سلیمانی

سلیمانی

ایران پریس کی رپورٹ کے مطابق ایران کے بلوچستان صوبے کے صدر مقام زاہدان کے امام جمعہ مولانا عبد الحمید نے قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کے نام ایک مراسلہ ارسال کیا جس میں انہوں نے ایک اہلسنت کو بحریہ کا کمانڈر بنانے پر انکی قدردانی کی اور انکے اس اقدام کو ایک خداپسندانہ اقدام قرار دیا۔

مولانا عبد الحمید نے مزید لکھا کہ قائد انقلاب اسلامی کے اس فیصلے نے ایران کی اہلسنت برادری میں ایک خوشی کی لہر دوڑا دی ہے۔

زاہدان کے امام جمعہ نے ساتھ ہی یہ امید ظاہر کی کہ حکومت قائد انقلاب اسلامی کے اس فیصلے کو اپنے لئے نمونہ عمل قرار دے کر ملک میں اتحاد و برادری کی فضا کو مزید مستحکم بنائے گی۔

قابل ذکر ہے قائد انقلاب اسلامی اور ایران کی مسلح افواج کے سپریم کمانڈر آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے گزشتہ منگل کے روز کوموڈور شہرام ایرانی کو ملک کی بحریہ کا کمانڈر مقرر کیا۔

قائد انقلاب اسلامی کے اس اقدام سے دشمن کے کھوکلے اور بے بنیاد پروپیگنڈے پر پانی گیا جس میں یہ دعوا کیا جاتا رہا ہے کہ ایران میں اہلسنت کو حساس عہدے نہیں دئے جاتے۔ یہ پروپیگنڈا ایسے حالات میں کیا جاتا رہا ہے کہ ایران کے مختلف سطح کے سرکاری عہدوں پر اس وقت اہلسنت خدمات کی انجام دہی میں مصروف ہیں جن میں ملک کے سفرا بھی شامل ہیں۔

Saturday, 21 August 2021 06:37

کربلا کی شیر دل خواتین

اسلامی اور انسانی اقدار کے پاسبان واقعہ کربلا میں جہاں جوانوں نے قربانیاں دیں، وہیں عمر دارز شخصیات بھی ایثار میں پیچھے نہیں رہیں، یہاں تک کہ کمسن بچوں نے عروس شہادت کو گلے لگایا حتی امام حسین علیہ السلام کے شیرخوار بچے کی شہادت بھی افق عالم پر سورج چاند کی طرح دمک چمک رہی ہے۔ نہ صرف مردوں بلکہ خواتین نے بھی اپنا وہ کردار نبھایا کہ اگر تاریخ کربلا میں ان شیر دل خواتین کا ذکر نہ ہو تو تاریخ نہ صرف ادھوری بلکہ طاق نسیاں کا شکار ہو جائے گی۔ 

ذیل میں کربلا کی چند خواتین کا تذکرہ پیش ہے؛

حضرت زینب سلام اللہ علیہا

نبیؐ کی نواسی، زینت حیدرؑ،  ثانی زہراؑ، شریکۃ الحسینؑ کا نام اللہ نے لوح محفوظ پر "زین اب" یعنی زینب رکھا۔

حضرت زینب سلام اللہ علیہا عصر عاشور تک معمار کربلا امام حسین علیہ السلام کی مشاور تھیں۔ اسکے بعد مقصد کربلا کی محافظ اور پیغام کربلا کی مبلغہ ہیں۔ 

کربلا در کربلا می ماند اگر زینب نبود 

شیعہ پژمردہ می شد اگر زینب نبود

حضرت ام کلثوم سلام اللہ علیہا

جس طرح حضرت عباس علیہ السلام امام حسین علیہ السلام کے نہ صرف بھائی بلکہ باوفا پیروکار تھے اسی طرح نبی کی چھوٹی نواسی، امیرالمومنین علیہ السلام کی آخری میزبان حضرت ام کلثوم سلام اللہ علیہا تعمیر، تحفظ اور تبلیغ کربلا کے ہر محاذ پر حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے شانہ بہ شانہ رہیں۔ کوفہ میں خطبہ دیا اور مدینہ واپسی پر وہ نوحہ پڑھا جسے سن کر آج بھی ہر دل غمزدہ اور ہر آنکھ اشکبار ہو جاتی ہے۔

حضرت سکینہ سلام اللہ علیہا 

سکون نفس مطمئنہ، باعث تسکین قلب وارث انبیاء حضرت سکینہ سلام اللہ علیہا نے کمسنی میں ایثار و قربانی کے وہ نقوش چھوڑے ہیں جن تک دنیاکی بزرگ خواتین بلکہ مردوں کی بھی رسائی ممکن نہیں۔ بھوک و پیاس، یتیمی اور مظلومیت کے باوجود اس کمسنی میں اہداف حسینی کی حفاظت فرمائی۔ 

حضرت رباب سلام اللہ علیہا 

امام حسین علیہ السلام کی شریکہ حیات و مقصد حضرت رباب سلام اللہ علیہا نے کربلا میں سہاگ کی قربانی دی وہی اس سے پہلے اپنے شیر خوار بچے کی وہ قربانی پیش کی جو رہتی دنیا تک امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت اور حقانیت کی دلیل بن گئی۔ امام حسین علیہ السلام کے غم میں نوحہ کیا اور جب واپس مدینہ آئیں تو ایک سال تک کربلا والوں کی عزاداری کی کبھی سایہ میں نہ بیٹھیں یہاں تک کہ روح جسم سے پرواز کر گئی۔ 

حضرت ام اسحاق سلام اللہ علیہا

امام حسین علیہ السلام کی زوجہ جناب ام اسحاق سلام اللہ علیہا کربلا میں موجود تھیں۔ آپ حاملہ تھیں۔ مظلوم کربلا نے اپنے مظلوم بھائی حضرت محسن بن علی و فاطمہ سلام اللہ علیہم کے نام پر ولادت سے قبل اپنے نور نظر کا نام محسن رکھا تھا۔ راہ شام میں حلب کے نزدیک یزیدی ظلم و ستم کے سبب یہ محسن مظلوم اپنے مظلوم چچا کی طرح بطن مادر میں ہی شہید ہو گئے اور وہیں دفن ہوئے۔ حلب کے نزدیک "مشہد السقط" و "مشہد المحسن" کے نام سے آپ کا مزار مقدس عاشقان اہلبیت علیہم السلام کی زیارت گاہ ہے۔

جناب ام سلیمان سلام االلہ علیہا 

آپ کا نام کبشہ تھا، کنیز تھیں۔ امام حسین علیہ السلام نے ایک ہزار درہم میں انہیں خریدا، جناب ام اسحٰقؑ (زوجہ امام حسین علیہ السلام ) کے یہاں خدمت کرتی تھیں۔ جنکی بعد میں ابو رزین سے شادی ہوئی اور جناب سلیمان پیدا ہوئے۔ جناب سلیمان امام حسین علیہ السلام کا خط لے کر بصرہ گئے۔ عبیداللہ بن زیاد کے سپاہیوں نے انہیں گرفتار کر کے شہید کر دیا جناب ام سلیمان سلام اللہ علیہا عالمہ و فاضلہ تھیں۔ اپنے مولا امام حسین علیہ السلام کے ساتھ مدینہ سے کربلا گئیں۔ شہادت حسینی کے بعد اہل حرم کے ساتھ آپ کو اسیر کر کے شام و کوفہ لے جایا گیا۔

جناب فُکھیہ سلام اللہ علیہا 

آپ عبداللہ بن اریقط کی زوجہ تھیں اور امام حسین علیہ السلام کی زوجہ جناب رباب سلام اللہ علیہا کی خادمہ تھیں۔ جب امام حسین علیہ السلام نے مدینہ سے سفر کیا تو جناب فُکھیہ بھی اپنے فرزند جناب قارب سلام اللہ علیہ کو لے کر امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ کربلا تشریف لائیں۔ جناب قارب علیہ السلام کربلا میں شہید ہوئے اور آپ دیگر اسیروں کے ساتھ اسیر ہو کر کوفہ و شام تک گئیں۔ 

جناب حُسنیہ سلام اللہ علیہا

آپ امام حسین علیہ السلام کی کنیز تھیں جنہیں امام عالی مقام نے آزاد کر دیا تھا۔ آپ کی شادی  ’’سہم‘‘نامی شخص سے ہوئی۔ اللہ نے آپ کو ایک بیٹا دیا جنکا نام ’’منجح ‘‘ تھا۔ جناب حسنیہ سلام اللہ علیہا امام زین العابدین علیہ السلام کی خادمہ تھیں۔ آپ اپنے بیٹے جناب منجح کو لے کر امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ کربلا تشریف لائیں۔ جناب منجح کربلا میں شہید ہوئے اور آپ اسیر ہوئیں۔

جناب ام وہب سلام اللہ علیہا

کربلا کی شجاع اور مجاہدہ خاتون جناب ام وہب سلام اللہ علیہا شہید کربلا جناب عبداللہ بن عمیر علیہ السلام کی زوجہ تھیں۔اپنے شوہر کے ہمراہ کوفہ سے نکلیں اور راہ کربلا میں حسینی قافلہ سے ملحق ہوئیں اور کربلا پہنچی۔ یوم عاشورا جب آپ کے شوہر جناب عبداللہ بن عمیر علیہ السلام جہاد کے لئے میدان کی جانب چلے تو آپ بھی چوب خیمہ لے کر نکلیں لیکن امام حسین علیہ السلام نے آپ کو یہ کہہ کر روک دیا کہ خواتین پر جہاد نہیں ہے۔ لیکن جب آپ کے شوہر شہید ہوئے تو آپ انکے جنازہ پر پہنچی تو فرمایا کہ تمہیں جنت مبارک ہو خدا سے دعا ہے کہ ہمیں تمہارے ساتھ قرار دے۔ شمر ملعون نے اپنے غلام رستم کو حکم دیا کہ آپ کو شہید کر دے۔ رستم نے آپ کے سر پر وار کیا اور آپ بھی شہید ہو گئیں۔ 

دوسری روایات میں اسی سے مشابہ واقعہ جناب وھب ابن عبداللہ ابن عمیر علیہ السلام کا تھوڑے اختلاف سے نقل ہوا ہے اور کربلا میں جو خاتون شہید ہوئیں وہ جناب وہب کی بیوی تھیں۔ جیسے بحارالانوار میں علامہ مجلسی رحمۃ اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں: "وہب بن عبداللہ کلبی شہدائے کربلا میں سے ہیں۔ ان کی ماں اور بیوی بھی کربلا میں تھیں اور شہید ہوئیں۔

شیخ عباس قمی رحمۃ اللہ علیہ نے علامہ مجلسی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے نقل فرمایا: میں نے ایک روایت میں دیکھا کہ ابن وہب عیسائی تھے اور وہ امام حسین علیہ السلام کے ہاتھوں اپنی ماں کے ساتھ مسلمان ہوئے۔ اپنی جدوجہد اور سجاعت سے عمربن سعد کے لشکر کے 

چوبیس پیادوں اور بارہ گھڑسواروں کو قتل کیا۔ آخر میں انہیں گرفتار کر کے عمر بن سعد کے پاس لے جایا گیا۔ عمر بن سعد نے کہا: تم بہت شجاع ہو۔ اس کے بعد اس نے حکم دیا کہ ان کا سر قلم کر کے امام حسین علیہ السلام کی جانب پھینک دیا جائے۔ ان کی ماں نے ان کا سر اٹھایا اور بوسہ دیا اور لشکر ابن سعد کی جانب پھینک دیا جو ایک سپاہی کو لگا اور وہ وہیں مر گیا۔ جسکے بعد انھوں نے چوب خیمہ سے حملہ کیا اور دو یزیدیوں کو واصل جہنم کیا۔ امام حسین علیہ السلام نے ان سے فرمایا: اے ام وہب واپس آجائیں۔ خواتین پر جہاد نہیں ہے۔ ام وہب واپس ہوئیں اور کہا: اے خدا مجھے مایوس نہ کر ، امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: خدا تجھے مایوس نہ کرے۔ 

سید ابن طاووس رحمۃ اللہ علیہ اس سلسلہ میں لکھتے ہیں: جناب وہب ابن جناح کلبی اپنی زوجہ اور والدہ کے ساتھ کربلا آئے۔ بعض روایات میں دو ’’وہب‘‘ کا ذکر ہواہے۔ بہر حال جناب وہب کی زوجہ امام حسین علیہ السلام کی فوج میں شہید ہونے والی پہلی خاتون تھیں اور جناب وہب کی والدہ ان سے اس وقت تک راضی نہیں ہوئیں جب تک کہ انھوں نے اپنی جان امام حسین علیہ السلام پر قربان نہ کر دی۔

جناب ام خلف سلام اللہ علیہا

جناب ام خلف پہلی صدی ہجری کی نامور شیعہ خاتون تھیں۔ امام حسین علیہ السلام کے باوفا صحابی جناب مسلم بن عوسجہ علیہ السلام سے شادی کی اللہ نے آپ کو ایک بیٹا دیا جس کا نام خلف تھا۔ آپ اپنے شوہر اور بیٹے کے ہمراہ کوفہ سے نکلیں اور راہ کربلا میں حسینی قافلہ سے ملحق ہوئیں اور کربلا پہنچی۔ جناب مسلم بن عوسجہ کی شہادت کے بعد آپ نے اپنے فرزند جناب خلف کو میدان کی جانب بھیجا۔ امام حسین علیہ السلام نے جناب خلف سے فرمایا: پلٹ جاو! تمہاری ماں کے لئے تمہارے بابا کا غم کافی ہے۔ تو آپ نے اپنے بیٹے سے کہا کہ اپنی جان فرزند رسول پر قربان کر دو۔ جناب خلف میدان میں گئے اور شجاعت کے جوہر دکھائے آخر آپ کے سر و تن میں جدائی کر کے سر کو لشکر حسینی کی جانب پھینکا۔ جناب ام خلف نے بیٹے کے سر کو اٹھایا، بوسہ لیا اور ایسا نوحہ کیا جسے سن کر ہر دل غمگین اور ہر آنکھ اشکبار ہو گئی۔

جناب ام عمرو سلام اللہ علیہا

آپ کا نام بحریہ بنت مسعود الخزرجی ہے۔ آپ شہید کربلا جناب جنادہ ابن کعب انصاری کی زوجہ تھیں۔  جنکا نام جنادہ ابن حرث بھی نقل ہوا ہے جو قبیلہ خزرج سے تھے۔ جناب جنادہ ابن کعب مکہ سے امام حسین علیہ السلام کے قافلے میں شامل ہوئے اور روز عاشورہ حملہ اولیٰ میں شہید ہوئے۔ آپ کے فرزند جناب عمر وبن جنادہ بھی کربلا میں شہید ہوئے۔ عمرو ابن جنادہ انصاری کربلا کے نوجوان شہداء میں سے تھے اور جب وہ میدان جنگ کی جانب جا رہے تھے تو امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: اس نوجوان کے والد شہید ہو گئے ہیں شاید اس کی والدہ اس کے میدان میں جانے پر راضی نہ ہوں۔ جناب عمرو نے عرض کیا: میری ماں نے ہی مجھے جہاد کا حکم دیا ہے اور انھوں نے 

ہی مجھے تیار کیا ہے۔ جناب عمرو بن جنادہ کی عمر 9 یا 11 سال سے زیادہ نہیں تھی جب وہ شہید ہوئے۔ یزیدی لشکر نے شہادت کے بعد ان کا سر انکی ماں کی جانب ہھینکا۔ ماں نے سر اٹھایا اور کہا: تم نے کتنا اچھا جہاد کیا ، میرے بیٹے ، اے میرے دل کی خوشی! اے میری آنکھوں کی روشنی! پھر وہ سر دشمن کی جانب اچھال دیا۔ جو ایک یزیدی سپاہی کو لگا اور وہ واصل جہنم ہو گیا۔ اس کے بعد جناب ام عمرو نے چوب خیمہ اٹھایا اور میدان کا رخ کیا لیکن امام حسین علیہ السلام نے انہیں خیمہ کی جانب واپسی کاحکم دیا اور وہ واپس خیمہ میں چلی گئیں۔ 

جناب رویحہ سلام اللہ علیہا

آپ جناب ہانی بن عروہ کی زوجہ تھیں۔ جناب مسلم بن عقیل علیہ السلام اور جناب ہانی بن عروہ علیہ السلام کی شہادت کے بعد آپ اور آپ کے فرزند جناب یحییٰ کوفہ میں مخفی ہو گئے۔ جب اطلاع ملی کہ امام حسین علیہ السلام۲ ؍ محرم کووارد کربلا ہوگئے ہیں تو آپ ماں بیٹے بھی مخفیانہ طور پر کوفہ سے نکلے اور کربلا میں لشکر حسینی میں شامل ہو گئے۔ جناب یحییٰ علیہ السلام روز عاشورا شہید ہوئے اور آپ اسیر ہوئیں۔ اگرچہ جناب رویحہ کے والد عمر بن حجاج کربلا میں عمر بن سعد کے لشکر کا سپاہی تھا اور عمر سعدنے اسے فرات پر مامور کیا تھا تا کہ خیام حسینی میں پانی نہ جاسکے لیکن آپ اپنے شوہر جناب ہانی کی راہ کی راہی تھیں۔

خدا کا درود و سلام ہو کربلا کی ان شیر دل خواتین پر جنہوں نے اپنی جان ، مال اور اولاد  راہ خدا میں قربان کردی ۔ دنیا اور دنیا والوں کی دوستی اور رشتہ ان کے پائے ثبات میں لغزش نہ لا سکے۔ ان خواتین نےنہ صرف تبلیغ کربلا بلکہ تعمیرکربلا کے مراحل میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ان کا کردار رہتی دنیاتک نہ صرف خواتین بلکہ مردوں کے لئے اسوہ حسنہ ہے۔ 

اللہ ہمیں انکی معرفت اور پیروی کی توفیق کرامتے فرمائے۔ آمین

قیام کربلا کے بہت سارے پیغام ہیں ان میں سے ایک  وہ   جو ہماری آنکھوں کے سامنے واضح و روشن ہے وہ عرفانی پیغام ہے اور یہی عرفانی پیام ایک مہمترین اور بہترین  پیغام ہے کہ ہر زمانے کے عرفا  ء نے اسی عرفانی پیغام پر تکیہ کیا ہے   اسی  عرفانی پیام نے  عرفاء کی زندگی میں رونق بخشی ہے ۔
ان شاء اللہ تعالی بندہ حقیر اس مختصر مقالہ میں کچھ نکات کی طرف اشارہ کرنے کی کوشش کرونگا

1۔ خدا سے عشق کا پیغام  :

عاشورا کے مہم ترین پیغاموں سے ہے
عاشوراء اور نہضت امام حسین ع کے مہترین پیغاموں میں سے ایک  خدا سے عشق کا پیغام ہے  


الف: جیسے  شب عاشور  میں جب امام حسین ع  نے اشقیا ء سے ایک رات کی مہلت مانگی  اور مہلت کا پیغام لیکر حضرت عباس کو جب انکی طرف بھیجا تو  اس وقت امام ع نے فرمایا  : وھو یعلم انی احب  الصلواۃ ، وہ جانتے ہیں کہ میں نماز سے  کتنی  محبت کرتا ہوں


ب: اصولی طور پر  بھی اس کائنات  کے پورے نظام میں معبود و معشوق ایک ہی ہے اور   وہ خدا وند کی ذات ہے
اسی کی طرف  فارسی کا ایک مشہور شاعر کہتے ہیں :
عشق ہائی کز بی رنگی بود                                                                        عشق نبود عاقبت ننگی بود
عشق آن بگزین کہ جملہ انبیاء                                    یافتند زان عشق خود کار روکیا    (1)


ج: امام حسین ع اور انکے اصحاب کے کلمات میں   غور کرنے سے معارف   الہی کا سمندر ہیں مل جاتا ہے

2۔  بلا ءاور ابتلا ء کا پیغام   

 الف : عاشوراء کے عرفانی  پیغامات  میں سے ایک  آزمائش کا پیام ہے
ب: جس دنیا میں ہم زندگی  بسرکرتے ہیں وہ آزمائش  اور سے پر ہے  ان میں  سے کسی کو چھٹکارا حاصل نہیں ہے  بلکہ ہر انسان کی اپنی ظرفیت کے مطابق  آزمائشیں آجاتیں ہیں
ج: آزمائشیں انسان کے امتحان کا وسیلہ ہے  کیونکہ انسان  کو بلا وگرفتاری وآزمایش اسکے اصلی ہدف تک پہنچاتی ہے  
د: حدیث شریف ہے  (البلاء للولاء  )(2)  ہر انسان کا جتنا ایمان قوی ہوتا ہے اسی حساب سے انکی زندکی میں آزمائشیں اور مشکلات زیادہ ہوتی ہیں جسکی واضح مثال  محمدو آل محمد ص ہیں


3۔ یاد خدا کا پیغام


 قیام عاشورا کا ایک اور عرفانی پیغام یاد خدا ہے   
اکر ہم امام حسین ع کی حیات طیبہ کا غور سے مطالعہ کریں  تو پتہ چلتا ہے کہ امام حسین ع کسی بھی  وقت ایک  لحظہ کے لیے یاد خدا سے غافل نہ رہے خصوصا قیام کربلا میں کیونکہ آپ جانتے تھے کہ یاد خدا کے علاوہ کوئی اور چیز دلوں میں تسلی وسکون نہیں لاسکتی ہے بلکہ آپ أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (3)  کے مصداق تھے اور امام کا ہر خطبہ اور کلام ذکر ونام خدا سے شروع ہوتا ہے  جیسے :
جب  اشقیاء  عاشور کے دن اہلبیت کے خیام کی طرف  حملہ کرنے آے  تو امام ع نے فرمایا : لا حول ولا قوۃ  الا باللہ  اسی طرح کربلا کے راستہ میں مسلم ابن عقیل کی شہادت کی خبر سنی تو فرمایا : إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ  (4)

 4۔ خدا  کی راہ  میں قربانی کا پیغام  

نہضت کربلا کےبنیادی  پیغامات    میں سے ایک  خدا راہ میں قربان ہونا ہے
الف : اصولی طور پر  ایک عاشق کے لیے سب سے پہلی چیز  اپنے محبوب کی خاطر انکی راہ میں فدا ہونے کے علاوہ کوئی اور  چیز نہیں ہے  اس بناء پر  پورے  کائنات میں خدا کے علاوہ  معشوق  ومعبود حقیقی نہیں ہے  تو نتیجہ یہ ہوا کہ  ایک انسان مؤمن وموحد  کے لیے خدا پر ایمان کے سوا کوئی اور چیز مہم نہیں ہے  اور تعجب کی بات نہیں کہ  امام حسین ع جبسے موحد  نے اپنی جان  نچھاور کرنے کے ساتھ  اپنے باوفا اصحاب کی جانوں  کو بھی   خدا کی راہ میں قربان کردیا   تو فقط خدا کی رضایت کی  خاطر ودین مقدس کی بقاء کے لیے   تھا ۔  
ب : جب  امام ع میدان جنگ میں  فوج اشقیاء سے  لڑ رہے تھے اس وقت فرمایا : ان کا ن دین محمد لم یستقم الا بقتلی فیاسوف خذینی   ج: حضرت زینب  س  شھداء کے سرہانے پہنچی تو فرمایا : الهی تقبل منا هذا القربان القلیل (5)

5۔ تسلیم ورضا کا پیغام

الف : حماسہ حسینی کے عرفانی پیغاموں میں سے ایک  تسلیم ورضا ہونا ہے
ب: عبادت گزار اور  توحید پرست  انساس کی بارز ترین  خصوصیات  میں ایک  خدا کی رضایت پر راضی ہونا اور اللہ کے تمام احکام الہی کے سامنے سر تسلیم خم ہونا ہے   
ج: امام حسین ع نے فرمایا  کوفیوں سے مخاطب ہوکر : تم لوگ کبھی فلاح نہیں پاوگے  کیونکہ تم لوگوں نے اپنی خشنودی کی خاطر خدا کی رضاکو چھوڑ دیا ہے ۔
د: امام زین العابدین ع نے دربار یزید میں   یزید کے زر خرید خطیب کے بکواسات سنے تو اس کے جواب میں فرمایا : افسوس ہو تم پر  اے زر خرید  تم نے لوگوں کی خشنودی کی خاطر خدا کی رضایت کو چھوڑ دی ہے
جب امام حسین ع  پر دشمنوں کا خنجر چلا تو بارگاہ الہی  میں رضایت کا اعلان کرتے ہوے فریا : رضا بقضائک وتسلیما لامرک  اسی طرح ایک  اور جمله میں فرمایا : ترکت الخلق ترا  فی هواک وایتم العیال لکی آراک

6۔ حقیقی کامیابی  کا پیغام (فوزعظیم )

خدا کی راہ میں  امام حسین ع اور انکی با وفا اصحاب نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا  اور سید السجاد ع اور جناب زینب س نے امام کے مشن کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچایا : جیسے  امام کی مختلف زیارت میں ہم یہی تمنا کرتے ہیں : فیالیتنا کنا معکم فنفوز فوزا عظیما

7۔ اخلاص کا پیغام

الف: قیام امام کے سب سے درخشان  چہرہ  اخلاص کا ہے  


  ب: یوں  تو  تاریخ اسلام میں بہت سارے واقعات رونما ہوے ہیں  لیکن ان میں سے   کچھ کو حیات جاودانہ ملی ہے تو صرف اخلاص وخدائی رنگ ہونے کی وجہ سے ہے  یہی اخلاص  وصبغۃ اللہ   اور اس بے زوال  رنگ الہی کی وجہ سے  نہضت عاشورا  کو جاوادنہ زندگی خدا نے عطا کی ہے


ج: نیت میں عمل میں قیام  میدان جنگ میں  تمام مراحل  میں اخلاص کے ساتھ  قدم بڑھانے کی وجہ سے  اسی طرح  عزاداری  ومرثیہ خوانی  وخطابت  ۔ تمام چیزوں  میں  اخلاص ہونے کی وجہ سے قیام عاشورا نے تا صبح قیامت رہنا ہے ان شاء اللہ


د: چونکہ  اخلاص ہی حماسہ حسینی کا اساسی رکن تھا اس  لیے کوئی چیز  امام حسین ع اور انکے اصحاب کی شھادت کی راہ میں رکاوٹ نہ بن  سکیں ۔  

8۔  قیام فقط خدا کے لیے ہونے کا پیغام

حماسہ افرین  عاشورا کا ایک پیغام یہ ہےکہ قیام  امام حسین ع  فقط خدا کے لیے تھا  
الف: کوئی بھی شخص خدا کے لیے قیام کرے  تو اسکا  تمام ہم وغم  صرف اپنی تکلیف پر عمل کرنا اور خدا کی رضایت کو حاصل کرنا ہے ۔
خلاصہ ہمیں کربلا سے درس لینا چاہیے  کہ ہم اپنے تمام کاموں میں اخلاص کے  ساتھ ھمیشہ  قدم بڑھانے کی کوشش کریں  ۔   
____________________
1  - ابیاتی برگزیدہ از اشعار مثنوی مولانا
 2 الر شھری ، میزان الحکمت 2 ص 170   
3   سورہ الرعد آیة 28
4  بقرة آیة 156
5  -  دا ئرت المعارف  تشیع  1372  دکتر احمد صدر


 منابع وحوالہ :

قرآن کریم
1-     اعلام الھدایۃ  مھدی  پیشوائی                                                                       
2- دا ئرت المعارف  تشیع  1372  دکتر احمد صدر
3-  زندگانی امام حسین ع  (علی اصغر ہمدانی)    
4   -لہوف سید ابن طاووس                                                                                                                                            
5-میزان الحکمت  الری شھری
6- منتہی الامال شیخ عباس قمی
7-نفس المہموم شیخ عباس قمی  

اشرف حسین صالحی  

ایران نے پاکستان میں جلوس عزا کے دوران ہوئے دہشتگردانہ حملے کی مذمت کی ہے۔

ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے پاکستان کے صوبے پنجاب میں عزاداران حسینی پر ہوئے بہیمانہ حملے کی سخت مذمت کرتے ہوئے متاثرہ افراد اور خاندانوں کے ساتھ اپنا قلبی اظہار ہمدردی کیا۔

خطیب زادہ نے کہا کہ اس قسم کے غیر انسانی اور دہشگردانہ اقدامات کا بہر شکل ممکن سد باب ضروری ہے اور اس کے لئے انہوں نے تمام علاقائی ممالک سے اپیل کی کہ وہ مستقل بنیادوں پر اس قسم کے اقدامات کی منصوبہ بندی، مالی امداد اور حمایت کرنے والوں کے خلاف آپسی تعاون کا آغاز کریں۔

خیال رہے کہ پاکستان کے صوبے پنجاب کے بھاول نگر علاقے میں دہشتگردوں نے دستی بموں سے عزادارن سید الشہدا امام حسین علیہ السلام کو نشانہ بنایا جس میں کم از کم تین افراد کے شہید اور پچاس زخمی ہوگئے۔

عینی شاہدین کے مطابق دہشت گردوں نے مسجد جامعہ الزھراہ سے برآمد ہونے والے جلوس میں شریک عزاداروں پر کئی طاقتور دستی بم پھنکے۔ چند روز قبل بھی دہشت گردوں نے مسجد جامعہ الزھرا پر حملے کی کوشش کی تھی۔ 
اس دہشتگردانہ اقدام کی پاکستان کی سبھی سیاسی و مذہبی جماعتوں نے مذمت کی ہے۔

لبنان کے لئے ایرانی ایندھن کے حامل بحری جہازوں کی روانگی کے بارے میں حزب اللہ لبنان کے سربراہ کے بیان کا سوشل میڈیا پر لبنان کی مشہور سیاسی اور دیگر شخصیات نے خیرمقدم کیا ہے۔

فارس خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق سید حسن نصراللہ نے اپنے ایک خطاب میں اعلان کیا ہے کہ ایندھن کے حامل ایرانی تیل بردار بحری جہاز لبنان کے لئے روانہ ہو رہے ہیں۔انھوں نے ان جہازوں کو جارحیت کا نشانہ بنانے کی کوشش کے سلسلے میں امریکہ و اسرائیل کو سخت خبردار کرتے ہوئے تاکید کی کہ لبنان کی تحریک مزاحمت ان بحری جہازوں کو اپنے سے متعلق سمجھتی ہے۔

لبنان کے لئے ایرانی ایندھن کے حامل بحری جہازوں کی روانگی کے بارے میں حزب اللہ لبنان کے سربراہ کے بیان کا، سوشل میڈیا پر خیرمقدم کیا گیا ہے اور صرف چند مغرب نواز گروہوں نے ہی اس خبر پر اپنی مخالفت ظاہر کی ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ سوشل میڈیا کے بیشتر لبنانی صارفین نے اس خبر کا ہیش ٹیگ ٹرینڈ کرتے ہوئے حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصراللہ اور ایران کی جانب سے لبنان کی مدد کے لئے ایندھن کے حامل بحری جہاز روانہ کئے جانے کی قدردانی کی ہے۔

واضح رہے کہ لبنان، گذشتہ ایک سال سے سیاسی و اقتصادی بحران سے دوچار ہے اور اس ملک میں ایندھن کا مسئلہ اس حد تک سخت بن چکا ہے کہ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ جنوبی لبنان کے مختلف علاقوں اور اسپتالوں کی بجلی کی سپلائی منقطع ہو گئی ہے

 حضرت ابو الفضل العباس علیہ السلام  4 شعبان العمظم سن 26 ہجری قمری میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ آپ حضرت علی علیہ السلام اور حضرت ام البنین کے فرزند  نیز"ابوالفضل" اور "علمدار کربلا" کے نام سے مشہور ہیں۔

حضرت عباس،شیعوں  کے نزدیک،آئمہ (ع) کی اولاد میں اعلی ترین مقام و مرتبہ رکھتے ہیں اور اسی اعلی مرتبت کی بنا پرمحرم کا نواں دن آپ سے مختص کیا گیا ہے اور اس روز حضرت عباس(ع) کی عزاداری کی جاتی ہے۔ شیعہ مصادر و منابع میں آپ سے متعلق بہت سی کرامات نقل ہوئی ہیں۔ اسی طرح آپ کو ادب، شجاعت اور سخاوت کا مظہر، وفا کا پیکر اور امام معصوم کی اطاعت میں نمونۂ کاملہ سمجھا جاتا ہے۔آپ کو نہایت خوش چہرہ نوجوان ہونے کے ناطے قمربنی ہاشم کا لقب دیا گیا ہے۔ آپ کربلا میں اپنے بھائی حسین بن علی (ع)  کی سپاہ کے علمدار اور سقا تھے اسی بنا پرشیعیان اہلبیت (ع)  کے درمیان علمدار کربلا اور سقا‏ئے دشت کربلا کے لقب سے مشہور ہیں۔ حضرت ابو الفضل العباس علیہ السلام اسلامی تاریخ کی پیشانی پر ایک عظیم ترین رہنما اوربہادر ترین جرنیل کی صورت میں ابھر کر سامنے آئے۔
مؤرخین کا بیان ہے کہ میدان کربلا میں جب بھی حضرت عباس علیہ السلام دشمن کی فوجوں پر حملہ کرتے تو ہر سامنے آنے والا موت کے گھاٹ اترتا اور فوجی خوف اور دہشت سے ایک دوسرے کو کچلتے ہوئے یوں بھاگتے جیسے سب کو یقین ہو کہ موت ان کے پیچھے آرہی ہے اور ان کی کثرت ان کو کوئی فائدہ نہ پہنچا سکتی۔
حضرت عباس علیہ السلام کی شجاعت وبہادری اور ہر فضیلت و کمال فقط مسلمانوں کے لئے باعث فخر نہیں ہے بلکہ ہر وہ انسان جس کے اندر معمولی سی بھی انسانیت ہے وہ جناب عباس علیہ السلام کے فضائل و کمالات پہ ایمان رکھنے پہ فخر محسوس کرتا ہے اور اپنے آپ کو جناب عباس علیہ السلام کا عقیدت مند کہنا اپنے لئے باعث افتخار سمجھتا ہے۔
حضرت عباس علیہ السلام عظیم ترین صفات اور فضائل کا مظہر تھے شرافت ، شہامت ، وفا ، ایثار اور دلیری کا مجسم نمونہ تھے۔ واقعہ کربلا میں جناب عباس علیہ السلام نے مشکل ترین اور مصائب سے بھرے لمحات میں اپنے آقاومولا امام حسین علیہ السلام پر اپنی جان قربان کی اور مکمل وفا داری کا مظاہرہ کیا اور مصائب کے پہاڑوں کو اپنے اوپر ٹوٹتے ہوئے دیکھا لیکن ان کے عزم وحوصلہ، ثابت قدمی اور وفا میں ذرا برابر بھی فرق نہ پڑا اور یہ ایک یقینی بات ہے کہ جن مصائب کا سامنا جناب عباس علیہ السلام نے کیا ان پر صبر کرنا اور ثابت قدم رہنا فقط اس کے لئے ہی ممکن ہے کہ جو خدا کا مقرب ترین بندہ ہو اور جس کے دل کو خدا نے ہر امتحان کے لئے مضبوط بنا دیا ہو۔
حضرت عباس علیہ السلام نے اپنے بھائی حضرت امام حسین علیہ السلام کی خاطر جتنی بھی قربانیاں دیں وہ اس لئے نہیں تھیں کہ امام حسین علیہ السلام ان کے بھائی ہیں بلکہ حضرت عباس علیہ السلام نے امام حسین علیہ السلام کو اپنا حقیقی امام، خدائی نمائندہ اور عین اسلام سمجھتے ہوئے ان کی خاطرتمام تر مصائب و مشکلات کو برداشت کیا اور اپنی جان ان پر قربان کر دی اور اس بات کا انھوں نے کئی بار اظہار بھی کیا اور یہی وجہ ہے کہ حضرت عباس علیہ السلام جب بھی امام حسین علیہ السلام کو پکارتے یا ان کا ذکر کرتے تو انھیں بھائی کی بجائے اپنا مولاو آقا اور امام کہتے۔ پس ادب کا کوئی ایسا رنگ نہیں جو حضرت عباس علیہ السلام نے امام حسین علیہ السلام کے حق میں اختیار نہ کیا ہو، کوئی ایسی نیکی نہیں جو انہوں نے امام حسین علیہ السلام کے ساتھ نہ کی ہو، کوئی ایسی قربانی نہیں کہ جو انہوں نے اپنے آقا امام حسین علیہ السلام کے قدموں پر نچھاور نہ کی ہو۔ جانثاری وفا،اور ایثار کی وہ مثال قائم کی جس کی نظیر تاریخ بشریت میں نہیں مل سکتی، جب حضرت عباس علیہ السلام نے تن و تنہا ہزاروں کے لشکر پر حملہ کر کے فرات کو دشمن سے خالی کیا تو تین دن کی پیاس اور شدید جنگ کرنے کے باوجود بھی فقط اس لیے پانی نہ پیا کہ امام حسین علیہ السلام اور ان کے بچے اور اہل و عیال پیاسے تھے جناب عباس علیہ السلام کی وفا و غیرت یہ برداشت نہیں کر سکتی تھی کہ امام حسین علیہ السلام اور ان کے اہل و عیال تو پیاسے ہوں اور وہ پانی پی لیں لہٰذا اپنے آقا اور بچوں کی پیاس کو یاد کرکے بہتے دریا سے پیاسے واپس آئے۔ دنیا کی پوری تاریخ کو ورق ورق چھاننے سے بھی اس طرح کی وفا کی نظیر نہیں مل سکتی کہ جس کا مظاہرہ جناب عباس علیہ السلام نے میدانِ کربلا میں کیا۔
جناب عباس علیہ السلام نے ان بلند ترین مقاصد اور عظیم ترین اصولوں کی خاطر شہادت کو گلے لگایا کہ جن کی خاطر امام حسین علیہ السلام نے قیام کیا تھا پس جناب عباس علیہ السلام نے انسانیت کی آزادی،عدل و انصاف کے فروغ، لوگوں کی فلاح و بہبود، قرآنی احکام کی نشر و اشاعت اور پوری انسانیت کو ذلت کے گڑھے سے نکال کرعزت و شرف اور سعادت دلانے کے لیے اپنے بھائی و آقا امام حسین علیہ السلام کی طرح شہادت کو اختیار کیا ۔
جناب عباس علیہ السلام نے حریت و آزادی اور کرامت و شرف کی مشعل روشن کی اور عزت و سعادت کے میدان میں اترنے والے شہداء کے قافلوں کی قیادت کی اور ظلم و جور کی چکی میں پسنے والے مسلمانوں کی مدد و نصرت کو اپنا فریضہ سمجھا۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران میں طبی دستورات کی رعایت کے ساتھ کربلا کے شہیدوں کی یاد میں مجالس اور جلوس عزا کا سلسلہ جاری ہے۔ آج ایران بھر میں علمدار کربلا حضرت ابو الفضل العباس (ع) کی یاد میں علم اور تعزیے نکالے جارہے ہیں ۔ حضرت ابو الفضل العباس،حضرت علی (ع) کے فرزند اور امام حسن (‏ع)و امام حسین (‏ع) کے بھائی تھے۔میدان کر بلا میں امام عالی مقام نے آپ کو اپنے لشکر جرار کا سپہ سالار بنایا تھا حضرت عباس (ع) کی جرأت،بہادری اور وفا کو خراج عقیدت پیش کر نے کیلئے آج عزاداروں نے جلوس علم  اور تعزیہ بر آمد کئے حضرت عباس اپنے باپ حضرت علی (ع)  کی طرح نہایت جری اور بہادر تھے،کربلا میں موجود تمام مردو خواتین اور بچوں کو آپ سے بڑی ڈھارس تھی۔ آپ اہلبیت کے پیاسے بچوں  کی پیاس بجھانےکے لئے فرات پر پانی لانے کی غرض سے گئے تھے آپ نے فرات سے یزیدی فوج کو شکست دیکر فرات پر قبضہ کرکے مشکیزہ میں پانی بھر لیا اور اب پانی کو لیکر خمیہ کی طرف گھوڑے کو ایڑھ لگائی لیکن کمین میں بیٹھے ہوئے یزیدیوں نے آپ کے دونوں بازؤں پر وار کرکے قلم کردیا حضرت عباس نے مشک سکینہ کو اپنے دانتوں میں دبا لیا اور اپنے ہاتھوں کی پروا کئے بغیر خیمہ کی طرف رواں دواں تھے کہ ناگاہ دشمن کا ایک تیر مشک پر لگا اور پانی بہہ گیا ایک تیر آنکھ میں پیوست ہوگیا اور شیر خدا کا شیر گھوڑے پر نہ سنبھل سکا گھوڑے سےزمین پر گرے بھائی کو آواز دی  امام حسین (ع) کی کمر اور پیاسے بچوں کی ڈھارس ٹوٹ گئی اور عباس علمدار اپنے بھائی کی آغوش میں شہید ہوگئے۔

کربلا وہ بیداری کی تحریک ہے، جو بہن اور بھائی نے آج سے چودہ سو سال پہلے شروع کی تھی۔ کربلا دراصل قوموں کے اندر مری ہوئی روح کو زندہ کرنے کا نام ہے۔ کربلا اسلام کا روشن چہرہ ہے، جو ہر دور کے فرعون، شمر اور یزید جیسوں کی غلاظت کو صاف کرتا ہے۔ یہ بیداری کی تحریک آج بھی جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گی۔ آج کا باشعور انسان حسینؑ سے غیرت کا درس حاصل کر رہا ہے۔ کربلا وہ واحد جنگ تھی، جس کا مفتوحہ علاقہ مخصوص نہیں بلکہ دنیا میں جہاں بھی زندہ ضمیر لوگ زندہ ہیں، وہ حسین ابن علی کو اپنا ہادی، رہبر اور پیشوا تسلیم کرتے ہیں۔
ہم اپنے مضمون کی طرف واپس آتے ہیں کہ ہر عصر یعنی زمانے کو کربلا اور حسین  ابن علی کی تلاش رہتی ہے، وہ اس لیے کہ حسین روشن فکر، بے مثال تہذیب اور عالم گیر ثقافت کا بچانے والا ہے۔

اُس وقت جب یزید برسر اقتدار آیا تو اس نے روح اسلام کو مارنے کی بہت کوشش کی، یعنی کہ اسلام  رہے اور اس کی اصل ختم ہو جائے۔ جس کے لیے اس نے عمر سعد، شمر اور سنان ابن انس جیسے لوگ خریدے۔  یہ وہ لوگ تھے، جو ظاہری طور پر مسلمان تھے، مگر ان کے اندر روح اسلام نہ تھی۔ اس طرح یزید نے پورے معاشرے میں اسلام کی مثالی صورت خراب کرنے کی کوشش شروع کی اور یزید کا اقتدار بھی اس صورت میں قائم رہ سکتا تھا کہ وہ روح دین میں سے روح نکال دے اور کھوکھلا دین اس کے اقتدار میں رکاوٹ نہ ہو، یعنی 61 ہجری میں نماز تھی، مگر روح نماز نہ رہی تھی۔ حج ادا ہو رہا تھا مگر فقط رسومات کی حد تک اور باقی احکام دین کا بھی یہی حال تھا۔

 یہ وہ معاشرہ تھا، جس میں امام حسین علیہ السلام نے اپنے لہو سے روح دین کو زندہ کیا، یعنی دین کی اس حقیقی شکل کو پھر سے زندہ کیا، جسے حسین کے نانا لیکر آئے تھے، یعنی وہ قومیں جنہوں نے حسین کو مدینے سے جاتا دیکھا تھا، مگر ساتھ نہ دیا اور وہ کوفہ جو خط لکھ کر پیچھے ہٹ گیا تھا، امام کے خون سے بیدار ہوا اور ظالم کے آگے قیام پر آمادہ ہوگیا۔ حسین کے وہ ساتھی جو مقتل حسین میں تو نہ آسکے، مگر انہوں نے توابین کی شکل میں پھر انقلاب حسینی کے نام سے اپنی تحریک شروع کی۔ اسی طرح بعد میں یہ بیداری کی تحریک رواں دواں رہی۔

اگر اسی پس منظر میں آج کے زمانے کی طرف نظر کی جائے تو یہاں بھی سب کچھ ویسا ہی ہے، یعنی نماز ہے، مگر روح نماز نہیں، روزہ ہے تو روح روزہ نہیں۔ حج تو ہے مگر حج ابراہیمی نہیں ہے، یعنی کہ وہ ساری رسومات تو ہیں، مگر ان کے اندر روح نہیں ہے، یعنی سب کچھ ظاہری حد تک تو ٹھیک ہے، مگر اندر سے ہر احکام دین کھوکھلا ہوچکا ہے۔ اس لئے ہر عصر یعنی زمانے کی روح کو زندہ رکھنے کے لئے کربلا اور حسین ابن علی کی ضرورت رہتی ہے۔ بقول شاعر  
 یزید آتا رہے گا ہر اک زمانے میں
 زمانہ کہتا رہے گا حسین زندہ باد

تحریر: مہر عدنان حیدر

صدیوں سے سانحہ کربلا اور قیام امام حسین علیہ السلام کے بارے مختلف انداز میں تجزیئے کئے جا رہے ہیں، جن میں اس کے علل و اسباب، پس منظر، اہداف و مقاصد وغیرہ پر بحث و مباحثہ جاری ہے۔ یزید بن معاویہ کی بیعت سے انکار کے بعد 28 رجب 60 ہجری کو مدینہ سے روانگی سے لے کر 10 محرم 61 ہجری کربلا میں شہادت تک امام عالی مقامؑ نے اپنے اس قیام کے حوالے سے متعدد خطوط تحریر فرمائے۔ کئی مقامات پر خطاب فرمایا، جس کی تفصیل بہت طویل ہے۔ ان چند سطور میں امامؑ کے چند خطوط و خطبات، کلمات کے اقتباسات پیش کیے جاتے ہیں، جس سے تاریخ اسلام کے اس بے مثال قیام و سانحہ کے کئی پہلو واضح ہوتے ہیں۔

آخر رجب 60 ہجری میں حاکم مدینہ کی طرف سے یزید کی بیعت کے اصرار پر امام حسینؑ نے اپنا دوٹوک موقف ان الفاظ میں بیان فرمایا ”ہم اہلبیت نبوت، معدن رسالت، فرشتوں کی آمد و رفت کے اعزاز کے حامل ہیں، جبکہ یزید ایک فاسق، شراب خوار، بے گناہوں کا قاتل اور سرعام گناہ کرنیوالا ہے۔ مجھ جیسا اس جیسے کی ہرگز بیعت نہیں کر سکتا۔“ اس موقع پر مروان بن حکم نے بھی بیعت کیلئے مطالبہ کیا تو آپ نے مزید فرمایا ”امت اسلامی پر جب یزید جیسا حاکم مسلط ہو جائے تو اسلام پر فاتحہ پڑھ لی جائے۔“

قیام کا مقصد:
مدینہ سے روانگی سے قبل اپنے بھائی جناب محمد بن حنفیہ کے نام خط میں لکھا ”میں فتنہ و فساد برپا کرنے یا اپنی شہرت کیلئے نہیں بلکہ اپنے جد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے امور کی اصلاح کیلئے نکل رہا ہوں۔ میں نے نیکیوں کا حکم دینے، برائیوں سے روکنے اور اپنے جد بزرگوار اور والد علی ابن ابی طالب کی سیرت کی پیروی کرنے کا ارادہ کر لیا ہے۔‘‘ مکہ پہنچ کر بصرہ کے عمائدین کے نام آپ کے خط کا ایک اہم جملہ یہ تھا ”سنت رسول (ص) کو پس پشت ڈال دیا گیا، ایک کے بعد دوسری بدعت ظاہر ہو رہی ہے۔ میں تمہیں کتاب خدا اور سنت رسول (ص) پر عمل کرنے کی دعوت دیتا ہوں۔“ اس دوران کوفہ سے بارہ ہزار کے قریب خطوط امام حسینؑ کو ملے، جن میں آپ کو کوفہ تشریف لانے کی درخواست کی گئی تھی، تاکہ لوگ آپ کی بیعت کریں۔ آپؑ نے ان سب کے جواب میں ایک مختصر خط تحریر فرمایا۔

”حسینؑ بن علیؑ کی طرف سے مسلمانوں اور مومنوں کی ایک جماعت کے نام‘‘
اما بعد: ہانی و سعید تمہارے خطوط لے کر میرے پاس پہنچے۔ تم نے لکھا کہ ہمارا کوئی امام و رہبر نہیں، ہمارے پاس آنے میں جلدی کیجئے، ہوسکتا ہے کہ خدائے متعال آپ کے ذریعے ہمیں راہ حق کی ہدایت کر دے۔ میں اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کو جو کہ میرے معتمد ہیں، تمہارے پاس بھیج رہا ہوں۔ اگر انہوں نے مجھے اطلاع دی کہ اہل فضل و عقل تمہارے خطوط اور تمہارے قاصدوں کے پیغام کی تائید کرتے ہیں تو میں عنقریب تمہارے پاس پہنچ رہا ہوں، ان شاء اللہ۔۔ قسم اپنی جان کی، امام صرف وہ ہے جو کتاب خدا سے حکم کرتا ہے، عدل اختیا کرتا ہے، دین خدا کو قبول کرتا ہے اور خود کو رضائے خدا کیلئے وقف کر دیتا ہے۔

چند ماہ بعد جب امام کے قافلہ کی مکہ سے عراق روانگی کی مدینہ اطلاع پہنچی، تو آپ کے قریبی عزیز جناب عبداللہ بن جعفر نے خط کے ذریعے اس سفر سے رکنے کی التجا کی اور قتل ہو جانے کا خدشہ ظاہر کیا۔ آپؑ نے جواب میں لکھا ”اپنے نانا رسول خدا کو خواب میں دیکھا ہے، انہوں نے مجھے اس چیز کے بارے خبر دی ہے۔ مجھے اس کی انجام دہی کی کوشش کرنی چاہیئے، خواہ اس میں میرا فائدہ ہو یا نقصان۔ بھائی! اگر میں چیونٹی کے سوراخ میں بھی چلا جاﺅں، تب بھی یہ بنی اُمیہ باہر نکال کر قتل کر دیں گے۔ خدا کی قسم وہ مجھ پر اسی طرح ظلم و ستم روا رکھیں گے، جس طرح یہودیوں نے ہفتہ کے دن روا رکھے تھے۔“ امام عالی مقامؑ کا قافلہ عراق کی طرف بڑھ رہا تھا کہ حر کے لشکر نے پیشقدمی سے روک دیا۔

امام حسینؑ ان سے یوں مخاطب ہوئے ”لوگو! خدا سے ڈرو! پرہیزگار بن جاﺅ اور حق کو ان افراد کے اختیار میں دو، جو اس کے اہل ہیں، اس طرح خدا کو خوشنود کرو، اس لحاظ سے ہم اہلبیت تمہارے ولی بننے کے ان لوگوں سے زیادہ مستحق ہیں، جو اس کے مدعی ہیں، وہ تمہارے ساتھ عدل سے پیش نہیں آتے اور تمہارے حق میں ظلم کرتے ہیں۔ اگر تم ہمارے لئے ایسے حق کے قائل نہیں ہو اور ہماری اطاعت نہیں کرنا چاہتے اور تمہارے خط اور قول میں یکسانیت نہیں تو میں یہیں سے واپس پلٹ جاﺅں گا۔“ پھر فرمایا ”کیا تم نہیں دیکھتے کہ لوگ حق پر عمل نہیں کرتے اور باطل سے پرہیز نہیں کرتے۔ ایسے میں مومن کو خدا سے ملاقات کا مشتاق ہونا ہی چاہیئے۔ میں موت کو سعادت اور ظالموں کیساتھ زندہ رہنے کو ننگ و عار سمجھتا ہوں۔“

لشکر حر سے ایک اہم خطاب:
کچھ منزلیں طے کرنے کے بعد ایک بار پھر لشکر حر کو خطاب فرمایا ”لوگو! رسول (ص) نے فرمایا کہ جو شخص ظالم بادشاہ کو خدا کی حلال کردہ چیزوں کو حرام اور حرام چیزوں کو حلال قرار دیتے، خدا کے عہد کو توڑتے، سنت خدا کی مخالفت کرتے اور خدا کے بندوں پر ظلم روا رکھتے ہوئے دیکھے اور قول و فعل سے اس کی مخالفت نہ کرے تو اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ بنی اُمیہ نے شیطان کے حکم کے تحت خدا کی اطاعت سے روگردانی کر لی ہے، فساد پھیلا رہے ہیں، خدا کی حدود کا کوئی پاس و لحاظ نہیں کرتے۔ بیت المال کو اپنے لئے مخصوص کر لیا ہے۔ خدا کے حلال کو حرام اور حرام کو حلال سمجھ لیا ہے۔ انہیں ان بدکاریوں سے روکنے کا میں خود کو زیادہ اہل سمجھتا ہوں۔“

اسی سفر میں جب مشہور شاعر فرزدق نے آپ کو متوجہ کیا کہ لوگوں کے دل آپ کے ساتھ مگر تلواریں بنو اُمیہ کیساتھ ہیں تو آپ نے یہ حکیمانہ کلمات ارشاد فرمائے ”لوگ دنیا کے بندے ہیں، اس وقت تک دین کا دم بھرتے ہیں، جب تک ان کی دنیا بنی رہے۔ جب کوئی آزمائش، امتحان درپیش ہو تو سچے دیندار کم رہ جاتے ہیں۔“ دوران سفر آپ سے یہ شعر بھی منسوب ہے کہ ”اگر محمد (ص) کا دین میرے قتل کے بغیر نہیں قائم رہ سکتا تو اے تلوارو مجھ پر ٹوٹ پڑو۔“

روزِ عاشور چند اہم خطاب
شبِ عاشور امام حسینؑ نے دو دن کی پیاس کے باوجود اپنے اہلبیت و اصحاب کے ہمراہ دعا، تلاوت قرآن و عبادت میں گزاری۔ 10 محرم کی نماز فجر کے بعد جنگ کا آغاز ہوا۔ امام حسین علیہ السلام نے اپنا گھوڑا طلب کیا، سوار ہوئے اور بلند آواز میں عمر بن سعد کے لشکر سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا "لوگو! میری بات سنو! جنگ کرنے میں اس وقت تک عجلت نہ کرو، جب تک کہ میں تمہیں اس چیز کی نصیحت نہ کر دوں، جس کا ادا کرنا میرے اوپر فرض ہے۔ میں تمہارے سامنے حقیقت بیان کئے دیتا ہوں۔ اگر انصاف سے کام لو گے تو خوش بخت ہو جاﺅ گے اور اگر قبول نہیں کرو گے اور حق و انصاف کی راہ سے کنارہ کشی کرو گے اور اپنے ارادہ کو عملی جامہ پہناﺅ گے اور ہم سے جنگ کرو گے تو خدا میرا آقا و مولا ہے کہ جس نے قرآن نازل کیا اور نیکو کاروں کے اختیار میں دے دیا۔

لوگو! میرا نسب یاد کرو، سوچو میں کون ہوں؟ ہوش میں آﺅ اپنے نفسوں پر ملامت کرو اور غور کرو کیا مجھے قتل کرنا اور میری حرمت پامال کرنا تمہارے لئے روا ہے۔؟ کیا میں تمہارے نبی کی بیٹی کا بیٹا اور رسول کے وصی کا فرزند اور آنحضرت کے ابن عم کا پسر نہیں ہوں؟ کیا میں اس کا نور چشم نہیں ہوں، جو سب سے پہلے ایمان لایا اور رسول کی ان باتوں کی تصدیق کی جو وہ خدا کی طرف سے لائے تھے۔ کیا سید الشہداء حضرت حمزہ میرے چچا نہیں ہیں؟ کیا جعفر طیار کہ جنہیں خدا نے دو پر عطا کئے ہیں، جن کے ذریعے وہ بہشت میں پرواز کرتے ہیں، وہ میرے چچا نہیں ہیں؟ کیا تم نہیں جانتے کہ رسول خدا نے میرے اور میرے بھائی کے بارے میں فرمایا ہے یہ دونوں جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔ جابر بن عبداللہ انصاری، ابو سعید خدری، سہیل بن سعد ساعدی، زید بن ارقم اور انس بن مالک سے پوچھ لو وہ تمہیں بتائیں گے کہ رسول سے کیا سنا ہے۔ اس سے میری باتوں کی تصدیق ہو جائے گی، آیا یہ گواہیاں تمہیں میرا خون بہانے سے باز نہیں رکھتی ہیں۔؟"

جب عمر بن سعد امام حسین ؑ سے جنگ کیلئے اپنی فوج کو تیار کرچکا، پرچم گاڑ دیئے اور فوج کا میمنہ و میسرہ منظم کرچکا، تو قلب لشکر کے سپاہیوں سے کہا ثابت قدم رہو اور امام حسین ؑ کو چاروں طرف سے گھیر لو، اسی وقت امام حسین ؑ فوج کوفہ کے سامنے کھڑے ہوئے اور فرمایا "خاموش ہو جاﺅ " لیکن وہ خاموش نہ ہوئے آپ نے ان سے فرمایا "خدا تمہیں سمجھے، اگر تم میری بات سن لو گے تو تمہارا کیا بگڑ جائے گا؟ میں تمہیں صراط مستقیم کی طرف بلاتا ہوں، جو میری اطاعت کرے گا، وہ ہدایت پا جائے گا اور جو میری نافرمانی کرئے گا، وہ ہلاک ہوگا۔ تم سب میرے فرمان سے سرکشی کرتے ہو اور میری باتوں پر کان نہیں دھرتے، کیونکہ تمہارے پیٹ حرام مال سے بھرے ہوئے ہیں اور تمہارے دلوں پر بدبختی و شقاوت کی مہر لگ چکی ہے۔ وائے ہو تم پر! کیا تم خاموش نہیں ہو گے اور میری بات نہیں سنو گے؟"

اس پر عمر بن سعد کے ساتھیوں نے آپس میں ایک دوسرے پر ملامت کی اور کہنے لگے ان کی بات سنو! جب دشمن کی فوج خاموش ہوگئی تو امام ؑ نے فرمایا: "اے گروہ! خدا تمہیں ہلاکت و مصیبت میں مبتلا کرے، تم نے ہمیں فریاد و عاجزی سے پکارا، تاکہ ہم تمہاری فریاد کو پہنچیں اور ہم جلدی سے تمہاری فریاد رسی کیلئے آگئے تو تم نے وہی تلوار ہمارے اوپر کھینچ لی، جو ہم نے تمہارے ہاتھ میں دیدی تھی اور تم نے وہی آگ ہمارے لیے بھڑکائی، جو ہم نے اپنے اور تمہارے دشمنوں کیلئے روشن کی تھی۔ اپنے دوستوں سے جنگ اور اپنے دشمنوں کی نصرت کیلئے کھڑے ہوگئے ہو، اگرچہ نہ وہ تمہارے درمیان انصاف کرتے ہیں اور نہ تم ان سے کسی بھلائی کی توقع رکھتے ہو اور یہ سب اس صورت میں ہے کہ ہم سے ایسی کوئی چیز صادر نہیں ہوئی کہ جس کی پاداش میں ہم سے ایسی دشمنی کی جائے اور ہم پر حملہ کیا جائے۔ خدا تمہیں سمجھے، ہمیں اس وقت کیوں پریشان کیا، جب تلواریں غلاف میں تھیں اور دلوں کو سکون تھا۔ مکھیوں کی مانند فتنہ کی طرف اڑے اور پروانوں کی طرح ایک دوسرے کی جان کی فکر میں پڑ گئے۔

کنیز کی اولادو! گروہوں کے پسماندگان! کتاب خدا سے منہ پھیرنے والو! خدا کی آیات میں تحریف کرنے والو! سنت رسول کو فراموش کرنیوالو! انبیاء کی اولاد اور ان کے اوصیاء کی عترت کو تہ تیغ کرنے والو! مجہول النسب کو صاحبان نسب سے ملحق کرنے والو! مومنوں کو آزار پہنچانے والو اور قرآن کو پارہ پارہ کرنے والو! کفار کا ڈھنڈورا پیٹنے والو! خدا تمہیں غارت کرے، خدا کی قسم بیوفائی اور پیمان شکنی تمہاری عادت ہے، تمہارا خمیر مکر و بیوفائی سے آمیختہ ہے، اس کے مطابق تمہاری پرورش ہوئی ہے، تم بدترین میوہ ہو، اپنے باغبان کیلئے گلے کی ہڈی، راہزنوں اور غاصبوں کیلئے خوش مزہ۔ خدا لعنت کرے ان پیمان شکن لوگوں پر جنہوں نے محکم شدہ میثاقوں کو توڑ دیا۔ تم نے خدا کو اپنا کفیل قرار دیا تھا، خدا کی قسم وہ پیمان شکن تم ہی ہو۔ آج ولدالزنا ابن ولدالزنا (عبید اللہ بن زیاد) نے مجھے دو چیزوں کے درمیان لاکھڑا کیا ہے، تلوار کھنچنے یا ذلت قبول کرنے کا، میں ہرگز ذلت قبول نہیں کروں گا۔ خدا اور اس کا رسول اور مومنین ہرگز ذلت پسند نہیں کرتے، ہماری پرورش کرنے والے پاک دامن، بیدار مغز اور غیرتمند ہیں، ہم ہرگز پست و کمین کی اطاعت نہیں کریں گے۔ اس مختصر جماعت کیساتھ میں تم سے جنگ کروں گا اگرچہ مجھے مدد گاروں نے تنہا چھوڑ دیا ہے۔"

اس کے بعد آپ نے کچھ اشعار پڑھے کہ جن کا ترجمہ یہ ہے "اگر ہم کامیاب ہوتے ہیں تو یہ کوئی نئی بات نہیں، ہم تو ایک زمانہ سے کامیاب ہیں اور اگر مغلوب ہوتے ہیں تو بھی ہم مغلوب نہیں ہیں، ڈرنا ہماری عادت نہیں، لیکن دوسرں کی بدولت قتل ہونا ہماری عادت ہے۔ اے کفران پیشہ لوگو! خدا کی قسم میری شہادت کے کچھ دنوں بعد ہی، اتنی ہی دیر بعد کہ جتنی دیر میں ایک سوار اپنے گھوڑے پر سوار ہوتا ہے، زمانہ تمہیں چکی کے پاٹوں کی طرح پیس دے گا اور تم کو خوف و ہراس کے دریا میں ڈبو دے گا۔ یہ وعدہ میرے والد نے میرے جد کی طرف سے مجھ سے کیا ہے، تم اپنی اور اپنے ساتھیوں کی رائے کے بارے میں ایک بار پھر غور کرو، تاکہ تم زمانہ کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رہ سکو، میں نے تو اپنا معاملہ خدا پر چھوڑ دیا ہے، میں جانتا ہوں کہ خدا کی قدرت بالغہ کے بغیر روئے زمین پر کسی چیز کو حرکت نہیں ہوتی۔

اے اللہ! اس قوم کو آسمان کی بارش سے محروم کر دے، انہیں یوسف کے قحط جیسے قحط میں مبتلا کر دے اور ان پر ثقفی غلام کو مسلط کر دے کہ وہ انہیں زہر کے جام پلائے۔ میرا، میرے اہلبیت ؑ، میرے اصحاب اور میرے شیعوں کا ان سے انتقام لے کہ انہوں نے ہمیں جھٹلایا اور ہمیں بے یار و مددگار چھوڑ دیا۔ تو ہی ہمارا پروردگار ہے، ہم تجھ ہی سے لو لگائے ہیں، تجھ ہی پر توکل کرتے ہیں اور تیری ہی طرف ہماری بازگشت ہے۔“ پھر یزیدی لشکر کے سپہ سالار عمر بن سعد سے فرمایا؛ ”تم مجھے قتل کرو گے؟ تم یہ سمجھتے ہو کہ عبیداللہ بن زیاد تمہیں ”رے“ کی حکومت بخش دے گا؟ خدا کی قسم! تمہاری یہ آرزو ہرگز پوری نہ ہوگی۔ جو چاہو کرو، میرے بعد تم نہ دنیا میں خوش رہو گے اور نہ آخرت میں، گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ کوفہ میں تمہارا سر نیزہ پر نصب ہے اور بچے اس کا نشانہ لے رہے ہیں۔"

تحریر: حافظ سید ریاض حسین نجفی
صدر وفاق المدارس الشیعہ پاکستان

جنوبی افریقہ ایک عیسائی ملک ہے جس کی پانچ کروڑ آبادی میں ساڑھے چھ لاکھ  لوگ مسلمان ہیں۔ لیکن زمین کے جنوبی نیم دائرے کی سب سے بڑی مسجد میڈرانڈ شھرجوہانسبرگ اورپریٹوریا کے درمیان  ایک ایسی پہاڑی پر موجود ہے جو مشھور سڑک NI کے کنارے واقع ہے ۔  یہ مسجد ان لوگوں کو اپنی جانب جذب کرتی ہے جو  آئے دن  پری ٹوریا سے جوہانسبرگ کے درمیان سفر کرتے رہتے ہیں ۔

مسجد نظامیہ اپنی خوبصورتی کے علاوہ رات کے وقت بھی خاص خوبصورت  روشنیوں کے ذریعے اور بھی خوبصورت اور دل ربا نظر آتی  ہےاور ہر دیکھنے والے کی نظروں کو اپنی جانب جذب کرتی ہے۔

 

 

مسجد نظامیہ ترکیہ کے سرمایہ داروں کے ذریعے تعمیر ہوئی ہے۔ اس تعمیری پروجیکٹ میں مسجد کے علاوہ  تین سو طالب علموں کی گنجائش کے ساتھ  ایک ہوسٹل ، ایک سٹیڈیم ،ایک ھزار مھمانوں کی گنجائش والا ریسٹورنٹ ،آٹھ سو آدمیوں کے لئے آڈیٹوریم ، ،ایک بڑی کلینک ، تجارتی مرکز اور ایک مقبرے پر مشتمل ہے۔  اس پروجیکٹ کی لاگت پانچ کروڑ ڈالرآئی ہے۔ اوراس پروجیکٹ کی تعمیر میں سب ضروری چیزیں جیسے سنگ مرمر اور مختلف ٹائلیں ترکیہ سے لائیں گئیں ہیں اور ترکیہ سے پانچ سو مزدوروں کو مسجد کی تعمیر کیلئےلایا گیا۔

 اس مسجد کے پروجیکٹ کی  تعمیر میں تین سال لگ گئے ہیں اور ۲۰۱۲ کے ستمبر کے مہینے میں اس کا افتتاح کیا گیا ہے۔

 

مسجد نظامی اسلامی پروجیکٹس کے درمیان مسجد سلیمیہ کے نقشے کے مطابق بنی ہوئی ہے جو سولہویں صدی عیسوی میں عثمانی سلطنت کے درباری معمار (معمار سینان) نے مغربی ترکیہ کے  شھر ادیرنہ جو اس وقت عثمانی سلطنت کی راجدھانی تھی، تعمیر کی گئی ہے۔

اس مسجد کےایوان اور ستون اور گنبد اور اس کی خوبصورتی حتی کہ خطی نوشتہ جات بھی مسجد سلیمیہ کے مانند ہیں۔

 

مسجد نظامیہ کے تین بڑے دروازے ہیں اور اس میں ۲۰۰ سو سے زائد کھڑکیاں ہیں اس مسجد کے چارمینار ہیں جو  کہ سطح زمین سے  ۵۵ میٹر بلند ہیں۔

 

اس مسجد کے گنبد کا قطر چوبیس میٹر ہے جو زمین سے ۳۲ میٹر اونچا ہے ،اس مسجد میں چھ ہزار لوگ نماز پڑھ سکتے ہیں۔ محراب کے ساتھ میں ایک ستون یشمی پتھر کا بنا ہوا ہے جو متحرک ہے اور جو زلزلہ کے دوران دوسرے ستونوں کو خراب ہونے سے بچاتا ہے ۔ چھت کی نقاشی کا کام مشھور نقاشوں کے ذریعے انجام پایا ہے اور فرش پر اسی ھنر سے ہاتھ کے بنے ہوئے قالین  شھر قونیہ کے قالی بافوں کے ذریعے بنائے گئے ہیں جو بالکل چھت کے نیچے بچھائے گئے ہیں۔

 

مدرسہ

مدرسہ نظامی میں ۳۰۰ طالب علموں کے لئے رہنے کی جگہ ہے جس میں ۲۰۰ طالب علم چوبیس گھنٹے وہاں رہتے ہیں اس مدرسہ میں ایک ورزشی سٹیڈیم اور آڈیٹوریم ہال ہے جس میں ۸۰۰ آدمیوں کی جگہ ہے۔

کلینک

 “نلسن مانڈیلا ” کی درخواست پر اس مسجد کے ساتھ  ایک ھزار میٹر مربع پر کلینک تعمیر ہوئی ہے جس میں دس سپشل ڈپارٹمنٹ ہیں، اس کلینک  کے اخراجات جنوبی افریقا کی ہیلتھ منسٹری ادا کرتی ہے۔ اس میں ہر طرح کا علاج مفت فراھم کیا جاتا ہے۔

ریسٹورنٹ

اس پرجیکٹ کے بیسمنٹ (تھہ خانہ) میں ایک ھزار آدمیوں کی جگہ ہے جس میں ماہ مبارک رمضان کے دوران  عثمانی حکومت کے طرز پر روزہ دار افطار کرتے ہیں ، یہ افطار خرما اور سوپ اور ہلکے غذاؤں پر مشتمل ہوتا ہے ۔ افطار کرنے کے بعد نماز جماعت ادا کی جاتی ہے۔

اس ریسٹورنٹ میں سائنسی اور مذھبی کانفرنسیں منعقد ہوتی ہیں اور مسلمانوں کی شادیوں کے لئے دعوت کی سہولت بھی مہیا ہے۔

عثمانی بازار

یہ بازار دس عدد دکانوں پر مشتمل ہے جس میں دستکاری کے اشیاء ،فوڈ کورٹ ، میٹھائی کی دکان، کافی شاپ ، کپڑوں کی دکان ، گھریلو ضروریات کی دکان، اور کتابیں اور سٹیشنری وغیرہ دستیاب ہیں۔  جو جنوبی آفریقا میں رہنے والے ترک لوگوں کو کرایہ پر دی گئی ہیں تا کہ وہ ترکیہ کا آداب و رسوم اور کلچر یہاں کے لوگوں کو سمجھائیں۔

 

اس مسجد کی افتتاحی تقریب میں جنوبی افریقہ کے صدر ” جاکوب جوما” اور ریاست “خاتنگ” کی سرکاری شخصیات ، اسلامی ممالک کے سفراء وغیر موجود تھے۔ جاکوب جوما نے اپنے افتتاحی تقریر میں ” اس مسجد کی تعمیر کو ادیان کے درمیان وحدت کا ایک مظھر قرار دیا”

اسلامی اثرکی نمائش

نمائش کے مرکز میں ،عظیم  اسلامی آثارکو رکھا گیا ہے جو ہر دیکھنے والے کو اپنی طرف جذب کرتے ہیں۔ ان آثار میں عثمانی دور کے آثار، ھندوستان کا تاج محل اور . . .  وغیر شامل ہے۔