Print this page

آمد مصطفیٰ ؐ مرحبا مرحبا

Rate this item
(0 votes)
آمد مصطفیٰ ؐ مرحبا مرحبا

تحریر: سید اسد عباس

افضل الاناس، خیر البشر، ختم الرسل، رحمت دو جہاں، ہادی انس و جاں، داور بے کساں، منجی بشر، احمد، محمد، مصطفیٰ، طہ، یس، مزمل جس کا خود خالق کائنات ثناء خواں ہے، اس کی بھلا کوئی انسان کیا تعریف و توصیف بیان کرے۔ ہماری زبان اور قلم میں وہ سکت ہی نہیں کہ اس ہستی کے وصف کو بیان کرسکیں۔ ممدوح خدا ہونا ہی وہ وصف ہے کہ پوری انسانیت اس ہستی کے گن گاتی رہی۔ ماہ ربیع الاول کائنات کی اس بہار کی آمد کا مہینہ ہے۔ یہ اس گل سرسبد کے کھلنے کا موسم ہے، جس کی خوشبو نے طول تاریخ میں اقوام عالم کو پاکیزگی اور لطافت سے معطر کر دیا۔ یہ اس نور کے ظہور کی گھڑی ہے، جس نے دنیا کے گوش و کنار کو توحید کی کرنوں سے روشن کر دیا۔ اہل ایمان کے دل اس مبارک گھڑی میں خوش کیوں نہ ہوں۔؟ کیوں نہ اس بدر کے طلوع کا جشن منائیں اور خوشی کے عالم میں گنگناتے پھریں:
طَلَعَ الْبَدرُ عَلَیْنَا
مِنْ ثَنِیّاتِ الْودَاعٖ
وَجَبَ الشّْکرُ عَلَیْنا
مَا دَعَا لِلّٰہِ دَاعٖ 

ہم پر وداع کی گھاٹیوں سے چودھویں رات کا چاند طلوع ہوگیا۔ ہم پر (خدا کا) شکر لازم ہے، جب تک اللہ کو پکارنے (دعا کرنے) والا کوئی بھی اْسے پکارتا رہے۔

کوئی ناہنجار اگر اپنی لاعلمی، جہالت اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے اس بدر منیر کی جانب رخ کرکے بے وقوفانہ طرز عمل اختیار کرے، ان کی توہین کرے تو اس کے متعلقین کو ضرور ایسے شخص کے ذہن کا علاج کروانا چاہیئے، جیسا کہ ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے فرانس کے صدر میکرون کو کہا۔ میکرون کے حالات زندگی اور اپنی ہی استانی سے برس ہا برس کا معاشقہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ ذہنی طور پر کس سطح کا انسان ہے۔ ایسا شخص اگر ختمی مرتبت، اسلام یا مسلمانوں کے بارے میں اظہار نفرت اور رذالت کرے تو ہمیں قطعاً افسوس نہیں ہونا چاہیئے۔ افسوس تو یورپ اور مغرب کے ان (گنی پگز) نما انسانوں پر ہے، جو لاعلمی میں چاند کو سیاہ کہنے اور کرنے کی ناکام کوششیں کر رہے ہیں۔ اگر اہل مغرب رسالت ماب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بارے توہین کا ارتکاب کرنے سے پہلے اپنے ہی فلاسفہ، اہل علم اور دانشوروں کے اس ہستی کے بارے بیانات کو پڑھ لیتے تو شاید اس اتھاہ پستی میں نہ گرتے۔

ان کا مسئلہ نبی کریم ؐ ہیں یا مسلمان، اسلام ہے یا خود ان کی اپنی کوئی مشکل، اس سے قطع نظر کسی بھی دین کے مقدسات کی توہین انسانیت کو زیب نہیں دیتی۔ میکرون کو ذہنی مریض کہنے پر فرانسیسی حکومت کی بے چینی اور حکومتی سطح پر اس کا اظہار اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ مسلمہ مقدسات کی توہین کوئی بھی گوارا نہیں کرتا۔ اگر میکرون فقط فرانس کا صدر ہونے کے سبب لائق احترام ہے تو کروڑوں انسانوں کا محبوب، جس کا قرب اور نسبت پانے کی آرزو میں اس پر جان وار دینا ان کے پیروکار اپنے لیے سبب افتخار سمجھتے ہیں، ان کے بارے میں نامناسب الفاظ کا استعمال، ان کے توہین پر مبنی کارٹون بنانا کیسے روا ہے۔ مسلمان کسی انسان کو بے خطا قتل کرنا جائز نہیں سمجھتا، تاہم ہٹ دھرمی اس حد تک بڑھ جائے کہ مسلسل ناانصافی کی جائے، آزادی اظہار کے باوجود ایک موضوع پر بات کرنا جرم ہو جبکہ دوسرا موضوع جو ایک دین کے مقدسات میں بھی شامل ہے، اس کو اچھالا جائے تو سراسر بدنیتی اور مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکانے کی مذموم کوشش ہے جس کا ردعمل بدیہی ہے۔

اگر یورپ کو اپنے معاشرے میں امن و چین چاہیئے تو اسے مقدسات دین کی توہین کے مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا ہوگا۔ ہولوکاسٹ کی مانند تمام ادیان کے مقدسات کی توہین کو بھی قانون کے لیے قابل گرفت بنانا ہوگا۔ اگر ہولوکاسٹ پر گفتگو، تحقیق اور اشاعت پر پابندی سے آزادی اظہار کو کوئی گزند نہیں پہنچتا تو کسی بھی مذہب کے مقدسات کی توہین سے بھی ایسا نہیں ہونا چاہیئے۔ ہمارا مطالبہ تحقیق و تنقید پر پابندی نہیں بلکہ فقط توہین سے اجتناب ہے، جو کہ لاکھوں انسانوں کی دل آزاری کا باعث بنتا ہے۔ اگر یورپ اور مغربی ممالک نے اس مسئلے پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا تو ان کے معاشرے میں ایسی صورتحال جنم لے گی، جس سے نمٹنا ان کے بس میں نہیں ہوگا۔

اقوام مشرق اور مسلمانوں کو بھی اس سلسلے میں سنجیدہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ فرانس کے بہت سے مفادات مسلمان ممالک سے وابستہ ہیں، امریکہ اور کینڈا کے بعد مسلم ممالک کو اسلحہ سپلائی کرنے والوں میں فرانس کا نام آتا ہے۔ یقیناً اسے بھی اسلامی ممالک کے ساتھ تجارت کی ضرورت ہے۔ ایسے میں فرانس و دیگر یورپی ممالک کو یہ باور کروانے کی ضرورت ہے کہ مسلمان کسی صورت بھی اپنے نبی کریم ؐ کی توہین برداشت نہیں کرسکتے نیز ان ممالک کو یہ بھی باور کروانے کی ضرورت ہے کہ مسلمان شہریوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا معاندانہ رویہ باہمی تعلقات کو بگاڑنے کا کام کرے گا۔ اس موقع پر علامہ محمد اقبال کا شعر مسلم حکمرانوں کو یاد کروانے کی ضرورت ہے، جس میں علامہ نے عشق رسولؐ کو دلوں پر حکمرانی کا نسخہ بتایا ہے:
کی محمد ؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

Read 838 times