یوم القدس ہر سال ماہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو فلسطین کی آزادی اور قبلۂ اول کی بازیابی کے لئے احتجاج کا مخصوص دن ہے۔ جب ایران میں انقلاب اسلامی کی تحریک پروان چڑھ رہی تھی، اس سے ٹھیک پہلے اسرائیل کے قیام کا باضابطہ اعلان کر دیا گیاتھا۔ 1948ء میں یہودیوں نے اسرائیلی ریاست کا باقاعدہ اعلان کیا، جس کی مخالفت روز اول ہی سے شروع ہوگئی تھی۔ اس ریاست کے قیام کا مقصد دنیا بھر میں منتشر اور آورہ یہودیوں کو ایک مستقل وطن فراہم کرنا تھا۔ انہوں نے عالمی استکبار کی مدد سے اس پورے علاقے کو اپنی مذہبی کتاب کی روشنی میں "پرومیسڈ لینڈ" سے تعبیر کیا، جس کا بنیادی ہدف "گریٹر اسرائیل" کی تشکیل پر مبنی تھا۔ عالمی طاقتوں اور اقوام متحدہ جیسے اداروں نے بھی مسئلۂ فلسطین کے حل پر خاص توجہ نہیں دی بلکہ ان کا کردار اسرائیل کی حمایت اور اس کے ناجائز وجود کو جواز فراہم کرانے میں متحرک رہا ہے۔ اسی بنا پر فلسطین کی خودمختارانہ حیثیت اور القدس کی بازیابی کئے یہ تحریک منصہ شہود پر آئی۔
یوم القدس کے آغاز کے متعلق بعض یہ کہتے ہیں کہ یہودی 1968ء سے ہر سال "یوم یروشلم" مناتے تھے، جو 1998ء میں قومی تعطیل میں بدل دیا گیا۔ "یوم یروشلم" کے خلاف امام خمینیؒ نے "یوم القدس" کا اعلان کیا، تاکہ "یوم یروشلم" کی طرز پر ہر سال ماہ رمضان کے آخری جمعہ کو اسرائیلی ناجائز قبضے اور فلسطین کی آزادی کا مطالبہ دہرایا جاسکے۔ لیکن یہ پس منظر درست معلوم نہیں ہوتا۔ کیونکہ یوم القدس کا مقصد "یوم یروشلم" کا جواب دینا نہیں تھا، بلکہ اس دن کو بطور احتجاج منانے کا مقصد یہ تھا کہ فلسطینی مظلوموں کی حمایت کی جائے اور مقدس سرزمین سے یہودی قبضے کو خالی کرانے کی تحریک میں روح پھونکی جائے، جو عربوں کی بے غیرتی کی بنیاد پر دم توڑ رہی تھی۔ امام خمینی نے جب 7 اگست 1979ء میں پہلی بار "یوم القدس" منانے کا اعلان کیا، اُس وقت اس کو شیعہ و سنّی کی عینک سے دیکھا گیا۔
مسلمانوں کی اکثریت نے یوم القدس کی مخالفت کی۔ خاص طور پر ماہ رمضان جس کو طاعت وعبادت کا مہینہ کہا جاتا ہے اور اس کا آخری جمعہ مسلمانوں کے لئے بڑی اہمیت کاحامل ہے، اس دن یوم القدس کی تحریک کو رمضان کی عظمتوں سے چشم پوشی اور عبادت و طاعت سے انحراف کا سبب قرار دیا تھا۔ اس کے پس پردہ صہیونی سازشیں کارفرما تھیں، تاکہ یوم قدس کی تحریک کو ابتدا ہی میں کچل دیا جائے۔ اس کے لئے انہوں نے تکفیری اور وہابی مولویوں اور مفتیوں کا بھی استعمال کیا۔ انجام کار مسلمانوں نے اس تحریک کے اثر کو باور کیا اور آج پوری دنیا میں "یوم القدس" منایا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر آیت اللہ خمینیؒ "یوم القدس" کی تحریک شروع نہ کرتے تو مسئلۂ فلسطین اپنے قیام کے فوراً بعد دم توڑ دیتا۔ یوم القدس نے آہستہ آہستہ رفتار پکڑی اور پھر پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ اس کے اثرات ظاہر ہونے لگے۔ جہاں صہیونی اثر تھا، وہاں انہوں نے اس نہضت میں خلل ڈالنے کی کوشش کی اور یہ مشہور کر دیا گیا کہ یوم القدس دراصل "ضد سامیت(Anti Semitism)" ہے۔ گویا کہ اسرائیل نے اس تحریک کو یہودی مخالف تحریک کے طور پر متعارف کرانے کی کوشش کی، تاکہ دنیا اس کے پس پردہ کارفرما مقصد اور مسئلہ فلسطین پر توجہ مرکوز نہ کرسکے۔
امام خمینیؒ نے پہلی بار جب فلسطین کی آزادی اور یہودی قبضے کے خلاف آواز احتجاج بلند کرتے ہوئے یوم القدس منانے کی اپیل کی تو ان کا درد دل اس طرح جھلکا: ’’میری دنیا بھر کے مسلمانوں سے اپیل ہے کہ وہ ماہ رمضان کے آخری جمعہ کو یوم القدس قرار دیں اور اس دن فلسطین کے مسلمان عوام کے قانونی حقوق کی حمایت میں اپنے اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔ میں عرصۂ دراز سے تمام مسلمانوں کو غاصب اسرائیل کے خطرے سے آگاہ کر رہا ہوں، جس نے ان دنوں ہمارے فلسطینی بہن بھائیوں پر اپنے مظالم میں اضافہ کر دیا ہے اور خاص طور پر جنوبی لبنان میں فلسطینی مجاہدین کے خاتمے کے لیے ان کے گھروں پر مسلسل بمباری کر رہا ہے۔ میں پورے عالم اسلام کے مسلمانوں اور اسلامی حکومتوں سے درخواست کرتا ہوں کہ اس غاصب اور اس کے حامیوں کے ہاتھ کاٹنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ متحد ہو جائیں اور تمام مسلمانوں کو دعوت دیتا ہوں کہ رمضان المبارک کے آخری جمعے کے دن جو ایام قدر میں سے بھی ہے اور فلسطینی عوام کی تقدیر کو واضح کرنے کا دن بھی ہوسکتا ہے، اس کو یوم القدس قرار دیں اور کسی پروگرام کے ذریعے بین الاقوامی طور پر ان مسلمان عوام کے ساتھ تمام مسلمانوں کی ہمدردی کا اعلان کریں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مسلمانوں کو کافروں پر فتح عنایت کرے۔‘‘
اس تحریک کے اثر کو عرب ملکوں نے بھی محسوس کیا اور آہستہ آہستہ ان کے عوام بھی فلسطین کے حق میں آواز بلند کرنے لگے۔ 1989ء میں اردن کی حکومت نے بھی سرکاری سطح پر یوم القدس کا اہتمام کیا تھا۔ معروف مفکر ایڈورڈ سعید لکھتے ہیں: ’’اگر مشرق وسطیٰ میں امن قائم کرنا مقصود ہے تو فلسطینیوں کے مسئلے پر سنجیدگی کے ساتھ غوروفکر کرنا ہوگا۔‘‘ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مسئلۂ فلسطین کے حل تک مشرق وسطیٰ میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ جنگ اور بدامنی اسی طرح جاری رہے گی۔ دنیا کی کوئی طاقت فلسطینیوں کو ان کے مطالبے اور جائز حق سے دست بردار نہیں کرسکتی۔ عالمی یوم القدس کے اثرات ہمہ گیر اور مسلمانوں کے ساتھ دنیا بھر کے انسانوں کے جذبات و احساسات پر محیط ہیں۔ دنیا کا کوئی بھی حق پسند اور منصف مزاج انسان اب مسئلۂ فلسطین پر دُہرے رویّے کا اظہار نہیں کرتا۔ اس رائے کی تشکیل و تعمیر میں یوم القدس کی تاثیر اور مزاحمتی محاذ کی قربانیوں کا بڑا دخل ہے۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ : "عالمی یوم القدس دنیا کے غیور مسلمانوں کو مظلوم فلسطینی قوم کے دفاع اور حمایت کی سنگین ذمہ داری کی پہلے سے زیادہ تاکید اور یاد دہانی کراتا ہے۔ امام خمینی ؒ نے اس دن کا اعلان کرکے انسانی ضمیروں کی سطح پر مسئلہ فلسطین کو زندہ رکھا اور صیہونی حکومت کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو ایک نقطے پر مرکوز کر دیا۔‘‘
آیت اللہ خمینی نے یہودی ریاست کو "سرطان" سے تعبیر کیا تھا۔ یہ سرطان اب پورے شباب پر ہے اور اس کی تکلیف پوری دنیا محسوس کر رہی ہے۔ خاص طور پر وہ عرب ملک جو "گریٹر اسرائیل" کی زد میں ہیں، وہ بھی امام خمینیؒ کی دوراندیشی اور سیاسی حکمت عملی کے قائل ہوچکے ہیں۔ گو کہ اب ان میں اتنی جرأت نہیں ہے کہ وہ اس "سرطان" کا علاج کرسکیں، مگر ان کے عوام اس کی تکلیف کی شدت سے چیخ رہے ہیں۔ یمن جو اسرائیلی ریاست کے قیام کے فوراً بعد اُردن، مصر، شام اور عراق کے ساتھ جنگ میں شامل نہیں ہوا تھا، آج اسرائیل کے خلاف میدان عمل میں ہے۔ اُردن جس کے حکمرانوں کو صہیونیوں نے اپنا ہم نوا بنا لیا تھا، وہ بھی غرب اردن میں صہیونیت مخالف تحریکوں کو پنپنے سے نہیں روک پا رہے ہیں۔ اسی طرح لبنان جس کی حکومت میں صہیونی حامی عناصر ہمیشہ شامل رہے ہیں، اب اس سرطان کے بڑھتے ہوئے دائرۂ اثر سے پریشان ہے۔ اس کی حکومت بھی حزب اللہ جیسی تنظیم کو وجود میں آنے سے نہیں روک سکی۔ اسی طرح شام اور عراق میں صہیونیت کے خلاف عوامی بیداری میں بہت تیزی آئی ہے۔
اسرائیل کے ہم سایہ ملکوں کے علاوہ غیر مسلم ملک بھی اسرائیل کے فساد سے روشناس ہو رہے ہیں اور ان کے یہاں بھی صہیونت مخالفت تحریکیں پنپ رہی ہیں۔ یوم القدس کی تاثیر پر گفتگو کرتے ہوئے آیت اللہ خامنہ ای فرماتے ہیں: ’’اگر عالم اسلام اس دن کو کما حقہ منائے اور صیہونیوں کے خلاف فلک شگاف نعرے بلند کرنے کے لئے اس دن کا بخوبی استعمال کرے تو کافی حد تک دشمن کو شکست دی جا سکتی ہے، اسے پسپائی پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔‘‘ مختصر یہ کہ امام خمینیؒ کی آواز نے پوری دنیا کی توجہات مسئلہ فلسطین کی جانب مبذول کیں اور اس انتقاضہ کو زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اگر یوم القدس کی تحریک معرض وجود میں نہ آتی تو جس شدت سے آج مسئلہ فلسطین دنیا کے سامنے موجود ہے، شاید نہیں ہوتا۔ خاص طور پر جس استقامت اور مقاومت نے خطے میں نمو پائی ہے، اس کے عناصر کو پنپنے کے لئے مزید وقت درکار ہوتا۔
یوم القدس کے آغاز کے متعلق بعض یہ کہتے ہیں کہ یہودی 1968ء سے ہر سال "یوم یروشلم" مناتے تھے، جو 1998ء میں قومی تعطیل میں بدل دیا گیا۔ "یوم یروشلم" کے خلاف امام خمینیؒ نے "یوم القدس" کا اعلان کیا، تاکہ "یوم یروشلم" کی طرز پر ہر سال ماہ رمضان کے آخری جمعہ کو اسرائیلی ناجائز قبضے اور فلسطین کی آزادی کا مطالبہ دہرایا جاسکے۔ لیکن یہ پس منظر درست معلوم نہیں ہوتا۔ کیونکہ یوم القدس کا مقصد "یوم یروشلم" کا جواب دینا نہیں تھا، بلکہ اس دن کو بطور احتجاج منانے کا مقصد یہ تھا کہ فلسطینی مظلوموں کی حمایت کی جائے اور مقدس سرزمین سے یہودی قبضے کو خالی کرانے کی تحریک میں روح پھونکی جائے، جو عربوں کی بے غیرتی کی بنیاد پر دم توڑ رہی تھی۔ امام خمینی نے جب 7 اگست 1979ء میں پہلی بار "یوم القدس" منانے کا اعلان کیا، اُس وقت اس کو شیعہ و سنّی کی عینک سے دیکھا گیا۔
مسلمانوں کی اکثریت نے یوم القدس کی مخالفت کی۔ خاص طور پر ماہ رمضان جس کو طاعت وعبادت کا مہینہ کہا جاتا ہے اور اس کا آخری جمعہ مسلمانوں کے لئے بڑی اہمیت کاحامل ہے، اس دن یوم القدس کی تحریک کو رمضان کی عظمتوں سے چشم پوشی اور عبادت و طاعت سے انحراف کا سبب قرار دیا تھا۔ اس کے پس پردہ صہیونی سازشیں کارفرما تھیں، تاکہ یوم قدس کی تحریک کو ابتدا ہی میں کچل دیا جائے۔ اس کے لئے انہوں نے تکفیری اور وہابی مولویوں اور مفتیوں کا بھی استعمال کیا۔ انجام کار مسلمانوں نے اس تحریک کے اثر کو باور کیا اور آج پوری دنیا میں "یوم القدس" منایا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر آیت اللہ خمینیؒ "یوم القدس" کی تحریک شروع نہ کرتے تو مسئلۂ فلسطین اپنے قیام کے فوراً بعد دم توڑ دیتا۔ یوم القدس نے آہستہ آہستہ رفتار پکڑی اور پھر پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ اس کے اثرات ظاہر ہونے لگے۔ جہاں صہیونی اثر تھا، وہاں انہوں نے اس نہضت میں خلل ڈالنے کی کوشش کی اور یہ مشہور کر دیا گیا کہ یوم القدس دراصل "ضد سامیت(Anti Semitism)" ہے۔ گویا کہ اسرائیل نے اس تحریک کو یہودی مخالف تحریک کے طور پر متعارف کرانے کی کوشش کی، تاکہ دنیا اس کے پس پردہ کارفرما مقصد اور مسئلہ فلسطین پر توجہ مرکوز نہ کرسکے۔
امام خمینیؒ نے پہلی بار جب فلسطین کی آزادی اور یہودی قبضے کے خلاف آواز احتجاج بلند کرتے ہوئے یوم القدس منانے کی اپیل کی تو ان کا درد دل اس طرح جھلکا: ’’میری دنیا بھر کے مسلمانوں سے اپیل ہے کہ وہ ماہ رمضان کے آخری جمعہ کو یوم القدس قرار دیں اور اس دن فلسطین کے مسلمان عوام کے قانونی حقوق کی حمایت میں اپنے اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔ میں عرصۂ دراز سے تمام مسلمانوں کو غاصب اسرائیل کے خطرے سے آگاہ کر رہا ہوں، جس نے ان دنوں ہمارے فلسطینی بہن بھائیوں پر اپنے مظالم میں اضافہ کر دیا ہے اور خاص طور پر جنوبی لبنان میں فلسطینی مجاہدین کے خاتمے کے لیے ان کے گھروں پر مسلسل بمباری کر رہا ہے۔ میں پورے عالم اسلام کے مسلمانوں اور اسلامی حکومتوں سے درخواست کرتا ہوں کہ اس غاصب اور اس کے حامیوں کے ہاتھ کاٹنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ متحد ہو جائیں اور تمام مسلمانوں کو دعوت دیتا ہوں کہ رمضان المبارک کے آخری جمعے کے دن جو ایام قدر میں سے بھی ہے اور فلسطینی عوام کی تقدیر کو واضح کرنے کا دن بھی ہوسکتا ہے، اس کو یوم القدس قرار دیں اور کسی پروگرام کے ذریعے بین الاقوامی طور پر ان مسلمان عوام کے ساتھ تمام مسلمانوں کی ہمدردی کا اعلان کریں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مسلمانوں کو کافروں پر فتح عنایت کرے۔‘‘
اس تحریک کے اثر کو عرب ملکوں نے بھی محسوس کیا اور آہستہ آہستہ ان کے عوام بھی فلسطین کے حق میں آواز بلند کرنے لگے۔ 1989ء میں اردن کی حکومت نے بھی سرکاری سطح پر یوم القدس کا اہتمام کیا تھا۔ معروف مفکر ایڈورڈ سعید لکھتے ہیں: ’’اگر مشرق وسطیٰ میں امن قائم کرنا مقصود ہے تو فلسطینیوں کے مسئلے پر سنجیدگی کے ساتھ غوروفکر کرنا ہوگا۔‘‘ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مسئلۂ فلسطین کے حل تک مشرق وسطیٰ میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ جنگ اور بدامنی اسی طرح جاری رہے گی۔ دنیا کی کوئی طاقت فلسطینیوں کو ان کے مطالبے اور جائز حق سے دست بردار نہیں کرسکتی۔ عالمی یوم القدس کے اثرات ہمہ گیر اور مسلمانوں کے ساتھ دنیا بھر کے انسانوں کے جذبات و احساسات پر محیط ہیں۔ دنیا کا کوئی بھی حق پسند اور منصف مزاج انسان اب مسئلۂ فلسطین پر دُہرے رویّے کا اظہار نہیں کرتا۔ اس رائے کی تشکیل و تعمیر میں یوم القدس کی تاثیر اور مزاحمتی محاذ کی قربانیوں کا بڑا دخل ہے۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ : "عالمی یوم القدس دنیا کے غیور مسلمانوں کو مظلوم فلسطینی قوم کے دفاع اور حمایت کی سنگین ذمہ داری کی پہلے سے زیادہ تاکید اور یاد دہانی کراتا ہے۔ امام خمینی ؒ نے اس دن کا اعلان کرکے انسانی ضمیروں کی سطح پر مسئلہ فلسطین کو زندہ رکھا اور صیہونی حکومت کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو ایک نقطے پر مرکوز کر دیا۔‘‘
آیت اللہ خمینی نے یہودی ریاست کو "سرطان" سے تعبیر کیا تھا۔ یہ سرطان اب پورے شباب پر ہے اور اس کی تکلیف پوری دنیا محسوس کر رہی ہے۔ خاص طور پر وہ عرب ملک جو "گریٹر اسرائیل" کی زد میں ہیں، وہ بھی امام خمینیؒ کی دوراندیشی اور سیاسی حکمت عملی کے قائل ہوچکے ہیں۔ گو کہ اب ان میں اتنی جرأت نہیں ہے کہ وہ اس "سرطان" کا علاج کرسکیں، مگر ان کے عوام اس کی تکلیف کی شدت سے چیخ رہے ہیں۔ یمن جو اسرائیلی ریاست کے قیام کے فوراً بعد اُردن، مصر، شام اور عراق کے ساتھ جنگ میں شامل نہیں ہوا تھا، آج اسرائیل کے خلاف میدان عمل میں ہے۔ اُردن جس کے حکمرانوں کو صہیونیوں نے اپنا ہم نوا بنا لیا تھا، وہ بھی غرب اردن میں صہیونیت مخالف تحریکوں کو پنپنے سے نہیں روک پا رہے ہیں۔ اسی طرح لبنان جس کی حکومت میں صہیونی حامی عناصر ہمیشہ شامل رہے ہیں، اب اس سرطان کے بڑھتے ہوئے دائرۂ اثر سے پریشان ہے۔ اس کی حکومت بھی حزب اللہ جیسی تنظیم کو وجود میں آنے سے نہیں روک سکی۔ اسی طرح شام اور عراق میں صہیونیت کے خلاف عوامی بیداری میں بہت تیزی آئی ہے۔
اسرائیل کے ہم سایہ ملکوں کے علاوہ غیر مسلم ملک بھی اسرائیل کے فساد سے روشناس ہو رہے ہیں اور ان کے یہاں بھی صہیونت مخالفت تحریکیں پنپ رہی ہیں۔ یوم القدس کی تاثیر پر گفتگو کرتے ہوئے آیت اللہ خامنہ ای فرماتے ہیں: ’’اگر عالم اسلام اس دن کو کما حقہ منائے اور صیہونیوں کے خلاف فلک شگاف نعرے بلند کرنے کے لئے اس دن کا بخوبی استعمال کرے تو کافی حد تک دشمن کو شکست دی جا سکتی ہے، اسے پسپائی پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔‘‘ مختصر یہ کہ امام خمینیؒ کی آواز نے پوری دنیا کی توجہات مسئلہ فلسطین کی جانب مبذول کیں اور اس انتقاضہ کو زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اگر یوم القدس کی تحریک معرض وجود میں نہ آتی تو جس شدت سے آج مسئلہ فلسطین دنیا کے سامنے موجود ہے، شاید نہیں ہوتا۔ خاص طور پر جس استقامت اور مقاومت نے خطے میں نمو پائی ہے، اس کے عناصر کو پنپنے کے لئے مزید وقت درکار ہوتا۔
تحریر: عادل فراز
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.