Print this page

یہ درحقیقت امریکہ کا اصلی چہرہ ہے

Rate this item
(0 votes)
یہ درحقیقت امریکہ کا اصلی چہرہ ہے

تحریر: مرضیہ ہاشمی (امریکی نژاد صحافی)

امریکہ میں نسل پرستی کا مسئلہ آج اور کل کا نہیں بلکہ یہ ملک گذشتہ 400 سال سے اس مصیبت میں مبتلا ہے۔ البتہ ہر دور میں نسل پرستی ایک خاص شکل میں ظاہر ہوتی رہی ہے۔ مثال کے دور پر دور حاضر میں غلامی کا تصور نہیں پایا جاتا کیونکہ قانونی طور پر اسے ممنوع قرار دیا جا چکا ہے لیکن اس کے باوجود نسل پرستی مختلف صورتوں میں امریکی معاشرے میں پائی جاتی ہے۔ اس بات کی تصدیق کیلئے بے شمار مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ اس وقت امریکہ میں چھوٹی سطح کے پیشوں میں مصروف شہریوں کی زیادہ تر تعداد سیاہ فام افراد پر مشتمل ہے۔ البتہ کامیاب سیاہ فام شہری بھی دیکھے جا سکتے ہیں جو میری نظر میں استثنائی شمار ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے امریکہ کے سفید فام شہریوں میں خودپسندی کا جذبہ پایا جاتا ہے جو ماضی میں بھی تھا اور آج بھی موجود ہے۔ بعض سفید فام شہریوں کے دل میں سیاہ فام شہریوں کے خلاف شدید نفرت پائی جاتی ہے۔ جب روایتی طور پر سفید فام شہری اس گمان کا شکار ہوں کہ وہ سیاہ فام شہریوں سے بہتر ہیں تو اس کا نتیجہ یہی ہو گا جو ہم آج مشاہدہ کر رہے ہیں۔

جب یورپی شہری سرخ فام افراد کی سرزمین امریکہ میں داخل ہوئے تو انہوں نے اس سرزمین کے حقیقی باسیوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا؟ ان میں سے بعض کا تصور یہ ہے کہ دیگر نسلیں کوئی قدر و قیمت نہیں رکھتیں یا کم از کم یہ کہ ان کے برابر نہیں ہو سکتیں۔ دوسری طرف امریکی ذرائع ابلاغ میں سیاہ فام افراد کے خلاف انتہائی زہریلا پروپیگنڈہ پایا جاتا ہے۔ یہ ذرائع ابلاغ مسلسل لوگوں کے ذہنوں میں یہ تاثر ڈالتے رہتے ہیں کہ سیاہ فام شہری مجرم، بے وقوف اور جرائم پیشہ ہیں اور وہ زیادہ سے زیادہ ایک اچھا باسکٹ بالسٹ بن سکتے ہیں۔ امریکی میڈیا میں جاری یہی منفی پروپیگنڈہ ملک میں نسل پرستانہ سوچ پیدا ہونے اور فروغ پانے کا باعث بنا ہے۔ جب ہم امریکہ کے بارے میں گفتگو کرنا چاہتے ہیں تو بہت سے اسباب اور عوامل پر توجہ دینا پڑتی ہے جس کے باعث موضوع پیچیدہ ہو جاتا ہے اور حالات کا تجزیہ بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ امریکہ میں جاری موجودی احتجاجی تحریک میں سیاہ فام شہریوں کا سب سے بڑا مسئلہ ایک قابل اور واحد لیڈرشپ کا فقدان ہے۔ ایک اچھے اور قابل لیڈر کے بغیر ملکی سطح پر سرگرم سیاہ فام شہریوں میں اتحاد اور ہم آہنگی پیدا ہونا بہت مشکل ہے۔

امریکہ کی سکیورٹی فورسز نے ہر زمانے میں ایسے سیاہ فام شخص کو گرفتار کیا ہے جس کے بارے میں انہیں تھوڑا سا بھی شک تھا کہ اس میں لیڈرانہ صلاحیتیں پائی جاتی ہیں۔ حتی آج بھی اگر امریکہ کی سکیورٹی ایجنسیز کسی شخص پر حالیہ احتجاجی تحریک کا لیڈر ہونے کا شبہ کریں تو اسے فوراً گرفتار کر لیں گی۔ لہذا موجودہ احتجاجی تحریک کے مستقبل کے بارے میں کچھ بھی کہنا بہت مشکل ہے۔ لیکن موجودہ احتجاجی تحریک کئی لحاظ سے سابقہ تحریکوں سے مختلف ہے اور اس کی کئی وجوہات ہیں۔ کرونا وائرس کے پھیلاو کے باعث معرض وجود میں آنے والی بے روزگاری اور دیگر شدید مالی مشکلات نے سیاہ فام مزدوروں کو شدید دباو کا شکار کر ڈالا ہے جس سے تنگ آ کر وہ سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ دوسری طرف کرونا وائرس کے نتیجے میں مرنے والے افراد میں سیاہ فام شہریوں کی تعداد سفید فام شہریوں سے کہیں زیادہ ہے اور اس وجہ سے بھی سیاہ فام شہری حکومت کی جانب سے اپنے ساتھ امتیازی سلوک کا احساس کر رہے ہیں۔ یہ تمام وجوہات مل کر سیاہ فام شہریوں اور نچلے طبقے کے افراد میں شدید غم و غصے کا باعث بنے ہیں اور اب یہ لاوا آتش فشان کی صورت اختیار کر چکا ہے۔

امریکہ کے اکثر ذرائع ابلاغ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مخالف ہیں لہذا وہ بھرپور انداز میں امریکہ کی مختلف ریاستوں میں جاری عوامی احتجاج کو کوریج فراہم کر رہے ہیں۔ یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ سیاہ فام شہریوں کو نظرانداز کرنے میں ریپبلکن پارٹی اور ڈیموکریٹک پارٹی کے درمیان بھی کوئی فرق نہیں اور دونوں پارٹیاں نسلی تعصب کا شکار ہیں۔ امریکہ کے ریاستی اداروں میں نسلی تعصب پایا جانا، سفید فام طبقے کا خود کو برتر تصور کرتے ہوئے سیاہ فام طبقے کو گھٹیا اور پست جاننا اور موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے نسل پرستانہ بیانات بھی موجودہ احتجاجی تحریک کے معرض وجود میں آنے میں موثر اسباب جانے جاتے ہیں۔ حال ہی میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ٹویٹر پیغام میں مظاہرین کو دھمکی دی ہے کہ اگر انہوں نے احتجاج جاری رکھا تو ان پر فائرنگ کا حکم دیا جائے گا۔ واضح ہے کہ اس قسم کے بیانات مزید عوامی اشتعال کا باعث بنتے ہیں اور عوامی احتجاج میں مزید شدت آتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ سوچے سمجھے بغیر بات کرتا ہے۔ امریکہ کا اصلی چہرہ یہی ہے۔ امریکہ کے تمام سیاست دان اسی انداز میں سوچتے ہیں البتہ ڈونلڈ ٹرمپ اور دوسروں میں فرق یہ ہے کہ ٹرمپ اپنی سوچ ظاہر کر دیتا ہے جبکہ باقی منافقت سے کام لیتے ہیں۔

Read 726 times