امام علی علیہ السلام کے مختصر فضائل اور کمالات

Rate this item
(36 votes)

امام علی علیہ السلام کے مختصر فضائل اور کمالات

حضرت علی علیہ السلام کے فضائل اور کمالات کے بارے میں کچھ لکھنا جتنا آسان ہے اتنا مشکل بھی ہے اس لیے کہ حضرت علی علیہ السلام فضائل و کمالات کا ایسا بیکراں سمندر ہیں جس میں انسان جتنا غوطہ لگاتا جائے گا اتنا زیادہ فضائل کے موتی حاصل کرتا جائے گا یہ ایسا ایسا سمندر ہے جس کی تہہ تک پہنچنا ناممکن ہے۔ کیا خوب کہا خلیل ابن احمد نے جب ان سے امیر المومنین علی علیہ السلام کے فضائل کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا: کیف اصف رجلاً کتم اعادیه محاسنه و حسداً و احبّائه خوفاً و ما بین الکلمتین ملأالخائفین؛(۱) میں کیسے اس شخص کی توصیف و تعریف کروں جس کے دشمنوں نے حسادت اور دوستوں نے دشمنوں کے خوف سے اس کے فضائل پر پردہ پوشی کی ہو ان دو کرداروں کے درمیان مشرق سے مغرب تک فضائل کی دنیا آباد ہے۔

اس مقالہ میں امیر المومنین علی علیہ السلام کے بعض ان کمالات و فضائل کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو پیغمبر گرامی اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ نے اپنی زبان مبارک سے بیان فرمائے اور اہلسنت کی معتبر کتابوں میں نقل ہوئے ہیں:

علی (ع) کو خدا اور نبی (ص) کے علاوہ کسی نے نہ پہچانا

سچ مچ یہ کون سی ذات ہے جسے کوئی نہ پہچان سکا کوئی اسے خدا مان بیٹھا اور کوئی اس کی بندگی میں شک کرنے لگا۔

در مسجد کوفه شهیدش کردند گفتند مگر اهل نماز است علی؟!

کہا کہ کیا علی نماز بھی پڑھتے تھے؟! کہ انہیں مسجد کوفہ میں شہید کر دیا۔

اور جس نے علی (ع) کو حقیقی معنی میں پہچانا وہ صرف خدا اور اس کا رسول (ص) ہیں۔

پیغمبر اکرم (ص) نے امیر المومنین (ع) سے خطاب میں کہا: «یا علی ما عرف اللّه حق معرفته غیری و غیرک و ما عرفک حق معرفتک غیر اللّه و غیری؛(۲) اے علی! خدا کو میرے اور آپ کے علاوہ کما حقہ کسی نے نہیں پہچانا، اور آپ کو میرے اور خدا کے علاوہ کما حقہ کسی نے نہیں پہچانا۔۔۔

اور دوسری جگہ فرمایا: «یا علی لایعرف اللّه تعالی الّا انا و انت و لایعرفنی الّا اللّه و انت و لا یعرفک الّا اللّه و انا؛(۳) اے علی ! خدا کو میرے اور آپ کے علاوہ کسی نے نہیں پہچانا اور مجھے خدا اور آپ کے علاوہ کسی نے نہیں پہچانا اور آپ کو میرے اور خدا کے علاوہ کسی نے نہیں پہچانا۔

لا تحصیٰ فضائل

وہ پیغمبر جنہوں نے علی علیہ السلام کی شناخت کا اعتراف کیا انہوں نے آپ(ع) کے فضائل کو شمار سے باہر بتلایا کہ علی فضائل انتے زیادہ ہیں کہ کوئی انہیں شمار میں نہیں لا سکتا۔

ابن عباس کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: «لو انّ الفیاض(۴) اقلام و البحر مدادٌ و الجنّ حسّابٌ و الانس کتابٌ مااحصوا فضائل علیّ بن ابی طالبٍ؛(۵) اگر تمام درخت قلم، تمام دریا سیاہی، تمام جن حساب کرنے اور تمام انسان لکھنے بیٹھ جائیں تو علی علیہ السلام کے فضائل کا شمار نہیں کر سکتے۔

اور دوسری جگہ آپ نے فرمایا: «انّ اللّه تعالی جعل لاخی علیٍّ فضائل لاتحصی کثرة فمن ذکر فضیلةً من فضائله مقرّابها غفر اللّه له ما تقدّم من ذنبه و ماتأخّر ‘‘ بیشک خداوند عالم نے میرے بھائی علی کے لیے بے شمار فضائل قرار دئے ہیں کہ اگر کوئی شخص ان میں سے ایک فضیلت کو عقیدت کے ساتھ بیان کرے تو اس کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف ہو جائیں گے۔ . و من کتب فضیلةً من فضائله لم تزل الملائکة تستغفرله ما بقی لتلک الکتابه رسم، و من استمع فضیلةً من فضائله کفّر اللّه له الذّنوب الّتی اکتسبها بالاستماع و من نظر الی کتابٍ من فضائله کفّر اللّه له الذّنوب الّتی اکتسبها بالنّظر،(۶) اور اگر کوئی شخص ان فضائل میں سے کسی ایک کو لکھے تو جب تک وہ نوشتہ باقی رہے گا ملائکہ اس کے لیے استغفار کرتے رہیں گے اور اگر کوئی ان فضائل میں سے کسی ایک کو سنے تو خدا وند عالم اس کے ان تمام گناہوں کو جو اس نے کان کے ذریعے سے انجام دئے ہوں گے معاف کر دے گا۔ اور اگر کوئی شخص علی کے فضائل کے نوشتہ پر نگاہ کرے گا تو خدا اس کے ان تمام گناہوں کو جو اس نے آنکھ کے ذریعے انجام دئے ہوں گے معاف کر دے گا۔

آپ تنہا تمام کمالات کے مالک ہیں

علی علیہ السلام نہ صرف تمام اچھے لوگوں کے صفات کے تنہا حامل ہیں بلکہ پیغمبر اسلام (ص) کے علاوہ تمام اولو العزم پیغمبروں کے اوصاف کا بھی خلاصہ ہیں۔

اہلسنت و الجماعت کے ایک معروف عالم بیہقی نے پیغمبر اکرم (ص) سے یوں روایت کی ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا: «من احبّ ان ینظر الی آدم فی علمه و الی نوحٍ(ع) فی تقواه و ابراهیم فی حلمه و الی موسی فی عبادته فلینظر الی علی بن طالب علیه الصّلوة و السّلام؛(۷) جو شخص آدم (ع) کے علم کو، نوح (ع) کے تقویٰ کو، ابراہیم (ع) کے حلم کو اور موسی(ع) کی عبادت کو دیکھنا چاہتا ہے تو وہ علی بن ابی طالب پر نگاہ کرے۔

اسی روایت کو دوسرے انداز میں بھی نقل کیا گیا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: «من اراد ان ینظر الی آدم فی علمه و الی نوح فی مهمه و الی یحیی بن زکریّا فی زهده، و الی موسی بن عمران فی بطشه، فلینظر الی علی بن ابی طالب علیه السلام؛(۸) جو شخص آدم کو ان کے علم میں، نوح کو ان کے فہم و ادراک میں، یحییٰ کو ان کے زہد میں اور موسی کو ان کی عبادت میں دیکھنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ علی بن ابی طالب پر نگاہ کرے۔

علی علیہ السلام سے پیغمبر اکرم(ص) کو محبت

جو شخص تمام اوصاف کا مالک ہو وہ تمام دلوں کا محبوب ہوتا ہے۔ پیغمبر اکرم (ص) جو خود تمام کائنات کے محبوب ہیں وہ علی علیہ السلام سے عشق و محبت کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ اس لیے کہ آیت مباہلہ سے یہ ثابت ہے کہ علی (ع) نفس پیغمبر ہیں ’’ انفسنا‘‘ اور ہر انسان کو اپنی جان سب سے زیادہ عزیز ہوتی ہے۔ لہذا جب علی علیہ السلام نفس و جان پیغمبر ہیں تو یقینا ان کے نزدیک سب سے زیادہ عزیز ہیں۔

اسی وجہ سے پیغمبر اکرم (ص) نے بارہا فرمایا : «من احبّ علیّاً فقد احبّنی...؛(۹) جو علی کو دوست رکھے مجھے دوست رکھے گا۔ نیز فرمایا: «محبّک محبّی و مبغضک مبغضی؛(۱۰) تمہارا دوست میرا دوست ہے اور تمہارا دشمن میرا دشمن ہے۔

ایک شخص نے پیغمبر اکرم (ص) سے پوچھا: «یا رسول اللّه انّک تحبّ علیّاً؟ قال: او ماعلمت انّ علیّاً منّی و انا منه؛(۱۱) اے رسول خدا آپ علی کو چاہتے ہیں؟ فرمایا: کیا تم نہیں جانتے علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں۔

مناقب میں پوری سند کے ساتھ رسول اسلام (ص) سے نقل ہوا ہے: «انّ اللّه عزّ و جلّ امرنی بحبّ اربعةٌ من اصحابی و اخبرنی انّه یحبّهم. قلنا: یا رسول اللّه من هم؟ فلکنّا یحبّ ان یکون منهم، فقال: الا انّ علیّاً منهم ثم سکت، ثمّ قال: الا انّ علیّاً منهم ثمّ سکت؛(۱۲) خداوند عالم نے مجھے اپنے صحابیوں میں سے چار صحابی کو دوست رکھنے کا حکم دیا ہے اور اس نے خبر دی ہے کہ وہ بھی ان سے محبت کرتا ہے۔ میں نے پوچھا اے رسول خدا وہ کون ہیں؟ ہم میں سے بھی ہر کوئی یہ چاہتا ہے کہ ان میں سے ہو۔ رسول اسلام(ص) نے فرمایا: آگاہ ہو جاو علی ان میں سے ایک ہیں۔ اس کے بعد آپ خاموش ہو گئے پھر دوبارہ فرمایا: یقینا علی ان میں سے ایک ہیں اور اس کے بعد آپ نے خاموشی اختیار کر لی۔

عائشہ کہتی ہیں: پیغمبر اکرم (ص) جب حالت احتضار میں تھے تو فرمایا: ادعوا الیّ حبیبی؛ میرے دوست کو میرے پاس بلاو۔ میں ابوبکر کی تلاش میں گئی اور انہیں بلا کر لائی۔ جب ابوبکر پیغمبر اکرم (ص) کے پاس آئے تو پیغمبر اکرم (ص) ان سے اپنی نگاہیں موڑ لی اور پھر فرمایا: ادعوا الیّ حبیبی؛ حفصہ عمر کی تلاش میں گئیں اور عمر کو بلا کر لائیں جونہی پیغمبر کی نگاہ عمر پر پڑی تو آپ نے فورا منہ پھیر لیا۔ پھر فرمایا: ادعوا الیّ حبیبی؛ عائشہ کہتی ہیں: میں نے کہا وائے ہو تم لوگوں پر رسول خدا (ص) علی بن ابی طالب کو بلوانا چاہتے ہیں۔ خدا کی قسم وہ صرف علی کو چاہتے ہیں۔ اس کے بعد علی علیہ السلام کو بلوایا گیا جب پیغمبر اسلام (ص) نے علی کو دیکھا تو انہیں سینے سے لگایا، اس کے بعد انہیں ایک ہزار حدیثیں تعلیم کی کہ جن میں سے ہر ایک ہزاروں حدیثوں کا باب تھی۔(۱۳)

ابن عباس سے نقل ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: «علیّ منّی مثل رأسی من بدنی؛(۱۴) علی میرے نزدیک ایسے ہیں جیسے میرے بدن پر سر ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) کی علی علیہ السلام سے محبت کسی غرض کے تحت نہیں تھی بلکہ آپ میں موجود فضائل و کمالات کی بنا پرآپ سے محبت تھی جو فضائل و کمالات خود پیغمبر اکرم (ص) نے اپنی زبان مبارک سے گاہ بگاہ بیان فرمائے تھے۔

علی علیہ السلام کا علم

علی علیہ السلام وہ شخص نہیں جنہوں نے کسی مدرسے یا کسی معلم کے پاس علم اکتساب کیا ہو بلکہ آپ کا علم ’’ علم لدنی‘‘ ہے یعنی خداوند عالم کی طرف سے عطا کردہ ہے۔ اسی وجہ سے آپ کا علم تمام انسانوں سے برتر اور کسی سے قابل قیاس نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہلسنت کے منابع میں آپ کو ’’ اعلم الناس‘‘ کہا گیا ہے ذیل میں چند موارد کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

۱: پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: «اعلم امّتی من بعدی علیّ بن ابی طالب علیه السّلام؛(۱۵) میری امت میں سب سے زیادہ دانا اور عالم شخص علی بن بن ابی طالب ہیں۔

۲: عبد اللہ بن مسعود کہتے ہیں: پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: «قُسّمت الحکمة علی عشرة اجزاءٍ فاعطی علیّ تسعة و النّاس جزءً واحداً؛(۱۶) حکمت اور علم کے دس جزء اور حصے ہیں جن میں سے نو صرف علی کو عطا کئے گئے ہیں اور ایک حصہ باقی امت کے پاس ہے۔

تمام بشری علوم اور عصر حاضر کی ترقیاں علم کے اسی دسویں حصے کا نتیجہ ہیں اور علی علیہ السلام کا علم تمام انسانوں کے علم سے نو گنا زیادہ ہے۔ اور اس کا راز یہ ہے کہ اس کا سرچشمہ وحی الہی ہے یعنی پیغمبر اکرم (ص) کے ذریعے اللہ کی جانب سے علم ان تک منتقل ہوا ہے جیسا کہ خود آپ (ص) نے فرمایا: انا مدینة العلم و علیٌ بابها، فمن ارادالعلم فیأت الباب؛(۱۷) میں شہر علم ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں جو شخص شہر علم میں داخل ہونے کا ارادہ رکھتا ہے اسے چاہیے کہ دروازے سے داخل ہو۔

۳: جناب عائشہ علی علیہ السلام کے بارے میں کہتی ہیں: «هو اعلم النّاس بالسّنة؛(۱۸) علی سنت پیغمبر کو سب سے زیادہ جاننے والے ہیں۔

اے کاش خود عائشہ اس حدیث پر عمل کر لیتیں اور جنگ جمل میں امیر المومنین علی علیہ السلام کی نصیحتوں پر عمل کر لیتیں۔

۴: پیغمبر اکرم (ص) نے جناب فاطمہ زہرا (س) کو علی علیہ السلام کے عقد میں دے کر شادی کروا کر فرمایا: «زوّجتک خیر اهلی، اعلمهم علماً و افضلهم حلماً و اوّلهم سلماً؛(۱۹) میں نے آپ کی شادی سب سے بہترین رشتہ دار سے کرائی ہے جو علم میں سب سے زیادہ عالم، حلم میں سب سے افضل، اور اسلام قبول کرنے میں سابق ترین شخص ہے۔

علی (ع) کی عبادت اور بندگی

امیر المومنین علی علیہ السلام کی عبادت ’’شہرہ آفاق‘‘ رکھتی ہے۔ علم لدنی کے مالک خداوند عالم کی جتنی معرفت رکھتے ہیں اسی مقدار میں اس کی عبادت اور اس کی بارگاہ میں راز و نیاز اور راتوں کو جاگ جاگ کر مناجات کرتے ہیں۔ یہ مسئلہ اس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ خداوند عالم ملائکہ کے سامنے حضرت علی علیہ السلام کی عبادتوں پر فخر کرتا ہے۔

پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:ایک دن صبح سویرے جبرئیل انتہائی خوشی کے ساتھ میرے پاس آئے میں نے پوچھا: میرے دوست کیا بات ہوئی ہے کہ آج آپ اتنے خوش نظرآ رہے ہیں؟ کہا: اے محمد! کیونکر خوش نہ ہوں جبکہ خداوند عالم نے جو اکرام و انعام آپ کے بھائی، جانشین اور امام امت علی بن ابی طالب پر کیا ہے اس نے میری آنکھوں کو نورانی کر دیا ہے۔ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: کیسے خدا نے میرے بھائی اور امام امت کو اکرام سے نوازا ہے؟

«قال: باهی بعبادته البارحة ملائکته و حملة عرشه و قال: ملائکتی انظروا الی حجّتی فی ارضی علی عبادی بعد نبیّی، فقد عفر خدّه فی التّراب تواضعاً لعظمتی، اشهدکم انّه امام خلقی و مولی بریّتی؛(۲۰) فرمایا: خداوند عالم نے علی کی گزشتہ رات کی عبادت پر ملائکہ اور حاملین عرش کے سامنے اتنا فخر کیا ہے اور فرمایا ہے: اے میرے فرشتو! دیکھو میرے نبی کے بعد میرے بندوں پر میری حجت کو، کہ کس طرح سے اس نے اپنا چہرا اور رخسار خاک پر رکھا ہوا ہے میری عظمت کے سامنے اس کے اس تواضع کی وجہ سے میں تمہیں گواہ بناتا ہے کہ وہ میری مخلوق کا رہبر ہے اور میرے بندوں کا وارث اور سرپرست ہے۔

شیعہ کتابوں میں علی علیہ السلام کی عبادت کے بارے میں اتنے واقعات نقل ہوئے ہیں کہ جن کو بیان کرنے کے لیے ایک مفصل کتاب کی ضرورت ہے۔ اس مختصر مقالہ میں صرف ایک واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

ضرار بن ضمرہ معاویہ کے دربار میں علی علیہ السلام کے بارے میں کہتا ہے: میں خدا کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے علی کو کئی مربتہ دیکھا جب رات ہر چیز کو اپنی گھٹا میں ڈبو دیتی تھی اور آسمان پر ستارے سامنے آ جاتے تھے تو اس وقت میں دیکھتا تھا کہ علی محراب عبادت میں کھڑے ہوتے تھے اور اپنی داڑھی کو ہاتھ میں لیے ہوتے تھے اور اس شخص کی طرح تڑپ رہے ہوتے تھے جس کو سانپ نے کاٹ دیا ہو اور اس شخص کی طرح گریہ و زاری کرتے تھے جس کو شدید غم لگ گیا ہو۔۔۔ ( علی کے گریہ و زاری کی آوازیں ابھی بھی میرے کانوں میں گونجتی ہیں جو وہ کہتے تھے) آہ آہ قلت الزاد و طول السفر (زاد سفر کتنا تھوڑا اور سفر کتنا طولانی، راستہ کتنا کٹھن اور منزل کتنی دور)۔

یہ ماجرا سن کر معاویہ کے آنسو بھی نکل آئے اس نے آستین سے آنسو پوچھے اور سننے والے دوسرے لوگ بھی آنسو پوچھنے لگے۔ پھر معاویہ نے کہا: ہاں ابو الحسن ایسے ہی تھے۔(۲۱)

امامت علی (ع)

دریائے علم کے مالک اور بے مثل و نظیر عبادتگزار ہی کے لیے سزاوار ہے کہ امام امت ہو۔ وہ روایات جو امام علی علیہ السلام کے بلا فصل امام ہونے پر اہلسنت کی کتابوں میں نقل ہوئی ہیں اتنی زیادہ ہیں کہ انہیں یہاں پر بیان نہیں کیا سکتا ہے جیسے حدیث ثقلین، حدیث منزلت، حدیث یوم الدار، حدیث غدیر اوراس طرح کی معروف حدیثیں حد تواتر سے بھی زیادہ ہیں جو سب اہلسنت کی کتابوں میں موجود ہیں۔ ہم یہاں پر چند ایک روایتوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جن کی دلالت صریح ہے اور معمولا بہت کم بیان کی جاتی ہیں:

۱: پیغمبر اکرم (ص) نے علی علیہ السلام سے فرمایا: اپنے دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنیں تاکہ مقربین میں سے ہوں عرض کیا یا رسول اللہ کون سے انگوٹھی پہنوں؟۔ فرمایا: عقیقِ سرخ کی۔ چونکہ یہ وہ پتھر ہے جس نے خدا کی وحدانیت کا اقرار کیا ہے «ولی بالنّبوّة ولک بالوصیّة ولولدک بالامامة...؛(۲۲) اور میری نبوت، آپ کی بلافصل جانشینی اور آپ کے بعد گیارہ اماموں کی امامت کا اقرار کیا ہے۔

۲: ابن بریدہ سے نقل ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: «لکلّ نبیٍّ وصیّ و وارث و انّ علیّاً وصییی و وارثی؛(۲۳) ہر پیغمبر کا ایک جانشین اور وارث ہے میرا جانشین اور وارث علی ہیں۔

۳: حضرت علی علیہ السلام کی عبادت کے سلسلے میں جواوپر روایت بیان ہوئی ہے اس میں خدا نے کہا ہے کہ میں فرشتوں کو گواہ بناتا ہوں کہ علی میری مخلوق کے امام اور میرے بندوں کے وارث و سرپرست ہیں «اشهدکم انّه امام خلقی و مولی بریّتی؛(۲۴)

۴: عمرو بن میمون نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا (ص) نے علی علیہ السلام سے فرمایا: «انت ولیّ کلّ مؤمنٍ بعدی؛(۲۵) اے علی! آپ میرے بعد رہبر اور مومنین کے سرپرست ہیں۔

اس حدیث میں لفظ ’’ بعدی‘‘ سے ایک دم واضح ہو جاتا ہے کہ علی علیہ السلام پیغمبر اکرم کے بلافصل جانشین ہیں ورنہ اس حدیث کے کوئی معنی نہیں رہ جائیں گے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے امیر المومنین علی علیہ السلام کے فضائل و کمالات بیان کرنے میں کوئی کمی باقی نہیں چھوڑی مختلف طریقوں اور مختلف مناسبتوں سے آپ کو امت کا امام اور اپنا جانشین متعارف کروایا۔ یہاں تک کہ غدیر کے میدان میں سوا لاکھ حاجیوں کے مجمع میں آپ کا ہاتھ اٹھا کر فرمایا دیا کہ جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی مولی ہیں۔ اور قرآن کریم جیسی جاویدانی کتاب کے ساتھ علی علیہ السلام کو بھی جاویدانگی حیات عطا کرتے ہوئے فرمایا: «علی مع القرآن و القرآن مع علی لن یفترقا...؛(۲۶) علی قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علی کے ساتھ اور یہ دونوں ہر گز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے۔

اور کبھی علی علیہ السلام کو حق کا محور اور مزکر قرار دیا اور اس حدیثِ متواتر میں فرمایا: «علیّ مع الحقّ و الحقّ مع علیّ و لن یفترقا حتی یردا علیّ الحوض یوم القیامة؛(۲۷) علی حق کے ساتھ اور حق علی کے ساتھ ہے اور یہ دونوں ہر گز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ روز قیامت حوض کوثر پر میرے پاس وارد ہوں۔

ایک اور روایت میں فرمایا: «سیکون من بعدی فتنة، فاذا کان ذلک، فالزموا علی بن ابی طالب، فانّه الفاروق بین الحقّ و الباطل؛(۲۸) عنقریب میرے بعد فتنہ اور اختلاف ہو گا پس تم لوگ علی بن ابی طالب کا ساتھ دینا اس لیے کہ حق اور باطل کے درمیان فرق ڈالنے والے صرف علی ہیں۔

اور فرمایا: جو شخص علی سے الگ ہو وہ مجھ سے الگ ہے اور جو مجھ سے الگ ہو جائے خدا سے دور ہو جائے گا۔(۲۹)

قرآن علی (ع) کی شان میں

اہلسنت کے علماء اور مفسرین نے قرآن کریم کی بہت ساری آیتیں امام علی علیہ السلام کی شان میں ذکر کی ہیں اور اس بات کی تائید کی ہے کہ پیغمبر اکرم نے ان کے نزول کے بعد فرمایا تھا کہ یہ آیتیں علی(ع) کی شان میں نازل ہوئی ہیں جیسا کہ ابن حجر، خطیب بغدادی، سیوطی، گنجی، شافعی، ابن عساکر، شیخ سلیمان قندوزی و۔۔۔ نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا: «نزلت فی علیّ ثلاث مأئة آیه؛(۳۰) علی کہ شان میں تین سو آیتیں نازل ہوئی ہیں۔

نیز ابن عباس نے پیغمبر اکرم (ص) سے نقل کیا ہے کہ آنحضرت نے فرمایا: «ما انزل آیة فیها «یا ایّها الذین آمنوا» و علیّ رأسها و امیرها؛ کوئی آیت ایسی نازل نہیں ہوئی جس مومنین کو مخاطب کیا ہواور علی امیر مومنین ہونے کی وجہ سے اس کے پہلے مخاطب نہ ہو۔(۳۱) یعنی یہ تمام آیات سب سے پہلے علی علیہ السلام کی شان میں ہیں۔

علی علیہ السلام کی اطات

جب علی علیہ السلام امام اور رہبر ہیں محبوب پیغمبر ہیں علم لدنی کے مالک ہیں خدا کی بندگی میں بالاترین مقام پر فائز ہیں حق و باطل کے درمیان فرق پیدا کرنے والے ہیں حق ہمیشہ آپ کے ساتھ ہے قرآن ہمیشہ آپ کے ساتھ ہے تو ایسے شخص کی اطاعت اور پیروی کرنا پوری امت مسلمہ پر واجب ہو جاتا ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے امیر المومنین علی علیہ السلام کی اطاعت کرنے کے لیے عجیب تعبیرات کا استعمال کیا ہے جن کے نمونے درج ذیل ایک حدیث میں ہیں:

۱: سلمان نے حضرت زہرا (س) سے نقل کیا کہ آپ نے رسول خدا(ص) سے نقل فرمایا کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا: علیکم بعلیّ بن ابی طالب علیه السّلام فانّه مولاکم فاحبّوه، و کبیرکم فاتّبعوه، و عالمکم فاکرموه، و قائدکم الی الجنّة(فعزّزوه) و اذا دعاکم فاجیبوه و اذا امرکم فاطیعوه، احبّوه بحبّی و اکرموه بکرامتی، ماقلت لکم فی علیٍّ الّا ما امرنی به ربّی جلّت عظمته؛(۳۲) تم لوگوں پر علی کی اطاعت واجب ہے چونکہ وہ تمہارے مولا ہیں انہیں دوست رکھو اور تمہارے بزرگ ہیں ان کی اتباع کرو تمہارے عالم ہیں ان کا اکرام اور احترام کرو اور جنت کی طرف لے جانے والے تمہارے رہبر ہیں انہیں عزیز سمجھو وہ جب تمہیں کسی کام کی طرف بلائیں ان کی اطاعت کرو میرے محبت کی وجہ سے ان سے محبت کرو میری بزرگی کی وجہ سے انہیں بزرگ سمجھو میں نے علی کے بارے میں تم سے وہی کہا ہے جو میرے پروردگار نے مجھے حکم دیا ہے۔

یہ حدیث اس قدر واضح اور آشکار ہے کہ مزید اس کے بارے میں کوئی وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں ہے پیغمبر اکرم نے اس میں واضح طور پر فرما دیا ہے کہ میں نے جو کچھ علی کے بارے میں کہا ہے سب اللہ کے حکم سے کہا ہے۔ یقینا اگر امت مسلمہ صرف اسی حدیث پر عمل پیرا ہو جاتی تو کسی قسم کے انحراف اور اختلاف کا شکار نہ ہوتی۔

۲: پیغمبر اکرم (ص) نے جناب عمار سے فرمایا: «یا عمّار! ان رأیت علیّاً قدسلک وادیّاً و سلک النّاس وادیاً غیره فاسلک مع علیّ ودع النّاس انّه لن بدلک علی ردی و لن یخرجک من الهدی؛(۳۳) اے عمار! اگر تم دیکھو کہ علی ایک طرف جا رہے ہیں اور دیگر تمام لوگ دوسری طرف جا رہے ہیں تو تم علی کے ساتھ جانا اور باقی لوگوں کو چھوڑ دینا اس لیے کہ علی گمراہی کی طرف رہنمائی نہیں کریں گے اور راہ ہدایت سے الگ نہیں کریں گے۔

لیکن افسوس سے کہنا سے پڑتا ہے کہ لوگوں کی اکثریت اس راستے سے منحرف ہو گئی جس پر علی علیہ السلام چل رہے تھے اور جناب عمار کو پیغمبر اکرم (ص) کی طرف سے کی گئی اس وصیت نظر انداز کر کے لوگوں نے علی علیہ السلام کا ساتھ نہ دیا اور نتیجہ میں سب نے گمراہی کا راستہ انتخاب کر لیا اور عالم اسلام کے اندروہ مشکلات وجود میں آگئیں جو نہیں آنا چاہیے تھیں اورآج تک امت مسلمہ اپنے کئے کا خمیازہ بگت رہی ہے۔ نہ دنیا میں سکون ملا اور نہ آخرت میں نصیب ہو گا۔ امت مسلمہ کی اکثریت نے علی علیہ السلام کا ساتھ چھوڑ کر ان کا کچھ نہیں بگاڑا بلکہ اپنا سب کچھ بگاڑ دیا۔ علی علیہ السلام تو وارث دوجہاں ہیں ہی کوئی انہیں مانے یا نہ مانے، علی(ع) امام برحق ہیں ہی کوئی انہیں قبول کرے یا کرے۔ علی (ع) قسیم النار و الجنہ ہیں ہی کوئی مانے یا مانے۔ دنیا میں تو ان سے بھاگ سکتے ہیں آخرت میں بھی بھاگ کر دکھائیں تو تب بتائیں۔

تحرير : جعفری

حوالہ جات

۱ـ روضة المتقین، ج 13، ص 265.

۲ـ مناقب ابن شهرآشوب، ج 3، ص 268.

۳ـ محمد تقی مجلسی، روضة المتقین، ج 13، ص 273.

۴ـ بحارالانوار، ج 28، ص 197 و بحار ج 35، ص 8 ـ 9.

۵ـ المناقب، الموفق بن احمد الخوارزمی، قم، جامعه مدرسین، چاپ چهارم، ص 32، ابن شاذان، مأة منقبه، قم مدرسة الامام المهدی(ع)، ص 177، حدیث 99، یہ حدیث اہلسنت کے عسقلانی، لسان المیزان، ج 5، ص 62، ذهبی، میزان الاعتدال، ص 467و...میں آئی ہے۔

۶ـ المناقب، وہی، ص 32، حدیث 2؛ فرائد السمطین، ج 1، ص 19، ینابیع المودة، قندوزی باب 56، مناقب السبعون، حدیث 70.

۷ـ بنقل از شیخ طوسی، امالی، قم، دارالثقافه، 1416، ص 416، مجلس 14، دیلمی، ارشادالقلوب، انتشارات شریف رضی، 1412 هـ.ق، ج 2، ص 363؛ علامه حلّی، شرح تجرید الاعتقاد، جامعه مدرسین قم، ص 221.

۸ـ المناقب همان، ص 83، حدیث 70، و ص 311، حدیث 309.

۹ـ کنزالعمّال، متقی هندی، بیروت، مؤسسة الرساله، ج 11، ص 622، حدیث 33024.

۱۰ـ وہی حوالہ ، روایت 33023.

۱۱ـ المناقب، همان، ص 64.

۱۲ـ وہی حوالہ ، ص 69، حدیث 42.

۱۳ـ خصال صدوق، جامعه مدرسین، ج 2، ص 651.

۱۴ـ المناقب، وہی حوالہ ، ص 144، روایت 167.

۱۵ـ وہی حوالہ ، ص 82، روایت 67، فرائد السمطین، جوینی، ج 1، ص 97، کفایة الطالب، الکرخی ص 332.

۱۶ـ وہی حوالہ ، ص 82، روایت 68 ؛ و حلیة الاولیاء، ابی نعیم، ج 1، ص 64.

۱۷ـ المناقب، وہی حوالہ ، ص 91، روایت 84، انساب الاشراف، ج 2، ص 124.

۱۸ـ کنزالعمّال، وہی حوالہ ، ج 11، ص 605، حدیث 32926.

۱۹ـ المناقب، وہی حوالہ ، ص 319، حدیث 322.

۲۰ـ بحارالانوار، داراحیاء التراث العربی، ج 41، ص 21 ذیل روایت 28.

۲۱ـ اشک شفق، ص 182.

۲۲ـ المناقب، ص 85، روایت 84..

۲۳ـ وہی حوالہ ، ص 319، حدیث 322.

۲۴ـ ابن کثیر دمشقی، البدایة و النهایة، بیروت، مکتبة المعارف، ج 7، ص346.

۲۵ـ المستدرک علی الصحیحین، حاکم نیشابوری، بیروت، دارالمعرفه، ج 3، ص 124، ینابیع المودة، سلیمان قندوزی، باب 20، ص 103، تاریخ الخلفاء سیوطی، باب فضائل علی(ع)، ص173.

۲۶ـ المستدرک للحاکم همان، ج 3، ص 124، حدیث 61، فرائد السمطین، همان، ج 1، ص 439، ینابیع المودة، همان، باب 20، ص 104، هیثمی، مجمع الزوائد، ج 9، ص 135.

۲۷ـ المناقب، همان، ص 105، روایت 108.

۲۸ـ وہی حوالہ ، ص 105، روایت 109.

۲۹ـ خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، ج 6، ص 221، شماره 3275؛ ینابیع المودة، همان، باب 42، ص 148؛ تاریخ دمشق، ابن عساکر، ج 2، ص 431.

۳۰ـ المناقب، وہی حوالہ ، ص 267، ح 249.

۳۱ـ المناقب، وہی حوالہ ، ص 316، حدیث 316؛ فرائد السمطین، ج 1، ص 78.

۳۲ـ کنزالعمال، وہی حوالہ ، ج 11، ص 614، روایت 32971.

۳۳ـ تاریخ بغداد، خطیب بغدادی، ج 4، ص 410، و ابونعیم، حلیة الاولیاء، ج 1، ص

Read 21704 times