شدتِ جذبات کی عکاسی کررہا تھا۔اسلام ان جذبات کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
شبیہ پیغمبر،اکبر!
پھر امام فرماتے ہیں: "جب بھی ہمیں نبی(ص) کی یاد آتی، ہم اس نوجوان کی طرف دیکھتے۔” لیکن یہ نوجوان بھی اب میدان کی طرف گیا۔ "پھر امام نے بلند آواز سے عمر سعد کو بد دعا دی اور کہا اے ابن سعد خدا تیری نسل قطع کرے جس طرح تو نے میری نسل قطع کی”۔
رسول اللہ،ساقی اکبر!
پھر راوی بیان کرتا ہے کہ علی اکبر میدان میں گئے اور بہت بہادری سے جنگ کی اور دشمن کی ایک بڑی تعداد کو قتل کیا۔ پھر وہ واپس آئے اور کہا کہ مجھے پیاس لگی ہے۔ وہ پھر میدان کی طرف پلٹے۔ جب انہوں نے اپنی پیاس کا اظہار کیا تو امام نے فرمایا: میرے عزیز! تھوڑی دیر اور لڑو اب زیادہ دیر نہیں کہ تمہیں تمہارے جد نبی ص سیراب کریں گے۔جب امام حسین نے یہ جملہ علی اکبر ع سے کہا تو علی اکبر نے آخری لمحے میں اپنی آواز بلند کی اور کہا: "اے بابا علیک السلام” بابا خدا حافظ ” رسول اللہ آئے ہیں اور آپ(ع)کو سلام دے رہے ہیں”۔ اور وہ آپ سے فرماتے ہیں کہ جلدی کرو اور ہمارے پاس آؤ۔