عید قربان (عید الاضحیٰ) دراصل حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اُس عظیم قربانی کی یادگار ہے، جو انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم پر اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربان کرنے کی صورت میں پیش کی۔ یہ قربانی نہ صرف ایک جسمانی عمل تھا بلکہ اس میں بے مثال اطاعت، ایمان، ایثار اور خلوص شامل ہے۔
عظیم قربانی کا اشارہ:
عید قربان درحقیقت اللہ کی رضا کے لیے اپنی سب سے پیاری چیز کو قربان کرنے کی علامت ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے کو اللہ کے لیے قربان کر رہے ہیں اور انہوں نے اس خواب کو سچ جان کر عمل کیا۔ اس قربانی کا ذکر قرآن مجید میں سورہ الصافات میں آیا ہے: "فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ"، "پھر جب دونوں (باپ بیٹا) نے (اللہ کے حکم کے آگے) سر جھکا دیا اور (ابراہیم نے) اسے ماتھے کے بل لٹا دیا۔" (سورۃ الصافات، آیت 103)
اس قربانی کو عظیم قربانی کی طرف لوٹا دینے کا خدا کا وعدہ
جب 61 ہجری میں مولا حسین نے کربلا میں پورا کر دیا، جوان بیٹے کو راہ خدا میں پیش کرکے اسلام کو زندہ کردیا، "دیا ہے اکبر کی راہ میں اکبر"
حضرت ابراہیمؑ کی قربانی، اطاعت کی معراج
انہوں نے خواب کی تعبیر کے تحت بیٹے کی قربانی دی، جو اللہ کے حکم پر تھی اور اللہ نے اسماعیلؑ کی جگہ دنبہ بھیج دیا۔۔۔ یہ اللہ کی رحمت تھی۔
حضرت امام حسینؑ کی قربانی، شعور و حق کی معراج
انہوں نے ظلم، باطل اور جبر کے خلاف قیام کیا۔ یزید کے نظامِ فسق و فجور کو تسلیم کرنے سے انکار کیا اور اپنے نانا محمدﷺ کے دین کی بقا کے لیے کربلا میں جان، بیٹے، بھائی، بھتیجے، اصحاب سب کچھ اللہ کی راہ میں دے دیا۔
"عظیم قربانی" کا مفہوم امام حسینؑ کے ذریعے مکمل ہوا
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ"، "اور ہم نے اس (ابراہیمؑ) کے بیٹے کا فدیہ ایک عظیم قربانی سے دیا۔" (سورۃ الصافات، آیت 107) علمانے کہا ہے کہ یہ "ذبح عظیم" کا کامل مظہر کربلا میں امام حسینؑ کی شہادت ہے، قربانی صرف جسمانی نہیں تھی، بلکہ حق کے لیے قربانی تھی۔ وہ قربانی صبر، بصیرت، بصیرتی قیادت اور روحانی شعور کا انتہا تھی۔ وہ قربانی دینِ محمدیﷺ کو ہمیشہ کے لیے زندہ کر گئی۔۔
امام حسین نے ہمیں جو سبق دیا، آج کے حالات میں فلسطین، غزہ، لبنان کے غیور مسلمانوں نے تو اس کو ثابت کر دیا کہ مسلمان کبھی باطل کے خلاف سرنگوں نہیں ہوتا، لیکن کیا باقی دنیا کے مسلمانوں کو بھی امام حسین کا یہ سبق یاد ہے۔؟ جب فلسطین، خاص طور پر غزہ، اس قدر تباہی، قتل عام، نسل کشی اور ظلم کا شکار ہے کہ انسانیت چیخ اٹھے، تو مسلمانوں کا اجتماعی ضمیر، غیرت اور جذبۂ جہاد سوالیہ نشان بن گیا ہے۔؟