
سلیمانی
فلسطینیوں کے مقابلے میں ہماری سکیورٹی حکمت عملی ناکام ہو چکی ہے، صہیونی میڈیا
معروف صہیونی اخبار یدیعوت آحارنوٹ میں فوجی امور کے ماہر رون بن یشای نے ایک مقالہ شائع کیا ہے جس میں فلسطینیوں کے مقابلے میں تل ابیب کی سکیورٹی حکمت عملی کو مکمل طور پر شکست خوردہ قرار دیا گیا ہے۔ اس مقالے میں تاکید کی گئی ہے کہ صہیونی فوج کے غلط فیصلوں نے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ رون بن یشای نے اپنے مقالے میں مزید لکھا کہ فلسطینیوں کے مقابلے میں ہماری حکمت عملی مختلف سطح پر مکمل ناکامی کا شکار ہو چکی ہے جن میں سے اہم ترین سطح فیصلہ سازی کی سطح ہے۔ اہم فیصلوں کے وقت "گریٹر اسرائیل" نامی آرزو اور دائیں بازو کے شدت پسند سیاسی رہنماوں کی آراء کو قومی سلامتی پر ترجیح دی جاتی ہے جس کے باعث اسٹریٹجک امور پس پشت ڈال دیے جاتے ہیں۔
یہ فوجی ماہر اپنے مقالے میں لکھتا ہے کہ اسرائیل کی مختلف حکومتوں نے اپنے سکیورٹی اور فوجی فیصلوں میں بہت بڑی بڑی غلطیاں کی ہیں جن کے باعث اسرائیلی شہریوں کو بھاری جانی اور مالی نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل فلسطینیوں میں پائے جانے والے مذہبی رجحانات کو درست انداز میں درک کرنے سے قاصر ہے جس کے باعث اسرائیلی حکام مشرقی بیت المقدس میں بھی نظم و نسق برقرار نہیں رکھ پا رہے۔ رون بن یشای نے لکھا کہ ہماری حکومتیں شدت پسند یہودیوں کو مسجد اقصی میں بدامنی اور بدنظمی پھیلانے سے بھی اسی وجہ سے نہیں روک پائیں۔ اسی وجہ سے ہمیں بہت زیادہ نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ انہوں نے اس حقیقت کا بھی اعتراف کیا کہ 2014ء کے بعد غزہ میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس اسلحہ کے ذخائر کے لحاظ سے بہت زیادہ ترقی کر کے طاقتور ہو چکی ہے۔
رون بن یشای نے اپنے مقالے میں لکھا کہ اسرائیلی حکام نے فلسطین اتھارٹی اور محمود عباس کے ساتھ بہت ہی تحقیر آمیز اور بے ادبانہ رویہ اختیار کیا اگرچہ محمود عباس مقبوضہ فلسطین میں مسلح کاروائیوں کی مخالفت کرتے تھے اور ہماری سکیورٹی فورسز کے ساتھ تعاون بھی کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ محمود عباس ہمارے ساتھ پرامن طریقے سے زندگی بسر کرنے کیلئے تیار ہیں لیکن حماس ہمارے وجود کو تسلیم نہیں کرتی اور یہودی ریاست کو مسترد کرتی ہے۔ یدیعوت آحارنوٹ میں لکھتے ہوئے اس فوجی تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ صہیونی سیاست دانوں اور موساد اور دیگر حساس اداروں کے درمیان بھی شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ حالیہ جنگ میں ہمارے سیاست دان فتح کے دعوے کر رہے ہیں جبکہ سکیورٹی حکام انہیں تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
امام جعفر صادقؑ۔۔۔۔۔۔ منبعِ علم و معرفت
اہل بیتؑ سے منسوب احادیث میں سے اکثر احادیث امام صادقؑ سے نقل ہوئی ہیں۔ اسی بنا پر شیعہ مذہب کو مذہب جعفریہ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ آپؑ نے امام علیؑ کا مرقد جو اس وقت تک مخفی تھا، مشخص فرمایا اور اپنے پیروکاروں کو دکھایا۔ حدیثی منابع کے مطابق آپ نے امام کاظمؑ کو اپنے بعد بعنوان امام اپنے اصحاب کے سامنے متعارف کروایا۔ امام صادقؑ کے دور امامت میں بنی امیہ اپنی اقتدار اور بقا کی جنگ لڑ رہی تھے، اسی بنا پر لوگوں کو کسی حد تک مذہبی آزادی نصیب ہوئی، جس سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے امام عالی مقام نے مختلف موضوعات پر علمی مباحث کا سلسلہ شروع فرمایا۔ اس علمی اور مذہبی آزادی جو آپ سے پہلے والے اماموں کو کمتر نصیب ہوئی تھی کی وجہ سے علم دانش کے متلاشی آپ کے علمی جلسات میں آزادی سے شرکت کرنے لگے۔ یوں فقہ، کلام اور دیگر مختلف موضوعات پر آپ سے بہت زیادہ احادیث نقل ہوئیں۔ ابن حَجَر ہیثمی کے بقول لوگ آپ سے علم و معرفت کے خزانے دریافت کرتے تھے اور ہر جگہ آپ ہی کا چرچا تھا۔
ابو بحر جاحظ لکھتے ہیں کہ ان کی فقہ اور علم پوری دنیا میں پھیل چکا تھا۔ حسن بن علی وَشّاء لکھتے ہیں کہ انہوں نے 900 لوگوں کو دیکھا جو مسجد کوفہ میں امام صادقؑ سے حدیث نقل کرتے تھے۔ امام صادقؑ کے متعلق لکھی گئی کتابوں کی تعداد 800 تک بتائی جاتی ہے، جن میں سے ایک اخبار الصادق مع ابی حنیفہ و اخبار الصادق مع المنصور ہے جسے محمد بن وہبان دبیلی نے چوتھی صدی ہجری میں لکھا، اس سلسلے کی قدیمی کتابوں میں سے ہیں۔ "آپ سے متعلق بعض دوسری کتابوں میں زندگانی امام صادق جعفر بن محمدؑ مصنف سید جعفر شہیدی، الامام الصادقؑ و المذاہب الاربعۃ، مصنف اسد حیدر، پیشوائے صادق، مصنف سید علی خامنہ ای اور موسوعۃ الإمام الصادق، مصنف باقر شریف قَرَشی کا نام لیا جا سکتا ہے"۔ سنہ 1378 ہجری میں الأزہر یونیورسٹی مصر کے چانسلر شیخ محمود شلتوت نے مذہب جعفریہ کو سرکاری طور پر قبول کرنے اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنے کو بھی جائز قرار دیا۔
تألیفات امام صادق:
امام صادقؑ کا اپنے اصحاب کے نام خط۔، یہ خط امامؑ کی ان سفارشات پر مشتمل ہے جو آپ نے زندگی کے مختلف شعبوں کے حوالے سے اپنے پیروکاروں کیلئے ارشاد فرمایا ہے۔ یہ خط کتاب کافی میں بھی آیا ہے۔ رسالہ شرایع الدین بہ روایت اَعمَش۔ یہ رسالہ اصول دین اور فروع دین کے متعلق ہے جسے ابن بابویہ نے نقل کیا ہے۔ قرآن کی تفسیر سے متعلق ایک خط کا ایک حصہ "الرسالۃ الأہوازیہ" یہ خط آپ نے اہواز کے گورنر نجاشی کو تحریر فرمایا تھا, جس کا متن شہید ثانی کی کتاب کشف الریبہ میں آیا ہے۔ توحید المُفَضَّل یا کتاب فکِّر۔ یہ رسالہ خدا شناسی سے متعلق امامؑ کے ارشادات کا خلاصہ ہے جسے آپ نے مُفَضَّل بن عمر کیلئے ارشاد فرمایا تھا اور اس کتاب میں "فَکِّر یا مُفَضَّل" (اے مفضل غور و فکر کرو) کی تکرار کی وجہ سے قدیم زمانے میں یہ کتاب "کتاب فَکِّر" کے نام سے بھی مشہور تھی۔
"رسالہ اَہلیلَجہ" اس رسالے میں امام صادقؑ نے کسی ہندوستانی ڈاکٹر کے ساتھ خدا کے وجود کو ثابت کرنے کی غرض سے گفتگو فرمائی ہے۔ نجاشی نے اس کتاب کو "بِدءُالخَلق و الحَثُّ عَلَی الاِعتبار" کے نام سے یاد کیا ہے۔ تفسیر امام صادقؑ کے نام سے مشہور کتاب، تفسیر النُعمانی بھی آپ کی احادیث پر مشتمل ہے۔ بعض کتابیں ایسی ہیں جو آپؑ کے شاگردوں نے آپ کے ارشادات سے اقتباس کرتے ہوئے تحریر کی ہیں۔ من جملہ ان کتابوں میں سے بعض جو شایع ہوئی ہیں درج ذیل ہیں: "الجعفریات" یا "الاَشعَثیات" مصنف محمد بن محمد بن اشعث۔ "نثر الدُرَر" اس کتاب کے متن کو ابن شُعبہ حَرّانی نے تحف العقولمیں نقل کیا ہے۔ "الحِکَم الجعفریہ" امامؑ کے مختصر کلام کا مجموعہ جس کے راوی سلمان بن ایوب ہیں اور اس کا متن کتاب فرائِدُ السَمَطَین میں جوینی نے نقل کیا ہے۔
شاگرد اور روات:
بعض علما نے اپنی کتب میں تقریبا 3200 راویوں کا ذکر کیا ہے جنہوں نے امام صادقؑ سے حدیث نقل کی ہیں۔ کتاب الارشاد میں آپ کے راویوں کی تعداد 4000 تک نقل کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ امام صادقؑ کے راویوں سے متعلق ابن عقدہ کی ایک کتاب تھی جس میں انہوں نے بھی ان کی تعداد 4000 بتائی ہیں۔ اصول اربع مائہ کے اکثر مصنفین امام صادق کے شاگرد تھے۔ اسی طرح دوسرے آئمہ کی نسبت آپ کے شاگردوں کی تعداد بھی سب سے زیادہ ہیں۔ جو آئمہ معصومین کے اصحاب میں سب سے زیادہ مورد اعتماد راویوں میں شمار ہوتے ہیں۔ آپ کے بعض مشہور شاگردوں کے نام درج ذیل ہیں: "زُرارَۃ بن اَعین، بُرَید بن معاویہ، جَمیل بن دَرّاج، عبداللہ بن مُسکان، عبداللہ بن بُکَیر، حَمّاد بن عثمان، حماد بن عیسی، اَبان بن عثمان، عبداللہ بن سنان، ابو بصیر، ہشام بن سالم، ہشام بن حَکَم وغیرہ شامل ہیں۔ امام صادقؑ کے شاگردوں کے مناظرے پر مبنی حدیث جسے کَشّی نے نقل کی ہے، سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی شاگرد مختلف علمی شعبوں میں تخصص رکھتے تھے۔ اس حدیث کے مطابق حُمران بن اَعیَن علوم قرآنی میں، اَبان بن تَغلِب ادبیات عرب میں، زُرارہ فقہ میں اور مومن الطاق اور ہِشام بن سالم علم کلام میں تخصص رکھتے تھے۔ اسی طرح علم کلام میں تخصص رکھنے والے آپ کے دیگر شاگردوں میں حُمران بن اَعیَن، قیس ماصِر اور ہشام بن حَکَم کا نام لیا جا سکتا ہے۔
مناظرات اور علمی گفتگو:
حدیثی منابع میں امام صادقؑ اور دوسرے مذاہب کے متکلمین نیز بعض ملحدین کے درمیان مختلف مناظرات اور علمی گفتگو نقل ہوئی ہیں۔ ان مناظرات میں سے بعض میں امام علیہ السلام کے شاگردوں نے اپنے متعلقہ شعبوں میں آپ کی موجودگی میں دوسروں کے ساتھ مناظرہ کئے ہیں۔ ان مناظروں میں امام عالی مقام مناظرے کی نگرانی فرماتے اور کبھی کبھار ضرورت پڑنے پر خود بھی بحث میں حصہ لیتے تھے۔ مثلا ایک شامی جو آپ کے شاگردوں کے ساتھ مناظرہ کرنے کا خواہاں تھا، امام نے ہشام بن سالم جو علم کلام میں تخصص رکھتا تھا سے اس شامی کے ساتھ مناظرہ کرنے کا حکم دیا۔ اسی طرح ایک اور شخص جو خود امامؑ سے مناظرہ کرنا چاہتا تھا، آپ نے فرمایا پہلے جس موضوع پر بھی گفتگو کرنا چاہتا ہے آپ کے شاگردوں سے مناظرہ کرنے کا کہا اور ان پر غالب آنے کی صورت میں اپنے ساتھ مناظرہ کرنے کا حکم فرمایا۔ اس شخص نے قرآن سے متعلق حُمران بن اَعیَن کے ساتھ ادبیات عربی سے متعلق اَبان بن تَغلِب کے ساتھ فقہ میں زُرارہ اور کلام میں مؤمن طاق اور ہِشام بن سالم کے ساتھ مناظرہ کیا اور ہر میدان میں وہ مغلوب ہوا۔
احمد بن علی طبرسی نے اپنی کتاب الاحتجاج میں امام صادقؑ کے مناظرات کو جمع کیا ہے ان میں سے بعض یہ ہیں:
ایک منکر خدا کے ساتھ خدا کے وجود پر مناظرہ۔
ابوشاکر دَیصانی کے ساتھ خدا کے وجود پر مناظرہ۔
ابن ابی العوجاء کے ساتھ خدا کے وجود پر مناظرہ۔
ابن ابی العوجاء کے ساتھ عالَم کے حدوث پر مناظرہ۔
خدا کے منکر ایک شخص کے ساتھ خدا کے وجود اور بعض دیگر مسائل پر طولانی مناظرہ۔
امام ابوحنیفہ کے ساتھ حکم شرعی کے استنباط کے طریقے خاص کر قیاس سے متعلق مناظرہ۔
معتزلہ کے بعض علماء کے ساتھ حاکم کے انتخاب کا طریقہ کار اور بعض دوسرے فقہی مسائل پر مناظرہ۔
حضرت امام صادق علیہ السلام نے علوم دینیہ تک ہی نشر و اشاعت کو محدود نہیں رکھا بلکہ دیگر علوم مثلا ریاضیات و فلسفہ و علوم افلاک اور کیمسٹری جیسے علوم کے لئے بنیادیں ڈالیں اور آپ کے مشہور شاگردوں میں کیمیادان جابر بن حیان بھی شامل ہے۔
شہادت:
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کو منصور کے حکم پر زہر دی گئی جس کے باعث امام علیہ السلام کی شہادت واقع ہوئی۔۔ضرورت اس امر کی ہےکہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی تاسی (سنت) میں ہم بھی تمام علوم کے حصول کے لیے اپنی تمام تر کوششوں کو بروئے کار لائیں تاکہ ہم ہر شعبہ ہائے زندگی سے متعلق افراد کی ہر ممکنہ خدمت کر سکیں۔۔سلام ہو آپ پر اے منبعِ علم و معرفت کہ آپ سے علم و معرفت کے چشمے پھوٹتے ہیں۔
مکتب امام خمینی (رہ) میں "عوام " پر توجہ بنیادی اصولوں میں شامل ہے
مہر خبررساں ایجنسی کے نامہ نگار کی رپورٹ کے مطابق سازمان تبلغات اسلامی کے سربراہ حجۃ الاسلام والمسلمین محمد قمی نے حضرت امام خمینی(رہ) کے مکتب میں تربیت یافتہ افراد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مکتب امام خمینی (رہ) کے تربیت یافتہ افراد کی توجہ ہمیشہ معاشرے اور سماج کے دوسرے افراد پر ہوتی ہے ۔ مکتب امام خمینی (رہ) میں "عوام " پر توجہ بنیادی اصولوں میں شامل ہے۔
سازمان تبلیغات اسلامی کے سربراہ نے قزوین میں ایک پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے حضرت امام خمینی (رہ) کے مکتب پر توجہ دینے میں غفلت اور کوتاہی کی ہے ۔ شہید حاج قاسم سلیمانی کا مکتب درحقیقت حضرت امام خمینی (رہ) کے مکتب کا ثمرہ ہے۔
حجۃ الاسلام قمی نے حضرت امام خمینی (رہ) کے مکتب کے فروغ کے سلسلے میں تاکید کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم نے حضرت امام خمینی (رہ) کے مکتب کے فروغ میں کوتاہی کی تو آئندہ آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔
سازمان تبلیغات کے سربراہ نے مکتب امام خمینی (رہ) میں خواتین کے اہم کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ حضرت امام خمینی (رہ) نے خواتین کو " تحریک کا رہبر " قراردیا ہے اور حضرت امام خمینی(رہ) کا یہ جملہ معاشرے اور سماج میں خواتین کے کردار کے سلسلے میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔
امام خمینی (رہ) آفاقی رہنماء
جب ہم دنیا کے کامیاب انسانوں کی زندگی کا جائزہ لیتے ہیں تو ان کی کامیابی کے پیچھے اور چاہے جو بھی اسباب ہوں لیکن ان کا پختہ یقین، جہد مسلسل، نیک نیتی اور خلوص دل کے ساتھ اعلٰی مقصد ضرور رہا ہے، آج تک روئے زمین پر جتنے بھی انقلابات بقائے انسانیت کو مدنظر رکھ کر رونماء ہوئے ہیں، ان سب کی بنیادیں بھی انہی باتوں پر قائم تھیں اور ان میں روح پھونکنے والے بھی یہی سنہرے اصول تھے، ان اعلٰی انسانی اور سنہری اصولوں کو عمل میں ڈھالنے والا یقین کا مجسمہ، ارادوں کا ہمالیہ، جہاد کا اسلامی نمونہ، عمل کا پیکر، انقلاب کا پیغامبر، دریائے آگہی کا شناور، عوام کے دلوں کا رہبر، تاج شکن اور بیسویں صدی کا مردِ آہن، سرزمین ایران سے اُٹھا اور تاریخ عالم میں انقلاب کا ایک نیا اور سنہری باب اپنی فکر و فراست اور عزم و حوصلے کے قلم سے لکھ گیا، انقلاب تغیر و تبدیلی فطرت کا اصول ہے، گردش لیل و نہار، تبدیلی گرم و سرد اور بہار و خزان وغیرہ سب فطری انقلابات ہیں، جو قدرت کے ذریعے آتے رہتے ہیں۔
روئے زمین پر ساری دلکشی انقلاب اور تحریک سے قائم ہے، اگر جمود و ٹھہراؤ آجائے تو کائنات کی سب دلکشی ختم ہو جائے اور انسان اکتا جائے گا، لیکن انسانوں کے ذریعے آنے والے انقلاب کی نوعیت اس سے بالکل مختلف ہوتی ہے، ان انقلابات میں مشکل ترین وہ انقلاب ہے، جو ظالم و جابر تخت شاہی کے خلاف آتا ہے، جو تخت رعونت کو منہدم کرتا ہے، جو اقتدار کو اپنے تیز دھارے میں بہا دیتا ہے، جو ایک شہریار کو بے دیار کر دیتا ہے، جو مسند شاہی کو تیز آندھی میں اڑا دیتا ہے اور جو رنگ شہنشاہی کو روند کر غریب، مجبور، مایوس، محروم، معذور، مزدور، بے گھر، بے زر، بے بس، بے کس، مفلس، نادار، لاچار اور جملہ مستضعفین کو ان کا جائزہ حق دلواتا ہے، ایسے انقلاب کے پیروں کی آہنی زنجیر ہے، جور و جفا کے لئے دار و رسن ہے اور کبر و نخوت کے لئے سر پہ لٹکی ہوئی تلوار ہے اور ایسا ہی انقلاب تاریخ ساز ہوتا ہے۔
لیکن ایسے انقلاب لانے میں جس فولادی عزم و ہمت اور قوت ایمانی و ارادے کی ضرورت ہوتی ہے، وہ بھی عطیہ پروردگار ہوتا ہے۔ قدرت نے امام خمینی (رہ) کو تمام ان اعلٰی صفات اور اوصاف سے آراستہ کیا تھا، جو ایک تاریخ ساز انقلاب کے رہنماء میں ہونے چاہیئے، تاریخ کا یہ انوکھا انقلاب ہے، جو بانی انقلاب کی آواز پر سرزمین ایران پر آیا، جبکہ بانی انقلاب سرزمین انقلاب سے سینکڑوں میل دور قید و بند کی زندگی گزار رہا تھا، جس کی آواز میں یہ اثر تھا بلکہ اعجازی قوت تھی کہ وہ ایران کی سرحدوں میں ہزاروں میل دور سے آ کر داخل ہو رہی تھی اور ذہنوں کو جھنجھوڑ کر انقلابی بنا رہی تھی، دلوں میں نہ صرف حرارت پیدا کر رہی تھی بلکہ شعلے بھڑکا رہی تھی اور قوم کو ہر قربانی کے لئے تیار کر دیا تھا، وہ انقلابی آواز جب شاہی جاہ و حشم سے ٹکرائی تو اسے خاک میں ملا دیا، تاج شاہی کا جو جھوٹا شاہی بھرم تھا، اسے ختم کر دیا، بغض و نفاق، ظلم و ستم، حق تلفی، بے دینی، ایمان فروشی، گمراہی اور جور و جفا کا خاتمہ کر دیا، تسبیح فتح پا گئی اور رنگ شاہی پائے فقیہ پر جھک گیا۔
اس انقلاب کے لئے امام خمینی (رہ) نے اپنی تمام زندگی وقف کر دی تھی۔ وہ آزادی انسان کے طلبگار تھے، خود بیدار تھے اور قوم کو بھی بیدار کر دیا اور انہوں نے پورے عالم اسلام کو بیدار کر دیا، تاریخ کا وہ سورما، ایران کا وہ شجاع و شیر دل اور انقلاب کے اس بانی کی آہٹ سے قصر باطل میں زلزلہ آگیا تھا، دربار شاہی درہم برہم ہوگیا تھا، جس نے خود آگہی کو شعور بخشا، جس نے غیرت کی روح پھونکی، ملت کو سربلندی کا راز بتایا، کبر و نخوت کا تختہ پلٹا، قصر شاہی میں ایسا شگاف ڈالا کہ ظلم کانپ اٹھا، حقیقت یہ ہے کہ رعب سے جس کے ہر اک دشمن کا چہرہ زرد تھا، شاہِ مرداں کا نمائندہ تھا، ایسا مرد تھا اس جواں ہمت، مجسمہ فکر و فراست، پیکر ہدایت، انقلاب کی علامت، سرزمین ایران کی ضرورت و قسمت اور انقلاب کی عظیم ترین طاقت پر ہر انقلاب انگیز کے لاکھوں سلام، اس مرد آہن پر کائنات کے ہر آہنی عزم کا سلام اور تاریخ کے تمام آہنی عزم والوں کے سلام ہی سلام، اسلام نے توحید کے بعد جس بات پر سب سے زیادہ زور دیا ہے وہ اتحاد بین المسلمین ہے۔
اتحاد ہمارے زمانے کی اشد ضرورت اور پوری تاریخ بشریت میں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف اس وقت تفرقہ اور اختلاف دشمن کا سب سے اہم اور سب سے زیادہ موثر حربہ اور اسلحہ رہا ہے، جب سے مغرب نے مسلمانوں کے اختلافات سے فائدہ اُٹھا کر مسلمانوں پر اپنا قبضہ مضبوط کر لیا ہے، تب سے اسلامی مفکرین کی طرف سے مغرب جیسے طاقت اور مکار دشمن سے نجات پانے اور اس پر غلبہ حاصل کرنے کا واحد ذریعہ اتحاد امت کو قرار دیا ہے۔ دشمنان اسلام کی ان شرارتوں کی اصل وجہ یہ ہے کہ انہوں نے ایک طرف سے دیکھا کہ امت مسلمہ بیداری ہو رہی ہے، دوسری طرف سے ان کو معلوم ہے کہ مسلمانوں کے پاس ترقی کرنے اور دنیا کی سب سے بڑی طاقت بننے کی پوری صلاحیت اور وسائل موجود ہیں، کیونکہ پوری دنیا کے وسط میں 57 ممالک پر مشتمل عظیم علاقہ عالم اسلام کے قبضے میں ہیں، آج دنیا امت مسلمہ کے اُٹھتے ہوئے قدموں کو دیکھ رہی ہے۔
انسان نے اپنی علمی پیشرفت کی وجہ سے اخلاق، روحانیت اور روح دین کو فراموش کر دیا ہے، بشریت کی علم و دانش میں ترقی اور کائنات کے حقائق پر انسان کی نگاہ نوامت مسلمہ کی حرکت کے لئے بہترین زمین فراہم کرسکتی ہے، اسلامی تعلیمات و معارف آج امت مسلمہ کے اختیار میں ہیں، پہلا نکتہ دنیائے اسلام کی بیداری ہے، آج سے سو سال قبل دنیائے اسلام کے مصلح افراد دنیائے اسلام کے مغرب و مشرق کے مختلف ممالک میں غریبانہ ماحول و فضا میں جو باتیں کرتے تھے، وہ آج لوگوں کی زبانوں پر شعار کی صورت میں موجود ہیں، یعنی اسلام کی طرف واپسی، احیاء قرآن، امت واحدہ کا تصور اور دنیائے اسلام کی عزت و قدرت۔ آپ ایک ایک اسلامی ملک پر نگاہ کیجیئے خصوصاً نوجوانوں، تعلیم یافتہ افراد اور روشن فکروں کے درمیان یہ شعار زندہ ہیں، البتہ اسلامی جمہوری ایران میں اسلام کی کامیابی اور بالادستی اس سلسلے میں ایک بہت بڑی مثال ہے۔
ایرانی عوام نے اپنی ایثار و فداکاری، استقامت اور عزتِ اسلامی کے پرچم کو اپنے ہاتھ میں لینے کے ذریعے سے تمام مسلمان اقوام میں ایک نئی روح پھونک دی ہے اور انہیں ان کے مستقبل سے امیدوار بنا دیا ہے، آپ اس امید کے نتائج کو دنیائے اسلام کے گوشے گوشے میں ملاحظہ کرسکتے ہیں اور یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے۔ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ مشرق و سطیٰ خصوصاً مسئلہ فلسطین اور اس خطے کے دیگر مسائل مثلاً عراق، شام و لبنان کے مسائل میں امریکہ کی استکباری قوت اپنے تمام تر مادی وسائل کے ساتھ میدان میں آئے اور شکست کھا گئے، یہی ایک زندہ حقیقت ہے۔ حضرت آیت اللہ امام خمینی (رہ) نے عملی میدان میں کرکے دکھایا اور تمام عالم اسلام یعنی تمام دنیائے اسلام کے لئے اپنے عزم و حوصلے کے قلم سے لکھ دیا کہ تمام دنیا کی مسلمان حکومتوں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کے نزدیک آنا چاہیئے اور ایک دوسرے کی مدد کرنا چاہیئے، اس لئے اسلام کسی ملت یا کسی مذہب کے خلاف نہیں ہے بلکہ ظلم اور استکبار و استبداد کے خلاف ہے۔
تحریر: جاوید عباس رضوی
دورِ حاضر عصرِ امام خمینی ؒ
اسلامی انقلاب کے ثمرات میں سے ایک ثمرہ اسلامی تہذیب ہے، جس نے اپنے ہمراہ ایک نئی لغت کو مسلمانانِ ایران اور دیگر مسلمان عوام کے لیے بطور تحفہ پیش کیا۔ اس لغت نے جو اسلامی انقلاب کی بے نیاز تہذیب کی عکاس ہے، دنیا کے لوگوں کو حقیقی اور غیر حقیقی اسلام کی پہنچان عطا کی۔ ان لغات اور اصلاحات میں سے ایک "اسلام نابِ محمدی" کی اصطلاح و لغت ہے، جو امام خمینی کی یادگار ہے۔ اسلامی انقلاب کے رہبر گرامی بھی اس بارے میں فرماتے ہیں:
"اسلام ناب کی حقیقت ایک جذاب حقیقت ہے، جو خود غرضی اور کینہ ورزی سے آلودہ نہ ہونے والے دلوں کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ یہ وہی حقیقت ہے جسے امام خمینی اور انقلاب نے دوبارہ دنیا والوں کے سامنے پیش کیا اور تشنہ دلوں اور تلاش کرنے والی آنکھوں کے سامنے بیان کیا۔ مکتبِ انقلاب میں جس کی بنیاد ہمارے امام نے رکھی، سفیانی اور مروانی اسلام کی بساط کو لپیٹ دیا گیا ہے۔ وہ اسلام جو فقط نام کا ہو، صرف ظاہری عبادتوں تک محدود ہو، جو دولتمندوں اور سلاطین کی خدمت کیلۓ مخصوص کر دیا گیا ہو، بہ الفاظ دیگر وہ اسلام جو باطل طاقتوں کے ہاتھوں میں ایک آلہ ہو جائے اور دنیا کی قوموں کے لیے ایک آفت، ایسا اسلام انقلاب کے مکتب سے سمیٹ لیا گیا اور اس کی جگہ وہ اسلام رائج کیا گیا، جو اسلام قرآنی اور محمدی ہے، عقیدہ جہاد ہے، وہ اسلام جو ظالم کا دشمن اور مظلوم کا مددگار ہے۔ وہ اسلام جو دنیا کے فرعونوں کے مقابلے پر ہے، خلاصہ یہ ہے کہ وہ اسلام جو دنیا کے جباروں اور متکبروں کو گرانے والا اور اس کی جگہ مستضعفین کی حکومت قائم کرنے والا ہے، اسے رائج کیا گیا۔"
آپ وہ روح اللہ تھے، جو موسیٰ عصاید بیضا کے ساتھ اور مصطفوی فرمان کے ساتھ مظلوموں کی نجات کے لیے کمربستہ ہوگئے، آپ نے زمانے کے فرعونوں کو ہلا کر رکھ دیا اور مظلوم طبقے اور مستضعفین کے دلوں میں امید کی کرن روشن کر دی۔ آپ نے انسانوں کو کرامت اور مومنین کو عزت عطا کی۔ مسلمانوں کو قوت و شوکت اور بے روح مادی دنیا کو معنویت عطا کی۔ عالم اسلام کو حرکت اور مجاہدین فی سبیل اللہ کو بہادری اور جذبہ شہادت عطا کیا۔ آپ نے بتوں کو پاش پاش کر دیا اور شرک آلود عقائد کو مٹایا۔ امام خمینی کی شخصیت اور آپ کی حیات اسلام ناب محمدی کا مجسمہ اور اسلامی انقلاب کی عملی صورت تھی۔ امام خمینیؒ نے اسلام کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے وہی انقلاب کا راستہ اختیار کیا، جو رسول اللہﷺ نے اختیار کیا تھا۔
آپؒ مناجات، تہجد اور مخلصانہ انکساری کے لحاظ سے "عسی ان یبعثک ربک مقاما محمود" کی منزل پر فائز تھے۔ آپ نے اپنی زندگی کے ایام اور لحظات جہاد بالنفس میں گزارے، اس طرح آپ نے ان قرآنی آیات کو عملی اور مجسم کر دیا، جو مخلصین، متقین اور صالحین کی صفات کو بیان کرتی ہیں، آپ نے اسلامی معاشرے کی تشکیل کے ذریعے نہ صرف معاشرے کی زندگی کے ماحول میں قرآن کو عملی کیا بلکہ خود اپنی ذات اور اپنی زندگی میں بھی قرآن کو عملی زینت بخشی۔ آپ نے پوری دنیا کو سمجھا دیا کہ کامل انسان ہونا، علیؑ ابن ِابی طالب کے حقیقی شیعہ کے طور پر زندگی گزارنا، ایک افسانہ نہیں بلکہ ممکن چیز ہے۔
امام خمینی کی ترقی اور کامیابی کا اصلی راز استکباری طاقتوں کے ساتھ مقابلہ ہے۔ انہوں نے دشمن کو پہنچان لیا اور پوری قدرت اور استقامت کے ساتھ دشمن کے مقابلے میں کھڑے ہوگئے اور ان پر ذرہ برابر اعتماد نہ کیا۔ امام خمینی عوام کیساتھ خطاب فرماتے اور آپ معتقد تھے کہ اگر دنیا کے عظیم تحولات اور تبدیلیاں عوام کے ہاتھوں انجام پائیں تو پھر یہ تحولات ناقابلِ شکست ہیں، عوام دنیا میں تحول ایجاد کرسکتی ہے اور اپنے ماحول کو بدل سکتی ہے۔ اپنی فردی زندگی میں دین پر عمل کرنا اور دین کی عملی پابندی کرنا، اسی طرح نفس کے شیطانی غلبہ اور نفسانی وسوسوں کے مقابلے میں جہاد کرنا، یہ دو ایسے عظیم مطلب اور مبارزہ کے دو میدان ہیں، جن کو امام خمینیؒ ایک دوسرے سے جدا نہیں کرتے تھے۔
اجتماعی اور سیاسی میدان میں شیطان بزرگ اور تمام شیطانی طاقتوں کے مقابلے میں جہاد کرتے تھے اور انسان کے باطنی میدان کے حوالے سے جہاد بالنفس کرتے تھے۔ امام خمینی کی معنوی قدرت و طاقت، آپ کی روحانی شجاعت اس قدر تھی کہ جس مسئلہ میں اسلام اور مسلمین کے لیے ڈٹ کر فیصلہ کرتے تھے، پوری دنیا آپ کے اس فیصلے پر حیران ہو جاتی تھی۔ یہ شجاعت میدانِ جنگ کی شجاعت سے بھی بالاتر ہے۔ یہ اخلاقی اور روحی شجاعت ہے، جسے بہت کم بزرگانِ عالم اپنے اعمال اور رفتار میں اپنا سکتے ہیں۔ امام خمینی نے اسلام کو عزت بخشی اور دنیا میں قرآن کا پرچم بلند کیا۔ اُس زمانے میں جب تمام سیاسی طاقتیں دین کو مٹانے کی کوشش میں مصروف تھیں، آپ نے ایسے نظام کو قائم کیا، جس کی بنیاد معنویت اور اخلاقی اقدار پر تھی۔
راہِ خمینی کی ان خصوصیات کی جانب توجہ کرتے ہوئے جو ذکر کی گئی ہیں، بلاشک و تردد دور حاضر کو "زمانہ خمینی" کا نام دیا جانا چاہیئے۔ ہم صراحت کے ساتھ یہ پورے عالم کی اقوام کے سامنے یہ اعلان کرتے ہیں کہ دشمن کا یہ نعرہ جسے وہ مختلف طریقوں سے دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے کہ امام خمینی کا دور ختم ہوگیا، یہ محض ایک استکباری پروپیگنڈہ اور دھوکہ ہے۔ امریکہ اور اس کے ساتھیوں کے برخلاف امام خمینی اپنی ملت اور معاشرے میں موجود ہیں۔ امام خمینی کا دور باقی ہے اور باقی رہے گا۔ ان کی راہ ہماری راہ، اِن کا ہدف ہمارا ہدف اور اِن کی رہنمائی ہمارے لیے روشن چراغ ہے
تحریر: سویرا بتول۔
ایران اورافغانستان کے درمیان ریل رابطہ قانونی ہوگیا
اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ کے نمائندوں نے ایران اور افغانستان کے درمیان معاہدے کے مسودے کو منظور کرکے ایران اور افغانستان کے درمیان ریلوے رابطے کو قانونی حیثیت دیدی ہے۔ اطلاعات کے مطابق ایران اور افغانستان کے درمیان ریل رابطے کے مسودے کے حق میں 178 نمائندوں نے ووٹ دیا جبکہ 2 نے مخالفت کی اور 2 نمائندوں نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ مہر کی رپورٹ کے مطابق خواف و ہرات ریلوے لائن کا افتتاح گذشتہ سال ایران کے صدر حسن روحانی اور افغانستان کے صدر اشرف غنی نے کیا تھا۔
پاکستانی وزیر خارجہ کی نجف اشرف میں حضرت علی (ع) کے روضہ مبارک پر حاضری
پاکستانی ذرائع کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی عراق کے تین روزہ دورے پر ہیں جہاں انھوں نے نجف اشرف میں حضرت علی علیہ السلام کے روضہ مبارک کی زيارت کا شرف حاصل کیا اور نماز ادا کی۔ اطلاعات کے مطابق پاکستانی وزیر خارجہ نے اس سے قبل عراق کے وزیر خارجہ اور دیگر اعلی عراقی حکام کے ساتھ دو طرفہ تعلقات ، علاقائي اور عالمی امور کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔ پاکستانی وزیر خآرجہ نے مسجد کوفہ اور دیگر تاریخی مقدس مقامات کی بھی زیارت کی ، جن میں حضرت مسلم بن عقیل (ع) اور حضرت ہانی بن عروہ (ع) کے مزارات بھی شامل ہیں۔ پاکستانی وزیر خارجہ نے نجف اشرف میں ممتاز عالم دین آیت اللہ بشیر نجفی سے بھی ملاقات اور گفتگو کی۔
راستگوئي
جھوٹ بولنا ايک انتہائي برى صفت ہے اور گناہان کبيرہ ميں ہے دنيا کى تمام قوميں اور ملتيں ، جھوٹ بولنے کى مذمت کرتى ہيں اور جھوٹ بولنے والے کو پست اورگھٹيا قرار ديتى ہيں جھوٹ بولنے والے شخص کا دنيا والوں کى نظر ميں کوئي عزت واعتبار نہيں ہوتا ايک شريف اور اچھا شخص جھوٹ نہيں بولتا اسلام نے بھى اس برى صفت کى مذمت کى ہے اور اسے گناہ کبيرہ اور حرام قرار ديا ہے امام محمد باقر عليہ السلام فرماتے ہيں: ( ”جھوٹ خرابى ايمان کى بنياد ہے ” حضرت صادق عليہ السلام فرماتے ہيں:
کہ حضرت عيسى عليہ السلام نے فرمايا جو زيادہ جھوٹ بولتا ہے اس کى کوئي عزت ( نہيں ہوتى)
حضرت على عليہ السلام فرماتے ہيں: ( کوى کام جھوٹ سے بڑھ کے گھٹيا نہيں الله کے سب نبيوں اور سب دينى رہنماؤ ں نے لوگوں کو سچائي کى دعوت دى ہے سچ ايک فطرى اور طبيعى چيز ہے اور انسان کى سرشت کا حصہ ہے سب سچ اور سچّے کو پسند کرتے ہيں اور جھوٹے سے نفرت کرتے ہيں يہاں تک کہ جھوٹ بولنے والا شخص بھى ايسا ہى ہے اگر بچے کو اس کے حال پہ چھوڑدياجائےتو فطرى طور پر اس کى تربيت ايسى ہوگى کہ وہ سچا ہوگا يہ تو خارجى عوامل اور اسباب ہيں کہ جو اسے خداداد فطرت سے منحرف کرديتے ہيں اور اسے دروغ گوئي کى طرف لے جاتے ہيں جھوٹ بولنا ايک ننھے بچے سے اصلاً ميں نہيں کھاتا بعد از آن اسسے منحرف ہوجائے اور جھوٹ بولنے کا عادى بن جائے تو بڑے ہوکر يہ عادت ترک کرنا اس کيلئے دشوار ہوگا اور زيادہ امکان يہى ہے کہ وہ اس سے دستبر دار نہيں ہوگا پھر اس پر نہ کوئي آيت اثر کرے گى نہ روايت اور نہ وعظ ونصيحت ماں باپ کى ذمہ دارى ہے کہ وہ بچپن ہى سے اس بات کى فکر کريں کہ ان کى اولاد سچى ہو جھوٹ کے علل و اسباب کوروکيں اور سچائي کو جو ان کى سرشت ميں شامل ہے اس کى پرورش کريں سچائي کى تربيت کو نظر انداز نہيں کرنا چاہيے اور نہ اسے بڑے ہونے پرٹال دينا چاہيے جو ماں باپ اپنى اولاد کى تربيت کے خواہشمند ہيں اور احساسذمہ دارى رکھتے ہيں توانہيں چاہيے کہ
مندرجہ ذيل امور کى طرف توجہ فرمائيں
1بچے کى تربيت پر اثر انداز ہونے واى ايک نہايت اہم چيز خاندان کا ماحول ہے خاندان کے ماحول ميں بچہ پروان چڑھتاہے اور وہ ماں باپ سے اور ساتھ رہنے والوں سے اخلاق سيکھتا ہے اور ان کى پيروى کرتا ہے اگر گھر کا ماحول سچائي اور درستى پر بنى ہو ، ماں باپ اور ديگر افراد صداقت اور سچائي سے ايک دوسرے کے ساتھ پيش آنے والے ہوں تو ان کے بچے بھى يہى سيکھيں گے اس کے برعکس اگر گھر کا ماحول ہى جھوٹ اور دروغ گوئي پر بنى ہو، ماں باپ ايک دوسرے سے اپنى اولاد سے اور ديگر افراد سے جھوٹ بولتے ہوں بے گناہ بچے جو ايسے ماحول ميں پرورش پائيں گے يہى برى عادت ماں باپ سے سيکھيں گے اور دروغ گو بن جائيںگے جن بچوں کے کان جھوٹ سے آشنا ہو گئے ہوں اور جو ہر روز ماں باپ سے دروغ گوئي کے مظاہر ديکھتے ہوں ان سے کيسے توقع کى جا سکتى ہے کہ وہ سچّے اور صادق پروا ن چڑھيں ايسے ماحول ميں يہ صلاحيت نہيں ہے کہ وہ جھوٹے اور فريبى شخص کے علاوہ کچھ تريت کرے ايسا زہر يلا ماحول ہى ہے کہ جو ايک حساس اور اثرات قبول کرنے والے بچے کى فطرت کو سچائي سے منحرف کرديتا ہے اور دروغ گوئي کا عادى بنا ديتا ہے بعض نادان ماں باپ نہ صرف يہ کہ خود جھوٹ بولتے ہيں بلکہ اپنے بچوں کو بھى جھوٹ بولنے کى تلقين کرتے ہيں باپ گھر پہ ہے ليکن بچے کو کہتا ہے فلان شخص سے کہو ابو گھر پہ نہيں ہيں بچہ جو ٹھيک ٹھاک تھا اور اس نے گھر کا کام نہيں کيا باپ اس سے کہتاہے استاد سے کہنا ميں بيمار تھا ايسے سينکڑوں جھوٹ ہيں جن کا بعض گھروں ميں ہر روز تکرار ہوتا ہے ايسے نادان ماں باپ اپنے بچوں سے بہت بڑى خيانت کے مرتکب ہوتے ہيں جھوٹ بولنا گناہ ہے ليکن جھوٹ سکھانا اس سے کہيں بڑا گناہ ے جھوٹے ماں باپ جھوٹ بولنے کى سزاکى علاوہ بھى بہت بڑى سزاپائيں گے اور وہ ہے جھوٹ بولنے کى تربيت دينا ماں باپ کہ جو خاندان کے سرپرست ہوتے ہيں وہ جھوٹ بوليں تو يہ کوئي معمولى گناہ نہيں ہے بلکہ ہمت بڑا گرناہ ہے اس کے ساتھ بہت بڑا گناہ نمسلک ہے اور وہ ہے بچوں کو جھوٹ سکھانا ايسے ماں باپ نہ صرف گناہ کبيرہ کے مرتکب ہوتے ہيں اور انہيں اس کى سزا ملے گى بلکہ وہ اپنے معصوم بچوں کے ساتھ بھى ايک بہت بڑى خيانت کے مرتکب ہوتے ہيں جب کہ يہ بچے ان کے پاس الله کى امانت ہيں اور يہ خيانت ان کى معاشرے کے ساتھ بھى ہے ايسے ماں باپ ہى ہيں جو ايک جھوٹے اور فريب کار معاشرے کو وجود ديتے ہيں لہذا جو ماں باپ چاہتے ہيں ان کے بچے سچے ہوں ان کے پاس اس کے علاوہ کوئي چارہ نہيں کہ وہ خود راست گوئي اختيار کريں اور اپنى اولاد کے ليے بہترين ماحول فراہم کريں اور ان کے ليے نمونہ عمل بنيں رسل لکھتا ہے ”اگر آپ چاہتے ہيں کہ بچے جھوٹ بولنا نہ سيکھيں تو اس کے علاوہ کوئي چارہ نہيں کہ بڑے پور ى توجہ سے ہميشہ بچوں کے سامنے سچائي ( اختيار کريں ”)
کيا شيعہ قرآن مجيد ميں تحريف کے قائل ہيں؟
شيعوں کے مشہور علماء کا يہ عقيده ہے کہ قرآن مجيد ميں کسی بھی قسم کی تحريف نہيں ہوئی ہے اور وه قرآن جو آج ہمارے ہاتھوں ميں ہے بعينہ وہی آسمانی کتاب ہے جو پيغمبر گرامی پر نازل ہوئی تھی اور اس ميں کسی قسم کی زيادتی اور کمی نہيں ہوئی ہے اس بات کی وضاحت کے لئے ہم يہانچند شواہد کی طرف اشاره کرتے ہيں:
١۔پروردگار عالم مسلمانوں کی آسمانی کتاب کی صيانت اور حفاظت کی ضمانت ليتے ہوئے فرماتا ہے :
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ (1)
ہم نے ہی اس قرآن کو نازل کيا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہيں.
واضح ہے کہ ساری دنيا کے شيعہ چونکہ قرآن مجيد کو اپنے افکار اور کردار کے لئے اساس قرار ديتے ہيں لہذا اس آيہ شريفہ کی عظمت کا اقرار کرتے ہوئے اس آيت ميں موجود اس پيغام پر کامل ايمان رکھتے ہيں جو اس کتاب خدا کی حفاظت سے متعلق ہے .
٢۔شيعوں کے عظيم الشأن امام حضرت علی نے جو ہميشہ پيغمبر اکرم کے ہمراه رہے اور کاتبان وحی ميں سے ايک تھے آپ سے لوگوں کو مختلف موقعوں اور مناسبتوں پر اسی قرآن کی طرف دعوت دی ہے ہم اس سلسلے ميں ان کے کلام کے کچھ حصے يہاں پيش کرتے ہيں:
”واعلموا أن ھذا القرآن ھو الناصح الذ لايغش والھاد الذ لايضلّ” (2)
جان لو کہ يہ قرآن ايسا نصيحت کرنے والا ہے جو ہرگز خيانت نہيں کرتا اور ايسا رہنمائی کرنے والا ہے جو ہرگز گمراه نہيں کرتا.
”ن للهّ سبحانہ لم يعط أحداً بمثل ھذا القرآن فنہ حبل للهّ المتين و سببہ المبين”(3)
بے شک خداوند سبحان نے کسی بھی شخص کو اس قرآن کے جيسی نصيحت عطا نہيں فرمائی ہے کہ يہی خدا کی محکم رسی اور اس کا واضح وسيلہ ہے.
”ثم أنزل عليہ الکتاب نورًا لا تطفأ مصابيحہ و سراجًا لا يخبو توقده.ومنھاجًا لا يضل نھجہ . .. و فرقانا لا يخمد برھانہ”(4)
اور پھر آپۖ پر ايسی کتاب کو نازل کيا جس کا نور کبھی خاموش نہيں ہوگااور جس کے چراغ کی لو کبھی مدھم نہيں پڑ سکتی وه ايسا راستہ ہے جس پر چلنے والا کبھی بھٹک نہيں سکتا اور ايسا حق اور باطل کا امتياز ہے جو کمزور نہيں پڑ سکتا .
شيعوں کے امام عالی شان امام حضرت امير المومنين علی بن ابی طالب کے گہربار کلام سے يہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن مجيد کی مثال ايک ايسے روشن چراغ کی ہے جو ہميشہ اپنے پيروکاروں کے لئے مشعل راه کا کام کرے گا. اور ساتھ ہی ساتھ اس ميں کوئی ايسی تبديلی نہيں ہوگی جو اس کے نور کے خاموش ہوجانے يا انسانوں کی گمراہی کا باعث ہو .
٣۔شيعہ علماء اس بات پر اتفاق نظر رکھتے ہيں کہ پيغمبر اسلام نے يہ ارشاد فرمايا ہے :
”ميں تمہارے درميان دو گراں قدر چيزيں چھوڑے جارہا ہوں ايک کتاب خدا (قرآن) ہے اور دوسرے ميرے اہل بيت ہيں جب تک تم ان دو سے متمسک رہو گے ہرگز گمراه نہيں ہوگے.”
يہ حديث اسلام کی متواتر احاديث ميں ايک ہے جسے شيعہ اور سنی دونوں فرقوں نے نقل کيا ہے.اس بيان سے يہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ شيعوں کی نظر ميں کتاب خدا ميں ہرگز کسی قسم کی تبديلی واقع نہيں ہوسکتی کيونکہ اگر قرآن مجيد ميں تحريف کا امکان ہوتا تو اس سے تمسک اختيار کر کے ہدايت حاصل کرنا اور گمراہی سے بچنا ممکن نہ ہوتااور پھر اس کے نتيجہ مينقرآن اور حديث ثقلين کے درميان ٹکراؤ ہوجاتا .
٤.شيعوں کے اماموں نے اپنی روايات ميں (جنہيں ہمارے تمام علماء اور فقہا نے نقل کيا ہے) اس حقيقت کو بيان کيا ہے کہ قرآن مجيد حق وباطل اور صحيح و غلط کے درميان فرق پيدا کرنے والا ہے لہذا ہر کلام حتی ہم تک پہنچنے والی روايات کے لئے ضروری ہے کہ انہيں قرآن مجيد کے ميزان پر تولا جائے اگر وه قرآنی آيات کے مطابق ہوں تو حق ہيں ورنہ باطل. اس سلسلے ميں شيعوں کی فقہ اور احاديث سے متعلق کتابوں ميں بہت سی روايتيں ہيں ہم يہاں ان ميں سے صرف ايک روايت کو پيش کرتے ہيں : امام صادق فرماتے ہيں:
”مالم يوافق من الحديث القرآن فھو زخرف”(5)
ہر وه کلام باطل ہے جو قرآن سے مطابقت نہ رکھتا ہو .
اس قسم کی روايات سے بھی يہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن مجيد ميں کسی بھی قسم کی تحريف نہيں کی جاسکتی اسی وجہ سے اس کتاب کی يہ خاصيت ہے کہ وه حق و باطل ميں فرق پيدا کرنے والی ہے اورہميشہ باقی رہنے والی ہے .
٥.شيعوں کے بزرگ علماء نے ہميشہ اسلام اور تشيع کی آفاقی تہذيب کی حفاظت کی ہے ان سب نے اس حقيقت کا اعتراف کيا ہے کہ قرآن مجيدميں کبھی کوئی تحريف نہيں ہوئی ہے چوں کہ ان تمام بزرگوں کے نام تحرير کرنا دشوار کام ہے لہذا ہم بطور نمونہ ان ميں سے بعض کا ذکر کرتے ہيں :
١۔جناب ابوجعفر محمد بن علی بن حسين بابويہ قمی (متوفی ٣٨١ ھ) جو ”شيخ صدوق” کے نام سے مشہور ہيں فرماتے ہيں :
” قرآن مجيد کے بارے ميں ہمارا عقيده ہے کہ وه خدا کا کلام ہے وه ايک ايسی کتاب ہے جس ميں باطل نہيں آسکتا وه پروردگار حکيم و عليم کی بارگاه سے نازل ہواہے اور اسی کی ذات اس کو نازل کرنے اور اس کی محافظت کرنے والی ہے .”(6)
٢۔جناب سيد مرتضیٰ علی بن حسين موسوی علوی (متوفی ٤٣٦ ھ)جو ”علم الہدیٰ” کے نام سے مشہور ہينفرماتے ہيں:
”پيغمبر اکرم کے بعض صحابۂ کرام جيسے عبدلله بن مسعود اور اُبیّ بن کعب وغيره نے بارہا آنحضرت کے حضور ميں قرآن مجيد کو اول سے لے کر آخر تک پڑھا ہے يہ بات اس حقيقت کی گواہی ديتی ہے کہ قرآن مجيد ترتيب کے ساتھ اور ہر طرح کی کمی يا پراگندگی کے بغير اسی زمانے ميں جمع کر کے مرتب کيا جاچکا تھا.”(7)
٣۔جناب ابوجعفر محمد بن حسن طوسی (متوفی ٤٦٠ ھ)جوکہ شيخ الطائفہ کے نام سے مشہور تھے وه فرماتے ہيں:
”قرآن مجيد ميں کمی يا زيادتی کا نظريہ کسی بھی اعتبار سے اس مقدس کتاب کے ساتھ مطابقت نہيں رکھتاکيونکہ تمام مسلمان اس بات پر اتفاق نظر رکھتے ہيں کہ قرآن مجيد ميں کسی طرح کی زيادتی واقع نہيں ہوئی ہے اسی طرح ظاہراً سارے مسلمان متفق ہيں کہ قرآن مجيدميں کسی قسم کی کمی واقع نہيں ہوئی ہے اور يہ نظريہ کہ (قرآن ميں کسی قسم کی کمی واقع نہيں ہوئی ہے) ہمارے مذہب سے زياده مناسبت رکھتا ہے جناب سيد مرتضی نے بھی اس بات کی تائيد کی ہے اور روايات کے ظاہری مفہوم سے بھی يہی بات ثابت ہوتی ہے کچھ لوگوں نے بعض ايسی روايتوں کی طرف اشاره کيا ہے جن ميں قرآن مجيد کی آيات ميں کمی يا ان کے جابجا ہوجانے کا ذکر ہے ايسی روايتيں شيعہ اور سنی دونوں ہی کے يہاں پائی جاتی ہيں۔ ليکن چونکہ يہ روايتيں خبر واحد ہيں ان سے نہ تو يقين حاصل ہوتا ہے اور نہ ہی ان پر عمل کيا جاسکتا ہے( 8) لہذا بہتر يہ ہے کہ اس قسم کی روايتوں سے روگردانی کی جائے۔”( 9 ) .
٤۔جناب ابوعلی طبرسی صاحب تفسير ”مجمع البيان” فرماتے ہيں:
”پوری امت اسلاميہ اس بات پر متفق ہے کہ قرآن مجيد ميں کسی بھی قسم کا اضافہ نہيں ہوا ہے ا س کے برخلاف ہمارے مذہب کے کچھ افراد اور اہل سنت کے درميان ”حشويہ” فرقہ کے ماننے والے قرآن مجيد کی آيات ميں کمی کے سلسلے ميں بعض روايتوں کو پيش کرتے ہيں ليکن جس چيز کو ہمارے مذہب نے مانا ہے جو صحيح بھی ہے وه اس نظريہ کے برخلاف ہے.”(10)
٥۔جناب علی بن طاؤس حلی (متوفی ٦٦٤ ھ) جو ”سيد بن طاؤس” کے نام سے مشہور ہيں فرماتے ہيں :
”شيعوں کی نگاه ميں قرآن مجيد ميں کسی بھی قسم کی تبديلی واقع نہيں ہوئی ہے”( 11)
٦۔ جناب شيخ زين الدين عاملی (متوفی ٨٧٧ ھ) اس آيہ کريمہ:(إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ) کی تفسير کرتے ہوئے فرماتے ہيں کہ:
”يعنی ہم قرآن مجيد کو ہر قسم کی تبديلی اور زيادتی سے محفوظ رکھيں گے.”(12)
٧۔کتاب احقاق الحق کے مؤلف سيد نور لله تستری (شہادت ١٠١٩ ھ) جو کہ شہيد ثالث کے لقب سے مشہور ہيں فرماتے ہيں: ” بعض لوگوں نے شيعوں کی طرف يہ نسبت دی ہے کہ وه قرآن ميں تبديلی کے قائل ہيں ليکن يہ سارے شيعوں کا عقيده نہيں ہے بلکہ ان ميں سے بہت تھوڑے سے افراد ايسا عقيده رکھتے ہيں اور ايسے افراد شيعوں کے درميان مقبول نہيں ہيں (13)”.
٨۔جناب محمد بن حسين (متوفی ١٠٣٠ ھ)جو”بہاء الدين عاملی ” کے نام سے مشہور ہيں فرماتے ہيں کہ:
”صحيح يہ ہے کہ قرآن مجيد ہر قسم کی کمی و زيادتی سے محفوظ ہے اور يہ کہنا کہ امير المومنين علی کا نام قرآن مجيد سے حذف کرديا گيا ہے” ايک ايسی بات ہے جو علماء کے نزديک ثابت نہيں ہے جو شخص بھی تاريخ اور روايات کا مطالعہ کرے گااس کو معلوم ہوجائے گا کہ قرآن مجيد متواتر روايات اور پيغمبر اکرمۖ کے ہزاروں اصحاب کے نقل کرنے کی وجہ سے ثابت و استوارہے اور پيغمبراکرم کے زمانے ميں ہی پورا قرآن جمع کيا جاچکا تھا.” ( 14)
٩۔کتاب وافی کے مؤلف جناب فيض کاشانی (متوفی ١٠٩١ ھ) نے آيت (إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ) کو اور اس جيسی آيتوں کو قرآن مجيد ميں عدم تحريف کی دليل قرار ديتے ہوئے يوں لکھا ہے: ”اس صورت ميں يہ کيسے ممکن ہے کہ قرآن مجيد ميں تحريف واقع ہو ساتھ ہی ساتھ تحريف پر دلالت کرنے والی روايتيں کتاب خدا کی مخالف بھی ہيں لہذا ضروری ہے کہ اس قسم کی روايات کو باطل سمجھا جائے.”( 15)
١٠ ۔جناب شيخ حر عاملی (متوفی ١١٠٤ ھ) فرماتے ہيں کہ :
”تاريخ اور روايات کی چھان بين کرنے والا شخص اس بات کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے کہ قرآن مجيد، متواتر روايات اور ہزاروں صحابہ کرام کے نقل کرنے سے ثابت و محفوظ رہا ہے اور يہ قرآن پيغمبر اکرم کے زمانے ميں ہی منظم صورت ميں جمع کيا جاچکا تھا.’ ‘ ( 16)
١١ ۔بزرگ محقق ”جناب کاشف الغطائ” اپنی معروف کتاب ”کشف الغطائ” ميں لکھتے ہيں:
”اس ميں شک نہيں کہ قرآن مجيد خداوندکريم کی صيانت و حفاظت کے سائے ميں ہرقسم کی کمی و تبديلی سے محفوظ رہا ہے ا س بات کی گواہی خود قرآن مجيدبھی ديتا ہے اور ہرزمانے کے علماء نے بھی يک زبان ہو کر اس کی گواہی دی ہے اس سلسلے ميں ايک مختصر سے گروه کا مخالفت کرنا قابل اعتناء نہيں ہے .”
١٢ ۔اس سلسلہ ميں انقلاب اسلامی کے رہبر حضرت آية لله العظمیٰ امام خمينی رحمة لله عليہ کا بيان بھی موجود ہے جسے ہم ايک واضح شاہد کے طور پر پيش کرتے ہيں: ہر وه شخص جو قرآن مجيد کے جمع کرنے اس کی حفاظت کرنے، اس کو حفظ کرنے ، اس کی تلاوت کرنے اور اس کے لکھنے کے بارے ميں مسلمانوں کی احتياط سے آگاہی رکھتا ہو وه قرآن کے سلسلے ميں نظريہ تحريف کے باطل ہونے کی گواہی دے گا اور وه روايات جو اس بارے ميں وارد ہوئی ہيں وه يا تو ضعيف ہيں جن کے ذريعے استدلال نہيں کيا جاسکتا يا پھر مجہول ہيں جس سے ان کے جعلی ہونے کی نشاندہی ہوتی ہے يا يہ روايتيں قرآن کی تاويل اور تفسير کے بارے ميں ہيں يا پھر کسی اور قسم کی ہيں جن کے بيان کے لئے ايک جامع کتاب تاليف کرنے کی ضرورت ہے اگر موضوع بحث سے خارج ہونے کا خدشہ نہ ہوتا تو يہاں پر ہم قرآن کی تاريخ بيان کرتے اور ساتھ ہی ساتھ يہ بھی واضح کرتے کہ ان چند صديوں ميں اس قرآن پر کيسے حالات گزرے ہيں اور اس بات کو بھی روشن کرديتے کہ جو قرآن مجيد آج ہمارے ہاتھوں ميں ہے وه بعينہ وہی آسمان سے آنے والی کتاب ہے اور وه اختلاف جو قرآن کے قاريوں کے درميان پايا جاتا ہے وه ايک جديد امر ہے جس کا اس قرآن سے کوئی تعلق نہيں ہے جسے لے کر جبرئيل امين پيغمبر کے قلب مطہر پر نازل ہوئے تھے.”( 17)
نتيجہ:مسلمانونکی اکثريت خواه وه شيعہ ہوں يا سنی اس بات کی معتقد ہے کہ يہ آسمانی کتاب بعينہ وہی قرآن ہے جو پيغمبر خدا پر نازل ہوئی تھی اور وه ہر قسم کی تحريف ، تبديلی ، کمی اور زيادتی سے محفوظ ہے. ہمارے اس بيان سے شيعوں کی طرف دی جانے والی يہ نسبت باطل ہوجاتی ہے کہ وه قرآن ميں تحريف کے قائل ہيں اگر اس تہمت کا سبب يہ ہے کہ چند ضعيف روايات ہمارے ہاں نقل ہوئی ہيں تو ہمارا جواب يہ ہوگا کہ ان ضعيف روايات کو شيعوں کے ايک مختصر فرقے ہی نے نہيں بلکہ اہل سنت کے بہت سے مفسرين نے بھی اپنے ہاں نقل کيا ہے يہاں ہم نمونے کے طور پر ان ميں سے بعض روايات کی طرف اشاره کرتے ہيں :
١۔ابوعبدلله محمد بن احمد انصاری قرطبی اپنی تفسير ميں ابوبکر انبازی سے اور نيز ابی بن کعب سے روايت کرتے ہيں کہ سوره احزاب (جس ميں تہتر آيتيں ہيں) پيغمبر کے زمانے ميں سوره بقره (جس ميں ( دو سو چھياسی آيتيں ہيں) کے برابر تھا اور اسوقت اس سوره ميں آيہ ”رجم” بھی شامل تھی .(18)
ليکن اب سوره احزاب ميں يہ آيت نہيں ہے)اور نيز اس کتاب ميں عائشہ سے نقل کرتے ہيں کہ انہوں نے کہا :
”پيغمبر کے زمانے ميں سورهٔ احزاب ميں دوسو آيتيں تھيں پھر بعد ميں جب مصحف لکھا گيا تو جتنی اب اس سوره ميں آيتيں ہيں ان سے زياده نہ مل سکيں” ( 19)
٢۔کتاب ”الاتقان” کے مؤلف نقل کرتے ہيں کہ ”اُبیّ ” کے قرآن ميں ايک سو سولہ سورے تھے کيونکہ اس ميں دو سورے حفد اور خلع بھی تھے .جب کہ ہم سب جانتے ہيں کہ قرآن مجيد کے سوروں کی تعداد ايک سو چوده ہے اور ان دو سوروں (حفد اور خلع) کا قرآن مجيد ميں نام ونشان تک نہيں ہے. ( 20)
٣۔ہبة لله بن سلامہ اپنی کتاب ”الناسخ والمنسوخ” ميں انس بن مالک سے نقل کرتے ہيں کہ وه کہتے ہيں : ”پيغمبر اکرمۖ کے زمانے ميں ہم ايک ايسا سوره پڑھتے تھے جو سورهٔ توبہ کے برابر تھا مجھے اس سوره کی صرف ايک ہی آيت ياد ہے اور وه يہ ہے: ”لوأن لابن آدم واديان من الذھب لابتغیٰ اِليھما ثالثاً ولو أن لہ ثالثاً لابتغیٰ ليھا رابعاً ولا يملأ جوف ابن آدم اِلا التراب و يتوب للهّ علیٰ مَن تاب!”
جب کہ ہم سب جانتے ہيں کہ اس قسم کی آيت قرآن ميں موجود نہيں ہے اوريہ جملے قرآنی بلاغت سے بھی مغايرت رکھتے ہيں.
٤۔.جلال الدين سيوطی اپنی تفسير در المنثور ميں عمر بن خطاب سے روايت کرتے ہيں کہ سوره احزاب سوره بقره کے برابر تھا اور آيہ ”رجم” بھی اس ميں موجود تھی ( 21)
لہذا شيعہ اور سنی دونوں فرقوں کے کچھ افراد نے قرآن ميں تحريف کے بارے ميں ايسی ضعيف روايتوں کو نقل کيا ہے جنہيں مسلمانوں کی اکثريت نے خواه وه شيعہ ہوں يا سنی قبول نہيں کيا ہے . بلکہ قرآن کی آيتوں، عالم اسلام کی صحيح اور متواتر روايتوں ،اجماع، ہزاروں اصحاب پيغمبرۖ کے نظريات اور دنيا کے تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن مجيد ميں کسی بھی قسم کی تحريف ، تبديلی ، کمی يازيادتی نہ آج تک ہوئی ہے اور نہ ہی رہتی دنيا تک ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1) سوره حجر آيت : ٩
2) نہج البلاغہ (صبحی صالح) خطبہ نمبر ١٧٦
3) گذشتہ حوالہ
4) نہج البلاغہ (صبحی صالح) خطبہ نمبر ١٩
5) اصول کافی جلد ١ کتاب فضل العلم باب الاخذ بالسنة و شواہد الکتاب روايت نمبر ٤
6) الاعتقادات ص ٩
7) مجمع البيان جلد ١ ص ١٠ ميں سيد مرتضیٰ کی کتاب ”المسائل الطر ابليسيات”سے نقل کرتے ہوئے
8) ايسی روايت جو حد تواتر تک نہ پہنچتی ہو اور اس کے صدق کا يقين بھی نہ کيا جاسکتا ہووه خبر واحد کہلاتی ہے.(مترجم)
9) تفسير تبيان جلد ١ ص ٣
10) تفسير مجمع البيان جلد ١ ص ١
11) سعد السعود ص ١١٤٤
12) اظہار الحق ج ٢ ص ١٣٠
13) آلاء الرحمن ص ٢٥
14) آلاء الرحمن ص ٢٥
15) تفسير صافی جلد ١ ص1 ٥
16) آلاء الرحمن ص ٢٥
17) تہذيب الاصول ، جعفر سبحانی(دروس امام خمينی قدس سره )جلد ٢ص ٩٦
18) تفسير قرطبی جز ١٤ ص ١١٣ سوره احزاب کی تفسير کی ابتداء ميں
19) گذشتہ حوالہ
20) اتقان جلد ١ ص ٦٧
21) تفسير درالمنثور جلد ٥ ص ١٨٠ سوره احزاب کی تفسير کی ابتداء ميں
اسرائیل کا مستقبل
صیہونی اخبار ہاریٹز کی رپورٹ کے مطابق ایک تجزیہ کار بن آلوف نے کہا کہ غزہ کی حالیہ جنگ اسرائیل کیلئے تاریخ کی سب سے بدترین شکست ہے۔ اس صیہونی کا اعتراف کرنا حماس اور محور مقاومت کی عظمت و ہیبت میں اضافہ کرتا ہے۔ محور مقاومت کی سیسہ پلائی ہوئی دیوار نے ثابت کر دیا کہ وہ ہر دشمن اسلام کے خلاف طاقتور ہیں۔ پہلے جب اسرائیل سے جنگ ہوا کرتی تھی تو کئی سالوں تک جاری رہتی تھی، جس میں دشمن منافقوں سے خوب فائدہ اٹھاتا تھا، مگر اب محور مقاومت اور اسلام پرور مملکت ایران کی بدولت 33 روز جنگ ہوتی ہے، 33 روزہ جنگ کے بعد 22 اور اسکے بعد اب 11 دن کی مسلسل استقامت کے نتیجے میں صیہونیت کو شکست دی اور اسلام مخالف ہر طاقت کو پیغام دیا کہ تم جس میدان میں آجاؤ، تمہاری شکست یقینی ہے۔
دشمن نے شام و عراق کو ٹکڑے کرنا چاہا، مگر راہیان اسلام و مدافعان حرم نے جان کی پرواہ کئے بغیر خونخوار لشکروں کو شکست دی، دشمن نے یمن کا میدان ڈھونڈا مگر عشقِ رسول و اولادِ رسول میں لبریز جوانوں نے الله اكبر کے نعرے بلند کرتے ہوئے آل یہود کی ناک زمین پر رگڑ دی، دشمن نے فلسطین پر قابض ہونے کی تیاری کی، مگر بوڑھوں سے لیکر بچوں تک ہر طبقے نے ہاتھوں میں پتھر لیکر دشمن کو دھول چٹا دی۔ دشمن اسلام کو چاہیئے کہ ماضی کی تاریک راتوں کو یاد کرے، ہوش کے ناخن لے، فلسطین سے بستر بوریا اٹھائے اور اپنی راہ لے۔ کیا غزہ حماس کے پیادہ جنگجوؤں کی کامیابی کے بعد تم کو عبرت نہیں ملی؟ کیا تم اس بدترین شکست کے بعد سوریا اور عراق کی طرف آنے کی کبھی جرأت کرسکتے ہو؟
دشمن جانتا ہے کہ مقاومت کا اسلحہ اور میزائل چند منٹوں میں اسرائیل کو تباہ کر دیں گے، حزب الله جس نے تمہیں عبرت کا نشان بنایا اور تم کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے، یہ الہیٰ لشکر اب ہزار گنا مضبوط اور طاقتور ہے، معرکہ سیف القدس میں حزب الله نے شرکت نہ کرکے تمہارے لئے خطرناک پیغام دیا ہے کہ اگلی بار کوئی حماقت ہوئی تو تمہیں صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے گا، یہ وہ پیشنگوئی ہے جس کے متعلق تمہاری ہی کتابوں میں ذکر کر دیا گیا ہے، تمہارے ہی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے اسرائیل کا وجود بمشکل پانچ سال تک ہو، لہذا تمہارا کوئی وجود نہ تھا اور نہ رہے گا۔
یہی وجہ ہے اسرائیل کے نجس وجود کے ساتھ امریکہ، نام نہاد عرب ممالک اور تمام اسلام مخالف طاقتیں مسلسل زوال کی طرف گامزن ہیں، شرپسندی سے خون خرابہ تو ہوسکتا ہے مگر اپنے ناپاک مقاصد میں ہرگز کامیاب نہیں ہوسکتے، کیونکہ شیطانی طاقتوں کا ہر راستہ زوال پذیر ہے، شیطان پرست گروہ کبھی اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکتے جبکہ اسلامی جمہوریہ ایران اور محور مقاومت عظمت و بلندی کی راہ پر ہیں، جس کا راستہ الہیٰ ہے اور اس راستے کو کبھی زوال نہیں۔ الہیٰ لشکر ہمہ وقت شیطانی طاقتوں کا سر کچلنے کیلئے تیار ہیں۔
تحریر: شاہد عباس ہادی