Print this page

امریکہ سے محبت کرنے والے ضرور پڑھیں۔ منافقت، نیکی کے بجائے برائی کو ترجیح

Rate this item
(0 votes)
امریکہ سے محبت کرنے والے ضرور پڑھیں۔ منافقت، نیکی کے بجائے برائی کو ترجیح

ارنا  کے مطابق امریکی مصنف اور سیاسیات کے پروفیسر اور  واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار کے طور پر کام کرتے ہیں امریکی میگزین "ٹائم" میں لکھتے ہیں: امریکی منافقت سے نفرت کرتے ہیں۔ ہم اسے بے نقاب کرتے ہیں، اس پر ہنستے ہیں، اور اس سے نفرت کرنے کا بہانہ کرتے ہیں۔ لیکن اگر سیاست میں منافقت نہ صرف ناگزیر بلکہ ضروری بھی ہو تو کیا ہوگا؟ کیا ہوگا اگر وہی چیز جو ہم سوچتے ہیں کہ ہمیں کمزور کرتی ہے دراصل وہی چیز ہے جو ہمیں مضبوط کرتی ہے؟ امریکی منافقت کی تاریخ المناک حد تک طویل ہے۔ میں اپنے ملک کے لیے جو بھی خواہشات رکھتا ہوں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ ہماری منافقت ختم ہو۔ میری اب بھی یہ آرزو ہے ، لیکن اس کا یقین نہیں ہے۔

ایک وقت تھا جب میں سمجھتا تھا کہ منافقت سب سے بڑی اخلاقی برائی ہے، شاید سب سے بڑی۔ جب میں فلاڈیلفیا کے مضافاتی علاقے میں ایک اسلامی اسکول میں پڑھتا تھا تو منافق ایک بہت ہی دلکش اور پراسرار شخصیت تھا۔ قرآن مجید میں منافقین ایک مخصوص گروہ ہیں جن کا ذکر 29 سورتوں میں بار بار آیا ہے۔ انہیں سب سے برا قرار دیا گیا ہے، کیونکہ وہ تمہارے کھلے دشمنوں سے زیادہ خطرناک تھے، کیونکہ وہ تمہارے دوست ہونے کا دعوی کرتے تھے جب کہ حقیقت میں وہ دوست نہیں تھے۔

بعد میں جب کالج میں گیا،  تو میں جنگ مخالف کارکن کی حثیت سے مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے ریکارڈ سے  سخت نالاں تھا ،  میں نے امریکی خارجہ پالیسی کی بے ایمانی اور منافقت کا بہت قریب سے مشاہدہ کیا۔

امریکہ جمہوریت کا دم بھرتا ہے لیکن انتہائی سفاک آمروں کی حمایت کرتا ہے۔ میں ایسے اجتجاجی خیمے بھی لگائے کہ امریکہ اپنی ہائپوکریسی کی وجہ سے امریکہ عالمی قیادت کے لیے نااہل ہوچکا ہے۔ ہمارے یعنی امریکیوں کے  قول اور فعل کے درمیان تضاد ان تمام اقدار کے ساتھ غداری ہے جنہیں میں پسند کرتا ہوں۔

عراق جنگ نے ظاہر کیا کہ آزادی اور جمہوریت کی ہماری بیان بازی کتنی کھوکھلی ہے۔ اچانک، ایک بلا اشتعال حملے کو جواز فراہم کرنے کے لیے، ہم "عرب جمہوریت" پر ایمان لے آئے تھے؟ لیکن عراق جنگ اس سے مستثنیٰ نہیں تھی بلکہ یہ امریکہ میں ایک طویل روایت کا تسلسل تھا، خود کو معصوم ظاہرکرکے اپنے اندر کی بد خوئی پر پردہ ڈالنا۔

ہم کئی دہائیوں سے جمہوریت کی آڑ میں چلی سے لے کر ایران تک اور ایران سے لے کر کانگو تک منتخب عوامی لیڈروں کے خلاف بغاوتیں کر رہے ہیں۔ 

1953 میں ایران میں "آپریشن ایجیکس" پر غور کریں۔ تھیوڈور روزویلٹ کا پوتا کرمٹ روزویلٹ، منتخب ایرانی وزیر اعظم محمد مصدق کا تختہ الٹنے کے مشن کے ساتھ تہران پہنچا کیونکہ مصدق نے  ملک کی تیل کی صنعت کو قومیانے کی جسارت کی تھی۔ سی آئی اے نے جعلی پروپیگنڈہ کیا، کرائے کے فوجیوں کا ہجوم اکٹھا کیا، اور چند ہی دنوں میں بغاوت کامیاب ہوگئی۔ ایسا لگتا ہے کہ دونوں روزویلٹس میں کچھ مشترک تھا: تھیوڈور لاطینی امریکہ میں اپنی "چھڑی" کے ساتھ اور کرمٹ مشرق وسطی میں اپنے "پیسے سے بھرے سوٹ کیس" کے ساتھ۔

Read 7 times