
سلیمانی
لو افغانستان کو برباد کرکے چل دیئے
افغانستان کے حالات بڑی تیزی سے خراب ہو رہے ہیں۔ امریکی قیادت میں نیٹو فورسز نے مسلسل بیس سال افغانستان پر قبضہ جمائے رکھا اور افغان وسائل کو بری طرح سے لوٹا۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ کے نام پر امریکی و یورپی عوام کو مسلسل بے وقوف بنائے رکھا اور اب جب بیس سال بعد خطے سے بھاگ رہے ہیں تو آگ و خون کا کھیل عروج پر چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ لاکھوں لوگوں کو مارنے و زخمی کرنے کے بعد افغانستان کو سول وار کے حوالے کرکے جانا ظلم ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ طالبان نے افغانستان کے دو سو چالیس میں سے اسی اضلاع پر قبضہ کر لیا ہے۔ طالبان مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں۔ امریکہ نے دنیا بھر کا پیسہ اکٹھا کرکے چار لاکھ فوجی تیار کیے تھے، امریکی افواج کے نکلنے کے اعلان کے ساتھ ہی وہ شکست خوردگی میں ہتھیار ڈال رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایسی بہت سی ویڈیوز گردش کر رہی ہیں، جن میں افغان سپاہی ہتھیار ڈالتے ہیں، گھر کا کرایہ وصول کرتے ہیں اور پوسٹ چھوڑ کر نکل جاتے ہیں۔
افغانستان کے پشتونوں کی وابستگیاں طالبان کے ساتھ ہیں، اس لیے پشتون سپاہی اور عوام طالبان کو خوش آمدید کہہ رہے ہیں۔ ایسے میں افغان صدر مدد کے لیے وائٹ ہاوس پہنچے ہیں۔ امریکی صدر نے یہ نے کہا کہ ہمارے فوجی جا رہے ہیں، فوجی مدد جاری رہے گی، ایک لالی پوپ دینے کی کوشش کی ہے۔ ابھی تک امریکہ کی نصف کے قریب فوج افغانستان میں ہے تو طالبان نے افغان حکومت کی درگت بنا دی ہے، جب یہ چلی جائے گی تو دور سے کیا خاک مدد ہوگی؟ افغان صدر اشرف غنی ان دنوں آرمی چیف اور وزیر دفاع کو تبدیل کر رہے ہیں۔ یہ بدانتظامی اور عدم اعتماد کی انتہا ہے کہ ملک کو جنگ درپیش ہے اور عہدوں کی بندر بانٹ ہو رہی ہے۔ ویسے تو پورے ملک میں عدم تحفظ کی لہر ہے، مگر کابل کے سفارتی حلقے شائد طالبان کی آمد کی آہٹ کو جلد محسوس کر رہے ہیں۔ کابل میں سفارتکار تک ڈرے ہوئے ہیں کہ اگر طالبان آگئے تو ہمارا کیا ہوگا۔؟
طالبان بار بار کہہ رہے ہیں کہ ہم قتل عام نہیں کریں گے مگر اعتبار کون کرے؟ کیونکہ 1998ء میں گیارہ ایرانی سفارتکار مار دیئے گئے تھے۔ انہی خدشات کے پیش نظر آسٹریلیا نے اپنی ایمبیسی مکمل طور پر بند کر دی ہے۔ سفارتکاروں کے ساتھ ساتھ امریکہ اور نیٹو فورسز کے ساتھ کام کرنے والے پندرہ ہزار ڈرائیور، باورچی اور مترجم بہت زیادہ پریشان ہیں کہ طالبان انہیں نہیں چھوڑیں گے۔ ان کے پچاس ہزار رشتہ دار ہیں، ان سب کو امریکی ویزہ دینا ایک بڑے پروسس کا متقاضی ہے، اس پر وقت لگے گا۔ امریکہ کو بھی پتہ ہے کہ اب وقت کم ہے، اس لیے انہیں پہلے کسی تیسرے ملک میں بھیج کر وہاں سے ان کا ویزہ پروسس کرکے انہیں امریکہ کا ویزہ دیا جائے گا۔ نیٹو اور مریکی فوسز کے سو مترجمین امریکی سفارتخانے کے سامنے احتجاج کر رہے ہیں کہ انہوں ویزے نہیں دیئے جا رہے ہیں۔ افغانستان میں امریکہ کے ساتھ کام کرنا آسان نہیں تھا، جن لوگوں نے کام کیا، اب انہیں جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں کہ اب انہیں نقصان پہنچایا جائے گا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ نے افغانستان کے دارالحکومت کابل کو کس قدر غیر محفوظ شہر بنا دیا ہے کہ وہاں کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔
اس بدامنی میں مہاجرین کا سیلاب آنے کا خدشہ ہے، جس سے حسب سابق پڑوسی ممالک کو اس سے نمٹنا پڑے گا۔ آج کی صورتحال وزیراعظم پاکستان نے کچھ عرصہ پہلے اپنے خطاب میں بتا دی تھی کہ سول وار کا خدشہ ہے، جو سچ ثابت ہو رہی ہے، کیونکہ جیسے جیسے طالبان کابل کی طرف بڑھ رہے ہیں، ویسے ویسے ان کے خلاف لوگ بھی اٹھ رہے ہیں۔ عمران خان صاحب نے متحدہ حکومت بنانے کی تجویز دی، جس میں سب گروہ شامل ہوں۔ اسی طرح انہوں نے امریکہ کو کسی بھی صورت میں اڈے دینے سے انکار کر دیا تھا اور کہا تھا کہ ہم امن میں شریک ہیں، جنگ میں شریک نہیں ہیں۔ یہ دونوں باتیں افغانستان اور خطے کے لیے انتہائی مناسب تھیں مگر ان پر توجہ نہیں دی گئی۔
ترکی کے پانچ سو فوجی افغانستان میں موجود ہیں، جو موجود رہیں گے، ان کے حوالے سے مختلف اطلاعات سامنے آرہی ہیں۔ ترک فوجی کابل ائرپورٹ کے دفاع کو یقینی بنائیں گے اور دوسرا افغان فورسز کو تربیت دیں گے۔ طالبان نے ترکی کے افغان سرزمین پر رہنے کے فیصلے کی شدید مخالفت کی ہے اور کہا کہ 2019ء کے معاہدے کے مطابق تمام نیٹو فورسز نے افغانستان سے نکلنا ہے اور ترکی کی افواج بطور نیٹو فورس یہاں موجود تھیں۔ اس لیے ان کی کسی بھی قسم کی موجودگی کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ ترکی امریکہ سے روس معاہدے کی وجہ سے خراب تعلقات کو بحال کرنا چاہتا ہے، اس لیے ذرا امریکی مفادات میں بڑھ بڑھ کر خود کو پیش کر رہا ہے۔ ورنہ پانچ سو ترک فوجی کوئی بڑی تبدیلی لانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ یہ زیادہ سے زیادہ ایک علامتی موجودگی ہے، مگر ترک حکومت ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
سب سے اہم سوال کہ عام افغان کیا سوچ رہا ہے؟ طالبان ہوں یا افغان حکومت ہو، سب سے زیادہ متاثر تو افغانستان کا عام شہری ہی ہوتا ہے۔ اپنے جغرافیہ کی وجہ سے دنیا کی بڑی طاقتوں کے بیچ پس جانے والے افغان اب جنگ سے تنگ آچکے ہیں، مگر جنگ اب بھی ان کا پیچھا چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ بقول منیر نیازی:
اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
روس گیا تو خانہ جنگی شروع ہوگئی، طالبان اور شمالی اتحاد کی جنگ رہی اور اب امریکہ جا رہا ہے تو ایک اور سول وار راستہ دیکھ رہی ہے۔ 1960ء سے جاری یہ کشمکش اب تیسری افغان نسل دیکھ رہی ہے۔ روس امریکہ، چین و یورپ کو اپنے مسائل اپنے بارڈرز کے اندر حل کرنے چاہیں، دوسروں کی زمین اور خون کی قربانی کا مسلسل سلسلہ روک دینا چاہیئے۔ یہ افغان عوام کی خواہش اور ان کا بنیادی حق ہے کہ وہ پرامن افغانستان میں زندگی گزاریں اور اسے تسلیم کیا جانا چاہیئے
فرانسیسی بحریہ کےکمانڈرکی طرف سے ایرانی بحریہ کے کمانڈرایڈمرل حسین خانزادی کا استقبال
اسلامی جمہوریہ ایران کی بحریہ کے سربراہ ایڈمرل حسین خانزادی مڈغاسکر کے مغرب میں واقع رونیان جزیرے میں بحر ہند کے ساحلی ممالک کی بحری افواج کے کمانڈروں کے ساتویں اجلاس میں شرکت کے لئے جب پہنچے تو فرانسیسی بحریہ کے سربراہ ایڈمرل وینڈینے ان کا والہانہ استقبال کیا۔
اطلاعات کے مطابق ایرانی بحریہ کے سربراہ بحر ہند کے ساحلی ممالک کی بحری افواج کے کمانڈروں کے ساتویں اجلاس میں شرکت کے لئے رونیان جزیرے میں پہنچ گئے ہیں جہاں فرانسیسی بحریہ کے کمانڈر ایڈمرل وینڈیر نے سرکاری طور پر ان کا استقبال کیا۔
ایرانی بحریہ کے سربراہ نے فرانسیسی بحریہ کے سربراہ سے باہمی تعاون کو فروغ دینے کے سلسلے میں تبادلہ خیال کیا۔ بحر ہند کے جنوب میں واقع رونیان جزیرہ فرانس کے قبضہ میں ہے۔
ایران کا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شام کی حمایت جاری رکھنے کا عزم
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ کے اعلی مشیرعلی اصغر خاجی نے شام کے صدر بشار اسد کے ساتھ ملاقات میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شام کی حمایت جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ایرانی وزیر خارجہ کے اعلی مشیر ایک وفد کے ہمراہ شام کے دورے پر ہیں جہاں انھوں نے شام کے صدر بشار اسد سے ملاقات اور گفتگو کی۔ اس ملاقات میں دو طرفہ تعلقات ، علاقائی اور عالمی امور کے بارے میں بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ خاجی نے اس ملاقات میں دونوں ممالک کے درمیان مضبوط اور مستحکم تعلقات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران ، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شامی حکومت اور عوام کی مدد کا سلسلہ جاریر کھےگا۔ اس ملاقات میں شام کے صدر بشار اسد نے ایران میں تیرہویں صدارتی انتخابات کے کامیاب منعقد ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایران کی حمایت کے قدرداں اور شکر گزار ہیں۔ خاجی نے شام کے وزیر خارجہ فیصل المقداد کے ساتھ بھی ملاقات اور گفتگو کی اور باہمی دلچسپی کے امور کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔
حضرت یوشع نبی(ع) کا مزار اصفھان ایران
حضرت یوشع نبی(ع) کا مرقد اسلامی جمہوریہ ایران کے شھر اصفہان کے تاریخی مقام تخت فولاد کے شمال تکیہ شہداء میں واقع ہے۔
وہ ایریا کہ جس میں حضرت یوشع(ع) مدفون ہیں اسے “لسان الارض” کہا جاتاہے۔
حضرت یوشع نبی (ع) کی قبر مبارک سطح زمین سے تھوڑٰی بلند ہے اور اس کے اوپر سبز رنگ کا کپڑا بچھایا ہوا ہے جو کہ آج بھی دنیا بھر کے بہت سارے زائرین کی توجھ کا مرکز ہے۔
حضرت یوشع قوم بنی اسرائیل کے پیامبروں میں سے ایک پیامبر ہے جو حضرت موسی کی وفات کے تین دن بعد خود حضرت موسی کی وصیت پر عمل کرتے ہوے قوم بنی اسرائیل کی رھبریت کے منصب پر فائز ہوے۔
بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ حضرت یوشع بنی بھی ان افراد میں سے ہے کہ جسے کوروش (کہ جو ھخامنشی دور حکومت کا بانی اور پہلا بادشاہ تھا) کے زریعے بختنصر(کہ جو بنی اسرائیل کے اوپر خدا کی طرف سے عذاب کی صورت میں آیا تھا اور بہت ہی بے رحم اور ظالم تھا) کے ہاتھوں سے آزاد کیا اور بعد میں ایران کی طرف ھجرت کی۔
یہاں پر یہ بات بھی بیان کرنا مناسب ہے کہ حضرت یوشع کے نام سے دو اور مقام بھی تاریخدانوں نے بیان کیا ہے ان میں سے ایک مقام حضرت یوشع کے نام سے لبنان کے شمال میں المینہ الضنیہ نام کے کسی شھر کے ایک پرانے غار میں واقع ہے۔
اور دوسرا مقام اردن کے شھر اُمان کے نزدیک حضرت یوشع نبی کے نام سے ایک مقام موجود ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایرانی ویکسین کی پہلی خوراک وصول کی
جمعہ) صبح ،رہبر معظم آیت اللہ سید خامنہ ای کو ایران کی کوو ایران برکت ویکسین کی پہلی خوراک موصول ہوئی۔
افغانستان، خطرات و امکانات
افغانستان میں ایک بار پھر طالبان اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑتے نظر آرہے ہیں، کئی اضلاع میں داخل ہونے کے مناظر، عام لوگوں کیساتھ سرکاری فورسز کے لوگوں کو ہتھیار ڈالتے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرتے اپنے سفید جھنڈے جن پہ کلمہ لکھا گیا ہے، کو لہراتے فتوحات کے منظر سامنے لائے جا رہے ہیں۔ یہ فتوحات کے منظر دکھانا جنگوں میں پروپیگنڈا ویڈیوز اور میڈیا کا استعمال ہی تو ہے۔ ایسے ہی کچھ مناظر سرکاری افواج کی طرف سے بھی ایک ویڈیو میں دکھائے گئے ہیں کہ سینکڑوں طالبان اپنے ہتھیار ڈالتے اپنے پرچم کو رکھ کر افغانستان کا قومی پرچم اٹھاتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ تو جنگوں میں چلتا رہتا ہے، فتوحات کے دعوے اور دشمن کی شکست کے اعلانات دونوں اطراف سے جاری رہتے ہیں، اس لئے کہ جنگوں میں سچ چھپ جاتا ہے اور پروپیگنڈا سامنے آجاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ طالبان نے ملک کے بڑے حصے پر اپنا قبضہ کر لیا ہے اور وہ مسلسل آگے بڑھ بھی رہے ہیں۔ اب یہ خطرہ سب ہی محسوس کرنے لگے ہیں کہ ِافغانستان کی بگڑتی ہوئی صورتحال خانہ جنگی کا الارم ہے، جبکہ طالبان کا کہنا ہے کہ امریکہ کے پاس گھڑی ہے اور ہمارے پاس وقت ہے۔
طالبان کے پچھلے ایک ڈیڑھ ہفتہ میں پچاس اضلاع سمیت تاجکستان۔افغان بارڈر اور ضلع کرم سے متصل پاک۔افغان بارڈر پر قبضے سے اس بات میں اب وزن بھی پیدا ہوگیا ہے۔ طالبان نے مختلف افغان اضلاع کو روندتے ہوئے لگ بھگ چوبیس گھنٹوں میں چوبیس اضلاع پر قبضہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا اور جوز جان کے قچہ ضلع میں بھی افغان فورسز نے طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے، یوں جنرل رشید دوستم کا آبائی شہر بغیر گولی چلائے طالبان کے قبضے میں چلا گیا، اب یہ کوئی اتفاق تو نہی ہوسکتا۔ اس لئے کہ رشید دوستم وار لارڈ اور افغانستان کا ایک پرانا منجھا ہوا کھلاڑی ہے، مگر قطر اور طالبان کے ساتھ ایک مبینہ ڈیل کی وجہ سے تاجک اور ازبک علاقوں میں جہاں پہلے طالبان کا جانا ممکن نہیں تھا، اب طالبان کو ڈھیل دے دی گئی ہے اور بادغیث، کندوز اور تاجکستان کی سرحدی چوکی تک طالبان نہایت آسانی سے قبضہ کرتے جا رہے ہیں اور لوگ جوق در جوق طالبان کی صفوں میں شامل ہو رہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق بعض قبائلی سرداروں اور صوبوں کے گورنر بھی طالبان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور خرید و فروخت کے معاملات قطر میں طے پائے ہیں۔ اب جبکہ طالبان کا تقریباً آدھے افغانستان پر کنٹرول ہے، یہ علاقے طالبان نے لڑتے ہوئے اور اضلاع کو روندتے ہوئے قبضہ میں لئے ہیں۔ ادھر طالبان ترجمان سہیل شاہین امریکہ کو دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دے رہے ہیں، طالبان نے پاکستان اور ترکی کو خمیازہ بھگتنے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ مسلمان ممالک کابل ہوائی اڈے یا دوسری کسی ڈیل سے دور رہیں اور ہمارے (طالبان) کے ساتھ مل کر افغانستان میں اسلامی حکومت کے قیام میں مدد کریں۔ یاد رہے کہ چند دن قبل یہ خبر میڈیا پر نشر ہوئی تھی کہ امریکہ نے کابل ایئر پورٹ کی سکیورٹی کا ٹھیکہ ترکی کو دیا ہے، جبکہ ترکی نے اس معاملے میں پاکستان سے مدد لینے کا کہا تھا۔
صورتحال کی اس سنگینی میں افغانستان کی موجودہ سرکار جس میں صدر عبدالغنی اور عبد اللہ عبد اللہ بھی شامل ہیں، دو روز سے امریکہ کے دورے پر پہنچے ہیں، جہاں وہ اعلیٰ امریکی عہدیداران سمیت صدر امریکہ جو بائیڈن سے ملے ہیں۔ وہ افغانستان کے مستقبل کے بارے میں ملاقاتیں بھی کر رہے ہیں۔ ان ملاقاتوں کا نتیجہ کیا نکلتا ہے، یہ تو جلد ہی سامنے آجائے گا، مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ فیصلے میدان میں ہی ہونگے اور میدان اس وقت طالبان کے ہاتھ میں جا چکا ہے، بیس سال تک امریکہ افغانستان میں اپنے دو ہزار سے زیادہ فوجی مروا کر اور اتنا بھاری مالی نقصان کرکے اگر بھاگ رہا ہے تو اسے یہ سمجھ آچکی ہے کہ اب مزید نقصان نہیں کروانا، ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ سب امریکہ کی اپنی پلاننگ کا حصہ ہے کہ افغانستان کو آگ و خون کی وادی میں دھکیل کر خود باہر ہو جائے، اس مقصد کیلئے اس نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی اور طالبان سے مذاکرات کا ڈرامہ رچایا۔
انہیں قطر میں دفتر کی اجازت دی، ان کے اہم ترین افراد سے پابندیاں اٹھائیں اور انہیں دنیا بھر میں گھومنے کا اجازت نامہ دیا۔ اس دوران طالبان نے بھرپور سفارت کاری سے روس، ترکی، چین، ایران، پاکستان، ہندوستان سے اچھے تعلقات بنا لئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ افغانستان میں امریکہ کی ایک اتحادی حکومت کے ہوتے ہوئے قطر میں طالبان کے دفتر کو ان کے سفارت خانہ کی حیثیت دی گئی تھی، اسی طرح امریکہ نے دوحہ مذاکرات اور ڈیل کے نتیجہ میں ہزاروں طالبان کو جیلوں سے رہا کروایا اور ان کے حوصلوں کو تقویت بخشی، اب بھی جب طالبان مختلف اضلاع میں وارد ہو رہے ہیں تو ان کا ٹارگٹ نہ امریکی بیس ہیں نہ امریکی فوجی قافلے یا مراکز۔ جس سے واضح پیغام ملتا ہے کہ امریکہ کو طالبان کی موجودہ پیش رفت کی مکمل مدد و حمایت حاصل ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ افغانستان کی سیاسی قیادت کو اپنے پاس بلا کر کیا نسخہ کیمیا دیتا ہے۔
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے بھی ایک انٹرویو میں طالبان کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں پر کہا ہے کہ اگر طالبان نے کابل پر قبضہ کر لیا تو ہم اپنی سرحدیں بند کر دیں گے اور افغانستان میں صرف منتخب حکومت جسے عوام کی حمایت حاصل ہوگی، کو ہی تسلیم کریں گے یاد رہے کہ ماضی میں جب طالبان کابل پر 1995ء میں قابض ہوئے تھے تو سب سے پہلے پاکستان نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا تھا، جس نے پختونوں کے علاوہ دیگر اکائیوں کے خلاف مظالم کی ایک نئی تاریخ لکھی تھی، جسے اہل مزار شریف، بامیان، بلخ اور شمالی علاقوں کے عوام کبھی نہیں بھلا پائیں گے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اب کی بار ایک طرف تو طالبان جن علاقوں میں پیش رفت کر رہے ہیں، وہاں عوام کو اپنا بظاہر اچھا طرز عمل دکھا رہے ہیں اور سرکاری افواج کے اہلکاروں کو ہتھیار ڈالنے پر عام معافی دے رہے ہیں، جبکہ اس کے باوجود بہت سے علاقوں میں عوامی سطح پر لشکر تشکیل پا رہے ہیں اور طالبان سے مقابلے اپنے شہر ان کے حوالے نہ دینے کیلئے جنگی حکمت عملی ترتیب دی جا رہی ہے، بلکہ تخار، بلخ، مزار شریف اور دیگر ایریاز میں طالبان کو مزاحمت کے ذریعے بھاگنے پر مجبور کر دیا گیا۔
ان ایریاز میں سب سے زیادہ اہل تشیع کی آبادیاں ہیں، جو ہزارہ قبائل پر مشتمل ہیں، کچھ عرصہ پہلے انہی ہزارہ قبائل نے داعش کے پے در پے حملوں سے تنگ آکر ہتھیار اٹھا لئے تھے تو موجودہ عبد الغنی حکومت نے ان پر امریکی جہازوں کے ذریعے بمبارمنٹ کی تھی اور ہتھیار اٹھانے والے کمانڈرز کو گرفتار کیا تھا، آج یہی کمانڈرز اور عوام افغانستان کی عزت، حمیت اور غیرت کی علامت کے طور پر دیکھے جا رہے ہیں اور صدر غنی اپنے آقا امریکہ کی گود میں جا بیٹھا ہے، دیکھیں اسے وہاں سے کیا ہڈی ملتی ہے۔ طالبان اگرچہ بار بار اعلان کر رہے ہیں کہ اہل تشیع سمیت سب افغان ہیں اور شیعہ علاقوں میں شیعوں کو ہی کمان دی جائیگی اور سب کی جان و مال محفوط ہوگا، مگر جن لوگوں کے رہبر کو مذاکرات کیلئے بلا کر انتہائی بے دردی سے شہید کیا گیا، جن کے گھروں کو تہس نہس کیا گیا، جن کی بیٹیوں کو کنیزی میں لیا گیا، جن کے اموال کو جلا دیا گیا، جن کی عزتوں کو پائمال کیا گیا، ان کو آپ پر کیسے اعتماد ہوگا۔ یہ لوگ تو آپ کا سفاک چہرہ ماضی میں اور پھر شام و عراق میں دیکھ چکے ہیں، ان کیلئے تو مزاحمت ہی عزت کا راستہ ہے، جسے انہوں نے چن لیا ہے، ان کے سامنے اب عراق کی مثال ہے، ان کے سامنے شام کی مثال ہے، جہاں عوام مزاحمت سے ہی ملک و ریاست کو بچانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔افغانستان میں ایک بار پھر طالبان اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑتے نظر آرہے ہیں، کئی اضلاع میں داخل ہونے کے مناظر، عام لوگوں کیساتھ سرکاری فورسز کے لوگوں کو ہتھیار ڈالتے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرتے اپنے سفید جھنڈے جن پہ کلمہ لکھا گیا ہے، کو لہراتے فتوحات کے منظر سامنے لائے جا رہے ہیں۔ یہ فتوحات کے منظر دکھانا جنگوں میں پروپیگنڈا ویڈیوز اور میڈیا کا استعمال ہی تو ہے۔ ایسے ہی کچھ مناظر سرکاری افواج کی طرف سے بھی ایک ویڈیو میں دکھائے گئے ہیں کہ سینکڑوں طالبان اپنے ہتھیار ڈالتے اپنے پرچم کو رکھ کر افغانستان کا قومی پرچم اٹھاتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ تو جنگوں میں چلتا رہتا ہے، فتوحات کے دعوے اور دشمن کی شکست کے اعلانات دونوں اطراف سے جاری رہتے ہیں، اس لئے کہ جنگوں میں سچ چھپ جاتا ہے اور پروپیگنڈا سامنے آجاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ طالبان نے ملک کے بڑے حصے پر اپنا قبضہ کر لیا ہے اور وہ مسلسل آگے بڑھ بھی رہے ہیں۔ اب یہ خطرہ سب ہی محسوس کرنے لگے ہیں کہ ِافغانستان کی بگڑتی ہوئی صورتحال خانہ جنگی کا الارم ہے، جبکہ طالبان کا کہنا ہے کہ امریکہ کے پاس گھڑی ہے اور ہمارے پاس وقت ہے۔
طالبان کے پچھلے ایک ڈیڑھ ہفتہ میں پچاس اضلاع سمیت تاجکستان۔افغان بارڈر اور ضلع کرم سے متصل پاک۔افغان بارڈر پر قبضے سے اس بات میں اب وزن بھی پیدا ہوگیا ہے۔ طالبان نے مختلف افغان اضلاع کو روندتے ہوئے لگ بھگ چوبیس گھنٹوں میں چوبیس اضلاع پر قبضہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا اور جوز جان کے قچہ ضلع میں بھی افغان فورسز نے طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے، یوں جنرل رشید دوستم کا آبائی شہر بغیر گولی چلائے طالبان کے قبضے میں چلا گیا، اب یہ کوئی اتفاق تو نہی ہوسکتا۔ اس لئے کہ رشید دوستم وار لارڈ اور افغانستان کا ایک پرانا منجھا ہوا کھلاڑی ہے، مگر قطر اور طالبان کے ساتھ ایک مبینہ ڈیل کی وجہ سے تاجک اور ازبک علاقوں میں جہاں پہلے طالبان کا جانا ممکن نہیں تھا، اب طالبان کو ڈھیل دے دی گئی ہے اور بادغیث، کندوز اور تاجکستان کی سرحدی چوکی تک طالبان نہایت آسانی سے قبضہ کرتے جا رہے ہیں اور لوگ جوق در جوق طالبان کی صفوں میں شامل ہو رہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق بعض قبائلی سرداروں اور صوبوں کے گورنر بھی طالبان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور خرید و فروخت کے معاملات قطر میں طے پائے ہیں۔ اب جبکہ طالبان کا تقریباً آدھے افغانستان پر کنٹرول ہے، یہ علاقے طالبان نے لڑتے ہوئے اور اضلاع کو روندتے ہوئے قبضہ میں لئے ہیں۔ ادھر طالبان ترجمان سہیل شاہین امریکہ کو دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دے رہے ہیں، طالبان نے پاکستان اور ترکی کو خمیازہ بھگتنے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ مسلمان ممالک کابل ہوائی اڈے یا دوسری کسی ڈیل سے دور رہیں اور ہمارے (طالبان) کے ساتھ مل کر افغانستان میں اسلامی حکومت کے قیام میں مدد کریں۔ یاد رہے کہ چند دن قبل یہ خبر میڈیا پر نشر ہوئی تھی کہ امریکہ نے کابل ایئر پورٹ کی سکیورٹی کا ٹھیکہ ترکی کو دیا ہے، جبکہ ترکی نے اس معاملے میں پاکستان سے مدد لینے کا کہا تھا۔
صورتحال کی اس سنگینی میں افغانستان کی موجودہ سرکار جس میں صدر عبدالغنی اور عبد اللہ عبد اللہ بھی شامل ہیں، دو روز سے امریکہ کے دورے پر پہنچے ہیں، جہاں وہ اعلیٰ امریکی عہدیداران سمیت صدر امریکہ جو بائیڈن سے ملے ہیں۔ وہ افغانستان کے مستقبل کے بارے میں ملاقاتیں بھی کر رہے ہیں۔ ان ملاقاتوں کا نتیجہ کیا نکلتا ہے، یہ تو جلد ہی سامنے آجائے گا، مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ فیصلے میدان میں ہی ہونگے اور میدان اس وقت طالبان کے ہاتھ میں جا چکا ہے، بیس سال تک امریکہ افغانستان میں اپنے دو ہزار سے زیادہ فوجی مروا کر اور اتنا بھاری مالی نقصان کرکے اگر بھاگ رہا ہے تو اسے یہ سمجھ آچکی ہے کہ اب مزید نقصان نہیں کروانا، ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ سب امریکہ کی اپنی پلاننگ کا حصہ ہے کہ افغانستان کو آگ و خون کی وادی میں دھکیل کر خود باہر ہو جائے، اس مقصد کیلئے اس نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی اور طالبان سے مذاکرات کا ڈرامہ رچایا۔
انہیں قطر میں دفتر کی اجازت دی، ان کے اہم ترین افراد سے پابندیاں اٹھائیں اور انہیں دنیا بھر میں گھومنے کا اجازت نامہ دیا۔ اس دوران طالبان نے بھرپور سفارت کاری سے روس، ترکی، چین، ایران، پاکستان، ہندوستان سے اچھے تعلقات بنا لئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ افغانستان میں امریکہ کی ایک اتحادی حکومت کے ہوتے ہوئے قطر میں طالبان کے دفتر کو ان کے سفارت خانہ کی حیثیت دی گئی تھی، اسی طرح امریکہ نے دوحہ مذاکرات اور ڈیل کے نتیجہ میں ہزاروں طالبان کو جیلوں سے رہا کروایا اور ان کے حوصلوں کو تقویت بخشی، اب بھی جب طالبان مختلف اضلاع میں وارد ہو رہے ہیں تو ان کا ٹارگٹ نہ امریکی بیس ہیں نہ امریکی فوجی قافلے یا مراکز۔ جس سے واضح پیغام ملتا ہے کہ امریکہ کو طالبان کی موجودہ پیش رفت کی مکمل مدد و حمایت حاصل ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ افغانستان کی سیاسی قیادت کو اپنے پاس بلا کر کیا نسخہ کیمیا دیتا ہے۔
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے بھی ایک انٹرویو میں طالبان کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں پر کہا ہے کہ اگر طالبان نے کابل پر قبضہ کر لیا تو ہم اپنی سرحدیں بند کر دیں گے اور افغانستان میں صرف منتخب حکومت جسے عوام کی حمایت حاصل ہوگی، کو ہی تسلیم کریں گے یاد رہے کہ ماضی میں جب طالبان کابل پر 1995ء میں قابض ہوئے تھے تو سب سے پہلے پاکستان نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا تھا، جس نے پختونوں کے علاوہ دیگر اکائیوں کے خلاف مظالم کی ایک نئی تاریخ لکھی تھی، جسے اہل مزار شریف، بامیان، بلخ اور شمالی علاقوں کے عوام کبھی نہیں بھلا پائیں گے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اب کی بار ایک طرف تو طالبان جن علاقوں میں پیش رفت کر رہے ہیں، وہاں عوام کو اپنا بظاہر اچھا طرز عمل دکھا رہے ہیں اور سرکاری افواج کے اہلکاروں کو ہتھیار ڈالنے پر عام معافی دے رہے ہیں، جبکہ اس کے باوجود بہت سے علاقوں میں عوامی سطح پر لشکر تشکیل پا رہے ہیں اور طالبان سے مقابلے اپنے شہر ان کے حوالے نہ دینے کیلئے جنگی حکمت عملی ترتیب دی جا رہی ہے، بلکہ تخار، بلخ، مزار شریف اور دیگر ایریاز میں طالبان کو مزاحمت کے ذریعے بھاگنے پر مجبور کر دیا گیا۔
ان ایریاز میں سب سے زیادہ اہل تشیع کی آبادیاں ہیں، جو ہزارہ قبائل پر مشتمل ہیں، کچھ عرصہ پہلے انہی ہزارہ قبائل نے داعش کے پے در پے حملوں سے تنگ آکر ہتھیار اٹھا لئے تھے تو موجودہ عبد الغنی حکومت نے ان پر امریکی جہازوں کے ذریعے بمبارمنٹ کی تھی اور ہتھیار اٹھانے والے کمانڈرز کو گرفتار کیا تھا، آج یہی کمانڈرز اور عوام افغانستان کی عزت، حمیت اور غیرت کی علامت کے طور پر دیکھے جا رہے ہیں اور صدر غنی اپنے آقا امریکہ کی گود میں جا بیٹھا ہے، دیکھیں اسے وہاں سے کیا ہڈی ملتی ہے۔ طالبان اگرچہ بار بار اعلان کر رہے ہیں کہ اہل تشیع سمیت سب افغان ہیں اور شیعہ علاقوں میں شیعوں کو ہی کمان دی جائیگی اور سب کی جان و مال محفوط ہوگا، مگر جن لوگوں کے رہبر کو مذاکرات کیلئے بلا کر انتہائی بے دردی سے شہید کیا گیا، جن کے گھروں کو تہس نہس کیا گیا، جن کی بیٹیوں کو کنیزی میں لیا گیا، جن کے اموال کو جلا دیا گیا، جن کی عزتوں کو پائمال کیا گیا، ان کو آپ پر کیسے اعتماد ہوگا۔ یہ لوگ تو آپ کا سفاک چہرہ ماضی میں اور پھر شام و عراق میں دیکھ چکے ہیں، ان کیلئے تو مزاحمت ہی عزت کا راستہ ہے، جسے انہوں نے چن لیا ہے، ان کے سامنے اب عراق کی مثال ہے، ان کے سامنے شام کی مثال ہے، جہاں عوام مزاحمت سے ہی ملک و ریاست کو بچانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
تحریر: ارشاد حسین ناصر
خواہشات کا علاج
انسانی خو اہشات اس کیلئے جس مقدار میں مفید ہیں اس کے مطا بق انکے اندر قدرت اور طاقت بھی پا ئی جاتی ہے چنانچہ اگر یہ غلط راستے پر لگ جائیں تو پھر یہ اپنی طاقت کے اعتبار سے ہی انسانی زندگی کو تہہ وبالا کر کے رکھ دیتی ہیں ۔۔۔انسانی نفس کے اندر اسکے یہ دونوں (مثبت اورمفید منفی اورمضر )پہلو بالکل طے شدہ ہیں اور اس میں کسی شک وشبہ کی گنجا ئش نہیں ہے کیونکہ خواہشات ہی دراصل انسان کی زندگی کے پہیوںکو گردش دینے والی قوت ہیں اور اگر خداوندعالم نے انسان کے
نفس میں جنسیات ،مال ،خود ی (حب ذات )،کھا نے پینے اور اپنے دفاع کی محبت نہ رکھی ہوتی تو قافلۂ انسانی ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتاتھا ۔لہٰذا خواہشات کے اندر جتنے فا ئد ے ہیں انکے اندر اتنی ہی طاقت موجود ہے اور انکے اندر جتنی طاقت پائی جاتی ہے انکے بہک جانے کی صورت میں انکے نقصانات بھی اسی کے مطابق ہونگے جیسا کہ مولا ئے کا ئنات نے ارشاد فرمایا ہے:
(الغضب مفسد للالباب ومبعد عن الصواب )( ۱ )
''غصہ عقلوں کو برباد اور راہ حق سے دور کر دینے والی چیز ہے ''
آپ نے یہ بھی فرما یا ہے :
(أکثرمصارع العقول تحت بریق المطامع )( ۲ )
''عقلوں کی اکثر قتل گاہیں طمع کی جگہوںکی چمک دمک کے آس پاس ہیں''
خواہشات کی پیروی پر روک اور انکی آزادی کے درمیان
یہی وجہ ہے کہ خواہشات کو ایکدم کچل کر رکھ دینا بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ خواہش انسانی زندگی کیلئے ایک مفید طاقت ہے جس کے سہار ے کا روان حیات انسانی رواں دواںہے اور اس کو معطل اور نا کارہ بنا دینا یا اسکی مذمت کرنا اور اسکی اہمیت کا اعتراف نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی شخصیت کے ایک بڑے حصہ کا انکار کردیا جائے اور اسکو نقل و حرکت میں رکھنے والی اصل طاقت کو نا کار ہ قرار دیدیا جائے ۔
اسی طرح خواہشات اور ہوس کی لگام کو بالکل ڈھیلا چھوڑ دینا اور انکے ہر مطالبہ کی تکمیل کرنا اور ان کی ہر بات میںہاں سے ہاں ملا نا بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ اگر ان کی رسی ڈھیلی چھو ڑدی جائے تو
____________________
(۱)غرر الحکم ج۱ص۶۷ ۔
(۲)غررالحکم ج۱ص۱۹۸۔
یہ فائد ہ مند ہو نے کے بجائے انسان کیلئے مضر بن جاتے ہیں ۔
لہٰذا ہمیں یہ اعتراف کر نا پڑیگا کہ شرعی اعتبار سے خواہشات کی محدود تکمیل کی بہت اہمیت ہے اور جس طرح انکو بالکل آزاد چھوڑ دینا صحیح نہیں ہے اسی طرح ہر بات میں انکی تکمیل بھی صحیح نہیں ہے ۔
اسی معیار پر اسلام نے خواہشات کے بارے میں اپنے احکام بنائے ہیں یعنی پہلے وہ خواہشات کو انسان کیلئے ضروری سمجھتا ہے اور اسے فضول چیز قرار نہیں دیتا جیسا کہ قرآن کریم میں پروردگار عالم کاارشاد ہے :
( زُیّن للناسِ حبُّ الشهواتِ من النسائِ والبنینَ والقناطیرِالمقنطرةِمن الذهبِ والفضة ِوالخیلِ المسوّمةِ والأنعام والحرثِ ) ( ۱ )
''لوگوں کے لئے خواہشات دنیا ،عورتیں،اولاد،سونے چاندی کے ڈھیر،تندرست گھوڑے یا چوپائے کھیتیاںسب مزین اور آراستہ کردی گئیں ہیں ''
دوسری آیت میں ارشاد ہے :
(ا( ٔلمالُ والبنونَ زینة الحیاةِ الدنیا ) ( ۲ )
''مال اور اولاد، زندگانی دنیا کی زنیت ہیں ''
ان آیات میں نہ صرف یہ کہ خواہشات کی مذمت نہیں ہے بلکہ اسکو زینت اور جمال زندگانی قرار دیا گیاہے اور اسی اہم نکتہ سے خواہشات کے بار ے میں اسلام کا واضح نظر یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے ۔
دوسر ے مرحلہ پر اس نے ہمیں اپنی خواہشات کو پورا کر نے اور دنیاوی لذتوں سے بہرہ مند ہونے کا حکم دیا ہے :
____________________
(۱)آل عمر ان آیت۱۴۔
(۲) سورئہ کہف آیت۴۶ ۔
( کلوا من طیبات مارزقناکم ) ( ۱ )
''تم ہمارے پاکیزہ رزق کو کھائو ''
یایہ ارشاد الٰہی ہے :
( ولا تنس نصیبک من الدنیا ) ( ۲ )
''اور دنیا میں اپنا حصہ بھول نہ جائو''
اور اسی طرح یہ بھی ارشاد ہے :
( قل من حرّم زینة ﷲ التی أخرج لعبادهِ والطیبات من الرزق ) ( ۳ )
''پیغمبر آپ ان سے پوچھئے کہ کس نے اس زینت کو جس کو خدا نے اپنے بندوں کیلئے پیدا کیا ہے اور پاکیزہ رزق کو حرام کردیا ہے''
خواہشات کے بارے میں اسلام نے یہ دوسرا نظریہ پیش کیا ہے جس کے اندر نہ اپنی خواہشات کی تکمیل کی کھلی چھوٹ ہے کہ جس کا جس طرح دل چاہے وہ اپنی خواہشات کی پیاس بجھاتا رہے اور کسی قاعد ہ وقانون کے بغیر سر جھکا کر انھیں کے پیچھے چلتا رہے ۔
امام جعفر صادق نے فرما یا ہے :
(لاتدع النفس وهواها فن هواها رداها )( ۴ )
''اپنے نفس کو اسکے خواہشات کے اوپر نہ چھو ڑدو کیونکہ اسکے خواہشات میں اسکی پستی اور
____________________
(۱)سورئہ طہ آیت۸۱ ۔
(۲)سورئہ قصص آیت۷۷ ۔
(۳)سورئہ اعراف آیت ۳۲ ۔
(۴)اصول کافی ج۲ص۳۳۶۔
ذلت ہے ''
ان تمام پا بند یوں اور سختیوں کے باوجود اسلام نے انسانی خواہشات کی تسلی کیلئے ایک نظام بنا کر خود بھی اس کے بیحد موا قع فراہم کئے ہیں جیسے اسلام نے جنسیات کو حرام قرار نہیں دیا ہے اور نہ اس سے منع کیا ہے اور نہ ہی اسے کوئی بر ایا پست کام کہا ہے بلکہ خود اسکی طرف رغبت دلا ئی ہے اور اسکی تاکید کی ہے البتہ اسکے لئے کچھ شرعی قواعد و ضوابط بھی بنائے ہیں اسی طرح مال سے محبت کرنے کونہ اسلام منع کر تاہے اور نہ اسے بر اکہتا ہے بلکہ یہ تمام انسانو ں کیلئے مباح ہے البتہ اسکے لئے بھی کچھ قو اعد وقوانین مرتب کردئے گئے ہیں تا کہ مالی یا جنسی خواہشات وغیرہ کی تسلی کیلئے ہر شخص کے سامنے مواقع موجود رہیں اور کوئی شخص بھی بے راہ رو ی کا شکار نہ ہو نے پا ئے یہ خواہشات کے بارے میں اسلامی نظر یہ کا تیسر ا نکتہ ہے۔
ونزوئلا کے صدر کی ایران کے نو منتخب صدر سید ابراہیم رئیسی سے ٹیلیفون پر گفتگو
ونزوئلا کے صدرنکلس میڈورو نے اپنے ٹوئیٹر پیج پراعلان کیا ہے کہ انھوں نے ایران کے نو منتخب صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی کے ساتھ ٹیلیفون پر دوطرفہ اور عالمی مسائل کے بارے میں تبادلہ خیال کیا ہے۔ ونزوئلا کے صدر نے ٹوئیٹر پر کہا ہے کہ میں نے ایران کے نئے صدر سید ابراہیم رئیسی کے ساتھ ٹیلیفون پر گفتگو کی۔ ونزوئلا کے صدر نے کہا کہ ہم نے دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعاون کو مزید فروغ دینے پر اتفاق کیا ہے انھوں نے کہا کہ ہم نے سامراجی طاقتوں کے خلاف مشترکہ جد و جہد جاری رکھنے پر بھی اتفاق کیا ہے۔ ونزئلا کے صدر نے اس سے قبل اپنے ایک ٹوئیٹر پیغام میں ایران کے نئے صدر کو مبارکباد بھی پیش کی تھی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی آئندہ دنوں میں ایران کی تیار کردہ کورونا ویکسین لگوائیں گے
اکیڈمی آف میڈیکل سائنسز کے سربراہ ڈاکٹر مرندی نے آئندہ دنوں میں رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کو ایرانی کورونا ویکسین کا پہلا ٹیکہ لگانے کا اعلان کیا ہے۔
اکیڈمی آف میڈیکل سائنسز کے سربراہ نے کہا کہ رہبر معظم انقلاب اسلامی نےکورونا وائرس سے بچاؤ کے سلسلے میں ویکسین لگانے کے لئے دو شرطیں رکھی تھیں، پہلی شرط یہ تھی کہ باری آنے پر انھیں ویکسین لگائي جائے اور دوسری شرط یہ تھی کہ وہ ایران کی تیار کردہ ویکسین لگوائیں گے۔
ڈاکٹر علی رضا مرندی نے مزید کہا کہ کورونا وائرس کی ایرانی ویکسین کوو ایران برکت کے استعمال کی منظوری وزارت صحت سے مل چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ رہبرمعظم انقلاب کی ایرانی ویکسین لگوانے پر خاص تاکید ہے، یہ ویکسین ایران کے نوجوان سائنسدانوں کی محنتوں کا نتیجہ ہے ۔ انھوں نے کہا کہ گذشتہ دو ماہ میں 80 سال سے زائد عمر کے افراد کو کوروناو یکسین لگائی جاچکی ہے اور رہبر معظم انقلاب اسلامی آئندہ دنوں میں ایران کی تیار کردہ کوو برکت ویکسین لگوائیں گے واضح رہے کہ روس، امریکہ ، چين ، ہندوستان اور برطانیہ کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران دنیا کا چھٹا اور مغربی ایشیا کا پہلا ملک ہے جس نے کورونا وائرس کی ویکسین بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
خاشقجی کے قاتلوں نے امریکہ میں فوجی ٹریننگ حاصل کی تھی
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اپنی ایک رپورٹ میں فاش کیا ہے کہ ترکی کے شہر استنبول میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کے بہیمانہ قتل میں ملوث سعودی اہلکاروں نے امریکہ میں فوجی تربیت حاصل کی تھی۔ جمال خاشقجی کو سعودی عرب کے ولیعہد محمد بن سلمان کے حکم پر 2018 میں ترکی کے شہر استنبول میں سعودی قونصلخانہ میں بہیمانہ طور پر قتل کردیا گیا تھا اور اس کی لاش کو ابھی تک اس کے ورثاء کے حوالے نہیں کیا گیا۔ سعودی عرب کے اہلکاروں نے خاشقجی کو قتل کرنے سے ایک سال قبل امریکہ میں فوجی تربیت حاصل کی تھی۔ امریکی خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹ کے مطابق خاشقجی کے قتل کا حکم سعودی عرب کے ولیعہد محمد بن سلمان نے دیا تھا۔ امریکہ نے ہمیشہ اسرائيل اور سعودی عرب کے سنگین جرائم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی اور کوشش کررہا ہے۔