اجتماعی گناہوں کے اثرات و مضمرات

Rate this item
(0 votes)
اجتماعی گناہوں کے اثرات و مضمرات

 جو چیز معاشرے کے امن و سکون کو برباد کرے اور انسان کو سیر وسلوک سے روکے اور کمال میں رکاوٹ بنے وہ اجتماعی گناہ شمار ہوگا۔

انسان جو ایک معاشرے میں یکجا بسر کرتے ہیں انکو جان، مال اور آبرو کی سلامتی کی ضرورت ہوتا ہے اور جو چیز امن و سکون کو برباد کرے وہ گناہ ہے، قتل، تشدد و ظلم، سقط جنین اور اغوا وغیرہ سب اجتماعی گناہوں میں شامل ہیں جس کی طرف سورہ نسا میں اشارہ کیا گیا ہے اسی لیے کہا گیا ہے کہ ایک انسان کو حق نہیں کہ وہ دوسرے کا قتل کرے پھر کہا گیا ہے کہ فقر کی وجہ سے اپنی اولاد کو قتل مت کرو چاہے وہ پیدا ہوا ہو یا شکم مادر میں ہو۔

لوگوں کے امن و امان میں خلل بھی اجتماعی گناہوں کا حصہ ہے بعنوان نمونہ قرآن کریم چوری کو ایک گناہ قرار دیتا ہے اور اسی طرح سورہ بقرہ میں سود خوری کو اجتماعی گناہ کہا گیا ہے اور خدا نے اس سے روکا ہے، زخیرہ اندوزی، کم فروشی، قمار و جوا سب ایسے گناہ ہیں جو سورہ نساء میں انکا تذکرہ کیا گیا ہے اور رب کریم نے ان سے روکا ہے کیونکہ یہ اقتصادی مسائل سے جڑے ہوئے ہیں۔

ایسے گناہ جو زبان سے سرزد ہوجائے جیسے تہمت، مسخرہ کرنا، غیبت جھوٹ بولنا ، تجسس کرنا، راز فاش کرنا سب زبان کے گناہ میں آجاتے ہیں اور اجتماعی گناہ ہیں، دوسروں کی آبروریزی، سخن چینی، زنا اور ناجایز تعلقات سب اجتماعی گناہوں میں شمار ہوتے ہیں۔

اجتماعی گناہوں کا اثر جسم و روح دونوں پر ہوتا ہے، عقیدے میں سست ہونا اور اصلی ویلیوز کی تباہی، گناہوں کا عام ہونا، حرمت پامال ہونا، خاندانی زندگی کا برباد ہونا سب اجتماعی گنا کے نتائیج میں شامل ہیں۔/

Read 835 times