
سلیمانی
جامع مسجد الجزایر
مسجد جامع الجزایر کو مسجدالحرام و مسجدالنبی(ص) کے بعد عالم اسلام کی تیسری بڑی مسجد ہونے کا اعزاز حاصل ہے جو مشرقی الجزایر میں واقع ہے۔ اس مسجد کا مینار ۲۶۷ میٹر بلند ہے اور ۴۳ فلور پر مشتمل اس مینار میں لفٹ لگا ہوا ہے. اسلامی طرز تعمیر کی شاہکار اس مسجد کو دو ایکڑ پر تعمیر کی گیی ہے جسمیں ایک لاکھ بیس ہزار نمازیوں کی گنجایش موجود ہے اور اس کے کارپارکنگ میں دو ہزار گاڑیوں کی گنجایش موجود ہے۔/
ایران کا صیہونی حکومت کے جرائم کی مذمت کا مطالبہ/ ایران کا جواب دینے کا حق محفوظ
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے مستقل نمائندے مجید تخت روانچی نے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کے نام اپنے خط میں شام میں اسرائيل کے دہشت گردانہ حملے میں ایران کے دو فوجی مشیروں کی شہادت کی مذمت کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران جواب دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔
اقوام متحدہ میں ایرانی نمائندے نے اپنے خط میں اسرائيل کے دہشت گردانہ حملے میں دو ایرانی فوجی مشیروں کی شہادت کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ عالمی برادری کو اسرائیل کے بہیمانہ اور ہولناک جرائم کی بھر پور مذمت کرنی چاہیے۔ انھوں نے شام پر اسرائیلی حملوں کو عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قراردیتے ہوئے کہا کہ اسرائيل عالمی اور علاقائی امن و سلامتی کے لئے بہت بڑا خطرہ بن گيا ہے۔ مجید تخت روانچی نے کہا کہ شام میں ایرانی فوجی مشیروں کو شہید کرنے کے اقدامات کی تمام ذمہ داری اسرائیل پر عائد ہوتی ہے اور ایران اس سلسلے میں مناسب وقت میں مناسب جواب دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔
سعودی عرب کی ظالم و جابراور فرعونی حکومت نے 81 افراد کے سر قلم کردیئے
مہر خبررساں ایجنسی کی الجزیرہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ سعودی عرب کی امریکہ، اسرائیل اور داعش نواز یزیدی ، معاویائی اور فرعونی حکومت نے 81 افراد کے سر تن سے جدا کردیئے ہیں ۔ سعودی عرب کی وزارت داخلہ نے اعلان کیا ہے کہ سعودی عرب کی ظالم و جابراور فرعونی حکومت نے 81 افراد کے سروں کو تن سے جدا کردیا ہے۔
سعودی عرب نے ان افراد پر گمراہ اور شیطانی افکار رکھنے کا الزام عائد کرتے ہوئے ان کی گردنوں کو کاٹ دیا ۔ سزائے موت پانے والوں میں 7 یمنی شہری، 1 شامی شہری اور ایک 13 سالہ بچہ بھی شامل ہے۔ باقی افراد کا تعلق سعودی عرب کے علاقہ قطیف سے بتایا جاتا ہے جہاں شیعہ مسلمان آباد ہیں۔
2 ماہ میں 47 یمنی بچے جاں بحق اور زخمی
یونیسیف نے ایک بیان میں کہا کہ 2022 کے گزشتہ دو مہینوں میں یمن کے مختلف حصوں میں کم از کم 47 بچے ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کی تحقیقات کے مطابق یمن میں جنگ (سات سال قبل) شروع ہونے کے بعد سے اب تک 10,200 سے زائد بچے ہلاک اور زخمی ہوچکے ہیں جو کہ شاید اس سے کہیں زیادہ تعداد ہے۔
رشیا ٹوڈے کے مطابق ، بیان میں کہا گیا ہے کہ یمن میں تشدد، غربت اور بدحالی پھیل چکی ہے اور اس کے لاکھوں بچوں اور ان کے خاندانوں کے لیے سنگین نتائج برآمد ہوئے ہیں، اور اب وقت آگیا ہے کہ یمنیوں اور ان کے بچوں کے لیے دیرپا سیاسی حل تلاش کیا جائے۔ امن اور سلامتی کے وہ حقدار ہیں۔
یمن کے خلاف سعودی عرب کی قیادت میں عرب لیگ کی جارحیت کے آغاز کے بعد سے، یمن میں صحت، اقتصادی، تعلیمی وغیرہ شعبوں کو شدید نقصان پہنچا ہے اور یمنیوں کی بڑی تعداد بے گھر ہوئی ہے، جن میں سے 3.3 ملین سے زیادہ اسکولوں اور کیمپوں میں رہتے ہیں۔ یہ متعدی امراض اور ہیضہ کے پھیلاؤ کا سبب بنی ہے۔
یمن میں 2500 سے زائد اسکول بھی ناقابل استعمال ہیں اور فوجی مقاصد کے لیے استعمال ہوتے ہیں یا پناہ گزینوں کی پناہ گاہیں بن چکے ہیں۔
ترکی میں ناجائز صیہونی صدر کے دورہ کے خلاف عوامی مظاہرے
ترکی کے کئی شہروں اور علاقوں میں ناجائز صیہونی ریاست کے صدر اسحاق ہرتزوگ کے دورہ ترکی کی مذمت کرتے ہوئے بڑے پیمانے پر مظاہرے دیکھنے میں آئے اور نعرہ لگایا کہ "ہم سب قاسم سلیمانی ہیں"۔
انقرہ، استنبول، غازیانتپ، بردور اور دیگر کئی شہروں میں مظاہرین نے صیہونیوں کے پرچم کو نذر آتش کیا اور فلسطین، حزب اللہ اور انصار اللہ کے جھنڈے اور شہید لیفٹیننٹ جنرل قاسم سلیمانی کی تصویریں اٹھائیں اور نعرے لگائے۔
" اسرائیل مردہ باد" اور " امریکہ مردہ باد" کے نعرے اور مزاحمتی تحریکوں کی حمایت اور صہیونیوں کے خلاف جہاد کی دعوت دینے والے نعرے، جن میں "ہم سب قاسم سلیمانی ہیں"، "جہاد کو سلام" اور "حزب اللہ کو سلام" جیسے نعرے لگا رہے تھے۔
ترک شہروں میں ہرتزوگ کے دورے کے خلاف گزشتہ بدھ سے مسلسل مظاہرے دیکھنے میں آ رہے ہیں۔
سرکاری اطلاعات کے مطابق، ترک کارکنوں نے ایئرپورٹ روڈ پر اسرائیلی پرچم کو آگ لگا دی، جہاں ہرتزوگ کا طیارہ انقرہ میں اترا، اور فلسطینی پرچم بلند کیا۔
اسحاق ہرتزوگ بدھ کے روز ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں اترے تھے۔ ان کا دورہ ترکی 2008 کے بعد کسی اسرائیلی رہنما کا پہلا دورہ ہے اور اس نے ترک شہریوں، فلسطینی عوام اور مزاحمتی گروپوں کے ساتھ ساتھ خطے کی مسلم اقوام کی طرف سے مذمت کی لہر دوڑائی ہے۔
taghribnews
شیخ ابراہیم زکزکی کو بیرون ملک علاج کے لئے پاسپورٹ دینے سے حکومت کا انکار
نائیجریا کے مشہور و معروف عالم دین شیخ ابراہیم زکزکی کو بیرون ملک علاج کے لئے پاسپورٹ سمیت ضروری کاغذات دینے سے حکومت انکار کر رہی ہے۔
وہ اور انکی اہلیہ بیمار ہیں اور انہیں جلد سے جلد اسپتال میں داخل ہونے کی ضرورت ہے تاکہ علاج شروع ہو سکے۔ انکے خون میں سیسا اور کیڈمیئم کی مقدار خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔
کنسرنڈ ابوجا انڈیجینس نامی گروہ کے مطابق نائیجریا کے عوام اپنے رہبر کے خلاف حکومت کے ظالمانہ رویے کی مذمت کرتے ہوئے انہیں سفر کے لئے ضروری کاغذات فورا دیئے جانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
کنسرنڈ ابوجا انڈیجینس نامی گروہ کا کہنا ہے کہ شیخ ابراہیم زکزکی نے قانون کی پوری طرح پابندی کی ہے، اس لئے عدالت اس معاملے میں مداخلت کرے اور انہیں بیرون ملک علاج کے لئے ضروری کاغذات دلوائے۔ اس گروہ کا کہنا ہے کہ شیخ زکزکی اور انکی اہلیہ کے علاج کے لئے بیرون ملک سفر میں تاخیر انکے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
کادونا ہائی کورٹ نے شیخ زکزکی اور انکی اہلیہ کو 28 جولائی 2021 کو رہا کر دیا تھا۔
شیخ زکزکی نے نائیجریائی حکومت کے پاسپورٹ دینے سے انکار پر اسے عدالت میں کھینچ لیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ دسمبر 2015 میں نائیجریائی فوجیوں نے زاریا میں بقیۃ اللہ امام باڑے پرحملہ کر اہل بیت کے سیکڑوں چاہنے والوں کا قتل عام کیا۔ اس قتل عام کے دوران شیخ زکزکی کے تین بیٹے بھی شہید ہوگئے۔ تھے۔ نائیجریائی فوجیوں کی بربریت کے نتیجے میں شیخ زکزکی اور انکی اہلیہ بھی شدید زخمی ہوگئے تھے۔
.taghribnews.
رہبر معظم انقلاب اسلامی کا یورپ میں اسلامی طلباء کی انجمنوں کی یونین کے اجلاس میں پیغام
رہبر معظم کے دفتر کی اطلاعات کے مطابق، یورپ میں اسلامی طلبہ تنظیموں کی یونین کے 56ویں سالانہ اجلاس کے آغاز میں رہبر معظم انقلاب اسلامی کا پیغام ان طلبہ کو پڑھ کر سنایا گیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی کے پیغام کا متن حسب ذیل ہے:
﷽
عزیز طلباء،
ان دنوں سیاسی اور عسکری واقعات دنیا کے اسی تاریخی موڑ کا حصہ ہیں جس کے بارے میں سوچا گیا تھا۔ اس مرحلے پر ہماری عظیم قوم کے اشرافیہ پر خصوصی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ محاذوں اور لائن اپ کو پہچاننا اور صحیح پوزیشن کا انتخاب، قلیل مدتی ذمہ داری اور صحیح محاذ کے حق میں پیش رفت کے لیے منصوبہ بندی کرنے کی تیاری ان کا درمیانی مدت کا کام ہے۔
پیارے نوجوانو، آپ دونوں طبقوں میں چمک سکتے ہیں اور ان انجمنوں میں امید پیدا کر سکتے ہیں جو مبارک اسلام کے نام سے مزین ہیں۔
میں اللہ تعالی سے آپ کی بڑھتی ہوئی کامیابیوں کے لیے دعا گو ہوں۔
سید علی خامنہ ای
11 مارچ 2014
.taghribnewsl
شہر مقدس قم میں حجاب کی حمایت میں ہندوستانی خواتین کا اجتماع
سوشل میڈیا کی رپورٹ کے مطابق،شہر مقدس قم میں حجاب کی حمایت میں ہندوستانی خواتین نے ایک اجتماع کا انعقاد کیا۔ اسکا اہم مقصد ہندوستان میں حجاب کی حمایت اور ہندوستان کے آئین میں دۓ گیۓ حق کے لیے آواز بلند کرنا تھا۔
اس اجتماع میں، مقررہ محترمہ زیدی صاحبہ نے ہندوستان میں حجاب کے مسئلے پر روشنی ڈالتے ہوئے اس کے سیاسی پہلو پر گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ کہاں سے شروع ہوا اور بتایا کہ جس طرح سے کرناٹک کی ایک ڈسٹرکٹ، اڈوپی میں طالبات کو حجاب کی اجازت نہیں دی گئی، اور دن بہ دن مسئلہ بڑھتا گیا اسی طرح دوسرے ڈسٹرکٹ میں بھی حجاب پر پابندی کی باتیں شروع ہوئیں۔ لیکن وہاں کے حکام نے حجاب کی مخالفت میں ہوئے اعتراض کو بھی سنبھالا اور طالبات کو اسکول یونیفارم کی پابندی کرتےہوئے سر ڈھانکنے کی بھی اجازت دی۔ اسی طرح اڈوبی کے کالج کی انتظامیہ بھی معاملے کو حل کر سکتی تھی اور ایسا راستہ نکال سکتی تھی کہ مسلمان بچیاں اپنی یونیفارم کے ساتھ اپنے مذہبی حکم پر عمل کر سکیں۔ لیکن سیاست دان حضرات اپنے مفاد کے تحت کافی مدت سے چلے آ رہے طریقے کو بدل کر اس بات کو بڑھا رہے ہیں۔انہوں نے تاکید کی کہ حجاب مسلمانوں کا مسلم حق ہے، اس کے دفاع کے لئے سب کو مل جل کر آواز اٹھانا چاہئے۔
اس کے بعد محترمہ عابدی صاحبہ نے اسلام میں حجاب کے فلسفہ اور اس کی ضرورت اور اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ حجاب سے معاشرے میں عورت کی عفت اور احترام محفوظ رہتا ہے، عورت کے ارتقاء کے لیے راستہ بھی فراہم ہوتا ہے اور وہ اپنی چھپی ہوئی حقیقی صلاحیت کو ظاہر کرنے کی سمت بڑھ سکتی ہے۔
اس اجتماع میں، اس مسئلے کے راہ حل کے طور پر کہا گیا کہ ہمارا فریضہ ہے کہ سب مل کر حق اور مظلوم کی حمایت میں آواز اٹھائیں چاہے تعداد کم ہی کیوں نہ ہو؛ کیونکہ مظلوم کی آواز دبنے والی نہیں ہوتی۔ آج جب ہر طرف سے اسلام اور مسلمانوں پر ھجوم ہے تو ضرورت یہ ہے کہ ہم خود کو علمی لحاظ سے مضبوط کریں اور معاشرے میں انسانیت کو بیدار کریں۔
اس اجتماع میں حجاب پر اشعار کے ساتھ، معنی خیز نعرے بھی لگائے گئے اور اس پیغام کو منتقل کیا گیا کہ ہندوستانی طالبات، ہمیشہ مسلمان خواتین کے ساتھ ہیں اور انکی حمایت کے لئے آمادہ ہیں۔
اس جلسے کے آخر میں، ہندوستانی خواتین کی طرف سے مطالبات کا میمورنڈم بھی پڑھا گیا۔
حماس نے سانحہ پشاور کو ایک قوم کی نسل کشی اورغیر انسانی فعل قراردے دیا
ایکنا نیوز کے مطابق فلسطین کی استقامتی تحریک حماس کے نمائندہ ڈاکٹر خالد قدومی نے امتِ واحدہ پاکستان کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی سے ٹیلی فونک رابطہ کیا اور حماس کے اداروں اور قیادت کی طرف سے کوچہ رسالدار پشاور کے المناک سانحہ پر امت واحدہ پاکستان اور پاکستانی قوم سے تسلیت و تعزیت کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ پرامن شہریوں کا قتل یا کسی مخصوص فرقہ کی نسل کشی ایک غیر انسانی فعل ہے،سانحہ کوچہ رسالدار کے شہداء کا لہو عالمِ اسلام کا لہو ہے۔ جن انسان نما درندوں نے یہ قبیح فعل انجام دیا ہے، وہ مسلمان نہیں بلکہ کفر اور اسلام دشمن قوتوں کے نمائندہ ہیں۔ حماس شہدائے مسجد و امام بارگاہ کوچہ رسالدار کے خانوادوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتی ہے اور شہداء کے ایصالِ ثواب اور درجات کی بلندی کے لئے دعاگو ہے۔
انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کا یہ واقعہ پاکستان کے مسلمانوں کی صفوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنے اور فرقہ وارانہ جذبات کو ہوا دینے کے لئے استعماری و طاغوتی طاقتوں کا بہیمانہ و وحشیانہ اقدام ہے، جو کسی بھی انسان کے لئے قابلِ قبول نہیں۔ تشیع اور تسنن اسلام کے دو بازو ہیں؛ یہ مشرکین، الحادی قوتوں اور طاغوتی حکمرانوں کی سازش ہے کہ اس قسم کے ہتھکنڈوں سے دونوں مکاتب فکر کو آپس میں دست و گریباں کریں۔ امتِ مسلمہ نے اپنی مشترکہ قوت کے ذریعہ ان سازشوں کا مقابلہ کرنا ہے اور دشمن کی سازشوں کو ناکام بنانا ہے۔
ڈاکٹر خالد قدومی نے فلسطینی اتھارٹی اور حماس کی طرف سے اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے عنقریب پاکستان کے دورے کی نوید بھی سنائی، تاکہ فلسطینی و پاکستانی مسلمانوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے حوالہ سے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں اور مل کر اسلام دشمن قوتوں کا مقابلہ کیا جاسکے۔
جہادِ سید ِ سجاد (ع)
بنی امیہ نے جب حکومت ہاتھ میں لی تو میڈیا سے بہت فائدہ اٹھا یا اور شام میں پوری پروپیگنڈہ مشینری کو حکومت اسلامی کے حقیقی وارثوں کے خلاف پروپیگنڈے میں مصروف کردیا ، درباری محدثین ،مورخین، علمائ، خطبائ ،شعرأ وغیرہ کی خدمات حاصل کی جانے لگیں اور شامیوں کو یہ باور کرادیا کہ حکومت اسلامی کے حقیقی وارث بنی امیہ ہی ہیں ،بنی امیہ کی اس پروپیگنڈہ مشینری میں سب سے زیادہ خطرناک عنصر حدیثیں گھڑنے والوں کا تھا ،حدیثیں گھڑنے والوں نے تو پیسے کے لالچ میں اسلام ہی کو تہہ و بالا کرڈالا، بہت سے درباری محدثین تھے جنھوں نے بنی امیہ کے سکوںکے لالچ میں اسلام محمدی (ص) کا چہرہ ہی مسخ کرڈالا، جس کی مثالوں سے کتابیں بھری ہوئی ہیں ، بنی امیہ کے ذریعہ اہل بیت (ع) کے خلاف قائم کردہ اس ماحول میں امام حسین (ع)کی شہادت، اسلامی معاشرے کے لئے اتنی موثر نہ ہوتی اگراپنی شہادت کے بعد امام حسین (ع)نے اپنے مقصد کی تبلیغ اور بنی امیہ کے پروپیگنڈے کو بے اثر کرنے کی ذمہ داری امام زین العابدین (ع) اور جناب زینب (ع) کے سپرد نہ کی ہوتی اور آپ کا مقصد عورتوں اور بچوں کو کربلا میںساتھ لانے کا یہ بھی ہو سکتا ہے تاکہ جب آپ (ع) بنی امیہ کی فاسد حکومت پر کاری ضرب لگائیں تو امام زین العابدین (ع) اور جناب زینب (ع) شہر شہر ،قریہ قریہ امام حسین (ع) کی فکر اور ان کے مقصد شہادت کو عام کردیں اور بنی امیہ کی پروپیگنڈہ مشینری کو ناکام بنادیں ،اسی لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ منصوبۂ کربلا میں امام زین العابدین (ع) کا بہت اہم کردار ہے ،اگر بعد شہادت امام حسین (ع) ،حضرت امام زین العابدین (ع) نے یہ جہاد نہ کیا ہوتا تو کربلا میں شہدا کی دی گئی عظیم قربانیاں رائیگاں چلی جاتیں ،جہاد کی کئی قسمیں ہیں جن میں جہاد بالنفس کا مقام سب سے بالا ہے اور جہاد بالسیف یا اسلحے سے جہاد کرنے کی منزل سب سے آخر میں ہوتی ہے اس بیچ جہاد باللسان یعنی زبان سے جہاد اور جہاد بالقلم کی بڑی اہمیت ہے ،
کربلا میں جب امام حسین (ع) اور آپ کے اعزا و انصار شہید ہوچکے تو بنی امیہ نے امام زین العابدین (ع) کو قیدی بناکر ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال دیں لیکن ہتھکڑیاں ڈال کرتلوار کا جہاد ہی روکا جاسکتاتھا ،
یزیدیوں کے بس میں یہ ہرگز نہ تھا کہ امام زین العابدین (ع) کو زبان کے ذریعہ جہادکرنے سے روک سکیں، لہٰذا امام زین العابدین (ع) نے ہر گام پر زبان سے ایسا جہاد کیا جس سے بنی امیہ کی 30 سالہ سلطنت شاہی میں زلزلہ آگیا ،امام کو لٹے ہوئے قافلے کے ہمراہ جب ابن زیاد کے دربار میں پیش کیا گیا تو ابن زیاد نے غرور و نخوت بھرے لہجے میں امام (ع) سے کہا کہ :تم کون ہو؟ امام نے جواب دیا میں علی بن الحسین (ع) ہوں،ابن زیاد نے کہا کہ کیا خدا نے علی بن الحسین (ع)کو قتل نہیں کیا؟امام سجاد (ع) نے جواب دیا : کہ میرے بھائی بھی علی بن الحسین ﴿علی اکبر (ع)﴾ تھے جنہیں لوگوں نے قتل کردیا ،ابن زیاد پھرکہتاہے کہ علی بن الحسین (ع)﴿ علی اکبر (ع) ﴾ کوخدا نے قتل کیا ہے ،
امام (ع) نے جواب میں قرآن مجید کے سورۂ زمرکی آیت 42کی تلاوت فرمائی جس کا مطلب یہ ہے کہ:’’خدا ہی لوگوں کے مرنے کے وقت ان کی روحیں ﴿اپنی طرف ﴾ کھینچ بلاتا ہے .‘‘ قیدی ہونے کے باوجودامام زین العابدین (ع) نے ابن زیاد کے دربار میں بنی امیہ کی بساط الٹ دی ،اوربنی امیہ کے بزرگوں کے اس نظریئے کو مردود قرار دے دیا جس کو ڈھال بناکر بنی امیہ اپنے حریفوں پر ظلم کیا کرتے تھے، بنی امیہ کے ایک بزرگ کا نظریہ تھا کہ خیر و شر اللہ کی طرف سے ہوتا ہے ،بندہ مختار نہیں ہے لوگوں کی قتل و غارت گری کے لئے بھیجاگیا بنی امیہ کے ایک بزرگ کا قریبی سپاہی ’’بسر بن ارطاۃ ‘‘جب دل کھول کرلوگوں کو قتل کرچکا توان بزرگ کو اس کی رپورٹ پیش کی کہ میں نے کس بے دردی سے لوگوں کو قتل کیا ہے،توبنی امیہ کے بزرگ نے سن کر کہا کہ :اے بسر ! یہ مظالم تونے نہیں بلکہ اللہ نے انجام دیئے ہیں﴿شرح نہج البلاغہ ،شارح سنی دانشور ابن ابی الحدید ،جلد ۲، صفحہ 17 ،ناشر دار احیائ التراث العربی، بیروت لبنان﴾اسی نظریہ کو ابن زیاد بھی اپنے دربار میں چوتھے امام کے سامنے دہرا رہا ہے لیکن امام نے قرآن مجید کی روشنی میںاس نظریئے کی ہمیشہ کے لئے بھرے دربار میںتردید کردی ،جس کو سن کر ابن زیاد تلملا کر رہ گیا ،ابن زیاد نے یزید کے حکم پرامام سجاد(ع) کو اس قافلے کے ہمراہ شام کے لئے روانہ کردیا ،اہل شام صرف بنی امیہ کو اسلام کے حقیقی وارث کے طور پر پہچانتے تھے اور اس میں بنی امیہ کے پروپیگنڈے کا بڑا ہاتھ تھا اسی لئے جب اہل بیت(ع) کا قافلہ شام میں داخل ہوا تو ایک شامی امام زین العابدین (ع) کے قریب آیا اور کہنے لگا: ’’خدا کا شکر ہے جس نے تمہیں ہلاک کیا اور امیر﴿یزید﴾ کو تم پر فتح دی‘‘امام زین العابدین (ع)سمجھ گئے کہ اس پر بنی امیہ کا رنگ چڑھ گیا ہے آپ نے شامی سے فرمایا کہ : کیا تونے قرآن پڑھا ہے؟اس شخص نے جواب دیا :ہاں پڑھا ہے،امام (ع) نے فرمایا کہ کیا یہ آیت بھی پڑھی ہے: ’’اے رسول(ص)! تم کہہ دو کہ میں اس تبلیغ رسالت کا اپنے قرابتداروں ﴿اہل بیت (ع)﴾کی محبت کے سوا تم سے کوئی صلہ نہیں مانگتا ﴿سورۂ شوریٰ ،آیت 23﴾
شامی نے کہا کہ ہاںپڑھی ہے ،امام (ع) نے فرمایا کہ اس آیت میں قربیٰ سے مراد ہم ہی تو ہیں،پھر امام (ع) نے سوال کیا کہ یہ آیت بھی پڑھی ہے کہ: اے رسول (ص)! اپنے قرابتدار کاحق دے دو﴿سورۂ روم ،آیت۸۳و سورۂ اسرأ ،آیت ۶۲﴾؟ شامی نے جواب دیا ہاں ،امام (ع) نے فرمایا کہ وہ قرابتدار ہم ہی تو ہیں، امام (ع) نے پھر سوال کیا کہ یہ آیت پڑھی ہے کہ ’’اورجان لوکہ جو کچھ تم غنیمت حاصل کرو اس میں پانچواں حصہ مخصوص خدا اور رسول (ص) اور رسول (ص) کے قرابتداروں .کا ہے‘ ‘ ﴿سورۂ انفال، آیت 41﴾
شامی نے کہاہاں،پڑھی ہے، امام (ع) نے فرمایا وہ قرابتدار ہم ہی تو ہیں،امام (ع) نے پھر سوال کیا کہ یہ آیت پڑھی ہے ’’اے پیغمبر (ص) کے اہل بیت (ع) خدا تو بس یہ چاہتا ہے کہ تم کو ہر طرح کی برائی سے دور رکھے اور جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ویسا پاک و پاکیزہ رکھے﴿سورۂ احزاب ، آیت ۳۳﴾شامی نے کہا ہاں ، امام (ع) نے فرمایا وہ اہل بیت (ع) ہم ہی تو ہیں،بوڑھے شامی نے کہا: خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں، آپ جو کہہ رہے ہیں سچ کہہ رہے ہیں، امام (ع) نے فرمایا:خدا کی قسم ہم ہی وہ ﴿قرابتدار﴾ ہیں ،اپنے جد رسول خدا (ص) کے حق کی قسم ہم ہی وہ ﴿اہل بیت (ع) ﴾ ہیں ، شامی گریہ کرنے لگا اور اپنا سر و سینہ پیٹتے ہوئے سر آسمان کی طرف بلند کرکے کہنے لگا:پروردگار ! میں آل محمد (ص) کے دشمنوں سے بیزار ہوں،اس موقع پر تلوار بھی وہ کام نہ کرتی جو امام (ع) کی زبان مبارک نے کردیا ،کیونکہ اگر تلوار سے اس شامی کو قتل بھی کردیا جاتا تو وہ صرف ایک شخص کا قتل ہوتا ،لیکن شامی کے توبہ کرلینے سے اس تحریک پر ضرب پڑی جس کو چلانے کے لئے بنی امیہ نے خزانوں کے منھ کھول رکھے تھے بہر حال امام زین العابدین (ع) میر کارواں بن کر یزید کے دربار میں وارد ہوئے اور یزید فتح کے نشے میں چور تخت پر بیٹھا ہوا تھا ،یزید نے درباری خطیب کو تقریر کرنے کا حکم دیا تاکہ امام زین العابدین (ع) کی موجودگی میں آپ کے والد گرامی اور دادا حضرت علی ابن ابی طالب (ع) کی شان میں گستاخی کرے اور امام کو دربار میں نیچا دکھائے ،خطیب منبر پر گیا اور وہ سب کچھ کہہ ڈالا جو یزید چاہتا تھا ،امام نے درباری خطیب کو مخاطب کرکے فرمایا کہ: ’’تجھ پر وائے ہو کہ تونے خلق ﴿لوگوں﴾کی خوشنودی کو خالق ﴿اللہ﴾ کی ناراضگی کے عوض خرید لیا اور اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالیا ، بھرے دربار میں اک قیدی سے اپنے بارے میں جہنمی ہونے کا اعلان جب اس درباری خطیب نے سنا ہوگا تو کتنی رسوائی ہوئی ہوگی ؟جب یہ درباری خطیب منبر سے اتر آیا تو امام نے اپنے لئے بھی منبر پر جانے کے لئے یزید سے اجازت چاہی یزید نے چار و ناچار امام زین العابدین (ع) کو اجازت دے دی یہی وہ موقع تھا کہ امام (ع)کو زبان کے ذریعہ جہاد کرکے بنی امیہ کے طرز فکر پر کاری ضرب لگانی تھی ،آپ (ع) نے حمد و ثنا کے بعد لوگوں کے سامنے اپنا تعارف کرایا اور لوگوں کے ذہنوں سے بنی امیہ کا پروپیگنڈہ دھو ڈالا اور لوگوں کو اچھی طرح باور کرادیا کہ ہم نے حکومت ِاسلامی یا خلیفہ ٔ رسول پر خروج نہیں کیا ہے بلکہ یہ حکومت و خلافت ہمارا حق تھا جس پر یزید ناحق بیٹھا ہے اور اس نے ہمارا پورا گھر تباہ کرڈالااور پھر آپ نے بنی امیہ کے شجرۂ ملعونہ کو بھی لوگوں کے سامنے بیان کیا ،دربار میں چہ می گوئیاں ہونے لگیں حتی کہ بعض افراد کے گریہ کی آوازیں بھی بلند ہونے لگیں ،یزید کو محسوس ہوا کہ وہ یہ مورچہ بھی ہار چکا ہے لہٰذا اُس نے امام زین العابدین (ع) کو خاموش کرنے کے لئے بے وقت اذان کہلوادی ،اگر چہ یزید اذان کے ذریعہ امام زین العابدین (ع) کو خاموش کرنا چاہتا تھا ،اذان کے احترام میں امام (ع) خاموش بھی ہوگئے لیکن جیسے ہی موذن نے ’’اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدُ الرَّسُوْلُ اللّٰہ‘‘کہا امام (ع) نے موذن کو روک دیا اور بھرے دربار میں یزید سے سوال کرلیا کہ :بتا !محمد رسول اللہ (ص) تیرے جد ہیں یا میرے ؟ یزید کے پاس امام زین العابدین (ع) کے اس سوال کا کوئی جواب نہ تھا ،درباری سمجھ چکے تھے کہ یزید نے حکومت کے باغیوں کو نہیں بلکہ اولاد رسول (ص)کو قتل کرڈالا ،یزید کی مخالفت اور نفرت کا سلسلہ یہیں سے شروع ہوگیا ،امام زین العابدین (ع)اپنے بہترین جہاد میں کامیاب ہوگئے ،کیونکہ اہل بیت (ع) کی اسیری اور جناب زینب (ع) اورامام زین العابدین (ع) کے خطبوں کے ذریعہ کربلا ،کوفہ اور شام اور ان کے راستوں میں آنے والی آبادیوں کے مکینوں کو معلوم ہوچکا تھا کہ یزید نے ناحق اہل بیت (ع) رسول (ص) کوستایا ہے جس کی وجہ سے مملکت اسلامی میں لوگ بنی امیہ کو خائن اور ظالم سمجھنے لگے اور بنی امیہ کی فکر کو برا سمجھا جانے لگا ،یہ امام زین العابدین (ع) کے جہاد کا ہی اثر ہے کہ آج بھی ہر انسان یزید ی فکر سے نفرت کرتا ہے...
مؤلف: پیغمبر نوگانوی ذرائع: WWW.FAZAEL.C