یہ قبرستان پہلے ایک باغ تھا ۔ عربی زبان میں اس جگہ کا نام ”البقیع الغرقد “ ہے بقیع یعنی مختلف درختوں کا باغ اور غرقد ایک مخصوص قسم کے درخت کا نام ہے چونکہ اس باغ میں ایسے درخت زیادہ تھے اس وجہ سے اسے بقیع غرقد کہتے تھے اس باغ میںچاروں طرف لوگوں کے گھر تھے جن میں سے ایک گھر جناب ابو طالب (ع) کے فرزند جناب عقیل (ع) کا بھی تھا جسے ”دارعقیل “ کہتے تھے بعد میں جب لوگوں نے اپنے مرحومین کو اس باغ میں اپنے گھروں کے اندر دفن کرنا شروع کیا تو ”دار عقیل “ پیغمبر اسلام (ص) کے خاندان کا قبرستان بنا اور ”مقبرہ بنی ہاشم “ کہلایا رفتہ رفتہ پورے باغ سے درخت کٹتے گئے اور قبرستان بنتا گیا۔
مقبرہ ٴبنی ہاشم ، جو ایک شخصی ملکیت ہے ، اسی میں ائمہ اطہار (ع) کے مزارتھے (1)
اس مقدس قبرستان میں دفن ہونے والے عمائد اسلام کے تذکرے سے قبل یہ بتا دینا ضروری ہے کہ بقیع کا احترام ، فریقین کے نزدیک ثابت ہے اور تمام کلمہ گویان اس کا احترام کرتے ہیں اس سلسلے میں فقط ایک روایت کافی ہے ” ام قیس بنت محصن کا بیان ہے کہ ایک دفعہ میں پیغمبر (ص) کے ہمراہ بقیع پہونچی تو آپ (ص) نے فرمایا : اس قبرستان سے ستر ہزار افراد محشور ہوں گے جو حساب و کتاب کے بغیر جنت میں جائیں گے ، نیز ان کے چہرے چودھویں کے چاند کی مانند دمک رہے ہوں گے“ (2)
ایسے با فضیلت قبرستان میں عالم اسلام کی ایسی عظیم الشان شخصیتیں آرام کر رہی ہیں جن کی عظمت و منزلت کو تمام مسلمان ،متفقہ طور پر قبول کرتے ہیں ۔
جنت البقيع – ايك پرانا تصوير
آیئے دیکھیں کہ وہ شخصیتیں کون ہیں :
۱)امام حسن مجتبی ٰ (ع) : آپ پیغمبر اکرم (ص) کے نواسے اور حضرات علی (ع) و فاطمہ (ع) کے بڑے صاحب زادے ہیں ۔آپ کی شہادت کے بعد حضرت امام حسین (ع) نے آپ کو پیغمبراسلام (ص) کے پہلو میں دفن کرنا چاہا مگر جب ایک سرکش گروہ نے راستہ روکا اور تیربرسائے تو امام حسین (ع) نے آپ کو بقیع میں دادی کی قبر کے پاس دفن کیا ۔ اس سلسلہ میں ابن عبد البر سے روایت ہے کہ جب یہ خبر ابو ہریرہ کو ملی تو کہا : واللہ ما ھو الا ظلم ، یمنع الحسن ان ید فن مع ابیہ ؟واللہ انہ لابن رسول اللہ (ص) ( خدا کی قسم یہ سرا سر ظلم ہے کہ حسن (ع) کو باپ کے پہلو مین دفن ہونے سے روکا گیا جب کہ خداکی قسم وہ رسالت مآب صلعم کے فرزند تھے )(3)۔آپ کی مزار کے سلسلہ میں ساتویں ھجری قمری کا سیاح ابن بطوطہ اپنے سفرنامہ میں لکھتا ہے کہ :بقیع میں رسول اسلام (ص) کے چچا عباس ابن عبد المطلب اور ابوطالب کے پوتے حسن بن علی کی قبریں ہیں جن کے اوپر سونے کا قبہ ہے جو بقیع کے باہر ہی سے دکھائی دیتا ہے ۔۔۔دونوں کی قبریں زمین سے بلند ہیں اور نقش و نگار سے مزین ہیں ۔(4)ایک اور سیاح رفعت پاشا بھی نا قل ہے کہ : عباس اور حسن (ع) کی قبریں ایک ہی قبہ میں ہیں اور یہ بقیع کا سب سے بلند قبہ ہے (5) بتنونی نے لکھا ہے کہ : امام حسن (ع) کی ضریح چاندی کی ہے اور اس پر فارسی میں نقوش ہیں (6)
۲) حضرت امام زین العابدین سجاد (ع) :آ پ کا نام علی (ع) ہے اور امام حسین (ع) کے بیٹے ہیں ۔ آپ کی ولادت ۳۸ ھ میں ہوئی آپ کے زمانے کا مشہور محدث و فقیہ محمد بن مسلم زہری آپ کے بارے میں کہتا ہے کہ :ما رایت قرشیا اورع منہ ولا افضل(7) (میں نے قریش میں سے کسی کو آپ سے بڑھکر پرہیزگار اور بلند مرتبہ نہیں دیکھا ) یہی نہیں بلکہ کہتا ہے کہ : ما رایت افقہ منہ(8) ، نیز یہ کہتا ہے کہ : علی (ع) ابن الحسین (ع) اعظم الناس علیّ منة (9) (دنیا میں سب سے زیادہ میری گردن پر جس کا حق ہے وہ علی بن حسین (ع) کی ذات ہے )۔ آپ کی شہادت ۴ ۹ ء ھ میں ۲۵ محرم الحرام کو ہوئی اور بقیع میں چچا امام حسن (ع) کے پہلو میں دفن کیا گیا ۔ رفعت پاشا نے اپنے سفر نامے میں ذکر کیا ہے کہ امام حسن (ع) کے پہلو میں ایک اور قبر ہے جو امام سجاد (ع) کی ہے جس کے اوپر قبہ ہے ۔
۳)حضرت امام محمد باقر (ع) : آپ وصی اور امام سجاد (ع) کے بیٹے ہیں نیز امام حسن (ع) کے نواسے اور امام حسین (ع) کے پوتے ہیں ۔ ۵۶ ھ میں ولادت اور ۱۱۴ ء میں شہادت ہوئی ۔ واقعہ کربلا میں آپ کا سن مبارک چار سال تھا ، ابن حجرھیثمی (الصواعق المحرقہ کے مصنف ) کا بیا ن ہے کہ : امام محمد باقر (ع) سے علم و معار ف ، حقائق احکام ، حکمت اور لطائف کے ایسے چشمے پھوٹے جن کا انکا ر بے بصیرت یا بد سیرت و بے بہرہ انسان ہی کر سکتا ہے ۔ اسی وجہ سے یہ کہا گیا ہے کہ آپ علم کو شگافتہ کرکے اسے جمع کرنے والے ہیں یہی نہیں بلکہ آپ ہی پرچم علم کے آشکار و بلند کرنے والے ہیں ۔ (۱0) اسی طرح عبد اللہ ابن عطاء کا بیان ہے کہ میں نے علم و فقہ کے مشہور عالم حکم بن عتبہ (سنی عالم دین ) کو امام محمد باقر (ع) کے سامنے اس طرح زانوئے ادب تہ کرکے آپ سے علمی استفادہ کرتے ہوئے دیکھا جیسے کوئی بچہ کسی بہت عظیم استاد کے سامنے بیٹھا ہو ۔ (۱1)
آپ کی عظمت کا اندازہ اس واقعہ سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت رسول اکرم نے جناب جابر بن عبد اللہ انصاری جیسے جلیل القدر صحابی سے فرمایا تھا کہ : فان ادرکتہ یا جا بر فا قراٴ ہ منی السلام (۱2) (ائے جابر اگر باقر سے ملاقات ہو تو میری طرف سے سلام کہنا) اسی وجہ سے جناب جابر آپ کی دست بوسی میں افتخار محسوس کرتے تھے اور اکثر و بیشتر مسجد النبوی میں بیٹھ کر رسالت پناہ کی طرف سے سلام پہونچانے کی فرمایش کا تذکرتے تھے (۱3)
۴) حضرت امام جعفر صادق (ع) : آپ امام محمد باقر (ع)کے فرزند ارجمند ہیں ۔ ۸۳ھ میں ولادت اور ۱۴۸ء میں شہادت ہوئی آپ کے سلسلہ میں حنفی فرقہ کے پیشوا امام ابوحنیفہ کا بیان ہے کہ ”میں نے نہیں دیکھا کہ کسی کے پاس امام جعفر صادق (ع) سے زیادہ علم ہو “(۱4) اسی طرح مالکی فرقہ کے امام مالک کہتے ہیں : کسی کو علم و عبادت و تقوی ٰ میں امام جعفر صادق (ع) سے بڑھ کر نہ تو کسی آنکھ نے دیکھا ہے اور نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی کے ذ ہن میں یہ بات آسکتی ہے ۔(۱5) نیزآٹھویں قرن میں لکھی جانے والی کتاب ”الصواعق المحرقة “کے مصنف نے لکھا ہے کہ : (امام ) صادق (ع) سے اس قدر علوم صادر ہوئے کہ لوگوں کے زبان زد ہو گیا تھا یہی نہیں بلکہ بقیہ فرقوں کے پیشوا جیسے یحییٰ بن سعید ، مالک، سفیان ثوری ، ابو حنیفہ ․․․ و غیرہ آپ سے نقل روایت کرتے تھے (۱6) مشہور مورخ ابن خلکان رقمطراز ہےکہ ”وکان تلمیذ ہ ابو موسیٰ جابر بن حیان “(۱7) (مشهور زمانہ شخصیت اورعلم الجبرا کے موجد جابر بن حیان آپ کے شاگرد تھے ) .
6) جناب حضرت فاطمه زهرا (س) بنت رسول الله (ص) : سني حضرات كا عقيده ہے كه جناب حضرت فاطمه زهرا (س) بنت رسول الله (ص) بقيع ميں دفن ہیں اور جناب فاطمه بنت اسد بقيع ميں اور جگه ہیں .
7) جناب فاطمہ بنت اسد : آپ حضرت علی (ع) کی ماں ہیں اور آپ ہی نے رسالت پناہ صلعم کی والدہ کے انتقال کے بعد آنحضرت کی پرورش فرمائی تھی آنحضرت کو آپ سے بیحد انسیت و محبت تھی اور ٓاپ بھی اپنی اولاد سے زیادہ رسالت مآب کا خیال رکھتی تھیں - ہجرت کے وقت حضرت علی (ع) کے ہمراہ مکہ تشریف لائیں اور آخر عمر تک وہیں رہیں۔ آپ کے انتقال پررسالت مآب کو بہت زیادہ صدمہ ہوا تھا اور آپ نے کفن کے لئے اپنا کرتا عنایت فرمایاتھا نیز دفن سے قبل چند لمحوں کے لئے قبر میں لیٹے تھے اور قرآن کی تلاوت فرمائی تھی ، نماز میت پڑھنے کے بعد آپ نے فرمایا تھا : کسی بھی انسان کو فشار قبر سے نجات نہیں ہے سوائے فاطمہ بنت اسد کے - نیز آپ نے قبر دیکھ کر فرمایا تھا ”جزاک اللہ من ام و ربیبة خیرا ، فنعم الام و نعم الربیبة کنت لی“(۱8)
8)جناب عباس ابن عبد المطلب : آپ رسول اسلام (ص) کے چچا اور مکہ کے شرفاء و بزرگان میں سے تھے . عام الفیل سے تین سال قبل ولادت ہوئی اور ۳۳ء ھ میں انتقال ہوا آپ عالم اسلام کی متفق فیہ شخصیت ہیں ۔ (19)
9) جناب رقيه ، ام کلثوم ، زينب : آپ تينوں کی پرورش جناب رسالت مآب اور حضرت خديجہ (ع) نے فرمائی تھی ، اسی وجہ سے بعض مورخین نے آپ کی قبروں کو ” قبور بنات رسول اللہ“ کے نام سے ياد کیا ہے . (2۰)
10) ازواج پیغمبر معظم (ص) کی قبریں : بقیع میں مندرجہ ذیل ازواج محترم کی قبریں ہیں
_ جناب زینب بنت خزیمہ
_ جناب ریحانہ بنت زید
_ جناب ماریہٴ قبطیہ
_ جناب زینب بنت جحش
_ جناب عائشه بنت ابابكر
_ جناب ام حبیبہ
_ جناب حفصہ بنت عمر
_ جناب سودہ بنت زمعہ
_ جناب صفیہ بنت حی
_ جناب جویریہ بنت حارث
_ جناب ام سلمہ
11) جناب عقیل ابن ابی طالب : آپ حضرت علی (ع) کے بڑے بھا ئی تھے اورنبی کریم (ص) آپ کو بہت چاہتے تھے عرب کے مشہور نساب تھے اور آپ ہی نے حضرت امیر (ع) کا عقد جناب ام البنین سے کرایا تھا ۔ انتقال کے بعد آپ کو آپ کے گھر (دارعقیل ) میں دفن کیا گیا . (۲۱)
12)جناب عبداللہ ابن جعفر : آپ جناب جعفر طیار ذوالجناحین کے بڑے صاحبزادے اور امام علی (ع) کے داماد (جناب زینب سلام اللہ علیھا کے شوہر ) تھے آپ نے دو بیٹوں محمد اور عون کو کربلا اس لئے بھیجاتھا تا کہ امام حسین (ع) پر اپنی جان نثار کرسکیں آپ کا انتقال ۸۰ ء ھ میں ہوا اور بقیع میں چچا عقیل کے پہلو میں دفن کیا گیا ، ابن بطوطہ کے سفر نامہ میں آپ کی قبر کا ذکر ہے (۲۲) اهلسنت عالم سمہودی نے لکھا ہے : چونکہ آپ بہت سخی تھے اس وجہ سے خدا وند کریم نے آ پ کی قبر کو لوگوں کی دعائیں قبول ہونے کی جگہ قرار دیا ھے(۲۳) ۔
13) جناب امام مالك ابن انس اور جناب نافع
14)جناب ام البنین: آپ حضرت علی (ع) کی زوجہ اور حضرت ابوالفضل عباس (ع) کی والدہ ہیں ، صاحب ”معالم مکہ والمدینہ“ کے مطابق آپ کا نام فاطمہ تھا مگر صرف اس وجہ سے آپ نے اپنا نام بدل دیا کہ مبادا حضرات حسن و حسین (ع) کو شہزادی کونین (س) نہ یاد آجائیں اور تکلیف پہونچے ۔ (۲۴) آپ ان دو شہزادوں سے بے پناہ محبت کرتی تھیں ۔ واقعہ کربلا میں آپ کے چار بیٹوں نے امام حسین (ع) پر اپنی جان نثار کی ہے ۔ انتقال کے بعد آپکو بقیع میں رسالت مآب کی پھوپھیوں کے بغل میں دفن کیا گیا ، یہ قبر موجودہ قبرستان کی بائیں جانب والی دیوار سے متصل ہے اور زائریں یہاں کثیر تعداد میں آتے ہیں ۔
۱5)جناب صفیہ بنت عبد المطلب :آپ رسول اسلام (ص) کی پھوپھی اور عوام بن خولد کی زوجہ تھیں ، آپ ایک با شہامت اور شجاع خاتون تھیں ایک جنگ میں جب بنی قریظہ کا ایک یہودی ، مسلمان خواتین کے تجسس میں، خیموں میں گھس آیا تو آپ نے حسان بن ثابت سے اس کو قتل کرنے کے لئے کہا مگر جب انکی ہمت نہ پڑی تو آپ خود بہ نفس نفیس اٹھیں اور حملہ کر کے اسے قتل کر دیا ۔ آپ کا انتقال ۲۰ ھ میں ہوا آپ کو بقیع میں مغیرہ بن شعبہ کے گھر کے پاس دفن کیا گیا ․پہلے یہ جگہ ”بقیع العمات“کے نام سے مشہور تھی۔ مورخین اور سیاحوں کے نقل سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے تعویذ قبر واضح تھی (۲۵)۔
۱6)جناب عاتکہ بنت عبد المطلب : آپ رسول اللہ (ص ) کی پھوپھی تھیں آپ کا انتقال مدینہ منورہ میں ہوا اور بہن صفیہ کے پہلو میں دفن کیا گیا ۔ رفعت پاشا نے اپنے سفر نامہ میں آپ کی قبر کا تذکرہ کیا ہے (۲۶) ۔
۱7)جناب ابراہیم بن رسول اللہ (ص): آپ کی ولادت ساتویں ھجری قمری میں مدینہ منورہ میں ہوئی مگر سولہ سترہ ماہ بعد ہی آپ کا انتقال ہو گیا اس موقع پر رسول (ص) مقبول نے فرمایاتھا :ادفنو ہ فی البقیع فان لہ مرضعا فی الجنة تتم رضاعہ (۲۸)(اس کو بقیع میں دفن کرو بے شک اس کی دودھ پلانے والی جنت میں موجود ہے جو اس کی رضاعت کو مکمل کرے گی )۔ آپ کے دفن ہونے کے بعد بقیع کے تمام درختوں کو کاٹ دیا گیا اور اس کے بعد ہر قبیلے نے اپنی جگہ مخصوص کردی جس سے یہ باغ قبرستان بن گیا ۔
18)شہداء احد : یوں تو میدان احد میں شہید ہونے والے فقط ستر افراد تھے مگر بعض شدید زخموں کی وجہ سے مدینہ میں آکر شہید ہوئے ان شہداء کو بقیع میں ایک ہی جگہ دفن کیا گیا جو جناب ابراہیم کی قبر سے تقریبا ۲۰ میٹر کے فاصلے پر ہے اب فقط ان شہد اء کی قبروں کا نشان باقی رہ گیا ہے ۔
19) واقعہ حرہ کے شہداء : کربلا میں امام حسین (ع) کی شہادت کے بعد مدینے میں ایک ایسی بغاوت کی آندھی اٹھی جس سے یہ محسوس ہو رہا تھا کہ بنی امیہ کے خلاف پورا عالم اسلام اٹھ کھڑا ہوگا اور خلافت تبدیل ہو جائیگی مگر اہل مدینہ کو خاموش کرنے کے لئے یزید نے مسلم بن عقبہ کی سپہ سالاری میں ایک ایسا لشکر بھیجا جس نے مدینہ میں گھس کر وہ ظلم ڈھائے جن کے بیان سے زبان و قلم قاصر ہیں ۔ اس واقعہ میں شہید ہونے والوں کو بقیع میں ایک ساتھ دفن کیا گیا اس جگہ پہلے ایک چہار دیواری اور چھت تھی مگر اب چھت کو ختم کر کے فقط چھوٹی چھوٹی دیواریں چھوڑ دی گئی ہیں ۔
19) جناب عثمان بن عفان : آپ حضور پاك ( ص) کے وفادار صحابي اور تيسري خليفه تھے . آپ جنت البقيع کے درميانه دفن ہیں
20) جناب عثمان بن مظعون : آپ رسالت مآب (ص) کے باوفا و باعظمت صحابی تھے آپ نے اس وقت اسلام قبول کیا تھا جب فقط ۱۳ آ دمی مسلمان تھے اس طرح آپ کائنات کے چودہویں مسلما ن تھے۔ آپ نے پہلی ہجرت میں اپنے صاحبزادے کے ساتھ شرکت فرمائی پھر اس کے بعد مدینہ منورہ بھی ہجرت کرکے آئے ۔ جنگ بدر میں بھی شریک تھے ، عبادت میں بھی بے نظیر تھے آپ کا انتقال ۲ ھ ق میں ہوا اس طرح آپ پہلے مہاجر ہیں جسکا انتقال مدینہ میں ہوا ۔ جناب عائشہ سے منقول روایت کے مطابق حضرت رسول اسلام (ص) نے آپ کے انتقال کے بعد آپ کی میت کا بوسہ لیا ، نیز آپ (ص) شدت سے گریہ فرما رہے تھے (۳۱)۔ آنحضرت نے جناب عثمان کی قبر پر ایک پتھر نصب کیاتھا تا کہ علامت رہے مگر مروان بن حکم نے اپنی مدینہ کی حکومت کے زمانے میں اس کو اکھاڑ کر پھینک دیا تھا جس پر بنی امیہ نے اس کی بڑی مذمت کی تھی ۔ (۳۲)
21)جناب حلیمہ سعدیہ : آپ رسول اسلام (ص) کی رضاعی ماں تھیں آپ کا تعلق قبیلہ سعد بن بکر سے تھا انتقال مدینہ میں ہوا اور بقیع کے شمال مشرقی سرے پر دفن ہوئیں ۔ رسالت مآب (ص) اکثر و بیشتر یہاں آکر آپ کی زیارت فرماتے تھے ․(۲۷)
22) جناب اسمعٰیل بن صادق (ع) : آپ امام صادق (ع) کے بڑے صاحبزادے تھے اور آنحضرت (ع) کی زندگی ہی میں آپ کا انتقال ہو گیا تھا ۔ سمہودی نے لکھا ہے کہ آپ کی قبر زمین سے کافی بلند تھی(۳۳) اسی طرح مطری نے ذکر کیا ہے کہ جناب اسمعٰیل کی قبر اور اس کے شمال کا حصہ (امام) سجاد (ع) کا گھر تھا جس کے بعض حصے میں مسجد بنائی گئی تھی جس کا نام مسجد زین العابدین تھا (۳۴) ۱۳۹۵ ھ ق میں جب سعودی حکومت نے مدینہ کی شاہراہوں کو وسیع کرنا شروع کیا تو آپ کی قبر کھود ڈالی مگر جب اندر سے سالم بدن بر آمد ہوا تو اسے بقیع میں شہداء احد کے قریب دفن کیا گیا ۔
23) جنا ب ابو سعید حذری : رسالت پناہ کے جاں نثار اور حضرت علی (ع) کے عاشق و پیرو تھے ۔مدینہ میں انتقال ہو ا اور حسب وصیت بقیع میں دفن ہوے ۔رفعت پاشا نے اپنے سفر نامہ میں لکھا ہے کہ آپ کی قبر کا شمار معروف قبروں میں ہوتا ہے ۔(۳۶)امام رضا (ع) نے مامون رشید کو اسلام کی حقیقت سے متعلق جوخط لکھا تھااسمیں جناب ابو سعید حذری کو ثابت قدم اور با ایمان قرار دیتے ہوے آپ کے لئے رضی اللہ عنھم و رضوان اللہ علیھم کی لفظیں استعمال فرمائی تھیں (۳۷)
24)جناب عبد اللہ بن مسعود : آپ بزرگ صحابی اور قرآن مجید کے مشہور قاری تھے (۳۸)آپکا انتقال ۳۳ ھ ق میں ہوا تھا آپ نے وصيت فرمائی تھی کہ جناب عثمان بن مظعون کے پہلو میں دفن کیا جائے اور کہا تھا کہ : ”فانہ کان فقےھا “( بے شک عثمان ابن مظعون فقيه تھے) رفعت پاشا کے سفر نامہ میں آپ کی قبر کا تذکرہ ہے ۔
25) جناب محمد بن حنفیہ : آپ حضرت امیر (ع) کے بہادر صاحبزادے تھے۔ آپ کو آپ کی ماں کے نام سے یاد کیا جاتا ہے امام حسین (ع) کا وہ مشہور خط جسمیں آپ نے کربلا کی طرف سفر کا سبب بیان فرمایا ہے ؛آپ ہی کے نام لکھا گیا ہے ۔(39)آپ کا انتقال ۸۳ ء ھ میں ہوا اور بقیع میں دفن کیا گیا ۔
26)جناب جابر بن عبد اللہ انصاری : آپ رسالت پناہ (ص) کے جلیل القدر صحابی تھے آنحضرت (ص) کی ہجرت سے پندرہ سال قبل ، مدینہ میں پیدا ہوے اور آپ (ص) کے مدینہ تشریف لانے سے پہلے اسلام لا چکے تھے ۔ آنحضرت (ص) نے امام محمد باقر (ع) تک سلام پہونچانے کا ذمہ آپ ہی کو دیا تھا آپ نے ہمیشہ اہل بیت (ع) کی محبت کادم بھرا ۔ امام حسین (ع) کی شہادت کے بعد کربلا کا پہلا زائر بننے کا شرف آپ ہی کو ملا مگر حجاج بن یوسف ثقفی نے محمد وآل محمد (ع) کی محبت کے جرم میں بدن کو جلوا ڈالا تھا آپ کا انتقال ۷۷ ھ میں ہوا اور بقیع میں دفن ہوے (۴0)
27)جناب مقداد بن اسود :حضرت رسول خدا(ص) کے نہایت ہی معتبر صحابی تھے۔ آخری لمحہ تک حضرت امیر(ع) کی امامت پر باقی رہے اور آپ کی طرف سے دفاع بھی کرتے رہے امام محمد باقر (ع) کی روایت کے مطابق آپ کا شمار ان جلیل القدر اصحا ب میں ہوتا ہے جو پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے بعد ثابت قدم اور با ایمان رہے (۴1)
حوالہ جات:
(1)معالم مکہ والمدینہ ص ۴۴۱
(2)صحیح بخاری ج ۴ ح ۴ و سنن نسائی ج ۴ ح ۹۱وسنن ابن ماجہ ج ۱ ص ۴۹۳
(3) وفاء الوفاء ج ۴ ص ۹۰۹
(4) رحلة ابن بطوطہ ج ۱ ص ا۴۴
(5) مرآة الحرمین ج۱ ص ۴۲۶
(6) گنجینہ ہای ویران ص ۱۲۷
7) و (8) و (9) البدایة والنھایة ج ۹ ص ۱۲۲و ۱۲۴ و ۱۲۶
(۱0) الصواعق المحرقة ص ۱۱۸
(۱1) تذکرة الخواص ص ۳۳۷
(۱2)و(۱3)تذکرة الخواص ص ۳۰۳
(۱4)تذکرة الحفاظ ج ۱ص ۱۶۶
(۱5)الامام الصادق والمذاھب الاربعہ ج ۱ ص ۵۳
(۱6)الصواعق المحرقہ ص ۱۱۸
(۱7)وفیات الاعےان ج ۱ ص ۳۲۷
(۱8)معالم مکہ والمدینہ ص ۴۲۸
(19) رحلة ابن بطوطہ ج ۱ ص ۱۴۳، مرآة الحرمین ج ۱ ص ۴۲۶، المرحلة الحجازیہ و وفاء الوفاء ج ۳
(2۰)مرآة الحرمین ج۱ ص۴۲۶
(21) معالم مکہ والمدینہ ص ۴۴۱
(۲۲) رحلة ابن بطوطہ ج ۱ ص ۱۴۴
(۲۳) معالم مکہ والمدینہ ص ۴۴۱
(۲۴) معالم مکہ والمدینہ ص ۴۴۰
(۲۵) رحلة ابن بطوطہ ج ۱ ص ۱۴۴
(۲۶) مرآة الحرمین ج ۱ ص ۴۲۶
(۲۷) معالم مکہ والمدینہ ص۴۴۳
(۲۸) معالم مکہ والمدینہ ص ۴۴۳
(۲۹) رحلة ابن بطوطہ ج ۱ ص ۱۴۴
(۳۰) مرآة الحرمین ج ۱ ص ۴۲۶
(۳۱) معالم مکہ والمدینہ ص۴۲۲
(۳۲) معالم مکہ والمدینہ ص۴۴۳
(۳۳) معالم مکہ والمدینہ ص۴۴۵
(۳۴) معالم مکہ والمدینہ ص۴۲۶
(۳۵) معالم مکہ والمدینہ ص۴۴۵
(۳۶) مرآة الحرمین ج ۱ ص ۴۲۶
(۳۷)عیون اخبار الر ضا (ع) ص ۱۲۶باب ۳۵حدیث ۱
(۳۸)سیرہ پیشوایان ص ۳۲۴
(39)بحار الانوار ج ۴۴ص ۳۲۹
(۴0)سوگنامہ آل محمد (ص) ص ۵۰۷
(۴1)معجم رجال الحدیث ج ۱۸ص ۳۱۵