Print this page

انا علی العھد

Rate this item
(0 votes)
انا علی العھد

ہاں ہم اپنے عہد پر قائم ہیں___ 
اس عہد پر جو ہم نے ایک مرد الہیٰ سے کیا___
یہ خون کا عہد ہے___
اس مرد الہیٰ سے 
جو ظلمتوں کی سیاہ راتوں میں عزمِ حسینی کا روشن چراغ تھا
جسے 
دار و رسن کی سختیاں
دشمنوں کی گیدڑ بھبھکیاں
اہل ستم کی دھمکیاں
خنجر و شمشیر کی چمک
نیزہ و سنان کی دمک 
زریں تاجوں کی چمک
 بارودی گولوں کی بارش
آستیں کی سانپوں کی سازش
کوئی بھی چیز 
 اُس مردِ آہنی کے قدم نہ روک سکی___

وہ جس کی آنکھوں میں
شہادت کی چمک تھی،
اور دل میں عشقِ حق کی تپش۔
سید حسن نصر اللہ!___
وہ سید لبنانی
جس کی استقامت نے ہمیں بتایا
کہ مردانگی جسم کی طاقت نہیں،
عزم و ہمت و ارادہ کی طاقت ہے 
جو روح سے متعلق ہے____ 
اور روح 
اتنی عظیم ہوتی ہے کہ اسے ہزاروں ٹن بارود گرا کر بھی نہیں مارا جا سکتا.
اس لئے کہ مردان الہیٰ کا جسم تو ان کے لئے ایک قفس کی صورت ہوتا ہے۔۔
روح جب بڑی ہو جائے تو جسم میں کہاں رکتی ہے؟۔۔۔

سچ کہا متنبی نے 
"وَإِذا كانَتِ النُفوسُ كِباراً
تَعِبَت في مُرادِها الأَجسامُ
"
بات یہاں کہاں ختم ہوتی ہے، بات کا آغاز یہاں سے ہے کہ جو بیش قیمت ہے، وہ جہاں بھی ہو، غریب ہے، چاہے اپنوں ہی کے درمیان کیوں نہ ہو، اس کا خریدار تو بس خدا ہے۔
"وهكذا كنت في أهلي وفي وطني
إِنَّ النَفيسَ غَريبٌ حَيثُما كانا
"
حسن نصراللہ (رح) کی ذات بھی ایسے ہی گوہر نایاب کی مانند تھی
جس کی قدر زمانے نے نہ کی، بالکل اس کے آقا و مولا علی (ع) کی طرح 
جس کے لئے جارج جرداق نے کہا
"*زمانے تیرا کیا بگڑ جاتا کہ ہر دور کو ایک علی (ع) مل جاتا*" 
آج ہم کہہ سکتے ہیں "*زمانے تیرا کیا بگڑ جاتا کہ ہر قوم کو ایک "نصراللہ" مل جاتا کہ ہمیں ہر ایک سے زیادہ اس کی ضرورت ہے*

وہ مرد مجاہد___
 جو  
اہل حق کے نام یہ پیغام چھوڑ گیا
کہ خوں بہے تو بہے،
جذبہ حق پرستی کبھی نہ تھمے
وفا کبھی نہ مرے
مظلوموں کی مدد سے ہاتھ کبھی نہ کھنچے
چاہے اس کی قیمت کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو۔
"نحن شیعه علی ابن ابی طالب"  
کہنا آسان ہے__
ثابت کرنے کے لئے عزم "نصر اللہیٰ" چاہیئے 
وہ عزم____
 جو منوں ٹن بارود اور اسلحوں کی کھیپوں سے نہ دب سکا
"نعیم قاسم" کی شکل رخِ ظالم پر "طمانچہ" بن کر زندہ ہے۔
اور دنیا بھر میں عزم نصر اللہیٰ رکھنے والے جیالوں کی صورت ظالموں کی نیندیں اڑا رہا ہے

سچ ہے 
ظلم کی راتیں طویل ہو جائیں___ 
تو ایک 86 سالہ بوڑھا
نویدِ سحر لئے
خاک شفا پر سر کو خم کرکے 
جب سر اٹھاتا ہے
تو دنیا کے ظالموں کے سر
اس کے سامنے اعلان عاجزی کے ساتھ جھک جاتے ہیں اور جب وہ "*یا علی*" کہہ کر 
آگے بڑھتا ہے۔
*بنام نام حیدر جنگ آغاز می گردد
علی (ع) با ذوالفقار حیدر به خیبر باز می گردد"
 تو اہل ستم کے چہرے دھواں دھواں ہو جاتے ہیں___

اور وہ ثابت کر دیتا ہے
ہزاروں گیدڑ مل کر وہ کچھ نہیں کرسکتے جو بوڑھا شیر اپنی انگڑائی سے کر گزرتا ہے
وہ ثابت کرتا ہے کہ اگر مردانگی ہو
اور اپنے عہد پر قائم رہا جائے تو ایک اکیلا انسان
تاریخ بدل سکتا ہے
 مسلم خوابيدہ اٹھ، ہنگامہ آرا تو بھي ہو. وہ چمک اٹھا افق، گرم تقاضا تو بھی ہو.
 مانا کہ ظلم و ستم کے محاذ پر محاذ کھل رہے ہیں
 برہنہ جارحیت کا عفریت معصوموں کی لاشوں پر بھمہیت کا ننگا ناچ ناچ رہا ہے
لیکن حسینیت کا پرچم لئے 
اب بھی کچھ جیالے بساط حریت پر جمے ہوئے اپنے اس عہد پر قائم ہیں
جو عہد انہوں نے سید مقاومت سے کیا۔ جو خون کا عہد ہے 
*انا علی العہد*

تحریر: سید نجیب الحسن زیدی

Read 10 times