امامت کی پہچان حیات طیبہ حضرت ولي عصر عليه السلام

Rate this item
(0 votes)

حضرت ولی عصر ارواحنا فداہ کے زمانۂ غیبت میں امت اسلامیہ کا ایک بڑا فریضہ یہ ہے کہ وہ امام کی صحیح پہچان اور معرفت پیدا کرے ۔ کسی بھی حقیقت کی شناخت ، اس راہ حقیقت کے بغیر کسی بھی دوسری راہ سے ممکن نہیں ہے اگر کوئی اپنے امام کو صرف اس کے تعارف نامے کی حد تک جانتا ہے تو در حقیقت وہ امام کو نہیں پہچانتا!

شیخ مفید علیہ الرحمہ نے " الارشاد " میں نقل کیا ہے : فرزند رسول امام جعفر صادق علیہ السلام کے فرزندوں میں ایک فرزند نے آپ سے عرض کی آپ اپنے تمام بچوں میں دوسروں کی نسبت موسی کو زیادہ عزیز رکھتے ہیں میں موسی کا بھائی ہوں، ہم دونوں کے دادا بھی ایک ہیں ، باپ بھی ہم دونوں کے ایک ہی ہیں: الیس اصلی و اصلہ واحدا" و ابی و ابوہ واحدا" کیا ہم دونوں کی اصل ایک نہیں کیا میرے اور اس کے باپ ایک نہیں ہیں ؟!

(پھر یہ فرق کیوں ہے ؟! ) جواب میں امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

انت ابنی وھو من نفسی (الارشاد جلد 2 ص 218)

تم میرے بیٹے ہو ( جیسے تمام بیٹے اپنے باپ کے بیٹے ہوتے ہیں ) لیکن وہ میرے نفس اور جان سے تعلق رکھتا ہے ۔

گویا امام کی شناخت اس کی امامت کی شناخت کے ساتھ وابستہ ہے ۔ اگر موسی کاظم علیہ السلام امام جعفر صادق علیہ السلام کی جان ہیں تو اس کی بنیاد ( سوره آل عمران کی 11 ویں آیۃ مباہلہ ) " انفسنا " ہے کہ جس کے تحت تمام ائمہ ایک دوسرے کی جان ہیں ۔ چنانچہ اس حقیقت کی پہچان لازم ہے اور یہ ہمارا اولین فریضہ ہے کیونکہ " من مات و لم یعرف امام زمانہ مات میتۃ جاھلیّۃ " جو شخص بھی مرگیا اور اپنے امام کو نہ پہچان سکا اس کی موت جاہلیت کی موت ہے ۔

اب یہ معرفت جس قدر گہری ہوگي اتنا ہی انسان جاہلیت سے دور ہوگا ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیسے پہچانیں ؟ شیخ کلینی علیہ الرحمہ نے کافی میں نقل کیا ہے معصوم کا ارشاد ہے: "اعرفوا اللہ باللہ و الرّسول بالرّسالۃ و اولی الامر بالامر بالمعروف و العدل و الاحسان " یعنی اگر تم خدا کو پہچاننا چاہتے ہو تو خود اس کی خدائی سے پہچانو اگر " الوہیت " کو پہچان گئے تو گویا اللہ کو پہچان لیا ، اگر رسول کی رسالت کو پہچان گئے تو رسول کو پہچان لیا اور اگر امارت کو، امامت کو امربالمعروف ، نہی عن المنکر اور عدل و انصاف اور احسان کو سمجھ لیا تو سمجھ لو امام کو پہچان لیا ۔ امارت کو " اولی الامر" کی پہچان کا وسیلہ قرار دینا ہوگا امامت کے ذریعے امام کو پہچاننا ہوگا یعنی امامت کی حقیقت سے امام کی حقیقت کا پتہ چلے گا، خود رسالت کی پہچان سے رسول کی پہچان حاصل ہوگي الوہیت کے وسیلے سے ہی اللہ پہچانا جا سکتا ہے ۔ اگر کسی نے اللہ کو پہچان لیا تو سمجھ میں آئے گا کہ الوہیت وحدت کی گواہی دیتی ہے الوہیّت کے ساتھ تعدد یعنی دو ، تین یا کئی خدا ہونا سازگار نہیں ہے ۔

" شھد اللہ انّہ لا الہ الّا ھو " یعنی الوہیت خود منادی وحدت ہے ۔ البتہ یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ خدا کی ذات مستقل اور غنی علی الاطلاق ہے وہ کسی کا محتاج نہیں ہے اس لئے اس کی پہچان بھی کسی غیر کی محتاج نہیں ہے اس کی پہچان خود اس کی الوہیت کی شناخت کے ساتھ وابستہ ہے ۔ لیکن جو ذات خود مستقل نہ ہو بلکہ اس کا وجود اللہ کے ساتھ وابستہ ہو اس کی شناخت اور پہچان بھی خدا کی شناخت کے ساتھ وابستہ ہوگی ۔اسی لئے کسی بھی نبی و رسول کی شناخت کےلئے الہی نبوت و رسالت کی شناخت لازم ہے امام و ولی کی شناخت کے لئے الہی امامت و ولایت کی پہچان ضروری ہے کیونکہ رسالت و امامت ایک الھی شان ہے جو ذات اقدس الہی کی طرف سے اپنے مخصوص بندوں کو ودیعت ہوئی ہے لہذا نبوت و امامت کی شناخت کے لئے سوائے اس کے کوئی اور چارہ ہی نہیں ہے کہ پہلے خدا کی شناخت ہوتا کہ اس کے ذریعے اس کے نبی و رسول اور پھر امام و ولی کی معرفت پیدا کی جائے کیونکہ ان کی جوشان بھی ہے ذات اقدس الہی کی عطا کردہ ہے اگر خداوند عالم کو خود اس کے اوصاف حسنا کے ذریعے پہچان لیں تو اس کے خلفاء کی بھی شناخت پیدا ہوجائے گي ۔انبیاء و اوصیاء بھی سمجھ میں آجائیں گے ۔

اچھا تو چلئے خدا کو پہچانا اس کے رسول اور ائمۂ معصومین کو بھی پہچان لیا اب ہمارا فریضہ کیا ہے؟ زمانۂ غیبت میں ہم کو کیا کرنا چاہئے؟

ذرارہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے عرض کرتے ہیں: اگر مجھے امام مہدی(عج) کی غیبت کا زمانہ نصیب ہو تو مجھے کیا کرنا چاہئے؟! امام علیہ السلام فرماتے ہیں یہ دعا پڑھا کرو۔

" اللّھمّ عرّفنی نفسک فانّک ان لم تعرّفنی نفسک لم اعرف نبیّک ، اللّھمّ عرّفنی رسولک فانّک ان لم تعرّفنی رسولک لم اعرف حجّتک ، اللّھمّ عرّفنی حجّتک فانّک ان لم تعرّفنی حجّتک ضللت عن دینی " ( الکافی ، جلد اول ص 337)

خدایا خود کو جس حد تک بھی مجھ سے مقدور ہے اس طرح مجھ پروا کردے کہ میں تجھے پہچان سکوں کیونکہ اگر تجھ کو نہیں پہچانا تو تیرے رسول کو نہیں پہچان سکتا اور اگر تیرے پیغمبر کو نہیں پہچان سکا تو ان کے جانشین کو بھی نہیں پہچان سکوں گا اگر جانشین کو نہ پہچانا گمراہ ہوجاؤں گا۔

ایک اہم بات

پیروان اہلبیت(ع) کے نزدیک امامت کا مسئلہ ، علم کلام یعنی ایمان و اعتقاد سے تعلق رکھتا ہے اور یہ موضوع فعل خدا کے دائرے میں آتا ہے کوئي فقہی مسئلہ نہیں ہے کہ اس کا فعل مکلف سے تعلق ہو ، اسی لئے اس ذیل میں بحث یہ اٹھتی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلّم کی رحلت کے بعد کےلئے خداوند متعال نے کسی کو خلیفہ ؤ امام منصوب کیا ہے یا نہیں ؟

چنانچہ جو لوگ خود پیغمبر اسلام (ص) کی رسالت کا صحیح طور پر تجزیہ نہیں کرسکے تھے خیال کرلیا کہ امامت ایک انتخابی امر ہے اور ثقیفہ بنی ساعدہ کی مانند اجتماع کے ذریعے بھی امام اور خلیفہ معین کیا جا سکتا ہے ! اور قہری طور پر مسئلہ امامت و ولایت مسئلہ انتخاب و وکالت کی صورت اختیار کرگیا اور علم کلام کا ایک اہم اور بنیادی مسئلہ، فقہی مسئلے تک تنزل اختیار کرگیا در اصل اگر کوئی ایسا مسئلہ ہو کہ جس کا موضوع خود مکلف ( یعنی مسلمانوں ) کا فعل ہو تو وہ مسئلہ، ایک فقہی مسئلہ ہے اس صورت میں فقہی اصطلاح کے مطابق مسئلے کا موضوع فعل مکلف اور محمول فعل مکلف سے متعلق احکام میں ایک حکم ہوتا ہے لیکن جب موضوع فعل خدا ہو تو محمول خدا کے افعال سے کوئی فعل یا خدا کے اوصاف سے کوئی صفت ہوگی اور یہ خدا کے شئون میں سے ایک شان ہے اور اس طرح کے مسائل کا کلامی مسائل میں شمار ہوتا ہے نہ کہ فقہی مسائل میں ، جس طرح ذات اقدس الہی نے ہی اپنے رسول کو اپنی رسالت عطا کی ہے اور رسول کا تعین الہی فعل ہے اسی طرح خداوند متعال نے رسول کے جانشین امام و خلیفہ کو امامت و خلافت دی ہے اور امام کا تعین بھی الہی فعل ہے اور چونکہ خدا نے ہی امام کا تعین کیا ہے ایک ایسا امام دین کا متولی ہے اور خدا کی طرف سے ہمارے لئے اس کو ولی معین کیا گيا ہے ۔ البتہ اسی کلامی مسئلے کے تحت دو فقہی مسائل بھی آتے ہیں ایک تو یہ کہ خود امام پر ، کہ جس کو اللہ نے امام بنایا ہے فریضہ ہے کہ وہ امامت کو قبول کرے اور تا آخر اس کی حفاظت و پاسبانی کرتارہے۔ دوسرے یہ کہ امت اسلامیہ کے تمام مکلفین اور پیرووں پر واجب ہے کہ امام کی امامت و ولایت کو قبول کریں اور اس کی رہبری تسلیم کریں چونکہ یہ دونوں موضوع خود مکلف کے فعل سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے فقہی مسائل میں شمار ہوتے ہیں ورنہ امامت کا موضوع ایک کلامی موضوع ہے ۔

Read 2586 times