Print this page

ہفتہ وحدت اور وحدت کے جدید آفاق

Rate this item
(0 votes)
ہفتہ وحدت اور وحدت کے جدید آفاق

ہفتہ وحدت کا پیغام صرف مذہبی اتحاد تک محدود نہیں ہونا چاہیئے۔ یہ ہفتہ ہمیں اپنے فکری، علمی، سائنسی اور اقتصادی اتحاد کیلئے نئے زاویئے تلاش کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ کیا یہ مقامِ تعجب نہیں کہ اپنے خون سے دفاع، مزاحمت اور قربانی کی  لازوال داستانیں رقم کرنے والی مسلمان قوم کے جوان آج یہ نہیں جانتے کہ وہ اس جدید عہد میں کیسے زندہ رہیں۔ مذکورہ بالا عبارت میں نے اپنے حالیہ تجزیئے میں بیان کی تھی۔ راقم الحروف نے یہ تجزیہ حالیہ دنوں میں وائس آف نیشن کے پلیٹ فارم سے ایک آنلائن کانفرنس کے دوران پیش کرنے کی سعادت حاصل کی ہے۔ سیشن کے دوران ہفتہ وحدت اور مسلم دنیا کی موجودہ صورتحال پر گفتگو کرنے کیلئے بنگلہ دیش (ڈھاکہ) سے مفتی ہمایوں فیروز پوری صاحب بھی آنلائن تھے۔ سیشن کا افتتاحی خطبہ محترم منظوم ولایتی صاحب نے بیان کیا اور نظامت کے فرائض منظور حیدری صاحب نے انجام دیئے۔

مفتی ہمایوں فیروز پوری صاحب نے اپنی گفتگو میں اہلِ سنّت اور اہلِ تشیع کی داخلی وحدت اور پھر باہمی وحدت کے حوالے سے بہت مفید گفتگو کی۔ ان کی گفتگو کے بعد میں نے کانفرنس کے شرکاء کے سامنے ہفتہ وحدت اور مسلم دنیا کی موجودہ صورتحال پر جو تجزیہ پیش کیا، اس میں ایک زاویہ یہ تھا کہ ہم مسلمانوں نے اپنے نوجوانوں کو دین کیلئے جان دینے اور شہید ہونے کیلئے تو تیار کیا ہے، لیکن دین کی بالا دستی کیلئے اپنے جوانوں کی زندگیوں کو منشیات، جہالت، بیروزگاری اور فحاشی سے محفوظ بنانے کا شعور ہم میں آج تک نہیں۔ ہمیں ہفتہ وحدت میں اس حوالے سے بھی متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ ہم سب نے مل کر اپنے اپنے ملک کے  اندر مسلمان جوانوں کو جنت کے حصول کا مشترکہ خواب تو دکھایا، لیکن ہم نے اس دنیا کو جوانوں کیلئے جنت بنانے کی مشترکہ طور پر آرزو نہیں کی۔

آج ہمارے جوانوں کو دشمنوں کی گولیوں سے زیادہ سوشل میڈیا، منشیات، ملاوٹ شدہ غذاوں، زہریلے پانی اور جہالت سے خطرہ ہے۔ ایسا اس لئے ہے کہ ہم نے لوگوں کو قبر میں جنت کے باغات تو بتائے، لیکن اس دنیا کی نعمتوں اور اس زندگی کی سرسبز وادیوں سے انہیں غافل کر دیا۔؟ ہم نے محض مرنے کے بعد جنّت کی تعلیم  تو دی، لیکن جیتے جی اس دنیا کو ریاستِ مدینہ کی مانند جنت بنانے کی تعلیم کو نظرانداز کیا۔ دوسری طرف مجھے مختصراً یمن کا تذکرہ بھی کرنا تھا، چنانچہ میں یہ کہہ کر آگے بڑھ گیا کہ آج یمن کے سمندروں سے اٹھتی ہوئی آگ ہمیں یہ سمجھا رہی ہے کہ اسلام کا پیغام فرد کی روحانیت اور عبادات تک محدود نہیں بلکہ اسلام کا مقصد کمزور، مستضعف اور مظلوم کا ساتھ دینا ہے۔ یہ گفتگو کا دوسرا زاویہ تھا۔ یہیں پر ہفتہ وحدت اور بلیک ستمبر کا ذکر بھی ضروری تھا۔

اس حوالے سے میں فقط اتنا ہی کہہ سکا کہ یہ ستمبر کا مہینہ ہے اور یہ مہینہ ہمیں بلیک ستمبر کی یاد دلاتا ہے۔ یہ مہینہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم نے سلطانِ جابر کے سامنے کلمہ حق کہنے کو تو ایمان کا تقاضا کہا، لیکن جہالت کے جبر کے خاتمے کو اپنے ایمان کا تقاضا نہیں سمجھا۔ یہ کیسی جہالت ہے کہ اس مہینے میں خود اُردن کے مسلمان فوجیوں نے ہی بیس ہزار فلسطینیوں کا قتلِ عام کیا۔؟ اب گفتگو کا ایک اور باب کھلا اور وہ یہ کہ ہم ایک صادق اور امین نبیؐ کی اُمّت ہیں، لیکن اس کے باوجود سچائی سے آنکھیں چرانے کو گناہ نہیں سمجھتے۔ سچائی تو یہ ہے کہ   سائنس اور ٹیکنالوجی کے اس دور میں ہم نے کشمیر و فلسطین کے اندر اپنے ہی بچوں کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا ہے اور انہیں زندہ رکھنے کیلئے ہمارے پاس کوئی منصوبہ بندی نہیں۔ ہم نے ان کے دلوں میں شجاعت اور قربانی کی آرزو تو پیدا کی، مگر انہیں زندگی کی پیچیدہ راہوں کو طے کرنے کیلئے کوئی پناہ گاہ نہ دے سکے۔

ہم نے ساری دنیا میں نامحرم کو نہ دیکھنے کو تو اپنے ایمان سے جوڑا، لیکن جدید زمانے کے تقاضوں کو نہ دیکھنے کو بھی اپنا ایمان بنا لیا ہے۔ گویا جدید تعلیم اور سائنس و ٹیکنالوجی بھی ہمارے لئے نامحرم کا درجہ رکھتی ہے۔ اب مسلمانوں کے موجودہ حالات کے حوالے سے مجھے فلسطین کا ذکر بھی کرنا تھا۔ مجھے اس امر کا اعتراف کرنا پڑا کہ ایک طرف تو  "واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولاتفرقوا" کے قرآنی حکم پر ہم عمل کرنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف ہماری آنکھوں میں ان فلسطینی مہاجرین کیلئے کوئی آنسو نہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ان کی تعداد 7 سے 8 ملین کے درمیان ہے۔ ان بے چاروں کو آخر کب تک یونہی مہاجر رہنا ہوگا۔ یہ مہاجرین 1948ء کے "نکبہ" (The Nakba) کے دوران فلسطین سے اپنے گھروں اور علاقوں سے بے دخل ہوئے تھے، اس وقت کی فلسطینی مہاجرین کی ابتدائی تعداد تقریباً 750,000 تھی۔

آج یہ مہاجرین مختلف ممالک اور پناہ گزینی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اردن میں سب سے زیادہ فلسطینی مہاجرین موجود ہیں، جہاں تقریباً 2.2 ملین فلسطینی آباد ہیں، جن میں سے کئی مہاجر کیمپوں میں رہائش پذیر ہیں۔ لبنان میں بھی تقریباً 450,000 سے 500,000 فلسطینی مہاجرین موجود ہیں، جنہیں مختلف پناہ گزین کیمپوں میں رکھا گیا ہے اور ان کی زندگی انتہائی دشوار ہے۔ مصر، شام اور دیگر عرب ممالک میں بھی فلسطینی مہاجرین کی موجودگی ہے اور ان کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی (UNRWA) کے مطابق، 2021ء تک فلسطینی مہاجرین کی تعداد تقریباً 5.7 ملین تک پہنچ چکی تھی۔ کیا ان مہاجرین کو واپس ان کے گھروں تک پہچانا بھی دعوت و اصلاح کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں۔؟ ہمیں آج سوچنا چاہیئے کہ ہم کیسے اے آئی کے ذریعے اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں کی مدد کرسکتے ہیں۔؟ کیا ہم آئندہ بھی دنیا سے کشمیریوں و فلسطینیوں کیلئے آزادی کی بھیک مانگتے رہیں گے؟ یا ہم خود اپنی تقدیر بدلنے کے لیے کچھ عملی اقدامات کریں گے؟

خصوصی طور پر، مصنوعی ذہانت (AI) جیسے جدید ٹولز کو دیکھتے ہوئے ہمیں سوچنا چاہیئے کہ کیا ہم بھی کبھی اِن ٹولز کو اپنے حقوق کے حصول کیلئے استعمال کرنا سیکھیں گے۔ ہمیں آج یہ سوچنا ہوگا کہ اے آئی کی مدد سے ہم مسلمانوں کی بہتر زندگی کے مواقع کیسے پیدا کرسکتے ہیں۔ اس کے ذریعے ہم مسلمان جوانوں کے لیے کون سی منصوبہ بندی کرسکتے ہیں، انہیں روزگار کے کون سے مواقع دے سکتے ہیں اور جدید عہد میں انہیں انسانی اقدار کا پابند کیسے بنا سکتے ہیں۔؟ ہفتہ وحدت میں ہمیں مصنوعی ذہانت اور دیگر جدید ٹیکنالوجیز کو اپنی وحدت و فلاح و بہبود کے لیے استعمال کرنے کے بارے میں سوچنا ہوگا۔ ہمیں یہ منوانا ہوگا کہ ہمارے  دین کی سچائی صرف آخرت کے افق پر نہیں چمکتی، بلکہ اس دین پر عمل کرکے ہم دنیا میں بھی ایک کامیاب زندگی بسر کرسکتے ہیں۔ ہمیں یہ ماننا چاہیئے کہ ہم نے ہمیشہ دعوت و اصلاح کو صرف عبادات اور آخرت کے دائرے تک محدود سمجھا اور یہی ہماری ناسمجھی ہے۔

میرے تجزیئے کا مرکزی خیال یہ تھا کہ ہفتہ وحدت ہمیں یہ بتاتا ہے کہ دعوت و اصلاح کا دائرہ صرف عبادات تک محدود نہیں ہونا چاہیئے۔ ہمیں اپنے مظلوم بھائیوں کی نجات کے لیے مصنوعی ذہانت اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے وحدت کے نئے طریقے تلاش کرنا ہوں گے۔ اگر ہم نے اس پر عمل کیا تو ہم جہانِ اسلام میں ایک نئی وحدت  کا آغاز کرسکتے ہیں اور اگر ہم نے اس پر عمل نہ کیا تو یاد رکھیں کہ کوئی بھی نظریہ چاہے وہ کتنا ہی مفید کیوں نہ ہو، اگر اس پر عمل نہ کیا جائے تو وہ بے فائدہ ہی ہوتا ہے۔ مسلمانوں کیلئے فلاح و بہبود کی نئی راہیں تب ہی کھل سکتی ہیں، جب ہم ٹیکنالوجی، دین اور اخلاقیات کو ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ کریں۔ اس سیشن میں ہم نے کچھ تجاویز پیش کرنی تھیں، جو وہاں تو پیش نہ کرسکے، البتہ  اس وقت پیشِ خدمت ہیں۔

ہماری تجویز ہے کہ ہفتہ وحدت کی برکت سے مسلمان AI اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے دنیا بھر میں جدید تعلیم تک اپنی رسائی کو بڑھانے کیلئے ایک دوسرے سے تعاون کریں، اس سلسلے میں نوجوانوں کو سکالرشپ، آگاہی، شعور اور حوصلہ دیں۔ اسی طرح مسلم دنیا میں صحت کے شعبے میں جدید ٹیکنالوجی جیسے AI اور بایوٹیکنالوجی کا استعمال بیماریوں کی تشخیص، علاج اور ادویات کی پیداوار میں انقلاب لا سکتا ہے۔ غربت اور بیروزگاری کے خاتمے کے لیے بھی AI کو معیشت میں بہتری لانے اور روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیئے۔ مزید براں کرپشن اور بدعنوانی کے خاتمے کیلئے ٹیکنالوجی کا استعمال ناگزیر ہے۔ماحولیاتی تحفظ کے لیے بھی جدید ٹیکنالوجی جیسے AI کو استعمال کرکے آلودگی اور موسمی تبدیلیوں کا مقابلہ ضروری ہے۔ ہمیں گلوبل یونٹی اور امن کے قیام کے لیے، AI اور سوشل میڈیا کے ذریعے مختلف قوموں اور مذاہب کے درمیان بات چیت اور تعاون بڑھانا چاہیئے۔ پائیدار ترقی کے لیے ٹیکنالوجی کی مدد سے ہمیں کسٹمر اور کنزیومر کے بجائے پروڈکشن کے میدان میں اپنا لوہا منوانا چاہیئے۔

یہ سب تبھی ممکن ہے کہ جب مسلمان جوانوں کو  فرقہ واریّت، علاقائیت اور لسانیّت کے بجائے اجتماعی فلاح و بہبود کی سوچ اپنانے کی ترغیب دی جائے، اگر ایسا ہو جائے تو مسلمان ممالک کے وسائل آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ رہیں گے۔ بصورت دیگر ہماری آئندہ نسلوں کو دینے کیلئے ہمارے پاس کچھ بھی نہیں رہے گا۔ اے آئی میں مہارت کے بغیر ہماری آئندہ نسلوں کو ہر قدم پر ایک پاسورڈ کی ضرورت ہوگی اور وہ پاس ورڈ انہیں مفت میں نہیں ملے گا۔ حتی کہ انہیں ہر سانس کی قیمت ادا کرنی ہوگی۔ ہمیں اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہیئے کہ اس مرتبہ ہفتہ وحدت اپنے ہمراہ جدید دنیا کے ماڈرن چیلنجز کو لئے ہوئے ہے۔ ہمیں اسلامی دنیا کے درمیان وحدت، ہم آہنگی، تعاون، مواخات، ہمدردی اور اتحاد کے لئے آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی وساطت سے وحدت کے نئے آفاق تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ جی ہاں! ہفتہ وحدت کا پیغام صرف مذہبی اتحاد تک محدود نہیں ہونا چاہیئے۔ یہ ہفتہ ہمیں اپنے فکری، علمی، سائنسی اور اقتصادی اتحاد کیلئے نئے زاویئے تلاش کرنے کی دعوت دیتا ہے۔
 تحریر: ڈاکٹر نذر حافی
 
 
Read 11 times