Print this page

وحدت فطری عمل ہے اور فکری اور عملی اختلاف، فطرت سے بغاوت ہے

Rate this item
(0 votes)
وحدت فطری عمل ہے اور فکری اور عملی اختلاف، فطرت سے بغاوت ہے

 المصطفٰی انٹرنیشنل یونیورسٹی کے استاد حجت الاسلام ڈاکٹر محمد یعقوب بشوی نے ہفتۂ وحدت کی مناسبت سے حوزہ نیوز کے نمائندے کو ”قرآن مجید میں امت کے اتحاد کی اہمیت اور ضرورت“ کے موضوع پر انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ قرآن مجید مسلمانوں کو خیر امت سے یاد کرتا ہے جو معاشرہ سازی اور انسان سازی کے لیے خلق ہوئے ہیں؛ جیسا کہ ارشاد باری تعالٰی ہے:"كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّه. (سورہ آل عمران، آیت 110) امت کا الله تعالٰی پر ایمان کے بعد خودسازی امت کی اصل اور بنیاد ہے۔ امت کا دوسرا اہم کام، دوسروں کو نیک بنانا اور برائی سے روکنا ہے۔ اس آیت میں سب سے پہلے ہمیں خیر امت سے یاد کیا ہے، کیونکہ ہمارا کام، دوسروں کو اچھائی اور برائی، نیک و بد سمجھانا ہے اس لیے ہم خیر امت کہلائیں۔

وحدت فطری عمل ہے اور فکری اور عملی اختلاف، فطرت سے بغاوت ہے

انہوں نے امت کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ امت، یعنی جن کا رہبر ایک ہو، جن کا ہدف ایک ہو اور ایک ہی امام کے پیچھے چلنے والے ہوں تو ان کو اس مقدس عنوان ”امت“ سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہاں سے پتہ چلتا ہے ہم وحدت پر ہی خلق ہوئے ہیں فکری اختلاف اور عملی اختلاف، فطرت انسانی سے بغاوت ہے؛ اگر اختلاف کریں گے تو خیر امت کی منزلت سے گر جائیں گے جب اس مرتبے سے گر جائیں گے تو پھر خودسازی و جہاں سازی کے عمل میں سست پڑ جائیں گے۔

ڈاکٹر بشوی نے کہا کہ اختلاف انسان کو اپنے آپ سے الجھاتا ہے اور اسی طرح دوسروں سے بھی الجھاتا ہے؛ یوں ایسا انسان تخلیق کے مقصد سے پیچھے رہ جاتا ہے جو کہ توحید پرستی کے ساتھ معاشره سازی کا عمل ہے۔

انہوں نے اتحاد و وحدت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اگر ایمان کفر سے بدل جائے؛ نیکی برائی سے اور برائی نیکی سے تو یہاں سے معاشرہ تنزلی کی جانب بڑھ جاتا ہے، ایسے میں کمال طلبی کا عمل رک جائے گا؛ اسی لیے قرآن اختلاف سے بچنے کے لیے وحدت کا فارمولہ پیش کرتا ہے: وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ. (آل عمران، آیت 103)

المصطفٰی انٹرنیشنل یونیورسٹی کے استاد نے امت سازی کے فوائد بیان کرتے ہوئے کہا کہ امت سازی کے نتیجے میں ہم دنیا پر حکومت کر سکتے ہیں اور اگر خدا نخواستہ یہ عمل رک جائے تو ہماری نسلیں بھی برباد ہو جائیں گی؛ اسی لیے اللہ حبل اللہ سے مضبوط رابطہ کی سفارش کر رہا ہے اور باقاعدہ طور پر مسلمانوں کو حکم دے رہا ہے کہ وہ ایک مرکز سے جڑے رہے اور وہ مرکز حبل اللہ ہے۔ قرآن مسلمانوں کو تفرقہ بازی اور اختلاف سے روک رہا ہے، کیونکہ اختلاف سے امت ٹوٹ جاتی ہے اور اغیار کا غلبہ ہوتا ہے۔

شیخ محمد یعقوب بشوی نے اتحاد و وحدت کی شرائط بیان کرتے ہوئے کہا کہ اتحاد کے لیے بنیادی شرائط، دلوں کا آپس میں مل جانا ہے، دلوں میں محبت کا پیدا ہونا ہے، ایک دوسرے کے ساتھ ملنا ہے، ایک دوسرے سے دلی ہمدردی ہے اور یہ کام بھی خدائی ہے: فالف بین قلوبکم... دلوں کی الفت، الله تعالٰی کی نعمتوں میں سے ہے۔ جب دل میں الفت پیدا ہوگی تو عمل میں بھی اختلاف نہیں ہوگا اور اس طرح عداوت، الفت میں بدل جائے گی، معاشرے میں اخوت کا بول بالا ہوگا اور اخوت کا رشتہ مضبوط ہوگا۔ قرآن کہتا ہے: إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ... (سورہ حجرات، آیت 10) سگے بھائیوں کی طرح برادرانِ ایمانی کا رشتہ بھی مقدس ہے؛ خونی رشتے ٹوٹ سکتے ہیں، لیکن ایمانی رشتہ نہیں ٹوٹے گا۔ اختلاف، وہ نامطلوب عنصر ہے جو ایمانی رشتے کو پارہ کر سکتا ہے اور انسان کو حکم خدا کا باغی بنادے گا اور مسلمانوں کی اجتماعی شوکت ختم ہوجائے گی۔ قرآن نے کہا: وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُوا إِنَّ اللَّهَ مَع الصَّابِرِينَ. (سورہ أنفال، آیت 46)

ڈاکٹر بشوی نے اختلاف کے نقصانات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اختلاف کا سب سے بڑا نقصان، الله تعالٰی سے رشتہ ٹوٹ جانا ہے، خدا کی اطاعت سے باہر نکلنا ہے جو بندہ اللہ تعالٰی کی اطاعت نہیں کرتا وہ خود بخود شیطان کی اطاعت میں چلا جائے گا۔ اختلاف کا اجتماعی نقصان، اجتماعی سوچ اور عمل کا مفلوج ہوجانا ہے؛ اس کے نتیجے میں ایسا معاشرہ کوئی بڑا قدم اٹھانے سے عاجز رہے گا، ہر میدان میں شکست سے دوچار ہوگا، اجتماعی ناامیدی پیدا ہوگی، ہر چھوٹے بڑے کام کے لیے دوسروں کی طرف دیکھے گا اور حسد، کینہ، پست سوچ اور سست ارادہ ایسے معاشرے کی عام عادت ہوگی۔ قرآن کریم نے انتہائی جامع انداز میں تذھب ریحکم... استعمال کیا ہے، تاکہ مردہ ضمیر، مردہ ارادے اور مردہ قوم جاگ جائے۔

انہوں نے اختلافات سے دوری اختیار کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اختلاف سے بچنے کے لیے صبر ایک بہت بڑا ہتھیار ہے، اسی لیے اللہ تعالٰی صبر اور برداشت کی تلقین فرماتا ہے اور ساتھ ساتھ صبر کا پھل اور اس کا فائدہ بھی بیان فرما رہا ہے اور وہ اللہ تعالٰی کی عنایت اور اس کی معیت اور سرپرستی ہے، لہٰذا ہمیں مسلمانوں کے درمیان اختلافات کو ختم کر کے وحدت کی فضاء کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ امت دوبارہ خیر امت کی مصداق بن سکے۔

Read 12 times