سلیمانی

سلیمانی

 تسنیم نیوز ایجنسی کے مطابق غزہ میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے غاصب صہیونی رژیم کے مقابلے میں مقبوضہ فلسطین کے قصبے "بیتا" کے مسلمان شہریوں کی بے مثال مزاحمت کی قدردانی کرتے ہوئے اسے اسلامی مزاحمت کیلئے رول ماڈل قرار دیا ہے۔ یاد رہے گذشتہ سو دن سے بیتا قصبے کے مسلمان فلسطینی شہری غاصب صہیونی فورسز کے مقابلے میں مزاحمت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اسماعیل ہنیہ نے کہا: "بیتا قصبے میں ہمارے عزیز گذشتہ سو دنوں سے مزاحمت کر رہے ہیں۔ میں جبل صبیح کے پاسبانوں پر درود بھیجتا ہوں جو غاصب اور جارح دشمن کے مقابلے میں اپنی مٹی اور سرزمین کا دفاع کرنے میں مصروف ہیں۔ یہ افراد ہماری نیابت میں اپنے حقوق حاصل کرنے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔" انہوں نے مزید کہا: "اس سو روزہ شجاعانہ مزاحمت نے تین ایسے حقائق واضح کر دیے ہیں جو غاصب صہیونی رژیم کے ناجائز قبضے اور یہودی بستیوں کی تعمیر کے خلاف قومی شعور کی علامت ہیں۔"
 
اسماعیل ہنیہ نے کہا کہ پہلی حقیقت یہ ہے کہ ہماری عوام، عوامی مزاحمت کے ذریعے اور اسے وسعت دے کر اور اس کیلئے نت نئے ہتھیار بنا کر اپنے جائز حقوق کا دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دوسری حقیقت عمل کے میدان میں وحدت اور اتحاد ہے۔ اس اتحاد کی بدولت ہر گروہ سے تعلق رکھنے والے افراد احتجاجی مظاہروں میں شریک ہو رہے ہیں۔ حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے کہا کہ تیسری حقیقت یہ ہے کہ "بیتا" کا قصبہ فلسطینی عوام کی اپنی سرزمین سے وفاداری کی علامت بن چکا ہے۔ اس مزاحمت نے ظاہر کیا ہے کہ وہ سازباز کے مخالف ہیں اور غاصب صہیونی رژیم کی سازشوں کے خلاف ڈٹ جانے کے قائل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بیتا میں شہید، زخمی اور جلاوطن ہونے والے شہریوں سے وعدہ کرتے ہیں کہ ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں اور غاصب اور شدت پسند یہودی آبادکاروں کی نابودی تک ان کے حامی ہیں۔
 
اسماعیل ہنیہ نے غاصب صہیونی رژیم کو خبردار کرتے ہوئے کہا: "قدس شریف کے دفاع کیلئے اٹھائی گئی شمشیر قدس ابھی تک نیام میں نہیں ڈالی گئی اور غاصب صہیونی رژیم کے خلاف مسلح جدوجہد بدستور جاری ہے۔ ہماری جنگ فلسطینی قوم کی آزادی اور جلاوطن فلسطینیوں کی وطن واپسی تک جاری رہے گی۔" اسماعیل ہنیہ نے مغربی کنارے میں مقیم فلسطینی شہریوں سے مطالبہ کیا کہ وہ بیتا قصبے کے اہالی کی مدد اور حمایت کریں۔ انہوں نے مغربی کنارے کے شہریوں سے کہا کہ وہ بیتا قصبے کے اہالی کی طرح یہودی آبادکاروں کے خلاف فیصلہ کن اور مسلح کاروائیاں انجام دیں۔ یاد رہے گذشتہ دو ماہ سے مغربی کنارے کے مختلف حصوں میں صہیونی سکیورٹی فورسز اور فلسطینی عوام کے درمیان شدید جھڑپیں جاری ہیں۔ بیتا قصبے کے علاوہ ایویتار اور جبل صبیح کے قصبوں میں بھی یہ جھڑپیں انجام پا چکی ہیں۔ ان دو قصبوں کے شہریوں نے شدید مزاحمت کے بعد یہودی آبادکاروں اور صہیونی فورسز کو یہ علاقے خالی کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔

کربلا بھی عجب ہے کہ جب بھی اس کے بارے سوچا، اس کا خیال دل میں لائے، اس کو جاننے کی جستجو کی، اس کو پڑھنے کی کوشش کی، اس کو سمجھنے کا ارادہ کیا، اس کی معرفت کا در وا کیا، اس کے دروازے پہ دستک دی، اس کی گہرائیوں میں جھانکنے کی سعی کی، اس کی حقیقت کو پانے کی کوشش کی، اس نے پہلے سے زیادہ معرفت عطا کی۔ پہلے سے بڑھ کر پیاس اور تڑپ پیدا کی، نئے زاویئے کھولے، نئی گرہیں کھولیں، نئے در وا کئے۔ چودہ صدیاں ہوگئیں اس فاجعہ کو، ابھی تک اس پر ایسے ہی بات ہوتی ہے، جیسے بس آج کا سانحہ ہو، جیسے گزرے کل کی بات ہو۔ جو بھی ایام محرم میں اس کی طرف متوجہ ہوا کہ کچھ مل جائے، اسے معرفت کے نئے خزانے مل گئے۔ ہم جو چودہ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی اس کی گہرائیوں اور اس کی معرفت کی کوشش کرکے نئے زاویوں سے آگاہ ہو کر جھوم جھوم جاتے ہیں، کتنے خوش قسمت ہیں کہ ہم نے امام حسین ؑ اور ان کے نانا کو دیکھا نہیں، ہم نے ان کی زیارت نہیں کی، ہم نے ان کی مصاحبت نہیں کی۔

ہم نے ان کے چہرہ انور کی زیارت کرتے ہوئے ان کی زبان وحی سے حسنین کریمین ؑ کی شان اقدس میں احادیث مبارکہ "حسین مجھ سے ہے، میں حسین سے ہوں، جو اس سے محبت رکھے گا، وہ مجھ سے محبت رکھے گا، اللہ اسے دوست رکھے گا، جو اسے دوست رکھے گا۔"، "حسن و حسین جوانان جنت کے سردار ہیں۔" بیان کرتے نہیں سنی۔ ہم نے مسجد نبوی میں خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ، محبوب کبریا کو خطبہ دیتے منبر سے اتر کر شہزادوں کو اٹھا کر گود میں بٹھاتے نہیں دیکھا اور ہم نے وحی کے بغیر کلام نہ کرنے والے نبی رحمت کو واجب نماز میں حالت سجدہ میں شہزادگان کو نانا کی پیٹھ پہ سوار ہو کر سواری کرتے اور سجدے کی طوالت میں نہیں دیکھا۔ ہم نے رسول خاتم کو امام حسین ؑ کی زندگی میں جب بی بی ام سلمیٰ کو ایک خاک والی شیشی دی اور فرمایا کہ اسے سنبھال لو، جب یہ خون میں تبدیل ہو جائے تو سمجھ لینا میرا حسین دشت نینوا میں شہید ہوگیا، یہ کہتے ہوئے امام حسین ؑ پر رسول خدا کو عزا برپا کرتے، گریہ کرتے نہیں دیکھا۔ پھر بھی ہم نے یقین کیا۔

ہم نے رسول خاتمؐ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے امام حسین ؑ کے غم میں آنسوؤں کا سیلاب برپا کر دیا، جس نے یزیدیت کی اسلام کے خلاف سازشوں کو بہا دیا۔ ہم نے چودہ صدیاں بعد بھی رسول و آل رسول کے غم کو اپنے غموں سے بڑھ کر اہمیت دی، جو بھی حسینی ہیں، اپنے غموں کو بھول کر ان ایام میں فقط آل نبی کے غموں پہ نوحہ کناں اور ماتم کناں ہوتے ہیں۔ کیا عجیب لوگ تھے، جو چودہ صدیاں پہلے رسول خدا کی زبان وحی سے سب کچھ سن کر جنت کے ان سرداروں کو اپنی تلواروں سے خون میں تر بہ تر کرنے کیلئے تل گئے۔ کیا عجیب لوگ تھے، جو خاتم الانبیاء کو  بوسے دیتے، گلے لگاتے، چومتے، واجب نماز میں پیٹھ پہ سواری کرواتے اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد بھی بے قصور قتل کرنے کیلئے ایک دوسرے سے سبقت لینے کی دوڑ میں شامل نظر آئے۔ کربلا عجب ہے کہ اس نے عرب کے قبائلی تعصب، جو بہ طاہر چھپ گیا تھا اور نوزائیدہ اسلام کے وسیع مفادات کی وجہ سے بہ ظاہراً چھپ گیا تھا، رسول خاتم کی رحلت کے چند برس بعد ہی اسے کھول کر رکھ دیا کہ اب رہتی دنیا تک طلقاء کی اولادوں کے ہاتھوں اسلام پر ہونے والے حملوں اور سازشوں کا پردہ چاک کرنے میں کسی کو جھجھک نہیں ہوتی۔

ہاں اس میں بھی چودہ صدیاں پہلے کی طرح آل نبی کے ساتھ تعصب برتنے والے پیچھے نہیں رہتے، اگر اپنی آنکھوں سے رسول خاتم ؐ کو دیکھنے اور سننے والوں سے کربلا کا عظیم سانحہ رونما ہونا ممکن ہے تو آج کے چودہ صدیاں بعد کسی متعصب، ناصبی طلقاء کی اولاد سے جب یہ سنتے ہیں کہ محرم میں شادیاں رچاؤ، بہت ثواب کا کام ہے تو حیرانی کیسی۔؟ مجالس امام حسین ؑ ، جلوس ہائے عزاء کی مخالفت کرنے والے اس دور کے نام نہاد مسلمانوں کے اس عمل پر قطعاً حیرانگی نہیں ہوتی کہ اللہ کے نبی جس نے انہیں کلمہ پڑھایا، مسلمان بنایا، اس سے مسواک کا سائز، عمامے کا رنگ تک تو لینا نہیں بھولے، اگر بھولے ہی ہیں تو نبی رحمت کے فرزندان کے بارے معتبر ترین حدیث کو بھول گئے اور غم حسین منانے ؑ کی سنت بھول گئے، ایسے نام نہاد مسلمانوں کی طرف سے جب جلوس و مجالس کی مخالفت سامنے آتی ہے تو کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیئے۔ یہی امت مسلمہ کی تاریخ ہے، یہی ان کی محبت رسول ہے، یہی ان کا دعویٰ محبت اہلبیت ؑ ہے۔

جو لوگ یزید کی وکالت کیلئے مرے جا رہے ہیں، ان کو بھی یہ ورثہ ان کی گھٹیوں میں پلایا گیا ہے، جس طرح محرم میں شادیاں کروانے پر زور دیا جا رہا ہے، دراصل یہ یزید زادے پیدا کرنے کا منظم منصوبہ ہے، علامہ اقبال علیہ الرحمہ نے بجا فرمایا تھا کہ
حقیقتِ ابدی ہے مقام شبیری
بدلتے رہتے ہیں اندازِ کوفی و شامی
اور در معنی حریت اسلامیہ و سر حادثہ کربلا میں فرمایا۔۔
موسیٰ و فرعون و شبیر و یزید
ایں دو قوت از حیات آید پدید
یزید فرعون، نمرود و شداد کا وارث تھا، جس کا راستہ آل ابراہیم، آل ابو ہاشم کے چشم و چراغ امام حسین ؑ نے روکا، ورنہ اسلام جو ابھی نوزائیدہ تھا، وہ آل امیہ اور طلقاء کی اولادوں کے قبضہ میں چلا گیا تھا اور ان کی ازلی سازشوں کی نذر ہو جاتا اور لوگ ان کے پراپیگنڈہ اور چکا چوند سے اصل کو بھول ہی جاتے۔

مگر امام حریت و آزادی نے اپنے اکہتر ساتھیوں سمیت ریگ زار کربلا پر ایسا تاریخ ساز معرکہ لڑا، جس کے بعد رہتی دنیا تک اسلام کی حقانیت اور اس کی تازگی شہدائے کربلا کے سرخ خون کی بدولت خوشبو بکھیرتی رہیگی اور اس واقعہ پہ لکھنے والے اپنے قلم کی سیاہی سے شہداء کے پاک لہو کی سرخی کو اوراق تاریخ پر نقش کرتے رہینگے۔ علامہ محمد اقبال (رہ) نے جو لکھا ہے، وہ انتہائی قابل غور ہے، فرمایا
تا قیامت قطع استبداد کرد
موج خون او چمن ایجاد کرد
بہر حق در خاک و خوں غلطیدہ است
پس بنائے لا الہ گر دیدہ است

اب قیامت تک یزید کے پیرو، اس کے چاہنے والے، اس سے محبت اور فرزند نبی سے اپنا بغض اور دشمنی رکھنے اور دکھانے والے آتے رہیں، اس سے اسلام کو کچھ فرق نہیں پڑنے والا، اسلام تا قیامت جبر و استبداد اور بادشاہت، خاندانی وراثت کے دعویداروں کی خونی پنجوں سے آزاد ہوچکا، امام حسینؑ اور ان کے جاں نثار ساتھیوں نے وفاؤں کے جو چراغ روشن کئے، اس کے بعد اگر امت مسلمہ سے کسی نام نہاد مسلمان کے زبان و عمل سے امام عالی مقام امام حسین ؑ اور ان کے پاکباز ساتھیوں کے غم کا مذاق اڑایا جاتا ہے، اس کی مخالفت کی جاتی ہے تو بھلے کرنے دو، امام حسین کو تو بس جو چاہیئے تھے، وہ شب عاشور ان کے پاس تھے اور کہہ رہے تھے۔۔۔
دیا بجھا کے کہتے تھے ساتھیوں سے یہ حسین ؑ
جو چاہو ڈھونڈ لو کوئی رستہ اماں کیلئے
کہا یہ سن کے رفیقوں نے یک زبان ہو کر
یہ جان تو وقف ہے مولائے انس و جاں کے لئے
ہماری تو منزلِ آخر ہے آستان حسین ؑ
یہ سر جھکے گا نہ اب اور کسی آستاں کے لئے

تحریر: ارشاد حسین ناصر

نائجیریا میں حضرت امام حسین (ع) کی عزاداری میں عوام کی بھر پور شرکت

نائجیریا میں نواسہ رسول (ص) حضرت امام حسین علیہ السلام کی عظيم الشان قربانی کی یاد میں مجالس عزا میں عزاداروں کی بھر پور شرکت کا سلسلہ جاری ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی کے نامہ نگار کی رپورٹ کے مطابق نائجیریا میں نواسہ رسول (ص) حضرت امام حسین علیہ السلام کی عظيم الشان قربانی کی یاد میں مجالس عزا میں عزاداروں کی بھر پور شرکت کا سلسلہ جاری ہے۔

نائجیریا میں 7 ملین شیعہ آباد ہیں نائجیریا کی اسلامی تحریک شیعوں سے متعلق ہے جس کے سربراہ شیح ابراہیم زکزاکی ہیں۔ نائجیریا کے زیادہ تر شیعہ لاگوس ، زاریا اور کانو میں آباد ہیں۔

حال و هوای مراسم عزاداری سالار شهیدان در نیجریه‌

 

نائجیریا کے شیعوں نے ہر سال کی اس سال میں مجالس عزا برپا کی ہیں جس میں نائجیریا کے جوان بھر پور انداز میں شرکت کرکے حضرت امام حسین علیہ السلام کے ساتھ اپنی محبت اور وفاداری کا اعلان کررہے ہیں اور آنحضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کو ان کے نواسے کا پرسہ دے رہے ہیں۔

حال و هوای مراسم عزاداری سالار شهیدان در نیجریه‌

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی موجودگی میں حسینیہ امام خمینی (رہ) میں سید الشہداء حضرت امام حسین (ع) اور ان کے بہتر ساتھیوں کی یاد میں  پہلی مجلس عزا منعقد ہوئی۔ گذشتہ سال کی طرح اس سال بھی کورونا وائرس کی روک تھام اور رہبر معظم انقلاب اسلامی  کی طرف سے کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے والی قومی کمیٹی کی ہدایات پر عمل کرنے کی تاکید کی روشنی میں مجالس عزا میں عوام کو دعوت نہیں دی گئی ۔ مجالس عزا کا سلسلہ محرم الحرام کی ساتویں شب سے لیکر بارہویں شب تک جاری رہےگا۔مجالس عزا کا پروگرام ٹی وی سے براہ راست نشر کیا جائےگا۔

Sunday, 15 August 2021 09:22

مستقبل کا افغانستان


طالبان کی تیز رفتار پیشقدمی جاری ہے۔ طالبان اندازوں سے کہیں زیادہ سرعت سے کابل کے قریب پہنچ جائیں گے۔ غزنی اور قندھار کے بعد مزار شریف بھی طالبان کے ہاتھوں سقوط کر گیا ہے۔ افغانستان کے شہر مزار شریف کے مکمل سقوط کر جانے کی خـبریں کنفرم ہوچکی ہیں۔ طالبان کے ذرائع نے دعویٰ کیا کہ صوبہ بلخ کا صدر مقام مزار شریف مکمل طور پر ان کے قبضے میں آگیا ہے۔ مزار شریف شمالی افغانستان کا اہم ترین شہر شمار ہوتا ہے۔ طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ انہوں نے شہر میں داخل ہونے کے بعد مزار شریف جیل میں موجود تمام قیدیوں کو آزاد کر دیا ہے۔ مزار شریف ماضی میں طالبان سے فتح نہیں ہوسکا تھا۔ اس بار طالبان نے جنگی حکمت  عملی تبدیل کرکے اس اہم شھر پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ کمانڈر عطاء محمد نور اور مارشل دوستم جو مزار شریف کا دفاع کر رہے تھے، حیرتان نامی علاقے کی جانب کوچ کرگئے ہیں، بعض خبروں میں ان کے تاجکستان فرار کی خبریں موصول ہوئي ہیں۔

طالبان کا پورے افغانستان پر قبضہ اب نوشتہ دیوار ہے۔ ایران سمیت تمام ہمسایہ ممالک ان کو تسلیم کرنے پر تیار  نظر آرہے ہیں۔ ایران کی پہلی ترجیح افغانستان سے امریکی فوجی انخلاء ہے۔ امریکہ پینترا بدل کر پلان بی پر عمل درآمد ضرور کرے گا۔ افغانستان میں ناامنی جاری رہے گی اور یہی امریکی خواہش ہے۔ امریکہ کا بی پلان کیا ہے، اس ہر غور و فکر کی ضرورت ہے۔ فوجی انخلاء کے باوجود ایک فور اسٹار امریکی جرنیل کی تعیناتی کئی سوالات کو جنم دے رہی ہے۔ مزار شریف پر قبضے سے پہلے طالبان گروہ، شبرغان، نیمروز، قندوز، سرپل، سمنگان، پلخمری، تخار اور فراہ پر قبضہ کرچکا ہے جبکہ غزنی، ہلمند، قندھار اور ہرات پر بھی طالبان کا تسلط ہے۔ ادھر امریکی ذرائع ابلاغ دارالحکومت کابل پر قبضے کی بات کر رہے ہیں۔

روزنامہ واشنگٹن پوسٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ امریکی حکام کو خدشہ ہے کہ  افغانستان کے دارالحکومت کابل پر طالبان کا قبضہ سی آئی اے کی پیش گوئی سے پہلے ممکن دکھائی دے رہا ہے۔ اخبار کے مطابق سی آئی اے نے پیش گوئی کی تھی کہ امریکی فوجیوں کے انخلاء کے بعد چھے ماہ سے ایک سال کے اندر طالبان کابل میں داخل ہوسکتے ہیں، لیکن اب ایک انٹیلی جینس افسر نے صاف صاف کہا ہے کہ ہر چیز غلط راستے پر جاتی دکھائی دے رہی ہے۔ ادھر صدر جو بائیڈن نے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کہا ہے کہ ہم نے بیس سال کے دوران ٹریلینز ڈالر افغانستان پر خرچ کیے ہیں اور اب افغانیوں کو چاہیئے کہ وہ اپنے اور اپنے ملک کے لیے خود جنگ کریں۔ افغانستان کے عوامی اور سیاسی رہنماء ملک کی موجودہ صورتحال کو امریکہ اور طالبان کے درمیان خفیہ معاہدے کا نتیجہ قرار  دے رہے ہیں۔

امریکہ اور طالبان کے درمیان فروری دوہزار بیس میں ہونے والے معاہدے کے تحت امریکی فوجی افغانستان سے نکلنا شروع ہوگئے ہیں، یہ عمل گیارہ ستمبر سے پہلے مکمل ہو جائے گا۔ امریکی فوجیوں کے انخلا کے ساتھ ہی طالبان نے افغانستان میں حملے تیز کر دیئے تھے اور  اس وقت ملک کے اکثر علاقوں پر قبضہ کرچکے ہیں۔ چین، روس ایران اور پاکستان طالبان کے راستے میں کسی قسم کی رکاوٹ ڈالنے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں۔ ادھر افغان صدر اقتدار سے الگ ہونے کے لئے جو شرط عائد کر رہے ہیں، طالبان اسے قبول کرنے کے لئے تیار نہیں۔ اشرف غنی انتخابات یا موجودہ آئین کے اندر رہ کر شرکت اقتدار کی بات کرتے ہیں جبکہ طالبان موجودہ افغان آئین کو سرے سے تسلیم نہیں کرتے اور امارت اسلامی کا نعرہ بلند کر رہے ہیں۔

پاکستان کی طرف سے یہ کہنا کہ کابل پر طاقت کے ذریعے اقتدار میں آنے والے کو قبول نہیں کیا جائیگا، ایک واضح اشارہ ہے کہ طالبان مختلف گروہوں کو ملا کر اقتدار میں آئے۔ طالبان کی حکمت عملی کے پیچھے اسلام آباد کے بالواسطہ مشورے شامل ہیں اور طالبان کابل کے مکمل محاصرے کے بعد مختلف گروہوں کو ملا کر شرکت اقتدار کا ایک جامع منصوبہ سامنے لائے گا، جس کو پاکستان سمیت تمام ہمسایہ ممالک حتی عالمی ادارے بھی تسلیم کر لیں گے۔ طالبان کے عمل و کردار میں ماضی کی نسبت کیا تبدیلی آسکتی ہے، وہ ان کی مرکزی قیادت میں تو قابل درک ہے، لیکن مقامی قدامت پسند اور روایتی ملاں مرکزی قیادت سے کتنے ہم آہنگ ہوسکتے ہیں، اس بارے کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ البتہ امریکہ بہادر، چین، روس اور ایران کو ایسا افغانستان ہرگز نہیں دے سکتا، جو امریکی مفادات کی بجائے ان ممالک کے لئے سودمند ثابت ہو۔

تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

مہر خبررساں ایجنسی نے تاریخ اسلام کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ محرم الحرام   وہ مقدس مہینہ ہے جس میں دین اسلام کی بقا اور دوام کے لئے نواسہ رسول (ص) حضرت امام حسین (ع) نے اپنا پورا کنبہ لٹا دیا، اور اپنے اعزا و اقربا اور اصحاب کے  خون سے اسلام کی آبیاری کی۔ ۔واقعہ کربلا محض ایک  واقعہ یا اسلامی تاریخ کا ایک باب نہیں  بلکہ یہ رہتی دنیا تک کے لئے ایک واضح مثال ہے۔سانحہ کربلا نے دنیا میں  بنی نوعِ انسان کو دو گروہوں میں تقسیم کر دیا اور حق و باطل کے مابین ایک واضح لکیر کھینچ دی ۔ آج بھی ایک  گروہ حضرت امام حسین (ع) اور ان کے بہتر ساتھیوں کا پیروکار اور شیعہ ہے جو حق اور سچ کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہے جبکہ دوسرا گروہ یزید ، معاویہ ، ابوسفیان اور ہندہ جگر خوارہ کا طرفدار ہے جو آج بھی ظلم اور ظالم کا طرفدار ہے۔

واقعہ کربلا کی  حقانیت  آج بھی ہر باضمیر  انسان  کےچہرے سےچھلکتی ہے،اگرچہ اسکا تعلق کسی بھی مذہب یا فرقے سے ہو ۔اگر کسی بھی شخص کا   ضمیر زندہ ہے اور اسکے دل میں انسانیت کے لئے درد پنہاں ہے تو وہ حسینی (ع)  ہے ۔ 

کربلا کے معرکے کے بارے میں سوچیں تو روح تھر تھرکانپ جاتی ہے اور  جسم پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے ۔یہ ایک ایسا خونچکاں  واقعہ ہے  جس میں ایک جانب اطاعت خداوندی ،ایثار ، قربانی  اور عبادات کے پہلو ملتے ہیں تو دوسری جانب ظالم حکمران کا  اپنی عددی طاقت کی بنا پر غرور اور کبر نظر آتا ہے ۔ کربلا کی سرزمین تو وہ ہےجس کو امام حسین (ع)  کے مقدس خون کی وجہ سے بے مثال مقام مل گیا ۔ آج اسی سرزمین ننیوا کو  کربلائے معلیٰ کہا جاتا ہے۔  یہ ایک ایسے  مظلوم کا مقتل ہے  جو نبی کریم کے خاندان کا چشم و چراغ اور آنحضور کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھی ،جو کل بھی دینِ محمد(ص) کا محافظ تھا اور آج بھی محافظ  ہے ۔ تاریخ میں ہے کہ جب نواسہ رسول (ص) سرزمین کربلا پر  اترے  اور آپؓ کو بتایا گیا کہ یہ کربلا ہے تو آپ  سن کر بہت روئے اور فرمایا کہ یہاں سے ایک  مشت خاک اٹھا کر مجھے دے دو ۔ آپ کے حکم کی تعمیل کی گئی ۔ امام عالی مقامؓ نے وہ مٹی سونگھی   اور پھر اپنے کرتے کی جیب میں سے ایک مٹھی مٹی نکالی  اور فرمایا کہ یہ وہی مٹی ہے  کہ جو جبرائیل علیہ السلام کے توسط سے اللہ تعالی نے میرے نانا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیل و آلہ وسلم کو بھیجی تھی  اور کہا تھا کہ یہی حسین (ع) کی تربت کی مٹی ہے ۔

 حضرت امام حسین علیہ السلام  وہ  عظیم اور ذی وقار ہستی ہیں جن کے لئے پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ ’حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں ، جس نے اس سے محبت کی اس نے گویا مجھ سے محبت کی اور جس نےا سے اذیت دی اس نے گویا مجھے اذیت دی ‘ لیکن حیف ہے ایسی جاہل اُمت پرکہ جنہوں نے کلمہ پڑھ کر امام حسین (ع) کی گردن پر کند خنجر چلا دیا ۔ اس گردن کو تہ تیغ کر دیا جس پر ہمارے پیارے نبی (ص)  بوسے دیا کرتے تھے ۔ 

دیکھا جائے تو کربلا کے شہیدوں نے ہمیں حقیقی معنوں میں  اطاعتِ خداوندی اور حریت کا درس دیا ۔انھوں نے بتایا  کہ  صرف نمازیں پڑھنا یا اذانیں دینا ہی کافی نہیں،قرآن کے ساتھ ساتھ ناطقِ قرآن کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ 

کربلا کا معرکہ آج بھی جاری و ساری ہے ۔ آج بھی ایک جانب مظلوم اور محکوم اقوام ہیں تو دوسری جانب  ظالم اور جابرحکمراں ہیں۔ حق و باطل کا معرکہ فلسطین، یمن ، لبنان اور دیگر مقامات پر جاری ہے جہاں ایک طرف اس دور کے یزید امریکہ اور اس کے اتحادی ہیں اور ایک طرف فلسطین ، یمن اور لبنان کی مظلوم اقوام ہیں۔

 لبنانی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سيد حسن نصر اللہ نے محرم الحرام کی تیسری شب کے حوالے سے خطاب میں نفسیاتی جنگ کے بارے خبردار کرتے ہوئے تاکید کی ہے کہ بعض عناصر لبنان میں فتنے کا بازار گرم کرنے کے لئے زمینہ فراہم کر رہے ہیں لہذا مزاحمتی محاذ کے حامیوں کو بیدار رہنا چاہئے۔ العہد کے مطابق سید مقاومت نے اپنے خطاب کے دوران مزاحمتی محاذ کے حامیوں کو چند ایک نصیحتیں کیں اور حقیقت نقل کرنے میں صداقت کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ بغیر ثبوت کے کسی پر افتراء نہیں باندھنا چاہئے، کسی پر الزام عائد نہیں کرنا چاہئے اور نہ ہی کسی کو برا بھلا کہنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ کسی کے ساتھ اختلاف نظر کا مطلب اس پر حملہ نہیں.. تنقید ایک چیز ہے اور حملہ دوسری۔

سید حسن نصراللہ نے کہا کہ علماء یا میڈیا پرسنز میں سے اگر کوئی سیاست کے بارے کچھ کہہ دے تو ہمیں اس کا جواب دینے کا حق حاصل ہے لیکن اس شخص پر حملہ کئے بغیر.. کیونکہ برا بھلا کہنا اور توہین کرنا کمزوری کی علامت ہے۔ سربراہ حزب اللہ نے کہا کہ حزب اللہ میں موجود تمام ذمہ دار افراد و علماء وغیرہ سے توقع ہے کہ اگر کوئی حادثہ پیش آتا ہے تو وہ اس کے بارے وضاحت پیش کریں اور نفسیاتی جنگ کو ہلکا نہ سمجھیں۔ انہوں نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں تاکید کی کہ ہمارا ملک انتہائی حساس مرحلے میں اور ہم ایک سخت و طولانی معرکے میں ہیں لہذا مزاحمتی محاذ کے حامیوں کو بیدار رہنا چاہئے اور ہم میں سے ہر ایک شخص ایک ذمہ داری اٹھا لے۔

واضح رہے کہ غاصب صیہونی رژیم کی جارحیت کے خلاف حزب اللہ لبنان کی جانب سے صیہونی اہداف پر ہونے والے جوابی حملے کے بعد لبنان کے میرونائٹ عیسائیوں کے سربراہ بشاره پطرس الراعی نے حزب اللہ کے خلاف بیان دیتے ہوئے لبنانی فوج سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اس تنظیم کو روکے جس کے بعد لبنانی مزاحمتی محاذ میں اس حوالے سے ناراضگی پائی جاتی تھی جس کے اثرات سوشل میڈیا پر بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔

مہر خبررساں ایجنسی نے پاکستانی ذرائع کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ پاکستان کا آج 75 واں یوم آزادی منایا جارہا ہے اس موقع پر دارالحكومت اسلام آباد میں 31 اور صوبائی دارالحكومتوں میں 21،21 توپوں كی سلامی دی گئی۔

پاکستان میں جشن آزادی کے حوالے سے مرکزی تقریب دارالحکومت اسلام آباد میں ہوئی جس میں صدر ڈاکٹر عارف علوی، وزیراعظم عمران خان، تینوں مسلح افواج کے سربراہان، وفاقی وزرا، اراکین قومی اسمبلی و سینیٹ اور مختلف ممالک کے سفرا نے شرکت کی، اس کے علاوہ کراچی میں مزار قائد اور لاہور میں مزار اقبال پر گارڈز کی تبدیلی کی روایتی تقاریب منعقد ہوئیں۔

،رہبر انقلاب اسلامی نے بدھ گيارہ اگست کی صبح کورونا کی بیماری کی صورتحال کے بارے میں ٹیلی ویژن سے نشر ہونے والے اپنے ایک پیغام میں اسے ملک کا پہلا اور فوری مسئلہ بتایا ہے۔

آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے اس پیغام کے آغاز میں سید الشہداء امام حسین علیہ السلام اور ان کے باوفا اصحاب کو سلام عرض کیا اور ملک کے حکام اور عوام کے لیے کچھ اہم نکات بیان کیے۔

انہوں نے کہا کہ کورونا کی سرکش بیماری بے تحاشا پھیل رہی ہے، صرف ایران میں نہیں بلکہ تقریبا پوری دنیا میں یہ تیز رفتاری سے پھیل رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب یہ دشمن یعنی کورونا وائرس نئي شکل اختیار کر لیتا ہے تو ہماری دفاعی حکمت عملی اور کام کا طریقہ بھی اسی کے حساب سے بدل جانا چاہیے۔

آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے کورونا کو ملک کا فوری مسئلہ بتایا اور اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ اس بیماری میں مبتلا ہونے اور مرنے والوں کے اعداد و شمار دردناک ہیں، صدر مملکت کی جانب سے کورونا کی نئي لہر سے نمٹنے کے سلسلے میں اپنا موقف واضح کرنے کے لیے ایک ہفتے کی مہلت معین کیے جانے کو سراہا۔

انہوں نے میڈیکل کے شعبے کی صورتحال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ڈاکٹروں، نرسوں اور میڈیکل اسٹاف کے کام کو جہاد سے تعبیر کیا اور کہا: مجھے حقیقت میں دل کی گہرائي سے ان افراد کا شکریہ ادا کرنا چاہیے، البتہ ہمارے شکریے کی کوئي اہمیت نہیں ہے، اصل شکریہ خدا کی طرف سے ہے جو شاکر و علیم ہے اور ان افراد کی زحمتوں کو دیکھ رہا ہے۔

قائد انقلاب اسلامی نے حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کچھ سفارشات کیں اور کورونا کے مریضوں کی پہچان کے لئے زیادہ سے زیادہ ٹیسٹ کیے جانے کو ایک اچھا اقدام بتایا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ یہ ٹیسٹ مفت اور ملک گیر سطح پر ہونے چاہیے۔

انہوں نے ایران کو ویکسین بیچنے کے مسئلے میں مغربی ملکوں کی وعدہ خلافی کے بارے میں کہا: درآمدات کا مسئلہ اس طرح کا تھا کہ حکومت اور وزارت صحت نے پیسے دے کر بعض جگہوں سے ویکسین خریدی تھی، بعض ملکوں کو ویکسین کی قیمت بھی ادا کر دی گئی تھی لیکن انھوں نے وعدہ خلافی کی اور ویکسین نہیں دی۔ جب خود ہماری ویکسین بازار میں آ گئي اور لوگوں نے ٹیکے لگوانے شروع کر دیے تو یہ معاملہ بہتر ہو گيا یعنی درآمد کا راستہ بھی کھل گيا۔

آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے اسی کے ساتھ کہا کہ بہرحال درآمدات کے لیے بھی اور ملکی پیداوار کے لیے بھی دوہری کوشش ہونی چاہیے اور جس طرح سے بھی ممکن ہو لوگوں تک ویکسین کو پہنچایا جانا چاہیے۔ ویکسین کے دسیوں لاکھ ڈوز ہمارے پاس ہونے چاہیے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اسی طرح دواؤں اور ان کی تقسیم کے نیٹ ورک کی طرف بھی اشارہ کیا اور کہا کہ اس سلسلے میں ہونے والی خلاف ورزیوں اور دلالی سے سختی سے نمٹا جانا چاہیے جس کی وجہ سے دواؤں تک عوام کی رسائی محدود ہو گئی ہے۔

انھوں نے کورونا کے ابتدائي پھیلاؤ کے دوران مسلح فورسز اور عوامی رضاکاروں کی مدد کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے لوگوں کی مدد کے لیے ان فورسز کے زیادہ سے زیادہ استعمال کی ضرورت پر تاکید کی۔

آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے عوام سے کچھ سفارشات کرتے ہوئے ان سے اپیل کی کہ میڈیکل پروٹوکولز کی  پابندی کریں کیونکہ ایسا نہ کرنا، معاشرے کی صحت کو خطرے میں ڈالنا ہے۔

انہوں نے محرم میں مجالس عزا کے انعقاد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان مجالس کو رحمت الہی کا موجب قرار دیا اور کہا: ہمیں ان مجالس کی ضرورت ہے، یہ مجالس ہونی چاہیے لیکن پوری ہوشیاری کے ساتھ اور میڈیکل پروٹوکولز کی پوری پابندی کے ساتھ منعقد ہونی چاہیے۔

آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے عوام سے اپیل کی کہ وہ کورونا کے پھیلاؤ کے اس وقت میں رضاکارانہ امداد جاری رکھیں۔
انھوں نے اپنے اس  پیغام کے آخر میں کہا کہ میری آخری نصیحت، خدا کے حضور دعا، توسل اور گڑگڑانا ہے۔ آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ عزاداری کی مجلسوں میں توسل اور گریہ و زاری کے ساتھ خداوند عالم سے لطف و کرم کی التجا کریں تاکہ ان شاء اللہ وہ اس خبیث بیماری سے ایران اور پوری دنیا کے لوگوں کو نجات دے۔