Print this page

شہادت مبارک، انتقام سخت جاری رہیگا

Rate this item
(0 votes)
شہادت مبارک، انتقام سخت جاری رہیگا
انقلاب اسلامی ایران کے ممتاز ایٹمی سائنسدان محسن فخری زادہ کی شہادت بہت گراں ہے اور ہم اہل ایران کو تعزیت و تسلیت پیش کرتے ہیں، مگر یاد رکھیں کہ اہل ایران ہماری طرح اپاہج قوم نہیں کہ کسی ایک کے چلے جانے سے ان کے قدم ڈگمگا جائیں اور ہدف کو بھول جایں۔ یہ ہم ہیں کہ شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی اور شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے بعد خود کو بے بس محسوس کرتے ہیں، ہماری تنظیمیں جمود کا شکار ہوگئی اور ہمارے راہنما خود کو بچانے کیلئے محفوظ پناہ گاہوں کو ڈھونڈنے لگے۔ یہی فرق ہوتا ہے ایک قوم اور ایک ہجوم میں۔ ایرانی قوم ہیں ہجوم نہیں، وہ شخصیات تیار کرتے ہیں، ان کا انقلاب شہادتوں سے بھرپور ہے، ان کے قبرستان شہداء کے سرخ پرچموں سے آباد ہیں اور وہ اپنے شہداء کی قدر کرتے ہیں۔ اہل ایران غیر ملکیوں سے ایسے سودے نہیں کرتے کہ انہیں ہمیشہ ان کا محتاج رہنا پڑے بلکہ وہ ٹیکنالوجی حاصل کرتے ہیں اور خود رو کارخانے لگاتے ہیں، کیونکہ انہیں علم ہے کہ ان پر پابندیاں ہیں اور وہ ان پابندیوں میں جینا سیکھ چکے ہیں۔

شہادت ایسے مردان خدا کی دلی آرزو ہوتی ہے، کیا پتہ کہ شہید ہونے والا اس مقام شہادت کیلئے کتنا تڑپتا ہو۔ انقلاب کا ظہور، اس کی جدوجہد اور اس کی بقا کیلئے شہادتوں اور قربانیوں کی داستان اہل ایران کیلئے اسلام کے حقیقی چاہنے والوں کیلئے استقامت و شہامت کا باعث رہی ہیں، شہید محسن فخری زادہ کی شہادت اگرچہ معمولی نہیں، مگر انقلاب نے درس حریت کربلا سے حاصل کیا ہے۔ کربلا سے بڑھ کر کونسی قربان گاہ ہے، نہ ہوئی ہے اور نہ ہوسکتی ہے، ہاں یہ اس راہ کے راہرو ہیں، جو اپنی اپنی باری پر اس قربان گاہ میں اپنی قیمتی ترین متاع کو پیش کرکے متمسک ہو رہے ہیں۔ ایران کے ایٹمی سائنسدان اس سے قبل بھی اسرائیلی ایجنٹوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔ ایرانی سکیورٹی ایجنسیز نے دشمنوں کے بہت سے منصوبے ناکام بھی بنائے ہیں اور کئی بڑی سازشوں کو وقت سے پہلے روکا ہے۔

بعض احباب سوشل میڈیا پر اور تو کچھ نہیں کرتے تنقید کے سوا، لہذا ان کے سامنے اب سکیورٹی کی ناکامی اور اتنے بڑے بندے جسے اسرائیل واضح طور پر نشانے پر رکھے ہوئے تھا، اسے اس طرح آسانی سے نشانہ بنانا سوالیہ نشان بنا رہے ہیں۔ اس حوالے سے عرض ہے کہ شہید محسن فخری زادہ آج سے دشمن کے نشانہ پر نہیں تھے، یہ تو ہمیشہ ان کے نشانہ پر تھے۔ اتنا عرصہ آخر وہ کام کرتے رہے اور بہت سے اداروں سے وابستہ رہے، جہاں ان کا آنا جانا بھی ہوتا تھا تو آخر انہیں حفظ کیا گیا تھا۔ اس طرح کے سانحہ کا ہو جانا اگرچہ باعث حیرت ہے مگر نا ممکنات میں سے نہیں۔ چونکہ یہ کام داخلی طور پہ خریدے گئے ایجنٹوں اور غیروں کے نمک خواروں کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتا، جبکہ ایران نے انقلاب کے بعد فقط امریکہ یا اسرائیل کیساتھ دشمنی نہیں رکھی، تمام استعماری طاقتیں اور نام نہاد اسلامی ممالک بھی روز اول سے امریکہ اور اس کے بلاک کے ساتھ ہیں، جن کا واحد ایجنڈا انقلاب کو کمزور کرنا ہے۔

اگر ہم سکیورٹی کی بات کریں تو انقلاب دشمن ممالک میں مقاومت اسلامی کے فرزندان کی کارروائیاں جنہیں منصوبہ بندی کے باعث سامنے بھی نہیں لایا جاتا، مگر دونوں فریقین کو علم ہوتا ہے کہ وہ سامنے آجائیں تو جدید ترین ٹیکنالوجی کے حامل ان ممالک کا پول کھل جائے کہ یہ کیسے ممکن ہوسکا۔ اصل بات یہ ہے کہ کیا ایسے سانحات سے انقلاب جھکتا ہے یا اپنی طاقت و قوت کا اظہار کرتا ہے، اپنے ارادوں اور عزم کو ظاہر کرتا ہے اور اپنے منصبوں پر عمل کرتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس کا جواب یقیناً دیا جائے گا اور کھل کر دیا جائے گا۔ اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ حملے کے بعد انکار کیا جائے، البتہ جیسا کہ عالمی سطح پر یہ خبریں تواتر سے آ رہی تھیں کہ امریکہ اور اسرائیل نے ایران پر حملہ کی تیاری کر لی ہے اور مختلف بیسز پر اپنے طیاروں کو الرٹ کیا ہوا ہے، اسے بہانہ چاہیئے۔ یہ کارروائی ایران کے خلاف اس سازش کا حصہ معلوم ہوتی ہے کہ ایران اتنی بڑی شخصیت کا بدلہ ضرور لے گا اور اس جواز پر اسے حملہ کا نشانہ بنا دیا جائے۔

میرے خیال میں ایران کی قیادت بہت زیرک ہے، انہوں نے جنگ کو کیسے لڑنا ہے، جنگ جو جاری ہے، جب سے انقلاب آیا ہے، اسے ان حالات میں کونسا رخ دینا ہے، کونسا میدان سجانا ہے، ایران کی دور اندیش اور باحمیت قیادت بہت ہی بہتر جانتی ہے۔ لہذا یہ چٹ منگنی پٹ بیاہ والا معاملہ نہیں، اس میں حوصلوں اور برداشت کا امتحان ہوتا ہے۔ میڈیا وار، نفسیاتی جنگ، ٹیکنیکل اور ٹیکنالوجی کی جنگ جو کسی ایک کمرے میں بیٹھ کے کمپیوٹر پر لڑی جاتی ہے، تمام آپشن ایران کیلئے موجود ہیں۔ اگرچہ ٹیکنالوجی کے حوالے سے اسرائیل اور امریکہ و یورپ بہت آگے ہیں، مگر ایرانی سائنٹسٹوں نے بھی انہیں کئی ایک بار حیران و ششدر کیا ہے۔ ایران کے پاس کیا کچھ ہے، اس بارے اس کا دشمن نہیں جانتا، اس کی ظاہری طاقت کا اندازہ اسے نہیں ہے، جبکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ الہیٰ و معنوی طاقت و قوت اور خداوند کریم پر ان کا ایمان، کربلا سے وابستگی اور شوق شہادت، یہ وہ طاقت ہے جسے جانچنے کیلئے ایران کے دشمن کے پاس کوئی پیمانہ نہیں ہے۔ لہذا اسلام کے ان حقیقی فرزندان اور خدمت گزاران سے مقابلہ ان کے بس کی بات نہیں۔

شہید محسن فخری زادہ کا تعلق شہید سلیمانی کی نسل انقلاب سے تھا، انہیں یہ مقام نا ملتا تو حیرانی ہوتی، شہادت ان کا میرٹ تھا، جیسا کہ شہید سلیمانی نے اپنے آخری شام کے وزٹ میں مقاموت کے کمانڈرز کی میٹنگ میں فرمایا کہ جب پھل پک جاتا ہے تو مالی کو چاہیئے کہ اسے اتار لے، ورنہ وہ گل سڑ کر گر جاتا ہے اور بعض کمانڈرز کو اشارہ کرکے کہا کہ ہاں میں جانتا ہوں کہ یہ پک چکا ہے، یہ بھی پک چکا ہے، شہید محسن فخری زادہ بھی وہ پکا ہوا پھل تھے، جسے مالی نے گلنے سڑنے سے پہلے اتار لیا، انہیں ان کی منزل مل گئی، وہ ہدیہ تبریک کے مستحق ہیں۔ شہید سلیمانی کی شہادت سے شروع ہونے والا انتقام سخت کا سلسلہ جاری ہے، ہمیں امید ہے کہ شہید محسن فخری زادہ کی دردناک شہادت سے اس میں مزید تیزی آئیگی، جیسا کہ انقلاب اسلامی سے وابستہ اہم عہدیداران اور دفاعی ذمہ داران کے بیانات سامنے آئے ہیں۔ انہوں نے واضح طور پر اسے اسرائیل کی کارروائی کہا ہے، انقلاب کا نظام اتنا قوی ہے کہ وہ بہت جلد اس کی تہہ تک پہنچ جائیں گے اور دشمن کو سبق بھی سکھائیں گے۔
 
 
تحریر: ارشاد حسین ناصر
Read 566 times