
سلیمانی
امریکہ نے مزاحمتی محاذ کی انٹرنیٹ سائٹوں کو مسدود کردیا
امریکہ نے اظہار بیان کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مزاحمتی محاذ کی انٹرنیٹ سائٹوں العالم، یمن کی المسیرہ، پریس ٹی وی، کتائب حزب اللہ عراق، بحرین کی اللولوء ، فلسطین الیوم اورالکوثر کو بند کردیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق امریکی وزارت انصاف نے سامراجی اہداف کے تحت گذشتہ برس کے اواخر سے مزاحمتی تنظیموں کی سائٹوں کو بند کرنے کا آغاز کیا تھا تاکہ عراق، یمن ، فلسطین ، بحرین اور دیگر علاقوں کے مظلوموں کی آواز دنیا تک نہ پہنچ سکے۔ امریکی حکومت کا یہ اقدام اظہار خیال اور اظہار بیان کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اور ذرائع ابلاغ پر دہشت گردانہ حملہ ہے۔
کفرانِ نعمت
کفرانِ نعمت (احسانِ فراموشی) گناہِ کبیرہ ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں اس کے لیے عذاب کا وعدہ کیا گیا ہے اور اسے چند مقامات پر کفر بھی کہا گیا ہے اور اسے پچھلی قوموں پر عذاب نازل ہونے کا سبب بھی بتایا گیا ہے۔
خدا سورة ابراہیم میں فرماتا ہے: "اور اے بنی اسرائیل اس بات کو یاد کرو جب تمہارے پروردگار نے تم کو خبردار کیا تھا کہ اگر میری نعمتوں (ایمان اور نیک اعمال کی بدولت فرعون اور دوسروں کے شر سے نجات) پر شکر ادا کرو گے تو میں تمہاری نعمتوں میں اضافہ کر دوں گا اور اگر ناشکراپن کرو گے تو بلاشبہ میرا عذاب (ناشکروں یا احسان فراموشوں پر) سخت ہو گا۔" (آیت۷)
خدا سورة البقرہ میں فرماتا ہے: "سو مجھے یاد کرو تاکہ میں تمہیں یاد کروں، میری نعمتوں کا شکر ادا کرو اور کافر نہ ہو۔" (آیت ۱۵۲)
قومِ سبا احسان فراموشی کرتی ہے عذاب بھگتی ہے خداسورة سبا کے باشندوں کے بارے میں یوں فرماتا ہے: "سبا کے قبیلے کے لیے (جو یمن میں تھا) لوگوں کے گھر (ان کی قوت وطاقت، خدا کی نعمتوں کی فراوانی اور ان کی ناشکری پر سخت عذاب اور سزاؤں) کی نشانی تھے اور وہ نشانی یہ ہے کہ اس قبیلے کے دو باغ تھے جو راہ چلنے والے کے دائیں بائیں یا ان کے گھروں کے دونوں طرف واقع تھے (اور کہتے ہیں کہ ان میں سانپ، بچھو، مچھر، چیچڑی اور جوں وغیرہ کی قسم سے کوئی ستانے والا کیڑا نہیں تھا اور اگر کوئی ان درختوں کے نیچے خالی ٹوکری رکھ آتا تھا تو وہ ٹوکری پھلوں سے بھر جاتی تھی) پیغمبروں نے ان سے کہا: "خدا کا رزق کھاؤ اور اس کی نعمت کا شکر ادا کرو، تمہارا شہر خوش حال ہے اور اور تمہارا خدا معاف کرنے والا اور مہربان ہے۔" انہوں نے سرکشی کی اور ناشکرا پن دکھایا (اور کہنے لگے ہم نہیں سمجھتے کہ خدا نے ہمیں کوئی نعمت بخشی ہے اور اگر یہ نعمتیں اسی کی دی ہوئی ہیں تو اس سے کہیے کہ وہ واپس لے لے)۔ چنانچہ ہم نے ان کے لیے عرم کا سیلاب بھیجا (بتایا گیا ہے کہ عرم ایک پشتے کا نام ہے جو سبا کی ملکہ بلقیس نے دو پہاڑوں کے بیچ میں پتھر اور تارکول سے بنوایا تھا جہاں بارش کا پانی اکٹھا ہوتا تھا۔ اس میں ایک کے اوپر ایک تین دروازے بنوائے تھے اور نیچے ایک بڑی سی جھیل تھی جس میں سے نکلنے والی نہروں کی تعداد کے مطابق بارہ موریاں بنوائی تھیں۔ جب بارش ہوتی تھی اس بند کے پیچھے پانی اکٹھا ہو جاتا تھا اس وقت اوپر کا دروازہ کھول دیتے تھے تاکہ پانی اس جھیل میں آ جائے اگر پانی کم ہوتا تھا تو درمیانی دروازہ کھول دیتے تھے اور اگر اور کم ہوتا تھا نچلا دروازہ اور جب پانی جھیل میں اکٹھا ہو جاتا تھا تو اسے نہروں میں بانٹ دیتے تھے۔ وقت یوں ہی گذرتا رہا یہاں تک کہ بلقیس کا انتقال ہو گیا۔ یہ لوگ باغی ہو گئے اور حد سے گذر گئے تو خدا نے ان پر بڑے بڑے چوہے مسلط کر دئیے جنہوں نے بند میں چھید کر دئیے۔ پانی میں طغیانی آ گئی جس نے اس پشتے کو منہدم کر دیا۔ کچھ لوگ ہلاک ہو گئے اور کچھ ادھر اُدھر بھاگ گئے اور ان کی بھگدڑ اور بے بسی عرب میں ضرب المثل بن گئی) اور ان دونوں باغوں کو ہم نے دو ایسے باغوں میں تبدیل کر دیا جن کے پھل کڑوے اور بدذائقہ تھے اور درختوں کو شورہ کھا گیا تھا جن میں سے کچھ درخت بیری کے تھے یہ سزائیں ان لوگوں کی احسان فراموشی اور ناشکرے پن کی تھیں اور کیا ہم ناشکروں کے سوا بھی کسی کو سزا دیتے ہیں؟" (آیات ۱۵ تا ۱۷)
نعمت نقمت ہو جا تی ہے
خدا سورة نحل میں فرماتا ہے: "خدا نے ایک گاؤں کی مثال بیان کی ہے جس کے باسی امن اور اطمینان سے رہتے تھے ۔ہر طرف سے ان کے پاس بافراغت روزی چلی آتی تھی (خشکی اور تری دونوں سے) پھر انہوں نے خدا کی نعمتوں کی ناشکری کی تو خدا نے بھوک اور خوف کو ان کا اور اوڑھنا (لباس) بنا کر ان کے کرتوتوں کا انہیں مزا چکھا دیا۔" (آیت ۱۱۲) لباس کا ذکر عذاب کے ان کو گھیر لینے کی مناسبت سے کیا گیا ہے یعنی جس طرح لباس پہننے والے کو ڈھانک لیتا ہے اسی طرح عذاب نے انہیں چاروں طرف سے گھیر لیا۔ بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ اس آیت کے گاؤں سے شہر مکہ مراد ہے جس کے باشندے سات سال تک کال اور بھوک میں مبتلا رہے تھے اور مجبوری اور بھوک سے ان کی یہ حالت ہو گئی تھی کہ جلی ہوئی ہڈیاں، مردار گوشت اور خون کھاتے تھے۔
ناشکرا پن ایک قسم کا کفر ہے
ٍ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) ناشکرے پن کو کفر میں ہی شمار کرتے ہیں کیونکہ خداوند عالم سلیمان کی بات دہراتا ہے کہ خدا نے جو کچھ مجھے بخشا ہے اپنے فضل سے بخشا ہے تاکہ مجھے آزمائے کہ میں شکر گذار ہوں یا ناشکرا۔ جو کوئی شکر ادا کرتا ہے وہ اپنے ہی لیے شکر ادا کرتا ہے (کیونکہ اس سے اس کی نعمت بڑھتی ہے) اور جو کوئی ناشکرا پن کرے تو کرے حقیقت یہ ہے کہ میرا خدا شکرگذاری سے بے نیاز اور کریم ہے۔ اس نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تمہاری نعمت میں اضافہ کر دوں گا اور جو ناشکرا پن کرو گے تو پھر بلاشبہ میرا عذاب بھی سخت ہو گا اور خدا یہ بھی فرماتا ہے کہ تم مجھے یاد کرو گے تو میں تمہیں یاد رکھوں گا۔ میرا شکر کرتے رہو ار میری ناشکری نہ کرو۔ (اصول کافی کتاب الایمان والکفر باب وجوہ الکفر)
امام کی گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ خد نے ان تینوں گناہوں میں ناشکرے پن کرکفر کہا ہے۔ ان آیتوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ناشکرے پن کے تین بڑے نتیجے نکلتے ہیں اس طرح کہ اس نے نعمت ختم ہو جاتی ہے ،اس کی وجہ سے سخت اور دردناک عذاب آتا ہے اور خدا ناشکرے کو اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔
ناشکرا پن اور اہل بیت علیھم السلام کی روایات
اس بارے میں بہت سی روایتیں ہیں لیکن صرف چند کے بیان پر اکتفاء کیا جاتا ہے:
پیغمبر اکرم فرماتے ہیں "ہر گناہ کے مقابلے میں ناشکرے پن کی سزا ناشکرے کو بہت جلد مل جاتی ہے۔" (وسائل الشیعہ باب ۸ ص۵۱۷)
آپ یہ بھی فرماتے ہیں "تین گناہ ایسے ہیں جن کا ارتکاب کرنے والے آخرت سے پہلے اپنی سزا کو پہنچیں گے ۔ والدین کی نافرمانی، لوگوں پر ظلم اور احسان فراموشی"۔ (وسائل الشیعہ)
ٍ آپیہ بھی فرماتے ہیں: "خدا کا سب سے پیارا بندہ وہ ہے جو خدا کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کرتا ہے اور خدا کا سب سے زیادہ دشمن وہ ہے جو خدا کی نعمتوں کی ناشکری کرتا ہے۔" (مستدرک ص ۳۱۶)
حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) اپنی وصیت میں فرماتے ہیں: "کسی نعمت کی ناشکری نہ کرو کیونکہ حقیقت میں ناشکرا پن سب سے بڑا اور گھٹیا قسم کا کفر ہے۔" (مستدرک ص ۳۹۶)
کفرانِ نعمت کے معنی
کفرانِ نعمت کے معنی نعمت کو چھپانا ہیں اور اس کی تین قسمیں ہوتی ہیں:
(۱) نعمت سے ناواقفیت:
یہ سب سے بُری اور شدید قسم ہے اور اس کی دو صورتیں ہوتی ہیں ایک نعمت سے ناواقفیت یا بے خبری ہے یعنی نہ سمجھنے کی وجہ سے نعمت کو نہیں پہچانتا، اس کی پرواہ نہیں کرتا یعنی اسے نظر انداز کر دیتا ہے اور اس کے ہونے نہ ہونے کو یکساں جانتا ہے۔ دوسرے نعمت بخشنے والے سے ناواقفیت یا بے خبری ہے یعنی دراصل اپنے پروردگار ہی کو نہیں پہچانتا یا یہ نہیں جانتا کہ اس کی ایک صفت نعمت بخشنا بھی ہے۔ چنانچہ یہ نہیں سمجھتا کہ نعمت صرف اسی کی طرف سے آتی ہے بلکہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کے علاوہ کسی اور کی طرف سے آتی ہے۔ غرض یہ ہے کہ نعمت سے خبری ہو یا نعمت دینے والے سے دونوں بے خبریاں کفرانِ نعمت یعنی احسان فراموشی ہیں اور صاف سزاؤں کی مستحق ہیں کیونکہ کفرانِ نعمت کے لیے عذاب کا وعدہ کیا گیا ہے اور یہ گناہِ کبیرہ ہے۔
(۲) حالت کے لحاظ سے کفر:
یہ اس طرح ہے کہ عاقل انسان کو اس نعمت کے ملنے پر خوش اور مسرور ہونا چاہیئے جو خدا اسے بخشتا ہے یہ سوچ کر کہ اللہ نے اس پر مہربانی کی اور اسے یاد رکھا اور وہ اس کے مسلسل فضل وکرم کا امیداوار ہے۔ (سورة یونس آیت ۵۸) اب اگر اس کے برعکس وہ اپنے پروردگار سے بدگمان رہے۔ اس کے فضل وکرم سے کوئی امید نہ رکھے یا اس سے خوش نہ ہو بلکہ اس سے بے تعلق اور نا امید ہو جائے تو یہ کیفیت یا حالت خدا کی نعمتوں کی ناشکری ہے۔
(۳) اعضائے جسم سے کفر:
یعنی عملی کفر اس طرح کہ دل میں گناہ کی نیّت کرے اور زبان سے شکایت اور بُرائی کرے یعنی نعمتوں کا ذکر اور زبان سے ان کا شکر ادا کرنے کے بجائے سب کو نظر انداز کر دے (سورة الضحٰی آیت ۱۱) اور اپنی آرزوؤں کے پورا نہ ہونے کی شکایت کرتے ہوئے خدا کے کاموں کی بُرائی کرے اور خدا کی نعمت کو وہاں صَرف کرے جس کے لیے وہ پیدا نہیں کی گئی اور اپنے اعضاء سے وہ کام لے جس سے خدا نے منع فرمایا ہے اور جو اس کی رحمت سے دُور کرنے والا ہے۔
حضرت امام سجاد (علیہ السلام) (ایسے گناہ جو نعمتوں کو تبدیل کر دیتے ہیں) کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "انہیں میں ناشکرا پن یعنی کفرانِ نعمت بھی شامل ہے۔" (معانی الاخبار)
پیغمبر اکرم بھی فرماتے ہیں "مومن کے لیے فشار قبر (قبر کا مردے کو بھینچنا) ان نعمتوں کا کفارہ ہوتا ہے جو اس نے ضائع کر دی ہیں۔" (بحار الانوار جلد ۳)
شکر نعمت کے واجب ہونے کے متعلق بہت سی آیتیں اور حدیثیں ملتی ہیں اور شکر کی حقیقت اور اس کی قسموں کی اس قدر تفصیل موجود ہے جس کے بیان کرنے کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔ اس کے لیے اصول کافی اور دوسری اخلاقی کتابیں ملاحظہ فرمائیے۔
اگر شکر نہ کرے تو انسان جانور سے بھی گھٹیا ہے
حضرت امام سجاد (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "خاص تعریف اس خدا کے لیے ہے جو اگر اپنے بندوں کو ان نعمتوں کا شکر عطا نہ کرنا نہ بتاتا جو اس نے گاتار اور کھلم کھلا عنایت فرمائی ہیں تو اس میں شک نہیں کہ وہ ان نعمتوں کو لے کر ان کا شکرادا کیے بغیر انہیں اپنے کام میں لے آتے اور اگر وہ ایسا کرتے تو انسانیت کے دائرے سے نکل کر جنگلی جانوروں اور چوپایوں کی حد میں پہنچ جاتے جیسا کہ قرآن میں خدا فرماتا ہے: کفار حیوانات کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گھٹیا اور گمراہ ہیں۔" (دعائے اوّل صحیفہٴ سجادیہ)
غرض یہ ہے کہ نعمت کا شکر ادا نہ کرنے والا انسان دراصل آدمیت سے ہی خارج ہے پھر ایسے شخص کے متعلق ایمان، صحیح معارف اور نیک اعمال کی بدولت حاصل ہونے والی انسانی سعادتوں اور برکتوں کا تو ذکر ہی کیا ہو سکتا ہے جو اس کی ہمیشہ رہنے والی زندگی کے لیے ہوں گی۔
واسطوں اور ذریعوں سے انکار (کفران)
چونکہ خدا نے دُنیا کو اپنی حکمت ومصلحت سے دارالاسباب قرار دیا ہے اور اپنے بندوں تک ہر نعمت پہنچانے کا کوئی نہ کوئی واسطہ، سبب یا ذریعہ مقرر فرمایا ہے جس کی بدولت وہ نعمت بندوں تک پہنچتی ہے اس لیے عقل اور شرع کی رو سے واسطوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیئے بلکہ ان کا بھی احسان ماننا چاہیئے البتہ یہ نہیں کہ اس واسطے ہی کو مستقل طور پر اور حقیقت میں اپنا منعم (نعمت بخشنے والا) سمجھے بلکہ اس کا احترام ضرور کرے کیونکہ وہ نعمت کا ذریعہ ہے اور اپنی زبان اور اپنی حالت و کیفیت سے خدا کا شکر ادا کرے کہ فلاں شخص نے مجھے تیری فلاں نعمت پہنچائی ہے۔ یہاں چند روایتوں پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔
حضرت امام سجاد (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "بلاشبہ خدا ہر شکرگذار بندے سے پسند فرماتا ہے اور قیامت میں اپنے ایک بندے سے پوچھے گا (دنیا میں) تو نے فلاں شخص کا (جو میری نعمت کا ذریعہ تھا) شکریہ ادا نہیں کیا اس لیے میرا بھی شکر ادا نہیں کیا۔" پھر امام نے فرمایا: "تم میں خدا کا سب سے زیادہ شکر گذار بندہ وہ ہے جو ان لوگوں کو بھی شکریہ ادا کرتا ہے جن کے واسطے سے خدا کی نعمتیں ملتی ہیں۔" (وسائل الشیعہ)
حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "حقیقت میں خدا کا شکر ادا کرنا اس شخص کا شکریہ ادا کرنا ہے جس کے ذریعے سے تمہیں خدا کی نعمت ملی۔" (وسائل الشیعہ)
حضرت امام رضا (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "جو شخص ان لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا جن کے واسطے سے اسے نعمت الہٰی ملی ہے اس نے گویا خدا کا شکر ہی ادا نہیں کیا۔" (وسائل الشیعہ)
رسول خدا فرماتے ہیں: "قیامت میں بندے کو حساب کتاب کے مقام پر لائیں گے اور خدا حکم دے گا کہ اسے دوزخ میں لے جاؤ تو وہ کہے گا۔ اے پروردگار! مجھے دوزخ میں لے جانے کا حکم کس لیے دیتا ہے جبکہ میں قرآن کی تلاوت کرتا رہا ہوں؟ خدا فرمائے گا: اس لیے کہ میں نے تجھے نعمت بخشی اور تُو نے شکر نہیں کیا۔ وہ کہے گا: اے خدا! تو نے مجھے فلاں نعمت دی تھی تو میں نے یوں شکر کیا، اور فلاں نعمت بخشی تو میں نے یوں شکرگذاری کی۔ اس طرح وہ خدا کی نعمتیں اور اپنی شکرگذاریاں گنائے گا۔ خدا فرمائے گا تُو نے سب کچھ سچ کہا لیکن یہ بات بھی تو ہے کہ میں جن لوگوں کے واسطے سے تجھے نعمتیں بھیجیں تو نے ان کا شکریہ ادا نہیں کیا۔ میں نے اپنی ذات کی قسم کھائی ہے کہ میں نے جس بندے کو اپنی نعمت عطا فرمائی ہے اس کا شکر اس وقت تک قبول نہیں کروں گا جب تک کہ وہ اس شخص کا شکریہ ادا نہ کرے جس کے وسیلے سے نعمت اس تک پہنچی ہے۔ (وسائل الشیعہ باب ۸ ص ۵۱۶)
پچھلی گفتگو میں حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی ایک حدیث نقل کی گئی تھی جس میں آپ فرماتے ہیں: "اس شخص پر خدا کی لعنت ہو جس کے ساتھ کوئی بھلائی کی جائے اور وہ اس کا شکریہ ادا نہ کرے اور اس کی ناشکری گذاری (احسان فراموشی) کی وجہ سے نیکی کرنے والا پھر دوسروں کے ساتھ بھلائی نہ کرے۔" (۱)
نیکی کے واسطے شکریے کى حقیقت
پیغمبر اکرم فرماتے ہیں: "جب تجھے اپنے مومن بھائی سے کوئی نعمت یا نیکی حاصل ہو تو اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے کہ خدا آپ کو جزائے خیر (اچھا صلہ) عطا کرے اور اگر تیرا ذکر اس محفل میں کیا جائے جس میں تو موجود نہ ہو تو کہہ دے کہ خدا انہیں جزائے خیر عطا فرمائے تو نے گویا اس طرح اس کی تلافی کر دی یعنی حساب برابر کر دیا۔"
(وسائل الشیعہ۔ مستدرک)
آپ نے یہ بھی فرمایا ہے: "جس نے تمہیں خدا کی قسم دلا کر تم سے کچھ مانگا اور جس سے تمہیں بھلائی اور نعمت ملی اس کی تلافی کر دو یعنی تم بھی اس کی طرح اس کے ساتھ بھلائی کرو اور اگر تمہارے پاس وہ چیز نہ ہو جس سے تم تلافی کر سکتے ہو تو اس کے لیے اس طرح دعا کرو جس سے وہ جان جائے کہ تم نے تلافی کر دی ہے۔" (وسائل الشیعہ۔ مستدرک)
غرض ہر احسان کا بدلہ احسان سے چکانا چاہیئے جیسا کہ خدا سورة رحمن میں فرماتا ہے: "کیا بھلائی کا بدلہ بھی بھلائی کے سوا کچھ ہو سکتا ہے؟" (آیت ۶۰) لیکن یہ پیشِ نظر رہے کہ بھلائی کی ابتداء کرنے والا افضل ہوتا ہے۔
روایتوں میں صاف صاف بتایا گیا ہے کہ اس ظلم کے تحت احسان کرنے والوں میں کوئی فرق نہیں ہے یعنی مومن ہو یا کافر عبادت گذار ہو یا گناہگار غرضیکہ کوئی ہو اور اس نے کیسی ہی بھلائی کی ہو اس کی تلافی کرنا چاہیئے۔
ولایت سب سے اعلیٰ نعمت ہے
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کسی شخص کے بارے میں خدا کی دنیاوی اور آخرت کی، صوری اور معنوی نعمتیں گنی نہیں جا سکتیں جیسا کہ قرآن مجید میں خدا یاد دلاتا ہے: "اگر تم خدا کی نعمتوں کو گننا بھی چاہو تو گن نہیں سکو گے۔" (سورة ابراہیم آیت ۳۴ ) ان نعمتوں میں سے ہر نعمت کی ناشکری، جن معنوں میں ذکر کیا گیا ، گناہِ کبیرہ اور عذاب کی سزاوار ہے۔ لیکن یہ بھی جان لینا چاہیئے کہ نعمت جتنی اہم اور بڑی اور اس کا اثر جتنا زیادہ ہو گا اس کی ناشکری کی سزا بھی اتنی ہی زیادہ ہو گی اور اس کا گناہ بھی اتنا ہی بڑا ہو گا۔
ہر نعمت سے اعلیٰ اور اہم آلِ محمد علیھم السلام کی ولایت ہے (دیکھئے بحار الانوار جلد۷) اور اس نعمت کی ناشکری ہر گناہ سے سخت ہے اور اس کی ناشکری ان کی ولایت کا نہ ماننا یا ان حضرات کو بھول جانا اور یاد نہ کرنا، ان سے محبت نہ رکھنا اور ان کے اقوال اور اوامر ونواہی کے ماننے سے منہ موڑنا غرض ان کے منصب کی پرواہ نہ کرنا اور ان کی ولایت کی نعمت سے فیض حاصل نہ کرنا ہے۔
(۱) دیکھئے وسائل کتاب امر بمعروف جسکے باب ۸ میں اس موضوع پر ۱۶ حدیثیں، باب ۷ میں ۱۱ حدیثیں اور مستدرک میں ۱۴ حدیثیں اور باب ۷ میں ۹ حدیثیں بیان ہوئیں ہیں۔
تفسیر صافی اور برہان وغیرہ کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی ایمان سے متعلق زیادہ تر آیتوں کا اشارہ ولایت پر ایمان رکھنے سے ہے اور اسی طرح کفر کے موضوع سے متعلق آیتیں زیادہ تر ولایت کے انکار سے متعلق ہیں۔ مثال کے لیے دو ایک آیتوں کا ذکر کیا جاتا ہے:
خداوندعالم سورة ابراہیم میں فرماتا ہے: "کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے خدا کی نعمت کی ناشکری کی اور اپنی قوم کو جہنم میں جھونک دیا۔" (آیت ۲۴)
یہ بات بہت سی روایتوں میں آئی ہے کہ نعمت معصوم اور پاک اہل بیت علیھم السلام ہیں اور کفر بنی امیہ اور آلِ محمد کے دشمن ہیں۔
خدا سورةتکاثر میں فرماتاہے : "قیامت میں تم سے نعمت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔"(آیت ۸)
بہت سی روایتوں میں یہ بات ملتی ہے کہ اس بات میں لفظ نعیم (نعمت) سے جس کے بارے میں پوچھا جائے گا آلِ محمد کی ولایت مراد ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ نعمت کی اصل اور حقیقت وہی ولایت کی نعمت ہے کیونکہ ہر نعمت کی فیض رسانی اسی پر منحصر ہے۔
- مؤلف:
- شہید سید عبدالحسین دستغیب (رح)
- ذرائع:
- اقتباس از گناہان کبیرہ
حضرت سارہ سلام اللہ علیہا
قرآنی علوم ومعارف سے سرشار عورت جس نے ایمان و تقوی اور فضائل و کمالات کے اعلی مراتب حاصل کئے ہیں اور اسی طرح انبیاء علیہم السلام کی تاریخ اور توحید کا پیغام نشرکرنے میں ایک عظیم مقام پر فائز ہے وہ جلیل القدر خاتون خلیل خدا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شریک حیات حضرت سارہ ہیں آپ حضرت آدم علیہ السلام کے دنیا میں تشریف لانے کے تینتیس سو اکسٹھ سال بعد اور پیغمبر اسلام (ص) کی ہجرت سے اٹھائیس سو پچپن سال پہلے عراق کے شہر بابل میں پیدا ہوئیں آپ کے والد ماجد لاہج تھے اور والدہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خالہ تھیں ۔ آپ نے ابھی زندگی کی چھتیسویں بہار ہی میں قدم رکھا تھا کہ آپ کی شادی حضرت ابراہیم سے ہوگئی اور آپ عمر کے آخری لمحہ تک ان کی مطیع و قرمانبردار رہیں۔ جناب سارہ اپنے زمانے کی مالدار خاتون اور بہت سی زمینوں اور مویشی اور جانوروں کی مالک تھیں مگر شادی کے بعد آپ نے اپنی تمام دولت وثروت حضرت ابراہیم کی خدمت میں پیش کردی تاکہ وہ دین کی نشرو اشاعت میں صرف کریں ۔
حناب سارہ نے بچپن سے ہی یہ مشاہدہ کیاتھا کہ ان کے خالہ زاد بھائی ابراہیم ، اگر چہ جہالت و گمراہی سے پر اور بت پرست معاشرے میں پیدا ہوئے تھے اوران کے ولی و سرپرست آزر خود ایک بت پرست تھے لیکن انہوں نے سن شعور ہی سے باطل خداؤں سے منھ موڑ رکھا تھا اور قوی ومستحکم دلیلوں کے ذریعے سورج ، چاند ستاروں اور ہرطرح کے خداؤں کی خدائی کو باطل قرار دیدیا تھا اور اپنے چچا آزر سے بحث و مناظرہ کرکے انہیں بت پرستی سے منع کیا تھا اس شرک و کفر کے ماحول میں جس چیز نے جناب سارہ کو اپنی طرف جذب کیا وہ انسانی اور توحیدی فضائل و کمالات تھے لہذا آپ نے ہزاروں پریشانی و مشکلات کے باوجود اپنے بھائی لوط کے ہمراہ سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نبوت کی تصدیق اور ان کی پیروی کی ۔
جناب سارہ بے شمار معنوی اور اخلاقی فضائل و کمالات کی حامل خاتون تھیں اور قضائے الہی پر صبر و تحمل کے ساتھ راضي رہنا ان کی اہم خصوصیت تھی اور خدا پر اعتماد وبھروسہ ، عبادت و ریاضت میں خلوص اس خداپرست خاتون کی دوسری صفتیں تھیں اگر چہ آپ شادی سے پہلے ایک بہت ہی مالدار خاتون تھیں لیکن حضرت ابراہیم سے شادی کے بعد بے پناہ مصائب و آلام برداشت کئے اور اس راہ میں نہایت صبر وتحمل اور خدا پر مکمل اعتماد کے ساتھ زندگی میں پیش آنے والی مشکلات کو سر کیا اور اخلاص کے ساتھ عبادت و بندگی میں منزل کمال پر فائز ہوئیں جناب سارہ کے اخلاقی صفات خصوصا مصائب وآلام میں صبر و تحمل ، اپنی تمام دولت و ثروت کو اپنے شوہر کی خدمت میں پیش کرنا پیغمبر اسلام (ص) کی شریک حیات حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کہ جو تمام مصیبت و آلام میں پیغمبر اسلام کے ہمراہ رہیں، کے ایثار و قربانی اور ان کے جذبہ خلوص کی یاد تازہ کر دیتا ہے۔
بے شک خدا پر ایمان ، انسان کے قلب کو قوت وطاقت فراہم کرتا ہے تاکہ انسان مشکلات و پریشانی کے عالم میں حلیم و بردبار رہے۔
جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نار نمرودی میں ڈالاگیا تو اس وقت جناب سارہ موجود تھیں اور آپ کی سلامتی کے لئے بارگاہ پروردگار میں دعائیں کی تھی اور آگ خدا کے حکم سے گلزار ہوگئ اور دشمنوں کی تمام سازشیں ناکام ہوگئیں اور اس واقعے کے بعد بت پرستوں نے حضرت ابراہیم ، سارہ اور لوط کو شہر سے باہر نکال دیا اور وہ لوگ شام کی جانب چلے گئے جناب سارہ نے دربدری اور سفر کی صعوبتوں کو برداشت کیا تا کہ ابراہیم کے ذریعے دین کا پیغام زیادہ عام ہوسکے اور مدتوں شام میں رہے اور اس دوران حضرت ابراہیم لوگوں کو خدا کے دین کی دعوت دیتے رہے۔
ایمان و اخلاق کی پیکر حضرت سارہ عفت و پاکدامنی میں بے نظیر تھیں آپ نہایت جمیل تھیں عام طور پر صاحبان حسن وجمال اپنے فانی حسن پر بہت زیادہ اتراتے ہیں لیکن جناب سارہ ایمان و تقوی کی دولت سے مالا مال ہونے کی بناء پر ہمیشہ پورے حجاب میں رہتی تھیں اور غیر افراد کے ساتھ کبھی بھی نشست و برخواست نہیں کرتی تھیں
جناب سارہ ایثار وقربانی کی پیکر اور عفو و درگذر کرنے والی خاتون تھیں شادی کے چند سال بعد جب انہیں یہ احساس ہوا کہ وہ ماں نہیں بن سکتیں اور حضرت ابراہیم کے یہاں ایک بچے کا وجود ضروری ہے تاکہ نسل رسالت کا سلسلہ جاری رہے توآپ نے اپنی کنیز خاص ہاجرہ کہ جو ایک متقی و پرہیزگار خاتون تھیں انہیں حضرت ابراہیم سے شادی کرنے کے لئے آمادہ کیا اور اس طرح پروردگار عالم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اسماعیل جیسا بیٹا عطافرمایا ۔
جناب سارہ بہترین شریک حیات ہونے کے ساتھ ساتھ ہر ہر منزل پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یاور و مددگار تھیں یہی وجہ ہے کہ خداوندعالم نے ان کے ایثار اور جذبہ قربانی ، صبر و اطمینان اور اعتماد کے نتیجے میں ایسی عمر میں کہ جس میں عورتوں میں بچہ جننے کی صلاحیت نہیں ہوتی جناب سارہ کو اسحاق جیسا فرزند عطا کیا اور یہ ایک معجزہ الہی تھا ورنہ علمی اعتبار سے بھی اسے کوئی قبول نہیں کرسکتا کہ ایک عورت نوے سال کی عمر میں ماں بن سکتی ہے ۔
حضرت ابراہیم اور جناب سارہ بہت زیادہ مہمان نواز تھے جناب سارہ کی ہمیشہ یہی کوشش رہتی تھی کہ تمام نیک امور بالخصوص مہمان نوازی میں حضرت ابراہیم کے شانہ بشانہ رہیں۔ ایک دن حضرت ابراہیم اور سارہ کے یہاں مہمان آئے لیکن یہ عام مہمان نہیں بلکہ فرشتے تھے جو انسانی شکل میں حضرت سارہ اور حضرت ابراہیم کے مہمان ہوئے تھے ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فورا ہی مہمانوں کی خاطر و تواضع کے لئے اسباب فراہم کئے اور بہترین بھنا ہوا بچھڑے کا گوشت لائے سارہ نے بھی کھانا تیار کرنے میں اپنے شوہر نامدار کا ہاتھ بٹایا اور خوشی خوشی مہمانوں کے سامنے کھانا پیش کیا لیکن مہمانوں کا ابراہیم کے گھر آنے کا مقصد ، انہیں بشارت و خوشخبری سنانا تھا ۔
وہ لوگ بڑھاپے کے عالم میں خداوند عالم کے فضل وکرم سے صاحب اولاد ہوئے ایسا فرزند جس کا سارہ مدتوں سے انتظار کررہی تھیں اور اس طرح فرشتوں نے جناب سارہ کو ایک عظیم فرزند اسحاق کی خوشخبری سنائی سارہ نے جیسے ہی ماں بننے کی خبر سنی تو کہا : ” اب میرے یہاں بچہ پیدا ہوگا جب کہ میں بوڑھی ہوں اور میرے شوہر بھی بوڑھے ہو چکے ہیں یہ تو بالکل عجیب سی بات ہے ۔ فرشتوں نے کہا کہ کیا تمہیں حکم الہی میں تعجب ہورہا ہے اللہ کی رحمت اور برکت تمہارے گھر والوں پر ہے وہ قابل حمد اور صاحب مجد و کرامت ہے ۔
اور پھر پروردگار عالم نے حضرت سارہ کو ایک عظیم فرزند اسحاق کی شکل میں عطا فرمایا حضرت اسحاق جناب یعقوب علیہ السلام کے والد ماجد ہیں اور حضرت یعقوب علیہ السلام انبیاء بنی اسرائیل ، حضرت موسی ، داؤد ، سلیمان ، زکریا ، عیسی، یحیی اور دوسرے انبیاء علیہم السلام کے جد امجد ہیں ۔
دین اسلام نے جنسیت کو لوگوں کی عظمت و برتری شمار نہیں کیا ہے بلکہ عورتوں اور مردوں کے لئے خدا سے قربت کا بہترین ذریعہ تقوی اور پرہیزگاری کو قرار دیا ہے ۔ دین اسلام کی نظر میں مومن انسان اپنے نیک اعمال اور فضائل و کمالات کے ذریعے خدا سے قربت حاصل کرتاہے اسی لئے پروردگار عالم نے انسان کو چاہے وہ مرد ہوں یا عورت ، روئے زمین پر اپنا جانشین وخلیفہ بنانے کا مستحق و سزاوار قراردیا ہے ۔
جناب سارہ نے بھی بے انتہا کوشش و محنت کرکے آرام و سائش سے دوری اور مادیت سے کنارہ کشی اختیار کی تھی اور خدا کی عبادت وبندگی میں اس درجہ کمال پر پہنچ چکی تھیں کہ پروردگارعالم نے ان کے عزت واحترام اور تعظیم کے لئے فرشتوں کو بھیجا اور ان سے خطاب کیا بالآخر عظمت و رفعت کی پیکراور توحید پروردگار کی حامی جناب سارہ اپنی بابرکت ودرخشاں زندگی اور حضرت ابراہیم کی رسالت وولایت کی حفاظت کرتے ہوئے ایک سو بیس سال کی عمر میں راہی ملک ارم ہوگئیں۔
سلام ہو اس حامی خدا اور خلیل خدا پر ۔
قدمگاہ؛ امام رضا علیہ السلام کے نیشابور سفر کی ایک عظیم یادگار
نیشابورشہرسے 24 کلومیٹر کے فاصلے پرمشہد ـ نیشابور ہائی وے کے قریب مولا امام رضا علیہ السلام سے منسوب قدمگاہ شریف ہے۔[1]
قدمگاہ مولا امام رضا علیہ السلام، زائرین امام ہشتم ع کےعلاوہ عام سیاحوں کےلئے بھی نہایت پرکشش اور جاذب نظرمقام ہے، قدمگاہ کی جذابیت صرف مذہبی مقام ہونے کی وجہ سے ہی نہیں ہے، بلکہ اس کے آس پاس کے نہایت خوبصورت اور قابل دید طبیعی نظارے بھی موجود ہیں۔ اس کے علاوہ قدمگاہ کے ساتھ ایک خوبصورت باغ بھی ہے جس میں انتہائی قدیمی بلند و بالا درخت موجود ہیں۔
ایرانی بادشاہ ناصرالدین شاہ قاجار کے دور میں قدمگاہ میں موجود باغ کی توسیع کی گئی اور 1971 کو باقاعدہ طور پر اسے ایرانی ثقافتی ورثے کا حصہ قرار دیا گیا۔[2]
باغ کی خصوصی حفاظت کی جاتی ہے اس کی ایک وجہ اس میں موجود بعض دیگر صفوی دور کے تاریخی یادگاروں کا موجود ہونا بھی بتایا جاتا ہے۔
تاریخی اعتبار سے قدمگاہ کی عمارت کے ساتھ کچھ اور عمارتیں بھی تعمیر کی گئی تھیں ان میں سے ایک میں پانی ذخیرہ کیا جاتا تھا جبکہ ایک عمارت میں مسافروں کو جگہ دی جاتی تھی، جبکہ تیسری عمارت ایسی تھی کہ جس میں مویشی رکھے جاتے تھے۔
قدمگاہ کے نزدیک ہی ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جو خود تاریخی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے اور اس گاؤں میں ایک پرانے قلعے کے آثار پائے جاتے ہیں۔
قدمگاہ در اصل امام رضا علیہ السلام کی ایک عظیم یاد گارہے، اس قدمگاہ کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ یہاں ایک نہایت خوبصورت صاف شفاف پانی کا چشمہ بھی موجود ہے اور روایات کے رو سے یہ چشمہ، امام رضا علیہ السلام کے حکم سے ہی جاری ہوا ہےاور یوں یہ امام ہشتم علیہ السلام کے معجزات اور کرامات میں سے ایک ہے۔[3]
قدمگاہ میں 53 سینٹی میٹر سیاہ رنگ کا ایک پتھر موجود ہے جس میں دو قدموں کے نشانات پائے جاتےہیں اور لوگوں کا عقیدہ ہے کہ اس پتھر پر کھڑے ہوکرحضرت امام علی ابن موسیٰ الرضا علیہ السلام نے نماز ادا کی تھی اورعاشقان امام نے قدموں کے نشان والے پتھرکو محفوظ کرلیا تھا۔[4] جبکہ بعض علماء کا کہنا ہے کہ عاشقان امام رضا علیہ السلام نے اسے ایک یادگار کے طور پر بنایا ہے۔[5]
قدمگاہ کی تاریخی حیثیت
قدمگاہ تاریخی اعتبارسے بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ جب امام رضا علیہ السلام مدینہ منورہ سے مرو کی طرف روانہ ہوئے تو اس وقت نیشابور ایران کے ایک پررونق اور آباد شہر کے طور پر پہچانا جاتا تھا، جب امام ہشتم نیشابور پہنچے تو لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے امام علیہ السلام کا استقبال کیا بعض روایات میں استقتبال کرنے والوں کی تعداد، ایک لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔[6]
اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: جب امام رضا(ع)، نیشابور کے مقام پر پہنچے تو مُحدِّثین کا ایک گروہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: فرزند رسول ص ہمارے لئے کوئی حدیث بیان بیان فرمائیں، امام(ع) نے اپنا سر کجاوے سے باہر نکالا اور فرمایا: میں نے اپنے والد گرامی موسی بن جعفر(ع) سے؛ انہوں نے اپنے والد گرامی جعفر بن محمّد(ع) سے؛ انہوں نے اپنے والد گرامی محمّد بن علی(ع) سے؛ انہوں نے اپنے والد گرامی علی بن الحسین (علیہما السّلام) سے؛ انہوں نے اپنے والد گرامی حسین بن علی(ع) سے؛ انہوں نے اپنے والد گرامی امیرالمؤمنین علی بن أبی طالب(ع) سے؛ انہوں نے رسول خدا(ص) سے آپ(ص) نے جبرئیل سے سنا جبرئیل کہتے ہیں پروردگار عزّ و جلّ فرماتے ہیں: “اللَّه جَلَّ جَلَالُهُ یقُولُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ حِصْنِی فَمَنْ دَخَلَ حِصْنِی أَمِنَ مِنْ عَذَابِی قَالَ فَلَمَّا مَرَّتِ الرَّاحِلَةُ نَادَانَا بِشُرُوطِهَا وَ أَنَا مِنْ شُرُوطِهَا.[7]
(ترجمہ: اللہ تعالی نے فرمایا: کلمہ “لَا إِلَہ إِلَّا اللَّہ” میرا مظبوط قلعہ ہے، پس جو بھی میرے اس قلعہ میں داخل ہوگا وہ میرے عذاب سے محفوظ رہے گا، جب سواری چلنے لگی تو [امام رضا](ع) نے فرمایا: [البتہ] اس کے کچھ شرائط ہیں اور میں ان شرائط میں سے ایک ہوں۔
چونکہ اس حدیث شریف کے سارے راوی معصوم ہیں اس لئے اسے سلسلۃ الذہب کہا جاتا ہے، اور اس حدیث کو اس مقام پر ایک ساتھ بیس ہزار سے زائد افراد نے امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام سے بنفس نفیس سن کرقلم بند کیا ہے۔[8]
قدمگاہ کیسے جائیں؟
قدمگاہ تاریخی اعتبار سے بھی نہایت اہمیت کی حامل ہے، لہذا آپ سے گزارش ہے کہ جب امام رضا علیہ السلام کی زیارت کا شرف حاصل کریں تو قدمگاہ کی زیارت سے بھی فیض یاب ہونے کی کوشش کیجئے۔
اگرآپ خود نیشابور شہر سے قدمگاہ کی زیارت پر جانا چاہیں تو اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ شہر سے قدمگاہ کی طرف عام طور پر ٹیکسی سروس موجود ہے جو بہ آسانی دستیاب ہے۔
مشہد مقدس سے اگر آپ جانا چاہیں تو ریل گاڑی، بس اور ٹیکسی کے ذریعے بھی جا سکتے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی, سید علی خامنہ : حالیہ انتخابات میں اصل فاتح ایرانی عوام ہے۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ایرانی عوام کو مخاطب کرکے فرمایا: اٹھارہ جون کے انتخابات میں بھر پور اور ولولہ انگیز شرکت نے آپ کے قابل فخر کارناموں میں ایک اور باب کا اضافہ کیا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اٹھارہ جون کے انتخابات میں اصل فاتح ایران کے عوام ہیں جو دشمنوں اور بدخواہوں کے زرخرید تشہیراتی اداروں کے پروپیگنڈوں کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوئے اور ملک کے سیاسی میدان میں اپنی موجودگی کا ثبوت پیش کیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ خداوند علیم و قدیر نے ایرانی عوام کو جو کامیابی عطا فرمائی ہے اور ایران نیز اسلامی جمہوریہ پر جو نظر کرم ڈالی ہے ،اس کے لئے میں بہت زیادہ شکرگزار ہوں اور ایرانی عوام کی قدردانی کرتا ہوں۔
آپ نے حالیہ صدارتی اور دیہی نیز شہری کونسلوں کے انتخابات میں کامیاب ہونے والے افراد کے بارے میں فرمایا کہ ان حضرات کو جو عظیم ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں ان پر انہیں مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے صدارتی الیکشن اور بلدیاتی کونسلوں کے انتخابات میں جیتنے والوں کو مخاطب کرکے فرمایا کہ ایران کے باوفا عوام کی قدر کریں ، اور قانون نے آپ کے لئے جو فرائض معین کئے ہیں، ان کی پابندی کریں ۔
پاکستانی صدر عارف علوی کی نو منتخب ایرانی صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی کو مبارکباد
پاکستان کے صدر ڈاکٹر عارف علوی نے نو منتخب ایرانی صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی کو مبارکباد دیتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ آپ کی مدبرانہ قیادت میں پاکستان اور ایران کے مابین برادرانہ تعلقات مزید مضبوط ہوں گے۔
ایوان صدر کے میڈیا ونگ کے مطابق صدر عارف علوی نے نو منتخب ایرانی صدر کے نام مبارکباد کا خط ارسال کیا ہے۔ پاکستانی صدر نے ایران کے نو منتخب صدر اور ایرانی عوام کو صدارتی انتخابات میں کامیابی پر مبارکباد دی اور کہا کہ ایرانی عوام نے امن، استحکام اور خوشحالی کیلئے آپکی قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا، اُمید ہے کہ آپکی قیادت میں پاکستان اور ایران کے درمیان برادرانہ تعلقات مزید مضبوط اور مستحکم ہوں گے۔صدر عارف علوی نے اپنے خط میں سید ابراہیم رئیسی اور ایرانی عوام کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔
امریکہ 20 سال میں افغانستان کے اندر رہ کر جنگ نہ جیت سکا ،اڈوں سے کیسے جیتے گا؟
مہر خبررساں ایجنسی نے جنگ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے افغانستان جنگ میں امریکہ کی شکست کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ 20 برس میں افغانستان کے اندر سے جنگ نہ جیت سکا تو پاکستان میں اڈوں سے یہ جنگ کیسے جیت سکے گا؟۔ پاکستانی وزير اعظم عمران خان نے امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں کہا ہے کہ امریکہ کو افغانستان کےخلاف اڈے دیئے تو پاکستان میں ایک بار پھر دہشتگردی بڑھے گی اور پاکستان دہشت گردوں کا ہدف بنے گا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان افغان عوام کے فیصلے سے بننے والی حکومت کی تائید کرے گا، پاکستان افغانستان میں کسی بھی دھڑے کی حمایت نہیں کرتا۔
عمران خان نے کہا کہ ماضی میں ایک دھڑے کی حمایت سے پاکستان نے غلطی کی جسے دہرایا نہیں جائے گا۔
عمران خان نے کہا کہ ہم افغانستان میں سیاسی امن عمل کے لیے کوششیں جاری رکھیں گے۔
خداوند متعال کا ارشاد: کلمہ لَا إِلَہ إِلَّا اللَّہ میرا مضبوط قلعہ ہے
حدیث سلسلۃ الذہب:
" اللَّه جَلَّ جَلَالُهُ یقُولُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ حِصْنِی فَمَنْ دَخَلَ حِصْنِی أَمِنَ مِنْ عَذَابِی قَالَ فَلَمَّا مَرَّتِ الرَّاحِلَةُ نَادَانَا بِشُرُوطِهَا وَ أَنَا مِنْ شُرُوطِهَا،
خداوند کا ارشاد ہے: کلمہ لَا إِلَہ إِلَّا اللَّہ، میرا مضبوط قلعہ ہے، پس جو بھی میرے اس قلعہ میں داخل ہو گا، وہ میرے عذاب سے محفوظ رہے گا، جب سواری چلنے لگی تو امام رضا (ع) نے فرمایا: البتہ اس کے کچھ شرائط ہیں اور میں ان شرائط میں سے ایک شرط ہوں۔
اسحاق ابن راہویہ کہتے ہیں: جب امام رضا (ع) خراسان جاتے ہوئے نیشاپور کے مقام پر پہنچے تو مُحدِّثین کا ایک گروہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا:
اے فرزند پیغمبر ! آپ ہمارے شہر سے تشریف لے جا رہے ہیں، کیا ہمارے لیے کوئی حدیث بیان نہیں فرمائیں گے ؟
اس مطالبے کے بعد امام (ع) نے اپنا سر کجاوے سے باہر نکالا اور فرمایا:
میں نے اپنے والد گرامی موسی ابن جعفر (ع) سے، انہوں نے اپنے والد گرامی جعفر ابن محمّد (ع) سے، انہوں نے اپنے والد گرامی محمّد ابن علی (ع) سے، انہوں نے اپنے والد گرامی علی ابن الحسین (ع) سے، انہوں نے اپنے والد گرامی حسین ابن علی (ع) سے، انہوں نے اپنے والد گرامی امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب (ع) سے، انہوں نے رسول خدا (ص) سے، آپ (ص) نے جبرائیل سے سنا، جبرائیل کہتے ہیں پروردگار عزّ و جلّ فرماتے ہیں:
اللَّه جَلَّ جَلَالُهُ یقُولُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ حِصْنِی فَمَنْ دَخَلَ حِصْنِی أَمِنَ مِنْ عَذَابِی قَالَ فَلَمَّا مَرَّتِ الرَّاحِلَةُ نَادَانَا بِشُرُوطِهَا وَ أَنَا مِنْ شُرُوطِهَا،
خداوند نے فرمایا ہے: کلمہ لَا إِلَہ إِلَّا اللَّہ میرا مضبوط قلعہ ہے، پس جو بھی میرے اس قلعہ میں داخل ہو گا وہ میرے عذاب سے محفوظ رہے گا، جب سواری چلنے لگی تو امام رضا (ع) نے فرمایا: البتہ اس کی کچھ شرائط ہیں اور میں ان شرائط میں سے ایک شرط ہوں۔
ولادت امام رضا علیہ السلام اور عشرہ کرامت کا حسن اختتام
آج ہر طرف چراغانی ہے، مسرتوں کی انجمن ہے کہ امام رضا علیہ السلام کی ولادت با سعادت ہے، ہند و پاک ہو کہ ایران و عراق یا جہان تشیع و کائنات محبان اہلبیت اطہار علیھم السلام و محاذ حریت ہر طرف محفلیں سجی ہیں اور امام رضا علیہ السلام کے فضائل و مناقب، آپکی تعلیمات سے آشنائی کے ساتھ آپ سے جڑا ہر دل یہ چاہتا ہے کہ عشرہ کرامت کے اس اختتامی دن کو یادگار بنایا جا سکے۔ یاد رہے کہ معصومہ سلام اللہ علیہا کی یکم ذیقعدہ (1) سے ولادت کو لیکر ۱۱ذی قعدہ ولادت امام رضا علیہ السلام (2) سے اس عرصے کو عشرہ کرامت کا نام دیا گیا ہے۔ اس لئے کہ جہاں بی بی حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کو کریمہ اہلبیت اطہار علیھم السلام کہا جاتا ہے، وہیں امام رضا علیہ السلام کریم اہلبیت (ع) ہیں یوں تو اہلبیت اطہار علیھم السلام کا ہر فرد کریم ہے لیکن چونکہ معصومہ قم کو کریمہ اہلبیت (ع) کہا جاتا ہے اور امام رضا علیہ السلام کا کرم بھی کسی پر پوشیدہ نہیں، آپ کریم اہلبیت ہیں، لہٰذا بہن کی ولادت سے لیکر بھائی کی ولادت کے اس عرصے کو عشرہ کرامت کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ہم اس عشرہ کرامت کی اختتامی منزل پر ہیں، لہٰذا بہتر جانا کہ اس کے اختتام پر مفہوم کرامت و کرم کو سمجھتے ہوئے ہم ان قدروں کو اپنے اندر اجاگر کرنے کی کوشش کریں، جو امام رضا علیہ السلام نے ہم تک منتقل کرنا چاہی ہیں، چنانچہ پیش نظر تحریر میں کوشش کی گئی ہے کہ مفہوم کرامت کو واضح کرتے ہوئے امام رضا علیہ کی حیات طیبہ کے گلستان کرم و فضل کے چند ان خوشوں کو پیش کیا جائے، جن سے آج بھی راہ کرم و فضل کے سالک استفادہ کر رہے ہیں اور رہتی دنیا تک یہ تعلیمات کرامت و شرف کی راہ میں مشعل راہ رہیں گے
مفہوم کرامت:
کرامت انسان کی ایسی خصوصیت ہے، جو انسان کی ایک والا قدر اور اس کے عظیم شرف کی ترجمان ہے، کرامت ہی کی بنیاد پر انسان ذاتا دوسری مخلوقات پر فضیلت رکھتا ہے، تمام ادیان و مکاتب فکر نے الگ الگ انداز سے انسان کی ذاتی کرامت کی تشریح کی ہے اور اسے عطائے رب جانتے ہوئے کرامت کو محفوظ رکھنے اور اس کے پھلنے پھولنے کے اصولوں کو بیان کیا ہے، یہاں تک کہ انسانی حقوق کے سلسلہ سے قائم مطالعات کی جدید دنیا میں (Human digneity) کے نام سے انسان کے موضوع پر ایک نئے مطالعہ کا باب تک کھل گیا ہے، (3) حتٰی یہ وہ موضوع ہے جس پر شاعروں اور فلاسفہ نے بھی اظہار خیال کرتے ہوئے اس پر خاص توجہ دی ہے، (4) اور ہمارے آئمہ طاہرین علیھم السلام خاص کر امام رضا علیہ السلام کی زندگی میں جا بجا انسانی کرامت کے بارز نمونے نظر آتے ہیں، ان نمونوں کو بیان کرنے سے قبل ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کرامت کہتے کس کو ہیں اور اسکا مفہوم کیا ہے جب ہم نے مفہوم کرامت کو ڈھونڈا تو ملا کہ لفظ کرامت "کرم" سے ہے اور لغت میں اسکے مختلف معانی بیان ہوئے ہیں کہیں یہ "بخشش و عطا" کے معنی میں ہے اور کہیں کسی کی "ارجمندی و بزرگی" کو بیان کرتا ہے کہیں "جلالت و شان" کو ابن منظور نے اسکے معنی بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کریم ایک ایسا اسم ہے جو اس ذات کے لئے استعمال ہوتا ہے جس کے اندر تمام سراہے جانے والے صفات موجود ہوں (5) گو تمام تر صفات حمیدہ کے حامل کو کریم کہتے ہیں۔
راغب اصفہانی نے کہا ہے کہ جب یہ خدا سے متصف ہو تو بخشش و عطا کے معنی میں ہوگا۔ جب انسان کے لئے استعمال ہو تو اچھے اخلاق و کرادر کے طور پر اسکے معنی بیان ہوں گے، (6) انہیں معنی کے پیش نظر علماء نے کرامت کے معنی کو ایسی صفت جس سے عقلاء راضی و خوشنود ہوں، (7) نیز پستیوں کی ضد، (8) بلندی کردار، پاکیزگی روح اور گوہر جان کے طور پر بھی بیان کیا ہے، (9) قرآن کریم نے بھی اسی روح کی بلندی کو بیان کرنے کے لئے لفظ کرامت کا سہارا لیا چنانچہ ارشاد ہوتا ہے ۔"وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِی آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّیِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى کَثِیرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیلاً": اسی لئے علماء اس آیت کے ذیل میں گفتگو کرتے ہوئے کہیں اسے انسان سے مخصوص روحانی فضیلت تو کہیں ذاتی شرف کے طور پر پیش کیا ہے،(10) مفہوم کرامت کی مختصر وضاحت کے بعد یہ تو واضح ہو گیا یہ انسان کی ایک ایسی صفت ہے جو اسے پستیوں سے دور کرتی ہے اور انسان کے گوہر وجود کو بیان کرتی ہے، بعض علماء نے مفہوم کرامت کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے ایک ذاتی و وہبی کرامت جو خدا نے ہر ایک کو دی ہے، ذاتی کرامت سے مراد وہ بلندی کردار ہے جسکا ہر ایک انسان ذاتا حامل ہے مگر یہ کہ برائیوں اور رذائل کے ارتکاب کے ذریعہ اسے ختم کر دے اور پست ہو جائے، دوسرا مفہوم کرامت اکتسابی ہے جہاں انسان اپنی ذات کی تعمیر و تطہیر اس طرح کرتا ہے کہ رذائل کی طرف دیکھتا ہی نہیں اور حصول کمالات کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے۔
یہی کرامت کا وہ مفہوم ہے جو انسان کی قدر و منزلت کو طے کرتا ہے [11] جب انسان کا کمال اسکی قدر و منزلت کو طے کرے تو تقوی سے بڑھ کر کمال اور کیا ہوگا جس کے لئے ارشاد ہو رہا ہے إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاکُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِیمٌ خَبِیرٌ: ... (الحجرات/13)۔ خدا کے نزدیک برتری کی بنیاد تقوٰی پر ہے،بیشک وہ جاننے والا اور باخبر ہے، یہی وجہ ہے کہ جب ہم امام رضا علیہ السلام کی زندگی میں دیکھتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ آپکی نگاہ میں خاندانی پس منظر یا آزاد و غلام ہونا معیار نہیں تھا، بلکہ آپکی نظر میں شرف انسانیت، کرامت انسان کی دلیل انسان کا باطن تھا، چنانچہ ابا صلت کہتے ہیں میں امام کے خراسان کے سفر میں ہمراہ تھا کہ امام علیہ السلام نے دسترخوان بچھانے کا حکم دیا اور تمام غلاموں اور خادموں کو آواز دی کہ آجائیں میں نے کہا آقا میری جان آپ پر قربان انکے لئے عیلحدہ دسترخوان لگا دیتے، آپ نے فرمایا ہمارا خدا ایک ہ،م ہمارے ماں باپ ایک ہیں اور انسان کی جزا اسکے اعمال پر موقوف ہے، (12) اور ایسا نہیں ہے کہ یہ کوئی ایک مقام ہو جہاں امام علیہ السلام نے اپنے خادموں اور خود کے درمیان سے ہر فرق کو مٹا کر انہیں اپنے ساتھ بٹھایا ہو بلکہ آپکا شیوہ ہی یہی تھا آپ اپنے خادموں اور اپنے یہاں کام کرنے والوں سے بہت مانوس تھے، چنانچہ جب بھی آپکو فراغت ملتی تمام چھوٹے بڑے لوگوں کو اپنے پاس جمع کر لیتے اور ان سے گفتگو فرماتے، یہاں تک کہ اصطبل میں کام کرنے والوں تک کو آپ اپنے پاس بلا بھیجتے اور سب کے لئے دسترخوان لگا کر سب کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے، (13)کرامت نفس کی اس بلندی پر آپ کی ذات تھی۔
خدمت خلق کو اپنا فریضہ سجمھتے تھے ہر ایک کے کام آتے اگر کوئی آپکو نہیں جانتا اور آپ سے اس نے کسی خدمت کے لئے بھی کہا تو آپ نے نہیں کہا کہ تم یہ کام مجھ سے لے رہے ہو جانتے نہیں میں کون ہوں؟ بلکہ تاریخ کہتی ہے کہ آپ کو نہ پہچان پانے کی وجہ سے حمام میں موجود کسی شخص نے عام آدمی خیال کر کے کیسہ ملنے کو کہا تو آپ نے اس سے بھی انکار نہیں کیا اور اسکا میل صاف کرنے تک میں عار محسوس نہیں کی اور جب اس نے پلٹ کر دیکھا کہ وہ امام وقت سے کام لے رہا ہے تو اپنی جگہ سن رہ گیا اور معذرت کرنے لگا کہ مولا مجھے خبر نہیں تھی، امام علیہ السلام نے اس وقت بھی اس سے کہا کوئی بات نہیں ہے اور کوشش کی کہ اس کی شرمندگی کو دور کر سکیں، (14) یہ ہمارے امام علیہ السلام کی سیرت ہے، کیا ہم اپنے معاشرے کے نادار و غریب افراد کے ساتھ ایسا سلوک کر سکتے ہیں جیسا کہ امام رضا علیہ السلام سب کے ساتھ فرماتے تھے؟ کیا ہم کسی کا بوجھ اس کے سر پر رکھنے کے لئے تیار ہیں؟ اٹھانے کی تو بات ہی دور ہے، کیا ہم اپنے سے چھوٹوں کے ساتھ ہمدردی و رواداری سے پیش آ سکتے ہیں، کیا ہم کسی غریب کا درد دل سن سکتے ہیں، کیا جب ہم کسی بڑی محفل میں شریک ہوتے ہیں تو ہمارے اندر یہ بات نہیں پائی جاتی کہ ہمیں اونچی جگہ ملے بڑا مقام ملے ہماری آو بھگت ہو، کیا ہم کسی پروگرام میں فقراء کے ساتھ ہم طعم میں ہم سفرہ ہو سکتے ہیں، کیا ہم کسی انسان کا خاموشی سے کوئی کام کر سکتے ہیں اور بس اپنے اللہ سے اجر کے طالب ہو سکتے ہیں، ہمارے اندر کتنی کرامت پائی جاتی ہے ہمارے اندر کتنا ظرف پایا جاتا ہے۔
تحریر: سید نجیب الحسن زیدی
روایت میں ہے کہ ایک کریم انسان اگر کسی کے کام آتا ہے تو ضرورت مند کے سامنے منتیں نہیں کرتا بلکہ اسکی حاجت روائی کو اپنا قرض سمجھ کر ادا کرتا ہے۔ یسع بن حمزہ سے منقول ہے کہ ہم امام علیہ السلام کی خدمت میں بیٹھے تھے اور کافی مجمع تھا سب لوگ مسائل شرعیہ دریافت کر رہے تھے، حلال و حرام خدا کے بارے میں سوال کر رہے تھے اور مولا سب کو جواب دے رہے تھے کہ ہماری محفل میں ایک گندمی رنگت کا شخص داخل ہوا اور اس نے امام علیہ السلام کو سلام کیا اور کہا کہ میں آپکا شیعہ ہوں، میں اپنے وطن سے حج کی غرض سے آیا تھا لیکن راستے میں میری رقم کھو گئی، آپکی خدمت میں آیا ہوں کہ فی الحال آپ میری ضرورت پوری کر دیں اور میں اپنے گھر کرج گھر پہنچ کر فورا آپکی طرف سے دی جانے والی رقم کو صدقے کے طور پر نکال دونگا، امام علیہ السلام نے اس کی گفتگو سن کر کہا "رحمک اللہ" اور امام علیہ السلام نے اس کے ساتھ شفقت کا اظہار فرمایا، اسے اپنے پاس بٹھایا اور تھوڑی دیر کے بعد جب دو چار لوگ ہی بچے اور باقی اٹھ کر چلے گئے اور کچھ خلوت ہوئی تو آپ نے وہاں بیٹھے لوگوں سے رخصت لے کر حجرے کا قصد کیا اور وہاں سے ایک تھیلی نکالی اور باہر کی جانب رخ انور کر کے پوچھا وہ مرد خراسانی کہاں ہے، جو ابھی آیا تھا وہ قریب آیا تو مولا نے اسے دو سو درہم کی تھیلی دیتے ہوئے ہوئے کہا یہ لو یہ تمہاری رقم ہے، جسکا تم نے مطالبہ کیا تھا اور میری جانب سے صدقہ دینے کی ضرورت نہیں ہے یہ تمہاری ہی ہے، اسے اپنے ضرورت کے حساب سے خرچ کرو۔
امام علیہ السلام نے اس گفتگو کے دوران اسکے چہرے پر نظر نہیں ڈالی، کسی نے پوچھا کہ مولا آپ نے اسے دے تو دیا لیکن چھپ کر کیوں دیا اس کے چہرے کی طرف کیوں نہیں دیکھا تو آپ نے جواب دیا میں نے نہیں چاہا کہ اسکے چہرے پر اسکی شرمندگی کو دیکھوں، مجھے خدا سے خوف آیا کہ اس کے بندے کے چہرے پر خفت کو دیکھوں، کیا تم نے رسول خدا سے نہیں سنا ہے کہ جو اپنی نیکی کو پوشیدہ کرے اسے ۷۰ حج کا ثواب دیا جائے گا۔ امام علیہ السلام کا یہ عمل بتاتا ہے کہ کرامت و شرافت نفس کا تقاضا یہ ہے کہ کسی کے کام آنے کے بعد ہرگز اسکی منت نہ رکھی جائے کہ ہم نے یہ کر دیا، ہم نے وہ کر دیا، بلکہ کوشش یہ کی جائے کہ سوال کرنے والے کی عزت نفس باقی رہے اور اسے شرمندگی نہ اٹھانا پڑے۔ عشرہ کرامت کے اس آخری دن جہاں ہم امام رضا علیہ السلام کی زیارت انکے ذکر و فضائل و مناقب میں مشغول عبادت ہیں، وہیں ہمارے لئے ضروری ہے کہ اپنے اندر کریمانہ مزاج پیدا کریں اور امام رضا علیہ السلام کی سیرت کو پیش نظر رکھتے ہوئے دیکھیں کہ ہمارے آئمہ طاہرین علیہم السلام کرامت نفس کی کس منزل پر تھے اور ہم کہاں پر ہیں، اگر ہم اپنے آپ کو امام رضا علیہ السلام کے کردار سے نزدیک کرنے میں کامیاب ہو گئے تو یقینا یہ وہ منزل ہوگی کہ عشرہ کرامت کا حسن اختتام بھی ہوگا اور ہمارا اپنے امام علیہ السلام کے لئے حسن اتباع بھی، اگر ہم اپنے کردار کو بدلنے میں کامیاب ہو گئے تو عشرہ کرامت میں جس طرح ہمارے گھروں، شہروں، امام بارگاہوں میں چراغانی ہے اسی طرح ہماری روحوں میں بھی معنویت و کرامت نفس کی چراغانی ہوگی۔ پروردگار ہم سب کو توفیق دے کہ ہم عزت و کرامت نفس کے ساتھ راہ بندگی پر تعلیمات اہلبیت اطہار علیھم السلام کی روشنی میں مسلسل آگے بڑھتے رہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
امام علی بن موسی الرضا (ع) کی سیاسی جدوجہد
مامون تاریخ کے زیرک، عقلمند، عالم، ہوشیار بادشاہوں کے ناموں میں سے ایک اہم نام ہے، سوچتا ہے کہ جو کام یزید سے لیکر ہارون تک ظلم و بربریت کے پہاڑ ڈھانے اور کٹے ہوئے گلوں کے مینار بنانے کے باوجود نہیں رک سکا، اس کے لئے کسی اور حکمت عملی کو اپنانا ہوگا۔ ساتویں امام کی قید اور شہادت جب ان علویوں کے قیام کو روک نہیں سکی تو صرف قتل کئے جانے سے یہ کام یقیناً نہیں روکا جاسکتا۔ امام رضا علیہ السلام کو مدینہ سے خراسان لانا اور زبردستی ولایت عہدی قبول کرانا، ان کاموں سے مامون کئی اہداف کا حصول چاہتا تھا اور اگر منصب ولایت من اللہ نہ ہوتا تو یقیناً ان سازشوں کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا تھا۔
مامون کی زیر نظر یہ اہداف تھے:
قیاموں کی روک تھام:
تشیع اپنی مظلومیت اور تقدس کی بنیاد پر بنو عباس کے خلاف مختلف زمان و مکان میں مخفی یا علنی حالت قیام میں تھی، مامون ان اقدامات کے ذریعے اور امام علیہ السلام کو اپنے سیاسی نظام کا حصہ بنا کر ان قیاموں کی روک تھام اور ان کو سیاسی طور پر خاموش کرانا چاہتا تھا، کیونکہ اگر کسی گروہ کا رہبر و پیشوا اس خلافت کو قبول کرلے، مطلق العنان بادشاہ کا ولی عہد اور حکومتی امور میں صاحب اختیار ہو تو وہ نہ مظلوم کہلائے گا اور نہ ہی مقدس اور اس کے پیرو اور شیعہ یقیناً اس بنیاد پر خلافت کے خلاف قیام سے گریز کریں گے۔
خلافت کی مشروعیت:
ایک اور ہدف تشیع کی بنیاد کو متزلزل کرنا تھا، یعنی بنو امیہ و بنو عباس کی ظالم حکومتوں کو غاصب سمجھنا، مامون ان اقدامات کے ذریعے اپنی اور اپنے آباو اجداد کی حکومتوں کی مشروعیت ثابت کرنا چاہتا تھا۔ اس سے یہ ثابت ہوتا کہ تشیع ایک بے بنیاد نقطہ پر کھڑی ہے، کیونکہ اگر وہ خلافتیں نامشروع تھیں تو مامون کی خلافت بھی جو ان کا تسلسل ہے، نامشروع قرار پائے گی، درحالیکہ امام رضا علیہ السلام اس سٹرکچر میں داخل ہونے اور مامون کی ولایت عہدی و جانشینی قبول کرکے اس کو مشروع اور جائز جانتے ہیں۔ پس اس کا مطلب یہ تھا کہ باقی خلیفہ بھی مشروع تھے اور یہ تشیع کا ایک جھوٹا ادعا تھا۔ نعوذ باللہ
آئمہ کے زہد و پاکیزگی کو غلط ثابت کرنا:
شیعوں کا دوسرا ادعا جو آئمہ علیہم السلام کے زہد و تقویٰ پر منحصر تھا اور آئمہ علیہم السلام کی دنیا سے بے رغبتی کو ثابت کرتا تھا، اس کو غلط ثابت کرنا بھی ایک ہدف تھا کہ جب تک دنیا ان ذوات مقدسہ کے ہاتھوں میں نہیں تھی تو دنیا سے زہد کا درس دیتے تھے، اب جبکہ دنیا کا مال و دولت و حکومت کے دروازہ ان کے لئے کھل چکے ہیں تو یہ اس کی طرف دوڑ رہے ہیں۔ نعوذ باللہ
امام کو اپنے زیر اثر لانا:
امام علی رضا علیہ السلام جو مسلسل حکومت کے لئے خطرہ اور مبارزہ و مقاومت کا سرچشمہ تھے، ان کو اپنے بندوں کے ذریعے زیر نظر رکھنا اور اس سے ان کے شیعوں اور پیروکاروں کو جو ان کے گرد جمع رہتے تھے، ان کو بھی کنٹرول کیا جاسکتا تھا اور یہ کامیابی اس سے قبل بنی امیہ اور بنو عباس کا کوئی خلیفہ حاصل نہیں کرسکا تھا۔
امام اور امت میں فاصلہ:
امام علیہ السلام جو لوگوں کی امید اور مرجع تھے، انہیں اپنے محاصرے میں لے لینا، تاکہ رفتہ رفتہ عوامی رنگ ان سے دور ہو جائے اور خلافت کے بہانے ان کے اور لوگوں درمیان فاصلہ ایجاد کیا جاسکے، جس کے نتیجہ میں لوگوں کے دلوں میں امام علیہ السلام کی محبت کو کم کیا جاسکے۔
خود کو صاحب معنویت ثابت کرنا:
مامون کا ایک ہدف اپنے چہرہ کو صاف و پاکیزہ کرنا کہ جس کا جانشین ہی اس عالی مرتبہ پر فائز ہو کہ فرزند رسول صلی اللہ علیہ و وآلہ، مقدس و معنوی مقامات کا حامل تو وہ خلیفہ بھی جو اپنے بھائی اور رشتہ داروں سے نکل کر ایسے شخص کو اپنا جانشین بنائے، یقیناً ایک نیک و باتقویٰ انسان ہوگا۔
غلطیوں کی توجیہ:
جب عوام دیکھے گی کہ ایک ایسی شخصیت جو علم و تقویٰ کی عالیترین منازل پر فائز ہے اور اس خلافت میں شریک ہے تو خلافت کے نام پر جو کچھ انجام دیا جا رہا ہے اور جو ظلم و ستم اور خلافکاریاں انجام پا رہی ہیں، ان کی ایک توجیہ عوام کے سامنے امام کی شکل میں موجود ہوگی۔ ان تمام تدابیر کے باوجود، امام نے مامون کی سیاست کو خداوند متعال کی مدد سے بازیچہ اطفال میں بدل دیا اور مامون کی تمام تر پلاننگ اور تدابیر اسلام کے حق میں بدل دی۔
اپنی نارضایتی کا اعلان:
جب امام علیہ السلام مدینہ سے خراسان کی طرف بلائے گئے تو امام نے مدینہ کی فضا کو افسردگی و غمگینی سے پر کر دیا، اس طرح کہ لوگوں کو اندازہ ہوگیا کہ مامون سوء نیت کے ساتھ امام کو ان کے وطن سے دور کر رہا ہے۔ امام علیہ السلام نے اپنے رفتار و گفتار، دعا اور اشک کی زبان سے لوگوں کو یہ پیغام دے دیا کہ یہ سفر امام علیہ السلام کا آخری سفر ہے، جس سے لوگوں کے دلوں میں مامون کے لئے جو جگہ پیدا ہو رہی تھی، وہ کینہ اور بغض میں بدل گئی۔
مامون کے جبر کو عیاں کرنا:
جب مرو کے مقام پر امام علیہ السلام سے ولایت عہدی کا تقاضا کیا گیا تو امام علیہ السلام نے واضح طور پر اسے ٹھکرا دیا اور جب تک آپ کو قتل کی دھمکی نہ دی گئی تب تک قبول نہیں کیا۔ یہ خبر لوگوں میں پھیل گئی کہ امام کو زبردستی یہ عہدہ قبول کرنے کا کہا جا رہا ہے۔ مامون کے افراد کیونکہ مامون کی ان سازشوں سے لاعلم تھے، اس خبر کو بعینہ منتشر کرتے گئے، حتی فضل ابن سہل لوگوں کے درمیان اس بات کو کہتا نظر آتا ہے کہ میں نے خلافت کو اتنا ذلیل و خوار کبھی نہیں دیکھا۔ امام علیہ السلام نے لوگوں کو یہ پیغام پہنچا دیا کہ میں اس خلافت کو قبول کرنے پر راضی نہیں ہوں اور یہ کام جبر و اکراہ کے ذریعے انجام دیا جا رہا ہے۔
امام علیہ السلام کی شرائط:
جبر و اکراہ کے باوجود امام علیہ السلام نے ولایت عہدی اس شرط پر قبول کی کہ خلافت کے کسی امور میں مداخلت نہیں کریں گے؛ جنگ، صلح، معزولی، منصوب کرنا، تدبیر امور کسی چیز میں امام رائے نہیں دینگے۔ مامون نے اس وقت سوچا کہ ابھی کام شروع ہوا ہے، قبول کر لیا جائے، بعد میں منوا لیا جائے گا اور اس طرح امام کو سیاست میں آہستہ آہستہ دھکیل دیا جائے گا۔ لیکن امام علیہ السلام نے ایسا اہتمام کیا کہ مامون کی یہ سازشین پانی پر تحریر کی مانند ہوگئیں۔ امام خلافت میں رہتے ہوئے بھی یہ ظاہر کرتے کہ وہ اس منصب اور خلافت سے راضی نہیں ہیں اور کسی قسم کے حکم یا ذمہ داری، مشورہ اور مداخلت سے بچتے۔ مامون مسلسل کوششوں میں لگا رہا اور امام اس کی تدابیر کو ٹھکراتے رہے۔
نماز عید:
نماز عید کے واقعے میں بھی امام علیہ السلام کو اس بہانے کہ لوگوں کو آپ کی قدر معلوم ہو، عید کی نماز پڑھانے کی دعوت دی تو امام نے انکار کیا، جب امام کو اس کام کے لئے مجبور کیا گیا تو اس شرط پر قبول کیا کہ وہ نمازِ عید رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور امیر المومنین علی ابن ابیطالب علیہ السلام کی طرز اور ان کی روش کے مطابق پڑھائیں گے۔ منظر یوں تھا کہ دروازہ کھلتا ہے اور امام علیہ السلام پا برہنہ باہر نکلتے ہیں، اس حال میں کہ ایک سادہ لباس، سفید عمامہ زیب تن ہے اور شباہت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عیاں ہے، رخساروں پر آنسو رواں ہیں۔ لوگ امام علیہ السلام کے ہمرنگ ہونا شروع ہو جاتے ہیں، ننگے پاوں سادہ لباس سفید عمامہ، اللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد کی صدا بلند ہوتی ہے اور امام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اکٹھے ہوتے جاتے ہیں۔ حیران و پریشان ہیں کہ یہ کیسی نماز ہے؟ یہ کیسا امام ہے؟ اگر یہ نمازِ عید ہے تو اس سے قبل جو مامون کے پیچھے پڑھیں وہ کیا تھیں۔؟ امام ایسا سادہ ہوتا ہے تو مامون کیا ہے؟ امام نے ان تمام دیواروں کو توڑ دیا، یہاں تک کہ مامون کو انقلاب کا خطرہ محسوس ہوا اور وہ امام کو روکنے پر مجبور ہوگیا۔
ولایت عہدی کو فرصت میں تبدیل کرنا:
امام علیہ السلام نے اس ولی عہدی کے معاملے کو فرصت میں تبدییل کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی تعلیمات اور تشیع کو تمام مسلمانوں اور دیگر مذاہب تک پہنچایا۔ امام کے دیگر مکاتب و مذاہب کے علماء سے مناظرے جو خود مامون، امام علیہ السلام کو نیچا دکھانے کے لئے منعقد کراتا تھا، امام علیہ السلام ان مناظروں کے ذریعے تشیع یعنی اسلام حقیقی کی ترویج کرتے تھے، اسی طرح مدح اہل بیت علیہم السلام جو اس سے قبل علی الاعلان انجام نہیں دی جاسکتی تھی، اسے ایک قانونی جواز مل گیا۔ تمام خطبوں میں اہل بیت علیہم السلام کے فضائل بیان ہونا شروع ہوگئے، لوگ حقانیت اہل بیت سے آشنا ہونے لگے اور آئمہ علیہم السلام کی شان میں اشعار و منقبت جگہ جگہ پڑھے جانے لگے۔
غیر شیعہ آبادیوں سے گزر:
مامون اتنا محتاط تھا کہ امام کو مدینہ سے خراسان ایسے راستوں سے لایا، جہاں شیعہ آبادی نہ ہو، یعنی قافلے کا گزر کوفہ اور قم کے نزدیک سے ہونے نہ دیا گیا لیکن امام نے تمام مقامات پر ولایت و اہل بیت علیہم السلام کی ترویج کی۔ اہواز میں امامت کی نشانیاں ظاہر کیں، بصرہ میں لوگوں کے دلوں میں گھر کرلیا، نیشاپور میں مشہور حدیث “سلسلۃ الذھب” کا بیان اور ولایت امام علیہ السلام کی شرط ان تمام تدابیر نے لوگوں کے دلوں حق کا بیج بو دیا۔
ولایت عہدی کے متن میں مامون نے امام علیہ السلام کی حقانیت اور انکے فضائل بیان کئے، سال بھر میں امام علیہ السلام کی شخصیت اتنی واضح ہوگئی کہ لوگ سمجھ گئے کہ ولایت عہدی کے باوجود امام علیہ السلام حکومت کی کسی چیز میں مداخلت نہیں کرتے، لوگوں کا امام سے رابطہ قلبی بڑھتا گیا اور ایسے حالات ہوگئے کہ مامون کی خلافت خطر میں پڑگئی۔ آخر میں جب کوئی اور راستہ نظر نہیں آیا اور ساری تدبیریں خاک میں ملتی نظر آئیں تو مامون نے بھی اپنے اجداد کی روش پر گامزن ہوتے ہوئے امام علیہ السلام کو شہید کرنے کا ارادہ کیا۔ خداوند متعال سے دعا ہے کہ ہم سب کو اہل بیت علیہم السلام کی سیرت کو جاننے اور اس کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔