Print this page

جنگ زدہ اسرائیل داخلی انہدام کے دہانے پر

Rate this item
(0 votes)
جنگ زدہ اسرائیل داخلی انہدام کے دہانے پر
صہیونی سلامتی حلقوں کا کہنا ہے کہ اسرائیل درحقیقت فتح کا صرف تاثر دے رہا ہے، جبکہ وہ اندرونی اور بیرونی بحرانوں کے ایک طوفان میں گھرا ہوا ہے، خاص طور پر غزہ کی جنگ کے بعد۔ ان حلقوں کے مطابق موجودہ صورتحال اسرائیل کے لیے اندر سے بتدریج انہدام کی واضح مثال ہے۔ غزہ کی جنگ اور ایران کے ساتھ 12 روزہ جنگ کے بعد صہیونی حلقوں میں اسرائیل کے بحران اور اس کے انہدام سے متعلق متعدد تجزیے سامنے آئے ہیں۔ اسی تناظر میں معروف صہیونی سیاسی تجزیہ کار اور اسرائیل کے سابق داخلی سلامتی مشیر اوری گولڈ برگ نے ایک مضمون میں، جسے الجزیرہ نے شائع کیا، اسرائیل کے خاموش اور تدریجی اندرونی انہدام پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ 

طاقت کا وہم، اندرونی ٹوٹ پھوٹ کی حقیقت:
بہت سے لوگوں کو اسرائیل بظاہر ایک غالب اور فاتح طاقت دکھائی دیتا ہے، ایسی قوت جو بیک وقت کئی محاذوں پر لڑ رہی ہے، دشمنوں کو شدید ضربیں لگا رہی ہے اور مغربی دنیا کی بھرپور سیاسی حمایت سے بھی فائدہ اٹھا رہی ہے، چاہے ان مغربی ممالک کے عوام اس کے خلاف کیوں نہ ہوں۔ لیکن اس ظاہری خول کے نیچے اسرائیل اندر سے ٹوٹ رہا ہے۔ امریکہ کی قیادت میں ایک بین الاقوامی اتحاد، جس میں قطر، مصر، سعودی عرب اور ترکی شامل ہیں، آہستہ آہستہ غزہ کو اسرائیلی کنٹرول سے نکالنے کی کوشش کر رہا ہے اور اسرائیل پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ شام اور لبنان میں اپنی توسیع پسندانہ مہمات ترک کرے۔ اسرائیلی کابینہ بظاہر اس عمل کی مخالفت کرتی ہے، مگر حقیقت میں اسے اس دباؤ کو قبول کرنا پڑ رہا ہے، خاص طور پر اس لیے کہ اسرائیل اپنے اعلان کردہ جنگی اہداف، یعنی حماس کی مکمل تباہی اور زندہ قیدیوں کی واپسی، حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔

مغرب کی خاموش پسپائی:
مغربی رہنماؤں کے لیے یہ تسلیم کرنا مشکل ہو گیا ہے کہ اسرائیل خود خطے میں عدم استحکام کا باعث بن چکا ہے۔ اسی لیے ان کے لیے آسان راستہ یہ ہے کہ وہ آہستہ آہستہ اور خاموشی سے اپنی حمایت کم کریں، تاکہ اسرائیل خود نئی حقیقت سے ہم آہنگ ہونے پر مجبور ہو جائے۔ خطے کی بدلتی صورتحال نے اسرائیل کے کردار کو کمزور اور طاقت کے توازن کو تبدیل کر دیا ہے۔ وہ غیر مشروط حمایت جو اسرائیل کو کبھی امریکہ اور یورپ سے حاصل تھی، اب گھٹ رہی ہے، اور عرب ممالک کے ساتھ تعاون بھی زوال پذیر ہے۔ برسوں تک فلسطینیوں کو، اخوان المسلمون کی طرح، اسرائیل سے بڑا خطرہ سمجھا جاتا تھا، مگر اب یہ تصور بدل چکا ہے۔ جہاں کبھی مغربی حکمران حماس کی مذمت اور اسرائیل کو مغربی اقدار کا محافظ قرار دیتے تھے، آج غزہ میں نسل کشی کے ناقابلِ تردید شواہد دیکھ کر وہ خاموشی اختیار کرنے پر مجبور ہیں۔ حتیٰ کہ ڈونلڈ ٹرمپ بھی اب ماضی کی نسبت حماس کے خلاف کم جارحانہ زبان استعمال کرتے ہیں۔ مغرب اب اسرائیل کو سرد مہری سے جواب دے کر انتظار میں رکھتا ہے تاکہ وہ خود حقیقت کو قبول کرے۔

سفارتی محاذ پر اسرائیل کی شکست:
علاقائی حملوں کے لیے اسرائیل کو بین الاقوامی تعاون درکار ہے، اور اسی حمایت میں کمی کے باعث ہم دیکھ رہے ہیں کہ شام، لبنان اور دیگر علاقوں میں اسرائیلی حملوں کی شدت اور تعداد بتدریج کم ہو رہی ہے۔ اسرائیل اب مزید اسٹریٹجک گہرائی بڑھانے کے قابل نہیں رہا۔ سفارتی محاذ پر اسرائیل واضح طور پر نقصان اٹھا رہا ہے۔ جہاں حماس مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہے، وہیں اسرائیلی کابینہ ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے۔ اگر یہی صورتحال رہی تو اسرائیل کو ایسی حقیقت کا سامنا کرنا پڑے گا جس کا اس نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔ مثال کے طور پر، اب بین الاقوامی سطح پر یہ تجاویز زیر غور ہیں کہ غزہ میں دو سالہ تباہی کے ملبے کو ہٹانے کے اخراجات خود اسرائیل کو برداشت کرنے چاہئیں۔

اندرونی انتشار اور ادارہ جاتی بحران:
ایک طرف اسرائیل خطے میں اپنی بالادستی کھونے کے قریب ہے، تو دوسری طرف اس کی توانائی اندرونی جھگڑوں میں ضائع ہو رہی ہے، اسرائیل کی روح اور فلسطینی سرزمین پر غیرقانونی قبضے کو مزید گہرا کرنے کے تنازعات میں۔ اسرائیلی معاشرہ اب جغرافیائی سیاست سے ہٹ کر یہودیوں کو لاحق خطرات اور اجتماعی وجود جیسے موضوعات میں الجھ چکا ہے، جبکہ عالمی رائے عامہ اور زمینی حقائق کو مسلسل نظرانداز کیا جا رہا ہے۔

انہدام کی واضح مثالیں:
حال ہی میں اسرائیلی فضائیہ کا ایک اسکینڈل سامنے آیا کہ مستقبل کے پائلٹس کو سخت تربیتی مرحلے کے بعد ایک خفیہ مقام پر آرام کے لیے بھیجا گیا، مگر انہوں نے ہوٹل کا مقام اہلِ خانہ کو بتا دیا اور بعض نے شراب نوشی بھی کی، یہ سب اپنے کمانڈر کی اجازت سے ہوا۔ اس پر فضائیہ کے سربراہ نے سخت انضباطی کارروائی کا اعلان کیا اور اخلاقی اقدار کی بات کی۔ یہی اصل تضاد ہے: وہ فضائیہ جو غزہ کی تباہی، شہری انفراسٹرکچر کی بمباری اور عالمی سطح پر خوف و غصے کی وجہ بنی، اب اخلاقیات کا درس دے رہی ہے، جبکہ اصل مسئلہ صرف یہ بتایا جا رہا ہے کہ پائلٹس نے بغیر اجازت شراب پی۔

سماجی و ادارہ جاتی ٹوٹ پھوٹ:
سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ اسرائیل اپنی اندرونی ہم آہنگی کھو چکا ہے، ویکسین نہ لگنے کے باعث بچے خسرہ اور فلو سے مر رہے ہیں، نوجوان فلسطینی صفائی کرنے والوں اور بس ڈرائیوروں پر حملے کر رہے ہیں، 1948 کے مقبوضہ علاقوں میں فلسطینی شہری جرائم پیشہ اسرائیلی گروہوں کے ہاتھوں مارے جا رہے ہیں، غزہ جنگ میں شریک فوجی خودکشیاں کر رہے ہیں۔ اسرائیل کا عوامی ذہنی صحت کا نظام تباہی کے دہانے پر ہے، اسکولوں کی کلاسیں منسوخ ہو رہی ہیں، وزارتِ تعلیم میں 25 اعلیٰ عہدیدار مستعفی ہو چکے ہیں، اور تل ابیب میں عملے کی کمی کے باعث سرکاری ملازمین کو بچوں کے مراکز میں رضاکارانہ کام پر لگایا جا رہا ہے۔ 

کھوکھلا ہوتا ہوا ڈھانچہ:
عدالتی نظام بھی اسی بحران کا شکار ہے، ججوں کی کمی ہے، وزیر انصاف اور چیف جسٹس کے درمیان رابطہ منقطع ہے، اور نتن یاہو کی کابینہ میں دو وزراء بیک وقت نو اہم عہدوں پر قابض ہیں۔ مجموعی طور پر اسرائیل تیزی سے ایک کھوکھلے خول میں تبدیل ہو رہا ہے۔ اس کے ادارے اندر سے ٹوٹ رہے ہیں، اور موجودہ و آئندہ نسلیں ایک ایسے معاشرے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گی جو ادارہ جاتی، مالی اور ثقافتی لحاظ سے اندر سے بکھر چکا ہو گا۔
 
 
 
Read 5 times