Print this page

امریکہ کے طالبان کے ساتھ مذاکرات امریکہ کی شکست خوردہ پالیسی کا مظہر

Rate this item
(0 votes)
امریکہ کے طالبان کے ساتھ مذاکرات امریکہ کی شکست خوردہ پالیسی کا مظہر

امریکہ نے افغانستان میں ایک کھرب ڈالر سے زائد سرمایہ صرف کیا اور آج وہ  شکست، ناکامی  اور مایوسی کی حالت میں ان افراد کے ساتھ دوستی اور مذاکرات کے لئے مجبور ہوگیا جن کے سر پر اس نے انعام مقرر کیا تھا۔

امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپئو نے قطر میں طالبان کے نمائندوں سے ملاقات اور گفتگو کی۔ وہ لوگ جو حالات سے زیادہ باخبر نہیں ہیں ممکن ہے کہ وہ اس خـبر سے یہ سمجھتے ہوں کہ امریکہ افغانستان میں قیام امن کے سلسلے میں تلاش و کوشش کررہا ہے لیکن جو لوگ افغانستان کے مسائل سے آگاہ ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ خـبر امریکہ کی افغانستان میں 20 سالہ شکست اور ناکامی کا واضح اور ٹھوس ثبوت ہے۔

امریکہ نے 2001 میں دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے بہانے افغانستان پر فوجی یلغار کا آغاز کیا، نہ امریکہ افغانستان میں دہشت گردی کو ختم کرسکا اور نہ القاعدہ اور طالبان کے دہشت گردوں کو تسلیم کرنے پر مجبور کرسکا۔

صدائے افغان خبررساں ایجنسی کے سربراہ سید عیسی حسینی مزاری نے مہر نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ افغانستان میں صلح کے ذریعہ انتخاباتی فائدہ اٹھانا چاہتے تھے اور نیز وہ طالبان کو امریکہ کے دشمنوں کے کیمپ میں جانے سے روکنا چاہتے تھے اور ٹرمپ کی شکست کی صورت میں صلح کا مصرف ختم ہوجائےگا۔ انھوں نے کہا کہ امریکہ کا اصلی ہدف افغانستان پر اپنا تسلط قائم رکھنا ہے وہ افغانستان میں دہشت گردوں کی پرورش کا سلسلہ جاری رکھےگا اور افغانستان میں امریکی فوج کی موجودگی باقی رہےگی۔

افغانستان کے فوجی اور سیاسی تجزیہ نگار محمد حسن حقیار نے مہر خبررساں ایجنسی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے ہمسایہ اور علاقائی ممالک اس نتیجے تک پہنچ گئے ہیں کہ امریکہ اور نیٹو افغانستان میں اپنی فوجی اور خفیہ ایجنسیوں کی موجودگی کے ذریعہ اپنے ناجائز اور معاندانہ اہداف تک پہنچنے کی کوشش کررہے ہیں اور امریکہ کی طرف سے افغانستان میں داعش کی بھر پور حمایت اس کا ٹھوس ثبوت ہے۔

اس نے امریکہ کے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ جانتا ہے کہ وہ افغانتسان میں جنگ نہیں جیت سکتا اس لئے اس نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا ہے۔

سیاسی تجزيہ نگار عبدالاحد برین مہر کا کہنا ہے کہ امریکہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے بہانے افغانستان میں داخل ہوا اور اس طرح اس کا مقصد روس، چین اور ایران جیسی طاقتوں پر قریبی نظر رکھنا ہے اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کا ایک ہدف اپنے حریفوں پر قریبی نگرانی رکھنا بھی ہوسکتا ہے۔

ذرائع کے مطابق ممکن ہے کہ امریکہ طالبان کے ذریعہ افغانستان میں ایک ایسی حکومت تشکیل دے جو امریکہ کے زیر نظر امریکی اہداف کے لئے کام کرنے کی پابند ہو۔

بہر حال امریکہ کا ہدف افغانستان سے آبرومندانہ طریقہ سے فوجی انخلا ہو یا افغانستان میں ایک کٹھ پتلی حکومت کا قیام ہو ان سب کے باوجود امریکی اقدام ایک کھرب ڈالر صرف کرنے کے قابل نہیں تھا۔

News Code 1904041
Read 603 times