Print this page

نیمئہ شعبان، شیعہ سنی دونوں کے ہاں متبرک

Rate this item
(1 Vote)
نیمئہ شعبان، شیعہ سنی دونوں کے ہاں متبرک

تحریر و ترتیب: ساجد حسین

نیمئہ شعبان میلاد نور آمد امام زمان (عج) کی رات یا شب برات کی اہمیت احادیث و روایات سے واضح ہے، اور یہ رات مسلمانوں کے جملہ مکاتب فکر کے ہاں اہم ترین رات ہے۔ اللہ کی شان دیکھئے کہ امام مہدی عج کی ولادت باسعادت کی خوشی کو کائنات حتی کہ تمام مسلمانوں خواہ شیعہ ہو یا سنی کو میلاد اور خوشی کی کیفیت میں رکھا ہے۔ شیعہ مسلمان اس مبارک رات کو میلاد نور کے طور پر مناتے ہی ہیں، تو دوسری طرف سنی مسلمان بھی اس رات کو شب برات کے عنوان سے متبرک جان کر میلاد اور خوشی میں شریک ہیں۔ اگرچہ شب قدر رمضان کی مبارک رات کی موجودگی میں شب برات کا بھی اسی عنوان سے منانا کوئی معنی نہیں رکھتا، لیکن شاید اللہ کا یہ اہتمام ہو کہ امام مہدی عج کی ولادت باسعادت کی خوشی ہر ایک مسلمان منائے، چاہے وہ امام مہدی عج کی نیمئہ شعبان تاریخ ولادت کا قائل ہو یا نہ ہو۔ 

سنی مکتب فکر کے ہاں کچھ روایات کے مطابق اس مبارک رات میں سال بھر کے اعمال کا حساب و کتاب اور قسمت کے فیصلے ہوتے ہیں، جب کہ بعض معتبر روایات کے مطابق کہ جو تمام مکاتب فکر کے ہاں تواتر سے درج ہوئی ہیں، اس مبارک رات کو منجئی بشریت عالمی نجات دہندہ امام مہدی عج کی ولادت با سعادت کا موقع ہے۔ اگر کوئی شخص عقیدہ مہدویت عج منجئی بشریت عالمی نجات دہندہ امام مہدی عج کے حوالے سے مزید معلومات کا خواہاں ہو تو وہ چالیس سے زیادہ بین الاقوامی زبانوں میں موجود اس ویب سائٹ سے استفادہ کرے۔
www.imamalmahdi.com

مہدی عج موعود کا عقیدہ مسلمانوں کے مسلمہ اور ناقابل انکار عقائد میں شمار ہوتا ہے اور تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ «مہدیؑ» نامی امام جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہم نام ہیں، آخرا لزمان میں ظہور فرمائیں گے، دنیا کو عدل و انصاف سے پر کریں گے جس طرح کہ یہ ظلم و جور سے پر ہوگئی ہوگی اور دین اسلام کو دنیا میں رائج و نافذ کریں گے۔ اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے متواتر احادیث نقل ہوئی ہیں۔ مہدی موعود عج کے بارے میں کم ہی ایسی حدیث نقل ہوئی ہوںگی جس کی سطح حد تواتر سے نیچے ہو، اور متواتر حدیث شیعہ اور سنی مکاتب میں ناقابل انکار ہے۔ جیسے مشہور حدیث «قال رسول اللہ (ص): من مات و لم یعرف امام زمانہ مات میتة الجاہلیة = جس نے اپنے زمانے کے امام کو پہچانے بغیر موت کو گلے لگایا وہ جاہلیت کی موت مرا۔

امام مہدی عج اہل سنت و اہل تشیع کی نگاہ میں:
امام مہدی عج اللہ فرجہ الشریف کا موضوع ایسا موضوع نہیں ہے کہ محض اہل تشیع اس پر ایمان رکھتے ہیں بلکہ اس موضوع پر تمام اسلامی دانشور خواہ وہ کسی بھی مذہب اور مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہوں سب متفق ہیں، نیز سب کا اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ وہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ کے خاندان اہلبیت اطہار ع سے ہوں گے، ان کے ہم نام ہوں گے اور علی ع و فاطمہ س کی نسل مبارک سے ہوں گے اور جب ظہور فرمائیں گے تو وہ دنیا کہ جو ظلم و جور سے پر ہوچکی ہوگی اسے عدل و انصاف سے پر کریں گے اور اسلامی مفکرین اور دانشوروں کا یہ اتفاق اس بناء پر ہے کہ امام مہدی عج کے حوالے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ سے احادیث متواتر بلکہ ان سے بڑھ کر احادیث وارد ہوئی ہیں۔ ہاں البتہ اس حوالے سے اہل سنت میں اختلاف نظر موجود ہے کہ آیا وہ امام حسن ع کی اولاد میں سے ہوں گے یا امام حسین ع کی اولاد میں سے ہوں گے یا یہ کہ آیا وہ پیدا ہوچکے ہیں یا پیدا ہوں گے؟

اہل سنت کے وہ علماء اور مفکرین جو شیعہ علماء کی اس بات سے اتفاق رکھتے ہیں کہ امام مہدی عج پیدا ہوچکے ہیں اور ابھی زندہ ہیں اور امام حسن عسکری ع کے فرزند ارجمند ہیں، ان کی اچھی خاصی تعداد ہے، مثلاً ان میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں:

۱۔ ابوسالم کمال الدین محمد بن طلحہ بن محمد قرشی شافعی اپنی کتاب مطالب السؤل فی مناقب آل رسول میں۔
۲۔ ابو عبداللہ محمد بن یوسف محمد گنجی شافعی اپنی کتاب البیان فی اخبار صاحب الزمان میں۔
۳۔ نور الدین علی بن محمد بن الصباغ مالکی اپنی کتاب الفصول المھمۃ میں۔
۴۔ فقیہ واعظ شمس الدین ابوالمظفر یوسف بن قزغلی بن عبد اللہ بغدادی حنفی جو کہ سبط ابن جوزی کے نام سے مشہور ہیں۔
۵۔ محی الدین عربی حاتمی اندلسی اپنی کتاب الفتوحات المکیہ میں۔
۶۔ نور الدین عبد الرحمن بن احمد بن قوام الدین دشتی جامی شرح کافیہ ابن حاجب کے مصنف اپنی کتاب شواھد النبوۃ میں۔
۷۔ شیخ عبد الوھاب بن احمد بن علی شعرانی مصری اپنی کتاب الیواقیت والجواھر میں۔
۸۔ جمال الدین عطا اللہ بن سید غیاث الدین فضل اللہ اپنی کتاب روضۃ الاحباب فی سیرۃ النبی والال والاصحاب میں۔
۹۔ حافظ محمد بن محمد بن محمود بخاری کہ جو خواجہ یارسا کے نام سے مشہور ہیں اپنی کتاب فصل الخطاب میں۔
۱۰۔ عبد الرحمن جو کہ مشایخ صوفیہ میں سے تھے اپنی کتاب مرآۃ الاسرار میں۔
۱۱۔ شیخ حسن عراقی۔
۱۲۔ ابو محمد احمد بن ابراھیم بلاذری حدیث مسلسل میں۔
۱۳۔ ابو محمد عبداللہ بن احمد بن محمد بن خشاب کہ جو ابن خشاب کے نام سے مشہور ہیں اپنی کتاب تواریخ موالیہ الائمہ و وقیاتھم میں جناب علامہ سید محسن امین شامی کتاب اعیان الشیعہ جلد۲ صفحہ ۶۴ سے ۷۰ تک میں ان تیرہ افراد کا ذکر کرتے ہیں اور اس کے بعد فرماتے ہیں ان کے علاوہ دیگر اھل سنت کہ جو امام مہدی عج کے موجود ہونے کے قائل ہیں ان کی تعداد بہت زیادہ ہے اور جو بھی ان علماء کے بارے میں جاننا چاہتا ہے وہ ہماری کتاب البرھان علی وجود صاحب الزمان اور علامہ نوری کی کتاب کشف الاستار کی طرف رجوع کرے۔

نہج البلاغہ کے شارح ابن ابی الحدید کہتے ہیں:
اس جہان کے ختم ہونے سے پہلے مہدی موعود منتظر کے آنے کا مسئلہ مسلمانوں میں مورد اتفاق ہے، ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ ج۲ ص ۵۳۵
قاضی بہلول بہجت افندی اپنی کتاب تشریح و محاکمہ در تاریخ آل محمد علیہ صلی اللہ علیہ و آلہ میں اس حوالے سے یوں لکھتے ہیں: امام ابوالقاسم محمد المھدیؑ ابھی تک زندہ ہیں اور جب اللہ تعالی اذن فرمائے گا، ظہور فرمائیں گے چونکہ امت کے درمیان امام کا ظہور مورد اتفاق ہے لہذا اس کے دلائل کی وضاحت کے ہم محتاج نہیں ہیں قاضی بہلول بہجت افندی، تشریح و محاکمہ در تاریخ آل محمد ص چاپ ہفتم ص ۱۳۹ الی ۱۴۱

اس اتفاق کی بنیاد وہ بہت ساری احادیث ہیں کہ پیغمبر اسلام ص سے امام مہدی عج کے بارے میں وارد ہوئی ہیں اور علماء کرام نے انہیں اپنی اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے اور ان کے متواتر ہونے کی وضاحت کی ہے۔ بہت سے علماء نے تو اس موضوع پر مستقل کتابیں تحریر کی ہیں، تو ان فراوان احادیث اور کتب کے ہوتے ہوئے شیعہ سنی علماء اور محققین کبھی بھی اس مسئلہ میں شک و تردید کا شکار نہیں ہوسکتے سوائے ایسے عقل و خرد سے بیگانے اور دشمن دین خدا کہ جو اس موضوع کو واضح اور روشن دیکھنے سے محروم ہیں اور اپنے خود ساختہ خیالات میں ہاتھ پاؤں مارتے رہتے ہیں ورنہ اگر دیکھا جائے تو ان بے شمار احادیث جو کہ متواتر بلکہ تواتر سے بھی بالاتر ہیں ان کی تصدیق عقیدہ نبوت کی اہم جزو ہے اور ان کا انکار گویا نبوت کا انکار ہے۔

اسی لئے جب ایک بزرگ عالم دین سے پوچھا گیا کہ آیا مہدی منتظر عج کا ظہور دین کی ضروریات میں سے ہے اور اس کا انکار مرتد ہونے کا سبب ہے یا نہ؟ تو انہوں نے جواب دیا: یہ اعتقاد دین کی ضروریات میں سے ہے اور ان کا انکار موجب کفر ہے فاضل مقداد اللوامع الھیہ چاپ تبریز پاورقی صفحہ ۲۸۹
حجاز کی ایک برجستہ علمی شخصیت اور مدینہ یونیورسٹی کے پروفیسر شیخ عبد المحسن عباد اپنی ایک تقریر کہ جو عقیدہ اھل سنۃ والاثر فی المھدی المنتظر کے عنوان سے مدینہ یونیورسٹی کے رسالہ میں بھی آئی ہے اس میں کہتے ہیں: میں ان پچیس اصحاب کے نام کہ جنہوں نے پیغمبر اسلام سے مہدی عج کے بارے میں احادیث نقل کی ہیں آپ کے سامنے پیش ہیں:

۱۔ عثمان بن عفان ۲ علی بن ابی طالب ۳طلحہ بن زبیر ۴عبدالرحمن بن عوف ۵الحسین بن علی ۶ام سلمہ ۷ام حبیبہ ۸عبد اللہ بن عباس ۹عبد اللہ بن مسعود ۱۰عبد اللہ بن عمر ۱۱عبد اللہ بن عمرو ۱۲ابوسعید الخدری ۱۳جابر بن عبداللہ ۱۴ابوھریرہ ۱۵انس بن مالک ۱۶عمار بن یاسر ۱۷عوف بن مالک ۱۸پیغمبر اسلام کے خادم ثوبان ۱۹قرۃ ابن ایاس ۲۰علی الھلالی ۲۱حذیفہ بن الیمان ۲۲عبد اللہ بن حارث بن حمزہ ۲۳عمران بن حصین ۲۴ابوالطفیل ۲۵جابر الصدفی۔ کتاب مصلح جھانی۔

وہ مزید اپنی بات بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ آئمہ کہ جن سے صحاح، سنن، لغت ناموں اور مسانید وغیرہ میں مہدی کے حوالے سے احادیث نقل ہوئی ہیں وہ تحقیق کے مطابق ۳۸نفر ہیں اور وہ یہ ہیں:

۱۔ ابوداؤد اپنی سنن میں، ۲۔ ترمذی اپنی جامع میں، ۳۔ ابن ماجہ اپنی سنن میں، ۴۔ نسائی کی سفارینی نے اسے لوامع الانوار البھیۃ میں ذکر کیا ہے اور منادی نے فیض القدیر میں ذکر کیا ہے جب کہ میں نے اسے صغری میں دیکھا شاید کبری میں ہو، ۵۔ احمد اپنی مسند میں، ۶۔ ابن حیان اپنی صحیح میں، ۷۔ حاکم اپنی مستدرک میں، ۸۔ ابوبکر بن شیبہ المصنف میں، ۹۔ نعیم بن حماد کتاب الفتن میں، ۱۰۔ حافظ ابو نعیم کتاب المھدی در الحلیۃ میں، ۱۱۔ طبرانی الکبیر والاسط والصغیر میں، ۱۲۔ دارقطنی الافراد میں، ۱۳۔ بارودی معرفۃ الصحابہ میں، ۱۴۔ ابویعلی اسامہ اپنی مسند میں، ۱۵۔ بزاز اپنی مسند میں، ۱۶۔ حارث بن ابی اسامہ اپنی مسند میں، ۱۷۔ خطیب تلخیص المتشابہ اور المتفق والمتفرق میں، ۱۸۔ ابن عساکر اپنی تاریخ میں، ۱۹۔ ابن مندہ تاریخ اصفہان میں، ۲۰۔ ابوالحسن حربی اول من الحربیات میں، ۲۱۔ تمام الرازی اپنی فوائد میں، ۲۲۔ ابن جریر تھذیب الآثار میں، ۲۳۔ ابوبکر مقری اپنی معجم میں، ۲۴۔ ابو عمر والد انی اپنی سنن میں۔
 
۲۵۔ ابو غنم کوفی کتاب الفتن میں، ۲۶۔ دیلمی مسند الفردوس میں، ۲۷۔ ابوبکر الاسکاف فوائد الاخبار میں، ۲۸۔ ابوالحسین بن المنادی کتاب الملاحم میں، ۲۹۔ بھیقی دلائل النبوۃ میں، ۳۰۔ ابوعمر والقری اپنی سنن میں، ۳۱۔ ابن الجوزی اپنی تاریخ میں، ۳۲۔ یحیی بن عبد الحمید الحمانی اپنی مسند میں، ۳۳۔ رویانی اپنی مسند میں، ۳۴۔ ابن سعد طبقات میں، ۳۵۔ ابن خزیمہ، ۳۶۔ احسن بن سفیان، ۳۷۔ عمرو بن شبیہ، ۳۸۔ ابوعوانہ مصلح جھانی ص ۱۰۹ و ۱۱۰ امام مہدی ع ص ۱۴۹ الی، ۵۳۔ مسجد نبوی کے بعض مضافات کہ جو آل سعود کے دور حکومت میں کچھ عرصہ قبل تعمیر ہوئے ہیں ان عمارتوں کی چھتوں کو اس طرح بنایا گیا ہے کہ روشنی ان سے گزرتی ہےان عمارتوں کی دیواروں پر بارہ ائمہؑ کے اسماء کا مشاھدہ کیا جاتا ہے اور امام مہدی عج کا نام یوں لکھا ہوا ہے محمد بن الحسن العسکری ع اور یہ اس مسلمہ عقیدے کا ثبوت ہے کہ امام زمانہ امام مہدی عج امام حسن عسکری علیہ السلام کے فرزند ہیں۔

منجئی بشریت عالمی نجات دہندہ امام مہدی عج کے ظہور و انقلاب کی اہم علامات:
دنیا میں كوئی بھی طوفان ایكا ایكی نہیں آتا ھے۔ سماج میں انقلاب رونماء ھونے سے پہلے اس كی علامتیں ظاھر ھونے لگتی ھیں، حتی کہ ان علامات میں مشرق وسطی میں حالیہ بحرانات، سید یمانی و سید خراسانی کی آمد اور باطل کی طرف سے سفیانی کی آمد (شیعہ، سنی متفقہ روایات میں سفیانی کو سفیانی اسلئے کہتے ہیں کہ وہ اسلام کے اولین دشمن ابو سفیان کی اولاد میں سے ہوگا اور امام مہدی عج و حضرت عیسیؑ کے مقابلے میں آئے گا)۔ 

اسلامی روایات میں اس عظیم انقلاب كی نشانیوں كا تذكرہ ملتا ھے۔ یہ نشانیاں اور علامتیں دو طرح كی ھیں:
1) عمومی علامتیں جوھر انقلاب سے پہلے (انقلاب كے تناسب سے) ظاھر ھوتی ھیں۔
2) جزئیات جن كو معمولی و اطلاع كی بنیاد پر نہیں پركھا جاسكتا ھے بلكہ ان جزئیات كی حیثیت ایك طرح كی اعجازی ھے۔

ظلم و فساد كا رواج:
سب سے پہلی وہ علامت جو عظیم انقلاب كی آمد كی خبر دیتی ھے۔ وہ ظلم و فساد كا رواج ھے۔ جس وقت ھر طرف ظلم پھیل جائے، ھر چیز كو فساد اپنی لپیٹ میں لے لے۔ دوسروں كے حقوق پامال ھونے لگیں، سماج برائیوں كا گڑھ بن جائے، اس وقت عظیم انقلاب كی آھٹ محسوس ھونے لگتی ھے۔ یہ طے شدہ بات ھے كہ جب دباؤ حد سے بڑھ جائے گا تو دھماكہ ضرور ھوگا، یہی صورت سماج كی بھی ھے، جب سماج پر ظلم و فساد كا دباؤ حد سے بڑھ جائے گا تو اس كے نتیجہ میں ایك انقلاب ضرور رونماء ھوگا۔

اس عظیم عالمی انقلاب اور حضرت مھدی عج كے ظھور كے بارے میں بھی بات كچھ اسی طرح كی ھے۔ منفی انداز فكر والوں كی طرح یہ نہیں سوچنا چاھیے كہ ظلم و فساد كو زیادہ سے زیادہ ھوا دی جائے تاكہ جلد از جلد انقلاب آجائے بلكہ فساد اور ظلم كی عمومیت كو دیكھتے ھوئے اپنی اور دوسروں كی اصلاح كی فكر كرنا چاھیے، تاكہ صالح افراد كی ایك ایسی جماعت تیار ھوسكے جو انقلاب كی علمبردار بن سكے۔

اسلامی روایات میں اس پہلی علامت كو ان الفاظ میں بیان كیا گیا ھے: كما ملئت ظلما وجوراً …" جس طرح زمین ظلم و جور سے بھر چكی ھوگی۔ یہاں ایك سوال یہ اٹھتا ھے كہ "ظلم و جور" مترادف الفاظ ھیں یا معانی كے اعتبار سے مختلف۔ دوسروں كے حقوق پر تجاوز دو طرح ھوتا ھے۔ ایك یہ كہ انسان دوسروں كے حقوق چھین لے اور ان كی محنت سے خود استفادہ كرے اس كو "ظلم" كہتے ھیں۔ دوسرے یہ كہ دوسروں كے حقوق چھین كر اوروں كو دے دے، اپنے اقتدار كے استحكام كے لئے اپنے دوستوں كو عوام كے جان و مال پر مسلط كردے اس كو "جور" كہتے ھیں۔

ان الفاظ كے مد مقابل جو الفاظ ھیں وہ ھیں ظلم كے مقابل "قسط" اور جور كے مقابل "عدل" ھے۔ اب تك بات عمومی سطح پر ھورھی تھی كہ ھر انقلاب سے پہلے مظالم كا وجود انقلاب كی آمد كی خبر دیتا ھے۔ قابل غور بات تو یہ ھے كہ اسلامی روایات نے سماجی برائیوں كی جزئیات كی نشاندھی كی ھے۔ یہ باتیں اگر چہ 13۔ 14 سو سال پہلے كہی گئی ھیں لیكن ان كا تعلق اس زمانے سے نہیں ھے بلكہ آج كل ھماری دنیا سے ھے۔ یہ جزئیات كچھ اس طرح بیان كیے گئے ھیں گویا بیان كرنے والا اپنی آنكھوں سے دیكھ رھا ھو، اور بیان كررھا ھو۔ یہ پیشین گوئیاں كسی معجزے سے كم نہیں ھیں۔ اس سلسلے میں ھم متعدد روایتوں میں سے صرف ایك روایت كا ذكر كرتے ھیں۔ یہ روایت حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل ھوئی ھے۔ اس روایت میں سیاسی، سماجی اور اخلاقی مفاسد كا ذكر كیا گیا ھے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے بعض اصحاب سے ارشاد فرمایا ھے:
1۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ ھر طرف ظلم و ستم پھیل رھا ھے۔
2۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ قرآن فرسودہ كردیا گیا ھے اور دین میں بدعتیں رائج كردی گئی ھیں۔
3۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ دین خدا اس طرح اپنے مفاھیم سے خالی ھوگیا ھے جس طرح برتن الٹ دیا گیا ھو۔
4۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ اھل باطل صاحبانِ حق پر مسلط ھوگئے ھیں۔
5۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ مرد مرد پر اور عورتیں عورتوں پر اكتفا كر رھی ھیں۔
6۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ صاحبانِ ایمان سے خاموشی اختیار كرلی ھے۔
7۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ چھوٹے بڑوں كا احترام نہیں كر رھے ھیں۔
8۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ رشتہ داریاں ٹوٹ گئی ھیں۔
9۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ چاپلوسی كا بازار گرم ھے۔
10۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ شراب اعلانیہ پی جارھی ھے۔
11۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ خیر كے راستے اُجاڑ اور شر كی راھیں آباد ھیں۔
12۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ حلال كو حرام اور حرام كو حلال كیا جارھا ھے۔
13۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ احكامِ دین كی حسبِ منشا تفسیر كی جارھی ھے۔
14۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ صاحبان ایمان ھے آزادی اس طرح سلب كرلی گئی ھے كہ وہ اپنے دل كے علاوہ كسی اور سے اظھار نفرت نہیں كرسكتے۔
15 جس وقت تم یہ دیكھو كہ سرمایہ كا بیشتر حصّہ گناہ میں صرف ھورھا ھے۔
16۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ حكومتی ملازمین كے درمیان رشوت عام ھوگئی ھے۔
17۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ حساس و اھم منصبوں پر نااھل قبضہ جمائے ھیں۔
18۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ (بعض مرد) اپنی عورتوں كی ناجائز كمائی پر زندگی بسر كر رھے ھیں۔
19۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ قمار آزاد ھوگیا ھے (قانونی ھوگیا ھے)
20۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ ناروا تفریحیں اتنی عام ھوگئی ھیں كہ كوئی روكنے كی ھمّت نہیں كر رھا ھے۔
21۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ قرآنی حقائق كا سننا لوگوں پر گراں گذرتا ھے۔
22۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ پڑوسی پڑوسی كی زبان كے ڈر سے اس كا احترام كر رھا ھے۔
23۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ مسجدوں كی آرائش كی جارھی ھے۔
24۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ غیر خدا كے لئے حج كیا جارھا ھے۔
25۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ عوام سنگ دل ھوگئے ھیں۔
26۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ عوام اس كے حامی ھوں جو غالب آجائے (خواہ حق پر ھو خواہ باطل پر)
27۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ حلال كے متلاشی افراد كی مذمّت كی جائے اور حرام كی جستجو كرنے والوں كی مدح۔
28۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ لہو و لعب كے آلات مكّہ مدینہ میں (بھی رائج ھوں۔
29۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ مسجد ان لوگوں سے بھری ھے جو خدا سے نہیں ڈرتے۔
30۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ لوگوں كی ساری توجہ پیٹ اور شرمگاہ پر مركوز ھے۔
31۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ مادی اور دنیاوی وسائل كی فراوانی ھے، دنیا كا رخ عوام كی طرف ھے۔
32۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ اگر كوئی امر بمعروف اور نہی از منكر كرے تو لوگ اس سے یہ كہیں كہ یہ تمھاری ذمہ داری نہیں ھے۔
33۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ عورتیں اپنے آپ كو بے دینوں كے حوالے كر رھی ھیں۔
34۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ حق پرستی كے پرچم فرسودہ ھوگئے ھیں۔
35۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ بربادی آبادی پر سبقت لے جارھی ھے۔
36۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ بعض كی روزی صرف كم فروشی پر منحصر ھے۔
37۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ ایسے افراد موجود ھیں جنھوں نے مال كی فراوانی كے باوجود اپنی زندگی میں ایك مرتبہ بھی زكات نہیں دی ھے۔
38۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ لوگ صبح و شام نشہ میں چور ھیں۔
39۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ لوگ ایك دوسرے كو دیكھتے ھیں اور بروں كی تقلید كرتے ھیں۔
40۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ ھر سال نیا فساد اور نئی بدعت ایجاد ھوتی ھے۔
41۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ عوام اپنے اجتماعات میں خود پسند سرمایہ داروں كے پیروكار ھیں۔
42۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ جانوروں كی طرح سب كے سامنے جنسی افعال انجام دے رھے ھیں
43۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ غیر خدا كے سلسلے میں زیادہ سے زیادہ خرچ كرنے میں كوئی تكلف نہیں كرتے لیكن خدا كی راہ میں معمولی رقم بھی صرف نہیں كرتے۔
44۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ ایسے افراد بھی ھیں كہ جس دن گناہ كبیرہ انجام نہ دیں اس دن غمگیں رھتے ھیں۔
45۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ حكومت عورتوں كے ھاتھوں میں چل گئی ھے۔
46۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ ھوائیں منافقوں كے حق میں چل رھی ھیں، ایمان داروں كو اس سے كچھ حاصل نہیں ھے۔
47۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ قاضی احكامِ الٰہی كے خلافِ فیصلہ دے رھا ھے۔
48۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ بندوں كو تقویٰ كی دعوت دی جارھی ھے مگر دعوت دینے والا خود اس پر عمل نہیں كر رھا ھے۔
49۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ لوگ اوقات نماز كو اھمیت نہیں دے رھے ھیں۔
50۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ ضرورت مندوں كی امداد بھی پارٹی كی بنیاد پر كی جارھی ھے، كوئی خدائی عنصر نہیں ھے۔

اسلئے ہم سب کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس عالمی انقلاب کے لئے عملی کام کرکے راہ ہموار کرنکے امام مہدی ؑ کے سپاہیوں میں اپنا نام درج کروائیے۔ بقول فارسی شاعر
جہاں در انتظار عدالت
عدالت در انتظار مہدی(ع) 

اور بقول علامہ اقبال(رہ) 


دنیا کو ہے اس مہدی (ع) برحق کی ضرورت
ہو جس کی نگہ، زلزلئہ عالم افکار
یا
کبھی اے حقیقت منتظر (ع) نظر آ لباس مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں

اللہ پاک بحق اہلبیت اطہار (ع) ہمیں امام مہدی (ع) کے انقلاب کو سمجھ کر اس میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

Read 1884 times