Print this page

ایران کی فوجی مشقیں اور امریکہ میں صف ماتم

Rate this item
(0 votes)
ایران کی فوجی مشقیں اور امریکہ میں صف ماتم

سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی زمینی افواج کے آپریشنز کے ڈپٹی چیف آف سٹاف بریگیڈیئر جنرل ولی معدنی اور شنگھائی تعاون تنظیم کی انسداد دہشت گردی کی انتظامی کمیٹی کے نمائندے جنرل سرگئی کسنین کی جانب سے کی گئی پریس کانفرنس میں سہند 2025ء فوجی مشقوں کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔ پریس کانفرنس میں کیے گئے اعلان کے مطابق، مشترکہ انسدادِ دہشت گردی مشقوں میں، ایران، چین، بیلاروس، پاکستان، بیلجیم، کرغزستان، روس، تاجکستان اور ازبکستان نے  شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن کی حیثیت سے اپنی افواج کے خصوصی یونٹس کو اس فوجی مشق میں شرکت کے لیے بھیجا ہے۔ سعودی عرب، آذربائیجان اور عراق کی افواج بھی اس مشق میں بطور مبصر حصہ لے رہی ہیں۔ پریس کانفرنس کے مطابق اس ایونٹ میں مختلف ممالک کے 20 اعلیٰ سیکورٹی اہلکار، 60 چیف آف اسٹاف اور آپریشنل یونٹس کے 40 کمانڈر حصہ لے رہے ہیں۔

سہند 2025ء فوجی مشق کی مدت پانچ دن ہے۔ مجلس شورائے اسلامی میں شیراز اور زرگان کے نمائندے اور پارلیمانی کمیشن برائے قومی سلامتی و خارجہ پالیسی کے سربراہ ابراہیم عزیزی نے فارس نیوز ایجنسی کے رپورٹر سے بات چیت میں کہا ہے کہ سہند 2025ء مشقوں کے انعقاد سے علاقائی سلامتی کے معاملات میں ہمارے ملک کے بڑھتی ہوئی پوزیشن کا اظہار ہوتا ہے۔ آج اسلامی جمہوریہ ایران نہ صرف شنگھائی تعاون تنظیم کا فعال رکن ہے، بلکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دائرے میں ایک بنیادی کردار کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ ان مشقوں کی میزبانی سے ثابت ہوتا ہے کہ ایران نے ایک ذمہ دار طاقت کے عنوان سے، کثیر القومی مشقوں کے انعقاد کے لئے علاقائی ممالک کا اعتماد حاصل کر لیا ہے۔ قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کمیشن کے سربراہ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ہے کہ وسیع پیمانے پر، مختلف ممالک کے وفود کی شرکت خطے اور اس سے باہر کے علاقوں کے لئے ایک واضح پیغام کی حامل ہے اور یہ اجتماعی سلامتی، اجتماعی تعاون کا نتیجہ ہے۔

آج شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک اس مشترکہ فہم تک پہنچ چکے ہیں کہ دہشت گردی کے خطرات سرحدوں تک محدود نہیں رہتے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لئے ممالک کی "صلاحیتوں کے باہمی اشتراک و اتحاد" کی ضرورت ہے۔ یہ مشقیں بین الاقوامی برادری کو تصادم کے بجائے تعاون پر مبنی پیغام بھیجتی ہیں۔ عزیزی نے کہا ہے کہ ہمارا ملک گذشتہ دہائیوں میں دہشت گردی کا شکار رہا ہے، لیکن ایران اپنی دفاعی اور معلوماتی صلاحیتوں پر بھروسہ کرتے ہوئے آج دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سرفہرست ممالک میں شامل ہے۔ انھوں نے واضح کیا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کو یہ تجربات منتقل کرنا، مشق کے انعقاد کے اہم ترین مقاصد میں سے ایک ہے۔ ایران نے ثابت کیا ہے کہ میدانی مقابلے کی صلاحیت کے علاوہ، منصوبہ بندی، کمانڈ اور انسداد دہشت گردی کے لئے کارروائیوں کے انتظام کے دائرے میں بھی اعلیٰ سطح کی صلاحیتیں رکھتا ہے۔

12 روزہ مسلط کردہ جنگ میں ایرانی قوم کے مضبوط دفاع کے بعد ایران میں شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کی شرکت کے ساتھ "سہند 2025ء انسداد دہشت گردی مشق" کا انعقاد ایران کے لیے بہت ہی قابل قدر نتائج اور اثرات کا حامل ہوگا۔ اس فوجی مشق کا، ایک اہم علاقائی ایونٹ اور ایک تزویراتی و آپریشنل حکمت عملی کے نقطہ نظر سے تجزیہ کیا جانا چاہیئے۔ اس مشترکہ مشق کے انتہائی قیمتی اثرات اور نتائج پر توجہ دینے کے لیے ضروری ہے کہ دیکھا جائے کہ اس میں کونسے ممالک شریک ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے تمام 10 رکن ممالک، جن میں ایران، ازبکستان، بیلاروس، پاکستان، تاجکستان، بھارت، چین، روس، قازقستان اور کرغزستان شامل ہیں، اس فوجی مشق میں شریک ہیں۔

اس ملٹری ایکسرسائز کو جاننے کے لئے مندرجہ ذیل نکات کو مدنظر رکھا جانا چاہیئے۔
1۔ اس تنظیم کے رکن ممالک کا رقبہ زمین کے کل رقبے کا ایک چوتھائی ہے، جس میں دنیا کی تقریباً 45 فیصد آبادی ہے۔
2۔ یہ مشق اسلامی جمہوریہ ایران میں اور پاسداران انقلاب اسلامی کی زمینی افواج کی ذمہ داری کے تحت منعقد کی جائے گی۔
3۔ گذشتہ 47 برسوں میں ایران دہشت گردی کا سب سے بڑا شکار رہا، لیکن امریکہ سمیت بعض مغربی ممالک نے ایران کو دہشت گردی کے ایک اسپانسر کے طور پر متعارف کرایا اور اس الزام کے بہانے ایران کو انتہائی ظالمانہ پابندیوں سمیت مختلف دباؤ کا نشانہ بنایا۔

4۔ دہشت گردی کی ایک مخصوص تعریف کرکے امریکی حکومت اپنی بالادستی کا نظام نافذ کرنے کے لئے اپنے مخالف ممالک کو دہشت گرد ممالک یا دہشت گردی کے اسپانسر کے طور پر متعارف کراتی ہے اور پھر اس بہانے انہیں دباؤ میں لانے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ اس وقت ہے جبکہ امریکہ خود دنیا کے دہشت گردوں کا سرغنہ ہے اور اس نے اپنی پالیسیوں اور مفادات کے لئے داعش جیسے خطرناک ترین دہشت گرد گروہوں کو بنایا، انہیں اسلحہ سے لیس کیا، ان کی حمایت کی اور انہیں استعمال کیا۔
5۔ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی نے گذشتہ دہائیوں میں قومی اور علاقائی سطح پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کا علمبردار ہونے کے ساتھ ساتھ شہید جنرل حاج قاسم سلیمانی کی کمان میں داعش دہشت گرد گروہ کے خلاف جنگ میں ایک شاندار ریکارڈ قائم کیا ہے۔ بدقسمتی سے کچھ مغربی ممالک اور ان کے پیروکاروں جیسے کہ آسٹریلیا وغیرہ نے سپاہ پاسداران کو دہشت گرد گروپ یا دہشت گردی کے اسپانسر کے طور پر پیش کیا ہے۔

مندرجہ بالا نکات پر غور کرتے ہوئے، بریگیڈیئر جنرل ولی منانی کی سربراہی میں ایران میں مشترکہ انسداد دہشت گردی مشق سہند 2025ء کا انعقاد کیا گیا ہے۔ اس فوجی مشق کی مسئولیت IRGC کی زمینی فورس کے آپریشنل یونٹ کے ذمہ ہے۔ یہ فوجی مشق دہشت گردی اور دہشت گردوں کی عالمی کارروائیوں کے بارے میں علمی، منصفانہ اور حقیقت پسندانہ نظریہ کے ساتھ ایک حقیقی تبدیلی کے مظہر کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس قسم کا یہ نیا علمی نظریہ، جو مختلف شعبوں اور دنیا کے کونے کونے میں تشکیل پا رہا ہے، یقینی طور پر نئے عالمی نظام کی فکری اور نظریاتی بنیادیں فراہم کرے گا۔ مثال کے طور پر، آپریشن طوفان الاقصیٰ سے پہلے، مغربی میڈیا ایک غیر حقیقی اور غلط تصورات کی بنیاد پر صیہونی حکومت کو ایک  جمہوری اور اخلاقی حکومت سمجھتا تھا اور دوسری طرف اپنی مقبوضہ سرزمین کی آزادی کے لیے لڑنے والے فلسطینیوں کو اکثر رائے عامہ میں دہشت گرد تصور کیا جاتا تھا۔

لیکن اب دنیا کی مختلف قومیتوں کے لوگ حتیٰ کہ یورپ اور امریکہ کے باشندے بھی تاریخی حقائق سے آگاہ ہوچکے ہیں اور انہوں نے نہ صرف اپنے سابقہ ​​نظریات سے خود کو دور کر لیا ہے، بلکہ فلسطین کی آزادی اور صیہونی حکومت کی نابودی کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں۔ آج نیتن یاہو اور صیہونی حکومت کے دیگر رہنماء غزہ اور مغربی ایشیائی خطے کے دیگر ممالک میں جنگی جرائم کے ارتکاب پر اقوام عالم کی نظر میں سب سے زیادہ قابل نفرت لوگ ہیں۔ لہٰذا، عالمی پیش رفت کے تزویراتی نقطہ نظر کے ساتھ، امریکہ کی طاقت اور وقار میں کمی اور ڈالر کی طاقت کو توڑنے کے لئے برکس یونین میدان میں حاضر ہے۔ برکس کے ذریعے پابندیوں اور ڈالر مخالف محاذ کی تشکیل نیز، اقوام کی بیداری اور ایشیاء میں تعاون اور ہم آہنگی کی مضبوطی کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم سے ہمیں توقع کرنی چاہیئے کہ وہ طاقت کو مغرب سے مشرق کی جانب منتقل کرنے میں بنیادی کردار ادا کرے گی۔

سہند 2025ء انسداد دہشت گردی مشق کے نتائج اور اثرات کو مذکورہ میکرو تجزیہ کے فریم ورک کے اندر شامل کیا جانا چاہیئے۔ اس مشق میں، دہشت گردی کو پہچاننے اور دہشت گردوں کے خلاف حقیقی معرکے میں اسلامی جمہوریہ کے قیمتی تجربات کو شنگھائی تعاون تنظیم کے دیگر اراکین کو منتقل کیا جاسکتا ہے اور اس اہم خطے کی اقوام اور حکومتوں کے درمیان(جو کہ دنیا کی 45 فیصد آبادی پر مشتمل ہے،) دہشت گردی کے بارے میں ایک مشترکہ فہم قائم کیا جاسکتا ہے۔ یہ نتیجہ اور اثرات وقت کے ساتھ ساتھ درج ذیل شعبوں میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ برکس ممالک کے ساتھ یہ فوجی مشقیں اسلامی جمہوریہ کی علاقائی پوزیشن کو مضبوط بنانے، قومی مفادات کے حصول کو یقینی بنانے اور قومی مفادات میں سرفہرست، قومی سلامتی اور داخلی سلامتی کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کریں گی۔

اس مسئلے کی اہمیت اس وقت مزید واضح ہو جاتی ہے، جب ہم استکباری محاذ کی پالیسیوں پر توجہ دیتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ دشمن دہشت گردی یا فوجی کارروائیوں کے سلسلے میں ایران کے استحکام اور سلامتی کو درہم برہم کرنے کے درپے ہے۔ یاد رہے کہ 
1۔ یہ مشق دہشت گردی کے خلاف مشترکہ کارروائیوں کے لیے شنگھائی تعاون تنظیم کے فوجی-سکیورٹی کے شعبے میں ایران کی فعال موجودگی کی راہ ہموار کرے گی۔
2۔ سہند 2025ء مشق شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک بشمول چین، روس، ہندوستان اور وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ ایران کے فوجی اور دفاعی تعاون کو مزید مضبوط کرے گی۔
3۔ یہ مشق شنگھائی تعاون تنظیم کے اراکین کے درمیان مفادات اور خطرات کے بارے میں مشترکہ فہم کو مضبوط بنا کر سیاسی اور اقتصادی تعلقات کو مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ شمالی-جنوبی کوریڈور سمیت توانائی کے منصوبوں اور ٹرانسمیشن لائنوں میں تعاون اور مشترکہ سرمایہ کاری کے لیے بنیاد فراہم کرے گی۔

تحریر: یداللہ جوانی جونی

Read 5 times