انسانیت کے لیے واقعہ کربلا سے بہتر کوئی مثال نہیں ہے، حجت الاسلام والمسلمین مومنی

Rate this item
(0 votes)
انسانیت کے لیے واقعہ کربلا سے بہتر کوئی مثال نہیں ہے، حجت الاسلام والمسلمین مومنی

وفاق ٹائمز، حجت الاسلام و المسلمین سید حسین مومنی نے حرم حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا میں خطاب کرتے ہوئے کہا: حضرت نوح علیہ السلام کے قصہ میں نوح کی قوم اپنے کفر کی وجہ سے بلا و مصیبت کی مستحق ٹھہری اور صرف ایمان والوں کو ہی کشتی پر سوار ہونے کا حق تھا۔

انہوں نے مزید کہا: اب جبکہ سب نے ملاحظہ کیا کہ حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی پر سوار ہونے اور عذاب الہی سے محفوظ رہنے کی شرط حضرت نوح علیہ السلام پر ایمان تھی اور حتی حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے کو بھی کشتی پر سوار ہونے کا حق نہیں تھا، تو یہ دنیا بھی ایک گہرے سمندر کی طرح ہے اور بہت سے لوگ اس گہرے سمندر میں غرق ہو چکے ہیں، اس لیے اس دنیا میں عاقبت بخیر ہونا انتہائی اہم چیز ہے۔

حجت الاسلام مومنی نے کہا: حضرت لقمان علیہ السلام کی نصیحت کے مطابق اس دنیا میں بھی ہمیں ایک کشتی بنانے کی ضرورت ہے جس کی بنیاد تقویٰ، عقل، صبر، توکل، ایمان اور علم پر ہو۔

انہں نے کہا: انسانیت کی بیداری کے لیے واقعہ کربلا سے بہتر کوئی مثال نہیں ہے۔ کربلا جیسی تعلیمی درسگاہ میں حضرت قاسم بن الحسن علیہ السلام کی نظر میں شہادت “شہد سے زیادہ میٹھی” ہے جبکہ مادیت پسندوں کی نظر میں موت سب سے کڑوی چیز ہے لہٰذا مکتب سید الشہداء علیہ السلام ایسی درسگاہ ہے جو تلخ ترین واقعات کو انسانوں کے لیے شیرین ترین واقعات میں بدل سکتی ہیں۔

حرم حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے خطیب نے کہا: پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ “میرے اہل بیت (ع) کی مثال کشتی نوح کی سی ہے جو اس پر سوار ہوگا وہ نجات پائے گا اور جو اس پر سوار نہیں ہوگا وہ غرق ہو جائے گا”۔ اہل بیت(ع) کی کشتی پرسوار ہونے کے لیے بھی نوح کی کشتی میں سوار ہونے کی طرح ایمان اور عمل صالح شرط ہے۔

انہوں نے مزید کہا: بعض روایات میں حضرت سیدالشہداء سلام اللہ علیہ کی کشتیٔ نجات باقی تمام ائمہ علیہم السلام کی کشتی نجات ے کہیں وسیع تر ہے۔ حضرت سیدالشہداء علیہ السلام کے نورِ ہدایت میں ظلمت و تاریکی کی گنجائش نہیں ہے لہذا جو بھی اس نور سے متصل ہو گا وہ نجات پائے گا لیکن یاد رہے کہ حضرت اباعبداللہ الحسین علیہ السلام کی کشتی سے تمام مخلوقات بغیر کسی شرط کے نجات پاسکتی ہے۔

 

Read 157 times