تحریر: نذر حافی
فوجی اڈہ کیا ہوتا ہے؟ بہت سارے لوگوں کے ذہنوں میں لارہ اڈے جیسی ہی کوئی چیز ہوتی ہے، کچھ کے اذہان میں فوجی اڈہ ایک ممنوعہ علاقہ ہوتا ہے، جس میں کچھ فوجی بیرکیں ہوتی ہیں، وہاں فوجی حضرات رہتے ہیں، کھاتے پیتے اور ورزش وغیرہ کرتے ہیں۔ المختصر جتنی جس کی معلومات ہوتی ہیں، ویسا ہی اس کے ذہن میں فوجی اڈے کے بارے میں نقشہ بھی ہوتا ہے۔ ایرانیوں نے کہا تھا کہ ہم سخت انتقام لیں گے، انہوں نے یہ انتقامی حملہ چھپ چھپا کر، اچانک اور خاموشی سے نہیں کیا بلکہ پانچ دن اور رات مسلسل وارننگ دینے کے بعد عین رات کے اسی وقت یہ حملہ کیا، جس وقت قاسم سلیمانی پر حملہ کیا گیا تھا۔ اگر یہ حملہ چھپ چھپا کر ہوتا تو پھر شاید امریکیوں میں اور ایرانیوں میں اس حوالے سے کوئی فرق نہ ہوتا۔
دوسری اور اہم بات یہ ہے کہ عراق میں حشد الشعبی کے ذریعے پہلے دن سے عراقی عوام کو امریکی اڈوں سے دور رہنے کی بار بار تاکید کی گئی تھی۔ جس کے نتیجے میں کوئی ایک بے گناہ عراقی بھی ہلاک نہیں ہوا اور اس بات کی حکومت عراق نے بھی تصدیق کی ہے۔ تیسری اور اہم بات جو دیکھنے میں آئی وہ یہ کہ ایران نے حملے سے پہلے عراق کی سالمیت اور خود مختاری کا احترام کرتے ہوئے اور سفارتی آداب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے عراقی حکومت سے باقاعدہ اجازت لی، یعنی امریکہ کی طرح نہیں کہ جہاں چاہا، وہاں حملہ کر دیا اور جتنے لوگ مرتے ہیں، مر جائیں۔
اب سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایران نے عین الاسد کے فوجی اڈے کو ہی نشانہ کیوں بنایا!؟ حالانکہ اس سے پہلے اور نزدیک ترین امریکی اڈے موجود تھے، جو آسانی سے نشانہ بن سکتے تھے۔ جو لوگ جغرافیے، تحقیق اور جنگی تدابیر پر نظر رکھتے ہیں، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ فوجی اڈہ عراق کے مغرب میں، صوبہ الانبار میں اور شام کی سرحد کے بالکل نزدیک واقع ہے۔ یعنی ایران نے تقریباً سب سے دور ترین اڈے کو نشانہ بنایا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ اس قدر دور ترین مقام پر حملہ کرنے کی ضرورت کیا تھی؟ اس حملے سے ایران نے جہاں ایک طرف امریکہ اور اسرائیل کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ اپنی عسکری طاقت کے حوالے سے جب عین الاسد کو ویران کرسکتا ہے تو باقی اڈے تو اس کی بغل میں ہیں۔ دوسری بات جو عین الاسد پر حملے کا باعث بنی، وہ خود عین الاسد کی اہمیت ہے۔
عین الاسد عراق میں امریکہ کا سب سے مرکزی، مضبوط اور جدید ترین ہتھیاروں سے لیس فوجی اڈہ تھا۔ اس کی مساحت اور رقبہ پچاس کلومیٹر مربع میل ہے۔ اس میں حملے کے وقت چار ہزار امریکی فوجی، بیس ہیلی کاپٹر اور تیس لڑاکا تیارے موجود تھے۔ صرف یہی نہیں، یہ اڈہ دراصل امریکیوں کی جنت کہلاتا تھا، اس میں ایک ایسا شہر آباد تھا، جس میں عیش و نوش اور دنیا کی ہر عیاشی کا سامان تھا، یہی وہ اڈہ ہے، جہاں پر داعش اور اس طرح کے دیگر دہشت گرد ٹولوں کو تربیت دینے کے بعد آگے دھکیلا جاتا تھا، اس اڈے میں دہشت گردوں کے لئے ایک شاندار مسجد بھی بنائی گئی تھی۔ اس اڈے کی اہمیت اور طاقت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ امریکہ کی اعلیٰ شخصیات جب عراق آتی تھیں تو اسی اڈے میں قیام پذیر ہوتی تھیں۔ حتیٰ کہ گذشتہ سال ٹرمپ بھی اپنی اہلیہ کے ساتھ جب عراق آیا تھا تو اسی اڈے پر اس کا استقبال کیا گیا تھا اور یہی اڈہ اس کی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ چنانچہ اس اڈے کو عراق میں امریکہ کا دارالحکومت کہا جاتا تھا۔
جیسا کہ ٹرمپ نے کہا تھا کہ قاسم سلیمانی کے قتل کا حکم میں نے جاری کیا تھا، اس حکم پر عملدرآمد کا پیغام اسی عین الاسد کے اڈے سے اجرا کیا گیا تھا۔ چنانچہ عین الاسد کی یہ اہمیت خود یہ تقاضا کرتی تھی کہ اگر قاسم سلیمانی کا انتقام لینا ہے تو پھر کم از کم عین الاسد کے اڈے سے انتقام شروع کیا جائے۔ یہاں تک ایک بات ہر عقل مند اور سمجھدار آدمی کو سمجھ آتی ہے کہ ایرانیوں نے سخت انتقام کا آغاز ضرور کیا ہے، لیکن ایرانی اندھے انتقام کے قائل نہیں ہیں، ایرانیوں کا یہ عسکری انتقام اپنی جگہ جاری رہے گا، لیکن دراصل اقتصادی، سیاسی، ثقافتی، سفارتکاری اور اسلامی وحدت کے میدانوں میں امریکی و اسرائیلی مفادات کا صفایا کرنے میں ایرانی تیزی سے کامیابی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ امریکی و اسرائیلی مفادات کے خلاف مختلف میدانوں میں ایران کی اس وقت کیا صورتحال ہے، اس پر ان شاء اللہ اگلی قسط میں بات کریں گے۔