علامہ اقبال کا حضرت فاطمة الزہراء (س) کی بارگاہ میں ہدیۂ عقیدت

Rate this item
(9 votes)

علامہ اقبال کا حضرت فاطمة الزہراء (س) کی بارگاہ میں ہدیۂ عقیدت

فاطمہ الزہراء (س)اسوہء کاملہ

حضرت زہراء (س)کو بعنوانِ اسوہ اور وہ بھی اسوۂ کاملہ پیش کرنا اقبال کی فراست

و بصیرت کی علامت ہے یعنی اقبال کی دید حضرت زہراء (س)کی شخصیت کی طرف اسوائیت کی دید ہے۔ پیروانِ دین اسلام و پیروانِ امامت وولایت کی جانب سے انبیاء کرام ومعصومین (ع) اور دیگر ذواتِ مقدسہ کی اسوائیت والا پہلو اکثر

موردِ غفلت واقع ہوتا ہے حالانکہ قرآن اور دین اسلام نے اُنہیں بعنوانِ اسوہ پیش کیا ہے جبکہ اس پہلو کو چھوڑ دیاجاتا ہے اور اس کے بجائے دوسرے پہلوئوں کو زیادہ بیان کیا جاتا ہے۔

معصومین (ع) کی زندگیوں کے دوسرے پہلوئوں سے بھی ہر مسلمان اور مومن کو آشنائی ہونی چاہیے لیکن کسی معصوم کی زندگی سے اگر مومن کی زندگی میں کچھ منتقل ہوسکتا ہے تو وہ بابِ اسوہ اور سیرت ہے جب تک معصوم کی زندگیوں کا مطالعہ بعنوانِ اسوہ نہ کیاجائے اس وقت تک فقط معصومین (ع) کی مدح وثناء کرنے سے، تحقیقاتِ علمی انجام دینے سے یا تاریخی معلومات اکٹھی کرکے اپنا اظہارِ عقیدت بارگاہِ معصومین میں پیش کرنے سے معصوم کی ذات سے کچھ بھی اس ذات میں منتقل نہیں ہوگا۔ چونکہ اہل ایمان کا عقیدہ ہے بلکہ تمام مسلمین کا بھی یہی عقیدہ ہونا چاہیے کہ خداوند تبارک وتعالیٰ نے انبیاء کرام اور آئمہ اطہار (ع) کا واسطہ فیض قراردیا ہے اور تمام فیوضاتِ ظاہری اور معنوی اُنہی ہستیوں کے توسط سے خداوند تبارک وتعالیٰ نے مخلوق تک پہنچائے ہیں کیونکہ یہ وسائطِ فیضِ خدا ہیں ان کی ذات سے مخلوق تک جو فیض پہنچتے ہیں ان میں سے ہدایت، معرفت اور علم ہے جو مقصدِ بعثت اور مقصدِ خلقتِ معصومین ہے۔ اگر مومن اور مسلمان اس دید سے انبیاء وآئمہ(ع) کو نہ دیکھے تو انبیاء اور آئمہ اس کیلئے واسطۂ فیض و ہدایت کی حیثیت نہیں رکھتے۔

 

بابِ اسوائیت اور بابِ سیرت

قرآن مجید میں رسول اللہ (ص) کو خداوند تبارک وتعالیٰ نے بطورِ اسوہ پیش کیا ہے ''لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَة'' حَسَنَة''''(سورہ احزاب، آیت ٢١)حضرت

ابراہیم کو خداوند تبارک وتعالیٰ نے بعنوانِ اسوہ پیش کیا اور جن انبیاء کا تذکرہ قرآن میں آیا ہے ان کیلئے اگرچہ اسوہ کا لفظ استعمال نہیں ہوا لیکن وہ بھی اسوہ ہی کے طور پر پیش کئے گئے ہیں یعنی ان کی زندگی کی حکایت اور ان کے قصص اسوہ کے طور پر پیش کئے گئے ہیں جیسے حضرت موسیٰ کیلئے اسوہ کا لفظ استعمال نہیں ہوا لیکن حضرت موسیٰ کو بھی خداوند تبارک وتعالیٰ نے مخاطبین قرآن کیلئے اسوہ کے طور پر پیس کیا ہے ورنہ قرآن میں حضرت موسیٰ اور عیسیٰ کاتذکرہ نہ آتا اور نہ ہی دیگر انبیاء (ع) کا تذکرہ آتا۔ اسی

طرح سے آئمہ اطہار بھی بشریت کیلئے اسوہ ہیں لیکن اگر اسوہ کا عنوان مدّ

نظر نہ ہو تو مومن اور امام کا آپس میں ایک عقیدتی تعلق ہونے کے باوجود

ہدایت منتقل نہیں ہوتی۔ امام کی طرف سے اُمت کیلئے جو باب کھولا گیا ہے وہ

بابِ سیرت ہے یعنی امام یا نبی خداوند تبارک وتعالیٰ کی جانب سے ہدایت

انسان کیلئے مبعوث ہوتے ہیں حالانکہ ان کو معاشرے کے اندر اور بھی فراوان

مسائل نظر آتے تھے، لوگوں کے حسب ونسب کا باب بھی کھول سکتے تھے، علومِ بشری جو انسان نے علمی ترقی کے ذریعے کشف کئے ہیں ان علوم کا باب بھی انسان کے سامنے کھول سکتے تھے اور وہ چیزیں جو لوگوں کے اندر پہلے سے رائج تھیں ان میں بھی معصومین دلچسپی لے کر اُنہیں مزید پھیلا سکتے تھے لیکن آئمہ وانبیاء کو خدائے تعالیٰ نے اُمت کے اندر ایک نیا باب کھولنے کیلئے منصوب کیا وہ نیا باب اُمت کے اندر بابِ ہدایت ہے کہ اور دیگر مسائل چونکہ آئمہ

اور انبیاء کی بعثت کے محتاج نہیں ہیں اس لئے اس عنوان سے ان کو مبعوث بھی

نہیں کیا۔ اُمت نے بھی معصومین کی نسبت جس باب کو کھلونا ہے وہ بابِ سیرت

ہے۔

 

سیرت کا بند دروازہ بعض دروازے دشمنوں نے بند کرنے کی کوشش کی ہے اور کررہے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح سے یہ دروازے بند ہوجائیں جیسے بابِ ولایت یا بابِ حکومت ہے اور اپنی ان کوششوں اور کاوشوں میں وہ بہت حد تک کامیاب ہوئے ہیں لیکن معصومین(ع) کی سیرت کا باب پیروکاروں نے خود بند کردیا ہے، یا توجہالت ونادانی کی وجہ سے یا دیگر اسباب کی بناء پر حالانکہ خدائے تعالیٰ نے بابِ سیرت اس لئے کھولا تھا کہ ان ہستیوں کو عنوانِ اسوہ قبول کیاجائے کیونکہ اسوہ کی نگاہ سے دیکھنے میں اور دیگر نگاہوں سے دیکھنے میں مثلاً فقط عقدیتی نگاہ سے دیکھنے میں بڑا فرق ہے، جب تک ہم اسوہ کی نگاہ سے اُنہیں نہیں دیکھتے اس وقت تک ایک رہبر، امام اور پیشوا، اُمت کی زندگی میں حضور پیدا نہیں کرسکتا حالانکہ امام کا اُمت کے اندر حضور بہت ضروری ہے۔ حضورِ رہبر سے مراد رہبرانہ حضور ہے یعنی بعنوانِ راہنما ان کی ہدایت اُمت کے اندر موجود ہو کہ جس کی اُمت محتاج ہے۔ ایسی امامت ورہبری اُمت کے کسی کام نہیں آتی جس میں امام اور رہبر، رہبری سے محروم ہو۔ یہ اُمت کو کوشش کرنی ہے، بعض اُمتوں نے ایسا رویہ اپنایا کہ اگرچہ جسمانی طور پر امام ان کے اندر تھے لیکن اُمت کے رویوں نے حضورِ رہبر اُمت کے درمیان ختم کردیا یعنی رہبر کو گوشہ نشین کردیا اور رابطہ ہدایت اس امام کے ساتھ برقرار نہیں کیا۔

مثلاً امیرالمومنین(ع) جسمانی طور پر اُمت کے اندر موجود ہیں لیکن اُمت کا رویہ اپنے امام کے ساتھ اس طرح ہے کہ اُمت نے امام کو بعنوانِ امام و رہبر قبول نہیں کیا یعنی اُمت نے رہبر کو اپنے درمیان سے نکال دیا یا یوں کہیں کہ اُمت نے رہبر وامام کو جلا وطن کردیا اور اپنے درمیان میں سے اس کا حضور ختم کردیا اور بلا امامت امام زندگی گزارنے کو ترجیح دی جس سے بہت برے نتائج سامنے آئے جو آج تک اُمت کو بھگتنے پڑ رہے ہیں۔

 

نبوت و امامت کا حضور

اس طرح سے اُمت کا یہ کام ہے کہ وہ امامت اور رہبریت کو اپنے رویہ اور عمل کے ذریعے اپنے اندر حاضر رکھے۔ ممکن ہے امام زندہ اور موجود ہوں اور اُمت میں حاضر ہوں لیکن اُمت ہدایت لینے کی توفیق پیدا نہ کرسکے اور ممکن ہے امام جسمانی طور پر اُمت کے اندر نہ ہوں بلکہ غائب ہوں جس طرح سے زمانۂ غیبت کی وجہ سے جو جسمانی طور پر اُمت میں موجود نہیں ہیں تو اُمت کی ذمہ داری یہ ہے کہ اس نبی یا اس امام کی امامت ورہبری وہدایت کو اپنے اندر حاضر رکھے بالفاظِ دیگر امام یا نبی کو اپنے اندر حاضر رکھے۔ آج مسلمانوں کے اندر نبی نہیں ہیں، بغیر نبوت کے زندگی بسرکررہے ہیں۔ ختم نبوت کا درحقیقت دقیق فلسفہ یہ ہے کہ پہلے خدا نے نبیوں کے حضورکا سلسلہ اپنے ذمے رکھا ہوا تھا یعنی اُمت کے اندر نبی کاحضور خدا کے ذمے تھا، خدا نے ہر اُمت کے اندر نبی کو حاضر رکھنا تھا لیکن ختم نبوت کے معانی یہ نہیں ہیں کہ یہ ذمہ داری خدا نے اب اُمت کو سونپ دی ہے کہ اب تمہیں نبی کو اپنے اندر حاضر رکھنا ہے۔

ممکن ہے امام یا نبی اُمت کے اندر جسمانی طور پر موجود ہوں لیکن اُمت بصیرت نہ رکھتی ہو اس کی بہت سی مثالیں ہیں؛ جیسے حضرت نوح اُمت کے اندر خدا کی طرف سے مبعوث ہوئے لیکن اُمت نوح کے ہوتے ہوئے بغیر نوح کے زندگی بسر کر رہی تھی یا اسی طرح سے حضرت لوط کے زمانہ میں اُمت بغیر لوط کے زندگی بسر کررہی تھی حالانکہ لوط موجود تھے۔ یعنی حضرت لوط کو بعنوانِ رہبر قبول نہیں کیا اس حیثیت سے رہبرانہ حضور محقّق نہیں ہونے دیاگیا اسی طرح دیگر انبیاء بھی ہیں کہ اُمتوں نے ان کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کردیں اور یہی عمل مسلمانوں کے اندر بھی تکرار ہوا۔

پیغمبراکرم (ص) کے بعد اُمت نے جو رویہ اپنایا اس کے نتیجے میں اُمت نے امیرالمومنین(ع) کو عنوانِ امام اپنے اندر حاضر ہونے نہیں دیا۔ اس حضور کی راہ میں اُمت کی جہالت، نادانی، سفاہت رکاوٹ بنی اور اسی طرح سے یہ سلسلہ غیبتِ امام تک جاری رہا اگرچہ امام خود جسمانی طور پر اُمت کے اندر موجود تھے، اُمت وجودِ امام یا حضورِ امام کو محسوس نہیں کررہی تھی، امام کو بعنوانِ امام قبول کرنا نہیں چاہتی تھی۔

یہی حالت ہمیں آج نظر آتی ہے کہ آئمہ اطہار وانبیائے کرام اُمت کے اندر آج بھی حاضر ہیں لیکن مقدس ہستیوں، شخصیات کے طور پر اور ایسی ہستیوں کے طور پر جن کے متعلق انسان احساسات اور عقیدت ومحبت رکھتے ہیں، امام ان عناوین سے اُمت کے اندر حاضر ہیں لیکن اسوہ کے طور پر حاضر نہیں ہیں یعنی اُمت چاہتی ہی نہیں کہ امام اسوہ بن کر ان کے اندر حاضر ہوں یہ اُمت کا عمل ہے اس کو ہم معمولی مثال میں بھی لحاظ کرسکتے ہیں مثلاً آج کی شخصیات جو زندہ ہیں ان کا حضور اُمت کے اختیار میں ہے، مثلاً فرض کریں کہ ایک بہت علمی شخصیت مجتہد ہے لیکن بعنوانِ مرجع، عوام اور اُمت کے اندر متعارف نہیں ہے، یہ شخصیت اسی اُمت وقبیلے کا ہے اُنہی کا بیٹا یا بھائی ہے اور اسی قوم سے ہے جسمانی طور پر بعنوانِ فرزند قوم حاضرہے یا ایک عالم کے طور پر ان کے اندر حاضر ہے لیکن ایک مرجع کے طور پر حاضر نہیں ہے اور مرجع کے طور پر کیوں حاضر نہیں ہے چونکہ اُمت نے اس کو مرجع کے طور پرقبول نہیں کیا لہٰذا اس کا مجتہدانہ حضور نہیں ہے یا ایک عالمِ دین کسی علاقے میں موجود ہے وہ ان کے ہر کام میں شریک ہے ویلفیئر کاکام کرتا ہے، رفاہی کام بھی کرتا ہے اور ہر قسم کی فعالیت میں شریک ہے لیکن بعنوانِ مبلّغ وہاں اس کی کوئی کارکردگی وسرگرمی نہیں ہے، یہ شخص بہت سارے عناوین کے تحت اُمت کے اندر حاضر ہے لیکن مبلّغ کے طور پر حاضر نہیں ہے، بعنوانِ مبلّغ اُمت کے اندر سے غائب ہے، خواہ نخواہ اس غیبت کے بھی اثرات پڑتے ہیں جس اُمت سے رہبر اور اسوہ غائب ہو اورجس اُمت سے رول ماڈل غائب ہو وہ اُمت اسوہ کے اثرات یا حکمت وہدایت سے محروم ہوجاتی ہے، حالانکہ خداوند تبارک وتعالیٰ نے اسی ہدایت کیلئے اُنہیں اسوہ بنا کر بھیجا تھا۔

 

اقبال کی عالمی بصیرت

اقبال پر خداوند تبارک وتعالیٰ نے یہ لطف کیا ہے کہ اُنہیں غیر معمولی بصیرت عطا کی ہے یہ بصیرتیں خدا نے سب کیلئے رکھی ہوئی ہیں لیکن دیتا خدا اُن کو ہے جو اس کے قدردان ہوں، جو اپنی ابتدائی بصیرت کو دُنیاوی چھوٹے اور گھٹیااُمور میں صرف کردیں خداتعالیٰ بصیرتِ برتر ان کو نہیں دیتا لیکن جو اپنے اندر اس

گوہر کے قدردان ہوتے ہیں، خدا اُنہیں بصیرتِ برتر و بصیرتِ عظیم عطا کرتا

ہے۔

تاریخ بشریت میں انگشت شمار لوگ ہیں جو بصیرتِ برتر کے مالک ہیں۔

عام لوگ وہی معمولی بصیرت کے لوگ ہوتے ہیں علماء میں بھی اکثریت معمولی

بصیرت کے حامل لوگ ہیں۔ صاحبانِ بصیرتِ برتر اور خواص کے اندر بھی بہت کم

اور انگشت شمار ہیں اور ان میں سے ایک اقبال ہیں۔ اقبال کی یہ نظم جو انہوں

نے حضرت سیدہ (س) کی بارگاہ میں بعنوانِ ہدیہ عقیدت پیش کی ہے جس کا عنوان ہی ان کی عالی بصیرت کی دلیل ہے، اوروہ عنوان یہ ہے :

''در معنیٰ این کہ سیدة نساء فاطمہ الزہرا سلام اﷲ علیھا اسوہ کاملہ است برائے نساء اسلام''

اقبال کے نزدیک حضرت زہراء (س) اسوہ ہیں اور کامل اسوہ ہیں، یعنی کیا؟ یعنی

اقبال چاہتے ہیں کہ حضرت فاطمہ(س) کو اُمت کے اندر حاضر کریں، اسوہ یعنی

اُمت میں حضرت زہراء (س) کا حضور! یہ حضور اس حضور سے مختلف ہے جو

معتقدین، محبّین، مدّاحین اورذاکرین پیش کرتے ہیں۔ وہ یہ پیش کرتے ہیں کہ

ہماری مجلس ہورہی ہے اور بی بی آئی ہوئی ہیں یہ حضور کہاں؟ اور وہ حضور جو

اقبال چاہ رہے ہیں وہ کہاں؟

حضور حضرت فاطمہ(س) اُمت میں

اقبال جس نقطے سے حضرت زہراء (س) کا حضورِ اُمت چاہ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ اُمت خود حضرت فاطمہ الزہراء (س)کو اپنے لئے اسوہ بنائے اور جب تک اُمت اسوائیت کی دید سے حضرت زہراء (س)کو نہیں دیکھتی حق زہرا کسی سے بھی ادا نہیں ہوگا۔

بے شک مدحِ زہراء (س) میں شعر کہیں، مثنویاں کہیں اور اولادِ حضرت زہرا ء

کیلئے آنسو بہائیں، جو مرضی ہے کریں لیکن جب تک لوگ حضرت زہراء (س)کو

ہدایت کے عملی اسوہ کے طور پر اپنی زندگیوں میں نہیں لاتے، اپنے معاشرے میں نہیں لاتے اس وقت تک حق زہرا ادا نہیں ہوتا، اس وقت تک حق خدا بھی ادا

نہیں ہوتا، یہ جو خدا نے فرمایا:

''وماقدرواﷲحق قدرہ'' تم لوگوں نے خدا کی قدر نہیں جانی۔ خدا کی قدر جاننے سے مراد یہ نہیں ہے کہ تم نے یااللہ یااللہ تھوڑا کہا ہے بلکہ تھوڑا اور اضافہ کردو، ذکر وورد بڑھا دو، نہ، تم نے خدا کی قدر ہی نہیں جانی یہ تمہیں معلوم نہیں کہ خدا کیا ہے اور خدا نے تمہارے لئے کیا کیا ہے؟ اور تمہیں کس دید اوربصیرت سے خدا کودیکھنا چاہیے؟ مثلاً فرض کریں کہ ایک عالم فاضل دانشور انسان کسی اُمت کے اندر جاتا ہے اور وہ اس کو خوب کھانا کھلاتے ہیں، خوب آئو بھگت کرتے ہیں اس کو ہدیہ وتحفے دیتے ہیں لیکن اس کے علم سے استفادہ نہیں کرتے تو وہاں یہ جملہ صدق کرتا ہے کہ انہوں نے اس کی قدر نہیں جانی۔ اگرچہ اس کو بہت زیادہ احترام بھی دیا لیکن اس کی قدر نہیں جانی، قدرِ عالم یعنی اس کے علم کی قدر، قدرِ امام یعنی اس کی امامت کی قدر ہے اور قدرِ اسوہ یعنی اس کی سیرت کی قدر کو کہتے ہیں لہٰذا جب تک زہرا ء (س) کو بعنوانِ سیرت نہیں اپنائیں گے حضرت زہراء (س) اُمت کے اندر حاضر نہیں ہوںگی۔ حضورِ زہراء (س) کیلئے ضروری ہے کہ آپ کو بعنوانِ اسوہ اپنائیں تاکہ حوزوں میں حضرت زہراء (س)

موجود ہوں، گھروں میں حضرت زہراء (س) موجود ہوں، معاشرے میں حضرت زہراء (س) موجود ہوں، آداب ورسوم میں حضرت زہرا ء موجود ہوں اور وہ بھی اسوہ اور

رول ماڈل بن کر موجود ہوں، تب ہی کچھ نہ کچھ حق زہراء (س) ادا ہوجائے گا۔

 

ہیرو اور رول ماڈل میں فرق

ہیرو اور رول ماڈل میں یہی فرق ہوتا ہے، معصومین کو بھی ہیرو کی نگاہ سے

دیکھتے ہیں۔ ہیرو اور قہرمان لوگوں کی زندگی میں نہیں ہوتا بلکہ فقط لوگوں

کے ذہنوں اور دلوں میں ہوتا ہے، اس سے محبت کی جاتی ہے اس کے سامنے اظہارِ عقیدت کیاجاتا ہے، گلہائے عقیدت اس کے سامنے نثار کئے جاتے ہیں چونکہ قہرمان اگر زندگیوں میں آجائے تو سب ہیرو بن جائیں گے، سب قہرمان ہوں گے حالانکہ قہرمان اور ہیرو سب نہیں ہوسکتے بلکہ ایک ہی ہوتا ہے، اس وجہ سے قہرمان کبھی بھی کسی کی زندگی میں نہیں آتا لیکن ذہنوں اور دلوں میں آتا ہے۔

خدا نے معصومین وانبیاء کو قہرمان سے زیادہ اسوہ اور رول ماڈل بنا کر پیش کیا ہے کیونکہ رول ماڈل انسان کی زندگی کا محرم ہے۔ اس کو ان کی زندگیوں کے اندر جانا ہے ان کے جزئی ترین افعال واعمال کے اندر جانا ہے، قہرمان نہیں جاسکتا لہٰذا جتنے بھی قہرمان ہیں، مثلاً جو کردار انسان نے خود افسانوی طور پر بنائے ہیں یا یہ جو واقعاً تاریخ میں قہرمان گزرے ہیں ان کی ادا کوئی بھی نہیں اپناسکا، ان کی کوئی بھی تقلید نہیں کرسکا، ان کی راہ پر کوئی بھی نہیں چل سکا صرف ان کی ستائش کی ہے خواہ وہ افسانوی قہرمان ہوں یا واقعی۔ ہیرو قابل تقلید نہیں ہوتا لیکن اسوہ قابلِ تقلید ہوتا ہے اس لئے ان کو زندگی میں لانا ضروری ہے۔ اقبال اس نظم میں حضرت زہراء (س) کو زندگیوں میں لانا چاہتے ہیں۔

 

زندگی ممنوعہ علاقہ

ظاہر ہے کہ لوگ ہر ایک کو اپنی زندگی میں نہیں آنے دیتے چونکہ سب سے سخت حریم انسان کی اپنی زندگی ہے۔ ہم زندگی سے باہر بہت ساری چیزیں رکھتے ہیں لیکن زندگی کے اندر بہت کم چیزوں کو آنے دیتے ہیں، بہت کم اُمور کو اجازت دیتے ہیں کہ ہماری زندگیوں کے اندر آئیں۔ ہماری دوستیاں اور تعلقات ہوتے ہیں لیکن یہ تعلقات ہماری زندگی کے دائرہ کار سے باہر ہوتے ہیں۔ زندگی میں انسان کسے آنے کی اجازت دیتا ہے؟ زندگی میں اس کو آنے کی اجازت دیتا ہے جس پر اعتماد ہو، اعتماد بھی اس باب سے ہو کہ اُس کا میری زندگی میں آنا میرے لئے مفید اور ضروری ہے اس وقت اس کو زندگی میں آنے کا موقع دیتا ہے ورنہ ہمیشہ اس کو زندگی سے باہر رکھتا ہے اگرچہ کوئی بھی رشتہ اس کے ساتھ ہو مثلاً بہت سارے لوگ ہیں جو کسی دوست کو اپنی زندگیوں میں آنے دیتے ہیں لیکن اپنے بھائی کو اپنی زندگی میں آنے نہیں دیتے، کیوں نہیں آنے دیتے؟ چونکہ دوست سے اُنہیں توقع ہے کہ یہ میرے لئے مفید ہے لیکن بھائی شاید میرے لئے مفید نہیں ہے، ممکن ہے ایک شخص اپنے اُستاد کو اپنی زندگی میں آنے دے لیکن اپنے والد کو اپنی زندگی میں نہ آنے دے، کیوں؟ کیونکہ اس کو باپ پر اعتماد نہیں ہے یا باپ کو یہ اتنا کامل نہیں سمجھتا کہ وہ میری زندگی کو سنوار سکے۔ پس بعض لوگ ہماری زندگیوں میں ہیں لیکن یہ وہ لوگ ہیں جن کے اندر کوئی گوہر و جوہر پایا جاتا ہے ان کو اجازت نہیں ہوتی کہ اندر آئیں، اس لئے اقبال حضرت زہراء (س) کو اُمت کی روزمرہ زندگی میں لانا چاہتے ہیں اور زندگی سے مراد بھی شاعرانہ زندگی نہیں اور نہ ہی ذہنوں اور مجلسوں میں لانا چاہتے ہیں اور نہ ہی فقط مرثیوں اور قصیدوں میں لانا چاہتے ہیں۔

کسی شخص کا میری مدح میں آنا بہت آسان ہے لیکن اس کا میری زندگی میں آنا اور وہ بھی روزمرہ کی زندگی میں آنا یعنی میرے صبح وشام میں وہ موجود ہو یہ بہت اہمیت رکھتا ہے یعنی ایسی شخصیت جس کے ساتھ میں زندگی بسر کروں، اسوہ یعنی ایسا ساتھی جس کو دیکھ کر انسان زندگی بسر کرے اور اس کی کاپی(Copy)کرے، انسان اُس کے سائے میں رہے لہٰذا اُس کے اندر ایسے گوہر اور خصائل ہونے چاہئیں تاکہ ہم سب اپنی زندگیوں کے دروازے ان کے اوپر کھول دیں، ابھی ہم نے اپنے دروازے ان شخصیات پر نہیں کھولے جن کے عقیدت مند ہیں، اس لئے تو ان کی زندگیوں کی جھلک ہماری زندگیوں میں نظر نہیں آتی، ان کی زندگی دینی اسلامی معیاری زندگی ہے جبکہ ہماری کلچرل زندگی ہے، ان کی زندگی حقائق کے تابع ہے ہماری زندگی کاذب چیزوں کے تابع ہے، ان کی زندگی میں اقدار ہیں ہماری زندگی اقدار سے خالی ہے، ان کی زندگی کے خدا ساختہ اصول ہیں ہماری زندگی میں خود ساختہ اصول ہیں، ان کی زندگی میں نظم ہے ہماری زندگی میں نظم نہیں ہے درحالیکہ ہمارے ذہنوں اور دلوںمیں وہ ہیں ہماری زبانوں پر ان کے تذکرے ہیں لیکن ہماری زندگیوں میں داخل نہیں ہیں، ہم نے اپنی زندگیوں کے دروازے آئمہ پر نہیں کھولے اور حضرت زہراء (س) پر نہیں کھولے۔

اقبال پہلے مقامِ حضرت زہراء (س) بیان کرتے ہیں تاکہ اُمت اپنی زندگیوں کے دریچے کھول دے یعنی اعتماد ہوجائے، خاطر اُمت آسودہ ہوجائے کہ جس شخصیت کو زندگی میں لارہے ہیں وہ بہت پاکیزہ ہے اگرچہ ہماری زندگیاں یقینا آلودہ ہیں لیکن ہماری آلودہ زندگیوں میں بھی ہم کسی آلودہ کو نہیں آنے دیتے، مثلاً اپنی زندگی میں کسی فاسق وفاجر کو نہیں آنے دیتے، مثلاً ایک چور دوسرے چور کے ساتھ مل کر چوری کرتا ہے لیکن چور کو اپنی زندگی میں داخل نہیں ہونے دیتا۔ جب وہ اس کے گھر آتا ہے تو اس کو پتہ ہے کہ ممکن ہے میری بھی کوئی چیز چرالے۔ ایک نادان کسی نادان کو اپنی زندگی میں نہیں آنے دیتا، دانا کو اپنی زندگی میں آنے دیتا ہے لہٰذا ہماری زندگیاں بے شک آلودہ ہوں لیکن کوشش یہ کرتے ہیں کہ ان آلودہ زندگیوں میں پاک شخصیات اور پاک ہستیاں داخل ہوں۔ لہٰذا اقبال بھی پہلے حضرت زہراء (س)کا مقامِ طہارت وپاکیزگی اور عظمت کو بیان کرتے ہیں تاکہ خود ہی دروازے کھل جائیں اور کوئی کھٹکا و خدشہ ہمارے ذہن میں نہ ہو کہ کونسی شخصیت ہماری طرف آرہی ہے۔

 

حضرت مریم(س) اور حضرت زہراء (س) کا مقام

مریم از یک نسبتِ عیسیٰ عزیز

از سہ نسبت حضرت زہرا عزیز

جنابِ مریم بہت باعظمت اورپاکیزہ خاتون ہیں، عموماً کتابوں، منبروں اور محفلوں

میں ہم معصومین کے درمیان تقابل کرکے اس تقابل کے نتیجے میں اپنی مدنظر

شخصیت کو بڑھانے کیلئے دوسرے معصوم کو نیچا دکھا کر کہتے ہیں کہ یہ بہت

عظیم ہیں اور اس سے ہمیں خوشی ہوتی ہے، حالانکہ اقبال یہ کام نہیں کررہے

ہیں چونکہ مریم اسوۂ قرآنی والٰہی ہے، خدا نے مریم کو بعنوانِ اسوہ متعارف

کروایا ہے۔ مریم ابھی پیدا بھی نہیں ہوئی تھیں کہ خداوند تبارک وتعالیٰ نے

قصہ مریم بتانا شروع کردیا کہ مریم پیدا کیسے ہوئی، دُنیا میں کیسے آئی؟

والدین کیسے تھے؟ کس طرح سے والدین کی نگاہ بچوں کی طرف ہو؟ لہٰذا یہ عمل ہر گز انجام نہ دیں کہ حضرت زہراء (س) کی خاطر ہم حضرت مریم کا مقام معاذ اللہ چھوٹا اور ناقص ثابت کریں، نہ حضرت مریم بھی اسوۂ کاملہ ہیں۔

انسانیت کے درجات ہیں اگرایک شخصیت درجہ اعلیٰ پرموجود ہے تو اس کے معانی یہ نہیں ہیں کہ چھوٹے یا نچلے درجے پر جو ہے اس کو ناقص ثابت کریں تاکہ بالاتر درجے کا مقام ثابت ہو، حضرت مریم اسوۂ کاملہ ہیں۔ حضرت زہراء (س) کا اسوہ ہونا حضرت مریم سے برتر ہے۔ نہ اس وجہ سے کہ حضرت مریم میں کوئی نقص ہے، بلکہ حضرت زہراء (س) میں فراوان کمالات ہیں، لہٰذا پہلے وہ اسوہ اقبال پیش کرتے ہیں کہ جو قرآن نے پیش کیا، یعنی مریم جو ایک مسلّم اسوہ ہیں، حضرت زہراء (س) کی عظمت اور مقام بیان کرنے کیلئے اقبال نے ایک مسلم قرآنی والٰہی اسوہ پہلے چنا ہے اور ان کو پیش کرکے کہا کہ مریم کے بارے میں کسی کو شک وشبہ نہیں ہے کہ اسوہ ہے چونکہ مریم وہ ہستی ہیں جن کی عصمت پر قرآن میں اور آسمانی کتابوں میں گواہی دی گئی ہے، کمالات اور فضائل مریم اس قدر باعظمت ہیں کہ انبیاء تحت تاثیر مریم ہیں، انبیاء مریم سے متأثر ہیں۔

حضرت زکریا جن کو خدا نے مریم (ع) کا کفیل بنایا۔ مریم بھی بھرپور جوانی میں

بھی نہیں آئی، نوجوانی میں اس قدر پاکیزہ اور باکمال ہیں کہ زکریا مریم سے

متاثر ہیں اور مریم سے الہام لیتے ہیں، نبی خدا مریم سے الہام لیتے ہیں۔

قرآن کا مشہور واقعہ ہے کہ جب حضرت زکریا (س) محراب میں داخل ہوئے اگرچہ کفیل اور ذمہ دار تھے، لیکن جب حضرت زکریا محراب میں وارد ہوئے، دیکھتے ہیں کہ مریم کے پاس پہلے سے آثار موجود ہیں، نہ صرف یہ کہ کوئی ڈش پڑی ہوئی ہے، ہم بہت سادہ معنی لیتے ہیں فقط مادّی اور ظاہری مظاہر دیکھتے ہیں، یہ سب سے ادنیٰ مرتبہ ہے کہ آپ کے پاس کھانا موجود ہوتا تھا، حضرت زکریا بہت ساری اورچیزیں بھی دیکھتے تھے اور جب بھی جاتے تھے حیرت زدہ ہوجاتے تھے کہ یہ سب کچھ کہاں سے ہوتا ہے۔ بچی سے سوال کیا کہ یہ سب کہاں سے آیاہے یہ آپ کو کہاں سے میسر ہوا ہے؟ حضرت مریم نے فرمایا کہ یہ سب کچھ خدا کی طرف سے آیا ہے اور ساتھ یہ بھی فرمایا کہ صرف یہ میرے لئے نہیں ہے، خدا فقط میرا خدا نہیں ہے، یا میں ہی فقط اس عالم میں مستحق فیض خدا نہیں ہوں بلکہ کہا خدا جسے چاہتا ہے دیتا ہے۔ اس وقت حضرت زکریا گئے اور بارگاہِ خدا میں جاکر دُعا کی کہ پروردگارا! مجھے بھی دیدے اور خداوندتبارک وتعالیٰ سے جو فرزند مانگا وہ حضرت یحییٰ تھے۔ پس مریم ایک اسوۂ کاملہ ہیں لیکن حضرت زہرا ء برتر اسوہ ہیں یعنی مقاماتِ حضرت زہراء (س) مقاماتِ حضرت مریم سے برتر ہیں۔

مریم از یک نسبتِ عیسیٰ عزیز

از سہ نسبت حضرت زہرا عزیز

علامہ اقبال نے حضرت مریم کی ایک نسبت جبکہ حضرت زہراء (س) کے لئے تین نسبتیں بیان فرمائی ہیں۔ یہ حقیقی فضائل ہیں علماء جب فضائل کو تقسیم کرتے ہیں تو فضائل کی چند قسمیں کرتے ہیں، ایک قسم فضائل نفسی ہیں اور دوسری قسم فضائل نسبی ہیں۔ فضائل نفسی وہ ہیں جو کسی شخصیت کے اندر ذاتی طور پر موجود ہیں کسی کی طرف اسے نسبت دئیے بغیر اس کے اندر یہ فضائل موجود ہیں یعنی کسی نسبت سے اس نے یہ فضیلت کسب نہیں کی ۔ بلکہ اگر تمام عالم اور ماسوا سے اسے ہٹا کر فقط اس کو دیکھا جائے تو اس کے اندر یہ فضیلت موجود ہے، کسی چیز سے آپ موازنہ نہ کریں، کسی بھی چیز سے تقابل نہ کریں، صرف اسی کو دیکھیں اب ممکن ہے اس کے اندر کوئی حسن موجود ہو، اگر کوئی حسن اور خوبی اس کے اندر موجود ہوتو اس خوبی کو کہیں گے کہ یہ اس کی نفسی خوبی ہے یعنی اس کی ایسی خوبی ہے جو کسی چیز سے منسوب کرنے کے نتیجے میں اس میں پیدا نہیں ہوئی۔

لیکن ایک خوبی اس میں یہ ہے کہ اس کا کسی سے مقائسہ اور موازنہ کریں اور اس کے ساتھ لحاظ کرتے ہوئے اس میں یہ وصف پایاجتا ہے، مثلاً جس چیز سے یہ بنی ہوئی ہے یا جس معمار یا کاریگر نے اس کو بنایا ہے اس چیز سے اس کو نسبت دے کر کہے کہ اس کا بنانے والا بہت خوب ہے، ظاہر ہے جس چیز کا بنانے والا خوب ہے وہ چیز اس کی وجہ سے ایک قیمت اور اعتبار اپنے اندر پیدا کر دیتی ہے۔

مثلاً معمولی لکڑی سے بنا ہوا فرنیچر ہو لیکن بنانے والا بہت ہی مشہور کاریگر ہو اس فرنیچر کے اندر ایک قیمت آجاتی ہے چونکہ بنانا والا معروف ہے،جس طرح سے آج کل وہ کمپنیاں جو بہت مشہور ہیں اور جن کا اعتبار ہے وہ اگر بہت معمولی چیز بھی بنادیں تواس کی بہت ہی قیمت ہوتی ہے اگرچہ اس چیز کے

اندر خود کوئی قیمتی چیز نہیں ہے لیکن اس نے وہاں سے حیثیت حاصل کی ہے اور کسب کی ہے۔

پس کچھ صفات وہ ہیں جو کسی سے نسبت دئیے بغیر شے کے اندر پیدا ہوتی ہیں اور کچھ صفات ایسی ہیں جو دوسری چیز کے ساتھ نسبت دینے سے اس

کے اندرلحاظ ہوتی ہیں۔ حضرت زہراء (س) اور حضرت مریم میں دونوں طرح کی

صفات اور فضائل ہیں وہ فضائل بھی جو کسی اور سے منسوب ہونے کی وجہ سے ان میں پائے جاتے ہیں یہ بھی حقیقی فضائل ہیں مجازی نہیں ہیں اور وہ فضائل بھی پائے جاتے ہیں جو کسی سے منسوب ہوئے بغیر خود ان کی ذات کے اندر موجود ہیں ان کو کسی اور سے منسوب کریں یا نہ کریں۔

 

مریم از یک نسبت عیسیٰ عزیز

مریم کو اگر ایک عیسیٰ سے نسبت دے کر دیکھیں تو مریم بہت باعظمت ہے، کیوں؟ اس لئے کہ نبی خدا کی ماں ہونا، یہ ایک صفت ہے جو عیسیٰ کے ساتھ منسوب کرنے سے حضرت مریم میں آئی ہے، اس وصف کو ایک لحظہ کیلئے اگر ہم الگ کردیں اور حضرت مریم کو نہ حضرت عیسیٰ سے قیاس کریں اور نہ زکریا سے اور نہ ہی کسی اور سے، صرف حضرت مریم کو دیکھیں کہ حضرت مریم کی ذات میں عیسیٰ کی ماں ہونے کے علاوہ بھی کوئی کمال پایاجاتا ہے یا نہیں؟ درحقیقت مریم کو جو خدا نے چنا کہ یہ عیسیٰ کی ماں بنے وہ اس وجہ سے نہیں تھا کہ عیسیٰ سے منسوب ہونے سے باکمال خاتون بن جائے گی۔ بلکہ پہلے مریم میں کمالات رکھے تاکہ عیسیٰ کی ماں بننے کے قابل ہوجائے، پہلے کمالاتِ نفسی اورکمالاتِ ذاتی مریم میں آئے، ان کمالات کے نتیجے میں نسبی کمالات پیدا ہوئے، یعنی ہر خاتون عیسیٰ کی ماں بننے کے قابل ہو وہ معجزۂ خدا کا مظہر بن سکے۔ پس پہلے کمالاتِ نفسی ہیں، حضرت مریم کے اندر موجود کمالاتِ نفسیہ نے حضرت مریم کو اس قابل بنایا کہ عیسیٰ سے نسبت برقرار ہو جائے، عیسیٰ سے نسبت برقرار ہونے سے ایک اور کمال حضرت مریم کے اندر آیا۔

اسی طرح سے حضرت زہراء (س) کے سارے کمالات یہ تین نسبتیں ہی نہیں ہیں، ان میں ایک نسبت یہ ہے کہ رحمت للعالمین(ص) کی بیٹی ہیں، ایک نسبت یہ کہ شیر خدا کی زوجہ ہیں اور ایک نسبت یہ کہ دو اماموں کی ماں ہیں، یہ تین نسبتیں ہیں۔ یہ تین نسبتیں کل متاعِ حضرت زہراء (س) نہیں ہے یہ ساری میراث نہیں ہے بلکہ حضرت زہراء (س) کے کچھ اور کمالات بھی ہیں یہ میراث ان کمالات کا نتیجہ ہے یعنی کچھ کمالات حضرت زہراء (س) کے ایسے ہیں جنہوں نے حضرت زہراء (س) کو اس قابل بنایا ہے کہ ان تین نسبتوں میں آجائیں، اس وجہ سے روایات میں ہے کہ خداوند تبارک وتعالیٰ کا فرمان ہے کہ اگر حضور(ص) کی ذات نہ ہوتی تو میں یہ عالم خلق نہ کرتا اور اگر زہراء (س) کو خلق نہ کرتا تو میں آپ کو بھی خلق نہ کرتا، اس قسم کی روایات درحقیقت یہی بتانا چاہتی ہیں کہ درحقیقت اسوائیت کیلئے نسبی کمالات کافی نہیں ہیں، مثلاً حضرت مریم، عیسیٰ کی والدہ ہیں پس اسوہ ہیں مومنین کیلئے، یعنی کیا؟ یعنی یہ کہ اب مائیں یا عام خواتین حضرت عیسیٰ کی ماں بنیں؟ کیا اسوائیت کا یہ معنی ہے کہ ساری خواتین عیسیٰ کی ماں بنیں؟ نہ یہ نہیں ہوسکتا، عیسیٰ کی ماں صرف ایک اور وہ مریم ہے۔ پس کب خواتین مریم کی اتباع کرسکتی ہیں؟ کب خواتین مریم کو اسوہ بناسکتی ہیں؟ ان صفات کی بناء پر جن صفات کی وجہ سے مریم اس قابل ہوئیں کہ عیسیٰ کی ماں بن سکیں یعنی خواتین اپنے اندر وہ صفات پیدا کریں تاکہ ان سے بھی حضرت عیسیٰ جیسے بچے پیدا ہوں، پاک وپاکیزہ بچے پیدا ہوں۔ جیسے موسیٰ کی والدہ کو خدا نے وہ حیثیت دی کہ موسیٰ جیسی شخصیت پیدا ہوئی اور موسیٰ جیسی شخصیت کو اس ماں نے تربیت کیا اور وہ سارے دکھ اور درد اس ماں نے جھیلے۔

ایسی مائیں جن کا بچہ ہاسٹل میں رہتا ہے اُنہیں گھر میں نیند نہیں آتی جبکہ ان کو پتہ ہے کہ ان سے بہتر زندگی یہاں گزار رہا ہے لیکن ایک ماں ہے جو اپنے شیر خوار بچے کو تابوت میں بند کرکے دریا کے حوالے کردیتی ہے، کیا ایسی ماں کی فقط یہ عظمت ہے کہ یہ موسیٰ کی ماں ہے؟نہ، اس کی عظمت کا اندازہ کوئی بھی نہیں کرسکتا، یہ جو کام کررہی ہے یہی بتاتا ہے کہ بہت بڑی اور باعظمت خاتون ہے، اپنے لخت جگر کو اپنے ہاتھ سے تابوت میں بند کررہی ہے اور خدا پر بھروسہ اور وعدۂ خدا پر یقین کرکے بچے کو دریا کے حوالے کررہی ہے یہ باکمال خاتون ہے، اس لئے خدا نے اس کو انتخاب کیا کہ موسیٰ اس کے بطن سے پیدا ہوا۔ وہاں اور بھی بہت سی خواتین تھیں کسی اور خاتون سے کوئی بچہ پیدا ہوجائے، نہ۔ حضرت زہراء (س) کی یہ تین نسبتیں اس وجہ سے ہیں چونکہ زہراء (س) اس قابل ہے کہ ان تین نسبتوں سے منسلک ہوسکیں، خاتونِ جنت بن سکتی ہیں۔ کیوں بن سکتی ہیں؟ ذاتی اور اندرونی کمالات کی وجہ سے بن سکتی ہیں۔ ہم سارا چرچا فقط اُن کمالات کا کرتے ہیں جو نسبی کہلاتے ہیں، دوسرے یہ کہتے ہیں کہ اگر نبی (ص) کی بیٹی اور رشتہ دار ہونا مہم ہے تو نبی کی اور بھی بیٹیاں شمار کرتے ہیں کہ وہ بھی ان کی بیٹیاں تھیں، یا نبی کی ازواج کو بھی اتنی عظمت حاصل ہونی چاہیے، نبی (ص) کے تمام رشتہ دار، خالہ، پھوپھی، وہ بھی رشتہ دار ہیں اگر رشتوں ہی سے سب کچھ حاصل ہوتا ہے تو سب رشتے ایک جیسے ہونا چاہئیں یہ نسبتیں کمالاتِ نفسیہ کا نتیجہ ہیں نہ کمالاتِ نسبیہ کا، لیکن ان کو اقبال کیوں پیش کررہے ہیں؟ اس لئے کہ یہ تین نسبتیں اگر جمع کریں تو ان تین نسبتوں کے اندر ساری دُنیا کے کمالات سمائے ہوئے ہیں، سارے کمالات ان تین نسبتوں کے اندر موجود ہیں۔ یہ نہیں ہے کہ ان جملہ کمالات میں سے فقط تین نسبتیں ذکر کی ہیں، بلکہ ان تین نسبتوں کا تذکرہ درحقیقت تمام کمالات کا تذکرہ ہے۔ مولانا روم کے بقول کہ پیغمبر اکرم (ص) کے تذکرہ فقط آپ (ص) کا تذکرہ نہیں ہے بلکہ آپ(ص) کا تذکرہ تمام انبیاء کا تذکرہ ہے۔

ذکرِ احمد(ص) نامِ جملہ انبیاء است

چون كه صد آمد نود ہم پیش ماست

جب ہم احمد (ص) کہتے ہیں تو گویا ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء (ع) کا ذکر

کرتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی شخصیت جامع ترین ہے اسی طرح ان تین نسبتوں کے آنے سے ان کے اندر سب کمالات آجاتے ہیں کیونکہ ایک طرف رسولِ اکرم (ص)، ایک طرف امیرالمومنین(ع)اور ایک طرح حسنین تمام کمالات ان تین رشتوں کے اندر پروئے ہوئے ہیں۔

 

رسول اﷲ (ص) کی نورِ چشم

نورِ چشم رحمة للعالمین

آن امام اولین و آخرین

حضرت زہراء (س) آپ(ص) کی نورِ چشم ہیں، نہ صرف بیٹی ہیں بلکہ قرة العین ہیں، نورِ چشم ِ رسول اللہ (ص) ہیں یعنی آپ امام اول وآخر اور امامِ مطلق ہیں

یعنی رسول اکرم (ص) علی الاطلاق اولین وآخرین کے امام و پیشوا ہیں۔ باقی

سب رسول اللہ (ص) کے مقتدی ہیں اس رسول اللہ (ص) کی آنکھوں کی ٹھنڈک

زہراء (س) ہیں، یہ بہت خوبصورت تعبیر ہے، رسول اللہ (ص) کی اپنی تعبیر بھی ہے آپ(ص) نے فرمایا:

''فاطمہ قرّة عینی''

آنکھوں کی ٹھنڈک

فاطمہ (س) میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، آنکھوں کی ٹھنڈک محاورہ ہے، یہ قلبی کیفیت بتانے کیلئے بولا جاتا ہے چونکہ انسان کی قلبی کیفیات، اندرونی اور نفسانی کیفیات مختلف ہوتی ہیں ان کیفیات کا اثر انسان کے جسم میں بھی ظاہر ہوتا ہے جیسا کہ رنگ میں بھی ظاہر ہوتا ہے، رنگ ایک ذریعہ ہے انسان کے باطن کو دیکھنے کا، مثلاً اگر انسان خوفزدہ ہو تو ان کے چہرے کا ایک طرح کا رنگ

ہوتا ہے اگر خوشحال ہو ایک اورطرح کا رنگ ہوتا ہے، خصوصاً چہرے کا رنگ تبدیل ہوجاتا ہے، خصوصاً جب انسان نااُمید اور مایوس ہوجائے تو سیاہ رنگ اس

کے چہرے پر آجاتا ہے جس سے اس کی مایوسی کا پتہ چلتا ہے اور جب انسان کو غصہ آتا ہے تو اس کا رنگ سرخ ہوجاتا ہے اور جہاں خوف میں مبتلا ہوتا ہے اس

کا رنگ زرد ہوجاتا ہے، یہ مختلف رنگ مختلف موقعوں پر بدلتے رہتے ہیں، یہ بدلتے رنگ کیا بتاتے ہیں؟ قلبی کیفیت بتاتے ہیں کہ اس کے اندر کیا ہورہاہے۔

از جملہ انسان کے اندام واعضاء میں سے ایک عضو جو انسان کے باطن کی غمازی کرتا ہے، وہ آنکھ ہے جو انسان کے اندرونی حالات کی غمازی کرتی ہے۔ آنکھ کا ایک عمل یہ ہے کہ دیکھتی ہے لیکن اس کا دوسرا کام آنسو ہیں، آنکھوں میں جو رطوبت ہے جو اس کی بقا کیلئے ضروری ہے، یہ رطوبت کبھی بڑھ جاتی ہے اور آنسوبن کر ٹپک پڑتی ہے، یعنی آنکھ کا پانی ایک حوض ہے اور خدا نے آنکھ کو اس حوض میں رکھا ہوا ہے۔ مخصوص پانی ہے جو اس کیلئے بنایا گیا ہے۔ یہ پانی جس کے اندر آنکھ رکھی گئی ہے اس کی بہت زیادہ خصوصیات ہیں، اگر ہم ان آنسوئوں کو سائنسی طور پر یا فزیکلی طور پر دیکھیں تو کچھ اور مسائل سامنے آئیں گے لیکن اگر ہم اسے نفسیاتی دید سے دیکھیں تو کچھ اور مسائل سامنے آتے ہیں، آنکھوں کی رطوبت میں جب طغیانی آجاتی ہے تو یہ آنسو بن کے ٹپک پڑتی ہے، یہ کب ہوتا ہے؟ ایک تو پیاز کاٹنے سے ہوتا ہے سب کی آنکھوں پر اس کا اثر ہوتا ہے چونکہ پیاز کے اندر ایسی خصوصیت ہے جس سے آنکھ کے اندر تیزابیت پڑتی ہے یا دیگر اس قسم کی چیزیں ہیں جن سے آنسو نکل آتے ہیں جیسے آنسو گیس وغیرہ لیکن یہ آنسو کے بیرونی عامل ہیں اندرونی نہیں ہیں۔

کبھی باہر سے کچھ نہیں ہوتا بلکہ انسان کے اندر ایک ایسی نفسانی، ذہنی اور قلبی کیفیت پیدا ہوتی ہے کہ جس سے یہ حوض اُمڈ پڑتا ہے اور اس میں سیلابی حالت پیدا ہوجاتی ہے۔ خود اقبال کے بقول کہ

درد کسی عضو میں ہو روتی ہے آنکھ

کس قدر سارے جسم کی ہمدرد ہوتی ہے آنکھ

جب جسم کا کوئی عضو دُکھتا ہے تو اس پر یہ آنکھ گریہ کرتی ہے، بہت ہمدرد ہے

پورے بدن کی ہمدرد ہے، بال دُکھے تو آنکھ روتی ہے، ناخن دُکھے تو آنکھ روتی

ہے لیکن جب آنکھ دُکھے تو کوئی بھی نہیں روتا، آنکھ دُکھے تو آنکھ ہی روتی

ہے، اپنے اوپر بھی روتی ہے اور دوسروں کے اوپر بھی روتی ہے یہ رونا بہت

معنی خیز ہے، یہ سیلاب انسان کے اندر بہت ساری کیفیات کی وجہ سے اُمڈ پڑتا ہے انسان کے اندر بہت ساری کیفیات ہیں جیسے خوف، غم، اندوہ، پریشانیاں اور خوشی ہے۔

خوشی اور غم کے آنسو

آنسو دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک آنسو وہ ہوتا ہے جب غم کی کیفیت دل میں آتی ہے تو دل متأثر ہوتا ہے اور یہ قلبی کیفیت جسم پر اثرانداز ہوتی ہے کہ جسم کی رنگت تبدیل ہوجاتی ہے اور کبھی یہ قلبی کیفیت موجب بنتی ہے اور آنکھوں کے حوض میں طغیانی آجاتی ہے، ایک لڑی سی آنسوئوں کی بن جاتی ہے، بعض بہت روتے ہیں غم کاآنسو گرم ہوتا ہے، محسوس بھی ہوتا ہے جب گال پر ٹپکتا ہے پتہ چلتا ہے کہ گرم ہے، محسوس بھی ہوتا ہے جب گال پر ٹپکتا ہے پتہ چلتا ہے کہ گرم ہے، ہاتھ پر ٹپکے تو پتہ چلتا ہے کہ گرم آنسو ہے یہی آنسو خوشی کے وقت بھی ٹپکتا ہے یعنی انسان جب غیر معمولی خوشحال ہوتا ہے تو اس کے آنسو نکل آتے ہیں لیکن یہ آنسو معمولی خوشی پر نہیں نکلتے چونکہ یہ معمول کی تھوڑی سی خوشی ہے، اتنی نہیں کہ دل کو اُبھارے، اُکسائے، اتنا انبساط دل میں پیدا کرے کہ دل اُچھلنے لگے اور قلبی کیفیت جسم کے اندر ظاہر ہو اور اس حوض میں طغیانی آجائے، لیکن جب غیر معمولی خوشی، غیر معمولی خوشحالی اور سرور انسان کو محسوس ہوتا ہے تو اس وقت یہ کیفیت جسم پر طاری ہوتی ہے پھر یہ حوض اُمڈ پڑتا ہے اور ٹپکنا شروع ہوجاتا ہے، اگر آپ خوشی کے وقت غور کریں تو جو آنسو ٹپکتا ہے وہ ٹھنڈا ہوتا ہے گرم نہیں ہوتا ہے، کیوں؟ اس لئے کہ غم کے وقت انسان کا ٹمپریچر زیادہ ہوجاتا ہے، آنکھ، حوض اور اس کا پورا نظام سارے کا سارا گرم ہوتا ہے لہٰذا وہ اس پانی کو بھی گرم کردیتا ہے۔ خوشی سے انسان میں خنکی ٹھنڈک آتی ہے حرارت نہیں آتی، ٹمپریچر بڑھتا نہیں ہے، خنکی محسوس ہوتی ہے، پورے بدن میں ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے تو یہ حوض بھی ٹھنڈا ہوجاتا ہے، اس کے اندر پانی بھی ٹھنڈا ہوجاتا ہے اور اس میں طغیانی آجاتی ہے جب یہ ٹپکتا ہے تو ٹھنڈا ہوجاتا ہے۔ سرد اور ٹھنڈے آنسو دلیل ہیں کہ انسان کو کسی چیز نے خوشحال کیا ہے۔

رسول اللہ (ص) نے نماز کے بارے میں فرمایا:

''الصلٰوة قرّة عینی''

نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، یعنی کیا ؟ یعنی نماز سے مجھے فوق العادة خوشی محسوس ہوتی ہے، سرور محسوس ہوتا ہے، لطف اور مزہ آتا ہے۔ میری آنکھیں ٹھنڈی ہوجاتی ہیں یعنی میرے دل پر سرور حاصل ہوتا ہے اور ایک یہ فرمایا کہ ''فاطمة قرة عینی'' حضرت زہراء (س) کو دیکھ کر میری آنکھیں ٹھنڈی ہوجاتی ہیں یعنی زہراء (س) کو دیکھنے سے میرے اندرجو سرور پیدا ہوتا ہے وہ اس قدر فوق العادة اور غیر معمولی ہوتا ہے جس سے میری آنکھوںمیں ٹھنڈک پیدا ہوجاتی ہے، رسول اللہ (ص) کا نفس کوئی احساساتی نفس نہیں ہے بلکہ آپ رسولِ کامل اور انسانِ کامل ہیں یعنی وہ ذات جس پر احساسات غلبہ نہیں کرتے۔ وہ رسول (ص) جب بیٹی کو دیکھتا ہے تو آنکھوں میں ٹھنڈک آجاتی ہے، ظاہر سی بات ہے کہ یہ احساساتِ پدرانہ نہیں ہیں۔ یہاں دو چیزیں ہیں ایک نگاہِ رسول اللہ (ص) اور ایک وجودِ زہراء (س) ۔ حضرت زہراء (س) کو بہت سارے لوگ دیکھتے تھے، آیا ان کو بھی ٹھنڈک محسوس ہوتی تھی، نہیں، کیوں؟ اس لئے کہ دیدِ رسول اللہ (ص) غیر رسول اللہ (ص) میں نہیں تھی، دیدِ رسول(ص) فقط رسول اللہ (ص) میں تھی۔ کیونکہ رسول اللہ (ص) جس کو دیکھتے ہیں الٰہی دید سے دیکھتے ہیں۔

'' المومن ینظر بنور اﷲ'' اس لئے زہراء (س) میں رسول اللہ (ص) کو وہ چیزیں نظر آتی ہیں جو دوسروں کو نظر نہیں آتیں اور پھر رسول اللہ (ص) کی ذات اور نفسِ رسول اللہ (ص) پر زہراء (س) اثر انداز ہوتی ہیں اور باعث سرورِ قلب رسول اللہ (ص) بنتی ہیں۔

آنکہ جان درپیکر گیتی دمید

روزگارِ تازہ آئین فرید

وہ رسول اللہ (ص) جس نے اس جہان کے اندر ایک تازہ روح پھونک دی، مردہ عالم کے اندر آکر ایک روح پھونک دی، اس جہان کے اندر ایک نیا اور تازہ آئین اور دین لے کر آئے اور اس کے ذریعے بشریت کو زندہ کیا۔

فاطمہ بانوئے تاجدارِ ہل اتیٰ

بانوئے آن تاجدارِ ہل أتیٰ

مرتضیٰ مشکل کشاء شیرِ خدا

دوسری نسبت یہ ہے کہ حضرت زہرا اس تاجدار کی زوجہ ہے جس کے سر پر تاجِ ہل أتیٰ رکھا ہوا ہے، یعنی جس کے سر پر سورۂ دہر کا تاج رکھا ہوا ہے۔

''ہل أتیٰ علی الانسان حین من الدھر'' اس سورة کانام سورۂ انسان بھی ہے، جسے سورۂ دہر بھی کہتے ہیں۔ یہ وہ سورہ ہے جس میں انسان کا مقام و مرتبہ پیش کیاگیا ہے، اس سورہ کی آیات میں جو انسان مقصود ہے وہ ذاتِ گرامی ٔ امیرالمومنین ـ ہے، یعنی یہ سورہ حضرتِ علی ـ کی شان میں نازل ہوئی ہے، یہ تاجِ قرآنی( ھل اتیٰ) جس تاجدار کے سر پر ہے فاطمة الزہراء (س) اس کی زوجہ اور اس کی بانو ہے۔

مرتضیٰ یعنی صاحبِ مقامِ رِ ضا، مشکل کشاء یعنی جو ہر ایک کی مشکلات حل کرنے والا ہے اور شیرِ خدا یعنی بہادر اور دلیر۔ اس تاجدار کی یہ زوجہ ہیں۔ یہ وہ رشتہ نہیں جس طرح سے معمولی رشتے ہوتے ہیں، بلکہ یہ رشتہ حکمِ خدا سے وجود میں آیا ہے غیر از امیرالمومنین (ع)حضرت زہراء (س) کا کفو کوئی بھی نہیں تھا۔

ہمسری یعنی ہم پلہ ہونا، ہمسر کا معنی زوج نہیں ہوتا لیکن زوج کیلئے

استعمال ہوتا ہے۔ ہمسر یعنی ہم مرتبہ، ہمسری یعنی ہم مرتبہ ہونا یعنی دو

ایسے افراد کہ جب وہ کھڑے ہوں تو ان کے سر برابر ہوں، اوپر نیچے نہ ہوں اگر

ایک نیچے ہو اور ایک اوپر تو یہ ہمسر نہیں ہے ایک کوتاہ ہے اور ایک بلند ہے ہم پلہ اور ہم مرتبہ نہیں ہیں، دونوں ایک جیسے ہم مرتبہ اور ہم پلہ ہوں تو ان کو ہمسر یا کفو کہتے ہیں۔ اس تاجدار'' ھل اتیٰ'' کی بانو ہونے کیلئے،ہمسر بننے کیلئے ہم مرتبہ ہونا ضروری ہے، ہم پلہ ہونا ضروری ہے، ہم پلہ ہونے سے مراد صرف جسمانیت نہیں ہے بلکہ ہم پلہ یعنی کمالات اور فضائل جو امیرالمومنین ـ کی ذات میں ہیں ان کا ایک نمونہ حضرت زہراء (س) میں ہونا ضروری ہے ورنہ ہم پلہ، ہمسر اور کفو نہیں بن سکتے۔

پادشاہ و کلبہ ایوان او

یک حسام ویک زرہ سامان او

جس تاجدار کا ایوانِ بادشاہت اور اس کا قصرِ بادشاہی ایک کلبہ اور جھونپڑا

ہے، کلبہ یعنی جھونپڑا اس بادشاہ کی کل متاع ہے اور تمام سامانِ زندگی کیا

ہے؟

یک حسام ویک زرہ سامان او

ایک شمشیر اور ایک زرہ کا مالک ہے، حسام شمشیر کو کہتے ہیں۔ یہ اس بادشاہ کی زوجہ ہے، اس بادشاہ کی ملکہ ہے جس کا قصرِ بادشاہی ایک جھونپڑا اور جس کا کل مادّی سامان ایک زرہ اور ایک تلوار ہے، یعنی اقبال یہ بتانا چاہتے ہیں کہ فضیلتِ انسانی ان اُمور سے حاصل نہیں ہوتی اور فضائل اپنے ساتھ منسوب کرنے سے انسان بڑے نہیں ہوتے۔

ایک مصنف نے بڑی خوبصورت تعبیر کی ہے، بہت زیبا اور سنہری الفاظ سے لکھے جانے کے قابل جملہ ہے کہ کائنات کی عظیم ترین شخصیات مادّی دُنیا کے لحاظ سے غریب ترین گھر یعنی جھونپڑے میں پیدا ہوئے اور آج دُنیا کی عظیم ترین

عمارتوں کے اندر گھٹیا ترین لوگ پیدا ہورہے ہیں۔ پس یہ نہ سمجھنا کہ ان

چیزوں سے شخصیت بن جاتی ہے، گھروں، محلوں، پلاٹوں، گاڑیوں، لباس، زیورات

اور اموال سے کسی کی شخصیت نہیں بنتی، یہ تاجدارِ ہل اتیٰ کا گھر، اس کا

قصر ایک جھونپڑا ہے اور اس کا کل سامان ایک زرہ اور ایک تلوار ہے اس کے پاس

کچھ بھی نہیں ہے لیکن تاجدارِ ہل اتیٰ ہے اور یہ اس کی بانو ہے، اس کی

بانو کو بھی یوں نہ سمجھنا کہ اس کے پاس املاک ہیں، جاگیریںاور سرمایہ ہے

کیونکہ یہ چیزیں تو باعث عظمت نہیں ہیں یہ دو نسبتیں تھیں۔ اب تیسری نسبت

کی طرف اقبال آتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ زہراء (س) کیا ہے؟

فاطمہ زہراء (س) مادرِ مرکز پرکارِ عشق

مادرِ آن مرکزِ پرکارِ عشق

مادرِ آن کاروان سالارِ عشق

پورے عالم میں عشق کا ایک ہی امام ہے، امامِ عشق، رہبرِ عشق جو کاروانِ عشق کا سالار ہے، جس کا دین عشق ہے، جس کا مسلک عشق ہے، جو سراپا عشق ہے، جو مرکز پرکارِ عشق ہے۔ پرکار اُردو میں بھی استعمال ہوتا ہے، پرکار: اس دو شاخے کو کہتے ہیں جس کی مدد سے دائرہ کھینچا جاتا ہے۔

علمِ عرفان میں بھی یہ اصطلاح(پرکارِ عشق) ہے چونکہ عشق بھی ایک دائرہ ہے، عشق کو تشبیہ دیتے ہیں ایک دائرے کے ساتھ جس چیز کو بھی ہم دائرے سے تشبیہ دیں وہاں فوراً یہ تصویر ذہن میں آنی چاہیے کہ اس دائرے کی ایک پرکار ہے اور اس پرکار کے دو رکن یا دو ستون ہیں، ایک ساکن ہے اور ایک متحرک ہے، دائرے کی یہ خصوصیت ہے کہ دائرے میں اصل وہ بیرونی خط نہیں ہوتا بلکہ دائرے کا اصل اور اساس وہ اندرونی مرکز ہوتا ہے، جس سے دائرہ قائم ہوتا ہے۔ دائرہ اندرونی نکتہ سے قائم ہوتا ہے نہ کہ بیرونی خط سے، بیرونی خط دائرے کی حد ہوتی ہے، دائرے کا قیام اس بیرونی خط سے نہیں ہوتا۔ بیرونی خط دائرے کا رکن ِ اساسی نہیں ہے یعنی اس وجہ سے یہ دائرہ، دائرہ نہیں ہے بلکہ دائرہ اس نقطے کی وجہ سے ہے جو بیچ میں ہوتا ہے، کیوں؟ اس لئے کہ دائرے کی تعریف یہ ہے کہ دائرہ اس شکل کو کہتے ہیں جس میں ایک مرکزی نقطہ ہو اور اس کے اردگرد کا محیط، مرکزی نقطے کے ساتھ برابر فاصلہ رکھتا ہو، اگر اس میں کسی حصے کا فاصلہ مرکزی نقطے سے زیادہ ہوگیا تو یہ دائرہ نہیں بنے گا کچھ اور بن جائے گا، دائرہ ہونے کیلئے ضروری ہے کہ اپنا فاصلہ مرکز کے ساتھ برابر رکھے، یہ جو لائن ہے یہ بھی نقطے ہیں انہی نقطوں نے خط کو گول بنایا ہوا ہے، ان نقطوں کا فاصلہ اس مرکزی نقطے کے ساتھ برابر ہونا چاہیے یعنی دائرے کا حصہ بننے کیلئے ان کو اپنا فاصلہ برابر کرنا ضروری ہے اس لئے کہ یہ اس کا مرکز ہوتا ہے۔ دائرے کا مرکزی نقطہ کہاں سے قائم ہوتا ہے؟ یہ پرکار کا نتیجہ ہوتا ہے اور پرکار

کا وہ ستون جو ساکن ہوتا ہے یہ اس کا نتیجہ ہے۔

حقیقی دائرے کا مرکزی نقطہ

جیومیٹری کا دائرہ فقط تمثیل کیلئے تھا اب حقیقی دائرے میں آتے ہیں حقیقی دائرے میں جو مرکزی نقطہ ہے وہ مہم ہے حقیقی دائرہ دراصل منظومہ شمسی کی طرح ہے جس میں سورج مرکزہے اور جتنا بھی منظومہ ہے یہ سارا سورج سے قائم ہے یعنی سورج کی کوشش سے یہ باقی ہے۔ اگر سورج کا جاذبہ نہ ہوا اس نے ان کو اپنے ساتھ کشش میں منسلک نہ رکھا ہوا ہو تو یہ منظومہ قائم نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح سے جو حقیقی وجودی دائرہ ہے یہ اس وقت قائم ہوتا ہے کہ جب اس مرکز کے اندر کشش ہو اور یہ کشش ان اطراف اور محیط کے نقطوں کو اپنے ساتھ جوڑ کر رکھے۔

جہاں کی بقا کا راز عشق

پس دائرے کے اندر مہم نقطہ ہے اور نقطہ پرکار کا نتیجہ ہے، بنابریں چونکہ

ہستی کا سارا نظام عشق سے قائم ہے، ہر مسلک یا ہر انسان عالم کی تفسیر اپنے طور پرکرتا ہے، عرفاء اوراہلِ معرفت کا یہ کہنا ہے کہ عشق بھی ایک دائرہ

ہے کہ جس دائرے کے اندر ہر چیز پروئی ہوئی ہے اور عالم کی بقاء کا راز ہی

عشق ہے، عشق نے عالم خلق بھی کیا ہے اور عشق نے اس کو باقی بھی رکھا ہوا ہے، یعنی یہ زمین کیوں وجود میں آئی ہے؟ عشق کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے اور عشق کی وجہ سے باقی ہے یعنی عالم منظومہ شمسی کی مثال ہے یہ زمین عاشق ِسورج ہے اگر سورج کی عاشق نہ ہوتی تو چھوڑ کر کہیں اور چلی گئی ہوتی، یہ کہیں نہیں جاتی اس لئے کہ زمین کا سورج کے ساتھ ایک رابطہ ہے اور وہ عشق کا رابطہ ہے۔

عشق یعنی جاذبہ و جاذبہ، عشق کی اگر ہم حسی مثال دیں تو یہ مقناطیس ہے، مقناطیس لوہے کو اپنی طرف کھینچتا ہے، یعنی لوہے کا اور مقناطیس کا رابطہ کشش کا ہے یہ رابطۂ عشق ہے، اس لئے شہوت اور عشق میں بہت

فرق ہے، عشق یعنی ایسا کمال جو باقی کمالات کو کھینچ کر اپنی طرف لائے اور

خود ان کمالات کے لئے مرکز بن جائے۔

دین بھی درحقیقت عشق کا نتیجہ ہے بلکہ دین خود عشق ہے۔ عبادت، سجدہ اور نماز عشق ہے۔ نمازِ عاشقانہ۔ عشق کا معشوق سے اظہارِ عشق کرنے کو نماز کہتے ہیں۔ ایک عاشق کی زبان سے جب معشوق کے بارے میں کوئی بات ہوتی ہے تو یہ اس کی نماز ہوتی ہے، اسی لئے کہاگیا ہے کہ عاشقانہ نماز پڑھو، عاشق کو عاشقانہ باتیں چاہئیں جس طرح سے خود امیرالمومنین ـ کی عبادتیں عاشقانہ عبادتیں تھیں کہ اگر یہ جنت و جہنم سب ختم بھی ہوجائے تو میں پھر بھی اے خدا تیری عبادت کروں گا۔

دین سراپا عشق ہے۔

جیسا کہ حضرت امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں:''ہل الدین الا الحب'' یعنی دین محبت اورعشق کے علاوہ بھی کچھ ہے۔ دین کو تفسیرِ عشق چاہیے۔ ابھی جس

دین سے ہمارا تعلق ہے یہ عاشقانہ نہیں ہے یہ سوداگرانہ ہے یہ سوداگرانہ اور

منفعت طلب دین ہے، یہ عاشقانہ دین نہیں ہے، لہٰذا جن چیزوں میں معاوضہ کم

ہے وہ انجام نہیں دیتے۔ نمازِ شب نہیں پڑھتے، کیوں؟ اس لئے کہ معاوضہ کم ہے

یا اس میں سزا نہیں ہے، ہم معاوضہ کے چکر میں ہیں، جن میں اجروثواب زیادہ

ہے، جس سے جنت میں بڑا پلاٹ ملنے والا ہو ہم ان چکروں میں ہیں۔

دین میں جتنے بھی اصول ہیں وہ سارے عشق کی بنیاد پر قابلِ فہم ہیں انہی میں سے ایک مسئلہ امامت ہے۔ دین عشاق پرور ہے اور انسان کو عاشقِ خدا بناتا ہے اور اس عشق کو امام اور مفسر کی ضرورت ہے اس کاروانِ عشق کو رہبر کی ضرورت ہے اور وہ رہبرِ کاروانِ عشق سید الشہداء ـ ہیں، جو کاروانِ عشق کو لے کر قربان گاہِ عشق تک گئے ہیں اور اب بھی ہیں نہ کہ ایک زمانے میں ایک چھوٹا سا گروہ بہتّر عاشقوں کا تھا اور وہ چلے گئے، نہیں بلکہ قیامت تک کاروانِ عشق کے سالار حسین ـ ہیں۔ اس لئے اقبال حسرت کرتے ہیں کہ کاروانِ حجاز تو ہے لیکن اس میں ایک حسین بھی نہیں ہے۔

مادرِآن مرکزِ پرکارِ عشق

مادرِ آن کاروانِ سالارِ عشق

فاطمہ زہرا(س) پرکارِ عشق کے مرکز کی ماں ہے، عشق کا مرکز حسین ـ ہیں اور حسین ـ کی ماں زہراء (س) ہے یعنی اس کاروانِ عشق کے سالار کی ماں ہے۔ کربلا میدانِ عشق ہے، حسین ـ امامِ عشق ہے بہت چیدہ چیدہ اور انگشت شمار لوگوں کو ہی کربلا اور حسین ـسمجھ میں آیا ہے۔ اقبال جیسے انسان کے قلم اور دل سے ہی ایسی زیبابات نکل سکتی ہے، امام حسین ـ کی یہ معرفت فقط اقبال ہی کو ہے۔

فاطمہ زہراء (س) شمع شبستان حرم کی ماں

آن یکی شمع شبستان حرم

حافظ جمعیت خیر الامم

ایک بیٹا مرکزِ پرکارِ عشق اور سالارِ کاروانِ عشق ہے اور دوسرا شمعِ شبستانِ

حرم ہے، حرم کے شبستان کی شمع ہے جس سے حرم کے اندر نورانیت ہے اور حافظ جمعیت خیز الامم ہیں، خیر الامم اُمت اسلامیہ ہے اور اس اُمت کی بقاء

درحقیقت فاطمہ زہراء (س) کے فرزند کے طفیل اور رہین منت ہے یعنی حضرت امام حسن مجتبیٰ ـ کی مرہون منت ہے، اس صلح کی طرف اشارہ ہے جو اُمت کی بقاء کی خاطر کی گئی۔

تا نشیند آتشِ پیکارو کین

پشتِ پازد برسرِتاجِ ونگین

اُمت کے اندر کینہ و دشمنی کی آگ شعلہ ور نہ ہو، اس کیلئے تاج ونگین اور اقتدار کو ٹھکرادیا، کس لئے؟ تاکہ یہ خیر الامم اور یہ اسلامی جمعیت و اُمت مسلمہ باقی رہے، وہی جس اُمت کو توڑنے کیلئے آج سب نے قسم کھا رکھی ہے، جس کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کو عینِ دین سمجھ لیا ہے، جس کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کو جنت کا ذریعہ سمجھتے ہیں درحقیقت حضرت سیدہ کے فرزند سبط اکبر ـ نے اس جمعیت کو باقی رکھنے کیلئے اپنا حق بھی دے دیا۔ پھر دوبارہ اقبال امام حسینـ پر آجاتے ہیں۔

فاطمہ (س) مولائے ابرارِ جہاں کی ماں

درحقیقت اقبال عاشقِ حسین (ع) ہیں، اس کاروانِ عشق میں اقبال بھی ہیں جس کے سالار حسین (ع)ہیں۔ خود کہہ رہے ہیں کہ یہ حسین (ع) سے ہی سیکھا ہے، اصلاً عشق کا اُستاد ہی حسین (ع) ہیں۔ عشق کا معلم ہی حسین (ع)ہیں، غیراز حسین (ع)عشق کسی کو سمجھ میں آتا بھی نہیں۔

آن دگر مولائے ابرارِ جہان

قوتِ بازوئے احرارِ جہان

تمام عالم کے ابراروں کے مولا سید الشہداء امام حسین (ع) ہیں، دُنیا میں جتنے

بھی حریت پسند لوگ ہیں ان سب کی قوتِ بازو، ان سب کے حوصلہ، جوش، ولولہ کے اندر جس زور اور توانائی آجاتی ہے اور جس کے تذکرے سے عزم ملتا ہے جس کے ذکر سے ان کے اندر قوت آتی ہے وہ بھی فاطمہ کا بیٹا ہے۔ ابرارِ جہاں اور احرارِ جہاں حسین ـ کی ذات ہے، جتنے بھی دُنیا میں حریت پسند ہیں انہوں نے حریت کا سبق حسین ـ سے سیکھا ہے۔

در نوائے زندگی سوز از حسین

اہلِ حق حریت آموز از حسین

مترنم ترین آوازیں بھی درحقیقت زندگی کی نواہیں بہترین خوبصورت نغمے بھی زندگیوں کی آوازیں ہیں اور بدترین آوازیں بھی زندگیوں کی صدائیں ہیں بعض زندگیاں ہیں اور ان کی نوامیں سوز ہے۔ بعض بے سوز ہیں۔ شہوت رانوں کی زندگی میں نواہی نہیں اور اگر نواہو تو اس کے اندر سوز نہیں ہے، جاہ طلب، مال پرست، دُنیا پرست، شہرت طلب، ان کی زندگیوں میں نوا نہیں ہے چونکہ ریاکار ہوتے ہیں اور اگر نوا ہو تو بھی اس میں سوز نہیں ہیں اور سوز کہاں سے آتا ہے؟

سوز درد سے آتا ہے، درد کون پیدا کرتا ہے؟ عشق درد پیدا کرتا ہے اور عشق

کہاں سے آتا ہے؟ جب کاروانِ سالارِ عشق سے رابطہ ہو یعنی حسین ـ سے رابطہ ہو، مکتب ِ حسین ـ سے درد پیدا ہوکر عشق آتا ہے، یہ عشق درد پیدا کرتا ہے اس درد سے نوا نکلتی ہے، آواز نکلتی ہے اس نوا میں سوز ہوتا ہے یعنی زندگی کی نوا میں اگر سوز ہے تو وہ حسین سے ہے۔

اے حق پرستو! حریت اور آزادی کا درس حسین (ع) سے دیکھو، حسین (ع) حریت کا اُستاد ہے، معلمِ حریت ہے۔ یہ تو اقبال حضرت زہراء (س) کے فضائل بیان کررہے تھے۔ فرماتے ہیں کہ یہ سب کچھ کہاں سے آتا ہے، اولاد میں خصلتیں کہاں سے آتی ہیں؟ پھل کہاں سے میٹھا ہوتا ہے؟ پھل درخت کی وجہ سے میٹھا ہوا ہے، کبھی بھی کڑوے درخت پر میٹھا پھل نہیں لگتا۔ بقول مولانا کے کہ ہیچ گندم کاتی وجود بردہد ہیچ دید ای اسبی کرہ خردہد کبھی گندم کاشت کرکے جَو نکلتے ہوئے دیکھا ہے؟ اور کبھی دیکھا کہ گھوڑے سے گدھا پیدا ہوا ہو؟ نہیں ہوتا، کیوں؟ اس لئے کہ تناسب ضروری ہے، جیسے ماں باپ ہوںگے ویسی اولاد ہوگی، جیسا درخت ہوگا ویسا پھل ہوگا۔ یہ حسین (ع) جو کاروانِ سالارِ عشق ہے اور حسین(ع)جو مرکز پرکارِ عشق ہے یہ مولائے ابرارِ جہان کہ جس کی وجہ سے حیاتِ بشر میں سوز موجود ہے، یہ حریت کا معلم ہے۔

اولاد کی تربیت ماؤں کی مرہون منت

یہ ساری صفات ان فرزندوںمیں کہاں سے آئی ہیں؟ فرماتے ہیں کہ

سیرتِ فرزندھا از اُمّھات

جوہرِ صدق وصفا از اُمّھات

بچوں کی سیرت مائوں کی جانب سے ہے، اس شجرہ پر لگے ہوئے پاکیزہ پھل، پاکیزہ مائوں کا اثر ہے یعنی ماں کے وجود کا اثر ہے، ماں کے دوودھ کا اثر ہے، ماں

کی تربیت کا اثر ہے، کسی بچے کے اندر گوہرِ صدق وصفا ماں پیدا کرتی ہے،

البتہ دوسرے اسباب بھی اس کے اندر دخیل ہیں، تربیت میں بھی بے تربیتی میں

بھی لیکن اساس اور بنیاد ماں ہے، خود انسان بھی ماں سے کچھ لے کر آتا ہے۔

اب حضرت زہراء (س) کیا تھیں کہ جن سے یہ پھل نکلا؟

مزرع تسلیم را حاصل بتول

مادران را اسوۂ کامل بتول

تقدیرِ خدا کے آگے تسلیم ہونا یہ انسان کا مقامِ عظیم ہے، مقامِ تسلیم بہت عظیم مقام ہے، تسلیم کو اگر کھیتی فرض کریں تو اس تسلیم کی کھیتی میں جو پھل لگاہے اس سارے پھل کو اگر جمع کرکے نچوڑیں تو وہ اسوۂ کاملہ زہراء (س) ہیں۔

یہ ساری زحمت اقبال نے اس مصرع کیلئے کی ہے کہ فاطمہ زہراء (س)

مائوں کیلئے اسوۂ کاملہ ہیں، مائیں اتنی پاکیزہ ہوں، ان کا وجود اتنا آمادہ ہو تاکہ اس جیسا پھل مائوں کے شجرۂ وجود پر لگے۔

ضرورت مندوں کیلئے تڑپنے والا دل، دیکھیں زہراء (س) کیا ہیں؟

بھر محتاجی دلش آن گونہ سوخت

بہ یہودی چادرِ خود را فروخت

بہر محتاجی، یعنی ایک ضرورت مند کی خاطر اتنا زہراء (س) کا دل جلتا اور کڑھتا

ہے کہ ابھی اپنی عروسی ایام میں اور لباس میں ہیں اور باہر فقیر آجاتا ہے

اپنا شادی کا لباس جو ہر خاتون کیلئے ایک یادگار لباس ہوتا ہے اس کو آخر تک

رکھتی ہیں وہی لباس وچادر جاکر ایک یہودی کے ہاتھ بیچ کر اس فقیر کی ضرورت

برطرف کرتی ہیں۔ فاطمہ زہراء (س) کیلئے رونے والا اور سینہ پیٹنے والا غور

کرے کہ آیا فاطمہ زہراء (س) ہماری زندگیوں میں آئی ہیں؟ کیا ضرورت مندوں

کیلئے اس طرح ہمارا دل جلتا ہے؟ اگر زہراء (س) ہماری زندگیوں میں اسوہ

ہوتیں تو یقین جان لیجئے کہ اس وقت کوئی ضرورت مند ایسا نہ ہوتا کہ جس کی

ضرورت پوری نہ ہوئی ہوتی۔

جن اور ملائکہ، زہراء (س) کے مطیع

نوری وھم آتشی فرمانبرش

گم رضائش در رضائش شوہراش

نوری اور آتشی، یعنی جن اور ملائکہ سارے اس کے فرمانبرار ہیں یہ جو حکم دے وہ مانتے ہیں، یعنی ساری مخلوقات حکم کی پابند ہے۔ یہاں اقبال نے انسانوں کا

ذکر نہیں کیا، ملائکہ اور جن فرمانبردار ہیں چونکہ انسانوں کی زندگیوں میں

ابھی زہراء (س) کو داخل کرنا چاہتے ہیں کہ ملائکہ اور جنات جس کے

فرمانبردار ہیں، اے بشر اے انسان! تو جس ہستی کے مقابلے میں ہے ملائکہ اس

کے فرمانبردار ہیں۔

فاطمہ کی رِضا اپنے شوہر کی رِضا میں فانی ہے، علی ـ کی بات کے آگے ان کی کوئی بات نہیں ہے، زہراء (س) کس پر راضی ہیں؟ جس پر علی ـ راضی ہیں اور اُدھر سے ہمارے پاس سند موجود ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ میں اس سے راضی ہوں جس سے فاطمہ زہراء (س) راضی ہیں اور جس پر میں راضی ہوں اس پر اللہ راضی ہے اور فاطمہ زہراء (س) فرماتی ہیں میں اس سے راضی ہوں جس سے یہ علی ـ راضی ہیں۔

آن ادب پروردۂ صبر ورضا

آسیا گردان و لب قرآن سرا

فاطمہ زہراء (س) ادب پروردۂ رسول (ص) ہیں یعنی رسول اللہ (ص) نے آپ کی تربیت کی اور صبر ورِضا کے ادب سے مؤدب کیا، اس لئے تو آپ مقامِ رِضا پر فائز

تھیں۔

اپنے ہاتھ سے چکی چلاتی تھیں، نوکر چاکر نہیں رکھے ہوئے تھے کہ

جو گھر کے کام کرتے ہوں اور خود ڈرائنگ روم میں بیٹھی رہتی ہوں، جیسا کہ آج

کل خواتین کی روش ہے یہ سب اس لئے ہے کہ زہرا بعنوانِ اسوہ ہماری

زندگیوں میں داخل نہیں ہیں۔ فاطمہ زہراء (س) کے نام پر مدرسے بنے ہوئے ہیں،

فاطمہ زہراء (س) کے نام پر ادارے بنے ہوئے ہیں، فاطمہ زہراء (س) کے نام

پر کیا کچھ ہورہاہے؟ یہ باعظمت بی بی اپنے ہاتھ سے چکی چلاتی ہے اور چکی کے دوران زبان پر شکوہ بھی نہیں ہے کہ چکیاں چلا چلا کر ہاتھوں پہ چھالے پڑ

گئے ہیں بلکہ چکی چلاتی ہے اور ہمیشہ زبان پر قرآن کا ورد ہے۔ بی بی کی

ایک روایت ہے، فرماتی ہیں کہ ''احبّ الّی من دنیاھم تلاوة القرآن'' اے لوگو! تمہاری دُنیا سے مجھے چند چیزیں پسند ہیں، ان چند چیزوں میں سے ایک قرآن پڑھنا مجھے سب سے زیادہ پسند ہے یعنی گھر کاکام بھی کررہی ہیں اور قرآن بھی پڑھ رہی ہیں۔ یہ خواتین جو گھنٹہ گھنٹہ ٹیلیفون پر بات کرتی ہیں، سارا دن ٹی وی دیکھتی ہیں، سارا دن یہ مناظر دیکھتی ہیں اور آخر ایام فاطمیہ میں حضرت فاطمہ کو رونے آجاتی ہیں۔ فاطمہ زہراء (س) اپنے گھر کے کام اپنے ہاتھ سے کرتی ہیں، اس وقت گھر کا سخت ترین کام چکی چلانا ہوتا تھا، لوگ غلاموں سے چکی چلواتے تھے اور تاجدارِ ھل اتیٰ کے گھر میں ملکہ قصر حضرت زہراء (س) خود چکی چلارہی ہیں اور ساتھ قرآن پڑھ رہی ہیں نہ کوئی شکوہ، نہ کوئی گلہ، کہ یہ میری کیا زندگی ہے؟

فاطمہ کے آنسو عرش برین کا عطر

گریہ ہائے او زبالین بے نیاز

گوہر افشاندی بہ دامانِ نماز

زہراء (س) سرہانے پر سر رکھی کر نہیں روتی تھیں، چونکہ ایسی خاتون نہیں تھیں کہ جن کے دل کے اندر ہزار محرومیتیں عقدہ بن گئی تھیں، نہ، بلکہ اہل تسلیم ورِضا تھیں، روتی تھیں لیکن ان کے گرویہ کا مقام اور گرویہ کا وقت حالت ِ

نماز تھی، نماز میں روتی تھیں، جی بھر کر نماز میں روتی تھیں، کس کیلئے؟

خدا کے سامنے خدا کے خوف سے روتی تھیں، عظمت ِ خدا کے سامنے روتی تھیں، یہ عاشقانہ گرویہ ہے، یہ عشق کا گریہ ہوتا ہے۔ ان آنسوئوں کو کیا کیا جاتا

تھا؟

اشک او پرچید جبرئیل از زمیں

ھمچو شبنم ریخت برعرشِ بریں

جبرائیل

آسمان سے زمین پر آتے تھے اور زہراء (س) کے آنسو اکٹھے کرتے تھے اور کیا

کرتے تھے؟ زمین سے زہراء (س) کے جو آنسو نماز میں گرتے تھے اکٹھے کر لئے

جاتے تھے اور عرشِ بریں پر جاکر ان کو شبنم کی طرح بکھیرتے تھے لہٰذا اقبال

کے نزدیک عرشِ بریں کا معطر ہونا زہراء (س) کے آنسوئوں سے تھا، شاعرانہ

تشبیہ و تمثیل ہے یعنی زہراء (س) وہ شخصیت ہے کہ جو عبادت زمین پر کرتی ہیں لیکن تاثیر عبادتِ عرشِ برین پر ہے۔ عرشِ بریں زہراء (س) کے آنسوئوں سے

معطر اور منور ہے۔ اب اتنی باعظمت خاتون کے حضورِ اقبال کیسے عقیدت کا

اظہار کرتے ہیں؟

رشتہ آئین حق زنجیر پاست

پاس فرمان جنابِ مصطفےٰ است

ورنہ گرد تربتش گر دید مے

سجدہ ھا بر خاک او پاشید مے

آئینِ حق میرے پائوں کی زنجیر بنا ہوا ہے اور مجھے اسلام کی اجازت نہیں دیتا اور

اسی طرح جنابِ مصطفےٰ (ص) کے فرمان کا مجھے پاس ہے اور فرمانِ مصطفےٰ

(ص) اگر مانع نہ ہوتا تو میں ساری عمر آپ کی قبر کے گرد طواف کرتا اور میرا

ایک ہی کام ہوتا کہ میں تربتِ پاکِ زہراء (س) پر فقط سجدے کرتا۔ اس کی

تربیت پر اقبال کی پیشانی ہوتی یعنی زہراء (س) اس قدر عظمت کی مالک ہے،

ظاہر ہے کہ اس عظمت کو سمجھنے کیلئے اقبال جیسی بصیرت کی ضرورت ہے، ہمارے ذہن میں اتنی معرفت سے بھی قاصر ہیں جتنی خدا نے اس عظیم انسان کو توفیق عطا کی ہے۔ اس دُعا کے ساتھ کہ خداوند تبارک وتعالیٰ ہمیں مقامِ زہراء (س) کو سمجھنے کی توفیق دے اور حضرت زہراء (س) کو اپنی زندگیوں میں اسوہ کے طور پر داخل کرنے کی توفیق دے۔ آمین

 

تحرير : علامہ نقوی

Read 13051 times