Print this page

قائد حریت سید حسن نصر اللہ کی حالیہ گفتگو اور اسرائیل کے وجود پر طاری لرزہ

Rate this item
(0 votes)
قائد حریت سید حسن نصر اللہ کی حالیہ گفتگو اور اسرائیل کے وجود پر طاری لرزہ

تجزیہ عبد الباری عطوان

’’ رای الیوم‘‘ اخبار کے ادارتی حصہ میں مدیر کی بات کے ذیل میں فلسطین کے معروف و ممتاز صحافی عبد الباری عطوان نے اپنے کالم ’’ کیوں بنجامن نیتن یاہو نے اپنی عادت کے برخلاف حسن نصر اللہ کی تقریر کے بارے میں فوری رد عمل کا اظہار کیا ‘‘ میں یہ سوال کیا ہے کہ واضح طور پر حسن نصر اللہ کی تقریر میں آخر وہ کونسی معینہ چیز تھی جس نے اسرائیلیوں کی نیندیں اڑا دیں ہیں ؟

اس کالم میں کچھ یوں بیان کیا گیا ہے: تقریبا چالیس سال سے زائد عرصے قبل مصر کے مرحوم صدر جمہوریہ جمال عبد الناصر کے انتقال کے بعد عرب کے لوگوں کا طرز یہ رہا کہ وہ کبھی بھی کسی عرب لیڈر اور رہنما کی تقریر سننے کے لئے ٹیلیویژن کے سامنے نہیں بیٹھے عربوں کا یہ شیوہ قاعدہ رہا کہ انہوں نے کسی بھی عرب رہنما کی تقریر کو ٹی وی اسکرین کے سامنے بیٹھ کر سننے کی زحمت نہ کی یہاں تک کہ انکا یہ معمول و قاعدہ لبنان میں اسلامی مزاحمت اور حزب اللہ کے قائد و رہبر سید حسن نصر اللہ کی ذات پر آ کر ٹوٹ گیا اور یہ لوگ مجبور ہو گئے اپنے اپنے ٹی وی سیٹ کے سامنے بیٹھ کر یہ سنیں کہ قائد حریت کیا کہہ رہا ہے ؟

قائد مزاحمت اسلامی سید حسن نصر اللہ کی تقریر کو سننے کا محض سبب یہ نہیں ہے کہ سید حسن نصر اللہ ایک ممتاز و مایہ ناز خطیب ہیں اور انکے سلسلہ وار خطابات و انکی تقاریر میں حقیقت پر مبتنی بے لاگ اور دقیقی تجزییے پیش کئے جاتے ہیں بلکہ سید حسن نصر اللہ کی تقاریر کا استقبال اس لئے ہوتا ہے کہ ان میں وزن و اعتبار پایا جاتا ہے اور بلا کی جرات کے ساتھ وہ خطاب کرتے ہیں ، انکی تقاریر و خطابات کا محور و مرکز اسلامی دنیا کے بنیادی مسائل ہوتے ہیں یا پھر یوں کہا جائے کہ مقبوضہ فلسطین کی اراضی کی آزادی ، امریکہ و استعمار کی جانب سے اختلافات کو بھڑکانے اور تقسیم کے منصوبوں سے مقابلہ کرنے کی راہوں جیسے مطالب سامنے رکھتے ہوئے وہ اپنی تقاریر کی ترتیب و تنظیم کرتے ہیں۔

یہی وہ چیزیں ہیں جنکے سبب پورے خطہ عرب میں ان کی تقاریر کی گھن گرج سنائی دیتی ہے ، اور سید حسن نصر اللہ کی حالیہ المنار ٹیلی ویژن سے جمعہ کی رات نشر ہونے والی گفتگو بھی انہیں اسباب کے پیش نظر لاکھوں لوگوں کی توجہات کا مرکز رہی اور اس تقریر کو جہاں سید حسن نصر اللہ کے حامیوں نے توجہ کے ساتھ سنا وہیں انکے مخالفوں، حتی اسرائیلیوں اور صہیونی حکومت کے سیاسی و عسکری عہدے داروں نے بھی کان لگا کر سنا، اور اس طرح سنا کہ اسرائیل سیکورٹی و اسکی سالمیت کی نظارت و دیکھ ریکھ کرنے والی سروسز نے جرائد و اخبارات حتی اپنے ٹی وی چینلز سے سید نصر اللہ کی گفتگو کے بارے میں کسی بھی طرح کا تجزیہ کرنے پر پابندی لگا دی اور انہیں اس بات سے روک دیا کہ حسن نصر اللہ کی تقریر کے سلسلہ سے اظہار خیال کریں، اور اس بات کا سبب یہ تھا کہ اگر سید حسن نصر اللہ کی گفتگو کا تجزیہ فوجی ماہرین یا سابقہ فوجی جنرلوں کے ذریعہ پیش کیا جاتا تو مقبوضہ فلسطین کے شمال میں موجودہ دور ترین علاقوں سےجنوب کے دور ترین علاقوں تک عوام کے درمیان ایک تشویش کی لہر پھیل جاتی اور ہر طرف ایک اضطرابی کیفیت سامنے آتی جسکے چلتے ٹینشن بڑھ جاتا۔

عطوان نے اپنے اس ادارتی کالم میں لکھا کہ ہم نے سید حسن نصر اللہ کی تقریر کے سلسلہ سے وہ اہم چیز محسوس کی جسے اسرائیلی میڈیا میں بنیادی طور پر چھایا ہوا پایا وہ یہ تھی کہ انہوں نے اپنی گفتگو میں کچھ خاص اشارے کئے چنانچہ اسرائیلی میڈیا کے مطابق اسرائیلوں کے لئے سید حسن نصر اللہ کی گفتگو میں سب سے خطرناک بات انکی جانب سے مغربی میڈیٹرین ساحل اور مقبوضہ فلسطین کے نقشے کی طرف اشارہ کرنا تھی ، یہ وہ جگہ ہے جہاں گھنی و گنجان آبادی پائی جاتی ہے اور اسرائیل کے لئے حیاتی مفادات کی حامل جگہ ہے ، اور سید حسن نصر اللہ نے اپنی گفتگو میں واضح طور پر ان اہداف کی طرف اشارہ کیا جن پر جنگ چھڑنے کی صورت میں حزب اللہ کی جانب سے حملہ کیا جا سکتا ہے اور جو حزب اللہ کے صاف تنے اور سدھے نشانے پر ہیں ، چنانچہ یہ تصویر کہ جس میں نیتن یاہو کو اپنے خاص ڈھنگ سے جواب دیا گیا ہے وہی ہے جسے اسرائیل رسائل و جرائد کے پہلے صفحہ کے ساتھ ساتھ ٹی وی کی خبروں میں بھی نمایاں طور پر دکھایا گیا۔

ٹھیک ہے کہ سید حسن نصر اللہ نے اپنی اس گفتگو میں حزب اللہ کی زمینی فورسز کے ہاتھوں میں موجود میزائیلوں کی صلاحیتوں اور انکی اپنے نشانوں پر زبردست ودقیق انداز میں اصابت کرنے نیز شام کی جنگ میں ہونے والے گرانبہا تجربوں کو بیان کیا ، لیکن اس گفتگو کا اہم نکتہ یہ تھا کہ حزب اللہ کو نہ تو جوہری بمب کی ضرورت ہے اور نہ ہی کیمیکل بمب کی ضرورت ہے بلکہ اسرائیل کی جانب حزب اللہ کی طرف داغے جانے والے ایک میزائیل کے لئے کافی ہے کہ حیفا کی بندرگاہ پر موجود اسرائیل کے زہریلے ذخائر پر گر کے پورے اسرائیل کو نابود کر دے اور دسیوں و شاید سیکڑوں و ہزاروں شہریوں کی ہلاکت کا سبب بنے ۔ اس زبردست گفتگو کا اسراییل کے لوگوں پر اثر اور اسرایلیوں کے دلوں میں ان باتوں کی بنا پر وحشت یہ دونوں ہی چیزیں اس بات کا سبب بنیں کہ گزشتہ سالوں کی طرح اپنے رویے کے برخلاف اسلامی مزاحمت کے قائد سید حسن نصر اللہ کی گفتگو یا تقریر پر کان نہ دھرتے ہوئے مغرورانہ انداز میں بے توجہی نہ دکھا کر اس بار رد عمل دکھانے پر مجبور ہو یہی وجہ ہے تند اور سخت زبان استعمال کرتے ہوئے نیتن یاہو کو کہنا پڑا کہ اگر حزب اللہ نے اسرائیل پر حملہ کی کوشش کی یا اسے نقصان پہنچانے کے لئے منصوبہ بندی کو عملی کیا تو حزب اللہ کو بہت بری اور دردناک مار پڑے گی۔

جب سید حسن نصر اللہ اسرائیل کو یہ انتباہ دیتے ہیں کہ اسرائیل عصر حجر کی طرف پلٹ جائے گا تو یہ اپنے آپ میں غور طلب بات ہے اس لئے کہ عصر حجر کی بات جب وہ کر رہے ہیں تو واضح ہے کہ اس دور میں خود کبھی نہیں رہے اور اس دور کی کوئی بھی میراث علاقے اور فلسطین میں نہیں پائی جاتی ہے لیکن سید حسن نصر اللہ نیتن یاہو اور اسرائیل کی قیادت کو انہیں کے لہجے میں اپنے مخصوص انداز میں جواب دیتے ہیں اور یہ بتانا چاہتے ہیں کہ تم اپنے ماضی کی طرف پلٹا دئیے جاوگے اور یہ بتانا چاہتے ہیں کہ خود اس چیز کا تصور کریں کہ اس دور میں زندگی کیسی ہوگی جس کے بارے میں انہیں ذرا واقفیت نہیں ہے ، اور پھر یہ بات اپنے اندر اسرائیلوں کو اور بھی جھنجلا دینے والی ہے کہ کیا برائی ہے کہ یہ لوگ عصر حجر میں جینے کا تجربہ بھی کر لیں لیکن یہ تو تب ہی ہو سکتا ہے جب وہ خود رہیں اور انکا ملک بھی باقی رہے ۔

اس مرد مجاہد نے عزم مصمم کر رکھا ہے کہ مسجد الاقصی میں ایک دن نماز قائم ہوگی ،اور اس بے نظیر شخصیت کی نگاہ اس دن پر ہے جب لاکھوں لوگ اسی مسجد میں اس مرد مجاہد کی اقتدا میں نماز پڑھیں گے ، یہ معقول و جائز اور قانونی آرزو تبھی پوری ہو سکے گی جب فلسطین آزاد ہو جائے۔

اور یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے ایسا ہونے کے امکانات پائے جاتے ہیں ، مجھے بی بی سی نیٹ ورک کے سینئیر سیاسی تجزیہ کار و مبصر جوہن سمباسن کی یہاں پر ایک بات یاد آ رہی ہے جو انہوں نے اسرائیل کی تاسیس کے پچاس سال پورے ہونے کی پچاسویں سالگرہ کی مناسبت سے کہی تھی اور بہت ہی تذبذب کے ساتھ یہ سوال کیا تھا ’’ کیا اسرائیل تمام تر اختلافات اور شگافوں کے سایہ میں جب کہ اسکے اطراف کی فضا اور اسکے شرائط بھی بدل رہے ہیں اپنی تاسیس کی صد سالا یادگار منا سکے گا ؟ کیا اسرائیل اپنے وجود میں آنے کے سو سال مکمل ہو جانے کا جشن منا سکے گا ؟‘‘۔

ہمیں یقین نہیں کہ نیتن یاہو کی جانب سے حزب اللہ لبنان کو دی جانے والی دھمکی کارگر ثابت ہو اور لبنان یا لبنانیوں کو ڈرا سکے ، اس لئے کہ اسرائیل کی فوج اسلامی مزاحمتی محاذ سے تین مرتبہ بری طرح شکست کھا چکی ہے ، اور جنگ کے الٹے ہی نتائج سامنے آئے ہیں چنانچہ اسکے منفی اثرات و نتائج نے اسرائیل ہی کو متاثر کیا ہے اور منفی اثرات اسی کا مقدر بنے ہیں۔

جہاں تک جنگ کی بات ہے تو سید حسن نصر اللہ جنگ نہیں چاہتے اور نہ ہی ہم یہ مانتے ہیں کہ نیتن یاہو جنگ کے طرفدار ہوں لیکن یہ جنگ ناگزیر ہے

اب یہاں پر سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا اسرائیل ایک ایسے جنگل میں جہاں چاروں طرف سے اسے سیکڑوں میزائیلوں نے گھیر رکھا ہو ، معمول کے مطابق تحفظ و ثبات کے ساتھ جی سکتا ہے ؟ جبکہ اب دور بدل چکا ہے اور امریکہ کی ٹیکنالوجی اور اسکی ناقابل شکست فوج پہلے کی طرح اسرائیل کو تحفظ فراہم کرنے کا دم خم کھو چکی ہے اور اب اسرائیل کی حفاظت اس کے بس میں نہیں۔

یہی وجہ ہے کہ نیتن یاہو نے اپنے بیانات میں کوشش کی کہ حسن نصر اللہ کی گفتگو کی بنا پر جو تشویش اسرائیلی باشندوں کو لاحق ہوئی ہے اسے کم کیا جائے اور اسی وجہ سے نیتن یاہو نے اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی کاروائیوں پر اپنی فوج کی پیٹھ تھپتھپانے کے سوا کچھ نہ کیا اور فخریہ انداز میں اسرائیل کی جانب سے چنددہائیوں قبل حزب اللہ کی جانب سے کھودی جانے والی سات سرنگوں کے چند دنوں قبل انہدام کو ہی بڑھا چڑھا کر پیش کیا اور اسکے علاوہ نیتن یاہو کے پاس کچھ نہ تھا جس کے ذریعہ وہ اپنے عوام کے ذہن میں قائم خدشات کو دور کرتے جبکہ نیتن یاہو کہ جنہیں اپنی ذہانت اور چالاکی کا بھی بہت دعوی ہے یہ بھول گئے کہ یہ سرنگیں تو حزب اللہ کا پرانا ہتھیار ہیں جبکہ اپنے ہدف تک مار کرنے والی میزائلز اور پھٹ پڑنے والے ڈرون اور جدید ٹکنالوجی نے اب ان سرنگوں کی جگہ لے لی ہے اور اس وقت حزب اللہ کی دفاعی طاقت اسرائیل کی اس ہوائی برتری سے کہیں زیادہ جس نے عرب افواج کے ساتھ اس سے پہلے کی جنگوں میں ایک فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا اتنا اشارہ کرنا کافی ہوگا کہ نیتن یاہو کی وحشت تو حماس اور جہاد اسلامی تحریک سے بھی اس قدر ہے کہ جب شہید محمود الادہم کو غزہ پٹی کی شمالی سرحد پر گولی مار کر شہید کر دیا گیا اور اسرائیل کو حماس و جہاد اسلامی کی جانب سے انتقام کا خطرہ لاحق ہوا تو اسی متکبر اور زور زبردستی کو اپنی خو بنالینے والے وزیر اعظم نے اس پر معافی تک مانگ لی اور معذرت کے ذریعہ یہ بتانے کی کوشش کی کہ اس ظلم و جنایت کا ارتکاب جان بوجھ کر نہیں کیا گیا تھا بلکہ یہ غلطی کی بنا پر ہوا تھا ، چنانچہ نہ صرف نیتن یاہو نے معافی مانگی بلکہ فورا ہی مصر سے ثالثی کا کردار نبھانے کا مطالبہ کرتے ہوئے یہ درخواست کی کہ فلسطینیوں سے کہا جائے کہ وہ انتقامی کاروائی نہ کریں۔

نیتن یاہو کی پہچان کب سے ایسی ہے کہ لوگ انہیں معذرت طلب کرنے والے اور اپنی غلطی کو ماننے والے انسان کے طور پر جاننے لگیں ، نیتن یاہو نے اس سے قبل کب کسی کو شہید کرنے کے بعد کہا ہے کہ یہ غلطی سے ہو گیا ، اسکی مثال اس سے پہلے تو نہیں ملتی لیکن ہاں ابھی کچھ ہی عرصہ پیشتر نیتن یاہو کی طرف سے کہا گیا کہ حماس کے ایک کارکن کو اسرائیلی فوجی نے غلطی سے نشانہ بنا کر شہید کر دیا ، لہذا یہ سوال اٹھتا ہے کہ نیتن یاہو کو کب سے معافی کی ضرورت پڑنے لگی کہ وہ بیچ میں کسی کو واسطے و ثالثے کا کردار نبھانے کے لئے کہے۔ ظاہر ہے کہ یہ غلطی ماننا نہیں ہے بلکہ اس ڈر سے دوسروں کو واسطہ بنانے کی بات ہو رہی ہے کہ ایسا نہیں کیا تو اسلامی مزاحمت کے محاذ کی جوابی کاروائی سے بچ پانا ناممکن ہو جائے گا ، لہذا یہ واسطہ بنانا اس لئے ہے کہ بھوکے اور محاصرہ ہوئے غزہ کی پٹی سے جوابی کاروائی کے طور پرآنے والی اسلامی مزاحمت کی تباہ کن میزائلوں کے حملوں کو روکا جا سکے ۔

یہاں پر یہ بات نہیں بھولنا چاہیے کہ حسن نصر اللہ کی خود اعتمادی انکے ایمان سے فروغ حاصل کرتی ہے انکے اس اعتماد سے ماخوذ ہے جو انہیں اسلامی مزاحمت کے محاذ پر حاصل ہے یہی وہ چیز ہے جو حسن نصر اللہ کے اعتماد کو جہاں ظاہر کرتی ہے اور انکے نظریات و انکے عمل سے جھلکتی ہے وہیں اس بات کا سبب بھی ہے کہ مد مقابل اپنے دشمن کو تشویش میں مبتلا کر دے چنانچہ اسی وجہ سے اسرائیلی ڈر اور خوف کے ساتھ کشمکش کا شکار ہیں اور اب یہ خود اعتمادی سرحدوں سے پرے پھیل چکی ہے ، لبنان ، عراق ، شام سے غزہ پٹی تک اس خود اعتمادی کے اثرات کو دیکھا جا سکتا ہے وہ مقامات جہاں اسلامی مزاحمتی تحریک سے جڑے گروہ پوری طاقت و توانائی کے ساتھ دشمن کے مقابل ڈٹے ہوئے ہیں ، ایک بار پھر دشمن کے سامنے ڈٹ جانے اور شکست تسلیم نہ کرنے کا کلچر متعدد مزاحمتی محاذوں میں راسخ ہو گیا ہے اور اس نے دشمن کے حملوں کے سامنے ایک ایسی سپر قائم کر دی ہے جس کے سبب دشمن حملوں سے ڈرتا ہے ، زمانہ بدل رہا ہے اسرائیل آج اس صورت حال کا شکار ہے کہ جنگ کے نام سے ہی اس پر لرزہ اور خوف طاری ہو جاتا ہے جنگ سے آج اسرائیل خائف ہے اور جنگ کا نام آتے ہی اسکے ہاتھ پیر پھولنے لگتے ہیں اور پورے وجود پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے ۔

Read 1026 times