Print this page

امریکی حکومت کی اصلیت

Rate this item
(0 votes)
امریکی حکومت کی اصلیت

عدالت، انسانی حقوق، آزادی اور اس جیسے دسیوں دیگر مفاہیم ہر دور میں تمام انسانوں کی نظر میں پسندیدہ، دل موہ لینے والے اور اعلی قسم کے مفاہیم رہے ہیں۔ بڑی تعداد میں دانشور حضرات نے بھی اپنی تحریروں، تقریروں اور کلاسوں میں ان مفاہیم پر سیر حاصل گفتگو کی ہے اور روشنی ڈالی ہے۔ ان تمام متون اور مطالب کا مطالعہ کر کے انسان اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ ان مفاہیم سے متعلق قوانین کو صحیح انداز میں لاگو کر کے مطلوبہ اور آئیڈیل معاشرے تک پہنچا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر "انسانی حقوق" کا تصور ایسے مفاہیم میں شمار ہوتا ہے جو دوسری عالمی جنگ کے بعد پوری عالمی برادری کی جانب سے ایک مطالبے کی صورت میں سامنے آیا۔ بہت جلد اقوام متحدہ میں "ہیومن رائٹس کمیشن" نامی ادارہ تشکیل دیا گیا اور اس میں انسانی حقوق سے متعلق بنیادی اور ضروری قوانین بنائے گئے۔ ان قوانین کو اقوام متحدہ کی جانب سے جاری ہونے والے "انسانی حقوق کے بیانیے" میں مقدمے کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا تھا: "بنی نوع انسان کے ہر فرد کی ذاتی عزت و احترام اور تمام انسانوں کے مسلمہ اور مساوی حقوق کو قانونی درجہ فراہم کرنا دنیا میں آزادی، عدالت اور امن کے قیام کی بنیاد ہے۔"

ہیومن رائٹس کمیشن کی تشکیل کے بعد وقفے وقفے سے انسانی حقوق کے بیانئے پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کیلئے مختلف قسم کے دیگر معاہدے بھی انجام پاتے رہے ہیں۔ شہری و سیاسی حقوق سے متعلق بین الاقوامی معاہدے اور اقتصادی، سماجی اور ثقافتی حقوق کے بارے میں بین الاقوامی معاہدے سے مربوط انجام پانے والے بعض اہم معاہدے یہ ہیں: ہر قسم کے نسل پرستانہ امتیازی سلوک کے خاتمے کا کنونشن (1966)، خواتین کے خلاف ہر قسم کے امتیازی سلوک کے خاتمے کا کنونشن (1979)، ٹارچر کے خلاف اقوام متحدہ کا کنونشن (1984)، بچوں کے حقوق کا کنونشن (1989)، معذور افراد کے حقوق کا کنونشن (2006)، مہاجر مزدوروں اور ان کے اہلخانہ کے حقوق کے بارے میں بین الاقوامی کنونشن (1990)۔ اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے قوانین کی منظوری، اس قدر معاہدوں کی تشکیل اور دنیا کے تمام ممالک کو ان معاہدوں کی پاسداری کا پابند کرنے کے باوجود عالمی استکباری قوتیں کھلم کھلا ان قوانین کو روندتی چلی آئی ہیں اور اس کی پابندی کرنے سے دریغ کرتی آئی ہیں۔ موجودہ دور میں خاص طور پر مغربی ایشیا کے حالات میں ان معاہدوں کی کھلی خلاف ورزی کا بآسانی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔

عراق، یمن، شام اور افغانستان پر فوجی جارحیت اور ان ممالک کے ہزاروں بیگناہ شہریوں کا لقمہ اجل بن جانا، اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کی جانب سے ریاستی دہشت گردی کو فروغ دینا، فلسطین اور لبنان کی مظلوم قوموں کے خلاف غاصب صہیونی رژیم کی کھلی جارحیت، غزہ کی پٹی میں مسلسل عام شہریوں کا قتل عام، حریت پسند قوموں کے خلاف امریکہ کی جانب سے شدید اقتصادی پابندیاں عائد کئے جانا، خاص طور پر کرونا وائرس کے پھیلاو سے پیدا شدہ حالات میں ایران پر دوائیوں برآمد کرنے پر پابندی لگانا اور حال ہی میں امریکہ کے سیاہ فام شہری جرج فلائڈ کا پولیس کے ہاتھوں قتل اور انسانیت کے خلاف جرائم کے ایسے ہی ہزاروں واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسانی حقوق، عدالت، آزادی وغیرہ صرف کاغذ پر لکھے گئے خوبصورت قوانین کی حد تک ہی رہ گئے ہیں۔ یہ الفاظ صرف تقریروں یا کلاس میں لیکچرز کے کام آتے ہیں جبکہ باہر کی دنیا میں بھی صرف سفارتی سرگرمیوں اور سیاسی بیانات کی حد تک محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔ اکثر تسلط پسند اور استکباری ممالک کی حقیقت اور اصلیت وہی ہے جو آج دکھائی دے رہی ہے۔ یہ حقیقت گذشتہ کئی سالوں سے مخلص رہنماوں کی جانب سے بیان کی جا رہی تھی لیکن مغرب نواز حلقے اسے جھٹلاتے رہے ہیں۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کا شمار ایسے ہی مخلص رہنماوں میں ہوتا ہے جنہوں نے دنیا والوں کو امریکہ کا حقیقی چہرہ دکھانے کی کوشش کی ہے۔ آپ 3 جون کے دن امام خمینی رح کی برسی کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "آپ آج امریکہ کی آشفتہ صورتحال دیکھ رہے ہیں۔ امریکہ کے مختلف شہروں اور ریاستوں میں دکھائی دینے والی صورتحال کچھ حقائق کا شاخسانہ ہے جن پر ہمیشہ پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ نئی چیز نہیں ہے بلکہ حقائق کا آشکار ہونا ہے۔ اسی طرح جیسے ایک حوض کی تہہ میں بیٹھا گند ابھر کر اوپر آتا ہے۔ یہ بات کہ ایک سفید فام پولیس والا انتہائی بے رحمی سے سیاہ فام شخص کی گردن پر گھٹنا دے کر بیٹھ جائے اور اس قدر دباو ڈالے کہ اس کی موت واقع ہو جائے اور اردگرد کھڑے پولیس والے تماشائی بن کر دیکھتے رہیں کوئی نئی نہیں ہے بلکہ یہ امریکہ کی اصلیت ہے۔ یہ وہ کام ہے جو اب تک امریکی حکام پوری دنیا سے کرتے آئے ہیں۔ افغانستان کے ساتھ انہوں نے یہی کیا ہے، عراق کے ساتھ بھی، شام کے ساتھ بھی یہی کچھ کیا اور اس سے پہلے بھی دنیا کے بہت سے ممالک جیسے ویتنام سے یہی کام کر چکے ہیں۔ یہ امریکی حکومت کی اصلیت ہے۔"

Read 696 times