Print this page

شہید قاسم سلیمانی، عقل و ذہانت کا سمندر

Rate this item
(0 votes)
شہید قاسم سلیمانی، عقل و ذہانت کا سمندر
"شہید قاسم سلیمانی اعلی درجے کی عقل مندی اور ذہانت کے مالک تھے۔ وہ بہت عرصہ پہلے سے ایک خاص مسلک کی جانب جھکاو رکھنے والے مذہبی نوعیت کے حامل ایسے گروہ کی پیدائش کی پیشن گوئی کر چکے تھے جو اسلامی مزاحمت کے خلاف سرگرم عمل ہو گا۔ وہ میرے پاس آئے اور بعض ممالک کا نام لینے کے بعد کہنے لگے کہ میں عالم اسلام میں جس صورتحال کا مشاہدہ کر رہا ہوں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک نیا گروہ تشکیل پا رہا ہے۔ کچھ ہی عرصے بعد تکفیری دہشت گرد گروہ داعش منظرعام پر آ گیا۔ وہ بہت عقل مند اور ذہین انسان تھے۔ وہ ان امور کو چلانے میں بہت زیادہ عقل مندی کا مظاہرہ کرتے تھے جو مختلف ممالک سے مربوط ہوتے تھے۔ میں اسے مکمل طور پر محسوس کرتا تھا۔" یہ امام خامنہ ای مدظلہ العالی کی اس تقریر کا حصہ ہے جو انہوں نے اس سال کے آغاز میں شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کی تقریبات منعقد کرنے والی کمیٹی سے ملاقات کے دوران کی تھی۔ اس بارے میں چند اہم نکات درج ذیل ہیں:
 
1)۔ "ولایت کی پیروی" ایک ایسی اصطلاح ہے جو انقلابی طبقے میں جانی پہچانی ہے اور یہ اصطلاح کسی انسان میں ایک واضح خصوصیت بیان کرنے کیلئے استعمال کی جاتی ہے۔ اس کا معنی بھی انتہائی وسیع ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ خصوصیت کسی فرد یا گروہ کی شخصیت جانچنے کیلئے ایک اہم معیار بھی ہے۔ لیکن اپنی تمام تر اہمیت کے ساتھ ولایت کی پیروی ایک ذاتی خصوصیت ہے جو دنیا اور آخرت میں اس کے حامل شخص کی نجات کا باعث بنتی ہے۔ جیسا کہ کسی شخص میں اس خصوصیت کا فقدان دنیا میں اس کی گمراہی اور آخرت میں نقصان کا باعث بنتا ہے۔ البتہ یہ خصوصیت سماجی سطح پر اثرات کی بھی حامل ہے جن میں سے ایک ولایت کے سائے تلے معاشرے کی وحدت اور اتحاد ہے۔ اس وضاحت کی روشنی میں معاشرے میں بڑی تعداد ولایت کے پیروکاروں پر مشتمل ہے اور یہ تعداد ہمارے معاشرے میں کروڑوں تک ہے لیکن ایک مذہبی معاشرے کیلئے یہ تعداد کافی نہیں ہے۔ ولایت کو ایک زیادہ مضبوط سہارے کی ضرورت ہے جسے "ولایت افزائی" کا نام دیا جا سکتا ہے۔ ولایت افزائی کا مطلب یہ ہے کہ ولایت کا پیروکار ایسا طرز عمل اپنائے جس کے نتیجے میں معاشرے کے دیگر افراد کیلئے ولایت کا راستہ روشن اور واضح ہو جائے۔
 
اسی بنیاد پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور امام علی علیہ السلام کے زمانے میں کفار، مشرکین، منافقین اور کرپٹ افراد بعض مخصوص افراد کو زیادہ نشانہ بناتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ پیغمبر اکرم ص اور امام علی علیہ السلام کو سیاست کے میدان سے نکال باہر کرنے کیلئے ان افراد کا خاتمہ ضروری ہے۔ دوسری طرف پیغمبر اکرم ص اور امام علی علیہ السلام بھی ان افراد کے بارے میں پریشان رہتے تھے اور جب وہ شہید ہوتے تو شدید غمگین اور دکھی ہو جاتے تھے۔ ایسے افراد کی ایک مثال سید الشہداء حضرت حمزہ ابن عبدالمطلب اور جعفر ابن ابیطالب تھے۔ دوسری مثال امام علی علیہ السلام کے زمانے میں عمار یاسر اور مالک اشتر جیسی شخصیات کے روپ میں نظر آتی ہے۔ جعفر طیار، حمزہ ابن عبدالطلب، مالک اشتر اور عمار یاسر کا کردار کیا تھا؟ ان کا کردار ولایت افزائی پر مشتمل تھا۔ یعنی ان کے اندر ایسا ہنر اور کمالات پائے جاتے تھے جس کی وجہ سے وہ حساس مواقع پر پیغمبر اکرم ص اور امام علی علیہ السلام کا سہارا بن جاتے اور اسلامی حکومت کو آگے بڑھانے میں ان کی خاص مدد کرتے تھے۔ ایسی مدد جو ان کے علاوہ کوئی اور کرنے پر قادر نہیں ہوتا تھا۔
 
2)۔ شہید قاسم سلیمانی انقلاب اسلامی کے بعد تمام عرصہ خاص طور پر قدس فورس کی سربراہی پر مشتمل 23 برس میں ایسے ہی تھے۔ گذشتہ ایک عشرے کے دوران جب بہت سی قوتوں نے ولایت کی راہ میں روڑے اٹکائے اور بعض شخصیات نے اپنا دامن صاف رکھنے کیلئے خاموشی اختیار کر رکھی تھی جبکہ بعض صرف اپنا دین بچانے کی حد تک ولایت کی حمایت کا اظہار کر رہے تھے، شہید قاسم سلیمانی نے وہی کردار ادا کیا جو پیغمبر اکرم ص کیلئے حضرت حمزہ ابن عبدالمطلب اور حضرت جعفر طیار نے ادا کیا تھا اور امام علی علیہ السلام کیلئے حضرت عمار یاسر اور حضرت مالک اشتر نے نبھایا تھا۔ انہوں نے تمام خطرے مول لیتے ہوئے ولایت کا راستہ ہموار کرنے کیلئے اپنے پورے وجود کی توانائیاں صرف کر دیں اور اسلامی انقلاب کی راہ میں موجود رکاوٹیں دور کیں۔ تقریبا پانچ چھ سال پہلے جب ان سے یہ کہا گیا کہ: "آج آپ اور قدس فورس انقلاب اور ولایت کا راستہ درست ہونے کی حجت بن چکے ہیں اور اگر آپ اور قدس فورس کی کامیابیاں نہ ہوتیں تو نظام اتنی آسانی سے عدم افادیت پر مبنی لگائی جانے والی تہمت سے نجات حاصل نہ کر سکتا۔ لہذا اگرچہ آپ ملک سے باہر سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں لیکن آپ کی سرگرمیوں کے اثرات ملک کے اندر انقلاب اور رہبر معظم انقلاب کے سامنے راستہ ہموار ہونے کی صورت میں ظاہر ہو رہا ہے۔" تو وہ یہ بات سن کر سر نیچے جھکا لیتے کیونکہ اپنی اور اپنے کاموں کی تعریف سننا پسند نہیں کرتے تھے۔
 
3)۔ گذشتہ ایک عشرے کے دوران خطے میں بہت سی تبدیلیاں اور واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں مختلف قسم کی قوتیں کارفرما رہی ہیں۔ ان میں سے ایک اہم میدان عراق کا تھا۔ عراق میں ایک ڈکٹیٹر حکومت برسراقتدار تھی جو 15 برس تک (1975ء سے 1990ء تک) جنگ کرتی رہی اور تیس سال تک ایران اور اہل تشیع سے دشمنی کی پالیسی پر گامزن رہی۔ اس حکومت کی سرنگونی کے بعد ان عراقی جماعتوں، گروہوں اور حلقوں کو آزادی فراہم ہوئی جو ایک طویل عرصے سے شدید گھٹے ہوئے ماحول میں تھے یا جیلوں میں قید تھے یا جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ ان میں سے ہر جماعت، گروہ یا طبقہ اپنے اپنے سیاسی، قومی یا خاندانی تعصب کی بنیاد پر ایک علیحدہ راستے پر گامزن تھا۔ ان گروہوں میں انتہائی شدید اختلافات موجود تھے اور ایکدوسرے کے خلاف نبرد آزما تھے۔ اس کی ایک مثال صدام حسین کی سرنگونی کے فوراً بعد رونما ہونے والا وہ واقعہ ہے جس میں نجف کے معروف شیعہ مرجع تقلید سید عبدالمجید خوئی کے بیٹے کو قتل کر کے اس کی لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے اور انہیں نجف شہر کے چاروں کونوں میں لٹکا دیا گیا۔
 
واضح ہے کہ ایسا ماحول کس قدر وحشت ناک تھا جس کے نتیجے میں نجف کے شیعہ مراجع تقلید شدید خوفزدہ ہو گئے اور اجتماعی امور میں مداخلت سے پرہیز کرنے لگے۔ دوسری طرف اس شدید بحرانی صورتحال میں سب کی نظریں مراجع تقلید پر لگی تھیں اور وہ مراجع تقلید کی جانب سے موثر قدم اٹھانے کی توقع کر رہے تھے۔ مراجع تقلید یہ کہہ کر ان مسائل میں مداخلت کرنے سے باز رہتے تھے کہ شدت پسندی میں مصروف عناصر ہماری اطاعت کرنے پر تیار نہیں ہیں اور ان کے بعض سربراہان جو بظاہر عالم دین بھی ہیں لیکن مراجع تقلید کی بات ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ دوسری طرف صدام حسین سے وابستہ بعث پارٹی کے عناصر سابق عراقی جنرل عزت ابراہیم الدوری اور ابو مصعب الزرقاوی کی سربراہی میں منظم ہو چکے تھے اور ملک میں جگہ جگہ دہشت گردانہ اقدامات انجام دینے میں مصروف تھے۔ اس مبہم اور تاریک فضا میں امریکی حکام دونوں طرف موجود انارکی اور بدنظمی کو بہانہ بنا کر عراق پر ایک امریکی جرنیل پال بریمر کی سربراہی میں مکمل فوجی حکومت لاگو کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔
 
اس موقع پر ولی امر مسلمین امام خامنہ ای مدظلہ العالی کی ہدایات یہ تھیں کہ ایک تو امریکی حکمرانوں کو عراق میں اپنی پوزیشن مضبوط بنانے کی اجازت نہیں دینی چاہئے کیونکہ عراق پر امریکیوں کا فوجی قبضہ نہ تو عراق کے فائدے میں ہے اور نہ ہی اس میں خطے کے ممالک کا فائدہ ہے جبکہ اسلامی جمہوریہ ایران کے اہداف سے بھی ٹکراو رکھتا ہے۔ دوسرا یہ کہ عراق میں عوام کی جانب سے منتخب شدہ جمہوری حکومت برسراقتدار ہونی چاہئے۔ یہ دو اسٹریٹجک اہداف تھے جن کے حصول کیلئے روڈمیپ تشکیل دیا گیا اور اس روڈمیپ کے تحت ایک طرف آیت اللہ العظمی سید علی سیستانی نے اپنا کردار ادا کیا اور دوسری طرف عراق میں سرگرم مختلف موثر گروہوں کے درمیان اتحاد قائم کرنے کی کوششوں کا آغاز کر دیا گیا۔ ہم اس وقت کی شدید بحرانی صورتحال، مراجع تقلید کی جانب سے سیاسی امور میں مداخلت کرنے سے متعلق شدید اور حق بجانب تحفظات اور رہبر معظم انقلاب کی جانب سے انتہائی اسٹریٹجک ہدایات کی روشنی میں اس حقیقت کو درک کر سکتے ہیں کہ شہید قاسم سلیمانی کے کاندھوں پر کتنی بھاری ذمہ داری عائد کر دی گئی تھی اور کیسے انہیں "ناممکنات" کے میدان میں موجود گرہوں کو ایک ایک کر کے کھولنا تھا اور انہیں ممکنات میں تبدیل کرنا تھا۔
 
عراق کے مسئلے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ دشمن اپنی پوری طاقت سے میدان میں اتر چکا تھا۔ امریکہ نے عراق میں تین لاکھ فوجی بھیجے تھے جبکہ امریکی حکمرانوں کے اپنے بقول کھربوں ڈالر اخراجات کئے گئے تھے اور ہزاروں ٹن جنگی سازوسامان عراق میں لایا گیا تھا۔ مزید برآں، علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر مختلف قسم کی حمایتیں حاصل کی گئی تھیں۔ اسی طرح نائن الیون کا ڈرامہ رچا کر دنیا بھر میں ایک رعب اور وحشت پر مبنی ماحول فراہم کیا گیا تھا۔ یوں نہ صرف امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کے اندر بلکہ پوری دنیا میں امریکی مسلح افواج کے اہداف اور اقدامات کے حق میں رائے عامہ ہموار کی گئی تھی۔ دشمن کی ان تمام صلاحیتوں اور توانائیوں کے مقابلے میں شہید قاسم سلیمانی تھے۔ وہ ایسے مقام پر بھی فائز نہیں تھے کہ ان کے پاس حکومتی اختیارات اور وسیع پیمانے پر بجٹ ہوتا۔ ایرانی حکومت کی صورتحال بھی ایسی نہیں تھی کہ وہ شہید قاسم سلیمانی کی ہر ممکنہ مدد کر سکتی۔ ایسی صورتحال میں شہید قاسم سلیمانی کو ایک انتہائی عظیم اور دشوار کام انجام دینا تھا اور انہوں نے یہ کام انجام کر دکھایا۔
 
عراق میں شہید قاسم سلیمانی کی یہ سرگذشت محض 2003ء سے 2007ء تک محدود نہیں بلکہ انہوں نے 2014ء سے 2017ء کے درمیان ایک بار پھر عراق میں ایسا ہی دوسرا کارنامہ انجام دیا۔ اس بار عراق شدید خطرناک قسم کی علاقائی اور بین الاقوامی سازش کی لپیٹ میں آ چکا تھا جو تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے روپ میں ظاہر ہوئی تھی۔ ایک بار پھر انہیں بھرپور مالی اور فوجی وسائل سے لیس دشمن کا سامنا تھا جبکہ وہ خود انتہائی محدود تعداد میں انسانی قوت اور مالی وسائل سے برخوردار تھے۔ مزید برآں، شہید قاسم سلیمانی کو ایک وقت میں چار محاذوں یعنی عراق، شام، لبنان اور یمن میں دشمن سے نبرد آزما ہونا تھا۔ ان تمام محاذوں پر یہی صورتحال غالب تھی اور سب کی امیدیں شہید قاسم سلیمانی کی خداداد صلاحیتوں سے وابستہ تھیں۔ ان تمام محاذوں پر شہید قاسم سلیمانی کو وہاں کی حکومتوں سے مذاکرات انجام دینے کے ساتھ ساتھ معلومات کا تبادلہ بھی انجام دینا تھا اور ان کی غلطیوں کا ازالہ کرنے کی بھی کوشش کرنی تھی۔ یہ ایسے امور نہیں تھے جو ایک ملاقات یا دو ملاقاتوں میں طے پا جاتے لہذا بعض امور کیلئے کئی سالہ مذاکرات درکار تھے۔
 
ان تمام محاذوں پر شہید قاسم سلیمانی کا سروکار ان ممالک کے شہریوں سے بھی تھا اور وہ مقامی افراد میں "مزاحمت کی طاقت" پیدا کرنا چاہتے تھے۔ اسی طرح شہید قاسم سلیمانی کو ایسی سیاسی جماعتوں اور گروہوں سے بھی رابطہ برقرار کرنا تھا جو بہت سے ایشوز میں شہید کی پالیسی اور اصولوں سے اختلاف رکھتے تھے۔ شہید قاسم سلیمانی نے ان جماعتوں اور گروہوں کو اپنے ساتھ لے کر چلنا تھا جبکہ اکثر اوقات ان کے پاس براہ راست ہدایات جاری کرنے کا اختیار بھی حاصل نہیں تھا۔ البتہ بعض اوقات ایسا کرتے تھے اور مطلوبہ نتائج بھی حاصل کر لیتے تھے لیکن اکثر اوقات صرف قانع کرنے کی حد تک کوشش انجام دیتے تھے۔ ایسے مواقع پر وہ عقل مندی سے عمل کرتے اور درپیش رکاوٹوں کو ایک ایک کر کے دور کرتے اور خطے کی اقوام کو درپیش مسائل دور کر کے ان کا راستہ ہموار کرتے تھے۔ شہید قاسم سلیمانی عمل کے میدان میں ایک ماہر اور لائق کمانڈر ہونے کے ساتھ ساتھ اعلی درجے کے اسٹریٹجسٹ بھی تھے۔ وہ ایک سپر اسٹریٹجسٹ تھے اور دنیا کے فوجی اور سیاسی حلقے اس حقیقت کا اعتراف کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
تحریر: ڈاکٹر سعداللہ زارعی
 
 
 
Read 595 times