سلیمانی

سلیمانی


آسمان سے آگ برساتا سورج اب مغرب میں اتر رہا تھا۔ گرم ہوا کے صحرائی بگولے ٹیلوں، میدانوں اور راستوں پر چکراتے پھر رہے تھے۔ پریشان حال، غم زدہ اور مظلوم قیدیوں کا قافلہ انسانی شکل والے درندوں اور سفاک قاتلوں میں گھرا ہوا کربلا سے گزر کر منزل قادسیہ کی طرف بڑھ رہا تھا۔ کوفے میں اسیران کربلا کو ایک بے سایہ قید خانے میں قید کیا گیا، جہاں دن بھر چلچلاتی دھوپ ہوتی اور رات بھر آسمان سے شبنم کے آنسو گرا کرتے۔ قیدیوں کو کھانے پینے کے لیے اتنا ہی دیا جاتا تھا کہ ان کی سانسیں چلتی رہیں۔ اسی قید خانے کے قریب ہی وہ جگہ تھی، جہاں بیس پچیس سال پہلے جناب زینب بنت علی علیہ السلام نے اپنے والد کے دور خلافت کے زمانے میں کوفے کی عورتوں کو قرآن و سنت کی تعلیم دینے کے لیے ایک درسگاہ قائم کی تھی۔

کبھی وہ اس شہر میں انتہائی عزت و احترام کے ساتھ رہا کرتی تھیں اور آج اسی شہر کے ایک قید خانے میں قید تھیں اور لوگ ان کے گھرانے سے اپنی عقیدت و محبت تک کو چھپانے پر مجبور تھے۔ ان تمام مشکلات، مسائل اور مصائب کے باوجود شام غریباں سے اب تک کوئی رات ایسی نہیں گزری تھی کہ جناب زینب بنت علی نے نماز شب نہ ادا کی ہو۔ عاشور کی رات امام عالی مقام علیہ السلام نے اپنی بہن کو وصیت کی تھی "بہن! نماز شب میں مجھے نہ بھولنا"رات کے آخری پہر میں جناب زینب تیمم کرکے نماز شب ادا کرتیں، اپنے مظلوم بھائی کو یاد کرکے زار و قطار آنسو بہاتیں اور بارگاہ الہیٰ میں مناجات کرتیں۔

امام زین العابدین قید خانے کے الگ کونے میں عبادت میں مصروف رہتے۔ کبھی وہ اپنے بابا کو یاد کرتے، کبھی اپنے بھائیوں کو۔ بنو ہاشم کے ایک ایک فرد کا چہرہ ان کی آنکھوں کے سامنے گھومتا تو ان کا دل پھٹنے لگتا۔ وہ اپنی چیخوں کو بمشکل روکتے اور قریب سوئی ہوئی بہن کے معصوم چہرے پر نظر ڈالتے۔ چاند کی روشنی میں جناب سکینہ علیہ السلام کے رخساروں پر آنسوؤں کی لکیریں چمکتی ہوئی دکھائی دیتی تھیں۔ امام زین العابدین دعا کے لیے ہاتھ بلند کرتے اور شب بھر، سجدہ شکر بجا لاتے اور رب سے مناجات کرتے۔

اللہ کی حمد و ثناء کی یہ آوازیں، رات کے سناٹے میں ہوا کے جھونکوں کے ساتھ قید خانے کے اردگرد بنے ہوئے مکانوں تک جاتیں تو اونگھتے ہوئے لوگ اٹھ جاتے۔ عورتیں سروں کو ڈھانپ کر رونے لگتیں، نوجوان بے قراری سے کروٹیں بدلنے لگتے۔ ایسے قیدی انہوں نے کہا دیکھے تھے، جو مصائب و مشکلات کے اس آخری درجے میں بھی اپنی راتیں اللہ کی حمد و ثناء اور شکر کے سجدوں میں گزارتے ہوں! صبر، برداشت، اپنے مالک کی ذات پر کامل یقین اور اس کی مرضی پر راضی رہنے والے یہ قیدی انہیں فرشتوں سے بھی زیادہ معصوم لگنے لگے تھے۔ قید خانے سے رات کے سناٹے میں پھیلنے والی حمد و ثناء کی ان مقدس آوازوں نے پہلے قریبی گھروں کو منور کیا۔ پھر ان آوازوں کے تذکرے سینہ بہ سینہ شہر کے دوسرے گھروں، گلیوں اور بازاروں تک پہنچ گئے۔

بشیر بن خزیم اسدی کہتا ہے کہ میں نے جناب سیدہ زینب بنت علی کو اس حالت میں دیکھا کہ بخدا! ان سے زیادہ باحیاء مستور کو بولتے نہیں دیکھا۔ گویا وہ زبان علی ابن ابی طالب سے بول رہی ہیں اور جب انہوں نے فرمایا: لوگو! خاموش ہو جاؤ! تو لوگوں کے سانس تک رک گئی اور اونٹوں کے گردنوں میں بندھی ہوئی گھنٹیوں کی آواز تک بند ہوگئی۔ ان قیدیوں کی شعلہ فشاں تقریریں بھی لوگوں کے ذہنوں میں گونجتی تھیں اور اللہ کی بارگاہ میں ان کی دعائیں بھی دلوں کو نرم کرتی جا رہی تھیں۔ یزیدی پروپیگنڈے کے پردے چاک ہوتے جا رہے تھے۔ حق جیت رہا تھا، باطل ہارتا جا رہا تھا۔

ان قیدیوں نے رسول اللہ سے اپنی نسبت کے ساتھ ساتھ اپنے ذاتی کردار و عمل سے بھی اپنی عظمت ثابت کر دی تھی۔ کوفے کے لوگوں کو اسلام کے نقاب کے پیچھے چھپے ہوئے مکروہ چہرے اب صاف نظر آنے لگے تھے۔ "وہ لوگ جنہوں نے رسول کے بیٹے کو قتل کیا ہے، کیا قیامت کے روز حسین ابن علی علیہ السلام کے جد سے شفاعت کی امید کرسکتے ہیں۔؟ خدا کی قسم اللہ کے رسول ہرگز ان کی شفاعت نہیں کریں گے۔ قاتلان حسین ہمیشہ کے عذاب میں مبتلا رہیں گے اور وہ لوگ جو قاتلان حسین کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں، کیا بروز حشر پیغمبرِ اسلام کا سامنا کر پائیں گے۔؟

تحریر: سویرا بتول

 
 

 

 
اسلام ٹائمز۔ تسنیم نیوز ایجنسی کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے شام کا دورہ کیا ہے۔ انہوں نے دمشق پہنچنے پر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا: "ایران، شام اور عراق کے تعلقات اسٹریٹجک نوعیت کے ہیں۔ مجھے یہ کہتے ہوئے فخر محسوس ہو رہا ہے کہ میں نے پہلا دوطرفہ دورہ شام سے شروع کیا ہے۔" انہوں نے مزید کہا: "ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مشترکہ اقدامات انجام دیتے ہوئے اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ آج ہم دمشق میں ہیں تاکہ اقتصادی، تجارتی، ثقافتی اور دیگر تمام شعبوں میں دوطرفہ تعلقات کو فروغ دے کر باہمی تعاون بڑھا سکیں۔" ایران کے وزیر خارجہ نے کہا: "مجھے قوی امید ہے کہ ایران اور شام کے سربراہان کے عزم راسخ کے نتیجے میں ہم اقتصادی دہشت گردی کے خلاف بھی مشترکہ جدوجہد انجام دیں گے اور دونوں ممالک کی عوام کی خدمت کیلئے اہم قدم اٹھائیں گے۔"
 
ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے شام کے صدر بشار اسد اور وزیر خارجہ فیصل المقداد سے بھی ملاقات کی ہے۔ انہوں نے فیصل المقداد سے ملاقات کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا: "اپنے عزیز برادر فیصل المقداد کے ساتھ تفصیلی بات چیت انجام پائی ہے جس میں باہمی تعلقات کو زیادہ سے زیادہ وسعت اور فروغ دینے پر زور دیا گیا ہے۔ ایران اور شام دونوں دشمن طاقتوں کی ظالمانہ اقتصادی پابندیوں کا مقابلہ کرنے کیلئے باہمی اقتصادی اور تجارتی تعاون کو مزید وسیع اور تیز کرنے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہیں۔" انہوں نے مزید کہا: "ہم نے خطے کے تازہ ترین حالات کا بھی جائزہ لیا ہے۔ ہمارا موقف یہ ہے کہ خطے میں موجود سیاسی اور سکیورٹی مسائل کا حل شام سمیت صرف اور صرف 

 اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح فوج کے چیف آف اسٹاف میجر جنرل باقری نے افغانستان میں امریکی خیانتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ نے افغانستان میں 2 ہزار ارب ڈالر کی خطیر رقم خرج کرکے افغانستان کی فوج کو غیر مؤثر بنادیا۔

میجر جنرل باقری نے سابق وزیر دفاع جنرل حاتمی اور نئے وزیر دفاع جنرل آشتیانی کی معرفی اور الوداعی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ  افغانستان کی فوج کو غیر مؤثر بنانے میں امریکہ نے اہم کردار ادا کیا اور امریکہ کی افغانستان کے ساتھ یہ آخری خیانت تھی جسے دنیا نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ۔ انھوں نے کہا کہ ایسے شرائط میں ملکی دفاع میں توسیع بہت ضروری ہے اور دفاعی امور میں ہمیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی بھر پور تلاش و کوشش کرنی چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ ایران کی مسلح افواج نے رہبر معظم انقلاب اسلامی کی ہدایات کی روشنی میں دفاعی ترقی کے شاندار مراحل طے کئے ہیں اور ہمیں اپنے دفاع کو مضبوط اور مستحکم بنانے کے سلسلے میں کسی بھی کوشش سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے صدر ابراہیم رئیسی اور ان کی کابینہ کے ارکان کے ساتھ ملاقات میں عقلانیت کے ہمراہ انقلابی ہونے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا عوام کی خدمت کے سلسلے میں ہمت سے کام لیں اور انقلاب کی تعمیر اور فروغ کے سلسلے میں اپنی ذمہ داریوں پر عمل کریں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں اقتصادی مسائل اور عوام کو درپیش مشکلات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ عوام کے اندر اعتماد اور امید بحال کرنے کے ساتھ ساتھ عدل و انصاف کے نفاذ اور کرپشن کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں توجہ مبذول کرنی چاہئے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں امریکہ کو سفارتی میدان میں وحشی اور خونخوار بھیڑیا قرار دیا اور افغانستان کے حالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا اسلامی جمہوریہ ایران ہمیشہ افغانستان کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ ہے اور عالمی حکومتوں کے ساتھ ایران کے تعلقات ان کی رفتار پر منحصر ہوتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے شہید رجائی اور شہید باہنر کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے فرمایا ان دو بزرگواروں کی خدمت کی مدت اگر چہ بہت کم تھی لیکن انہوں نے اسی کم مدت میں ثابت کردیا کے وہ خلوص اور خدمت کی غرض سے میدان میں آئے ہیں اور انہوں عوامی اور مجاہدانہ طریقوں سے استفادہ کیا جو تمام حکام کے لئے نمونہ عمل ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے صدر اور کابینہ کے ارکان کو مالک اشتر کے نام حضرت علی علیہ السلام کے اہم فرمان کا غور سے مطالعہ کرنے کی سفارش کرتے ہوئے فرمایا: حضرت علی کی اس تاریخی فرمان میں مختلف پہلو موجود ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ عوام اور حکام کے درمیان دوستانہ اور برادرانہ رابطہ اسلام کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عدل و انصاف کے نفاذ اور مالی بد عنوانیوں کا مقابلہ کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: عوام کا اعتماد حکومت کے لئے بہت بڑا سرمایہ ہے اور اس سرمایے کی حفاظت کرنی چاہئے، عوام کو دیے گئے وعدوں پر عمل کرنا چاہئے اور اگر کسی وعدے پر عمل ممکن نہ ہو تو عوام سے جلدی معذرت طلب کرنی چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اقتصاد اور تجارت کے فروغ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : ایران کو اپنے 15 ہمسایہ ممالک اور دنیا کے دوسرے ممالک کے ساتھ تجارت کو فروغ دینے پر اپنی توجہ مبذول کرنی چاہیے اور تجارتی مسئلے کو ایٹمی مسئلے سے نہیں جوڑنا چاہئے چونکہ ایٹمی مسئلہ ایک الگ موضوع ہے جسے مناسب اور قابل قبول شکل میں حل کرنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مشترکہ ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے خارج ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ امریکہ نے مشترکہ ایٹمی معاہدے میں کئے گئے اپنے وعدوں پر عمل نہیں کیا اور سب کے سامنے مشترکہ ایٹمی معاہدے سے خارج ہوگیا جبکہ یورپی ممالک نے بھی مشترکہ ایٹمی معاہدے میں کئے گئے اپنے وعدوں پر عمل نہیں کیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امریکہ کی موجودہ حکومت اور سابقہ حکومت میں کوئی فرق نہیں کیونکہ ایران کے ساتھ دونوں کی عداوت اور دشمنی سب کے سامنے نمایاں ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے افغانستان کو ایران کا ہمسایہ اور برادر ملک قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ افغانستان کے عوام کی تمام مشکلات کا ذمہ دار امریکہ ہے کیونکہ امریکہ نے 20 سال تک اس ملک میں افغان عوام کے ساتھ ظلم و ستم روا رکھا ہے اور 20 سال کے بعد ذلت آمیز طریقے سے افغانستان سے خارج ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم ماضی کی طرح افغان عوام کے ساتھ کھڑے ہیں اور کھڑے رہیں گے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زاده نے آج کہا کہ ایران کے وزیر خارجہ حسین امیرعبداللهیان ایک اعلی سطحی وفد کے ہمراہ عراق کے دورے پر روانہ ہوئے۔

ایران کے وزیر خارجہ نے اپنے دورہ عراق پر روانگی سے قبل کہا کہ ہم عراقی حکام کی جانب سے خطے کی صورتحال کے حوالے سے ہر قسم کی جدت عمل کا خیر مقدم کرتے ہیں۔

حسین امیرعبداللهیان کا کہنا تھا کہ خطے میں پائیدار امن و سلامتی کیل‏ئے شام کے اعلی حکام سے ہمارے رابطے ہیں۔ انہوں نے بغداد اجلاس اور اسی طرح علاقائی سطح پر ہر قسم کی جدت عمل اور دمشق کے ساتھ براہ راست صلاح مشورے کیلئے علاقائی ممالک کے کردار پر تاکید کی۔

ایران کے وزیر خارجہ نے کہا کہ عراق کے ہمسایہ ملک ہونے کے ناطے شام کو بھی بغداد اجلاس میں شرکت کی دعوت دینی چاہئیے تھی۔

اخلاق اسلامی کے دو اصلی منابع یعنی قرآن کریم اور روایات میں ایمان کی اہمیت اور اس کے مرتبہ کے بارے میں بہت زیادہ گفتگو کی گئی ہے جس کا خلاصہ یہاں بیان کیا جاتاہے۔

اسلامی اخلاق میں ایمان کی تاثیر


اخلاق اسلامی میں ''ایمان'' ہدایت کرنے والی سب سے زیادہ اہم نفسانی صفت کے عنوان سے بہت زیادہ مقبول ہے اور اس پر بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ اسی وجہ سے علم ویقین کی طرح اس کے مبادی اور مقدمات کو حاصل کرنے کے لئے ترغیب و تشویق سے کام لیا گیا ہے اور اسلام کے اخلاقی نظام میں اُن ذرائع اور طریقوں کی خاص اہمیت ہے جو انسان کوان نفسانی صفات تک پہنچاتے ہیں۔ جیسے پسندیدہ فکر، خاطرات وخیالات اور الہامات۔ نفسانی صفات کے سامنے ایسے موانع اور رکاوٹیں ہیں جو انسان کو باایمان ہونے سے روکتی ہیں جیسے جہل بسیط یا مرکب، شک اورحیرت، مکاری اور فریب کاری، ناپسندیدہ نفسانی خیالات اور شیطانی وسوسہ وغیرہ۔ اِن سب کی ہمیشہ سے مذمت ہوئی ہے اوران سے روکا گیاہے۔
ایمان کی حقیقت اور اس کی شرطوں کے سلسلہ میں زمانۂ قدیم سے الٰہی مکاتب کے پیرؤوں خاص طور سے مسلمان متکلمین کے درمیان گفتگو کا سلسلہ جاری ہے ۔
اخلاق اسلامی کے دو اصلی منابع یعنی قرآن کریم اور روایات میں ایمان کی اہمیت اور اس کے مرتبہ کے بارے میں بہت زیادہ گفتگو کی گئی ہے جس کا خلاصہ یہاں بیان کیا جاتاہے۔
١۔ایمان کی اہمیت
ایمان کے بلند مقام ومنزلت کو بیان کرنے کے لئے یہ حدیث کفایت کرے گی کہ پیغمبر ۖنے اپنی نصیحتوں میں جناب ابوذر سے فرمایا:
''اے ابوذر !خداوندمتعال کے نزدیک اس پر ایمان رکھنے سے اور ان چیزوں سے پرہیز کرنے سے زیادہ کوئی چیز محبوب نہیں ہے جن چیزوں سے منع کرتا ہے ''۔
یہ بات واضح ہے کہ خدا کے ذریعہ منع کی گئی چیزوں سے پرہیز، صرف اس پر ایمان کے سایہ میں ممکن ہے اور حقیقت میں یہ ایمان کی برکتوں میں سے ہے۔ اس سلسلہ میں حضرت امام جعفر صادق(ع) فرماتے ہیں:
''خداوند متعال دنیا کو، اُن لوگوں کے واسطے بھی قرار دیتا ہے جن کو دوست رکھتا ہے اور اُن لوگوں کے واسطے بھی جن پر غضبناک ہے لیکن ایمان نہیں دیتا مگر اُن لوگوں کو جنہیں دوست رکھتا ہے ''۔
حضرت امام جعفر صادق(ع) مومن کے مقام ومنزلت کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
''جب بھی لوگوں کی آنکھوں سے پردہ ہٹ جائے گا اور وہ لوگ خدا اور بندۂ مومن کے درمیان وصال ورابطہ پر نظر کریں گے اس وقت اُن کی گردنیں مومنین کے سامنے جھک جائیں گی، مومنین کے امور اُن کے لئے آسان ہوجائیں گے اور اُن کے لئے مومنین کی اطاعت کرنا سہل اور آسان ہوجائے گا''۔
یہ تمام بلند درجات جو روایتوں میں ایمان کے لئے بیان ہوئے ہیں اس اثر کی وجہ سے ہیں جو ایمان انسان کے کما ل اورسعادت میں رکھتا ہے۔ ایمان ایک طرف خلیفۂ الٰہی کی منزلت پانے کے لئے سب سے آخری کڑی اور قرب معنوی کا وسیلہ ہے اور دوسری طرف قرآن وروایات کے مطابق تمام پسندیدہ نفسانی صفات اور عملی نیکیوں کے لئے مبدأ اور کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔
٢ ۔ ایمان کی ماہیت
اگرچہ ایمان کی حقیقت اور ماہیت کے بارے میں مسلمان متکلمین کے درمیان اختلاف نظر پایاجاتاہے پھر بھی اُس کی اہم خصوصیتیں یہ ہیں:
ایک۔ ایمان وہ قلبی یقین، تصدیق اور اقرار ہے جو ایک طرف سے کسی امر کی نسبت نفسانی صفت اور حالت کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس وجہ سے خالص شناخت اور معرفت سے فرق رکھتا ہے۔
دو۔ ایمان کے محقق ہونے کی جگہ نفس اور قلب ہے اور اگرچہ اس کا قولی اور فعلی اثر ہے لیکن اس کا محقق ہونا قول یا عمل پر منحصر نہیں ہے۔
تین۔ اسلام اور ایمان کے درمیان کی نسبت عام وخاص مطلق جیسی ہے یعنی ہر مومن مسلمان ہے لیکن ممکن ہے بعض مسلمان صرف ظاہر میں حق کو تسلیم کئے ہوں۔
٣ ۔ایمان کے اقسام اوردرجات
اوّلاً: ایک قسم کے لحاظ سے ایمان کی دو قسمیں ہیں: ''مستقر''اور'' مستودع''( مستودع یعنی وہ ایمان جو عاریت اور امانت کے طور پر لیا گیا ہو)۔
قرآن کریم میںارشاد ہورہاہے:
''وہ وہی ہے جس نے تم کو ایک بدن سے پیدا کیا ہے۔ پھر تمہارے لئے قرارگاہ اورامانت کی جگہ مقرر کردی۔ بے شک ہم نے اپنی نشانیوں کو اہل بصیرت اور سمجھدار لوگوں کے لئے واضح طور سے بیان کردی ہیں''۔
حضرت امام موسیٰ کاظم(ع) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
''مستقر ایمان وہ ایمان ہے جو قیامت تک ثابت وپائدار ہے اور مستودع ایمان وہ ایمان ہے جسے خداوند موت سے پہلے انسان سے لے لے گا۔
حضرت علی ـ ایمان کی قسموں کے بارے میں فرماتے ہیں:
''کچھ ایمان دل کے اندر ثابت ہوتے ہیں اور کچھ، دل اور سینہ کے درمیان، مرتے وقت تک بطور عاریت اور ناپائدار ہوتے ہیں۔ لہٰذا اگر کسی سے بیزار ہو تو اتنی دیر انتظار کرو کہ اس کی موت آجائے۔ اس وقت میں اس سے بیزار ہونا بر محل ہوگا۔
ثانیاً: ایمان کی حقیقت کے مراتب اور درجات ہیں اور اس میں نقصان اورکمی کا بھی امکان ہے۔ قرآن کریم اور احادیث نے اس حقیقت پر تاکید کرنے کے علاوہ ایمان کو زیادہ کرنے یا اس کے کم ہونے کے اسباب کو بھی کثرت سے بیان کیا ہے، منجملہ ان کے قرآن کریم میں آیا ہے:
''مومنین وہی لوگ ہیں جن کے دل اس وقت ڈرنے اور لرزنے لگتے ہیں جب خدا کا ذکر ہوتا ہے اور جب اُن پر اس کی آیتوں کی تلاوت کی جاتی ہے تواُن کاایمان زیادہ ہو جاتا ہے اور وہ اپنے پروردگار پر اعتماد اور بھروسہ کرتے ہیں ''۔
حضرت امام جعفر صادق(ع) نے اپنے ایک شیعہ سے فرمایا:
''اے عبدالعزیز! حقیقت یہ ہے کہ ایمان کے دس درجے ہیں سیڑھی کی طرح کہ اسے زینہ بہ زینہ طے کرنا چاہئے اور بلندی پر پہنچنا چاہئے۔ لہٰذا جس کا ایمان دوسرے درجہ پر ہے اسے پہلے درجہ والے مومن سے نہیں کہنا چاہئے کہ تمہارے پاس ایمان نہیں ہے اور اسی طرح تیسرے درجہ والا دوسرے درجہ والے کو یہاں تک کہ دسویں درجہ والے تک کو بھی یہی چاہئے کہ ایسا نہ کہے اور جس کا ایمان تم سے کم ہے اسے ایمان سے جدا (بغیر ایمان کے) نہ سمجھو اگر ایسا ہواتو جس کا ایمان تم سے بڑھ کر ہوگا اسے چاہئے کہ وہ تم کو ایمان سے جدا سمجھے۔ بلکہ اگر کسی کو اپنے
سے کم دیکھو تو تمہیں چاہئے کہ اسے مہر ومحبت کے ساتھ اپنے درجہ تک لے آئو اور جو کچھ اس سے ممکن نہ ہو اسے اس پر بار نہ کرو کہ اس کی کمر ٹوٹ جائے گی اور حق کی قسم اگر کوئی کسی مومن کی دل شکنی کر ے تو اس پر لازم ہے کہ اس کا جبران کرے اور اس کی دلجوئی کرے۔
شیخ صدوق کتاب خصال میں اس روایت کے تما م ہونے پر تحریر فرماتے ہیں کہ مقداد ایمان کے آٹھویں درجہ پر، ابوذر نویں درجہ پر اور سلمان دسویں درجہ پر فائز تھے۔ البتہ اس بات پر توجہ ہونی چاہئے کہ اس روایت میں ایمان کے دس درجہ کو معین کرنا صرف دس مرتبہ تک منحصر کردینے کے معنی میں نہیں ہے بلکہ اس سے مراد صرف ایمان کے درجات کی کثرت کو بیان کرنا ہے۔ اسی وجہ سے دوسری روایتوںمیں ایمان کے لئے کمتر یا بیشتر درجات بھی بیان کئے گئے ہیں۔
٤ ۔ ایمان کے متعلقات
اسلام کے اخلاقی نظام میں، ایمان کس چیز کے ذریعہ سے ہدایت، اخلاقی فضائل کی آراستگی اور معنوی رفتار کا سبب بنتا ہے ؟ قرآن کریم اورمعصومین (ع) کی سیرت میں ایمان کے اصلی ترین متعلقات کے بارے میں جو کچھ ذکر ہوا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں:
ایک۔ عالم غیب پر ایمان :قرآن کریم نے غیب اورغیبی طاقتوں یعنی ملائکہ (وغیرہ) پر ایمان کو کتاب الٰہی سے بہرہ مند ہونے اور ہدایت پانے کی شرطوں میں سے شمار کیا ہے۔ اس سلسلہ میں ارشاد ہورہاہے:
''یہ وہ کتاب ہے جس کی حقانیت میں کوئی شک نہیں اور یہ ان متقین اور پرہیزگاروں کے لئے ہدایت کا وسیلہ ہے جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں .....''
عالم غیب سے مراد وہ حقیقتیں ہیں جنہیں ظاہری حواس کے ذریعہ درک نہیں کیا جاسکتا ہے بلکہ عقلی سیر اور باطنی شہود کے ذریعہ ان تک رسائی ہوسکتی ہے، اصولی طور پر ایمان سے مشرف ہونے اور کفر والحاد دومادہ پرستی کی غلاظت و گندگی سے نجات حاصل کرنے کے لئے غیب اور غیبی حقیقتوں، قوتوں اورامدادوںپر اعتقاد رکھنا ایک شرط ہے۔
صرف اسی شرط کے تحت حصول کے ذریعہ کتاب ہدایت کو پڑھا جاسکتا ہے اور اس کے نور کے پرتو میں کامیابی کی منزلوں کو طے کیا جاسکتا ہے۔
دو۔ خدا اور اس کی وحدانیت پر ایمان: قرآن کریم متعدد آیتوں میں خدا وند متعال پر ایمان کی ضرورت کو یاد دلاتا ہے۔ مثلاً فرماتا ہے: ''بس خدا اور اس کے پیغمبر اور اس نور پرجسے ہم نے نازل کیا ہے ایمان لائو اور تم جو کچھ انجام دیتے ہو خدا اس سے آگاہ ہے۔،
رسول خدا ۖ نے ایمان کی علامتوں کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں فرمایا:
'' ایمان کی نشانیاں چار ہیں: خدا کی وحدانیت کا اقرار، اس پر ایمان، اس کی کتاب پر ایمان اور خدا کے پیغمبروں پر ایمان۔،
تین۔ قیامت اور اس کی کیفیت پر ایمان: قیامت اور اس کی کیفیت پر ایمان اخلاق اسلامی کی افادیت اور اس کے اجرا ہونے کی ضمانت ہے۔ قرآن کریم نے خدا اور اس کی وحدانیت پر ایمان کے بعد سب سے زیادہ تاکید قیامت اور اس کی کیفیت پر کی ہے۔ جیسے قبر میں ہونے والے سوالات، عذاب قبر، قیامت کا دن اور قیامت کا حساب و کتاب، اعمال کو پرکھنے کے لئے میزان کا وجود، پل صراط سے عبور اور جنت و جہنم پر اعتقاد و ایمان۔ ذیل میں بعض آیتوں اور روایتوں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے، اس سلسلہ میں قرآن کریم میں ارشاد ہو رہا ہے:
'' جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جو لوگ یہودی ، صائبی اور عیسائی ہیں ان میں جو خدا و قیامت پر واقعاً ایمان لائے ہیں اور نیک کام انجام دیتے ہیں ان کے لئے کچھ بھی ڈر اور خوف نہیں ہے۔
حضرت امام جعفر صادق(ع) فرماتے ہیں:
'' ایمان یہ ہے کہ انسان دین حق کو دل سے پہچانے اور زبان سے اقرار کرے اور اپنے اعضاء بدن سے اس کے فرائض کو انجام دے اور عذاب قبر، منکر و نکیر، موت کے بعد زندہ ہونے، حساب و کتاب، صراط اور میزان کو قبول کرے اور اگر خدا کے دشمنوں سے بیزاری نہ ہو تو ایمان موجو د نہیں ہے''۔
دوسری حدیث میں پیغمبر خدا ۖ کی فرمائش کے مطابق جنت وجہنم پر ایمان بھی معاد کے دو اہم رکن ہیں۔
اس بنا پر اخلاق اسلامی کی نظر میں معاد اور اس کے اساسی ارکان پر ایمان، رہنمائی کرنے والے دو اہم رکن کی حیثیت رکھتے ہیں۔
چار۔ انبیاء ٪ کی رسالت اور آسمانی کتابوں پر ایمان: دینی تعلیم سے بہرہ مند ہونے اور دین بالخصوص اخلاق اسلامی کی طرف متوجہ ہونے کے لئے انسان کا یہ اعتقاد رکھنا کہ وہ اپنے صحیح کمال اور سعادت کو پہچاننے اور ان تک پہنچنے کے لئے مناسب وسیلوں اور طریقوں کو انتخاب کرنے میں عاجز اور قاصر ہے، ایک بنیادی مسئلہ ہے۔ قطعی طور پر جسے بھی اس حقیقت میں شک ہے وہ انبیاء کی رسالت اور ان کی دعوت کے مطالب پر ایمان و اطمینان حاصل نہیں کر سکتا اور اسی کے ساتھ اعتماد اور اطمینان کے بغیر کسی کی خیر خواہ سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کرسکتا۔
اس وجہ سے اخلاق اسلامی میں رسولوں کی رسالت اور ان کی کتابوں پر ایمان رکھنے کے لئے بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ چونکہ سبھی انبیاء صرف ایک رسالت اور ایک ہی مقصد کے لئے کام کررہے تھے لہٰذا ان تمام انبیاء پر ایمان رکھنے کی تاکید کی گئی ہے۔ قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے: ''خدا کے پیغمبر اُن کے پرور دگارکی طرف سے جو کچھ نازل ہوا ہے اس پر ایمان رکھتے ہیں اور تمام مومنین بھی خدا اور فرشتے اور کتابوں اور اس کے پیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس کی طرف سے بھیجے گئے پیغمبروں میں سے کسی کے ساتھ فرق نہیں کریں گے۔ اور ان کا کہنا ہے کہ ہم نے پیغام الٰہی کو سنا اور اس کی اطاعت کی۔ اے پرورد گار! ہم تیری بخشش کے محتاج ہیں اور ہم کو تیری ہی طرف پلٹ کر آنا ہے، ،۔
پانچ۔ امامت اور ائمہ (ع) پر ایمان: شیعوں کے اصول عقائد کے مطابق امامت پر ایمان رکھنا اخلاق اسلامی کی بنیادوں اور کامیابی کی شرطوں میں سے ہے۔ اس سلسلہ میں شیعہ حدیثی کتابوں میں بہت سی روایات موجود ہیں۔
ان روایتوں کے علاوہ یہ بات قرآن کے ذریعہ اور اس کی تفسیر کے سلسلہ میں مسلّم الثّبوت تاریخی واقعات سے ثابت ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہورہا ہے:
الْیَوْمَ َکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وََتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمْ الِسْلاَمَ دِینًا
''آج کفّار تمہارے دین سے نا امید ہوگئے ہیںلہٰذا ان سے خوف نہ کھاؤ۔ اور مجھ سے خوف کھاؤ آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے کامل اور اپنی نعمت کو تم پر تمام کردیا ہے اور اسلام کو تمہارے لئے دین کی حیثیت سے پسند کرلیا ہے ۔ ''
اس آیت کے سلسلہ میں دو سوال قابل غور ہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ وہ خاص دن کون سا دن ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ وہ واقعہ جو اس دن رونما ہوا اور اکمال دین اور بندوں پر خدا کی نعمت کے تمام ہونے کا سبب بنا، کیا تھا؟ نا قابل انکار تاریخی شواہد اور تمام اسلامی فرقوں کے نزدیک وہ ١٨ ذی الحجہ ١٠ ہجری کا دن تھا اور وہ واقعہ اس دن غدیر میں پیش آیا وہ پیغمبر ۖ کی طرف سے حضرت علی(ع) کو اپنی جانشینی کے لئے انتخاب کر نا اور سلسلۂ امامت کا شروع ہونا تھا۔
ہم انبیاء ٪ کی رسالت اور ان کی کتابوں پر ایمان کی ضرورت کو اصطلاح میں دین کے نام سے یاد کرتے ہیں اور مذکورہ آیت کی روشنی میں امامت کا سلسلہ دین کی تکمیل کے لئے ہے اور اس کے بغیر دین ناقص رہے گا لہٰذا قرآن کریم کی نظر میں امامت پر ایمان بھی ایک لازمی بات ہے اور اخلاق اسلامی کے مستحکم اور مضبوط پایوں میں شمار ہوتا ہے۔
٥۔ایمان کی شرط
قرآن و راویات کے مطابق نیک عمل کا انجام دینا ایمان کی بہترین شرط ہے۔ قرآن مجید کی بہت سی آیتوں میں ایمان کو نیک عمل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور اکثر آیتوں میں ایمان کے بعد بلا فاصلہ پسندیدہ اور صالح عمل کی گفتگو ہوئی ہے۔اگر چہ نیک عمل ایمان کے بنیادی عناصر میں سے نہیں ہے لیکن نیک عمل کے بغیر ایمان سے مطلوب اور مناسب فائدہ حاصل نہ ہوسکے گا۔ اس بنا پر شائستہ اور نیک عمل کو ایمان سے فائدہ حاصل کرنے کے لئے شرط کے طور پر مانا جا سکتا ہے۔
قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے:
'' اور جو کوئی ایمان لائے اور نیک عمل کو انجام دے اس کے لئے بہترین جزا ہے اور ہم بھی اس سے اپنے امور میں آسانی کے بارے میں کہیں گے''
قرآن مجیدنے نیک عمل کے بغیر، مومن ہونے کے دعوے کو جھوٹا قرار دیا ہے:
''اور وہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم خدا اور اس کے پیغمبر پر ایما ن لائے ہیں اور اطاعت کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان میں سے بعض لوگ منھ پھیر لیتے ہیں اور وہ لوگ واقعاً مومن نہیں ہیں۔،
حضرت علی (ع)نے بھی اس مطلب کو یوں بیان فرمایا ہے:
'' جو خدا کے احکام پر عمل کرتا ہے فقط وہی مومن ہے۔،
اس بنا پر اخلاق اسلامی کی نظر میں خدا کے احکام کی پابندی کے بغیر ایمان کا دعویٰ کرنا جھوٹ اور فریب ہے مگر یہ کہ مومن شخص عمل کرنے کی قدرت اور موقع نہ رکھتا ہو۔
٦۔ ایمان کے اسباب
دینی کتابوں میں ایمان کے وجود میں آنے، اور اس کے ثبات و کمال کے لئے مختلف عوامل بیان کئے گئے ہیں۔ ان میں سے بعض معرفت وشناخت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جیسے علم، عقل اور دین میں غور و فکر کرنا۔یہ سب ایمان کے نظری مقدمات کو فراہم کرتے ہیں اور وہ عوامل علم کلام میں پائے جاتے ہیں۔ کچھ دوسرے عوامل ایسے ہیں جو ایک اعتبار سے نفسیانی صفت اور ملکہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جیسے تقویٰ، راہ خدا میں دوستی اور دشمنی، صبر، توکل، رضا وغیرہ اور کچھ ایسے ہیں جو انسان کے عمل سے مربوط ہیں۔ جیسے انفاق، نماز کے لئے اہتمام کرنا، دوسروں کے ساتھ احسان کرنا، گناہوں سے پرہیز کرنا وغیرہ۔
خاص نظری معارف جیسے دین میں غور وفکر، انسان کی مختلف نفسیانی صفتیں اور اعمال، ایمان کی آفرینش اور اس کے ثبات و کمال میں مؤثر ہوسکتے ہیں اور یہ بات اس حقیقت سے نہیں ٹکراتی ہے کہ ایمان اپنے لحاظ سے عمل صالح کی انجام دہی کے لئے مقدمہ فراہم کرتا ہے اور بہت سے نفسانی ملکات اور صفات کے وجود میں لانے کا موجب قرار پاتا ہے اور یہاں تک کہ انسان میں بعض نظری معارف کی پیدائش کے لئے باعث بنتا ہے۔ کیونکہ انسانی وجود کے تینوں شعبوں کے درمیان آپس میں تثیر اور تثر پایا جاتا ہے۔ اس بنا پر ایمان ایک واضح نفسانی حالت کی حیثیت سے دوسرے شعبوں پر اثر انداز بھی ہوتا ہے اور ان سے تثیر بھی قبول کرتا ہے۔
٧۔ایمان کے فوائد
یہ آثار اور فوائدایمان کے اسباب اور موجبات کی طرح علمی ماہیت بھی رکھتے ہیں۔ اور نفسانی حالات بھی اور بعض اعمال و عادات سے بھی متعلق ہیں۔ یہاں ان میں سے بعض اہم باتوں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔
ایک۔ روحی تسکین: انسان کے لئے اہم لذتوں میں سے ایک نفسانی تسکین اور اس کا آرام پانا ہے۔ بنی آدم کے لئے پریشانی اور اضطراب، سب سے بڑی تکلیف اور بہت سی گمراہیوں اور نا کامیوں کاسبب ہے۔ انسانی کوششیں اس جانکاہ درد سے نجات پانے کے لئے اس بارے میں تلخ تجربہ کی نشاندہی کررہی ہیں۔ خداوند متعال کی نظر میں انسان کو ایمان کے سایہ میں آرام و سکون میسّر ہوگا۔ جیسا کہ اس نے فرمایا ہے:
''وہی ہے جس نے مومنین کے قلوب کو سکون دیا تاکہ وہ اپنے ایمان میں مزید ( ایمان کا ) اضافہ کریں، ،۔
''باخبر رہو کہ خدا کے دوستوں کے لئے نہ کچھ خوف ہے اور نہ ہی وہ غمگین ہوتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے ہیں اور پرہیز گاری سے کام لیتے ہیں۔
خدا نے اس سے زیادہ واضح انداز میں قلبی سکون واطمینان کو اپنے ذکر اور یاد کے ذریعہ قابل تحصیل بتایا ہے اور اس سلسلہ میں وہ فرماتا ہے: '' وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں اور ان کے قلوب یاد خدا سے سکون حاصل کرتے ہیں آگاہ رہو کہ یاد خدا سے ہی دلوں کو آرام ملتا ہے۔،
ب۔ بصیرت: قرآن کی نظر میںایمان، حق وباطل کے درمیان تمیز دینے کے لئے انسان کو بصیرت اور سمجھداری عطا کرتا ہے۔
قرآن میں ارشاد ہورہا ہے:
'' اے ایمان لانے والو! اگر خوف خدا رکھو گے تو خدا تم کو (حق وباطل کے درمیان) فرق کرنے کی قدرت وقوت عطا کرے گا۔، دوسری طرف ایمان نہ رکھنے والوں کو نابینا قرار دیتا ہے:
'' جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہیں ان کے کرداروں اور کارناموں کو ان کی نظر میں خوبصورت اور آراستہ بنا دیا ہے تا کہ وہ اسی طرح گمراہ وسرگرداں رہیں۔،
ان دو آیتوں کا مقایسہ کر نے سے یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ ایمان اور تقویٰ ایک طرف خود خواہی اور خود پسندی کو ختم کرنے کا سبب ہے تو دوسری طرف خدائی نور اور الٰہی ہدایت سے متصل ہونے کی وجہ سے بصیرت اور سمجھداری عطا کرتے ہیں۔
تین۔ خدا پر بھروسہ: خدا پر اعتماد اور بھروسہ کرنا کامیاب اور مفید زندگی کے ارکان میں سے ایک نادر اور قیمتی سرمایہ ہے۔ اس حالت کے ذریعہ انسان کی بہت سی الجھنیں اپنا بستر لپیٹ لیتی ہیں۔ اور حوادث کے ہولناک طوفان پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔
حضرت علی (ع) فرماتے ہیں: '' بندہ کا ایمان اس وقت تک سچّا نہیں ہوسکتا جب تک کہ خدائی خزانہ پر خود اپنے ہاتھ کی دولت سے زیادہ اعتماد نہیں رکھتا ہے۔،
چار۔ دنیوی برکتیں : قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے: '' اور اگر شہروں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم قطعی طور پر ان کے لئے آسمان و زمین سے برکتیں نازل کرتے۔،
یعنی ایمان نہ صرف اخروی مثبت آثار و فوائد کا حامل ہے بلکہ دنیاوی نعمتیںاور برکتیں بھی فراہم کرتا ہے۔ اگر کوئی صحیح طریقہ سے دنیاوی نعمتوں کی تلاش میں ہے تو اسے چاہئے کہ ایمان کی جستجو کرے۔
پانچ۔نیک اعمال کی انجام دہی: اس بات کے علاوہ کہ عمل صالح کی انجام دہی ایمان کی بنیادی شرط ہے، خود ایمان کے فوائد میں سے بھی ہے۔ کیونکہ ایمان، عمل کے لئے ظرف اور نیک عمل باطنی ایمان کا پھل اور نتیجہ ہے۔ علامہ طبا طبائی فرماتے ہیں:
ایمان عمل کے لئے مقدمہ فراہم کرتا ہے اور اس کے لئے لازمی شرط ہے اور عمل صالح کی سہولت یا دشواری انسان کے ایمان کے قوی یا ضعیف ہونے پر منحصر ہے اور اسی کے مقابلہ میں عمل صالح اور اس کی تکرار، ایمان کے عمیق اور زیادہ ہونے میں مفید اور مدد گار ثابت ہوتی ہے اور یہ دونوں اپنے اپنے لحاظ سے ان اخلاقی ملکات کے وجود میں آنے کے لئے ایک دوسرے کی مددکرتے ہیں جو بے شک انسان سے صادر ہونے والے اعمال صالحہ کے انجام پانے کا سبب ہیں۔
چھ۔ عوام میں محبوبیت:ایمان کا دنیوی فائدہ یہ ہے کہ ایماندار انسان لوگوں کے دلوں میں محبوب ہوتا ہے۔ لوگوں کے درمیان قلبی لحاظ سے محبوب ہونا سبھی پسند کرتے ہیں اور یہ بھی چاہتے ہیں کہ لوگ انھیں محبت بھری نگاہوں سے دیکھیں اور لوگ اپنے لئے محبت کے آثار کا مشاہدہ کرنا چاہتے ہیں۔ اپنے لئے دوسروں کے اظہار محبت کی لذّت کو اتنا زیادہ شیرین پاتے ہیں کہ کسی چیز کے مقابلہ میں اس کا سودا کرنے پر تےّار نہیں ہوتے۔ بیشک محبت ایک ایسی دنیاوی نعمت ہے کہ یہ ہرمشکل کو آسان اور ہر تلخی کو شیرین اور ہر کانٹے کو پھول میں تبدیل کر دیتی ہے۔
خدا وند عالم فرماتا ہے: اگرخالص محبت کی تلاش میں ہو تو مومنین کی وادی میں داخل ہوجاؤ۔
''جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام انجام دیتے ہیں، جلد ہی(وہ) خدا( جو رحمن ہے) ان کے لئے لوگوں کے دلوں میں محبت قرار دے دے گا۔
سات۔ اُخروی فلاح اور کامیابی :ایمان کے فوائد کی انتہا مومنین کی اُخروی کامیابی پر ہوتی ہے اس سے بہتر انجام اور کیا ہوسکتا ہے؟
خدا وند متعال مومنین سے ایک معنی دار سوال کرتے ہوئے فرماتا ہے:
''اے ایمان لانے والو !کیا تمہیں ایک ایسی تجارت کی راہ دکھاؤں جو تمہیں دردناک عذاب سے نجات دلائے گی ؟ خدا اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤاور خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرو۔اس فداکاری کو اگر تم جان لو گے اور سمجھ لو گے تو تمہارے لئے بہتر ہوگا۔،
حکیم لقمان اپنے فرزند کی خیرخواہانہ نصیحت میں فرماتے ہیں:
''اے میرے بیٹے !سچ ہے کہ یہ دنیا گہرے سمندر کی طرح ہے جس میں بہت سے علماء اور دانشور ہلاک ہوگئے ہیں۔ بس اس میں اپنی نجات کی کشتی، خدا پر ایمان ہونے کو قرار دو۔ ''
٨۔ ایمان کے موانع
ایمان کے وجود میں آنے کے اسباب اور عوامل کے سلسلہ میںجو کچھ بیان کیا گیا اس کے پیش نظر ایمان پر تاثیر ڈالنے والے عوامل بہت ہیں اور ان میں سے کسی ایک کا نہ ہونا ایمان کے لئے رکاوٹ کاباعث ہوگا۔لیکن یہاں پر ایمان کے موانع سے مراد تنہا وہ عوامل ہیں جو ایمان کے ہادیانہ جوہر سے ٹکراتے ہیں اور مشہور اسلامی کتابوں میں عقلی قوت سے مربوط صفتوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔اس طرح کی مشہور موانع مندرجہ ذیل ہیں:
ایک۔ جہل: جہل چاہے بسیط ہو یا مرکب، ایمان کے لئے ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ جہل بسیط سے مراد یہ ہے کہ انسان علم نہ رکھتا ہواور اسے اپنے عالم نہ ہونے اور نہ جاننے کا یقین بھی ہو۔اس طرح کی جہالت شروع میں مذموم اور قابل مذمت نہیں ہے۔کیونکہ یہ علم حاصل کرنے کے لئے مقدمہ ہے اور جب تک انسان خود کو جاہل نہ جانے اس وقت تک علم حاصل کرنے کے لئے آمادہ نہ ہوگا۔لیکن اس جہالت پر باقی رہنا اخلاقی لحاظ سے برا اور قابل مذمت ہے۔
لیکن جہل مرکب سے مراد یہ ہے کہ انسان عالم نہیں ہے اور اس کے ذہن میں واقعیت اور حقیقت سے متعلق کچھ بھی نہیں ہے۔ پھر بھی اس کا خیال یہ ہے کہ وہ واقاً حقیقت تک پہنچ گیا ہے۔ جبکہ سچ یہ ہے کہ وہ نہیں جانتا کہ وہ نہیں جانتا ہے۔ (یعنی وہ اپنے جاہل ہونے سے بھی بے خبر ہے)۔ اس طرح وہ دو امر میں جاہل ہے۔ اسی وجہ سے اسے جہل مرکب کہا گیا ہے۔ اس طرح کی جہالت کو اخلاقی لحاظ سے سب سے بڑی برائیوں میں شمار کیا گیا ہے۔ کیونکہ یہاں انسان اصلاً اپنی بیماری کے بارے میں نہیں جانتا بلکہ وہ خود کو صحیح وسالم تصور کرتا ہے۔ حالانکہ اصلاح کرنے کے لئے سب سے پہلا قدم فساد اور خرابی کا یقین ہونا ہے ۔
اسی وجہ سے حضرت عیسیٰ ـ نے فرمایا ہے: ''بے شک میں پیدائشی اندھے انسان اور سفید داغ کا علاج کرنے سے عاجز نہیں ہوں لیکن احمق انسان کا علاج کرنے سے عاجز ہوں''۔
دو۔ شک وتردید: ابتدائی شک، علم ویقین تک پہنچنے کے لئے ایک مبارک قدم ہو سکتا ہے۔انسان جب تک کسی چیز کو پوری طرح جانتا ہے اور وہ کسی بھی گوشہ کو پنہان اور پوشیدہ نہیں سمجھتا اس کی کوئی خاص جستجو نہیں کرتا ہے۔ بہت سی گرانقدر حقیقتیں صرف ایک ابتدائی شک وتردید کی وجہ سے منظر عام پر آئی ہیں۔ اس بنا پر شک، علم و یقین اور ایمان تک پہنچنے کے لئے ایک با اہمیت اور بے مثال پل کی حیثیت رکھتا ہے اس طرح یہ اخلاقی لحاظ سے برا نہیں ہے۔ لیکن شک وتردید، کسی بھی حالت میں منزل نہیں ہے۔ شک 'مقصد اور منزل کے عنوان سے قطعی طور پر ایک اخلاقی برائی ہے اور یقین وایمان کے لئے ایک بڑی رکاوٹ ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حق اور باطل کی پہچان کرنے اور حق وباطل کو جدا کرنے کے لئے کمزور انسان کا نفس حیران وسرگرداں ہو جاتا ہے۔ اسی بنیاد پر حضرت علی ـ نے سختی کے ساتھ شک وتردید سے منع فرمایا ہے اور اسے ایمان کے خلاف اور کفر کا سبب قرار دیا ہے۔
مولائے متقیان حضرت علی(ع) ارشاد فرماتے ہیں:
''لا ترتابوا فتشکّوا 'ولا تشکّوا فتکفّروا''
(یعنی شک و تردید کو اپنے پاس جگہ نہ دو کہ شک میں پڑ جاؤ گے اور شک نہ کرو کہ کافر ہوجاؤ گے۔)
تین۔ نفسانی خیالات اور شیطانی وسوسہ: خیالات سے مراد وہ چیز ہے جو انسان کے قلب پر عارض ہوتی ہے اور اگر وہ انسان کو شر کی طرف دعوت دے تو وسوسہ ہے اوراگر وہ خیر کی طرف ہدایت کرے تو اسے الہام کہا جاتا ہے۔ شیطانی وسوسہ جو ایمان کی رکاوٹوں میں شمار کیا جاتا ہے اس کی مختلف قسمیں اور متعدد اسباب ہیں اور ہر ایک سے مقابلہ کرنے کے لئے ایک خاص طریقہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ اس سے متعلق گفتگو اخلاق علمی یا تربیت اخلاقی کے ذیل میں ہونی چاہئے۔
قرآن کریم، شیطانی وسوسہ کے بارے میں خود شیطان کی زبانی ارشاد فرما رہا ہے:
'' میں تیرے بندوں کو سیدھے راستے سے گمراہ کروں گا اس وقت ان کے سامنے سے 'پیچھے سے' داہنی طرف سے اور بائیں طرف سے پہنچ جائوں گا''
چار۔ علمی وسواس: یہ دقت' جستجو، تحقیق اور عقلانیت میں افراط کی ایک قسم ہے جو ایمان کے لئے آفت اور اسے برباد کر دینے کاسبب ہے۔ یہ بات کبھی عقلی دقت کے عنوان سے اس بات کا باعث ہوتا ہے کہ سب سے ابتدائی بدیہیات وواضحات میں بھی خدشہ وارد ہوجائے یہاں تک کہ انسان کو سفسطہ اور واقعیات وحقائق سے انکار کے گڑھے میں بھی گرا دیتا ہے۔ واضح ہے کہ اس طرح کا وسوسہ ہلاکت اور نابودی کو ہمراہ لاتا ہے اور ہر طرح کے ایما ن اور اطمینان سے جنگ کرنے کے لئے آمادہ ہوتا ہے۔
پانچ۔ کفر اور شرک: یہ دونوں ایمان و توحید کے مقابلہ میں ہیں اور ایمان میں رکاوٹ کا باعث شمار کئے جاتے ہیں۔ کفر اور شرک کی ماہیت اور ان کے دوسرے ابعاد و جوانب کے متعلق بہت زیادہ بحثیں پائی جاتی ہیں جن میں سے بعض کو عقائد وکلام کی کتابوں میں بیان کیا گیا ہے، ان سبھی کے بارے میں گفتگو کرنا اس مختصر کتاب کی گنجائش سے باہر ہے۔

 

 

مہر خبررساں ایجنسی نے المیادین کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصر اللہ نے لبنان کی پہاڑیوں کی آزادی کی چوتھی سالگرہ کے موقع پر اپنے خطاب میں کہا کہ الجرود کی فتح لبنانی عوام کے صبر اور استقامت سے حاصل ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ پہاڑیوں کی آزادی، مفت میں حاصل نہيں ہوئی بلکہ اس کے لئے بہت زیادہ قربانیاں دی گئیں۔

سید حسن نصر اللہ کا کہنا تھا کہ چار سال پہلے پہاڑی علاقوں میں جو فتح حاصل ہوئی وہ شام کے خلاف عالمی جنگ اور خطرناک منصوبے کا حصہ تھی جو علاقے کے لئے تیار کیا گیا تھا۔

حزب اللہ لبنان کے سکریٹری جنرل کا کہنا تھا کہ داعش شام پر قبضہ کرنا چاہتا تھا اور لبنان بھی اس کے منصوبے کا حصہ تھا۔ داعش کا ہدف یہ تھا کہ شام کے صحرائی علاقے تدمر کو قلمون سے جوڑ دے اور اگر وہ اس میں کامیاب ہو جاتا تو جنگ اور بھی سخت ہو جاتی۔

حزب اللہ لبنان کے سربراہ کا کہنا ہے کہ امریکہ، داعش کے ساتھ جنگ میں لبنانی حکومت کے راستے میں مانع تراشی کرتا رہا اور امریکہ نے ہی داعش کے کچھ سرغنوں کو افغانستان منتقل کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا امریکہ افغانستان کے تمام پڑوسیوں کو غیر مستحکم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ داعش کو امریکہ نے بنایا ہے اور افغانستان کا تجربہ خطے کے تمام ممالک کے لیے سبق ہونا چاہیے۔

سید حسن نصر اللہ کا کہنا تھا کہ لبنان اور شام کے عوام کے ساتھ مل کر دہشت گردوں کے خلاف ہماری لڑائی اسلامی جمہوریہ ایران کی حمایت سے ممکن ہے۔ الجرود کی جنگ لبنان میں قوم، فوج اور مزاحمت کے مثلث کے لیے ایک نیا تجربہ ثابت ہوا۔ انہوں نے کہا کہ حزب اللہ کا اس جنگ میں حصہ لینے کا ہدف لبنان کی حمایت اور اس کی زمینوں کو آزاد کرانا اور دشمن سے لڑنا تھا۔

 ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے افغانستان کے دارالحکومت  کابل کے ایئر پورٹ پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ کابل ایئر پورٹ پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے میں بچوں اور عورتوں سمیت متعدد افراد جاں بحق ہوگئے ۔ اس حملے کی ذمہ داری وہابی دہشت گرد تنظیم داعش نے قبول کی ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے صدرڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی اپنے بعض وزراء کے ہمراہ  پہلے صوبائی دورے پر آج صبح خوزستان پہنچے، جہاں انھوں نے صوبہ کے اعلی حکام کے ساتھ اہم مسائل اور عوامی مشکلات کو دور کرنے کے سلسلے میں تبادلہ خیال کیا۔

صدر رئیسی نے صوبہ خوزستان کے دورے کے دوران بعض تعمیری اور ترقیاتی پراجیکٹوں کا قریب سے مشاہدہ کیا۔ صدر رئیسی نے اہواز کے رازی اسپتال کا دورہ کیا اور وہاں خدمت میں مشغول ڈاکٹروں اور طبی عملے کے اہلکاروں کی خدمات پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ رازی اسپتال کورونا بیماروں کے لئے مخصوص اسپتال ہے۔

صدر رئیسی نے صوبہ خوزستان ےک دیہاتوں میں آب رسانی کے پروجیکٹ کا بھی افتتاح کیا ۔ ایرانی صدر نے ہورالعظیم کا بھی قریب سے مشاہدہ کیا۔ صدر رئیسی نے صوبائی حکام پر زوردیا کہ وہ عوام کی خدمت کو سعادت اور نیکی سمجھ کر انجام دیں ، کیونکہ اس طرح وہ آخروی اجر سے بھی بہر مندہ  ہوسکیں گے۔

واضخ رہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی آج صوبح صوبہ خوزستان کے عوام کی مشکلات کا قریب سے جائزہ لینے کے لئے اہواز پہنچے۔ ایرانی صدر کا یہ پہلا صوبائي دورہ ہے صدر رئيسی  کے ہمراہ  بعض وزراء بھی ہیں جن میں بجلی، زراعت ، صحت  اور داخلہ شامل ہیں۔

 اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر داخلہ احمد وحیدی نے نامہ نگاروں سے گفتگو میں  افغانستان کو ایران کا اہم ہمسایہ اور برادر ملک قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ ایران ہمیشہ کی طرح افغانستان کی عظیم و بزرگ قوم کے ساتھ کھڑا ہے اور اس کا حامی ہے۔ انھوں نے ایرانی عوام کی خدمت کو بہت بڑی سعادت قراردیتے ہوئے کہا کہ  اللہ تعالی کا شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے اس عہدے کے ذریعہ عوام کی خدمت کا موقع عطا کیا ۔ احمد وحیدی نے کہا کہ عوام کو درپیش مشکلات حل کرنے کی کوشش جاری رکھیں گے اور ایران کے تمام صوبوں کے گورنر ، ضلعی اور دیہی حکام کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو درپیش مشکلات کو حل کرنے کے سلسلے میں اپنے منصبی فرائض سنجیدگی کے ساتھ ادا کریں۔

احمد وحیدی نے افغانستان کے شرائط کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں جاری شرائط کی وجہ سے بعض افغان شہری ایران کی سرحدوں کے اندر آگئے اور ہم نے انھیں سہولیات فراہم کی ہیں جو افغانستان میں حالات سازگار ہونے کے بعد واپس چلے جائیں گے۔ انھوں نے کہا کہ افغانستان سےملحقہ سرحد پر کوئي مشکل نہیں ہے۔ افغانستان ہمارا اہم ہمسایہ ملک ہے اور ہم افغانستان کی عظيم قوم کی حمایت میں ماضي کی طرح کھڑے رہیں گے۔