Print this page

فرانس، حقوق نسواں کے دعوے اور گھریلو تشدد کی ہولناک تصویر، ہر تین دن بعد ایک عورت شوہر کے ہاتھوں قتل

Rate this item
(0 votes)
فرانس، حقوق نسواں کے دعوے اور گھریلو تشدد کی ہولناک تصویر، ہر تین دن بعد ایک عورت شوہر کے ہاتھوں قتل

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: فرانس میں گھریلو تشدد اور خواتین کے قتل کے واقعات نے ایک بار پھر یورپ کے اس ترقی یافتہ ملک کے سماجی ڈھانچے پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ وزارتِ داخلہ کی تازہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس 107 خواتین اپنے شوہر یا سابق شوہر کے ہاتھوں قتل ہوئیں، یعنی اوسطاً ہر تین دن بعد ایک عورت اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ مجموعی طور پر 138 افراد گھریلو تشدد کے نتیجے میں ہلاک ہوئے جن میں 31 مرد بھی شامل ہیں۔  

یہ اعداد و شمار اس حقیقت کو اجاگر کرتے ہیں کہ فرانس میں گھریلو تشدد محض ایک انفرادی مسئلہ نہیں بلکہ ایک گہرا سماجی بحران ہے۔ رپورٹ کے مطابق 90 فیصد قتل گھروں میں یا تو مشترکہ رہائش گاہ میں یا متاثرہ کے ذاتی مکان میں ہوئے۔ ان میں سے 49 وارداتوں میں چھری یا چاقو اور 34 میں آتشیں اسلحہ استعمال کیا گیا۔  

تشدد کی جڑیں اور محرکات

تحقیقات سے معلوم ہوا کہ 31 فیصد قتل کسی جھگڑے کے بعد ہوئے جبکہ 16 فیصد اس وقت پیش آئے جب ایک فریق نے تعلق ختم کرنے سے انکار کیا۔ مزید تشویشناک بات یہ ہے کہ 47 فیصد خواتین پہلے ہی گھریلو تشدد کی شکایت پولیس کو کرچکی تھیں اور 81 فیصد نے باضابطہ مقدمات بھی درج کرائے تھے، لیکن اس کے باوجود ان کی زندگیاں محفوظ نہ ہوسکیں۔

حکومتی اقدامات اور ان کی ناکامی

فرانسیسی وزارت داخلہ نے اعتراف کیا کہ ہنگامی فون لائنز اور حفاظتی اقدامات شاذ و نادر ہی مؤثر ثابت ہوئے۔ صرف ایک متاثرہ خاتون کو شدید خطرے کی ہاٹ لائن کے ذریعے تحفظ ملا اور صرف دو خواتین عدالتی حفاظتی احکامات سے مستفید ہوسکیں۔ حیران کن طور پر صرف ایک مجرم عدالتی نگرانی میں ہے۔  

فرانسیسی وزیرِ داخلہ لوران نونے نے اس صورتحال کو ناقابل برداشت قرار دیتے ہوئے کہا کہ پولیس اور ژاندارمری پوری طرح متحرک ہیں اور حکومت ہر محاذ پر سرگرم ہے۔ تاہم خواتین کے حقوق کی تنظیمیں اس دعوے کو سختی سے مسترد کرتی ہیں۔ ان کے مطابق حکومتی اقدامات انتہائی ناکافی ہیں اور اصل مسئلے کو حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔  

سول سوسائٹی اور عوامی ردعمل

خواتین کے حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ مردوں کو مناسب سزا نہ ملنے کے باعث وہ بار بار تشدد دہراتے ہیں۔ مئیل نوار نامی حقوق نسواں کے ایک کارکن نے کہا کہ بجٹ میں کٹوتیاں دراصل جرم کے مترادف ہیں اور حکومت قتل کے ان واقعات میں شریک ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ فرانس میں خواتین کے خلاف تشدد پر آواز بلند ہوئی ہو۔ نومبر 2019 میں ہزاروں افراد نے پیرس میں مارچ کیا تھا تاکہ گھریلو تشدد کے خلاف احتجاج کیا جاسکے۔ اس کے باوجود، حکومت نے اب تک کوئی ٹھوس اور مؤثر پالیسی نہیں اپنائی۔ 

خواتین کے حقوق کی تنظیموں نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ 22 نومبر کو انسداد تشدد نسواں کے عالمی دن کے موقع پر ملک گیر احتجاج میں شریک ہوں۔ تنظیموں کا کہنا ہے کہ جب تک حکومت اس مسئلے کو قومی ترجیح قرار نہیں دیتی اور بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ نہیں کرتی، یہ سلسلہ جاری رہے گا۔

صدر میکرون پر تنقید

حقوق نسواں کی تنظیموں نے صدر امانوئل میکرون سے بارہا مطالبہ کیا ہے کہ وہ خواتین کے خلاف تشدد کو قومی مسئلہ قرار دیں اور اس کے لیے خاطر خواہ بجٹ مختص کریں۔ لیکن صدر میکرون اپنی پالیسی کو عیوب سے مبرا قرار دیتے ہیں، جس پر سول سوسائٹی اور متاثرہ خاندانوں نے شدید مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
ماہرین کے مطابق فرانس جیسے ملک میں، جو خود کو انسانی حقوق کا علمبردار قرار دیتا ہے، خواتین کے خلاف اس قدر سنگین جرائم کا تسلسل سے ہونا ریاستی ناکامی کی علامت ہے۔ ایک طرف حکومت عالمی سطح پر انسانی حقوق کے تحفظ کی بات کرتی ہے، دوسری طرف اپنے ہی ملک میں خواتین کو بنیادی تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہے۔

فرانس میں ہر تین دن بعد ایک عورت کا قتل محض ایک جرم نہیں بلکہ ایک سماجی المیہ ہے۔ یہ اعداد و شمار اس بات کا ثبوت ہیں کہ اگر ریاستی ادارے اور عدالتی نظام مؤثر کردار ادا نہ کریں تو ترقی یافتہ ہونے کا دعوی کرنے والے معاشرے بھی خواتین کے تحفظ میں ناکام ہوسکتے ہیں۔ فرانس میں حقوق نسوان کی گھمبیر صورتحال پر سول سوسائٹی کی آواز بڑھ رہی ہے، لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا میکرون حکومت اس بحران کو محض بیانات سے سنبھالے گی یا عملی اقدامات بھی کرے گی۔ 

Read 21 times