سلیمانی

سلیمانی

حجۃ الاسلام محمدرضا جباری نے مغربی آذربائیجان میں حوزہ نیوز ایجنسی کے نمائندے سے گفتگو کے دوران ہفتۂ بسیج کی مناسبت سے یہ بتاتے ہوئے کہ بسیج کی وطن عزیز کے کونے کونے میں موجودگی،باعث افتخار ہے،کہا کہ بسیج پاکیزگی،نئی فکر اور مخلصانہ خدمت کا پیکر ہے اور بسیجی جوان جہاں بھی داخل ہوا ہے اس نے ملک کو کامیابی سے ہمکنار کیا ہے۔امام راحل(رح) کے فرمان کے مطابق«بسیج شجرۂ طیبہ اور یہ ایک پھل دار اور تناور درخت ہے جس کے پھولوں سے بہار،یقین کی تازگی اور حدیثِ عشق کی مہک آتی ہے»۔

انہوں نے مزید کہا کہ انقلاب اسلامی ابھی وجود میں آیا ہی تھا کہ پوری دنیا کی مدد سے بعثی حکومت نے ایران کو نشانہ بنایا تاکہ انقلاب اسلامی کو متأثر کیا جا سکے لیکن اہل بیت علیہم السلام کے عاشق اور مکتبِ عاشورا کے جوانوں نے اپنے امام کی بیعت اور ان سے عہد و پیماں کرتے ہوئے میدان میں اترے اور ملک اور نظام کا دفاع کیا۔

امام جمعہ شوط نے کہا کہ بسیج کے قیام کو کئی برس گزرنے کے باوجود بھی،خدمت کی راہ میں تجربہ رکھنے والی یہ تنظیم آٹھ سالہ دفاع مقدس کے عظیم ایام کی مانند اقتصادی محاذ سمیت دیگر شعبہ ہائے زندگی میں بھی دلیری اور بہادری سے اسلامی جمہوریہ ایران کے دفاع میں مصروف عمل ہے۔

انہوں نے کہا کہ بسیجی تنظیم،انقلاب اسلامی کے بانی رہبر کبیر امام راحل کی عظیم فکر سے تشکیل پائی،اب بسیجی فکر و سوچ اسلامی جمہوریہ ایران میں پھیل چکی ہے اور بسیج کی موجودگی میں دشمن،انقلاب اسلامی پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں کرے گا اور ہم سب کو اس عظیم اور الٰہی تنظیم کی مضبوطی کے لئے اقدامات کرنے چاہئیں۔

یورپ میں کورونا کی شدت میں ایک بار پھر اضافے کے بعد مختلف ملکوں نے لاک ڈاون دوبارہ نافذ کرنے اور بہت سی سرگرمیاں محدود کرنے کا اعلان کر دیا جس کے خلاف پورے براعظم میں شدید احتجاج کیا جا رہا ہے۔

میڈیا رپورٹوں کے مطابق، کورونا پروٹوکول  کے خلاف یورپی ملکوں کے متعدد شہروں میں پچھلے کئی روز سے پرتشدد مظاہرے کیے جارہے ہیں جس کی وجہ سے صورتحال انتہائی کشیدہ بنی ہوئی ہے۔

یورپی ممالک ایک جانب کورونا کی نئی لہر سے دوچار ہیں تو دوسری جانب انہیں کورونا کی بندشوں اور پابندیوں کے خلاف شروع ہونے والے مظاہروں کا  بھی سامنا ہے جبکہ مظاہروں کے دوران پھوٹ پڑنے والے تشدد کے واقعات نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔

کورونا پروٹوکول کے خلاف احتجاج کرنے والوں نے پچھلے چند روز کے دوران ہالینڈ، بیلجیم، اٹلی ، آسٹریا اور کروشیا کے مختلف شہروں میں، سرکاری سطح پر عائد کی جانے والی بندشوں کے خلاف مظاہرے کیے جو کئی مقامات پر مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کے بعد پرتشدد شکل اختیار کرگئے۔ مظاہروں کے دوران ہونے والی جھڑپوں میں درجنوں افراد زخمی ہوئے ہیں اور سیکڑوں کو حراست میں  بھی لیا گیا ہے۔

کورونا پروٹوکول اور بندشوں کے خلاف جمعے کو ہالینڈ سے شروع ہونے والے مظاہرے اس ملک کے کئی شہروں میں پھیل گئے اور  ہیگ، ایمسٹرڈم  اور روٹر ڈم میں ہونے والے مظاہروں کے دوران تشدد بھی پھوٹ پڑا۔

آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں بھی رواں ہفتے کے آخر میں  کورونا پروٹوکول کے نفاذ کے خلاف ایک بڑا مظاہرہ کیا گیا جو شروع میں پرامن  رہا  لیکن آخر کار پولیس کی مداخلت کے بعد  پرتشدد رخ اختیار کر گیا۔

ادھر فرانس میں یلوجیکٹ ایجیٹیشن کے آغاز کی تیسری سالگرہ کے موقع پر دارا لحکومت پیرس میں احتجاج کی نئی لہر دکھائی دی اور اس بار سڑکوں پر اترنے والے مظاہرین کورونا کی بندشوں، لازمی ویکسینیشن اور بچوں کو ویکسین لگوانے جیسے صحت کے قوانین کی مخالفت کر رہے تھے۔

اس دوران پولیس اور مظاہرین کے درمیان متعدد مقامات پر جھڑپیں بھی ہوئیں جن میں درجنوں افراد کے زخمی ہونے کی خبر ہے۔

 درایں اثنا وسطی یورپ کے ملک کروشیا کے شہر زاغرب میں  ہونے والے ایسے ہی ایک مظاہرے میں  پیر سے نافذ ہونے والی  بندشوں اور پابندیوں کو واپس لینے کا مطالبہ کیا۔

 بیلجیئم کے دارالحکومت بریسلز میں، جہاں یورپی یونین کا ہیڈ کوارٹر بھی واقع ہے، کئی ہزار افراد  نے سڑکوں پر نکل کر مظاہرے کیے اور کورونا  کی وجہ سے عائد کی جانے والی پابندیوں کے خلاف نعرے لگائے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق بریسلز میں ہونے والے مظاہرے میں کم سے کم پینتس ہزار افراد شریک تھے۔ یہ مظاہرے اس وقت پرتشدد شکل اختیار کر گئے جب پولیس نے کئی مقامات پر مظاہرین  کو آگے بڑھنے سے روکنے کی کوشش کی۔

 پولیس نے مظاہرین کے خلاف آنسوگیس کے گولے پھنیکے جبکہ مظاہرین نے پولیس پر پتھر اور دوسری اشیا برسائیں۔

 یاد رہے کہ چند روز پہلے عالمی  ادارہ صحت نے بر اعظم یورپ میں کورونا کے پھیلاؤ پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر کورونا کی بندشیں سخت نہ کی گئیں تو آئندہ موسم بہار کے دوران اس براعظم میں پانچ لاکھ سے زائد افراد کی موت واقع ہو سکتی ہے۔
http://www.taghribnews.com/vdca60nma49nua1.zlk4.html

۔ابنا۔ فاران تجزیاتی ویب سائٹ کے مطابق برطانوی حکومت نے جمعہ (نومبر 19) کو اپنی فلسطین مخالف پالیسی کو جاری رکھتے ہوئے اور صیہونی حکومت کی حمایت کرتے ہوئے فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک “حماس” کو دہشت گرد قرار دے دیا۔
برطانوی وزیر داخلہ پریٹی پٹیل نے اعلان کیا ہے کہ انہوں نے برطانیہ میں حماس کی ہر طرح کی سرگرمی پر پابندی عائد کر دی ہے۔
اس حوالے سے الجزیرہ نیٹ ورک نے ایک رپورٹ میں اس برطانوی فیصلے کے قانونی نتائج کا جائزہ لیا۔ جنیوا انٹرنیشنل جسٹس سینٹر کے سربراہ، صباح المختار، جو لندن میں عرب بار ایسوسی ایشن کی سربراہی بھی کرتے ہیں، نے الجزیرہ کو بتایا کہ اس طرح کے فیصلوں میں سب سے خطرناک مسئلہ “حمایت کو جرم قرار دینا” ہے کیونکہ لفظ “حمایت” میں بہت سی سرگرمیاں شامل ہیں مثلا حماس کے موقف کی حمایت، پیسے سے اس کی حمایت، حماس کا پرچم بلند کرنا، اس کے اہداف کی تبلیغ کرنا یا حتیٰ اس کے ساتھ رابطہ کرنا یہ سب جرم شمار ہونے لگے گا۔
صباح المختار نے زور دے کر کہا کہ برطانیہ میں مندرجہ بالا سرگرمیوں میں سے کسی کو بھی انجام دینا غیر قانونی سمجھا جائے گا اور عدالتی فیصلے کے مطابق مجرم کا احتساب کیا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ قانون برطانیہ میں حماس کی سرگرمیوں کو سختی سے محدود کر دے گا، لیکن تحریک کو براہ راست متاثر نہیں کرے گا، سوائے اس کے کہ اگر حماس کے رہنما یورپ میں ہوں تو ان کے خلاف مقدمہ چلایا جا سکے گا۔
آخر میں، المختار نے کہا کہ اس فیصلے کو قانونی نقطہ نظر کے بجائے سیاسی نقطہ نظر سے دیکھا جانا چاہیے، کیونکہ اس کا مقصد حکومت اور سیکیورٹی سروسز کو قانون کی چھتری میں مناسب فیصلے کرنے کا انتظامی اختیار دینا ہے۔
الجزیرہ نے مزید کہا کہ لندن یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر مازن المصری صباح المختار کے اس نظریے سے اتفاق کرتے ہیں کہ سیاسی جہت کو برطانوی فیصلے پر مرکوز رکھا جانا چاہیے۔ المصری نے کہا کہ حماس کے عسکری ونگ القسام کو طویل عرصے سے دہشت گرد تنظیم کہا جاتا ہے اور اس نئے قانون کا فلسطینی سیاسی سرگرمیوں پر مزید پابندیاں عائد کرنے کے علاوہ کوئی جواز نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ قانون کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حماس میں رکنیت انسان کے لیے قانونی کارروائی اور اس کے خلاف مجرمانہ بل کا باعث بنے گی کیونکہ حمایت کا موضوع بہت کھلا ہوا ہے۔
المصری نے ایک مثال دیتے ہوئے کہا کہ برطانیہ میں فلسطین کی حمایت میں ہونے والے کسی بھی مظاہرے کو روکا جائے گا اگر حماس کا پرچم بلند کیا گیا یا حماس کی حمایت میں نعرے لگائے گئے تو اس کے منتظمین کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔
انہوں نے پیش گوئی کی کہ قانون کی تشریح بہت سے قانونی تنازعات کو جنم دے گی، خاص طور وہ برطانوی تنظیمیں اور خیراتی ادارے جو غزہ میں کام کر رہے ہیں کیا ان تنظیموں کو حماس کی حمایتی تصور کیا جائے گا؟ یا وہ لوگ جو غزہ جاتے ہیں اور انہیں حماس کے سیکورٹی اداروں کی طرف سے جاری کردہ داخلی اور خارجی اجازت نامے کی ضرورت ہوتی ہے، ان سے کیسے نمٹا جائے گا؟
لندن میں التفکیر العربی ایسوسی ایشن کے چیئرمین محمد امین نے بھی الجزیرہ کو بتایا کہ اس فیصلے کا مقصد فلسطین کی مدد کے لیے کام کرنے والے کسی بھی فرد کو سزا دینا ہے۔ اور وہ تنظیمیں اور افراد جو صہیونی لابی کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں ان پر الزامات لگائے جائیں گے اور ان کی لگام کسی جائے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ فیصلہ خالصتاً سیاسی ہے اور اس سے انتخابی مہم کی بو آ رہی ہے۔ پٹیل نے برطانیہ میں وزارت عظمیٰ کے اگلے دور میں کینڈیڈیٹ ہونے کے لیے صہیونی لابی کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ ایسے حال میں ہے کہ موجودہ وزیر اعظم جانسن دوسری مرتبہ اس عہدہ کے لیے بالکل دلچسپی نہیں رکھتے۔ پٹیل نے ایسا کر کے صہیونی لابی سے قبل از وقت منظوری حاصل کرنا چاہی ہے۔

اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کی سپریم کونسل کے رکن آیت اللہ "محسن مجتہد شبستری" 84 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔

مرحوم تہران کے ہسپتال امام حسین (ع) میں دل کا دورہ پڑنے سے رخصت ہو گئے۔
آیت اللہ مجتہد شبستری امام خمینی (رہ) کے شاگردوں میں سے تھے اور اسلامی انقلاب کی تحریک میں پیش پیش رہتے تھے انقلاب کی کامیابی کے بعد مجلس شورای اسلامی میں نمایندگی جیسی ذمہ دارویوں کو اپنے دوش پر لیا۔

1994 میں رہبر انقلاب اسلامی نے مرحوم شبستری کو تبریز کا امام جمعہ منصوب کیا اور تقریبا 25 سال تک اس منصب پر فائز رہے۔

آپ اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کی سپریم کونسل کے سربراہ، تبریز کے امام جمعہ، جامعہ روحانیت کے رکن، مجلس خبرگان رہبری کی نمایندگی اور مجمع تشخیص مصلحت نظام کے رکن جیسے مناصب پر رہ کر دین اور انقلاب کی خدمت کرنے میں مصروف رہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے دارالحکومت تہران میں نماز جمعہ حجۃ الاسلام والمسلمین حاج علی اکبری کی امامت میں منعقد ہوئی ، جس میں طبی پروٹوکول کی رعایت کے ساتھ عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ نماز جمعہ کے خطیب نے ایٹمی مذاکرات کی طرف اشارہ ہوئے کہا ہے کہ ہمارے مذاکرات کاروں کو  امریکہ اور تین یورپی ممالک کی منہ زوری اور بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی کے بہانوں پر توجہ نہیں دینی چاہیے۔خطیب جمعہ نے ایرانی مذاکرات کاروں پر زوردیا کہ وہ ایرانی عوام کے حقوق کے حصول اور ظالمانہ پابندیوں کے خاتمہ کے سلسلے میں تلاش و کوشش جاری رکھیں۔

خطیب جمعہ نے رضاکار سوچ کو معجز نما قراردیتے ہوئے کہا کہ ملک میں رضاکار سوچ تک پہنچنے میں کافی فاصلہ موجود ہے اور ملک بھر میں رضاکار اور بسیجی سوچ کے فروغ کے سلسلے میں تلاش وکوشش کرنی چاہیے۔

انھوں نے کہا کہ رضاکار اور بسیجی سوچ کے ذریعہ ہم دشمن کے تمام منصوبوں کو ناکام بنا سکتے ہیں۔

خطیب جمعہ نے عوام کو درپیش معاشی مشکلات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ متعلقہ حکام کو عوام کی معاشی مشکلات کو دور کرنے کے سلسلے میں اپنی تلاش و کوشش اور جد وجہد کو مضاعف کرنا چاہیے۔

حجۃ الاسلام حاج اکبری نے گذشتہ 40 سال کے عرضہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئےکہا کہ بسیچی اور رضاکار سوچ جس میدان میں بھی وارد ہوئی وہاں اس نے انقلاب برپا کیا ہے لہذا ہمیں ملکی مشکلات کو دور کرنے کے لئے ملک بھر میں بسیجی اور رضاکار سوچ کو فروغ دینا چاہیے اور اس سلسلے میں باہمی اتحاد، یکجہتی اور تعاون کی سخت ضرورت ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی نے فلسطین الیوم کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ فلسطین کی تنظيم حماس کے بیرونی امور کے سربراہ خالد مشعل نے اسرائيل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے والے عرب اور مسلم حکمرانوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے والے عرب اور مسلم حکمراں خائن اور غدار ہیں۔

خالد مشعل نے کہا کہ غاصب صہیونی حکومت کے ساتھ صلح کے تمام اجلاس ناکام ہوگئے ہیں اور اسرائیل عرب ممالک کے ساتھ اب سفارتی معاہدے کرکے ان پر اپنا تسلط جمانے کی کوشش کررہا ہے اور نادان عرب حکمراں خطے میں دانستہ طور اسرائيل کو مدد فراہم کررہے ہیں۔ اس نے کہا کہ  امت مسلمہ اور فلسطینی عوام ، عرب حکمرانوں کی اس خيانت کو کبھی معاف نہیں کریں گے۔ حماس کے رہنما نے کہا کہ فلسطینی عوام اپنے حقوق کے حصول کی جد وجہد جاری رکھیں گے۔

حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ الحاج حافظ بشیر حسین نجفی کے مرکزی دفتر نجف اشرف میں آل انڈیا شیعہ پرسنل لا بورڈ کے ترجمان مولانا مرزا محمد یعسوب عباس صاحب کا خیر مقدم کرتے ہوئے ان کی زیارتیں مقبول بارگاہ ایزدی ہوں کے لئے دعائیں فرمائیں ۔

مرجع عالیقدر نے ان سے فرمایا کہ یہ دفتر تمام شیعوں کا ہے اور ان کی ہر ممکنہ خدمت ہمارے لئے شرف ہے حتی المقدور مومنین کی خدمت اپنے لئے شرف سمجھتے ہوئے ان شاء اللہ کرتے رہینگے، ہندوستان سے عراق مقامات مقدسہ و عتبات عالیات کی زیارتوں پر مومنین کے نہ آپانے کے پس منظر میں انہوں نے فرمایا کہ ہم حتی المقدور کوششیں کر رہے ہیں تاکہ دیگر ممالک کی طرح ہندوستان سے بھی زائرین با آسانی زیارت کو آسکیں ۔

موصوف نے مرجع عالی کے فرزند اور مرکزی دفتر کے مدیر حجۃ الاسلام شیخ علی نجفی سے بھی ملاقات کی اور ہندوستان میں مومنین کے حالات خصوصا زائرین کی خدمت کے امور زیر گفتگو آئے۔ انہوں نے فرمایا کہ مرجع عالی قدر کے حکم سے میں شروع سے زائرین کے معاملات کو دیکھ رہا ہوں اور اپنی جانب سے پوری کوشش ہے کہ دنیا کے کونے کونے سے آنے والے زائرین کو کسی دقت اور پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے خاص کر ہندوستان سے زائرین کے نہ آپانے کے مسئلہ پر انہوں نے کہا کہ ہم پوری کوششیں کر رہے ہیں اور ان شاء اللہ امید کرتے ہیں کہ دوسرے ممالک کی طرح ہندوستان سے بھی زائرین مقامات مقدسہ اور عتبات عالیات کی زیارت کو آسکیں گے ۔

اپنی جانب سے موصوف مہمان نے مرجع عالی قدر دام ظلہ الوارف اور انکے فرزند کا انکی نصیحتوں، قیمتی وقت دینے اور حسنِ استقبال پر شکریہ ادا کیا۔
 
http://www.taghribnews.com/vdcbfzbsfrhb55p.kvur.html
 

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں اسلامی جمہوریہ ایران اور طالبان کے ورکنگ گروپ کا اجلاس ہوا۔

ایران اور طالبان کے ورکنگ گروپ کے اجلاس میں ثقافتی، اقتصادی، سیاسی، سکورٹی، سرحدی، توانائی اور مہاجرت کے معاملوں سے متعلق سات کمیٹیاں تشکیل دے دی گئی ہیں۔

افغانستان کے معاملوں میں ایران کے نمائندے حسن کاظمی قمی اور کابل میں ایران کے سفیر بہادر امینیان ایران کے اقتصادی معاملوں کے عہدیداروں کے ساتھ اس اجلاس میں شریک ہوئے، جبکہ طالبان کی طرف سے زراعت، ہجرت، اقتصاد اور تجارت و صنعت کے وزراء شامل ہوئے۔

حسن کاظمی قمی پیر کی صبح ایک وفد کے ساتھ افغانستان پہونچے تھے۔

Wednesday, 17 November 2021 20:09

موساد کی نابودی قریب

 
گذشتہ ہفتے کے آخر میں غاصب صہیونی رژیم کے مختلف ذرائع ابلاغ نے صہیونی جاسوسی ادارے موساد کے تین اعلی سطحی عہدیداران کے مستعفی ہو جانے کی خبر دی۔ اس خبر کے مطابق موساد کے نئی بھرتی کے سربراہ، ٹیکنالوجی کے سربراہ اور اینٹی ٹیروریزم شعبے کے سربراہ نے استعفی پیش کر دیا ہے۔ انہوں نے یہ فیصلہ موساد کے نئے سربراہ ڈیوڈ بارنیا کی جانب سے انجام پانے والے اقدامات کے خلاف اعتراض کی صورت میں کیا ہے۔ یاد رہے ان تین اعلی سطحی عہدیداران کا عہدہ فوج میں جنرل کے برابر تھا۔ کہا جاتا ہے کہ موساد کے اسٹریٹجک وار شعبے کے سربراہ بھی استعفی دینے کے خواہاں ہیں۔ صہیونی ذرائع ابلاغ نے ان واقعات کو "شدید زلزلہ" اور "کاری ضرب" کے طور پر پیش کیا ہے۔ ان کے استعفی کی اصل وجہ ڈیوڈ بارنیا کی جانب سے ایجنسی کے اسٹرکچر میں بنیادی تبدیلیاں انجام دینا ہے۔
 
ڈیوڈ بارنیا گذشتہ ماہ صہیونی انٹیلی جنس ایجنسی موساد کے نئے سربراہ مقرر کئے گئے ہیں۔ ان کی عمر 56 سال ہے اور وہ 2019ء سے موساد کے نائب سربراہ کے طور پر کام کرتے رہے ہیں۔ وہ اپنے اسم مستعار "ڈیڈی" سے معروف ہیں۔ موساد کا حالیہ بحران اس وقت شروع ہوا جب دو ہفتے پہلے الجزیرہ نیوز چینل نے ایک ویڈیو شائع کی جس میں "تحریک آزادی" نامی ایک نامعلوم گروہ نے موساد کے دو اعلی سطحی افسران کو اغوا کرنے کا اعلان کیا تھا۔ موساد کے یہ دو افسر اغوا کئے جانے کے وقت ملک سے باہر اہم مشن پر تھے۔ اس ویڈیو میں ایک اغوا شدہ موساد کا افسر جس نے اپنا نام "ڈیوڈ بن روزی" بتایا یہ کہتا ہوا دکھائی دیتا ہے: "ہم دو اسرائیلی شہری ہیں۔ ہمیں مدد کی ضرورت ہے۔ ہم انتہائی خوفناک صورتحال کا شکار ہیں۔ میرا دوست بیری شدید بیمار ہے۔"
 
اغوا ہونے والے موساد کے دوسرے افسر کا نام ڈیوڈ بیری ہے۔ تحریک آزادی نامی گروہ نے ان اسرائیلی افسران کی تصاویر شائع کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے پاسپورٹ کی تصاویر بھی جاری کر دی ہیں۔ اس گروہ نے اعلان کیا ہے کہ موساد کے یہ دونوں افسر محفوظ مقام پر ہیں۔ اسی طرح اس گروہ نے ان افسران کی آزادی کو صہیونی جیلوں سے فلسطینی قیدیوں کی آزادی سے مشروط کیا ہے۔ حالیہ دنوں میں اس واقعے کے ساتھ ساتھ صہیونی جاسوسی ادارے موساد پر ایک اور کاری ضرب بھی وارد ہوئی ہے۔ ہیکرز کے ایک گروپ نے غاصب صہیونی رژیم کے حساس اداروں کو ہیک کر کے انتہائی خفیہ اور حساس معلومات انٹرنیٹ پر شائع کر دی ہیں۔ ان معلومات میں صہیونی رژیم کے حساس فوجی بیسز کی پوزیشن اور اعلی سطحی سکیورٹی و فوجی عہدیداران کی معلومات شامل ہیں۔
 
اس کے بعد اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسی موساد کو تیسرا شدید دھچکہ اس وقت لگا جب "عصائے موسی" یا Moses staff نامی ہیکرز گروپ نے صہیونی رژیم کی انتہائی خفیہ اور حساس فوجی و سکیورٹی معلومات فاش کر دیں۔ حال ہی میں اس گروپ نے صہیونی رژیم کے انفرااسٹرکچر کے تھری ڈی نقشہ جات بھی ڈارک وب میں شائع کر دیے ہیں۔ یہ نقشے پورے مقبوضہ فلسطین میں ہر قسم کی فوجی و سکیورٹی تنصیبات کی ٹھیک ٹھیک معلومات ظاہر کرتے ہیں۔ عصائے موسی نے اپنے اس اقدام کے بارے میں ایک بیانیہ بھی جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے: "عالمی برادری صہیونی مجرم حکومت کو تحفظ فراہم کرنے کی کوشش میں مصروف ہے جس کی ایک مثال گوگل میپس پر مقبوضہ فلسطین کے نقشے نہ ہونا ہے۔ لیکن ہم نے صہیونی رژیم کے انفرااسٹرکچر سے متعلق تھری ڈی نقشوں پر مبنی 22 ٹیرابائٹ ڈیٹا سوشل میڈیا پر شائع کر دیا ہے۔"
 
اس گروپ نے اپنے پیغام کے آخری حصے میں کہا کہ شائع شدہ تصاویر اور ویڈیوز ان معلومات کا چھوٹا سا حصہ ہے جو ہم نے اسرائیلی کمپنیوں کے بارے میں حاصل کی ہیں۔ اس گروپ نے غاصب صہیونی فوج کی انتہائی خفیہ اور حساس یونٹ جو 8200 کے نام سے جانی جاتی ہے، میں شامل افسران اور فوجیوں کی تصاویر بھی جاری کی ہیں۔ اس یونٹ کا اصل کام جدید ترین الکٹرانک آلات کی مدد سے جاسوسی کرنا ہے۔ حال ہی میں یروشلم پوسٹ نے بھی ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ "کالا سایہ" نامی ہیکرز گروپ نے اسرائیل کی انٹرنیٹ کمپنیوں کے سرورز کو اپنے حملوں کا نشانہ بنایا ہے۔ اس گروہ نے دھمکی دی ہے کہ وہ ان سرورز سے حاصل شدہ تمام معلومات کو منظرعام پر لے آئے گا۔ صہیونی رژیم کے فوجی و سکیورٹی ماہرین نے Black Shadow نامی اس گروپ کے حملوں کو کامیاب قرار دیا ہے۔
 
اگرچہ صہیونی ذرائع ابلاغ، موساد کے مذکورہ بالا اعلی سطحی عہدیداران کے مستعفی ہونے کی اصل وجہ اس جاسوسی ادارے کے ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیاں قرار دے رہے ہیں لیکن گذشتہ چند ماہ میں رونما ہونے والے واقعات کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسی موساد زوال اور نابودی کی جانب گامزن ہے۔ سائبر حملوں کا مقابلہ کرنے میں ناکامی، حماس کے مقابلے میں انٹیلی جنس، فوجی اور سکیورٹی ناکامیاں اور دنیا کے مختلف ممالک میں موساد کے ایجنٹس اور نیٹ ورکس فاش ہو جانے جیسے واقعات نے موساد کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے۔ حالیہ سائبر حملوں نے ٹیکنالوجی کے شعبے میں موساد کی کمزوری کو بہت واضح کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی جاسوسی ادارہ اپنے ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیاں کرنے پر مجبور ہو چکا ہے۔ یوں اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم اپنے جعلی حدود میں ہی پھنس کر رہ گئی ہے۔

تحریر: محسن ایران دوست
بشکریہ:اسلام ٹائمز