ایکنا نیوز، رشیاالیوم کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ شدید بارش کے نتیجے میں غزہ شہر میں واقع عظیم العمری مسجد کا ایک دروازہ منہدم ہو گیا۔
۸ دسمبر ۲۰۲۴ کی صبح صہیونی رژیم نے مسجدِ العمری پر بمباری کی۔ یہ مسجد، مسجدِ اقصیٰ (یروشلم) اور عکا میں واقع مسجد احمد پاشا الجزار کے بعد فلسطین کی تیسری بڑی مسجد ہے۔ یہ مسجد دنیا کے قدیم ترین عبادت گاہوں میں شمار ہوتی ہے۔
مسجدِ عظیم العمری غزہ کی قدیم ترین مسجد ہے۔ یہ مسجد قدیم شہر کے قلب میں ایک عوامی بازار کے قریب واقع ہے اور تقریباً ۱۶۰۰ مربع میٹر رقبے پر مشتمل ہے، جس میں ۴۱۰ مربع میٹر نماز ہال اور ۱۱۹۰ مربع میٹر اس کا وسیع صحن شامل ہے، جہاں کبھی ہزاروں نمازی عبادت کیا کرتے تھے۔
یہ مسجد ۳۸ مضبوط سنگِ مرمر کے ستونوں پر قائم ہے جو اس کے قدیم طرزِ تعمیر کی عکاسی کرتے ہیں اور اسے ایک ایسا معماری شاہکار بناتے ہیں جو نسل در نسل منتقل ہوتا رہا ہے۔
اس مسجد کا نام مسلمانوں کے خلیفہ حضرت عمر بن خطابؓ کے نام پر مسجدِ عمری رکھا گیا۔ اسے جامع مسجد بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ غزہ کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ اس مسجد کی تاریخ عیسائیت سے پہلے کے دور تک جاتی ہے، جب یہاں ایک قدیم معبد موجود تھا۔ پانچویں صدی عیسوی میں بازنطینیوں نے اسے کلیسا میں تبدیل کیا۔ ساتویں صدی میں اسلامی فتوحات کے بعد مسلمانوں نے اسے دوبارہ مسجد کی حیثیت سے تعمیر کیا، یہاں تک کہ اس کا مینار ۱۰۳۳ء میں ایک زلزلے کے نتیجے میں گر گیا۔
۱۱۴۹ء میں صلیبیوں نے اس مسجد کو دوبارہ کلیسا میں تبدیل کر دیا، لیکن ۱۱۸۷ء میں جنگِ حطین کے بعد ایوبیوں نے اسے واپس حاصل کر کے دوبارہ تعمیر کیا۔
تیرہویں صدی میں ممالیک نے اس مسجد کی مرمت کی، تاہم ۱۲۶۰ء میں منگولوں نے اسے تباہ کر دیا۔ اس کے باوجود جلد ہی مسلمانوں نے اسے دوبارہ حاصل کر کے تعمیر کر لیا۔
بعد ازاں تیرہویں صدی کے اواخر میں آنے والے ایک اور زلزلے نے اسے دوبارہ نقصان پہنچایا۔
پندرھویں صدی میں عثمانیوں نے زلزلے کے بعد اس کی مرمت کی، لیکن پہلی جنگِ عظیم کے دوران ایک مرتبہ پھر برطانوی بمباری سے اسے نقصان پہنچا۔
۱۹۲۵ء میں اعلیٰ مسلم کونسل نے اس مسجد کی مرمت کی اور اسے غزہ کے عوامی و سماجی زندگی کا ایک مرکزی مرکز بنا دیا، یہاں تک کہ حالیہ اسرائیلی فضائی حملوں کے نتیجے میں یہ مسجد دوبارہ تباہ ہو گئی۔/