
سلیمانی
اسرائیل کا وجود ناجائز اور قابض و ظالم سے زیادہ کچھ نہیں، علامہ ساجد نقوی
علامہ ساجد نقوی نے کہا کہ بیت المقدس سے مسلمانوں کو بے دخل کر دیا اور آج مظلوموں کے خون پر کھڑے ہوکر پھر ”پارسائی“ کے دعوے، یہ کھلا دھوکہ ہے، بین الاقوامی دنیا اور سنجیدہ فکر حلقے کبھی بھی اس دھوکہ بازی میں نہیں آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل بین الاقوامی سطح پر اعتماد کھو چکا، مگر نئے انداز میں دھوکہ دینا چاہتا ہے، جسے تمام باضمیر انسان ناصرف ناکام بنائیں گے، بلکہ اسے آنے والے وقت میں مزید بے نقاب بھی کرینگے۔ علامہ ساجد نقوی نے اسرائیل کے حوالے سے بین الاقوامی دوہرے معیار پر بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عالمی طاقتوں کا دوہرا معیار عالمی امن کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔
امریکیوں نے ابھی حال ہی میں اعتراف کیا اور اپنی زبان سے اقرار کیا کہ ایران کے خلاف شدیدترین دباؤ میں، انہیں ذلت آمیز شکست ہوئی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ہجری شمسی کیلنڈر کے نئے سال 1401 کے پہلے دن ٹی وی چینلوں سے براہ راست نشر ہونے والی اپنی تقریر میں، نوروز اور نئي صدی کے آغاز کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے، نئے سال کے نعرے کی تشریح کی اور مساوات کے ساتھ اقتصادی ترقی اور غربت کے مسئلے کے حل کی واحد راہ، نالج بیسڈ معیشت کی راہ پر آگے بڑھنا بتایا۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے افغانستان، یوکرین اور یمن میں جاری مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ سارے واقعات، سامراج سے مقابلے میں ایرانی قوم کی حقانیت اور اس کے موقف کی درستگی کو عیاں کرتے ہیں۔
آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے نوروز کی قومی عید کے موقع پر ذکر خدا، دعا، مناجات اور معنویت کی تقاریب کو ایرانی نوروز کی اہم خصوصیت بتایا اور کہا: موسم بہار امید کا مظہر اور طراوت و روئیدگي کے پیغام کا حامل ہے اور اس سال، پندرہ شعبان کے ایام کی ہمراہی کی وجہ سے جو تاریخ اور انسانیت کی بہت بڑی امید کے جنم لینے کا دن ہے، یہ امید دوبالا ہو گئي ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ امید، تمام کاموں اور ترقی و پیشرفت کا سرچشمہ ہے، کہا: جو لوگ عوام سے وابستہ رہتے ہیں، یا کچھ لکھتے ہیں یا انھیں پیغام دیتے ہیں، وہ لوگ جہاں تک ممکن ہو، عوام کے اندر امید پیدا کریں کیونکہ امید، پیشرفت کا اہم عنصر ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے پچھلے ایک عشرے میں مختلف برسوں کے نعروں اور اسی طرح سنہ 1401 کے نعرے کے لیے معاشی عناوین کے انتخاب کی وجہ بتاتے کہا: اس سال کے لیے اور سال کے نعرے کے لیے معاشی عنوان کے انتخاب کی وجہ، معیشت کے مسئلے کی کلیدی اہمیت اور اسی طرح پچھلے عشرے کے معاشی چیلنجز ہیں جن سے چھٹکارے کے لیے تدبیر اور صحیح عمل و اقدام کی ضرورت ہے۔
آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ آج ملک کے عہدیداروں اور ملک کا نظام چلانے میں دخیل افراد کا سب سے اہم مسئلہ، معیشت ہے، کہا: البتہ عوامی سطح پر بھی کچھ سرگرمیاں دکھائی دیتی ہیں جو مناسب طریقے سے جاری رہیں تو بڑی امید افزا ہیں۔
انھوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ معاشی ترقی حاصل کرنے کا واحد راستہ، نالج بیسڈ معیشت کی سمت میں آگے بڑھنا ہے، کہا: نالج بیسڈ معیشت سے مراد، سبھی میدانوں میں پیداوار کو سائنسی اور تکنیکی نظر سے دیکھنا ہے جس کا نتیجہ، پیداوار کے اخراجات میں کمی، فائدے میں اضافہ، پروڈکٹس کی کوالٹی میں بہتری، عالمی منڈیوں میں پروڈکٹس کا کمپیٹیشن کے لائق بننا اور ملک کے اندر مصنوعات کی تیاری کی قیمت میں کمی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی تقریر کے ایک اور حصے میں متعدد عالمی مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جن کے لیے تدبیر اور صحیح حرکت، فیصلے اور اقدام کی ضرورت ہے، کہا: جب دنیا کے معروضی حالات کا جائزہ لیا جاتا ہے تو سامراجی محاذ کے مقابلے میں استقامت پر استوار ایرانی قوم کے موقف کی حقانیت مزید واضح ہو جاتی ہے۔
انھوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ استکبار کے مقابلے میں ایرانی قوم کا انتخاب، 'استقامت، ہتھیار نہ ڈالنے، عدم انحصار، خود مختاری کی حفاظت اور نظام اور ملک کی داخلی تقویت' تھا، کہا: یہ قومی فیصلے تھے جو بالکل صحیح تھے۔
آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے مظلوم مسلمان ملک افغانستان کے حالات، اس ملک پر ہونے والے ظلم اور بیس سال کے مظالم و جرائم کے بعد امریکیوں کے انخلاء کے طریقے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: یوکرین کے واقعات بھی ایک دوسرا نمونہ ہیں کہ اس ملک کا صدر، جسے خود مغرب والوں نے اقتدار میں پہنچایا ہے، آج ان سے سخت لہجے میں بات کر رہا ہے۔
انھوں نے اسی طرح یمن کے واقعات اور اس ملک کے مزاحمت کار عوام پر روزانہ ہونے والی بمباری اور دوسری طرف 80 نوجوانوں اور بچوں کی گردن کاٹنے کے سعودی عرب کے اقدام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: یہ ساری باتیں، دنیا پر حاکم ظلمت اور خونخوار بھیڑیوں کی عکاسی کرتی ہیں جن کے ہاتھوں میں دنیا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ یوکرین کے واقعات کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ اس سے مغرب کی نسل پرستی عیاں ہو گئی۔ آپ نے کہا: سیاہ فاموں کو سفید فاموں سے الگ کرنا، انھیں ٹرین سے نیچے اتار دینا یا مغربی میڈیا میں مغرب والوں کا اس بات پر افسوس ظاہر کرنا کہ جنگ، مشرق وسطی کے بجائے یورپ میں ہو رہی ہے، مغرب کی کھلی نسل پرستی کے کچھ نمونے ہیں۔
انھوں نے ملکوں میں ظلم و ستم سے نمٹنے کے طریقۂ کار میں، مغربی دنیا کے دوغلے پن کا ایک اور نمونہ بیان کرتے ہوئے کہا: اگر ان کے کسی فرمانبردار ملک میں ظلم ہوتا ہے تو وہ کوئي بھی ردعمل ظاہر نہیں کرتے اور اتنے ظلم و ستم کے بعد انسانی حقوق کا دعوی بھی کرتے ہیں اور اس جھوٹے دعوے کے ذریعے خودمختار ملکوں سے غنڈہ ٹیکس بھی وصول کرتے ہیں۔
آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے زور دے کر کہا: یہ ظلم و استکبار کے میدان میں عصر حاضر کا سب سے شرمناک دور ہے اور دنیا کے عوام ان مظالم اور دوغلے رویے کو براہ راست دیکھ رہے ہیں۔
انھوں نے اپنی تقریر کے ایک حصے میں، پچھلے سال، سال کے پہلے دن کی تقریر کا حوالہ دیا جس میں آپ نے ملکی معیشت کو امریکی پابندیوں سے جوڑنے اور یہ بات کہنے سے منع کیا تھا کہ جب تک پابندیاں رہیں گي، صورتحال یہی رہے گي۔ رہبر انقلاب اسلامی نے کہا: بحمد اللہ ملک میں نئي پالیسیوں نے دکھا دیا ہے کہ امریکی پابندیوں کے باوجود ترقی و پیشرفت کی جا سکتی ہے، خارجہ تجارت کو فروغ دیا جا سکتا ہے، علاقائی معاہدے کیے جا سکتے ہیں اور تیل اور دیگر اقتصادی امور میں کامیابیاں حاصل کی جا سکتی .taghribnews
شام کے مشرقی علاقوں پر قابض امریکی دہشتگردوں کے ایک اڈے پر ڈرون حملہ
شام کے مشرقی علاقوں پر قابض امریکی دہشتگردوں کے ایک اڈے پر ڈرون حملہ ہوا ہے۔
فارس نیوز نے عراقی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ شام کے شمال مشرقی علاقے دیرالزور میں واقع العمر آئل فیلڈ کہ جہاں امریکی دہشتگرد قبضہ جمائے ہوئے ہیں، ایک ڈرون طیارے سے حملہ کیا گیا ہے۔
یہ علاقہ عراق و شام کی سرحد پر واقع ہے اور گزشتہ کئی برسوں سے امریکہ کے باوردی دہشتگرد شام کے قومی سرمائے کو لوٹنے کی غرض سے اس علاقے پر قبضہ جمائے ہوئے ہیں۔ ابھی تک اس حملے کے سلسلے میں مزید تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں۔
شام میں امریکی آلۂ کار دہشتگرد ٹولے داعش کی شکست کے بعد اب خود امریکی میدان میں آگئے ہیں اور شامی عوام اور خطے کے استقامتی محاذ کے خلاف برسر پیکار ہیں ۔شام کے مختلف علاقوں میں امریکی موجودگی کے خلاف عوامی ناراضگی بڑھتی جا رہی ہے اور لوگ آئے دن دہشتگردی سے جنگ کے بہانے شام میں موجود امریکہ کے باوردی دہشتگردوں کے خلاف مظاہرہ کرتے ہیں۔
شام کی حکومت نے بھی بارہا اقوام متحدہ میں امریکہ کی سرکردگی میں اپنے ملک میں موجود غیر ملکی فوجیوں کی موجودگی کو غیرقانونی اور جارحیت قرار دیتے ہوئے اُس پر سخت اعتراض درج کرایا ہے۔
خیال رہے کہ عراق میں موجود امریکی دہشتگردوں پر حملے روز کا معمول بن چکے ہیں جبکہ شام میں بھی امریکی فوجیوں اور انکے اڈوں پر حالیہ مہینوں کے دوران بارہا حملے کئے جا چکے ہیں۔
اصحاب امام زمانہ (عج ) کی کچھ خصوصیات
جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہوئی تو یقین تھا کہ فرعون اور اس کا لشکر اس نومولود بچے کو قتل کر دیں گے، حضرت موسی ع کی والدہ یہ سوچ رہی تھی کہ اب کیا کیا جائے!؟ خدا کی جانب سے الہام ہوا: "ڈرو مت اسے دودھ پلاؤ" جب خطرہ بڑھ جائے اور آپ کو خوف ہو کہ بچہ دشمن کے ہاتھ میں پہنچ جائے گا تو اس وقت آپ بچے کو دشمن کے حوالہ نہ کرے بلکہ بچے کو دریا میں پھینک دو۔ آخر ایک ماں اپنے بچے کو صندوق میں ڈال کر اس ٹھاٹھیں مارتے ہوئے دریا میں پھینکنا کیسے برداشت کرتی؟ الہام ہوا اور ماں سے کہا :ہم آپ کے بچے کو واپس لوٹا دیں گے اور ہم اسے رسول بنادیں گے چنانچہ ہم نے اس بچے کو اس کی ماں تک لٹا دیا۔ تاکہ اس ماں کی آنکھیں روشن ہوجائیں اور وہ اداس نہ ہو- حضرت موسیٰ ع کی والدہ نے اللہ کے وعدے کو پورا ہوتے ہوے دیکھا۔ اللہ کے قطعی وعدوں میں سے ایک وعدہ امام زمانہ علیہ السلام کا ظہور ہے۔ یہ ایک ایسا وعدہ ہے جسے اللہ تعالی نے اپنے تمام انبیاء اور اولیاء کو دیا ہے۔ پیامبر گرامی اسلام ص نے فرمایا: "اے لوگو ! تمہارے لیے امام مہدی (عج) کے ظہور کی خوشخبری دیتا ہوں جو ایک اٹل حقیقت اور خدا کا وعدہ ہے خدا اپنے کیے ہوے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا اور وہ اپنے فیصلے کے خلاف کوئی کام نہیں کرتا، بیشک خدا حکیم اور باخبر ہے اور خدا کی فتح اور آسائیش قریب ہے۔(1)
جی ہاں! یقینا امام زمانہ ع ضرور ظہور فرمائیں گے، جس طرح حضرت موسیٰ کو ان کی والدہ کے پاس واپس لوٹا دیا اور نبوت پر فائز ہوگئے۔ لیکن بات یہ ہے کہ ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ ہم کہاں ٹہرے ہوئے ہیں؟ اور ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ جب تک ہم اپنی اصلاح نہیں کرتے اپنے آپ کو نہ بنائیں اور امام زمانہ ع کے ظہور کے لیے راہ ہموار نہ کریں ہم امام زمانہ علیہ السلام کے حقیقی منتظرین میں شمار نہیں ہونگے! پس اگر ہم امام زمانہ علیہ السلام کے حقیقی اصحاب و اعوان میں سے شمار ہونا چاہیں تو ہمیں چاہیے ہم سب سے پہلے امام زمان علیہ السلام کے اصحاب کی خصوصیات اور صفات سے آشنا ہوجائیں،ان خصوصیات اور صفات کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کریں اور اس عظیم الہی وعدے کی تکمیل میں اپنا کردار ادا کریں۔ امام زمانہ علیہ السلام کے اصحاب اور ناصرین کی کچھ خصوصیات ہیں ہم یہاں مختصر طور پر کچھ صفات اور خصوصیات محترم قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں:
1۔خدا اور بندوں کی باہمی محبت:
امام زمان علیہ السلام کے اصحاب کی پہلی خصوصیت سورہ مائدہ کی آیت نمبر 54 میں مذکور ہے جو دیگر صفات کے لئے سرچشمے کی حیثیت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ "یہ لوگ خدا سے محبت اور عشق کرتے ہیں اور خدا کی رضا اور خشنودی کے علاوہ کچھ نہیں چاہتے ہیں یہ خدا کو چاہتے ہیں اور خدا سے محبت کرتے ہیں اور خدا بھی ان سے محبت کرتے ہیں(یُحِبُّهُمْ وَیُحِبُّونَهُ)
کون سے لوگ خدا سے محبت کرتے ہیں؟
منتظرین حقیقی امام زمانہ علیہ السلام خدا سے محبت کرتے ہیں،امام کے بتائے ہوے اصولوں اور احکام کی پیروی کرتے ہیں اور امام کی اطاعت کرتے ہیں۔
(إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِی)
اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرے(پیغمبر) پیروی کرو(2)
افسوس کے ساتھ کہنا پڑھتا ہے کہ بعض اوقات، اگرچہ ہم جانتے ہیں کہ یہ کام امام زمانہ علیہ السلام کو خوش کرتا ہے اس کے باوجود ہم اس کام سے غفلت برتتے ہیں اور اسے انجام نہیں دیتے اسی طرح بعض اوقات ہم جانتے ہیں کہ یہ کام امام زمانہ علیہ السلام کو ناراض کرسکتا ہے اس کے باوجود ھم اس کام کو انجام دیتے ہیں اور اپنے آپ کو شیطان کے دھوکے کی وجہ سے روک نہیں سکتے ہیں۔ امیر المومنین ع سے روایت ہے کہ آپ ع نے فرمایا:
الْقَلْبُ الْمُحِبُ لِلَّهِ یُحِبُّ کَثِیراً النَّصَبَ لِلَّهِ وَالْقَلْبُ اللَّاهِی عَنِ اللَّهِ یُحِبُّ الرَّاحَةَ
خدا سے محبت کرنے والا دل خدا کی راہ میں مصائب اور مشقت کو برداشت کرتا ہے اور وہ دل جو خدا کی یاد سے بے خبر ہو وہ سکون اور راحت طلب ہوتا ہے۔(3)
انسان اگر کسی سے محبت کرتا ہے تو اس کی ایک علامت یہ ہے کہ وہ اس کی خدمت کرنا چاہتا ہے اور اس کی خاطر زحمتیں اور مشقتیں برداشت کرلیتا ہے،جس طرح ایک ماں اپنے بچے کے لیے زحمت اور مشقت برداشت کرکے اپنی نیندیں اس بچے پر قربان کر کے لطف اندوز ہوتی ہے اسی طرح منتظر واقعی بھی امام زمانہ علیہ السلام کی خاطر مختلف مشکلات اور سختیاں برداشت کرتا ہے یہ روایت اسی نکتے کی طرف اشارہ کرتی ہے: جو دل خدا سے محبت کرتا ہے وہ خدا کی راہ میں مشقتیں اور زحمتیں برداشت کرتا ہے لیکن وہ دل جو خدا کی محبت سے غافل اور عاجز ہے وہ سکون طلب اور سستی کا طالب ہوتا ہے۔
امام صادق علیہ السلام نے ایک خوبصورت روایت میں اس دوستی کا معیار یوں بیان کیا ہے:
فَإِنَّ کُلَّ مَنْ خُیِّرَ لَهُ أَمْرَانِ: أَمْرُ الدُّنْیَا وَ أَمْرُ الْآخِرَةِ، فَاخْتَارَ أَمْرَ الْآخِرَةِ عَلَى الدُّنْیَا فَذَلِکَ الَّذِی یُحِبُّ اللَّهَ
جس شخص کو دو چیزوں میں سے ایک کا انتخاب کرنے کا اختیار دیا جایے ، ایک دنیا ہے اور دوسری آخرت، اگر وہ آخرت کو ترجیح دے تو واضح ہو جائے گا کہ وہ اللہ سے محبت کرتا ہے۔لیکن اگر وہ دنیاوی معاملات کو آخرت پر ترجیح دے تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اس کے نزدیک خدا کی کوئی اہمیت نہیں ہے نعوذ باللہ اور خدا کی مرضی اس کے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔
یہ ہمارے لیے ایک بہت بڑا امتحان ہے کہ ہماری محبت خدا کی نسبت کتنی گہری ہے؟ اور ہم اللہ تعالی کی کتنی قدر کرتے ہیں؟
حضرت امام مہدی عج کے اصحاب امام حسین (ع) کے اصحاب کی طرح خدا کی رضا اور آخرت کو ہر چیز پر ترجیح دیتے ہیں اور دنیا کے عہدوں، اور وقتی لذتوں کی خاطر اپنی آخرت کو برباد نہیں کرتے۔ یہاں تک کہ انتہائی مشکل حالات میں بھی، وہ اپنے محبوب کی رضایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں پس امام مھدی ع کے اصحاب اس آیت کا مصداق تام ہے (یحبھم و یحبونه)
2.مؤمنين کے سامنے عاجز اور دشمنوں کے سامنے سرسخت ہونا:
منتظرین اور اصحاب امام زمانہ ع کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ مومنین کے آگے حلیم اور مہربان ہوتے ہیں اور کافروں کے لیے سرسخت ہوتے ہیں۔‘‘
أَذِلَّةٍ عَلَى المُؤمِنینَ أَعِزَّةٍ عَلَى الکافِرینَ
امام زمانہ علیہ السلام کے منتظرین اور اصحاب مومنین کے ساتھ تکبر، اور غرور سے پیش نہیں آتے بلکہ ان کے ساتھ نرمی سے پیش آتے ہیں۔لیکن کفار اور منافقین کے سامنے نرمی سے پیش نہیں آتے بلکہ ان کے ساتھ سختی سے پیش آتے ہیں۔
3۔خدا کی خاطر جہاد کرنے والے:
امام ع کے اصحاب اور منتظرین ہمیشہ جہاد کے لیے تیار رہتے ہیں۔
(یجاھدون في سبيل للہ)
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: امام مہدی کے اصحاب خدا کی راہ میں شہید ہونا چاہتے ہیں۔(4)
البتہ جہاد سے مراد جہاد اصغر اور جہاد اکبر دونوں ہیں-امام علی (ع) فرماتے ہیں: پیغمبر اکرم (ص) نے اصحاب کے ایک گروہ کو کہیں فوجی آپریشن کے لئے بھیجا اور جب وہ واپس آئے تو آپ نے ان سے فرمایا: "مبارک ہو تم لوگوں نے جہاد اصغر کوتو انجام دیا ہے لیکن جہادِ اکبر ابھی باقی ہے۔ اسی دوران اصحاب میں سے ایک صحابی نے پوچھا: یا رسول اللہ، جہاد اکبر سے کیا مراد ہے؟ حضرت نے فرمایا کہ اپنے نفس کے ساتھ جہاد کرنا سب سے بڑا جہاد ہے۔(5)
دینی تعلیمات کی روشنی میں اسلامی سرزمین اور مسلمانوں کی جان ومال کی حفاظت اور دفاع اگرچہ واجب ہے ؛ لیکن اسے جہاد اصغر سے تعبیر کیا گیا ہے اور اپنے ھوا و ہوس کے خلاف لڑنے اور اپنی شہوتوں پر کنٹرول کرکے اپنے نفس سے لڑنے کو جہاد اکبر سے تعبیر کیا گیا ہے۔ جی ہاں، امام زمانہ علیہ السلام کے حقیقی منتظرین ہمیشہ شياطين کا مقابلہ کرتے ہیں اور ہمیشہ عبادت الہی میں مشغول رہتے ہیں -امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: میں امام زمانہ علیہ السلام کےاصحاب کو دیکھ رہا ہوں گویا وہ سب سجدے میں ہیں وہ راتوں کو شب بیداری کرتے ہیں، عبادت الہی میں گزارتے ہیں اور دن کو جہاد میں مشغول رہتے ہیں یعنی جہاد بالنفس ۔(6)
4۔اچھے اخلاق کا مالک ہونا:
امام زمانہ ع کے اصحاب اور منتظرین کی ایک اور خصوصیت اچھے اخلاق کا حامل ہونا ہے۔
مختصر کروں امام زمانہ علیہ السلام کے اصحاب اور منتظرین کا تقویٰ، علم اور ان کی معرفت ایسی ہوتی کہ تمام کائنات ان کے آگے سر تسلیم خم کر دیتی ہے اور زمین و آسمان ان کے وجود پر فخر کرتے ہیں۔ خدا اور ائمہ معصومین علیہم السلام کے نزدیک کسی بھی شخص کا مقام اس کے علم اور اخلاص کی وجہ سے ہی بلند ہوتا ہے لیکن چونکہ امام مہدی ع کے اصحاب کو کوئی نہیں جانتا، اس لیے ہر کوئی اپنے اندر یہ صلاحیت پیدا کرسکتا ہے کہ وہ امام مہدی ع کے اصحاب میں شامل ہو جائے۔
منابع و ماخذ
(1)۔امالی صدوق، ص352.
(2)۔آل عمران/31.
(3)۔مجموعه ورام، ج2، ص87.
(4)۔بحارالانوار، ج52، ص307.
(5)۔معانی الاخبار، ج 1، ص160.
(6)۔بحارالانوار، ج 52، ص 386.
تحریر: عرفان حیدر بشوی
بشکریہ:حوزہ نیوز ایجنسی
ہم آل سعود کے تیل کے محتاج ہیں، اس لئے اُس پر انگلی نہیں اٹھا سکتے: برطانوی وزیر
ایکنا نیوز کے مطابق برطانوی حکام کا کہنا ہے کہ انہیں انسانی حقوق کی صورتحال کا اندازہ ہے لیکن یہ ملک دنیا میں چونکہ تیل کا سب سے زیادہ پروڈیوسز ہے، اس لئے وہ اس کے ساتھ تعلقات بنائے رکھنے پر مجبور ہیں۔
سنیچر کے روز سعودی عرب میں 81 لوگوں کو موت کی سزا اور اس کے لندن – ریاض تعلقات پر ممنکنہ اثرات کے بارے جب برطانوی وزیر صحت ساجد جاوید سے سوال کیا گیا تو انہوں نے آل سعود کے سامنے اپنی کمزوری ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب کے ساتھ روابط میں ہم پوری طرح صاف ہیں لیکن یہ بھی اہم ہے کہ ہم مانیں یا نہ مانیں ریاض دنیا میں تیل کی پیداوار کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔
ساجد جاوید نے کہا کہ روس یوکرین جنگ کے سبب جو عالمی پیمانے پر توانائي کے شعبے میں بحران پیدا ہوا، اس کے حل کے لئے برطانوی وزیر اعظم سمیت دنیا کے دوسرے لیڈروں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ سعودی عرب کے ساتھ معقول طریقے سے تعاون کریں۔
قابل ذکر ہے کہ برطانوی وزیر اعظم اسی ہفتے سعودی عرب کا دورہ کرنے والے ہیں جس کا مقصد سعودی ولیعہد کو تیل کا پروڈکشن بڑھانے کے لئے تیار کرنا ہے تاکہ عالمی منڈی میں تیل کی بڑھتی قیمت کو قابو میں کیا جا سکے۔
مرحوم آیۃ اللہ سید محمد علوی گرگانی (رہ) کے حالات زندگی
حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق آیت اللہ سید محمد علی علوی گرگانی (رہ) 1940ء میں نجف اشرف میں حضرت صدیقہ طاہرہ جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے ایام ولادت میں پیدا ہوئے۔ آپ کی ولادت سے آپ کے والد گرامی بہت خوش ہوئے کیونکہ آپ سے پہلے ان کے ہاں چند بیٹوں کی پیدائش ہوئی تھی لیکن وہ بچپن میں ہی فوت ہو جاتے تھے۔ آپ کے والد گرامی نے بارگاہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام میں توسل کیا اور حضرت سے عالم و صالح فرزند کی درخواست کی۔
آیت اللہ علوی گرگانی (رہ) کے والد گرامی آیت اللہ سید سجاد علوی ایک رات عالم خواب میں حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ حضرت نے انہیں عنقریب ایک بیٹے کی ولادت کی خوشخبری سنائی اور ان سے کہا کہ اس کا نام "علی" رکھنا۔
جب ان کے ہاں بچے کی ولادت ہوئی تو باپ نے پہلے سات دن کے مستحب کی رعایت کرتے ہوئے "محمد" نام رکھا اور پھر حضرت علی علیہ السلام سے وعدہ نبھاتے ہوئے ان کا نام "علی" نام رکھا۔
آیت اللہ علوی گرگانی (رہ) کی عمر جب 7 سال ہوئی تو آپ اپنے باپ کے ہمراہ ایران آگئے اور قرائت اور قرآن کریم کی تعلیم کے بعد اپنے باپ کے پاس علوم عربی کی تعلیم حاصل کرنے کا آغاز کیا اور کتاب مغنی، مطوّل اور کتاب اللمعہ کا کچھ حصہ اپنے باپ کے پاس ہی پڑا۔
جب ان کی عمر 16 سال ہوئی تو آپ اپنے والد اور علاقہ کے کچھ افراد کے ہمراہ زیارات عتبات عراق، بیت اللہ الحرام، بیت المقدس اور شام کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ وہ اس سفر کے دوران اپنے ہمسفر افراد کو شرعی اور دینی مسائل سے بھی آگاہ کرتے رہے۔
سفر حج کے بعد آپ نجف اشرف میں دینی تعلیم کے حصول کے لئے رہنا چاہتے تھے لیکن مرحوم آیۃ اللہ العظمی حکیم رحمتہ اللہ علیہ جب آپ کے والد بزرگوار سے ملنے کے لئے آئے اور آپ کے ارادے سے آگاہ ہوئے تو فرمایا "اگر یہ حوزہ علمیہ قم میں دینی تعلیم حاصل کریں تو زیادہ بہتر ہے کیونکہ حوزہ علمیہ قم فنِ تدریس اور فن خطابت دونوں سکھاتا ہے"۔ پس آپ حوزہ علمیہ قم آگئے اور
یہاں آیت اللہ شیخ عبدالکریم حائری، آیت اللہ شیخ ابوالقاسم قمی، آیت اللہ شیخ محمد علی حائری قمی، آیت اللہ مجاہدی تبریزی، آیت اللہ طباطبائی، آیت اللہ میرزا محمد فیض قمی، آیت اللہ شیخ محمد علی حائری قمی جیسے نامور اساتذہ کے سامنے زانوی تلمذ تہہ کیا اور چار سال کے مختصر عرصہ میں باقی ماندہ سطوح کی تعلیم حاصل کی۔
آیت اللہ علوی گرگانی (رہ) نے اپنے دینی تعلیم کے دوران جن بزرگ اور نامور اساتذہ سے استفادہ کیا وہ مندرجہ ذیل ہیں: آیت اللہ العظمی بروجردی(رہ) ، حضرت امام خمینی (رہ)، آیت اللہ العظمی سید محقق داماد(رہ)، آیت اللہ شیخ علی شاہرودی (رہ)، آیت اللہ شیخ محمد علی اراکی(رہ)، آیت اللہ مرتضیٰ حائری یزدی (رہ)۔
اس کے علاوہ آیت اللہ علوی گرگانی (رہ) حوزہ علمیہ قم میں تعطیلات کے ایام میں موسم گرما میں نجف اشرف میں زیارات سے مشرف ہونے کے علاوہ سات سال تک جن بزرگ اساتذہ کے درس میں جاتے رہے وہ یہ ہیں: حضرت امام خمینی (رہ)، آیت اللہ العظمی خوئی (رہ)، آیت اللہ العظمی شاہرودی (رہ)، آیت اللہ العظمی باقر زنجانی (رہ)۔
آیت اللہ علوی گرگانی (رہ) نے اپنی چالیس سالہ تدریس کے دورانیہ میں بے شمار فاضل علماء کی تربیت بھی کی جو اس وقت ملک کے مختلف علاقوں میں خدمت دین میں مشغول ہیں۔
آیت اللہ علوی گرگانی (رہ) نے زمانۂ طالب علمی کے اوائل سے ہی تبلیغ دین پر خصوصی توجہ دی اور ماہ مبارک رمضان کے ایام میں لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کیلئے تبلیغ دین کے لیے جاتے رہے۔ آپ 18 سال کی عمر تک ہر جمعرات اور جمعہ کو تہران میں مسجد فاطمیہ میں معارف اسلامی کے بیان کے لیے جاتے رہے۔
آپ نے فقہی، اصولی، حدیثی، رجالی اور دیگر دینی موضوعات پر متعدد کتب بھی تحریر کی ہیں۔ جن میں سے کچھ کتابیں جو شائع بھی ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:
المناظر الناضرة فی احکام العترة الطاهرة (ج ۱، بخشی از کتاب طهارت)
لئالی لاصول (۶ج. مباحث الفاظ و اصول عملیه)
نور الهدی فی التعلیق علی العروة الوثقی
التعلیقة علی تحریر الوسیلة (۲ ج)
اجوبة المسائل (۲ ج) –جوابات استفتائات از طهارت تا دیات.
انوار اخلاقی یا ره توشه پارسایان (۳ ج).
توضیح المسائل (عربی و اردو میں ترجمه ہو چکی ہے).
مناسک حج (عربی و اردو میں ترجمه ہو چکی ہے).
استفتائات و مناسک و ادعیه حج
احکام جوانان
احکام بانوان
کلید سعادت (خواتین کے لئے احکام و استفتائات و نصایح اخلاقی). تحریر:سید مجتی فاطمی
گلچینی از درسهای اخلاق
احکام کسب و کار
استفتائات حج و عمره
احکام خمس
روزه سپر مؤمن۔
اس کے علاوہ ان کی دسیوں کتابیں ابھی تک زیور طبع سے آراستہ نہیں ہوئی ہیں۔
مسجد جامع« الفار» ؛ سری لنکا میں سیاحوں کا مرکز
آستانہ مقدس حسینی میں مراسم شعبانیه
یمن کے خلاف اقتصادی جنگ کا مقصد ہماری قوم کو اذیتیں پہنچانا ہے
یمن کی حکومت کے نگران اعلی نے کہا ہے کہ ہم جارح سعودی اتحاد کی جانب سے یمن کا محاصرہ جاری رہنے پر خاموش نہیں بیٹھیں گے اور اس نے ملت یمن کے خلاف بہت سے جرائم کا ارتکاب کیا ہے
یمن کی تحریک انصاراللہ کے سربراہ اور یمنی حکومت کے نگران اعلی عبدالملک بدرالدین الحوثی نے صوبہ البیضاء میں الزاہر قبائل کے وفود سے ملاقات میں کہا کہ یمن کے خلاف اقتصادی جنگ کا مقصد ہماری قوم کو اذیتیں پہنچانا اور ان کی پریشانیوں کو بڑھانا ہے۔
الحوثی نے مزید کہا کہ یمن کے خلاف جارحیت کے پہلے دن سے ہی دشمن جان بوجھ کر جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے اور یمنی عوام کا محاصرہ کئے ہوئے ہے۔
الحوثی نے مزید کہا کہ وہ صوبہ البیضاء میں امن و استحکام کو مضبوط بنانے اور اس علاقے کے عوام اور حکومت کے درمیان تعاون کے خواہاں ہیں۔
انھوں نے کہا کہ سعودی عرب اور امارات کے حکام نے امریکہ اور صیہونی حکومت کے ساتھ کھلا اتحاد تشکیل دے رکھا ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ کا دورہ ماسکو
ایرانی وزیر خارجہ نے ماسکو دورے پہنچنے پر کہا کہ یوکرین کا بحران، پابندیاں اور ویانا مذاکرات ان ملاقات کا اہم محور ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم واضح طور پر یوکرین ، افغانستان،یمن اور دنیا کے کسی کونے میں جنگ کی مذمت کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جیسا کہ ہم پابندیوں کی مذمت کرتے ہیں اور ممالک اور اقوام کے خلاف یکطرفہ پابندیوں کے رویے کوغلط طریقہ سمجھتے ہیں، اسی طرح ہم یوکرین کے مسئلے کے سیاسی حل پر بھی توجہ دے رہے ہیں۔
امیر عبداللہیان نے کہا کہ خیالات اور خبروں میں کہا گیا ہے کہ اگر ہم امریکہ اور دیگر مغربی فریقین کے ساتھ ویانا میں کسی معاہدے پر پہنچ جائیں، تو ممکن ہے کہ روسی فریق ویانا مذاکرات میں کافی حمایت اور مدد نہ کرے۔
انہوں نے بتایا کہ میں نے گزشتہ ہفتے مسٹر لاوروف کے ساتھ اپنی ٹیلی فون پر بات چیت سے ایسے نتیجے کا اخذ نہیں کیا ہے اور مجھے امید ہے کہ ہم آج کی بات چیت میں ویانا میں ایران کے ساتھ ایک مضبوط، پائیدار اور اچھے معاہدے تک پہنچنے کیلیے روس کے چلنے والے راستے میں ایک واضح نتیجے پر پہنچ جائیں گے۔
ویانا میں معاہدے تک پہنچنے کیلیے روس کی کوششوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں: امیر عبداللہیان
ایرانی وزیر خارجہ نے اپنے روسی ہم منصب کے ساتھ ملاقات میں کہا کہ ہم ویانا میں پابندیوں کے ہٹانے کے لیے مذاکرات میں معاہدے تک پہنچنے کیلیے روس کی تعمیری کوششوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔
انہوں نے ایرانی صدر کے حالیہ دورہ روس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم آج دونوں ممالک کے تعلقات میں ہونے والی پیش رفت پر بات چیت کے لیے یہاں آئے ہیں۔ کسی بھی بین الاقوامی پیش رفت سے قطع نظر روس کے پڑوسی ملک کے ساتھ تعلقات کی ترقی اسلامی جمہوریہ ایران کے لیے اہم ہے اور ڈاکٹر رئیسی کے حالیہ دورے اور مسٹر پیوٹن کے ساتھ حالیہ ملاقات کے دوران دونوں ممالک کے درمیان اہم معاہدوں پر دستخط کئے گئے ہیں۔
امیر عبداللہیان نے بتایا کہ مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ اور میں نے سنجیدگی سے دونوں صدور کےدرمیان معاہدوں کے نفاذ کیلیے پوری کوشش کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج یوکرین، افغانستان، یمن، شام، فلسطین اور دیگر بین الاقوامی مسائل میں پیش رفت پر بات چیت اور مشاورت کا ایک اہم موقع ہے۔
روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے ایرانی وفد کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ ہم سیاسی سطح پر تفصیلی اور مسلسل بات چیت کر رہے ہیں جو ماسکو میں صدارتی سطح پر طے پانے والے معاہدوں پر عملدرآمد کا باعث بنے گی۔
انہوں نے دنیا میں رونما ہونے والے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان واقعات کے باوجود، دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا حجم 80 فیصد بڑھ کر تقریباً 4 بلین ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ قدرتی طور پر، بین الاقوامی سطح پر دونوں ممالک کے درمیان تعاون بہت اچھا ہے اور ہم آستانہ عمل کے فریم ورک میں شام کے بحران کو مدد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
جوہری معاہدے کی بحالی کیلیے مذاکرات آخری مرحلے میں پہنچ گئے ہیں: لاوروف
روس کے وزیر خارجہ نے اپنے ایرانی ہم منصب کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ ایران جوہری معاہدے کی بحالی سے متعلق بات چیت آخری مرحلے میں داخل ہو گئی ہے اور دونوں ممالک تعاون کی نئی سطح کو حتمی شکل دینے کے لیے نئی دستاویزات تیار کر رہے ہیں۔
روس کی سپوتنک خبر رساں ایجنسی نے لاوروف کے حوالے سے کہا کہ ہم ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق مسائل کے حل کے لیے جوہری معاہدے کی بحالی کے آخری مرحلے میں پہنچ چکے ہیں اسی لیے مجھے یقین ہے کہ اس معاہدے کا بہت امکان ہے۔
لاوروف نے کہا کہ ایران اور روس دونوں باہمی تعاون کی نئی سطح کو باضابطہ شکل دینے کے لیے نئی دستاویزات تیار کر رہے ہیں۔