1- لا يُحِبُّنی الاّ مومن وَ لا يُبْغِضُنی الاّ مُنافِقٌ
مجه سے مومن کے علاوه کوئی محبت نهیں کرے گا اور منافق کے علاوه کوئی بغض و دشمنی نهیں کرے گا.
بلاشک که حقیقی ایمان کا ایک معیار جهت معین کرنا اور محبت و دوستی هے. هم کسی شخص یا کسی چیز کو کیوں چاهتے هیں؟ اور کسی شخص سے یا کس چیز سے کیوں نفرت کرتے هیں؟ یه چیزیں همارے ایمان معین اور اس کی گهرائی کو معین کرنے والی هے، محبت اور نفرت، باطنی اور نا دکھائی دینے والی چیزیں هیں لیکن ان کی نشانی انسان کی رفتار و گفتار میں دکھائی دیتی هے، هرگز کسی شخص کو اس بات پر مجبور نهیں کیا جاسکتا که وه فلاں شخص سے محبت کرے، یا اس سے نفرت کرے، کیونکه محبت یا نفرت اس معرفت اور شناخت کی بنیاد پر هوتی هیں که جو کسی شخص یا کسی چیز کے سلسله میں هوتی هےاور اس کی قربت دل میں پیدا هوتی هے.
اور ان میں زیادتی یا کمی هونا بھی انهیں اسباب پر موقوف هے، محب اور محبوب کے درمیان جو کشش اور رابطه هوتا هے یا اس سے نفرت کرنے والے اور جس سے نفرت کی جارهی هے ان دونوں میں دوری هوتی هے وه بهی شناخت کی وجه کی بنیاد پر هوتا هے، البته وه تمام چیزیں که جن کو ایک «محبوب» چاهتا هے ایک سطح میں نهیں هیں بلکه محب اور محبوب کے مرتبوں، محبوب کا فائده مند هونا اور محبت کرنے والے کی آرزوئیں اور محبت کی سطح اور اس کی میزان بهی مختلف هوتی هے:
کبھی کبھی کوئی چیز یا کوئی شخص ذاتی اور اصلی طور پر محبوب هوتی هے اور کبھی کبھی عرضی اور واسطه کے طور پر محبوب هوتی هے، چنانچه اگر کچھ لوگ مال و دولت کو چاهتے هیں تو اس کی وجه یه هے که اس کے ذریعه لذت و اور چین و سکون حاصل کیا جاسکتا هے اور چین و سکون اور مزه کو خوشبختی کا سبب تصور کرتے هیں، اور اگر کچھ لوگ علم و دانش کے عاشق هوتے هیں تو اس کی وجه یه هوتی هے که وه اس کے ساتھ قربت محسوس کرتے هیں اور اسے اپنی آرزووں اور اپنے اهداف کو پورا کرنے والا مانتے هیں، لیکن تمام محبتیں اور دوستی«حب كمال اور حبّ سعادت» کی طرف جاتی هیں اور تمام نفرتیں «تنزلی اور بدبختی سے نفرت» کے ذریعه جنم لیتی هیں.
انسان ذاتی طور پر کمال کا طالب اور ترقی کا خواهاں هے اگرچه هوسکتا هے که وه مصداق اور مورد میں غلط انتخاب کرے، اسی وجه سے مکتب وحی میں تمام اولیائے الهی کی بهرپور کوشش رهی هے که انسان کو محبوب لائق اور معشوق حقیقی تک پهنچا دے اورانسان کو کمال اور بلندی کے صحیح مصداق کو پهچنوائے.
جی هاں! انسان کا حقیقی محبوب اور معشوق، کمال مطلق، جمال مطلق، اور رشد و ترقی هے که جب انسان کسی شخص کو یا کسی شی کو چاهتا هے تو اپنے کمال و جمال کو اس میں دیکھتا هے یا اس کو رشد و ترقی کا سبب شمار کرتا هے۔ اور چونکه خداوندعالم هر زیبائی اور کمال کا مرکز و خزانه هے، لهٰذا وهی ذاتی اور اصلی طور پر محبوب هے اور ایک حقیقی مومن اور عارف کے لئے (که جو هستی کی صحیح و حقیقی شناخت اور دینی جهان شناسی کے ذریعه ایمان تک پهنچا هے) «خدا» کے علاوه کوئی مستقل محبوب نهیں هے، تمام صفات اور خوبصورتی کے تمام جلوے خدا کی طرف سے هیں، لهٰذا تمام تعریفیں اور شکرگزاری خداوندعالم سے مخصوص هیں، اسی طرح تمام محبت اور عشق بھی اسی سے متعلق هے، هدایت یافته انسان اسی حقیقت کو پهچانتا هے اور وه خدا سے یهی چاهتا اور طلب کرتا هے که: «خداوندا! میں تجھ سے تیری دوستی اور محبت چاهتا هوں اور ان لوگوں کی دوستی که جن کو تو دوست رکھتا هے اور هر اس عمل سے محبت چاهتا هوں که جو تیرے قرب کا سبب بنے!»
جو لوگ دنیا کی زرق و برق کے عاشق بن گئے هیں اور اپنے مطلق عشق کو مادی اور حیوانی مطلوب اور محبوب میں تلاش کرتے هیں تو اس کی وجه یه هے که انهوں نے صرف دنیا کے ظاهر اور اس میں موجود چیزوں کو دیکها هے اوروه کائنات کی حقیقی معرفت سے محروم هیں اور چونکه انسان ایک ایسا موجود هے که جو مطلق اور بے انتها رجحان رکھتا هے اور دوسری طرف سے دنیوی چیزیں اور انسان کی حاصل کرده چیزیں محدود اور پست هیں اس وجه سے انسان کی فطری اور با عظمت ضرورتوں کو پورا نهیں کرسکتی اور اسے سکون و اطمینان تک نهیں پهنچا سکتی، جو چیز انسان کو سکون و اطمینان اور ایمان تک پهنچاتی هیں وه خدا اور اس کے نیک بندوں کی یاد اور ان کی محبت هے۔
حضرت امیرالمومنین علی علیه السلام کے کلام میں اس حقیقت کا بیان هرگز خودپرستی اور خودخواهی کی بنیاد پر نهیں هے کیونکه آپ کی ذات ان چیزوں سے پاک و پاکیزه هے، بلکه ایک ایسی حقیقت هے که جس کو پیغمبر اسلام (ص) نے اسے اپنے عهد و پیمان کے عنوان سے یاد کیا اور حضرت علی علیه السلام کی دوستی کو ایمان و نفاق کا معیار قرار دیا۔
جی هاں! الله سے محبت اور دوستی کا دعوی کرنے والے بهت سے هوتے هیں لیکن خدا سے حقیقی محبت اوردوستی کا سچا معیار اور نشانی یه هے که جس سے خود غرض (جھوٹا) دعوی کرنے والے حقیقی اور سچے محبت کرنے والوں سے جدا هوجاتے هیں۔ اور وه حضرت علی علیه السلام کی دوستی هے۔ کیونکه حضرت علی بن ابی طالب علیه السلام خداوندعالم کے جمال و جلال کا مکمل آئینه دار هیں، آپ هی کی ذات امام عاشقین اور رهبر عارفین هے، آپ هی کی ذات کو پیغمبر اکرم (ص) نے صدیق اکبر اور فاروق اعظم قرار دیا هے، خداوندعالم اور پیغمبر اکرم (ص) کی ذات سے سب سے زیاده محبت کرنے والی ذات حضرت علی علیه السلام هے جیسا که آپ نے عقیده و عمل میں اس بات کو ثابت کر دکھایا، حضرت علی علیه السلام حق و باطل کو معین کرنے کا سب سے بڑا معیار تھے که جو خود کو رسول الله (ص) کے غلاموں میں سے ایک غلام تصور کرتے تھے اور جو نفس پیغمبر(ص) تھے۔
کیا یه ممکن هے که کوئی حقیقی مومن هو لیکن اُس کے دل میں حضرت علی علیه السلام کی محبت و عشق نه هو؟ اور کیا یه ممکن هے که کوئی شخص اپنے دل میں حضرت علی علیه السلام کا بغض اور آپ سے نفرت رکھتا هو اور وه خداوندعالم سے دوستی اور اس پر ایمان میں سچا هو؟ حضرت علی علیه السلام که جن کی رفتار و گفتار، میزان حق اور صراط مستقیم هو، اور اپنی زندگی کے مختلف پهلووں اور مختلف نشیب و فراز میں حق و عدالت سے ذره برابر بھی نه هٹے هوں اور انسان کامل کے جامع نمونه اور قرآن ناطق کا اعلیٰ مصداق هو، مومن و منافق کو جدا کرنے کی بهترین میزان اور معیار هیں اور آپ هی کی ذات هے که عالم محشر میں حوض کوثر کے پاس مومن اور منافق کو جدا کرے گی اور آپ هی جنت و دوزخ کو عدالت کے ساتھ تقسیم کریں گے۔
جی هاں! حضرت علی علیه السلام کو مومن کے علاوه کوئی دوست نهیں رکهے گا اور منافق کے علاوه کوئی دشمن نهیں رکھے گا، کیونکه حضرت علی بن ابی طالب علیه السلام کی محبت ایک ایسا کیمیا هے که جو انسانی وجود کے جوهر کو «علوی» بنا دیتا هے اور اسے رشد و ترقی کی منزلوں تک پهنچا دیتا هے، انسان کے دل و جان میں راسخ هونے والی محبت اور دوستی اور کائنات کے اس دُریگانه کی معرفت پر قائم هے، ایسی دوستی که جو حضرت علی علیه السلام اور خدائے علی سے رابطه کے بغیر ممکن نهیں هے، ایسی دوستی که جس کو خداوندعالم نے اپنے کلام حکیم میں هر مسلمان پر واجب کی هے اور پیغمبر اکرم (ص) کی رسالت کا اجر قرار دیا، ایسی دوستی که جو حضرت علی علیه السلام کی پیروی کرتے هوئے بلند و بالا محبت عشق اور ترقی پر پهنچا دیتی هے یا ایسا بنده بنادیتی هے که جو رشد و ترقی تک پهنچا دیتا هے اور انسان کی راه نجات اور راه سعادت کی باعث بنتی هے۔ اور یهی دوستی اور عشق هے که جو انسان کو عصمت کی سرحد تک پهنچادیتا هے اور اسے اس طرح بلند کردیتا هےکه جس سے انسان کسی گناه اور برائی میں مبتلا نه هو، اور اس کے معنری و روحانی سیروسلوک کو نقصان نهیں پهنچاتی۔۔۔ خدا کرے اس عشق و محبت کا ایک جام همیں بھی نصیب هو۔ (ان شاء الله)
2- اَعيُنونی بِوَرَع و اجتهادٍ و عِفَّة و سَدادٍ.
تقوی اور پرهیزگاری، سعی و کوشش، عفت اور استواری کے ذریعه میری مدد کرو۔
انسان کا اپنے رهبر و پیشوا سے معنوی رابطه، اس امامت و پیشوائی کی وه اصل هے که جس کے بغیربنیادی طور پر پیشوائی اور امامت کا معنی و مصداق نهیں ملے گا، امام اور ماموم (یعنی پیشوا اور پیروی کرنے والے) کے درمیان رابطه میں جو فرق هے وه دوسری قسموں کے روابط میں (جیسے استاد اور شاگرد، والدین اور اولاد، میاں بیوی، یا دو دوستوں کے درمیان) اسی "فکری اور عملی تعلق" میں فرق هے کیونکه ماموم اور پیروی کرنے کا امام اور پیشوا سے معنوی رابطه هے، جتنا بهی یه رابطه عمیق اور گهرا هوگا ، امام کی پیروی، مزید بهترین نتائج اور مزید کامل فوائد مرتب هوں گے اور امام و ماموم کے درمیان قربت میں اضافه هوتا چلا جائے گا اور مطلوبه کمال اور سعادت ابدی (که جو انسان کامل، امام اور خلیفة الله سے معنوی رابطه کے بغیر نهیں حاصل هوسکتی) حاصل هوگی.
حضرت علی علیه السلام کے نظریه کے مطابق هر ماموم کے لئے ایک امام هوتا هے که جس کی وه اقتدا اور پیروی کرتا هے اوراس کے علم کی روشنی سے فائده اٹھاتا هے اور امامت و ولایت کا جوهر اور حقیقت بھی یهی علمی اور عملی رابطه هے. لیکن حضرت علی بن ابی طالب علیه السلام کی بلندی فکر اور عمل و کردار کی عظمت اتنی عظیم الشان هے که آپ کی پیروی کرنے والے عاشقوں کی رسائی نهیں هوسکتی. اور یه ایک ایسی حقیقت هے که خود حضرت امیر علیه السلام اس سے واقف هیں اور واضح طور پر یه اعلان فرماتے هیں که: "تم مجھ جیسا کردار پیش نهیں کرسکتے" تو ایسے موقع پر کیا کیا جائے؟ حضرت علی علیه السلام کا فرمان یه هے: " تقوی اور پرهیزگاری، سعی و کوشش، عفت اور استواری کے ذریعه میری مدد کرو"۔
الفاظ کی وضاحت:
ورع ، کے معنی خدا سے ڈرنے کے هیں، یعنی گناه سے دور رهنا اور تقوی و پرهیزگاری اپنانا، ورع، متقین کا شعار اور تقوی کی بنیاد اور اس کے ساته ساته هے. مومن کے لئے زینت و زیبائی اور ایک انسان کے لئے سب سے بهترین صفت ورع اور پرهیزگاری هے، جس کا مطلب یه هے که انسان هر طرح کی فکری یا گفتاری کجروی سے محفوظ هو، ورع انسان کی حیات کا سبب اور انسان کی معنوی جد و جهد، تزکیه نفس اور دل و جان کے پاک هونے کا باعث هے، یهی صفت انسان کو مادیت اور حیوانت کے درجه سے نکال کر افق انسانیت (که جو جاده الهی اور خلیفة اللهی کے راه میں چلنا هے) تک پهنچا دیتی هے، ورع اور تقوی کے بغیر کوئی دوسرا کردار انسان کو سعادت اور کامیابی تک نهیں پهنچا سکتا.
اجتهاد، یعنی مکمل طور پر سعی و کوشش کرنا،اپنی تمام کوششوں کو سعادت و کامیابی اور خودسازی تک پهنچنے کےلئے بروئے کار لانا، اورکج روی و خامیوں سے مقابله کرنے کے لئے تیار رهنا،لهذا اس طرح کی سعی و کوشش اور سخت محنت کے بغیر ماموم اور امام کے درمیان رابطه حاصل نهیں هوسکتا.
جو شخص سعی و کوشش نه کرے اور خودسازی نیز تقوی و پرهیزگاری کے لئے همت نه کرے تو ایسا شخص کسی منزل پر نهیں پهنچ سکتا، جهاد میں سب سے پهلا اور سب سے مهم مرحله جهاد بالنفس هے(یعنی انسان شهوات اور نامحدود حیوانی خواهشوں پر غلبه پانے کے لئے کوشش کرے) البته ایسی تلاش و کوشش، تمرین، تکرار، حفاظت، پابندی، حساب و کتاب اور مستحکم اراده کے بغیر ممکن نهیں هے.
عفت یعنی پارسائی٬ پاکدامنی اور حیوانی خواهشات اور شهوات کے مقابله میں اپنے نفس کو کنٹرول کرنا اور نفس کی لگام کو اپنے هاتھوں میں رکھنے کا نام هے٬ عفت اور شهوات کے مقابله میں پاکدامنی کے بغیر انسانی اور الهی کمالات کی طرف بڑهنے کا موقع نهیں مل پائے گا۔ خصوصا جوانی اور خوبصورتی دو بڑی نعمتیں هیں که جن سے «عفّت» کے بغیر انسانی ترقی و تکامل کی طرف قدم نهیں بڑھایا جاسکتا٬ اسی وجه سے حضرت علی علیه السلام کی نظر میں خوبصورتی کی زکوة٬ عفت اور نامحرموں سے اپنے نفس کو بچانا هے۔ جو شخص اپنے اندر عفت کی عادت کی پرورش کرےاور اس کی جڑوں کو مستحکم کرے٬ اس کے گناهوں کا بار کم هوجائے گا٬ نیزخداوندعالم کی نگاه میں اس کا مرتبه بهی بلند هوجائے گا۔ حقیقت یه هے که عفاف اور پاکدامنی ایک ایسا وسیله هے که جس کے ذریعه انسان اپنے نفس کو برائیوں اور پستیوں سے پاک کرکے محفوظ رکھ سکتا هے۔
سداد یعنی ثابت قدم رهنا اور کردار و گفتار میں ثابت قدم رهنا٬ برائی اور پستی سے خود کو پاکیزه رکھنا٬ رفتار و سخن میں معقول طریقه اپنانا۔ قرآن کریم نے بھی اسی بات پر تاکید کی هے٬ نظر اور گفتار میں استواری اور درستی کو نظر میں رکھو٬ اور تمهاری بات«قول سديد» یعنی بهترین اور مستحکم هو٬ اس بات پر دهیان رکهنا که هماری هر بات رضائے الهی کے خلاف نه هو٬ اور کوئی بهی نظریه بے بنیاد اور سست نه هو٬ کیونکه یهی«قول سديد» کا تقاضا یهی هے۔
حضرت امام علی علیه السلام اپنے ماننے والوں سے یه چاهتے هیں که اگر قول و عمل میں امام علیه السلام کے اعلیَ مقام تک نهیں پهنچ سکتے تو ان چار صفات میں آپ کی مدد کریں اور ورع٬ کوشش٬ عفت اور «قول سديد» کی رعایت کریں اور اس طرح امام المتقین اور امیر المومنین کو اس راه میں که جو امام علیه السلام کا آخری مقصد اور هدف هے (که جو وهی انسان کی معنوی ترقی اور ایمان و تقوی کے بلند درجات تک پهنچنا هے) مدد اور نصرت کریں٬ کیا هم نے اپنے ائمه علیه السلام کی مدد کے لئے کوئی قد م اٹھایا هے؟
3- اَلحِكْمَة ضالَّة الْمُوْمِن فَخُذِ الحِكْمَة وَ لَو مِن اَهْل النِّفاق
حمکت اوردانش مومن کی گمشده شے هے٬ پس حکمت کو حاصل کرلو چاهے اهل نفاق سے هی کیوں نه ملے۔
حکمت٬ ایسے مستحکم کلام اور علم کا نام هے که جو شائسته اور معقول رفتار و کردار پیش کرتا هے اور حکیم وه شخص هے که نظر و عمل٬ اندیشه و فکر٬ مسلک اورسلوک میں اصول کی پابندی٬ استحکام٬ استواری٬ یقین اور علم سے بهره مند هو اور اپنی رفتار و کردار اور نظریات کو ایسا تنظیم کرے که جن میں تمام سهولیات اور استعداد سے بهره مند هو تے هوئے کمال اور همیشگی سعادت کی راه پر چلے اور مشتاقانه اور عاشقانه طورپر روشن اور تابناک مستقبل کی طرف قدم بڑھائے۔
جو شخص مقام حکمت تک پهنچ جاتا هے وه راه سعادت پر چلنے والوں کو سیراب کرتا هے٬ فضیلتوں اور اقدار کو دوسروں تک منتقل کرتا هے اور استقامت واستواری سے بهره مند هوتا هے٬ سعه صدر اور صبر و بردباری سے کام لیتا هے٬ بدی کا جواب نیکی سے دیتا هے٬ ان سب سے بڑه کر بات یه هے که وه کبهی بهی«حق» کا دامن نهیں چھوڑتا٬ وه همیشه گفتار و کردار میں جاده حق پر ثابت قدم رهتا هے اور الله جل جلاله کا اطاعت گذار بنده رهتا هے۔
حکمت کی تعلیم دینا٬ انبیائے اِلهی کی ایک اصلی ذمه داری تھی٬ اولیائے الهی خود بھی حکیم تھے اور دوسروں کو حکمت کی تعلیم دیتے تھے٬ لیکن کبھی کبهی حکمت دوسروں کو یهاں بهی پائی جاتی هے۔ حضرت امیر المومنین علیه السلام نے حکمت کو مومن کی گمشده شے قرار دیا هے که وه همیشه اُس کو تلاش کرنے اور اس تک پهنچنے کے لئے جد و جهد کرتا هے٬ نه یه که اگر کسی جگه اور کسی صاحب حکمت کے ذریعه کهیں حکیمانه مطالب بیان هورهے هیں تو ان سےفائده اٹھآئے! بلکه مومن (همیشه) حکمت کی تلاش میں رهتا هے٬ جس طرح سے اگر کسی شخص کی کوئی قیمتی شئے گم هوجاتی هے تو وه همیشه اُس کی تلاش میں رهتا هے اور هر آن اُس کو حاصل کرلینا چاهتا هے٬ مومن بھی حکمت حاصل کرنے میں اسی طرح جد و جهد کرتا هے اور جب حکمت دوسروں کے پاس دکھائی دیتی هےتو اُسے وهاں سے بھی حاصل کرلیتا هے۔
اگر ایک درّ بے بها کسی کوڑے دان میں پڑا هوا هو یا کسی گندے حیوان کے هاتھوں میں هو تو کیا انسان اُسے نهیں اٹھائے گا٬ تاکه اُسے دھونے اور پاک و صاف کرنے کے بعد اُس سے فائده اٹھائے؟! لهذا اگر حکمت کسی کافر یا فاسق کے پاس هے که جس سے اُس نے فائده نهیں اُٹھایا هے (که اگر وه اُس سے فائده اٹھاتا تو کفر و نقاق اور فسق سے نجات حاصل کرلیتا)٬ لیکن مومن موقع سے فائده اٹھاتا هے اور کبھی بهی یه سوچ کر که وه منافق و کافر یا فاسق هے اُس حکمت کو نهیں چھوڑتا بلکه اُس سے اُسے حاصل کرکے اُس سے فائده اٹھاتا هے۔ اِسی وجه سے کسی کے کلام کی ارزش کو تولنے کے لئے خود اُس کے کلام کے بارے میں غور و فکر کریں نه که اُس کے کهنے والے کے۔ بهت سی گرانقدر باتیں٬ حکمتیں اور مفید علوم ایسے هوتے هیں که جن کا حامل فاسق یا فاجر هے٬ لیکن کبھی بهی ان حقائق سے صرف نظر نهیں کرنا چاهئے۔ «گفتار» اور «کهنے والے» کے درمیان فرق کرنا چاهئے بسا اوقات ایسا هوتا هے که کهنے والا پاک فطرت اور شائسته اور ارزشمند هے لیکن اُس کا کلام غیر معقول هے٬ اسی طرح بسا اوقات کهنے والا خبیث اور غیرصالح هوتاهے لیکن اس کی زبان پر حکیمانه اور عالمانه بات جاری هوجاتی هے!
البته اگر حکمت منافق کی زبان سے بهی جاری هو٬ لیکن کبهی بهی اُس کی زبان سے آگے نهیں بڑھے گی اور اُس کے دل میں داخل نهیں هوگی٬ کیونکه اگر حکمت منافق کے دل و جان میں نفوذهوجاتی تو اُسے (اعتقادی اور اخلاقی بد ترین ذلت سے) نجات دلادیتی٬ اگر منافق کے پاس حکمت هو بھی تو اُس کی زبان پر جای هوتی هے اُس کے دل میں نهیں جاتی! کیونکه جس دل میں شهوت جڑیں مضبوط کرلیتی هے وهاں حکمت داخل نهیں هوسکتی۔
حقیقی ایمان٬ حکمت سے ایک گهرا تعلق رکھتا هے۔ مومن کو حکمت و دانش کی جد و جهد میں رهنا چاهئے کیونکه حکمت کے بغیر ایمان کے معرفتی ستون مستحکم نهیں هوسکتے۔ دوسری طرف سے ایمان کے راسخ هونے اور نیک و صالح عمل کے انجام دینے سے انسان کے دل میں حکمت کے دروازے کھل جاتے هیں۔ جو شخص خود کو خدا کے لئے خالص کرلے اور همیشه اپنے اعمال و کردار پر دھیان رکھے تو حکمت کے گرانبها سرچشمے اُس کے دل سے پھوٹنے لگتے هیں اور اُس کی زبان پر جاری هوتے هیں۔ البته حکمت کا یه درجه غیر مومن کے پاس نهیں مل سکتا٬ حکمت کا یه درجه خداوندعالم کا ایک عطیه هوتا هے که وه جسے چاهتا هے عطا کرتا هے اور جو شخص اُس تک پهنچ جاتا هےتواُسے «خير كثير» مل جاتا هے۔ البته خداوندعالم نے یه اراده کیا هے که وارسته اور خالص انسان یعنی جنھوں نے دنیوی اور جلد ختم هوجانے والے لذتوں کو ترک کردیا هے اور فانی امور سے منھ موڑ لیا هے تو وه ایسے درجات پر پهنچ جاتے هیں۔
وه حکمت که جو مومن کی گم شده شے هے٬ صرف اُس کی معلومات حاصل کرنا یا حکیمانه کلام کو صرف زبان سے جاری کرنا نهیں هے٬ بلکه ایک ایسا گوهر هے که جو انسان کے دل میں هوتا هے که جو اُسے حکیمانه رفتار٬ پاک نیت اور نیک اخلاق کی طرف تحریک کرتے هوئے کمال مطلق کی طرف راسته کھول دیتا هے اور اُسے «حكيم علی الاطلاق» یعنی خداوندمنان کی طرف کھینچتا هے اور ایسی حکمت کی تلاش ایک ایسا قدم هے که جو الله رب العزت جل جلاله کے مکمل آئینه امیرالمومنین حضرت علی علیه السلام سے نزدیک هونے کے لئے لازم هے۔
4- اللّه اللّه فِی القُرآن، لايَسْبِقُكُم بِالعَمَل بِه غَيرُكُم
قرآن کریم کے سلسله میں الله کو نظر میں رکھو! کهیں ایسا نه هو که دوسرے لوگ اُس پر عمل کرنے میں تم سے آگے نکل جائیں۔
جب امیرالمومنین حضرت علی بن ابی طالب علیه السلام بستر شهادت پر اپنے گرانقدر بیٹوں امام حسن و امام حسین علیهما السلام کواهم اور آخری باتوں کی وصیت فرمارهے تھے تو آپ نے ایک مقام پر قرآن کریم کی عظیم منزلت کی طرف بهی اشاره کیا اور ایک مختصر جمله میں وه سب کچھ بیان کردیا که جو اپنی پوری عمر میں بیان کیا تھا۔ حضرت امام علی علیه السلام کی نظر میں قرآن کریم معرفت و حکمت کا ایک ایسا بحربے کراں هے که جو انسان کی هدایت کے لئے کافی هے۔ قرآن کریم ایک ایسا نور هے که اگر کوئی هدایت کا طالب هو تو اُس کے لئے ایسی هدایت هے که جو اپنی هدایت کو هوس رانی٬ شبهات اور باطل نظریات سے مخلوط نهیں کرتی٬انسان اور خدا کے درمیان رابطه کی مستحکم رسّی هے٬ دلوں کی بهار اور علم و دانش کا سرچشمه هے٬ خود راسته بھی هے اور دو هدایت کرنے والوں میں ایک بڑی هدایت کرنے والی بھی۔ قرآن کریم «ثقل اكبر» هے که جو «اهل بيت علیهم السلام» سے کبهی جدا نهیں هوگی اگر کوئی شخص اهل بیت علیهم السلام سے متمسک هوجائے تو وه حضرات قرآن کریم کی طرف دعوت کرتے هیں اور اگر کوئی شخص قرآن کریم سے متمسک هوجائے تو قرآن کریم بھی اُسے اهل بیت علیهم السلام کی اطاعت و پیروی کا حکم دیتی هے٬ کوئی بهی انسان پل بهر کے لئے قرآن کریم کے ساتھ نهیں رهے گا مگر یه که اُس نے هدایت کی راه میں ایک اور قدم اٹھایا هے اور نقصان و کمی کی تلافی کرنے میں ایک قدم آگے بڑھایا هے۔
حضرت امام علی علیه السلام کی نگاه میں قرآن کریم دوسری کتابوں کی طرح نهیں هے٬ بلکه ا یک ایسی کتا ب هے که انسان اُس سے تمسک اور اُس کے ساتھ اُنس رکھتے هوئے کسی دوسری کی هدایت کا محتاج نهیں هے جبکه دوسرا٬ قرآن کا محتاج هے٬ جو حضرات اهل قرآن هیں وه حقیقت میں «اهل اللّه» اور خدا کے خالص بندے هیں۔ قرآن کریم٬ خداوندعالم کا کلام هے٬ کوئی بھی کلام اُس جیسا نهیں هے: صرف وحی الهی کا واحد مجموعه هے که جو خداوندعالم کے کلام و سخن کو براه راست بیان کرتا هے اور انسان و خدا کے درمیان معرفت و هدایت کا براه راست رابطه هے۔
قرآن کریم کو پڑھنا چاهئے اور زیاده سے زیاده اور اچھے طریقه سے پڑھنا چاهئے٬ قرآن کریم کو سمجھنا چاهئے٬ اِسے غور و فکر کے بعد سمجھنا چاهئے لیکن ان سب سے بهتر اور پڑھنے و سمجھنے سے افضل قرآن کریم پر عمل کرنا هے٬ کیونکه قرآن کریم انسان کے اندرونی ا ور بیرونی امراض کا شفابخش نسخه هے٬ لاعلاج انفرادی اور اجتماعی بیماریوں کا علاج هے٬ ثقافتی٬ اجتماعی٬ اقتصادی٬ تربیتی اور اخلاقی بن راستوں کے لئے راه گشا هے٬ کائنات میں سیر و سلوک کے لئے رهنما اور خالق کائنات کی طرف انسان کو لے جانے والی هے۔۔۔۔
جی هاں قرآن کریم کی عظمت یه هے اور اِن سب سے بڑی بات یه هے که وه انسان سے خدا کی گفتگو هے٬ کیا بهترین کلام هے کیا شیرین گفتگو هے که جو معشوق اپنے عاشق سے بیان کرے؟ محبوب کا کلام تو خود حبیب کے دردوں کی دوا هوتا هے! قرٔآن کریم «الله کی مضبوط رسی» هے٬ اُس سے تمسک کرنا چاهئے٬ تمسک کا معنی یه هے که مضبوط پکڑنا اور خود کو اُس سے متصل کرنا۔ اگر (کلام وحی کے ذریعه سے) انسان کا خدا سے رابطه مستحکم هوجائے تو ظاهر سی بات هے که اُسے مخالف هوائیں٬ شبهات و انحرافات کی گرد و خاک صراط مستقیم اور سیدهے راستے سے نهیں هٹا سکتی٬ قرآن کریم سے تمسک کئے بغیر انسان کیسے ثابت قدم ره سکتا هے؟ اور کس معرفت و کلام پر بھروسه کیا جاسکتا هے؟ سعادت و کامیابی کا راسته کیسے ڈھونڈا جاسکتا هے؟ جی هاں! قرآن کریم٬ انسان کے درمیان ایک عادل و انصاف ور قاضی هے٬ بشریت کی هدایت کے لئے رهنما هے اور سعادت کے لئے روشن چراغ هے۔
حضرت علی علیه السلام که جو خود اهل قرآن کے رهبر اور قرآن کریم کی مکمل تصویر هیں خاندان عصمت و طهارت کے دو گرانقدر موتیوں: حضرت امام حسن و امام حسین علیه السلام سے آخری وصیت میں قرآن پر عمل کی وصیت فرماتے هیں اور چونکه الهی نظر سے مسلمانوں کی بدبختی کو (که جو قرآن سے جدا هونے کی بنا پر) دیکھ رهے تھے تاکید کرتے هیں که «کهیں ایسا نه هو که قرآن پر عمل کرنے میں دوسرے لوگ تم پر سبقت کرجائیں»٬ «دوسروں» سے مراد غیرمسلم لوگ هیں٬ کیونکه حضرت علی علیه السلام دیکھ رهے تھے که ایک ایسا زمانه آئے گا که قرآن کے صرف الفاظ٬ اسلام کا صرف نام٬ اور مساجد کی صرف خوبصورتی باقی ره جائے گی!!
قرآن کریم که جو زندگی کا برنامه هے اسلام که جسے اسلامی معاشره کی روح و روان هونا چاهئے٬ جن مسجدوں کو هدایت و تزکیه نفس کا مرکز هونا چاهئے٬ وه اپنے حقیقت سے دور هوں اور مسلمانوں کی ان تمام مشکلات اور پریشانیوں کا راز اِسی نکته میں هے! تعجب کی بات هے که امام علی علیه السلام صدیوں سال پهلے بلکه چوده سو سال پهلے ایسے زمانه کا مشاهده فرمارهے تھے اور بستر شهادت پر مسلمانوں کی هدایت و سعادت کی فکر اس بات پر تحریک کررهے تھے که قرآن کے سلسله میں الله عزّ و جل کو شاهد قرار دیں اور قرآن پر دھیان دینے کی تاکید کریں ۔
حضرت علی علیه السلام کی نگاه میں قرآن کریم «عمل» کے لئے هے اگرچه اُس کی تلاوت اور اُس میں تدبر اور غور وفکر کی باربار تاکید هوئی هے٬ لیکن معلوم هے که بغیر پڑھے هوئے٬ بلاسمجھے هوئے قرآن پر عمل نهیں کیا جاسکتا۔
اب سوال یه اٹھتا هے که کن لوگوں کو قرآن کریم پر عمل کرنا چاهئے٬ کیا فقط اسلامی معاشره کے رهبروں کو؟ یا فقط مسلمان علماء اور دانشمندوں کو؟ یا سخن امام کے مخاطب تمام هی مسلمان هیں؟ بعض لوگوں کا گمان هے که قرآن کریم کا علم اور قرآنی ثقافت صرف ایک خاص طبقه سے مخصوص هے؟ شاید اِس چیز کو بعض لوگ اپنے ذمه داریوں سے شانه خالی کرنے کے لئے بهانه قرار دیں! جبکه هر مسلمان کا فریضه هے که وه قرآن پڑھے٬ اُسے سمجھے اور اُس پر عمل کرے۔ قرآن کریم اِس وجه سے نازل هوا هے که هر انسان اپنی صلاحیت اور اپنی معرفت کے لحاظ سے اُس سے بهره مند هو٬ اِس سے نصحیت حاصل کرے اور اپنی زندگی کی راه میں کام لے۔ البته جن حضرات کے پاس قرآن کریم کا علم اور اُس کی معرفت زیاده هوگی اُس کی ذمه داری بهی اتنی هی سنگین اور خطرناک هوگی۔
حضرت علی علیه السلام همارے معاشره (اور دیگر اسلامی معاشروں) کی مشکلات کا حل «قرآن پر عمل کرنا» قرار دیتے هیں اور اِس بات پر تاکید کرتے هیں که کهیں ایسا نه هو که دوسرے لوگ قرآن کریم کے مضمون پر عمل کرتے هوئے تم سے آگے نکل جائیں٬ کیا هم لوگ غیر مسلم لوگوں کا قرآن کریم کے اصول پر (کم سے کم قرآن کے اجتماعی موضوعات پر) عمل کو نهیں دیکھ رهے هیں؟ کیا هم اِس عقیده تک پهنچ گئے هیں که «قرآن پر عمل» کئے بغیر انسان اپنی انفرادی یا اجتماعی سعادت و کامیابی تک نهیں پهنچ سکتا؟ کیا هم نے اِس بات کا مشاهده نهیں کیا که قرآن کریم کی نسیم سحر نے معاشره کی سعادت کا راسته کھول دیا اور اُس میں موجود بڑی بڑی رکاوٹوں کو هٹا دیا هے؟ تو پھر هم قرآن کریم اور اُس کی ثقافت پر عمل کرنے میں پیچھے کیوں هیں؟
قطعی طور پر حضرت علی بن ابی طالب علیه السلام سے رابطه کی راه میں قدم رکھنے لئے ساتھ ساتھ قرآن کریم پر عمل کرنا اور روز مره کی زندگی میں اُس پر عمل کئے بغیر ممکن نهیں هے۔
خدا کرے که حضرت امام علی علیه السلام کی یه تاکید همیں هوش میں لے آئے۔ ان شاء الله۔
5- لاتكن مِمَّن يرجوا الاخرة بغيرالعمل و يُرَجِّی التَّوبة بطول الاَمَل ۔
ان لوگوں میں سے نه هوجائو که جو بلا عمل کے آخرت کی امید رکھتے هیں اور اپنی طولانی تمنائوں کی وجه سے توبه کو ٹالتے رهتے هیں۔
آسمانی ادیان کے تمام ماننے والے٬ عالم آخرت پر بھی عقیده رکھتے هیں٬ نه صرف مسلمان بلکه دوسرے آسمانی مذهبوں کے ماننے والے بھی مرنے کے بعد روز قیامت کے عقیده کو اپنےسه گانه اعتقادی رکن کے عنوان سے بیان کرتے هیں٬ توحید٬ نبوت اور معاد پر عقیده تمام آسمانی ادیان میں مشترک عقیده هے اور همیشه انبیائے الهی کی تبلیغ میں اِن اصول پر تاکید هوئی هے۔
۔۔۔ لیکن یه عقیده رکھنے والوں کی زندگی میں قیامت اور روز آخرت پر عقیده رکھنے کا کیا فائده هے؟ اور کس حد تک اِس سلسله میں اهمیت دیتے هیں؟ یه لوگ اپنی آخرت کو سنوارنے اور اُسے آباد کرنے کے لئے کتنی جدّ و جهد کرتے هیں؟ اِس موقع پر هماری ایک بڑی مشکل ظاهر هوتی هے که هم آخرت تو چاهتے هیں لیکن بلاعمل! جنت میں جانا چاهتے هیں لیکن نه تو کوئی عمل انجام دینا چاهتے هیں اور نه تھوڑی سے تکلیف برداشت کرنا چاهتے هیں! اُخروی سعادت اور کامیابی کی امید تو رکھتے هیں لیکن وهاں پر لازمی چیزوں کو ساتھ لئے بغیر!
اِس بات میں کوئی شک نهیں هے که جنت کسی کو یونهی بلا جدّ و جهد اور کوشش کے بغیر نهیں دی جائے گی٬ جی هاں! فارسی مثال کی بنا پر«بهشت را به بها دهند نه به بهانه» یعنی جنت کو اُس کی قیمت پر دیا جائے گا نه که کسی بهانه کی بنا پر۔ اور جنت کی قیمت کو قرآنی آیات میں بیان کیا گیا هے که جو حقیقی ایمان رکھتے هیں٬ الله کی راه میں سعی و کوشش اور مجاهدت کرتے هیں اپنے مال اور هستی سے الله اور انبیائے الهی کی راه پر چلنے کے لئے خرچ کرتے هیں تو خداوندعالم انهیں بهشت و رضوان سے نوازتا هے اور یه حقیقت نه صرف قرآن کریم میں بلکه تمام هی گزشته آسمانی کتابوں میں بیان هوئی هے٬ البته بهشت تک پهنچنے اور اُخروی سعادت کو حاصل کرنے کے لئے وه سعی و کوشش اور جد و جهد عالم طبیعت میں هماری استعداد اور امکانات کے حدود سے باهر نهیں هے اور هرگز معاش زندگی کو فراهم کرنے کے مخالف نهیں هے۔ همارے یهی روز مره کے کام٬ کاروبار٬ تعلیم حاصل کرنا٬ شادی بیاه کرنا اور دیگر امور زندگی کی دیکھ بھال کرنا وغیره دوسروں کے ساتھ نیکی و احسان کرنے٬ غریبوں کی مدد کرنے٬ دیگر انسانوں کی مشکلات کو برطرف کرنے کےلئے نیز عبادت کو اهمیت دینے اور عالم الوهیت سے اپنا رابطه مستحکم کرنے اور ولایت الهی حاصل کرنے کے لئے آخرت کا لازمی ذخیره فراهم کرنا هوگا٬ البته اگر یه کام الهی پهلو اختیار کرلیں اور تقوی و پرهیزگاری کے ساتھ ساتھ هوں تو یهی کام اوراعمال٬ آخرت کے لئے ذخیره بن جائیں گے٬«اپنی آخرت کے لئے کے زاد راه جمع کرو بے شک که آخرت کے لئے بهترین زاد راه تقوی الهی هے»۔
۔۔۔ افسوس تو یه هے که بهت سے لوگ آخرت کو بلا عمل کے حاصل کرنے کی آرزو رکھتے هیں انهیں خدا کی طرف پلٹنے اور اپنی اصلاح کی کوئی فکر نهیں هوتی٬ اپنے کو «طولانی آرزئوں» میں سرگرم کرتے هوئے اپنے آج کی اور مستقبل کی اهم واقعیت کو بھول جاتے هیں اور جب چاره جوئی کی فکر هوتی هے تو اُسے بھی «کل» کے اوپر ٹال دیتے هیں٬ ایسی کل که جس تک نه پهنچا جاسکے اور ایسی چاره جوئی که جو کبھی نه هوسکے!! مستقبل کی فکر هونا لازم و ضروری هے لیکن ایسی مستقبل کی فکر که جو حقیقت پر مبنی هو نه که خیالی پلائو اور غیر حقیقی بنیاد پر هو!! «طول الامل» یعنی طولانی آرزوئیں٬ که جن تک رسائی ممکن نهیں که ممکن هے ان تک پهنچنے کےلئے عمر کا ایک حصه گزار دیا جائے لیکن پھر بھی اس تک نه پهنچا جائے اور اگر حقیقی آئنده کو بھلا دیا جابے اور اپنا سارا سرمایه اِنهیں حاصل نه هونے والی آرزئوں میں خرچ کردیا جائے!!(تو کتنا بڑا نقصان هے)
جی هاں! همیشگی سعادت٬ جاویدانه نیک بختی٬ بهشت رضوان اور روشن مستقبل صرف «عمل» کے ذریعه هی حاصل هوتی هے نه که «آرزو» کرنے سے٬ دنیوی آرزوئیں همیں هماری طرف متوجه هونے والے آئنده کے لئے مفید چاره جوئی اور عمل سے روک دیتی هیں٬ آج سے بلکه اِسی وقت سے هی عمل انجام دینے کی فکر میں رهیں کیونکه ممکن هے که دوسرے وقت یا دوسرے دن میں دیر هوچکی هو!
نور و ایمان کا رهبر که جو آسمانی راستوں کو بھی جانتا هے اور ان پر عمیق نظر بهی رکھتا هے وه که جو بصیرت اور قلبی دیدار کے ساته خدا کی عبادت کرتا هے اور وه که جو راه نجات اور راه هدایت کا رهبر هے٬ اُس نے همیں اِس بات کی تاکید کی هے که:
«کهیں ایسے لوگوں میں سے نه هوجانا که جو اُخروی سعادت کی امید رکھتے هیں لیکن عمل اور جدّ وجهد نهیں کرتے! کهیں ایسے لوگوں میں سے نه هوجانا که جن کی دنیوی زندگی کی طولانی اور خیالی آرزوئیں انھیں اپنی اصلاح اور راه خدا کی طرف پلٹنے سے روکے رکھے! کهیں ایسے لوگوں میں سے نه هوجانا که جو توبه میں تاخیر ڈالتے رهتے هیں٬ کهیں ایسے لوگوں میں سے نه هوجانا که جو دنیا میں لوگوں کے سامنے تو «زاهدانه» گفتگو کرتے هیں لیکن مقام عمل میں دنیا سے دل لگائے هوئے هیں! کهیں ایسے لوگوں میں سے نه هوجانا که جو صرف گفتگو کرتے هیں انھیں عمل کی کوئی پروا نهیں هوتی! کهیں ایسے لوگوں میں سے نه هوجانا که جو اپنے گناهوں اور انحرفات کی وجه سے «موت» سے گھبراتے هیں!
کهیں ایسے لوگوں میں سے نه هوجانا که جن پر مشکل وارد هوتی هے اور ان کے امتحان کا وقت هوتا هے تو خداوندعالم کو یاد کرتے هیں اُسے پکارتے هیں لیکن جب ان کی پریشانی دور هوکر انهیں چین و سکون مل جاتا هے تو پھر فریب اور فراموشی کے دلدل میں پھنس جاتے هیں! کهیں ایسے لوگوں میں سے نه هونا که جن کے لئے اگر شهوت رانی کا راسته هموار هوجائے تو گناه میں مبتلا هوجاتے هیں اور توبه کو ٹالتے رهتے هیں! کهیں ایسے لوگوں میں سے نه هوجانا که جو «نابود هوجانے والی چیزوں» کے لئے تو جدّ و جهد کرتے هیں لیکن باقی رهنے والی چیزوں کے سلسله میں لاابالی اور بے توجهی کرتے هیں! کهیں ایسے لوگوں میں سے نه هوجانا که جو «نقصان» کو «فائده» اور «فائده» کو «نقصان» تصور کرتے هیں! کهیں ایسے لوگوں میں سے نه هوجانا که جو دوسروں کی مذمت کرتے هیں اور اپنی تعریفوں کو پُل باندھ دیتے هیں اور اپنے سے غافل هوجاتے هیں! کهیں ایسے لوگوں میں سے نه هوجانا که که جو مالداروں اور خوش حال لوگوں کے ساتھ بی خبر اور غفلت و سرگرمی میں اپنی عمر کو گزارنے کو غریبوں اور مفلسوں کے ساتھ یاد خدا اور ذکر خدا سے زیاده دوست رکھتے هیں! کهیں ایسے لوگوں میں سے نه هوجانا که جو دوسروں کو تو راسته دکھاتے هیں لکین خود کو گمراه کرتے هیں٬ کهیں ایسے لوگوں میں سے نه هوجانا که جو غیر الهی اور غیر ضروری کاموں میں لوگوں کی طرف سے فکر مند هوتے هیں لیکن خلق خدا اور دوسرے کے ساتھ سلوک کرنے کے سلسله میں خدا سے کوئی خوف و هراس نهیں رکھتے٬ کهیں ایسا نه هو! ۔۔۔ کهیں ایسا نه هو!!»
جی هاں! یه حضرت امام علی علیه السلام وصیت اور تاکید هے٬ خداوندعالم ان پر اپنا دورود سلام بھیجے اور ان کے فرمان کو هماری بیدار کا سبب قرار دے۔
6- اَلدُّنْيا تَغُرُّ و تَضُرُّ و تَمُرُّ
دنیا انسان کو دھوکه دیتی هے٬ نقصان دیتی هے اور گزر جاتی هے۔
حضرت علی بن ابی طالب علیه السلام سے خود کو متصل کرنا آپ کے جهان بینی اور نظریه کو حاصل کئے بغیر ناممکن هے٬ اُس ولی خدا کی عمیق اور الهی معرفت کی بلندی تک پهنچنے همارے لئے (جبکه هم امام علیه السلام سے میلوں فاصله رکھتے هیں) ظاهری طور پر ایک محال چیز دکھائی دیتی هے لیکن اُس مکتب الهی تک پهنچنے کی راه میں قدم بڑھانا مکمل طور پر ممکن اور میسّر هے۔ یقینی طور پر ایک اهم موضوع مولائے متقیان کے نظریات میں عالم کائنات اور اُس کے حقائق کے سلسله میں حضرت امیر کا نظریه هے٬ دنیا اور اُس کی اهمیت و منزلت و واقعیت کے بارے میں حضرت علی علیه السلام کے نظریه کو صحیح طور پر سمجھے بغیر فکری٬ قلبی اور رفتاری لحاظ سے آپ کے نزدیک نهیں هوا جاسکتا٬ شاید نهج البلاغه میں کسی بھی دوسری چیز کے بارے میں «دنیا» کے برابر مذمت نه هوئی هو٬ حضرت علی علیه السلام سے دنیا کے سلسله میں متعدد خطبے اور مختصر حکمتیں هم تک پهنچی هیں که جن میں سے ایک یه هے: « دنیا انسان کو دھوکه دیتی هے٬ نقصان پهچاتی هے اور گزر جاتی هے۔» کس قدر مختصر سا جمله لیکن کتنے عظیم معنی! ایسے کام کو جس کو دھوکه دینے والی دنیا کی زرق و برق اپنے عاشقوں اور مریدوں کے ساتھ انجام دیتی هے اِسی مختصر سے جمله میں بیان هوا هے۔
1- دنیا دھوکه دیتی هے: جی هاں! دنیوی آرزوئیں٬ شهوات تک پهنچنے کے لئے لمبی لمبی خیال پردازیاں٬ مال و دولت اور مقام و منصب تک پهچنا٬ یه تمام چیزیں خوشی٬ آسانی اور لذت وغیره انسان کو دھوکه دیتی هیں۔ کیونکه یه دیکھنے میں خوبصورت هیں اور آرام بخش٬ لیکن جو لوگ ان تک پهنچتے هیں تو انھیں معلوم هوتا هے که خیال باطل اور غلط توهمات میں گرفتار هوگئے تھے اور جو چیز سوچ رهے تھے اُس تک نهیں پهنچ سکے هیں!
البته جو لوگ طبیعی نعمتوں کو «دنیا طلبی» کے محصور اور تنگ نظریه سے نهیں دیکھتے اور انهیں حیات آخرت کا پیش خیمه مانتے هیں وه هرگز ایسے فریب اور دھوکه میں گرفتار نهیں هوتے۔ وه لوگ دنیا کے دھوکه میں آتے هیں که جنھوں نے دنیا کی حقیقت کو نه پهچانا هو اور جو «مقدمه» هو اُسے «نتیجه» سمجھ بیٹھے هوں اور«ظاهر» کو «باطن» تصور کربیٹھے هوں! دنیا کا فریب٬ دنیا پرستوں اور طالبان دنیا کا حصه هے نه که اُن لوگوں کا جو دنیا کو اول سے هی وقتی اور گزرجانے والی مانتے هیں اور اُسے صرف رضائے الهی حاصل کرنے اور کمال حقیقی تک پهنچنے کا موقع سمجھتے هیں٬ لیکن کیا کیا جائے که لوگوں کی اکثریت نے دنیوی زندگی کو «سب چیز» تصور کرلیا هے اور اُسے حاصل کرنے کےلئے اپنی پوری همت صرف کردی هے٬ اِسی بنا پر وه دنیا کے فریب میں مبتلا هوگئے هیں۔
انهیں یه معلوم نهیں هے که یه دنیا امتحان اورآزمائش کی جگه هے٬ خودسازی اور جدّ و جهد کی جگه هے٬ سختیوں اور دشواریوں کا مقام هے٬ نه تو یه زندگی کا آخری مقصد هے٬ نه ایسا مرحله هے که جو انسان کی سعی و کوشش اور جدّ وجهد کا پھل دے سکے٬ نه ایسا میدان هے که جس میں تمام آرزوں اور خواهشوں کو پورا کیا جاسکے! جن لوگوں نے «دنیا» کی محدود زندگی کو محدود کرلیا هے اور اُس کی غلامی کو اپنا کاروبار سمجھ لیا هے انھیں فریب اور دھوکه کے علاوه کچه حاصل نهیں هوگا۔ جی هاں! «الدنيا تغرّ٬ یعنی دنیا دھوکه دینے والی هے۔»
2- دنیا دھوکه دینے کے بعد انسان کو نقصان اور خساره میں مبتلا کردیتی هے٬ جو انسان خسارے اور کھاٹے میں هیں یهی لوگ هیں که جنھیں دنیا کی چال بازیاں اِس بات پر مجبور کرتی هیں که وه اپنی زندگی کا سرمایه اِس دنیا کو حاصل کرنے میں صرف کردیں اور اپنی آخرت و آئنده سے غافل هوجائیں۔ یه لوگ اپنی تمام طاقت وهمت اور عمر کو «دنیا» کے حاصل کرنے میں خرچ کردیتے هیں جو دنیا «گزرجانے والی» هے لیکن انھوں نے غلط فهمی کی بنا پر اُسے آخری حد اور بنیادی مقصد تصور کرلیا هے!
3- آخر کار یه دنیا اپنے عاشق کو نقصان پهنچانے کے بعد گزرجاتی هے اور نقصان پهنچنے والوں کو جواب دینے یا ان سے عذر خواهی کے لئے تھوڑی دیر کے لئے بھی نهیں رُکتی! جن لوگوں نے اپنی عمر کو دنیا کے دھوکه دینے والی چیزوں میں گذار دیا اور آخر کار فریب خورده اور حسرت و یاس سے هاتھ ملتے هوئے اِس حال میں آخرت میں وارد هوتے هیں که اُن کا اصلی سرمایه هاتھ سے چلا گیا لیکن کیا وه «دنیا» کو اپنے نقصان کی تلافی کرنے کے لئے عدالت میں لاکر کھڑا کرسکتے هیں؟! هرگز نهیں! کیونکه دنیا فریب اور نقصان دینے کے بعد گذر جاتی هے۔
البته دنیا سے دھوکه کهانے والے اور دنیا سے نقصان اٹھانے والے خود هی قصوروار هیں۔ انهیں اپنےعلاوه کسی دوسری کی ملامت و مذمت نهیں کرنا چاهئے! انھوں نے اپنی آنکھوں سے زمانه کو دیکھا تھا٬ اپنے رشته داروں اور دوستوں کی موت کو دیکھا تھا ان کے دفن میں بهی شرکت کی تهی٬ اُن کی عقل اور وحی و قرآن کی دعوت ان کے سامنے موجود تھی که یه دنیا فانی اور گزرجانے والی هے اور انسان کو فانی دنیا سے دل بستگی نهیں رکھنی جاهئے اور اُسے حیات ابدی کی فکر کرنی چاهئے اور اِس فانی دنیا میں اُس کے لئے زاد راه جمع کرنا چاهئے!
حضرت امام علی علیه السلام کے نقطه نظر سے اس دنیا میں کام اور جدّ و جهد کرنا چاهئے اور اِس کے علاوه کوئی چاره نهیں هے که ابدی سعادت کو حاصل کرنے کے لئے اِسی عمر کے سرمایه اور دیگر امکانات سے فائده اٹھانا چاهئے٬ اِس عالم طبیعت میں زندگی کرتے هوئے آخرت کو آباد کرنے کی فکر کرنی چاهئے٬ لیکن «دنیا کے لئے» نهیں٬ بلکه حیات اُخروی میں کمال حاصل کرنے کے لئے۔ جو کچھ کسی کی دنیا هوتی هے اُس سے وابستگی اور اس کے ظاهر سے فریب کھانا هے٬ نه صرف سعی و کوشش اور کام٬ علم حاصل کرنا اور زندگی بسرکرنا! حضرت علی علیه السلام کی سیرت همارے لئے اِس بات کو واضح کردیتی هے که «دھوکه دینے والی٬ نقصان پهنچانے والی اورگزرجانےوالی دنیا» نه تو اُس کی طیبعی نعمتوں سے فائده اٹھانا هے اور نه زندگی کو بهتر بنانے کےلئے سعی و کوشش کرنا هے اور نه معاش زندگی کے لئے کسی کام میں مشغول هونا هے٬ بلکه اگر یه تمام کام خدا کو نظر میں رکھ کر انجام دئے جائیں تو یهی حقیقت میں آخرت کو سنوارنا هے۔
جس چیز کے سلسله میں حضرت علی علیه السلام مذمت و ملامت کرتے هیں وه «دنیا کے لئے کام کرنا»هے لیکن «دنیا میں» کام کرنا «آخرت کے لئے» درحقیقت درست اور موجب ثواب هے اور اس کے علاوه انسان کی روحی ترقی اور سعادت کا کوئی راسته نهیں هے۔
جی هاں! حضرت امام علی علیه السلام کی زندگی سے ایک قدم نزدیک هونے کے لئے دنیا کے سلسله میں اِس نظریه پر پهنچ جائیں که «دنیا انسان کو دھوکه دیتی هے٬ نقصان دیتی هے اور گزر جاتی هے۔» تاکه هم اپنی سعی و کوشش اور جدّ و جهد دنیوی تنگ حدود سے بالاتر هوکر منظم کریں اور با هدف اور معنی دار زندگی تک پهنچ جائیں٬ انشاء الله تعالی۔
7- اَيُّهَاالنّاس! اِنَّما الدُّنْيا دارُ مَجازٍ وَالاخِرَة دارُ قَرارٍ، فُخُذُوا مِن مَمَرِّكُم لِمَقَرِّكُم...
اے لوگو! بے شک که دنیا گزرجانے والی هے اور آخرت٬ دار قرار هے٬ پس اپنے گزرنے کی جگه کے ذریعه باقی رهنے والی جگه کو آباد کرلو۔۔۔
دنیا و آخرت کے سلسله میں انسان کا نظریه٬ اُس کی طرز زندگی کے انتخاب اور ایک مقصد تک پهنچنے کے لئے بنیاد هے۔ دنیا و آخرت انسان کی همیشگی زندگی کے دو مرحلوں کا نام هے که جو مکمل طور پر ایک دوسرے سے مربوط هیں۔ اسلام کی نگاه میں یه انسان کی زندگی کی روش اور انداز زندگی هے که جو اُس کی آخرت کو سنوارتا هے۔ هر وه انسان که جو ایمان اور عمل صالح سے بهره مند هو تو اُس نے اپنی همیشگی سعادت کو حاصل کرلیا هے اور جو شخص ایمان یا عمل صالح (یا دونوں) سے محروم هو اُس نے اپنی آخرت کے لئے زاد راه جمع نهیں کیا هے اور وه خساره اور حسرت میں مبتلا هوگا۔ اِس لحاظ سے هدایت الهی اورانسان کو دینی رهبروں کی رهنمائی کی بنیاد پر ایسے مسلک وسلوک تک رسائی هے که جو انسان کو مطمئن کردیتی هے که اس کی حیات جاویدانه٬ سعادت مند طریقه پر رقم هوچکی هے اور وه کمال حقیقی تک پهنچ گیا هے۔ اگر یه حقیقی پر مستقبل بینی مدّ نظر نه هوتی تو پھر آسمانی شریعتوں اور الهی هدایت کی کوئی خاص ضرورت نه هوتی۔
اگر اسلام (سب سے جامع اور کامل دین حق کے عنوان سے) انسان کی انفرادی٬ گھریلو اور اجتماعی زندگی میں اور اخلاقی٬ تربیتی٬ اقتصادی٬ سیاسی٬ قضایی٬ عبادی اور حقوقی جیسے مختلف پهلوئوں کے لئے عملی منصوبه اور کرداری نظام پیش کرتا هے تو اِس کی وجه یه هے که یه تمام پهلو انسان کی همیشگی زندگی میں موثر هیں اور اِس لئے هیں که انسان اپنی جاویدانه سعادت کو حاصل کرنے کے لئے ان سے فائده اٹھائے٬ انسانی زندگی کے مختلف پهلووں پر توجه کئے بغیر آباد اور مطمئن آخرت سنوارنا ممکن نهیں هے۔ جو شخص اِس دنیا میں دل کا اندها اور حیران هے وه آخرت میں بھی دل کا اندھا اور حیران هے٬ لهذا انسان کوآخرت کی گمراهی اور حیرانی سے نجات حاصل کرنے کے لئے اِسی دنیا میں هوشیاری اور بصیرت پر مبنی زندگی گزارنی هوگی اور بصیرت و معرفت کے ساته اپنی زندگی میں جدّ و جهد کرنا هوگی اوریه کام دین کا بنیادی کام اور انبیائے الهی کی رسالت هے۔
ایسی رسالت که صرف بشری تفکر و تجربه اور علم اُس کی جگه نهیں لے سکتے۔ جی هاں! انسان اور تمام کائنات پر اسلام کی نظارت اور دخالت اس نظریه سے قابل فهم هے٬ هر وه چیز که جو انسانی سعادت میں موثر هے اسلام نے اُسے بیان کئے بغیر نهیں چھوڑا هے: جو چیز انسان کی سعادت کے لئے نقصان ده هے وه حرام هے اور جو چیز ضروری اور لازمی هے اُسے واجب قرار دیا هے٬ اِسی وجه سے حلال محمد(ص) قیامت کے لئے حلال اور آنحضرت (ص) کی حرام کرده چیز٬ قیامت تک حرام هے٬ احکام ثانوی یا احکام حکومتی (که جو امت کی مصلحت کی بنیاد پر مخصوص دائره میں جامع شرائط مجتهدین کے ذریعه استنباط هوتے هیں) بھی دنیوی زندگی کو منظم کرنے کے لئے هیں لیکن ابدی سعادت کو حاصل کرنے کی راه میں۔
حضرت امیر المومنین علیه السلام نے اِس مختصر سے کلام میں دنیا و آخرت کے سلسله میں صحیح نظریه پیش کیا هے اور اِس دنیوی زندگی کے فانی اور گزرجانے والی اور آخرت کی زندگی کا جاویدانه هونے کے پیش نظر همیں اِس دنیا سے آخرت کے لبے زاده راه جمع کرنے کی دعوت دی هے۔ انسانی عقل بهی یهی فیصله کرتی هے که فانی چیز کو باقی رهنے والی چیز پر قربان کردیا جاتا هے٬ وقتی امور کو اصلی اور باقی رهنے والے امور پر فدا کیا جاتا هے٬ گزرجانے والے مرحله کو اصلی شمار نهیں کیا جاتا اور اپنے پورے سرمایه کو اُن کاموں میں صرف نهیں کیا جاتا اور جهاں تک ممکن هوسکے اپنی زندگی کی رفتار و گفتار اور فیصلوں کو ایسے منظم کیا جائے که جو آخرت میں ثمر بخش اور مفید واقعه هو۔ جی هاں! حقیقت میں جو چیز آخرت کے لئے خرچ کی جائے وه «ابدی سرمایه گزاری» هے لیکن جو دنیا کے لئے خرچ کی جائے وه «اخراجات» هیں اور وه دوباره واپس نهیں آسکتے٬ لهذا انسان کی عقل اِس بات کا حکم کرتی هے که «سرمایه گزاری»٬ «اخراجات» پر ترجیح رکھتی هے!
وه لوگ سعادت مند هیں که جو اپنے اخراجات میں کمی کریں اور سرمایه گذاری میں اضافه کریں٬ قبل اس کے که ان کا بدن (طبیعی موت یا غیر ارادی سے) دنیا سے جائے اُس سے پهلے اپنے دل کو دنیاداری سے الگ کرلیں اور دنیوی امور سے دل نه لگائیں٬ آخرت میں جانے سے پهلے اپنے لئے زاد راه پهلے سے بھیج دیں٬ کیونکه لوگ انسان کی موت کے بعد سوال کرتے هیں که «مرنے والا کیا چیز چھوڑ کر مرا؟» لیکن ملائکه یه سوال کرتے هیں که «مرنے والے نے پهلے سے کیا چیز بھیجی؟»
دنیا کے سلسله میں یهی نگاه انسانی معاشره کو منظم کرتی هے اور عدالت و مساوات و انصاف٬ ظلم و ناانصافی کی جگه لے لیتے هیں٬ تعاون اور خدمت٬ دوسروں پر ناحق تسلط اور دوسروں کی زحمتوں سے فائده اٹھانے والوں کی جگه لے لیتے هیں٬ رقابت اور حسادت کی جگه دوستی اور محبت آجاتی هے٬ لالچ اور کنجوسی کی جگه زهد و سخاوت آجاتا هے اور آخر کار جنت الفردوس کا ایک جلوه اسی دنیا میں دکھائی دینے لگتا هے! اور اِس نظریه پر عقیده رکھنا همیں حضرت علی علیه السلام کے ایمان اور تفکر سے نزدیک کردے گا۔ ان شاء الله۔
8- هَلَكَ امْرُوٌ لَم يَعْرِفْ قَدْرَه
جو شخص اپنی قدر و منزلت کو نه پهچانے وه هلاک هوجائے گا۔
انسان ایک ایسا موجود هے که جو اپنی سعادت اور کمال کی راه کو اپنی عقل و فهم کے ذریعه تلاش کرے اور عزم و بصیرت کے ساته اُس کو طے کرے٬ دین حق کو پهچانے اور اولیائے الهی کی رهنمائیوں پر عمل کرے اور مطلوبه مقصود کی طرف قدم بڑھائے۔ انسان کا کمال مطلق کی طرف پهنچنے کے لئے اِس کے علاوه کوئی دوسرا راسته نهیں هے که انسان خود «راه» کو پهچانے اور اُس پر قدم بڑھائے۔ بے شک اِس صورت میں الله کی مدد اور اس کی طرف سے هدایت بهی اس کی امداد کرے گی کیونکه اُس کے بغیر کوئی کسی جگه نهیں پهنچ سکتا٬ انبیائے الهی کی هدایت ان لوگوں کے لئے مفید اور مشکل کشا هوتی هے که جو دین حق کے احکام اور قوانین کو قبول کرتےهوئے الله کی طرف سے نسیم هدایت کی راه میں قرار پاتے هیں٬ اور اسی وجه سے هے که «دین» میں کوئی زور زبردستی نهیں هے اگرچه کمال و نجات کا راسته اِسی راه میں منحصر هے۔
ایسا موجود که جو اپنے علم و آگاهی٬ اراده٬ سعی و کوشش اور جدّ وجهد کے ساتھ حیات ابدی اور همیشگی سعادت کی راه کو طے کرے٬ وه خود اپنے اور اپنی استعداد٬ اپنی منزلت کو پهچانے اور سمجهے بغیر اپنی خامیوں اور حدود کو پهنچانے بغیر اِس راه میں جیسا که شائسته هے قدم نهیں بڑھا سکتا۔ انسان راه کمال کا راهی هے اور هر راهی اگر اُس راه کے حالات٬ شرائط اور حدود سے آگاه نه هو تو اچھے طریقه سے اُس راه کو طے نهیں کرسکتا٬ جس قدر هدف کا پهچاننا مهم هے اور«مقصود» اور «مطلوب» کے بارے میں صحیح اور عمیق معرفت کے بغیر صحیح طور پر قدم نهیں بڑھایا جاسکتا٬ اُسی طرح خود شناسی بهی اهمیت رکهتی هے اور اُس کے بغیر اپنی راه کی سمت اور اُس پر چلنے کی کیفیت کو منظم نهیں کیا جاسکتا۔
انسان کو اپنے سلسله میں دو طریقه کی شناخت ضروری هے٬ اول: «نفس کی شناخت» که جو خداوندعالم کی معرفت اور خلقت اور هدف کی شناخت کا مقدمه هے٬ دوسرے: «معرفت قدر» که جو صحیح راه پر چلنے کے لئے لازمی شرط هے۔
نفس کی معرفت٬ نوع بشر اور نظام کائنات میں اس کی عظمت و اهمیت کی شناخت هے٬ سب سے زیاده مفید اور سب سے زیاده ضروری شناخت٬ نفس کی معرفت اور شناخت هے۔ جو شخص نوع بشر٬ اُس کی خلقت کا اصلی مقصد٬ انسان کی کرامت اور اُس کا اقدار٬ مخلوقات کے درمیان اُس کے امتیاز کو نه پهچانے٬ تو وه اپنے کو عالم طبیعت میں ایک محدود اور محصور موجود تصور کرے گا اور اپنی زندگی کا مقصد مادّی اور حیوانی لذتوں اور آرام و ترقی کی حد تک تصور کرے گا اور انسانی و الهی سیر و سلوک پر چلنے سے رُک جائے گا۔ جو لوگ اپنے کو دنیا کے هاتهوں فروخت کردیتے هیں اور مادّی فائدوں کو اپنا هدف اور مقصد تصور کرلیتے هیں٬ وه نفس کی معرفت اور شناخت سے محروم هوتے هیں اور وه انسان کو دوسرے حیوانات کی طرح تصور کرتے هیں۔ یه لوگ خدا کی شناخت اور اُس کی معرفت سے بهی محروم رهتے هیں اور سرانجام کمال تک پهنچنے میں جدّ و جهد نهیں کرپاتے۔
لیکن معرفت قدر ایسی شناخت هے که جو هر شخص اپنے بارے میں رکھتا هے۔ انسان اگرچه سب ایک هی قسم کے افراد هیں لیکن پهر بهی انسان میں بهت سی الگ الگ خصوصیات پائے جاتے هیں٬ اور هر انسان دوسرے شخص سے بهت زیاده فرق رکھتا هے که جو اُس کے ذاتی شخصیت کو تشکیل دیتے هیں۔ علمی اور هنری استعداد٬ نفاذی توانائیاں٬ انفرادی اور گھریلو سهولیات٬ اجتماعی اور صنف کے حالات٬ تربیتی و اخلاقی خامیاں٬ ذوق و سیلقه وغیره٬ یه سب چیزیں ایسی هیں که انسانوں کے یهاں مختلف هوتی هے اور یهی فرق انسان میں فرائض اور ذمه داریوں اور امیدوں کے اختلاف کا سبب هوتی هیں۔ اگرچه کلّی تکالیف کے عنوان سے تمام انسان مشترک هیں٬ کیونکه تمام «انسان» هیں٬ لیکن مصداق اور اس کی مقدار اور کیفیت میں فرق هوتا هے٬ جو استعداد اور توانائیوں کے فرق کی وجه سے پیدا هوتا هے٬ علم و دانش کا حصول سب کے لئے واجب هے٬ لیکن تمام انسانوں کی استعداد مختلف موضوعات میں برابر نهیں هے۔ دوسروں پر خرچ کرنا اور ان کی مدد کرنا سب پر واجب هے لیکن لوگوں کی مالی طاقت برابر نهیں هے۔ خلق خدا اور غریبوں کی مدد کرنا سب پر واجب هے لیکن خدمت خلق میں اُس کی کیفیت اور مقدار مختلف هوتی هے۔۔۔ اِس بنا پر امکانات اور استعداد میں موجود فرق٬ فریضه اور ذمه داری کے فرق کا باعث هوتا هے اور هر انسان پر اُس کی استطاعت اور طاقت کے لحاظ سے تکلیف عائد هوتی هے۔
اپنی قدر کی معرفت یعنی اپنی تمام استعداد اور حدود کی شناخت٬ استطاعت اور تکالیف کی شناخت اور ان کو انجام دینے کا اهتمام۔ جو شخص اپنی «قدر»کو نه پهچانے تو وه شخص اپنی تکالیف اور ذمه داریوں کو اپنی استطاعت و توانائیوں کے لحاظ سے انجام نهیں دے سکتا جس کے نتیجه میں یا کم کام کرے گا اور سستی و کاهلی میں مبتلا هوجائے گا اور اپنی استعداد کے ایک حصه کو بروئے کار نهیں لائے گا یا حد سے زیاده کاموں میں مشغول هوگا که جس کے نتیجه میں بهت هی جلد خستگی کا شکار هوجائے گا اور اپنی جسم و جان کے سرمایه کی نابودی کا سبب بنے گا۔ اِسی دلیل کی وجه سے جو شخص اپنی قدر نه پهچانے تو وه هلاکت و نابودی کا شکار هوگا٬ معنوی هلاکت یهی هے که اپنی حدّ و حدود کو نه پهچانتے هوئے حد سے آگے بڑھ جائے اور لوگوں کے درمیان ذلیل وخوار هوجائے اور اپنی استعداد اور حالات کے ذریعه اپنی سعادت تک پهنچنے کے لئے بهترین طریقه کا انتخاب نه کرے۔
اپنے نفس اور اپنی قدر کی شناخت «اپنے سلسله میں» دو قسم کی شناخت هے که جو انسان کی قسم کے بارے میں اور دوسرے ذاتی خصوصیات اور استعداد کے بارے میں هے اور حقیقت و کمال تک پهنچنے کے لئے معرفت کی دونوں کی قسم کی کا هونا ضروری هے که جس سے انسان ابدی سعادت تک پهنچنتا هے اور هلاکت و نابودی سے نجات پیدا کرتا هے۔
جو شخص اپنی قدر کو پهنچانے اور اُسی کے لحاظ سے اپنی زندگی کا منصوبه بندی کرے اور تدبیر سے کام لے تو ایسا شخص بے جا مقابله بازی٬ نابود کردینے والی حسادت٬ بے جا امیدیں٬ زیاده خواهی اور سستی وغیره میں مبتلا نهیں هوگا اور اپنے سرمایه و دیگر سهولیات کو تباه نهیں کرے گا۔ ایسے شخص کو معلوم هے که خداوندعالم کے نزدیک هر شخص کے اعمال کا معیار اس کے امکانات اور استعداد هیں٬ اور کوئی شخص اپنی استعداد اور طاقت سے زیاده مسئول اور ذمه دار نهیں هے۔ اگر هر شخص هر وقت اور هر عالم میں اپنی استعداد کے لحاظ سے نیکی اور ذمه داری کو انجام دے تو معاشره بھی ترقی اور کامیابی کے راسته پر چلتا هوا نظر آئے گا اور اُس کی اصلاح هوجائے گی۔ انشاء الله۔
9- مَن اسْتَبدَّ بِرَايِه هَلَكَ وَمَن شاوَرَ الرِّجال شارَكَها فی عُقُولِها
جو شخص اپنی من مانی کرے وه هلاک هوجائے گا اور جو شخص دوسروں سے مشوره کرے وه اُن کی عقلوں میں شریک هوگا۔
جب بهی همارے کانوں میں لفظ «استبداد» ٹکراتا هےتو فوراً ایک ظالم اور ڈکٹیٹر حکومت کا تصور همارے ذهن میں آتا هے که جو بلاقاعده اور قانون کے لوگوں پر حکومت کرتی هے! لیکن اِس لفظ کے معنی و مفهوم وسیع اور عام هیں۔ البته وه حاکم که جو ظالم هو اور بلاکسی قاعده و قانون کے ظلم و ستم کی بنا پر لوگوں پر حکومت کرے تو وه «ظلم و استمداد» کا ایک کامل مصداق هے لیکن اُس کا اکیلا مصداق نهیں هے۔
استبداد یعنی اپنی من مانی کرنا اور دوسروں سے مشوره نه لینا٬ اور یه خصوصیت هر شخص میں پائی جاسکتی هے۔ جو شخص اپنی ذاتی زندگی میں اپنی مرضی کے مطابق هر کام کرے اور انسان اپنے اطراف کے ماحول میں دوسروں کی نظریات پر توجه کئے بغیر خود هی میں فیصله کرے اور وه شخص که جو اپنے آئنده کے لئے دوسروں کے تجربات سے فائده نه اٹھائے اور جو کچھ اُس کی نظر میں دکھائی دے اُسے اپنے کاموں کی بنیاد قرار دے٬ وه مدیر مسئول که جو اپنے کارکنان سے مشوره لئے بغیر فیصله کرے٬ وه میاں بیوی که جو ایک دوسرے سے مشوره لئے بغیر یا خاندان کے افراد ایک دوسرے سے مشوره لئے بغیر اپنے کاموں کو انجام دیتے هیں٬ ایسے لوگ کم و بیش «استبداد یعنی من مانی» کی بیماری میں مبتلا هے۔
یه حالت٬ خودخواهی٬ خودپسندی اور اپنے کو بڑا ماننے سے وجود میں آتی هے٬ اخلاقی برائیاں که جو بهت سی گمراهی٬ انحراف٬ کج روی کی باعث بنتی هیں اور ا نسان کو آخر کار هلاکت و نابودی کی طرف لے جاتی هیں۔ جی هاں! جو شخص اپنی هی من مانی کرتا هو٬ سرانجام وه هلاکت میں گرفتار هوجاتا هے٬ کیونکه هر انسان کا علم و دانش محدود هے اور جو شخص اپنی زندگی کی راه کو طے کرنے میں دوسروں کے تجربوں سے فائده نه اٹھائے تو وه خواه نخواه اپنے فیصلوں اور تشخیص میں غلط فهمی کا شکار هوگا اور بار بار اِس طرح کی غلطیوں کی تکرار کرنے سے انسان٬ بعض اوقات ایسی منزل پر پهنچ جاتا هے که جهاں سے پلٹنا ناممکن هوجاتا هے اور اُس کی تلافی کرنے کی کوئی راسته نهیں پچتا۔
خصوصا ایسے فیصلے که جو انسان کی زندگی کے لئے سرنوشت ساز هوتے هیں اور مستقبل میں موثر واقع هوتے هیں اپنے علم و دانش پر اکتفا کرنا ایک بهت بڑی غلطی هے٬ اجتماعی امور میں بھی اگر عهده داران اور ذمه دار افراد اپنے اداره میں دوسروں کے نظریات (خصوصاً ماهر اور تجربه کار اور مورد اعتماد کارکنان سے) مشوره نه کریں تو وه بهت بڑی غلطی کے شکار هوجاتے هیں که بعض اوقات اُن کے نقصانات کی تلافی نهیں هوسکتی۔ اِس کے علاوه ایک نکته یه بهی هے که اجتماعی کاموں میں که جهاں افراد «ایک ساتھ» کام کرتے هیں٬ اپنے ساتهیوں کے نظریات سے فائده نه اٹھانا٬ اُن کے فرائض اور ذمه داریوں میں بے رغبتی کا باعث هوتا هے اور وه پھر صحیح سے کام نهیں کرتے یا تو غلط کام کرتے هیں یا کاهلی سے کام لیتے هیں۔ اِس بنا پر «استبداد» نه صرف یه که انسان کو دوسروں کے تجربه و دانش سے محروم کرتا هے بلکه اُسے دوستوں اور ساتھیوں کی همراهی اور تعاون سے بهی بے بهره کردیتا هے۔
مشوره کرنا یعنی دوسروں کی عقل میں شریک هونا هے٬ چونکه جو شخص دوسروں سے مشورت کرتا هے جو کچھ دوسروں نے تجربوں سے نتیجه حاصل کیا هے یا اپنے علم سے اُس تک پهنچے هیں انسان آسانی کے ساتھ ایک دم اُس تک پهنچ جاتا هے اور بهت آسانی کے ساتھ دوسروں کی «عقل» میں شریک هوتا هے۔
اِس بنا پر حضرت علی علیه السلام کی نظر میں انسان کی تصمیم اور فیصلے ایک مستحکم پشت پناهی هے اور جو لوگ اپنی تصمیم اور فیصلوں میں دوسروں کے نظریات سے خود کو بے نیاز نه مانے تو وه بهترین نظریات کے مالک هوتے هیں اور بهترین فیصلے کرتے هیں۔ مشوره دینے والے کے نظریه میں معمولا هوا و هوس نهیں هوتی۔ البته مشوره کرنا٬ کسی چیز کے سلسله میں فیصله کرنے میں تاخیر کا باعث نه بنے٬ یا انسان اپنے کاموں میں شش و پنچ کا شکار نه هوجائے٬ بلکه انسان دوسروں سے مشوره کرکے اور اُن کے معلومات سے فائده اٹھاکر کوئی فیصله کرے تو خداوندعالم پر بهروسه کرتے هوئے کام کو انجام دے اور وسواس و تردید نیز شش و پنچ کا شکار نه هو۔ بعض اوقات فوری طور پر قدم اٹھانا لازم هوتا هے تو اُن مقامات میں اگر تاخیر نه هوتی هو تو مشوره کرے۔ لیکن بعض اوقات کام اتنا واضح و روشن هوتا هے که اُس میں کوئی شک و شبه نهیں هے اور مطب بالکل واضح هے تو اُس میں مشوره کرنے کی ضرورت نهیں هوتی۔
جو شخص مشوره کرتا هے٬ عام طور پر گمراهی میں مبتلا نهیں هوتا اور اگر وه غلطی بهی کر بیٹھے تو اُس کی خطا پر ملامت نهیں هوگی٬ برخلاف من مانی کرنے والے که جو که اهم کاموں کو بھی (که جس کے تمام پهلو واضح و روشن نهیں هے) انجام دیتا هے۔
سوال یه هے که کس سے مشوره کیا جائے؟ حضرت علی علیه السلام کا جواب یه هے که عقلمند اور باشعور٬ باتجربه انسان اور متقی و پرهیزگار اور خدا سے ڈرنے والے افراد اوردوراندیش اور صاحبان تدبیر افراد اور جو لوگ دلسوز هوں اور جو مشوره کرنے والے کی سرنوشت کے سلسله میں ذمه داری کا احساس کرتے هوں۔
اُن کے مقابله میں جو لوگ مشوره کئے جانے والے کے سلسله میں معلومات نه رکھتے هوں اور اخلاقی برائیوں جیسے جھوٹ٬ لالچ٬ زیاده خواهی٬ کنجوسی اور خوف وغیره میں مبتلا هوں اور شرعی قوانین کے سلسله میں لاابالی هوں اور جو شخص مشوره کرنے والے کے دشمن هوں یه لوگ بهترین مشوره دینے والے نهیں هوسکتے اور وه مشوره کرنے والے کے لئے اُس کے فیصله لینے میں مسئله کو واضح کرنے اور اس کی مدد کرنے نیز بهترین رائے اور فیصله تک پهنجنے میں اُسے گمراه کردیتے هیں اور اُس کے لئے مشکلات کھڑی کردیتے هیں۔
لهذا امین اور دلسوز مشوره دینے والے کا فریضه هے که جو کچھ اُس کی نظر میں د کھائی دے غیر اصولی ملاحظات کے بغیر اور صداقت و امانت کے ساتھ مشوره کرنے والے کے سامنے اپنے نظریه پیش کردے اور مشوره کرنے والے کے اسرار کو بھی محفوظ رکھے۔
امام هدایت٬ پیشوای سعادتمندان حضرت امیرمومنان حضرت علی بن ابی طالب علیه السلام همیں استبداد اور من مانی کرنے سے هوشیار کرتے هیں اور صاحب نظر افراد سے صلاح و مشوره کرنے کے سلسله میں تحریک کرتے هیں۔ اِس الهی رهنمائی کے ذریعه هم کس قدر اپنے کاموں میں خصوصا سماجی مسائل اور چھوٹے بڑے اداروں میں مشکل حل کرسکتے هیں اورفرصت کے ختم هونے اور امکانات و سرمایه کے ضائع و برباد هونے سے روک سکتے هیں۔ کیا مشوره کرنے کی عادت کے بغیر اور خود رائے اور من مانی کرنے کی عادت کے ساتھ هم حضرت علیه السلام سے متمسک هونے کا دعوی کرسکتے هیں؟!
10- اِن الجَنَّة حُفَّت بِالْمَكارِه وَاِن النّارَ حُفَّت بِالشَّهَوات۔
بے شک بهشت سختیوں اور دشواریوں میں لپٹی هوئی هے اور جهنم خواهشات اور شهوات میں لپٹی هوئی هے۔
عالم آخرت میں انسان کی حیات جاویدان اور سعادت ابدی محقق هوگی٬ دنیوی زندگی انسان کی آخری اور اصلی منزل نهیں هوسکتی اور جو شخص دور اندیش هو تو اُسے موت کے بعد کی زندگی کے بارے میں غور و فکر کرنا چاهئے اور اُس عالم آخرت کے لئے چاره جوئی کرنا چاهیئے۔
یهاں پر ایک سوال یه پیدا هوتا هے که کیا خلد بریں تک پهچنا اور سعادت ابدی حاصل کرنا لذات دنیوی اور شهوات نفس پر عمل کرتے هوئے اور مادی خواهشوں کے ساته جمع هوسکتا هے یا نهیں؟ حضرت علی علیه السلام ٬ پیغمبر اکرم (ص) کی زبانی اِس طرح جواب عنایت کرتے هیں که پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: بے شک بهشت سختیوں اور دشواریوں میں لپٹی هوئی هے اور جهنم خواهشات اور شهوات میں لپٹی هوئی هے۔
کبھی بهی بهشت کو حاصل نهیں کیا جاسکتا اِس حال میں که سختیوں اور دشواریوں سے اجتناب کیا جائے٬ اِسی طرح خواهشات اور شهوات تک نهیں پهچا جاسکتا مگر یه که اُس کے ساتھ آتش جهنم بھی انسان کے دامن گیر هو٬ حضرت علی علیه السلام صاف صاف فرماتے هیں که کوئی بھی اطاعت خدا نهیں هے مگر یه که انسان ناخوشی اور کراهت کے عالم میں انجام دیتا هے اور اُدھر سے کوئی معصیت و گناه نهیں هے که جو انسان هوا و هوس اور شهوت کے ساتھ انجام نه دے۔ جی هاں! مستحکم اراده رکھنا٬ کمر همت باندهنا اور مقصد تک پهنچنا راسته کو اپنانا٬ پیٹ پالنے اور لذت حاصل کرنے کے ساته ساتھ جمع نهیں هوسکتا۔
همیشگی سعادت کی راه میں صرف لذتوں اور هوس بازیوں سے پرهیز کرنا کامیابی کے لئے نه صرف شرط واقعی اور ضروری نهیں بلکه انسان ایسی محدود اور مادّی دنیا میں زندگی بسر کرنے کے اُس سے بلند مقاصد تک پهنچنے کے لئے بھی لذتوں اور آسانیوں سے چشم پوشی کرے اور مستحکم اراده کے ساتھ بلندتر مقاصد تک پهنچنے کے لئے قدم بڑھائے۔ کیا آپ کسی ایک شخص کو پهچانتے هیں که جنهوں نے بهت زیاده جدّ و جهد اور کوششوں کے ذریعه تاریخ بشریت میں بهترین اور مفید ترین اثر چهوڑا هو لیکن ساته ساته وه لذتوں میں غرق رهے هوں؟ اگر دنیوی مقاصد کے لئے سعی و کوشش اور جدّوجهد ضروری هے تو پهر معنویات تک پهنچنے اور آخرت کے بے انتها اورهمیشگی کمال تک رسائی کے لئے پریشانیوں اور سختیوں کا تحمل کرنا نهایت ضروری هے۔ مقاصد تک پهنچنے کے لئے کانٹوں پر چلنا هوتا هے اور جاهلوں کے طعنوں کو برداشت کرنا هوتا هے اور یه ایک ایسی حقیقت هے که جسے هم قبول کریں یا اُس کا انکار کریں لیکن هماری زندگی اور سرنوشت میں موثر هوتی هے۔
خداوندعالم کی اطاعت و عبادت کا نام «تکلیف» رکھا گیا هے کیونکه اُس میں سختیاں اور دشواریاں هوتی هیں٬ اِسی طرح هوس بازی اورهوا پرستی کا نام «شهوت» رکھا گیا هے؛ کیونکه یه انسان کی طبیعی اور حیوانی خواهشوں کو قبول کرنا هے۔ پس همیں یه امید نهیں رکھنا چاهئے که الهی فرائض کا انجام دینا٬ بهشت جاویداں اور سعادت اُخروی کی راه کو بغیر مشکلات اور سختیوں کے طے کیا جاسکتا هے٬ اِسی طرح یه بهی تصور نهیں کرنا چاهئے که شهوت پرستی کے ساتھ آتش جهنم نهیں هوگی! البته یه بات واضح و ورشن هے که جنت اور دوزخ کی راه کا تنها معیار راسته کا آسان یا سخت هونا نهیں هے اور ایسا نهیں هے که اگر کسی کا کوئی «اچھا کام» زحمت و دشواری کے بغیر انجام پا جائے تواُس میں انسان کی سعادت و کمال کے لئے کوئی تاثیر نهیں هوگی٬ یا شهوت پرستی اور هوس بازی کسی کے لئے باعث زحمت هوجائے تو وه اُس کے جهنم میں جانے کی باعث نه هوگی! نهیں ایسا نهیں هے!
جو چیز پیغمبر اکرم (ص) اور حضرت علی علیه السلام کے کلام میں مدّ نظر هے ایک عمومی اور کلی قاعده هے که جس کے بیان سے اپنے ماننے والوں کو سعادت و کمال تک پهنچنے کے لئے مشکلات و دشواریوں کو قبول کرنے اور شهوت پرستی سے پرهیز کرنے کی رغبت دلاتے هیں اور اِس امید کی اصلاح کرتے هیں که وه یه گمان نه کریں که بلند مقاصد تک پهنچنا شهوت پرستی کرتے هوئے بھی ممکن هے٬البته چونکه ایمان و تقوی کے درجات مختلف هیں لهذا جو شخص راه خدا اور کمال مطلوب تک پهنچنے کے لئے جس مقدار میں بهی شهوت پرستی اور لذت پرستی سے پرهیز کرے گا اُسی مقدار میں کمال و سعادت سے نزدیک هوتا چلا جائے گا۔
یهاں پر ایک اهم نکته پر توجه کرنا ضروری هے اور وه یه هے که اِس راه میں سختیاں اور دشواریاں اُس شخص کے لئے هیں که جو اِس راه میں مبتدی اور طفل مکتب هو٬ لیکن جب وه اِس راه سعادت کی راه کا مزه چکه لیتا هے اور اُس پر دنیا کی لذتوں اور هوس بازیوں کی حقیقت واضح هوجاتی هے تو نه صرف اُس پر راستے کی دشواریاں آسان هوجاتی هیں بلکه اُس راه پر چلنا نهایت آسان اور بلکه شیرین هوجاتا (که جس کا دنیا کی لذتوں اور شیرینی سےموازنه نهیں کیا جاسکتا )٬ جنھوں نے اپنا کامیاب تجربه همارے سامنے پیش کیا هے اُس سے یه بات واضح هوتی هے که دنیوی لذتوں کا ترک کرنا٬ محبوب کی راه میں چلنے میں ایسی لذت هے که جس کو بیان نهیں کیا جاسکتا٬ انھوں نے جب بیان کرنا شروع کیا تو وه اهل دنیا اور ثروتمندوں اور طاقتوروں پر لعن و طعن کرتے هوئے کهتے هیں: «کهاں هیں دنیا والے! هماری لذتوں کا اندازه لگائیں!» اِس بنا پر راسته کی شروعات میں ان لوگوں کے لئے جو دنیا کے محدود اغراض و مقاصد سے آگے بڑھ کر همیشگی سعادت کی راه میں قدم بڑھائیں٬ جنت کی راه مشکلات اور پریشانیوں و سختیوں کے ساته ساتھ٬ جهنم کی راه خوشی اور خواهشوں کے ساتھ ساته هے لیکن چند مدت بعد راه سعادت کی حقیقت کو چکھنے اور حقیقت کی آنکھ کھلنے کے بعد که جو شهوات کی گهرائی اور هوا پرستی کے سب سے نچلے پرده کی حقیقت معلوم هونے کے بعد خدا کی اطاعت اور اُس کی عبادت میں سختیاں اور کراهت ختم هوتی نظر آتی هیں اور اُن کی جگه مٹھاس اور لذت آجاتی هے۔ اور یه ایک ایسی حقیقت هے که جسے حضرت پیغمبر اکرم(ص) اور حضرت علی علیه السلام کی پیروی کرنے والے خالص افراد نے اُسے درک کیا هے٬ حضرت امیر المومنین علیه السلام کی بات تو دور هے که جو دنیا اور اُس کی لذتوں اور خوشیوں کو ایک مردار کی طرح مانتے هیں که جس کی طرف صرف وحشی کتے آتے هیں یهاں تک که بچے بهی اُس سے دوری اختیار کرتے هیں!
هم اگر راه بهشت کی دشواریوں کو قبول کریں اور جهنم پر ختم هونے والی شهوات و خوشی کی راه سے دوری کریں تو پھر همیں راه سعادت کی لذت اور خوشی کا احساس هوگا اور هم حضرت علی علیه السلام سے نزدیک هونے میں ایک قدم اٹھاتے هوئے نظر آئیں گے۔ انشاء الله۔
● احاديث اور مآخذ کی فهرست
1- لايُحِبُّنی الاّ مومن وَلا يُبْغِضُنی الاّ مُنافِقٌ (صحيح مسلم ـ جلد 1 ـ ص 55)
2. اَعيُنونی بِوَرَع واجتهادٍ وعِفَّة و سَدادٍ. (نهج البلاغه ـ نامة 45)
3. اَلحِكْمَة ضالَّة الْمُوْمِن فَخُذِالحِكْمَة وَ لَو مِن اَهْل النّفاق (نهج البلاغه ـ حكمت 80)
4. اللّه اللّه فِی القُرآن، لايَسْبِقُكُم بِالعَمَل بِه غَيرُكُم (نهج البلاغه ـ نامه 47)
5. لاتكن مِمَّن يرجو الا´خرة بغير العمل و يُرَجِّی التوبة بطول الاَمَل (نهج البلاغه ـحكمت 150)
6. اَلدُّنْيا تَغُرُّ وتَضُرُّ وتَمُرُّ (غررالحكم ـ ص 135)
7. اَيُّهَا النّاس! اِنَّماالدُّنْيا دارُ مَجازٍ وَالاخِرَة دارُ قَرارٍ، فُخُذُوا مِن مَمَرِّكُم لِمَقَرِّكُم. (نهج البلاغه ـ خطبه 203)
8. هَلَكَ امْرُوٌ لَم يَعْرِفْ قَدْرَه (نهج البلاغه ـ حكمت 149)
9. مَن اسْتَبدَّ بِرَايِه هَلَكَ وَمَن شاوَرَ الرِّجال شارَكَها فی عُقُولِها (نهج البلاغه ـحكمت 161)
10. اِن الجَنَّة حُفَّت بِالْمَكارِه وَ اِن النّارَ حُفَّت بِالشَّهَوات (نهج البلاغه ـ خطبه 176)