Print this page

ٹرمپ کی دھمکی اور ایران کا دفاعی پروگرام

Rate this item
(0 votes)
ٹرمپ کی دھمکی اور ایران کا دفاعی پروگرام

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دھمکی دی ہے کہ اگر ایران نے اپنا ایٹمی پروگرام بند نہ کیا تو مارچ میں ایران پر بمباری کرکے اس کی ایٹمی تنصیبات کو تباہ کر دیا جائے گا۔ حیرت ہے ڈونلڈ ٹرمپ ایک طرف ایران کیساتھ ’’بات چیت‘‘ کے ذریعے مسائل حل کرنے کیلئے کوشاں ہے تو دوسری جانب دھمکیاں بھی دے رہا ہے، بلکہ کھلی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ کسی بھی خود مختار ملک، جس کا ایٹمی پروگرام پُرامن مقاصد کیلئے ہے، اُسے اس انداز میں دھمکیاں نہیں دی جا سکتیں۔ یہ ایک لمحہ فکریہ ہے، ان ممالک کیلئے جو امریکہ سے کوئی اُمیدیں لگائے بیٹھے ہیں، کیونکہ کہا جاتا ہے کہ امریکہ کی دوستی اُس کی دشمنی سے زیادہ خطرناک ہے۔ امریکہ دوستی کی آڑ میں زیادہ نقصان پہنچاتا ہے، چہ جائیکہ وہ کھلا دشمن ہو۔

ایران کی جانب سے چاہیئے تو یہ تھا کہ ایرانی صدر ہی اپنے امریکی ہم منصب کو دھمکی کا جواب دیتے، یا وزارت خارجہ اس پر ردعمل دیتی، مگر صدر یا ایرانی وزارت خارجہ کی بجائے رہبر معظم آیت اللہ سید علی خامنہ ای کا امریکہ کو جواب دینا کہ ’’ایران پر حملے کی حماقت کی تو امریکہ کو منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔‘‘ اس بات کی دلیل ہے کہ ایران ’’بھرپور اور تباہ کن‘‘ جواب دینے کی پوزیشن میں ہے۔ ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے محمد بن سلمان کیساتھ گفتگو میں واضح پیغام دیا ہے کہ ایران جنگ نہیں چاہتا، مگر اپنے دفاع کیلئے سب کچھ کرنے کی پوزیشن میں ہے۔

امریکی صدر کی یہ دھمکیاں، صرف ایران کو نہیں ہیں، بلکہ ان کا نشانہ دیگر مسلم ممالک بھی بنیں گے، ایران پر اگر جنگ مسلط کی جاتی ہے تو بہت سے مسلم ممالک بے ساختہ اس جنگ کی لپیٹ میں آجائیں گے، کچھ امریکہ کی دشمنی تو کچھ امریکہ کی دوستی میں اس آگ کا ایندھن بنیں گے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ نے یہ دھمکی کیوں دی ہے؟ تو مبصرین کہتے ہیں کہ ٹرمپ کی اس دھمکی کا مقصد نیتن یاہو کا اقتدار بچانا ہے، کیونکہ اسرائیل میں نیتن یاہو  کا اقتدار ہچکولے کھا رہا ہے۔ اب نیتن یاہو کی کوشش ہے کہ اسرائیل کیخلاف کوئی جنگی محاذ کھلے اور اسرائیل کے جو عوام دو دھڑوں میں تقسیم ہوچکے ہیں، وہ ایک پیج پر آجائیں۔

اسرائیل میں ایک طبقہ سیکولر ہے، دوسرا بنیاد پرست، سیکولر طبقہ وہ ہے، جو بیرونی ممالک سے لا کر اسرائیل میں بسائے گئے تھے، انہیں بڑے بڑے سبز باغ دکھائے گئے تھے، مگر اب اسرائیل کا دفاع تارِعنکبوت ثابت ہونے پر یہ لوگ خوفزدہ ہیں اور کئی تو اسرائیل چھوڑ کر اپنے اپنے آبائی ممالک جا چکے ہیں، جو اسرائیل میں موجود ہیں، وہ حکومت پر مسلسل دباو ڈال رہے ہیں کہ حماس کی قید سے اسرائیلی قیدیوں کو رہا کروایا جائے، جنگ بند کی جائے اور غزہ پر حملے روکے جائیں، تاکہ اسرائیل پر جوابی وار نہ ہو، اسرائیلیوں کا یہ دھڑا نیتن یاہو کیلئے خطرہ بن چکا ہے۔

دوسرا دھڑا بنیاد پرست یہودی ہیں، یہ وہ اسرائیلی ہیں، جو عرب ہیں اور مقامی ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ گریٹر اسرائیل کے منصوبے پر عمل ہو اور اس کیلئے جنگ کو جنتا وسیع کیا جائے، اسے وسعت دی جائے۔ یوں ان دونوں دھڑوں کے درمیان بھی کشیدگی ہے۔ اس کشیدگی اور دباو کے باعث سارا پریشر نیتن یاہو پر ہے۔ اس لئے نتین یاہو کی خواہش ہے کہ اسرائیل پر جنگ مسلط کروا دی جائے۔ یہ دنیا بھر کا اصول ہے کہ جب کسی ملک پر حملہ ہوتا ہے، تو اس کے عوام خود بخود اپنی لڑائی اور اختلافات چھوڑ کر ایک پیج پر متحد ہو جاتے ہیں۔ نیتن یاہو کی بھی یہی خواہش ہے کہ اسرائیلی یہودیوں کا جو دھڑا اس کے اقتدار کیلئے خطرہ بن رہا ہے، وہ اسرائیل پر جنگ مسلط ہونے سے حکومت کی مخالفت چھوڑ کر حمایت میں آ جائے گا۔ اس سے تھوڑا بہت نقصان تو ہوگا، لیکن نیتن یاہو کا اقتدار بچ جائے گا۔

اس لئے نیتن یاہو ٹرمپ کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کر رہا ہے۔ ایک محدود پیمانے پر جنگ ہوسکتی ہے کہ امریکہ ایران پر کوئی میزائل داغ دے اور جواب میں ایران اسرائیل کو نشانہ بنا دے، تو یوں اسرائیلی عوام متحد ہو جائیں۔ مبصرین کہتے ہیں کہ ایران واقعی جنگ نہیں چاہتا، ایرانی صدر نے بھی یہی پیغام دیا ہے، لیکن اب ایران کی دفاعی پوزیشن بہت زیادہ مضبوط ہے، اسے دفاعی میدان میں نمایاں کامیابیاں ملی ہیں۔ ایران کو دفاعی میدان میں چین اور روس کی بھی حمایت حاصل ہے۔ چین اور روس نے جو جدید ہتھیار بنائے ہیں، ایران کیساتھ امریکی جنگ کی صورت میں انہیں بھی آزمایا جا سکتا ہے اور اس صورتحال سے امریکہ و اسرائیل دونوں اچھی طرح آگاہ ہیں۔

ایران کے میزائل سسٹم اور ڈرون ٹیکنالوجی نے امریکیوں کی نیندیں حرام کی ہوئی ہیں۔ امریکی و اسرائیلی دفاعی نظام بھی ایران کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوچکے ہیں۔ اس صورتحال میں امریکہ اگر ایران پر حملے کی حماقت کرتا ہے تو جوابی وار برداشت نہیں کر پائے گا۔ کیونکہ ایرانیوں کیساتھ جدید ترین ٹیکنالوجی کیساتھ ساتھ ایک ایسی چیز بھی ہے، جو امریکہ و اسرائیل کے پاس نہیں، وہ ہے، جذبہ شہادت، ایرانیوں میں یہ جذبہ بدرجہ اُتم موجود ہے اور اس کا مقابلہ دنیا کی کوئی ٹیکنالوجی نہیں کرسکتی۔ ایرانی فوجی، شہادت کو اپنے لئے اعزاز سمجھتے ہیں، جہاں موت کا خوف ختم ہو جائے وہاں، ٹیکنالوجی کو بھی شکست ہو جاتی ہے۔

ایران نے اپنے میزائلوں کا رُخ امریکی اڈوں کی طرف کر دیا ہے۔ یمن میں بھی حملوں کو ’’وقتی طور پر‘‘ روک دیا گیا ہے، جس کا مقصد ایران کا یو ٹرن نہیں، بلکہ یمن کی پوزیشن کو مزید مضبوط بنانا ہوسکتا ہے۔ اس لئے جو حلقے یہ سمجھ رہے ہیں کہ ایران نے یمن سے ہاتھ اُٹھا لیا ہے، وہ یہ یاد رکھیں کہ یمن ایران کا دفاع ہے اور ایرانی اپنے دفاع سے غافل نہیں، بلکہ وہ پہلے سے زیادہ مضبوط اور بیدار ہیں اور اس صورتحال میں ایران پر حملے کی حماقت امریکہ و اسرائیل کیلئے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔

تحریر: تصور حسین شہزاد

Read 10 times