Print this page

تبدیلی سے دشمن کی مراد اسلامی جمہوریہ ایران کا تشخص تبدیل کرنا ہے، رہبر معظم انقلاب

Rate this item
(0 votes)
تبدیلی سے دشمن کی مراد اسلامی جمہوریہ ایران کا تشخص تبدیل کرنا ہے، رہبر معظم انقلاب

اسلام ٹائمز۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت‌ الله خامنه‌ ای نے نئے شمسی سال کے موقع پر حرم مطهر رضوی میں زائرین کے عظیم اجتماع سے خطاب کیا۔ انہوں نے تبدیلی کو ملک کی بنیاد قرار دیا کہ جس کا مطلب اپنی طاقت کو جمع کرنا اور کمزوریوں کو دور کرنا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ دشمن کی جانب سے تبدیلی کا پیش کردہ معنی خود دشمن کے افکار سے متصادم ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں محکم ارادے، قومی غیرت، خود اعتمادی، امید اور بصیرت سے تبدیلی کے مشکل کام کو شروع کرنا چاہیئے اور بنیادی اقتصادی کمزوریوں کو دور کرکے انہیں اپنے نمایاں اور روشن مستقبل میں تبدیل کرنا چاہیئے۔ رہبر انقلاب نے ملک کے بنیادی مسائل سے رائے عامہ کی آگاہی کو دانشور اور ذہین نوجوانوں کی بنیادی کاوش قرار دیا۔ انہوں نے فرمایا کہ بنیادی منصوبوں کی تبدیلی کا مسئلہ دوسرے عمومی مسائل سے ہٹ کر ہے۔ کیونکہ اس طرح کے خیالات کو اگر عوامی پذیرائی نہ ملے تو تبدیلی کا یہ منصوبہ خود بخود ختم ہو جاتا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے تبدیلی کے اصلی معنی اور دشمن کے معنی میں فرق واضح کرتے پوئے فرمایا کہ دشمن تبدیلی کا موضوع پیش کرکے تبدیلی مخالف مطالبات اور نظام سمیٹنے کی بات کرتا ہے۔ بدقسمتی سے ملک کے اندر کچھ لوگ ناسمجھی میں اور کچھ افراد جان بوجھ کر تبدیلی کی رٹ لگاتے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہوتا ہے کہ نظام یا اس کے انفراسٹرکچر میں تبدیلی لائی جائے۔

رہبر معظم نے فرمایا کہ دشمن کی جانب سے بنیادی تبدیلی، انقلاب اور اسی طرح کے دوسرے الفاظ پیش کرنے کا ہدف اسلامی جمہوریہ کے تشخص کو تبدیل کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دشمن کا ہدف ملک اور نظام کے مضبوط پہلوؤں کا خاتمہ اور ان بنیادی مسائل سے لوگوں کی توجہ ہٹانا ہے، جو عوام کو انقلاب، انقلابی اور اسلام کی یاد دلاتے ہیں۔ جن میں امام خمینی (رہ) کے نام کا دُہرایا جانا، ان کی تعلیمات کا پرچار، مسئلہ ولایت فقیہ، 11 فروری اور انتخابات میں عوام کی بھرپور شرکت شامل ہیں۔ حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ دشمن جمہوری اسلامی کے سامنے عوامی حکومت، ڈیموکراسی یا اس جیسی کئی اصطلاحات لا کر دراصل اپنی پٹھو حکومت قائم کرنا چاہتا ہے۔ ایسی حکومت جو مغرب کے اشاروں پر ناچے۔ انہوں نے کہا کہ یہ لوگ کسی بھی طرح ایران پر سیاسی اور معاشی تسلط حاصل کرکے اسے لوٹنا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے مضبوط اور کمزور نکات جاننے کو تبدیلی کی بنیاد قرار دیا۔ رہبر انقلاب نے فرمایا کہ تبدیلی کے کٹھن راستے کو طے کرنے کے لئے قومی غیرت کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ میں سمجھتا ہوں کہ ملت ایران غیور قوم ہے، تبدیلی کے راستے کو طے کرنے کے کا دوسرا عنصر بصیرت ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے ایرانی قوم کی اندرونی مضبوطی کو ملک کے استحکام کا بنیادی عنصر قرار دیا۔ انہوں نے عالمی سامراج کی دہائیوں پر محیط دشمنی پر ایرانی قوم کے غلبے کی جانب اشارہ کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ کون سا ملک اور انقلاب ہے، جو عشروں تک دنیا کے سب سے طاقتور ملکوں کے لگاتار حملوں کے سامنے ڈٹا رہا ہو اور گھٹنے نہ ٹیکے ہوں۔؟ حضرت آیت‌ الله خامنه‌ ای نے بغاوت، پابندیوں، سیاسی دباؤ، میڈیا کے حملوں، سکیورٹی کے خلاف سازشوں اور عدیم المثال معاشی پابندیوں کو دشمن کی مسلسل سازشوں کے کچھ پہلو قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ایران میں حالیہ ہنگاموں کی امریکا اور بعض یورپی ممالک کے سربراہان نے کھل کر حمایت کی، حالانکہ کہ ان مظاہروں کو عوامی پذایرائی حاصل نہ تھی۔ پھر بھی انہیں اسلحہ، سیاسی، مالی، سکیورٹی اور میڈیا سمیت ہر طرح کی مدد فراہم کی، تاکہ کسی نہ کسی طرح اسلامی جمہوریہ ایران کو کمزور کرسکیں۔ لیکن نتیجہ اس کے الٹ نکلا اور عملی میدان میں ایران نے اس عالمی سازش پر فتح حاصل کی اور ثابت کیا کہ ایران مستحکم اور مضبوط ہے۔ انھوں نے انقلاب کی سالگرہ پر 11 فروری 2023ء کی ریلیوں میں بھرپور عوامی شرکت کو نظام کی مضبوط اندرونی بنیاد کا مظہر قرار دیا۔ ان ریلیوں میں گذشتہ برسوں کی نسبت دس گنا زیادہ شرکت ایران کی مختلف شعبوں میں زبردست ترقی اس کی اندرونی مضبوطی کی نشانیاں ہیں۔

حضرت آیت‌ الله خامنه‌ ای نے ایران کی سائنس اور ٹیکنالوجی کے مختلف شعبوں کے ساتھ ساتھ صحت، ایرو اسپیس، نیوکلیئر، دفاع، انفراسٹرکچر، طبی مراکز اور ریفائنریز کے شعبوں میں پیشرفت کا ذکر کیا۔ انہوں نے اس بات کا ذکر کیا کہ ایران ان شعبوں میں عالمی ممالک کا مقابلہ کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ ہم نے خارجہ تعلقات میں بھی اہم کامیابیاں سمیٹیں ہیں اور دشمن کے ایران کو تنہا کرنے کے منصوبے کو ناکام بنایا ہے۔ جمہوری اسلامی ایران ایشیاء کے ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط کر رہا ہے اور خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ اقتصادی، علمی اور سائنسی تعلقات کو فروغ دے رہا ہے۔ بعض افریقی اور لاطینی امریکہ کے ممالک کے ساتھ علاقائی معاہدے ہماری خارجہ پالیسی کا حصہ ہیں۔ ہم یورپی ممالک سے بھی ناراض نہیں ہیں بلکہ اگر یورپ امریکہ سے ہاتھ کھینچ لے تو ہم روابط بڑھانے کو تیار ہیں۔

رہبر معظم انقلاب نے فرمایا کہ لوگوں کو دشمن کی پالیسیوں اور ہائبرڈ وار سے آشنا ہونا چاہیئے۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہائبرڈ وار میں فوجی حملہ نہیں ہوتا بلکہ اس میں بیرونی پروپیگنڈہ اور میڈیا کی اشتہار بازیاں ہوتی ہیں، تاکہ لوگوں کے دینی اور سیاسی عقائد میں رخنہ ایجاد کیا جا سکے۔ جس سے عوام کے اندر حقائق کی درست تشخیص نہ دے پانا، قومی ارادوں کو متزلزل، جوانوں کے دلوں میں ناامیدی اور ترقی پر مایوسی ایجاد کرنا ہوتی ہے۔ دشمن اسی ہائبرڈ وار کے ذریعے چاہتا ہے کہ اختلاف پیدا کرے، ملک میں دو مخالف فکریں پھیلائے، ایسے سافٹ وئیرز تک عوام کو رسائی دے، جو ان کے ایمان اور ملی اقدار کو چھین لے۔ ان سب اقدامات کے بعد ملک میں افراتفری پھیلے اور اگر ہوسکے تو خانہ جنگی شروع کروائی جا سکے۔ لیکن دشمن اپنے ان تمام منصوبوں میں ناکام ہوا۔ انہوں نے ہائبرڈ وار کے آلات اور ہتھیاروں میں ثقافتی، سلامتی، اقتصادی عوامل اور اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے مایوسی پیدا کرنے کا حوالہ دیا۔ انہوں نے فرمایا کہ دشمن کی کوشش تھی کہ پروپیگنڈے کے ذریعے ہماری عوام کو ہم سے بدگمان کرے۔ دشمن نے پروپیگنڈہ کیا کہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر حکومتی ارکان کی رپورٹس مت سنیں یا اپنے رہبر کی بات نہ سنیں، کیونکہ ان کے الفاظ تکراری ہیں۔

آیت اللہ خامنہ ای نے بدخواہوں کے دعووں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ دشمن برسوں سے چیخ رہا ہے کہ ہم اسلامی جمہوریہ ایران کو مہار کرنا چاہتے ہیں، جبکہ اس کے مقابلے میں قیادت کہتی ہے کہ تم ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ یہ جملہ دہرایا نہیں جا رہا بلکہ یہ استقامت اور پروردگار عالم کے حکم کے مطابق حق بات پر ڈٹے رہنے کی علامت ہے۔ انھوں نے حالیہ ہنگاموں کے مقابلے میں عوامی موجودگی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اسے بیداری اور استقامت کا نمونہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ عوام نے ان سبھی لوگوں کو طمانچہ رسید کیا، جنھوں نے ہنگاموں کو ہوا دی یا اس کی حمایت کی۔ اللہ کی مدد اور قوت سے آگے بھی ایرانی قوم اپنے دشمنوں کو تھپڑ رسید کرتی رہے گی۔ انہوں نے فرمایا کہ میں اس بات کا اعلان کرتا ہوں کہ ایرانی قوم مضبوط، ترقی پذیر، اپنے نقائص کو دور اور تبدیلی ایجاد کرنے والی ہے۔ آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے استقامتی بلاک کی حمایت جاری رکھنے پر زور دیا۔ انہوں یوکرائن جنگ میں ایران کی شرکت کے جھوٹے دعوے کو مسترد کر دیا۔ انہوں نے فرمایا کہ ہم یوکرائن کی جنگ میں شرکت کے دعوے کو پوری طرح سے مسترد کرتے ہیں۔ اس دعوے کا حقیقت سے کوئی لینا دینا نہیں۔

رہبر معظم نے فرمایا کہ یوکرائن کی جنگ امریکا نے مشرق میں نیٹو کے پھیلاؤ کے لیے شروع کی تھی اور اس وقت بھی جب یوکرائن کے عوام شدید مشکلات کا شکار ہیں، امریکہ اور اس کی اسلحہ ساز فیکٹریاں خوب فائدہ اُٹھا رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جنگ کے خاتمے کے لیے سنجیدہ کوششوں میں روڑے اٹکا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ خطے میں الجھن کا شکار ہے۔ حکومت اسلامی خطے میں واضح اور روشن پالیسی رکھتی ہے اور ہمیں اس بات کا کامل ادارک ہے کہ کس وقت کیا کرنا ہے، جبکہ امریکہ حیران و پریشان ہے۔ کیونکہ اگر وہ خطے میں رہتا ہے تو افغانستان کی طرح روز بروز لوگوں کی نفرت میں اضافے کی وجہ سے وہاں سے بھاگنے پر مجبور ہے اور اگر چلا جاتا ہے تو اپنے اہداف سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ یہ کنفیوژن اس کی کمزوری کو ظاہر کرتی ہے۔

Read 190 times