Print this page

حضرت آیة اللہ العظمیٰ سيد علي خامنہ ای مد ظلہ الشریف

Rate this item
(0 votes)

مو جودہ حالات میں مسلمانوں کے اتحاد پر مو جود قاطع دلا ئل ہونے کی توجہ کے ساتھ حضرت عالی کی نظر میں اسلامی مذاہب کا اتباع کرنے والوں کے لئے ''امت اسلامی ''نام سے استفادہ کرنا کیسا ہے ،جبکہ مذاہب اسلامی جیسے اہل سنت کے چاروں فرقے ،اسی طرح زیدیہ ،ظاہریہ ،اباضیہ وغیرہ جو دین مبین اسلام کے اصول پر ایمان رکھتے ہیں ۔آیا مندرجہ بالا ذکر شدہ فرقوں کی تکفیر کرنا جا ئز ہے یا نہیں ؟تکفیر کی حداور موجودہ زمانہ میں اُس کا کیا معیار ہے ؟

ہم خدا وند سبحان سے حضرت عالی کے لئے آئے دن اسلام اور مسلمانوں خاص طور سے شیعوں کی خدمت کرنے کے لئے زیادہ توفیق کے خواہاں ہیں ۔

مقام معظم رہبری کے اہل دفتر کا جواب:

تمام اسلامی فرقے اسلامی امت کا ایک حصہ شمار کئے جاتے ہیں اور سب اسلامی امتیازات کے حامل ہیں ۔اسلامی مذاہب کے درمیان تفرقہ ڈالنا قرآن کریم کی تعلیمات اور پیغمبر مکرم اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی سنت کے خلاف ہے ۔مزید یہ کہ یہ چیز مسلمانوں کے کمزور ہونے اور اسلام کے دشمنوں کو بہانہ کرنے کا باعث ہو گی۔اس بنا پر مذکورہ تمام فرقو ں کی تکفیر کرنا کسی بھی وجہ سے جا ئز نہیں ہے ۔

 

حضرت آیة اللہ العظمیٰ خامنہ ای (مد ظلہ العالی)کی کردستان کے شیعہ اورسنی علماء اور طلاب سے ملاقات

ہم میں سے بعض افرادجب صلح کی بات کرتے ہیں تو ہم یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم دشمن سے صلح کرنا چا ہتے ہیں !ہم میں سے بعض افراداِس چیز سے غفلت کر تے ہیں کہ ہم کو خود اپنے میں مشغول کرنے کے لئے مذہبی اختلاف ایجاد کرنادشمن کا کھینچا ہوا نقشہ اور سازش ہے ،ایک شیعہ اپنی پوری طاقت ایک سنی کو زیر کرنے میں لگا دیتا ہے اور اسی طرح ایک سنی اپنی پوری طاقت ایک شیعہ کو زیر کرنے میں صَرف کر دیتا ہے یہ بڑے افسوس کی بات ہے اور دشمن یہی چا ہتا بھی ہے ۔

فلسطین کی حمایت کرنے کے مسئلہ میں کو ئی بھی ملک جمہوری اسلامی ایران کی خاک پا تک بھی نہیں پہونچ سکتا ۔اس کی پوری دنیا تصدیق کی ہے ۔یہاں تک کہ بعض عربی ممالک نے ناراض ہو کر داد و فریاد کرنا شروع کر دیا اور کہنے لگے ایران یہاں پر اپنے اغراض و مقاصد کی تلاش و جستجو کر رہا ہے !البتہ اہل فلسطین نے اِ ن باتوں کی کو ئی پروا نہیں کی ۔منجملہ غزہ اور ٢٢ دن تک ہونے والی جنگ کے مو قع پر جمہوری اسلامی ایران کے ہر سطح کے فرد نے رہبر سے لے کر رئیس جمہور اور مسئولین نیز لوگوں نے مظاہرے کئے ،مدد کے لئے رقم وغیرہ بھیجی ،سب نے مل کر مظلوم اور مسلمان فلسطینی بھائیوں کی خدمت کی ۔ان مسائل کے درمیان ہم نے یہ مشا ہدہ کیا کہ ایک وا ئرس ہے جو بالکل اسی کے مانند کاپی کر رہا ہے ، کچھ افراد بعض بزرگان ، بعض علماء اور بعض محترم افراد کے پاس جا کر اُن سے کہتے ہیں کہ جناب آپ کس کی مدد کر رہے ہیں ،اہل غزہ ناصبی ہیں !ناصبی یعنی اہل بیت (ع)کا دشمن ۔چند افراد نے یقین بھی کر لیا اور وہ پیغام لے کر آئے کہ جناب یہ کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ ناصبی ہیں ۔ہم نے کہا :ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں ،شیطان رجیم و خبیث پر خدا کی لعنت ۔غزہ میں امام امیر المو منین علی بن ابی طالب (ع)کی مسجد ہے امام حسین (ع)کی بھی مسجد ہے تو یہ لوگ کیسے ناصبی ہیں ؟ہاں ، سنی ہیں ،لیکن ناصبی نہیں ہیں ،انھوں نے اس طرح کی باتیں کیں،اس طرح کا اقدام کیا اور اس طرح کام کیا ۔اس بالمقابل ایک نقطہ ہے :ایک گروہ شہر قم جا ئے وہاں پر شیعوں کی کتابیں پڑھے اور یہ کہے کہ جنا ب یہ شیعوں کی کتاب ہے ۔یا ایک نا سمجھ ،غافل یا بد خواہ اعلان کرنے والا منبر پر جا کر اہل سنت کی مقدسات کی نسبت مہمل اور بری باتیں کہے انھیں کیسٹ میں بھر لے ،سی ڈی میں بھر کر یہاں اور وہاں نشر کر دے اور لوگ یہ کہیں کہ یہ شیعہ ہے ۔اِس کو اُس سے برا کر دیتے ہیں اور اُس کو اِس سے برا بنا دیتے ہیں ،اس کا کیا مطلب ہے ؟ ''و تذھب ریحکم ''یعنی جب اختلاف پیدا ہو گیا ،جب تفرقہ پیدا ہو گیا ،جب ایک دوسرے کی نسبت سوء ظن ہو گیا ،جب ہم ایک دوسرے کو خا ئن سمجھنے لگے تو ظا ہر سی بات ہے کہ ہم ایک دوسرے کا تعاون نہیں کر یں گے ،اگر ہمکاری بھی کریں گے تو ایک دوسرے کے صمیمی نہیں ہو ں گے ۔یہ وہی چیز ہے جس کی تلاش میں دشمن ہے ۔ہم سب شیعہ اور سنی علماء کو یہ سمجھنااور درک کرنا چا ہئے ۔یہ طبیعی ہے کہ دو مذہب بعض اصول اور بعض فروع میں ایک دوسرے سے اختلاف پایا جاتا ہے ،لیکن اختلاف کا مطلب دشمنی نہیں ہے ۔بعض مقامات پر شیعوں کے فتوے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں ۔اہل سنت علماء کے فتووں بہت سے مقامات پراختلاف پایا جاتا ہے ،لیکن اس کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ جب ان کے درمیان اختلاف ہو جا ئے تو انسان ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے لگے ۔اچھا !اُس کا مذہب یہ ہے ، اِس کا بھی مذہب یہ ہے ،۔۔۔کسی شخص کو بھی یہ خیال نہیں کرنا چا ہئے کہ اہل بیت پیغمبر شیعوں سے مخصوص ہیں وہ پوری دنیائے اسلام کے ہیں ۔کو ن شخص ہے جو فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا)کو نہ ما نتا ہو ؟کو ن شخص ہے جو حسنین( علیہما السلام )سیدا شباب اہل الجنة کو قبول نہیں کرتا ؟ اب ایک انھیں وا جب الاطاعة اور مفروض الطاعة امام مانتا ہے ایک نہیں ما نتا لیکن انھیں قبول کرتا ہے ۔یہ حقا ئق ہیں اِن کو سمجھنا چا ہئے ،ان کو نہا دینہ کرنا چا ہئے ۔البتہ بعض ان کو نہیں سمجھتے دشمن کو ابھار دیتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ صحیح کام انجام دے رہے ہیں ۔''قل ھل ننبئکم بالاخسرین اعمالا''،''الذین ضلّ سعیھم فی الحیاة الدنیا و ھم یحسبون انھم یحسنون صنعا''''وہ خیال کرتے ہیں کہ اچھا کام کر رہے ہیں وہ اس سے غافل ہیں کہ دشمن کے لئے کام کر رہے ہیں ۔یہ ہمارے زمانہ کی خصوصیت ہے ۔

 

حضرت آیة اللہ العظمیٰ خامنہ ای کا صوبہ کردستان کے سنندج کے میدان آزادی پر مجمع سے خطاب 22/2/1388

چند سال پہلے کردستان کے علاقہ میں ایک روشن فکر عالم نے نمازمیں تقریر کرتے ہوئے کہا :خدا کی قسم !جو لوگ شیعہ کے پاس جا کراس کے دل میں سنی کے خلاف بغض و کینہ بھرتے ہیں اورسنی کے پاس جا کر اُس کے دل میں شیعہ کے خلاف بغض و کینہ بھرتے ہیں یہ لوگ نہ شیعہ ہیں اور نہ سنی ،نہ شیعہ کوچا ہتے ہیں اور نہ ہی سنی کوچا ہتے ہیں یہ اسلام کے دشمن ہیں ۔البتہ وہ نہیں جانتے اور اُن میں سے بہت زیادہ ان چیزوں کو نہیں سمجھتے ہیں افسوس کی بات یہی ہے کہ یہ کیوں نہیں سمجھتے ۔

آج وہابی جماعت شیعوں کو کافر جا نتی ہے ،سنی اہل بیت سے محبت کرنے والے کوبھی کافر جانتا ہے ،سنی عرفانی اورقادری طریقوں کی اتباع کرنے والے کو بھی کافرجانتاہے !اس غلط فکر کا سرچشمہ کہاں سے ہے ؟ پوری دنیامیں تمام شیعہ ،افریقا شمالی میں سنی شافعی ،یا مرکزی افریقا کے تمام ملکوں میں مالکی سب اہل بیت (ع)سے محبت کرنے والے ہیں یہ سب کافر ہیں ،کیوں؟ چونکہ قاہرہ میں حسین بن علی کے مرقد کا احترام کرتے ہیں ،رأس الحسین مسجد کو مقدس سمجھتے ہیں،اسی وجہ سے کافرہیں !شیعہ کافرہیں کیا سنی سقزی،سنندجی ،اورمریوانی بھی اگر قادری یا نقش بندی کے طریقوں سے رابطہ رکھتے ہوں تو وہ بھی کافر ہیں !یہ کیسی اور کونسی فکر ہے ؟اس غلط اورمذموم فکر سے مسلمان بھا ئیوں کے درمیان کیوں اختلاف ایجاد ہو ؟ بہت سے شیعہ بھی نادانی وغفلت یا کسی اپنی غرض کی وجہ سے اختلاف ایجاد کرنے کے لئے اہل سنت کے مقدسات کی تو ہین کرتے ہیں،ہم اس سلسلہ میں عرض کرتے ہیں :دونوں گروہوں کایہ برتائو شرعی طور پرحرام اورقانون کے خلاف ہے ۔

Read 3184 times