سلیمانی

سلیمانی

ایکنا نیوز، اسلام میں مسجد ایک عبادت گاہ اور اجتماعی مقام کے عنوان سے انتہائی اہمیت کی حامل جگہ شمار ہوتی ہے جہاں اہل فن کوشش کرتے ہیں کہ اس مکان میں اپنے آرٹ کی نمائش پیش کرسکے لہذا قسم قسم کی تزئین  و آرائش کا جلوہ یہاں نظر آتا ہے۔

جنوب مشرقی ممالک میں مساجد میں اسلامی فن معماری اور ہندی طرز معماری کی امتزاج نمایاں ہیں اور انڈونیشیاء اور ملایشیاء میں کافی مساجد اس کی گواہ ہیں۔

ملایشیاء کے شہر ملاکا کی مسجد تنگه ملاکا (Malacca Straits Mosque) مذہبی طرز تعمیر کی شاہکار مسجد سمجھی جاتی ہے جو عبادت کے علاوہ تفریحی حوالے سے سیاحوں کے لیے پرکشش جگہ بھی ہے۔

یہ مسجد مصنوعی جزیرہ ملاکا میں واقع ہے جو 24 نومبر 2006 کو ملایشیاء کے بادشاہ «یانگ دی‌پرتوان آگونگ» کے ہاتھوں افتتاح کیا گیا. اس مسجد پر ۱۰ میلین رینگیٹ (۲,۲۴۶ ملین ڈالر) لاگت آئی تھی، یہ مسجد تیرتی مسجد ہے۔

اس مسجد کو گھریلو دست کاریوں سے تزئین کی گیی ہے جو میڈل ایسٹ اور مالائی ثقافت کی امتزاج کی نمونہ ہے اور جب پانی زیادہ ہوتا ہے تو مسجد تیرتی نظر آتی ہے۔

اس مسجد میں دو کمرے ہیں جہاں رنگ برنگے شیشوں سے تعمیر شدہ ہے اور مسجد کے صحن میں ایک مینار ہے جو تیس میٹر بلند ہے جس کو سمندری فانوس کا درجہ حاصل ہے۔/

 

 

4072930

 
 

ایکنا نیوز کے مطابق نجف اشرف کے گورنر ماجد الوائلی نے چہلم امام کے حوالے سے منعقدہ خصوصی اجلاس کی صدارت کی۔

 

اجلاس میں نائب گورنر، پولیس سربراہ، آستانہ علوی کے نمایندے، مسجد کوفہ ترجمان اور اعلی سیکورٹی افیسر شریک تھے جہاں انتظامات کا جایزہ لیا گیا۔

 

گورنر نجف کا کہنا تھا: سیکورٹی پروگرام میں خصوصی دستوں کو اہم مقامات پر متعین کرنے اور پیدل روی میں شریک زائروں کی حفاظت یقینی بنانے پر غور کیا گیا۔

 

الوائلی کا کہنا تھا: کورنا بحران کے خاتمے پر اس سال بڑی تعداد میں زائرین کی شرکت متوقع ہے اور تخمینہ لگایا جاتا ہے کہ بیس ملین یعنی دو کروڈ افراد اربعین میں حاضر ہوں گے اور اس میں ساٹھ فیصد لوگ نجف سے ہوسکتے ہیں۔

 

میسان صوبہ کے اعلی سیکورٹی افیسر جنرل محمد جاسم الزبیدی کے مطابق اربعین کے لئے خصوصی انتظامات مکمل ہوچکے ہیں۔

 

الزبیدی کا ایک ویڈیو پیغام میں کہنا تھا: سیکورٹی پروگرام میں فوج، پولیس اور تمام انٹلی جنس اداروں کے افراد شامل ہیں۔

 

صوبہ میسان جنوب مشرقی عراق میں ایرانی سرحد کے قریب واقع ہے. اس صوبے کا مرکز اماره ہے کو چھ ڈسٹرکٹ پر مشتمل ہے۔

صیہونی حکومت نے 2009 سے لے کر اب تک فلسطینیوں کی تقریباً 9 ہزار عمارتوں اور انفراسٹرکچر کو مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے۔

اقوام متحدہ کے انسانی امور کے رابطہ کے دفتر (OCHA) نے ہفتے کی رات اپنی ایک رپورٹ میں اعلان کیا کہ اسرائیلی فوج نے 8,746 فلسطینی عمارتوں کو تباہ اور 13,000 شہریوں کو بے گھر کیا اور 152,000 کو بے گھر کر دیا۔ 

اس رپورٹ کے مطابق مکانات اور انفراسٹرکچر کی تباہی سے 1559 مکانات اور دیگر عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے۔

تباہ ہونے والی عمارتوں میں رہائشی، انفراسٹرکچر، سروس یا کاروباری گھر شامل ہیں جنہیں مکینوں نے براہ راست تباہ کیا یا ان کے مالکان انہیں تباہ کرنے پر مجبور ہوئے۔

ان میں سے اکثر صورتوں میں عمارت کی تباہی کی وجہ اسرائیل کی طرف سے اجازت نامے کا نہ ہونا ہے جس کی وجہ سے فلسطینیوں کے لیے ایسا اجازت نامہ حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہے۔

فلسطینیوں کے گھروں کو تباہ کرنے کی پالیسی 1948 سے اسرائیل کی منصوبہ بند پالیسیوں میں سے ایک ہے اور اس تاریخ سے اب تک 500 سے زائد فلسطینی دیہات اور بستیاں تباہ ہو چکی ہیں
.taghribnews

ایرانی محکمہ خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے سماجی رابطے کی سائٹ انسٹاگرام پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ ۳ ستمبر استعمار سے مقابلے کا دن اور مجاہد، شجاع اور جارح استعماری طاقتوں سے مقابلے کی علامت شہید رئیس علی دلواری کی شخصیت کی یاد دلاتا ہے۔ 

انہوں نے مزید لکھا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت اور عوام ملک کی خودمختاری، عزت اور کرامت کی راہ کے شہدا کے خون کی برکت سے استعمار کے وارثوں کے زور و زبردستی کے سامنے ڈٹے رہیں گے اور اپنے جائز حقوق سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رہبر انقلاب اسلامی نے 3 ستمبر 2022 کو اہلبیت علیہم السلام ورلڈ اسمبلی کے ارکان اور اس اسمبلی کے ساتویں اجلاس کے شرکاء سے ملاقات کی۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے شرکاء سے اپنے خطاب میں عالم اسلام میں اہلبیت کی عظمت و عقیدت کو بے نظیر بتایا اور زور دے کر کہا: آج اسلامی معاشروں کو تمام میدانوں میں اہلبیت علیہم السلام کی تعلیمات کی اشد ضرورت ہے چنانچہ اہلبیت ورلڈ اسمبلی کو چاہئے کہ صحیح پروگرام تیار کرکے اور منطقی اور مؤثر وسائل سے استفادہ کر کے، اس سنگین ذمہ داری کو ادا کرے۔

رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ اہلبیت علیہم السلام کے پیروکاروں کو یکجہتی اور تعاون کا علمبردار ہونا چاہیے، انہو نے کہا کہ جیسا کہ ہم نے پہلے دن سے کہا ہے، اہلبیت علیہم السلام ورلڈ اسمبلی، غیر شیعوں سے مقابلے اور دشمنی کے لئے ہرگز نہیں ہے اور ابتدا سے ہی ہم نے غیر شیعہ برادران کا، جو صحیح راستے پر بڑھ رہے ہیں، ساتھ دیا ہے. 

آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای کے مطابق عالم اسلام میں فاصلوں اور تقسیم کرنے والے خطوط کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا سامراج کی موجودہ سازش ہے آپ نے کہا: شیعہ اور سنی، عرب اور عجم، شیعہ کے ساتھ شیعہ اور سنی کے ساتھ سنی کی جنگ کے لیے سازشیں تیار کرنا اور انھیں ایک دوسرے کے خلاف مشتعل کرنا بڑے شیطان یعنی امریکا کی چال ہے جو بعض ملکوں میں دیکھی جا رہی ہے جس سے ہوشیار رہنا چاہیے۔

انھوں نے عالمی سامراج کے مقابلے میں اسلامی جمہوری نظام کے لہراتے پرچم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اہلبیت علیہم السلام کے پیروکاروں اور شیعوں کو یہ فخر حاصل ہے کہ اسلامی نظام، تسلط پسندانہ نظام کے سات سروں والے اژدہا (ڈریگن) کے مقابلے میں سینہ تان کر کھڑا ہے اور خود سامراجی طاقتیں اس بات کا اعتراف کرتی ہیں کہ ان کی بہت سی سازشیں کو اسلامی جمہوریہ نے شکست سے دوچار کر دیا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ اسلامی جمہوریہ کے استحکام کا راز اہلبیت علیہم السلام کی تعلیمات کی پیروی ہے۔ آپ نے کہا: ان درخشاں ستاروں نے اپنی فکری اور عملی تعلیمات سے ہمیں سکھایا ہے کہ کس طرح قرآن مجید پر غور و فکر اور عمل کے ذریعے، اسلام عزیز کے راستے پر چلا جائے۔

انھوں نے اسلامی جمہوریہ کے پرچم کو انصاف و روحانیت کا پرچم بتایا اور کہا: واضح سی بات ہے کہ سامراجی دنیا، جس کے تمام افکار و اعمال ظلم و زیادتی اور مادہ پرستی و دولت پرستی پر مبنی ہیں، اس پرچم سے ٹکراؤ اور دشمنی کے لیے اٹھ کھڑی ہوگئی۔

آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے امریکا کو استکباری اور سامراجی خیمے کا سرغنہ بتایا اور کہا: امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن سے الہام حاصل کر کے سبھی کو سکھایا کہ اسلامی معاشروں کے درمیان فاصلہ پیدا کرنے والی لائنوں کو کنارے کر دیں اور فاصلے کی صرف ایک لائن کو قبول کریں جو عالم اسلام اور کفر و سامراج کے درمیان حدبندی کی لائن ہے۔

آپ نے کہا: اسی گہرے عقیدے کی بنیاد پر، بالکل ابتدائي دنوں سے فلسطین کی حمایت، اسلامی انقلاب کے ایجنڈے میں شامل ہو گئي اور امام خمینی نے پورے وجود سے فلسطین کا ساتھ دیا اور اسلامی جمہوریہ ایران آج بھی عظیم الشان امام خمینی کے ذریعے طے پانے والے خطوط پر گامزن ہے اور مستقبل میں بھی فلسطین کے ساتھ رہے گا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ ایرانی قوم سے پورے عالم اسلام کی تمام اقوام کی یکجہتی کا سبب، امام خمینی کی حکمت عملی یعنی عالم اسلام میں مذہبی، فرقہ وارانہ اور نسل پرستانہ خطوط کی ایرانی قوم کی طرف سے نفی کرنا ہے۔ انھوں نے کہا: اسی بنیاد پر ہم نے ہمیشہ اسلامی ممالک کو شیعہ اور سنی، عرب اور عجم اور اسی طرح کے دوسرے فاصلہ پیدا کرنے والے خطوط کو نظر انداز کرنے اور اصولوں اور بنیادی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی دعوت دی ہے۔

انھوں نے دیگر اقوام کو منہ زوری کے مقابلے میں استقامت کی ترغیب دلانے کو، تسلط پسندانہ نظام کی ناراضگی اور دشمنی کی ایک اور وجہ بتایا اور کہا: مختلف ملکوں میں امریکا کی مجرمانہ سازشوں کو ناکام بنانا، جس کا ایک نمونہ (دہشت گرد گروہ) داعش تھا، ایرانوفوبیا اور شیعہ فوبیا کے زہریلے پروپیگنڈوں اور ایران پر دیگر ملکوں میں مداخلت کا الزام عائد کیے جانے کا سبب بنا ہے۔

آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اسلامی جمہوریہ ایران، دوسرے ممالک میں مداخلت نہیں کر رہا ہے، کہا کہ تسلط پسند طاقتوں کی یہ الزام تراشی اسلامی نظام کی حیرت انگیز پیشرفت کے مقابلے میں ان کی بے بسی کا نتیجہ ہے لیکن سبھی کو سامراج کی ان چالوں سے ہوشیار رہنا چاہیے اور اس کا ساتھ نہیں دینا چاہیے۔

انھوں نے عالم اسلام کی فکری اور عملی گنجائشوں کا حوالہ دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ عالم اسلام کے پاس دشمنوں سے مقابلہ کرنے کی بھرپور توانائی موجود ہے۔

آپ نے کہا کہ حقائق اور اسلامی تعلیمات، اللہ پر توکل، تاریخ پر پرامید نظر اور مہدویت کا عقیدہ، عالم اسلام کی فکری توانائياں ہیں. 

رہبر انقلاب اسلامی نے مغرب اور لبرل ڈیموکریسی کے نظام کے فکری تعطل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: البتہ عملی میدان میں سامراجی طاقتوں نے، مختلف حیلوں سے عالم اسلام کے ذخائر سے استفادہ کر کے اور طرح طرح کے ہتھکنڈے اختیار کر کے اپنے آپ کو مضبوط بنا لیا ہے لیکن پیشرفت کے لیے عالم اسلام کے قدرتی وسائل بہت زیادہ ہیں جن میں سے ایک یعنی تیل اور گیس کی اہمیت آج سب کے لیے پوری طرح واضح ہو چکی ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ عالم اسلام کا مستقبل بہت روشن ہے اور شیعہ مکتب اس میں بہت اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

اس ملاقات کے آغاز میں اہلبیت علیہم السلام ورلڈ اسمبلی کے سیکریٹری جنرل حجۃ الاسلام و المسلمین رمضانی نے 117 ملکوں کی اہم شخصیات کی شرکت سے منعقد ہونے والے اس اسمبلی کے ساتویں اجلاس کے بارے میں ایک رپورٹ پیش کی جو "اہلبیت، عقلانیت، انصاف اور وقار کے محور" کے عنوان سے منعقد ہوا۔

عزاداری اور شیطانی وسوسہ!

ہمیں اور آپکو اپنی گفتگو میں بالخصوص محرم اور صفر کے ان مہینوں میں کہ جو اسلامی برکتوں اور اسکی بقاء کے مہینے ہیں،چاہیے کہ محرم کو صفر کو مصائب اہل بیت کے ذریعے زندہ رکھیں۔مصائبِ اہل بیت کے ذکر کے دم ہی سے یہ مذہب آج تک زندہ ہے ،اسی روایتی مرثیہ خوانی و نوحہ خوانی کے ساتھ۔ممکن ہے کہ شیطان آپکے ذہن میں یہ وسوسہ ڈالے کہ ہم نے انقلاب برپا کیا،اب ہمیں انقلاب کے ہی مسائل پہ بات کرنی چاہیے اور جو مسائل ماضی کا حصہ تھے اب انہیں نظر انداز کردینا چاہیے۔نہیں!

 

 

 

عزاداری ،عوام اور خواص کا کردار!

ہمیں ان اسلامی روایات کا محافظ،ان مبارک اسلامی شعار کا محافظ ہونا چاہیے جو عاشوراء،محرم و صفر کے دوران انجام پاتے ہیں اور اسکے ساتھ ساتھ اس پہ عمل پیرا ہونے کی تاکید بھی کرنی چاہیے۔یہ محرم و صفر ہیں کہ جہنوں نے اسلام کو برقرار رکھا ہے۔یہ سید الشہداء کی قربانی ہے کہ جس نے ہمارے لئے اسلام کو زندہ رکھا ہے۔خطیب حضرات کی طرف سے عاشوراء کو اسی روایتی حیثیت کے ساتھ زندہ رکھنا،عوام الناس کی جانب سے اسی سابقہ انداز میں زندہ رکھا جانا کہ جس میں منظم انداز میں ماتمی جلوس اور دستے عزاداری برپا کرتے تھے۔

 

 

روایتی انداز سے عزاداری کا بچاؤ!

یہ جان لیں کہ اگر عزاداری کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں تو ان روایتوں کو محفوظ رکھنا ہوگا۔البتہ ماضی میں اگر نامناسب طریقے رائج تھے اور عزاداری اسلام سے ناواقف افراد کے ہاتھوں میں رہی ہو تو اسے درست کرنے کی ضرورت ہے۔لیکن اس سے ہٹ کر عزاداری کو اسی قوت کے ساتھ باقی رہنا چاہیے اور حالات حاضرہ بتانے کے بعد نوحہ خوانی اور مرثیہ خوانی اسی سابقہ انداز میں ہونی چاہیے اور عوام کو فداکاری کے لئے تیار کرنا چاہیے۔

 

 

 

 

عہد بصیرت

 ایران کے صوبہ مغربی آذربائیجان میں تبلیغاتِ اسلامی کے سرپرست حجۃ الاسلام منصور امامی نے ارومیہ کی مسجد "حاجی خان" میں مذہبی تنظیموں کی تعظیم و خراجِ تحسین پیش کرنے کے سلسلہ میں منعقدہ ایک تقریب میں خاطب کرتے ہوئے کہا: ارومیہ کے لوگوں نے "یوم العباس" نامی مراسم میں یہ واضح کیا کہ اتحاد و وحدت کے ساتھ ہی انتہائی اچھے اور مطلوبہ نتائج حاصل ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا: ایامِ محرم میں ارومیہ شہر کے اندر 400 اور اسی طرح پورے صوبے میں 1455 مذہبی ہیئتوں اور مختلف ماتمی و عزاداری سنگتوں نے عزاداریٔ امام حسین علیہ السلام کا اہتمام کیا۔

مغربی آذربائیجان میں تبلیغاتِ اسلامی کے سرپرست نے کہا: ایامِ محرم الحرام میں 1200 سے زیادہ دینی مبلغین اور مبلغات دینی و تبلیغی خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔

حجۃ الاسلام امامی نے کہا: اربعین واک الہی معجزات میں سے ہے اور تحریک سید الشہداء علیہ السلام کی عظمت اور قدرت کو ظاہر کرتی ہے۔ اس منفرد اجتماع سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سید الشہداء علیہ السلام سے محبت دشمنانِ اسلام کے تمام مذموم پروپیگنڈوں سے دینِ حق کو محفوظ رکھنے کا باعث ہے۔

انہوں نے کہا: جو لوگ اربعین واک میں شرکت نہیں کر سکتے انہیں اربعین کی ترویج کے لیے کوشش کرنی چاہیے جیسا کہ اس سال بھی ایران کے دوسرے شہروں کی طرح ارومیہ میں بھی شہداء چوک سے مزار شہداء تک اربعین واک منعقد کی جائے گی۔

حجۃ الاسلام امامی نے مزید کہا: جس طرح ایک مومن کا وجود ایک شہر سے ہزاروں آفتوں کو دور کرتا ہے اسی طرح دینی تقاریب کا انعقاد بھی شہر میں برکات لانے اور آفات کو دور کرنے کا باعث ہوتا ہے۔

 ایرانی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ایران اور روس کے درمیان تعلقات صحیح راستے پر آگے بڑھ رہے ہیں۔

یہ بات حسین امیر عبدالہیان جنہوں نے اپنے روسی ہم منصب کی دعوت پر سرکاری دو طرفہ ملاقات کے لیے ماسکو کا دورہ کیا ہے، بدھ کے روز سرگئی لاوروف سے ملاقات اور گفتگو کرتے ہوئے کہی۔

انہوں نےایران اور روس کے دوطرفہ تعلقات کے صحیح راستے کا حوالہ دیتے ہوئے مختلف دوطرفہ تعلقات کو مزید فروغ دینے کے لیے مشترکہ کوششوں کے تسلسل کی ضرورت پر زور دیا۔

حسین امیر عبداللہیان نے اشک آباد اور تہران میں ایران اور روس کے صدور کے درمیان طے پانے والے معاہدوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت کو اہم قرار دیا۔

انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے تجارتی تعلقات پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اس حصے میں مسائل اور حائل رکاوٹوں کے دور کرنے کو دونوں ممالک کے درمیان تجارت کے حجم کی مضبوطی کا موقع قرار دیا۔

ایرانی وزیر خارجہ نے اس ملاقات کے دوران علاقائی اور بین الاقوامی مسائل بشمول یوکرین، افغانستان، شام، یمن، عراق، فلسطین اور جنوبی قفقاز کے مسائل پر بھی بات چیت کی۔

اس موقع پر روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے اشک آباد میں دونوں ممالک کے صدور کے درمیان ہونے والے معاہدوں کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے ان پر عمل درآمد کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت پر زور دیا۔.

انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ اور تجارتی تعلقات کی بہتری پر اپنے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ طے پانے والے معاہدوں اور دونوں ممالک کے تجارتی وفود کے تبادلے کے فروغ سے سب شعبوں میں باہمی تعلقات کے پہلے سے کہیں زیادہ فروغ دیکھیں گے۔

لاوروف نے جنوبی قفقاز میں ہونے والی پیش رفت کا ذکر کرتے ہوئے لاوروف نے ایرانی وزیر خارجہ کے بیانات کی تصدیق کے لیے جیوپولیٹیکل اور بین الاقوامی سرحدوں کو تبدیل نہ کرنے کے لیے روس کے عزم پر زور دیا۔

روسی وزیر خارجہ نے اپنے بیانات کے ایک اور حصے میں کہا کہ جیسا کا روس نے شنگھائی تعاون تنظیم مین ایران کی مکمل رکنیت کی حمایت کی ویسا بھی یوریشین اقتصادی یونین میں بھی ایران کی رکنیت کی حمایت کرے گا۔

 انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے مشترکہ اقتصادی کمیشن کے آئندہ اجلاس کو مختلف شعبوں میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو آسان بنانے اور ضروری دستاویزات پر تبادلہ خیال اور دستخط کرنے کا ایک اور موقع بھی سمجھا۔

روسی وزیر خارجہ نے پارلیمانی تعاون کی مضبوطی کیلیے اپنے ایرانی ہم منصب کی تجویز کا خیرمقدم کرتے ہوئے دستاویزات کی منظوری اور بنیادی شعبوں میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی توسیع کے لیے پارلیمنٹ کے کردار کو اہم قرار دیا۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبد اللہیان آج بروز بدھ روسی ہم منصب سرگئی لاوروف کی دعوت پر سرکاری دو طرفہ ملاقات کے لیے روسی دارالحکومت ماسکو روانہ ہوگئے۔

ن، ارنا -  ایران میں فلسطین کی اسلامی جہاد تحریک کے نمائندے نے ترکی اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جناب اردوغان کو ہمارا جواب وہی جواب ہے جنہوں نے خود متحدہ عرب امارات اور صہیونی کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے جواب میں دیا۔

یہ بات ناصر ابوشریف نے ارنا کے نمائندے کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہی۔

انہوں نے صہیونی حکومت کے بارے میں فلسطینی قوم کے واضح موقف کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس رجیم کا بیج مغربیوں کی جانب سے مغرب کی لامحدود حمایت اور فلسطینی عوام پر ہونے والے مظالم سے بویا گیا ہے۔ اور اس حکومت کی بنیاد فلسطین میں انسانیت کے خلاف جرائم پر قائم کی گئی ہے۔

فلسطینی اسلامی جہاد تحریک کے نمائندے نے ترکی اور صیہونی حکومت کے تعلقات کے پس منظر کے بارے میں کہا کہ ترکی 1948 سے اب تک کئی مراحل سے گزرا ہے۔ بدقسمتی سے اس ملک نے اعلان کیا کہ وہ صیہونی حکومت کو تسلیم کرتا ہے اور صیہونی حکومت کی حفاظتی پٹیوں میں سے ایک بن گیا ہے۔

ناصر ابوشریف نے ترکی میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے آغاز کے بعد مسئلہ فلسطین کے حوالے سے ترکی کے بیانات اور موقف میں مثبت تبدیلیاں آئی تھیں۔ ہم نے ترکی کے عوام اور حکومت کی جانب سے فلسطین کی حمایت اور صہیونی رجیم کے خلاف جنگ کیلیے کچھ اقدامات کو دیکھا مثال کے طور پر مرمرہ جہاز کا مسئلہ۔ لیکن ترکی کی حکومت کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر میرے خیال میں اس حکومت کی جانب سے اس حوالے سے کوئی قابل قدر اقدام نہیں اٹھایا گیا ہے۔

انہوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کی طرف سے فلسطینی عوام کی مکمل اور بھرپور حمایت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایران وہ واحد ملک ہے جو اس طرح کا بوجھ اٹھاتا ہے اور مسلمان کو پوری طرح فلسطینی عوام کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا چاہیے۔ ہم صہیونی ریاست کے ساتھ کسی بھی تعلقات کے مخالف ہیں اور ہمارے یقین ہے کہ یہ کام غلط ہے اور فلسطینی عوام کے لیے نقصان دہ اور صیہونی حکومت کے مفاد میں ہے۔

ابوشریف نے کہا کہ ترکی اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جناب اردوغان کو ہمارا جواب وہی جواب ہے جنہوں نے خود متحدہ عرب امارات اور صہیونی کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے جواب میں دیا۔

نجف اشرف کے مقتدی الصدر کے پریس کانفرنس سے خطاب کے بعد بغداد سمیت تمام شہروں میں مظاہرے ختم ہو کر دئے گئے اور عراق میں امن و امان کی صورتحال دوبارہ برقرار ہو گئی ہے، ان مظاہروں میں اصل کامیابی عراق کی مذہبی قیادت اور حشد الشعبی کے حصے میں آتی ہے جس کا اعتراف مقتدی الصدر نے خود اپنی پریس کانفرنس میں بھی کیا۔

صدری گروہ کے بعض مسلح اور افراطی اور امریکہ و عرب ریاستوں کے چھوڑے ہوئے مسلح جاسوس یہ چاہتے تھے کہ عراق میں خانہ جنگی مچ جائے اور ہم اس فتنے کا ذمہ دار مقاومت اسلامی اور ایران کو ٹھہرا کر اپنا حساب چکتا کریں، لیکن حشد الشعبی اور دیگر مذہبی قیادت نے زیرکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے زخم کھا کر بھی جوابی کارروائی نہیں کی یہاں تک کہ مقاومتی ہیرو شھید ابو مھدی المھندس اور دیگر ریڈ لائنز کو پار کیا گیا لیکن حشد الشعبی نے اپنوں کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھائے اور بالآخر دشمن کے ذریعہ پیدا کی گئے مصنوعی جھاگ کی عمر ختم ہو گئی اور فتنہ بیٹھ گیا۔

ایک بار پھر مقاومت اسلامی کی بابصیرت قیادت نے بحران کو فرصت میں بدل کر اپنی شائستگی ثابت کر دی ہے، اسی طرح کل سے بندہوئے ایران، عراق بارڈرز بھی زائرین کے لیے کھول دئیے گئے ہیں اور ایران کے راستے اربعین پہ جانے والے زائرین اب عراق جا سکیں گے۔اربعین ہمیشہ کی طرح ایک تمدن ساز تحریک کے عنوان سے منعقد ہوگی۔

http://www.taghribnews.