لڑکیوں کی تربیت

Rate this item
(1 Vote)

لڑکیوں کی تربیت

جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، لڑكیوں كی پرورش و تربیت كی اہمیت كے سلسلہ میں فرماتے ہیں: (من كان لہ انبۃ فادبھا واحسن ادبھا، وغذاھا فاحسن غذائھا، واسبغ علیھا من النعم التی اسبغ اللہ علیہ، كانت لہ میمنۃ ومیسرۃ من النار الی الجنۃ) 1

جس كے پاس بیٹی ہو اگر وہ اس كے تربیت كرے اور اس كو اچھے عمل كی تعلیم دے اسے كھلائے اور اس كی خوراك میں بہتر ی كو مد نظر ركھے اور جن نعمتوں كو خدا نے اس كے حوالے كیا ھے اسے لڑكی كے اوپر خرچ كرنے میں دریغ نہ كرے تو ایسا شخص آتش جہنم سے دائیں اور بائیں دونوں جانب سے بتچا ہوا وارد بہشت ہوجائے گا۔

ایك حكیمانہ ضرب المثل ہے كہ معاشرہ، ماؤں كی محنتوں كا نتیجہ ہے لہٰذا ماں خاندان كا ركن، اور خاندان پورے معاشرے كا ركن ہے۔ اور جب تك آج كی لڑكی كل كی تاریخ ساز ماں ہے پھر یہ كیسے ہو سكتاھے كہ اس گروہ كو نظر انداز كر دیا جائے اور اس كی تعلیم و تربیت اور پرورش كے لئے كوئی اقدام نہ كیا جائے۔ اسی لئےپیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: (خیر اولادكم البنات)2 تمہاری بہترین اولاد لڑكیاں ہیں ۔

حقیقت و واقعیت سے دور كی بات نہیں كہہ رہے ہیں كیونكہ ہمارا اعتقاد ہے كہ معاشرتی زندگی میں ترقی گھریلو زندگی میں ترقی سے ہی ممكن ہے اور سماج اور معاشرہ بھی پریوار سے ہی تشكیل پاتا ہے اس لئے كہ پریوار سب سے چھوٹا انسانی معاشرہ ہے لہٰذا پریوار معاشرہ، كی بنیاد ھے اور چونكہ ماں پریوار كا ركن ہوتی ھے اور اس كی معلومات سے خاندانی زندگی كے لیول كو اونچا كرنے میں قابل توجہ اثر ركھتی ہے لہٰذا پہلے مرحلہ میں اسے چاہئے كہ پریوار اور گھریلو امور كو نظم و ضبط دے اور بچوں كی تربیت اور ماحول كو پر سكون اور آرام دہ بنایا اس كی عظیم ذمہ داری ہے۔

اور چونكہ لڑكیوں كی تعداد كائنات میں لڑكوں سے زیادہ ھے اگر ان كی تربیت میں سہل انگاری سے كام لیا گیا تو معاشرہ اپنی آدھی سے زیادہ قوت و طاقت میں نقصان اٹھائے گا، عورت تخلیق كو ثمر بخش بنانے میں اہم كردار ركھتی ہے ۔ زندگی میں كچھ ایسے اعمال ہیں كہ جن كو مرد صحیح طریقہ سے انجام نہیں دے سكتے جیسے بچوں كی تربیت نونہالوں كی تعلیم، درد مندوں سے ہمدردی بیماروں كی دیكھ ریكھ اور اسی جیسے بہت سے سماجی اور گھریلو كام كہ جنھیں عورتیں ہی بڑے حوصلہ اور صبر شكیبائی كے ساتھ انجام دینے كی قدرت ركھتی ہیں۔

لہٰذا ضروری ہے كہ مربی لوگ لڑكیوں كے طبیعی حق كو ملحوظ ركھتے ہوئے ان كی خداداد استعداد اور ان كی شخصیت كو ترقی دینے كی كوشش كریں۔ اور اگر ہم چاہتے ہیں كہ ایك باعظمت معاشرہ، تابناك مستقبل كا حامل معاشرہ كی بنیاد ركھیں تو پھر ہمیں ان كی تعلیم و تربیت پر كافی اہتمام كرنا ہوگا اور ان كی تربیت میں عورت ذات كی خاص صفات اور ان كے طبیعی رجحانات كو بھی مد نظر ركھتے ہوئے مناسب روش اپنانی ہوگی۔

لڑكی، آئندہ میں ہونے زوجہ خاندان كی پرورش كرنے والے ہے

ازدواج، مرد اور عورت كے درمیان اتفاق واتحاد پیدا كرنے كے ایك مقدس ربد كا نام ہے جوكہ ایك نئی عمارت معاشرہ كے اندر كھڑی كرنا ھے اور اس میں عورت كا كردار بہت اھم ہے كہ جسے اللہ نے اس كے لئے مقرر كیا ھے اور وہ اہم كردار اور الٰہی ذمہ داری، بچوں كی ریكھ ریكھ اور ان كی تربیت و پرورش ہے یہ زمہ داری خدائی سنت ہے اور تاریخی واقعات نیز قانون طبیعت بھی اس ذمہ داری كو عورت كے اوپر لازم سمجھتا ہے اور چونكہ ازدواج ایك قسم كا عورت ومرد كے درمیان روحی و مادی اشتراك ہے لہٰذا مرد و عورت كی نزدگی میں خوشی وخوشبختی بھی، محبت، تفاھم اور ایك دوسرے كا احترام و عزت كے بغیر پائیہ كمال كو نہی پہنچ سكتی۔ اور سعادتمندی خانوادگی زندگی كے تمام امور كو صحیح تدبیر سے چلانے كے بغیر حاصل نہیں ہو سكتی لہٰذا اس اہم امر كی ذمہ داری پہلے مرحلے میں گھر كی پرورز كرنے والی عورت كے كاندھوں پر ھے۔

اور چونكہ آج كی لڑكی كل كی ہونے والی بیوی ہے لہٰذا معاشرہ اورماں باپ كی ذمہ داریوں می سے ایك یہ ہے كہ اپنی لڑكیون كو میاں بیوی كی زندگی كے معنیٰ و مفہوم سے آگاہ كریں اور اس كی اہمیت كو گوشزد كریں تاكہ وہ آئندہ میں گھریلو زندگی كے تحفظ كے لئے كوشش كرے۔اور لڑكیوں كی ذمہ داریوں میں سے ایك یہ ہے كہ گھریلو مشكلات كو جانتی رہیں ۔ جو مدارس لڑكیوں كی تربیت كرتےہیں ضروری ہے كہ ان مدارس میں میل جول كا پر سكون ماحول قائم ہو اور وہاں پر یہ سكھا یاجائے كہ كس طرح دوسروں كی خدمت كی جاتی ہے كسی طرح فداكاری اور دوسروں كی مدد كی جاتی ہے۔ اس طرح كی تمرینات كا ثر یہ ہوگا كہ لڑكیاں كل كی شائستہ بیویاں بنیں گی اور اپنے شوہروں كے ساتھ سكون وچین كی زندگی بسر كریں گیاور ہر وقت چاہے خوشی كا موقع ہو یا تكلیف دہ حالات ہوں سب میں شوہر كی بہترین مدد گار ثابت ہوں گی ۔

لڑكی آئندہ میں گھر كی پرورش كرنے والی ہے ۔ اس لئے كہ گھر چلانا آج كی دنیا میں ایك قابل توجہ فن كی حیثیت ركھتا ہے كہ جس نے مربیوں كے لئے ضروری بنا دیا ہے كہ لڑكیوں كی تعلیم كے طریقون می تبدیلی لائیں اور ان كی درسیات میں جدید درسی سبجیكٹ اور علمی معارف كا اضافہ كریں تاكہ لڑكیوں كو آمادہ كریں تاكہ وہ آئندہ میں، گھر كے لئے ایك شائستہ پرورش كرنے والی بن سكیں۔

انھیں درسی سبجیكٹ میں سے ایك، حفظان صحت اور تندرستی سے متعلق علوم ہیں ۔ بیماری سے روك تھام اور ان كا مناسب علاج ہے ۔ اسی طرح غذا تیار كر نے اور انھیں مختلف اشتہا دلانے والی جذاب شكل و صورت دینا اور مرغوب بنا نے سے متعلق فنون ہیں ۔ خیاطی (سلائی) كپڑوں كے مختلف قسموں كو پہچاننا اور لباس كے محفوط ركھنے كے ظریقے گھر كے مالی امور كی تدبیر اور اس طرح كے دیگر فنون و معارف بھی ان میں شامل ہونا چاہئے یہ بھی بہت مناسب ہے كہ ان تمام چیزوں كے ساتھ ساتھ كچ ہنر و فن سے متعلق دوروس كو جو كہ گھر كے لئے مختص ہیں انھیں بھی وہ سیكھیں مثال كے طور پر گھر كے لئے كن اسباب و سائل كو انتخاب كیا جائے پھولوں كو كس طرح سجایا جائے وغیرہ جو كہ سلیم وصحت مند ذوق كی عكاسی كرتے ہیں۔

لڑكیوں كے اندر جو مہم ترین جذبہ، مدرسہ پیداسكتا ہے وہ لڑكی ہونے پر فخر كا جذبہ ہے اور ایسے ہم اعمال پر فخر ومباھات كرنا ہے كہ جو گھر كے مربی كو ضرور انجام دینا چاہئے اسی طرح كی تعلیمات سے لڑكیاں گھریلو امور سے آئندہ ذوق و شوق پید كر لیں گی جس كا نتیجہ یہ ہوگا كہ لڑكیاں گھریلو كاموں كو ایك اہم ھنر تصور كریں گی اور ان كے دل كی گہرائیوں می یہ احساس پیدا ہو جائے گا كہ ان كے وجود كا اصلی اور آخری مقصد ۔۔۔وہ خود چاہے جتنی لڑھی لكھی كیوں نہ ہوں۔۔۔ ایك بہترین اور نمونہ كہے جانے كے قابل گھر كو بنانا اور ایك آئیڈیل پریوار كی بنیاد ركھنا ہے اور بالاخر ان كا یہ جذبہ ایك ترقی یافتہ معاشرہ تیار كرنے میں بڑا موثر ہوگا۔

ایك بہت بڑی غلطی یہ ہے كہ كوءی تصور كرلے كہ ماں كی ذمہ داری صرف فرزند پیدا كرنا ہے درحالیكہ جو ماں باپ صاحب فرزند ہو جانے كے بعد ان كی تربیت پر توجہ نہ دیں انھوں نے خود اور معاشرہ دونوں كو بہت سخت نقصان پہنچایا ہے ۔ بچوں كی تربیت میں پہلا دور بڑی اہمیت كا حامل ہے جس كے بارے میں ماہرین نفسیات دانشمندوں اور مربیوں نے بہت سے مقال لكھ ڈلے ہیں كیونكہ اس پہلے دور میں تہذیب وادب اور بچے كہ شخصیت سنوانے والے اسباب و علل كی بنیاد پڑتی ہے واضح سی بات ہے كہ ماں ہی مدرسہ كی تعلیم تربیت سے پہلے كے مرحلہ میں پہلی مربی ہے لہٰذا لازم ہے كہ كل كی ماں بننے كے لئے لڑكیوں كی اچھی طرح تربیت كی جائے اور ماؤں كو چاہئے كہ اپنی لڑكیوں كو بچوں كی زندگی میں آنے والے مختلف ادوار كی تعلیم دیں اور انھیں تربیت كے جملہ امور سے آگاہ كریں۔

رُسو كہتا ہے: بچہ ماں كی چاہت كے حساب سے تربیت پاتا ہے اگر تم چاہتے ہو كہ تمھارا بچہ شرف و فضیلت كا مفہوم درك كرلے تو تمہیں چاہئے كہ بچہ كی ماں كی تربیت كرو۔

شاید سب سے پہلا امر جس پر عنایت و توجہ لازم ہے وہ بچہ كی سلامتی ہو۔اور اس پر توجہ حتیٰ ولادت سے پہلے لے كر ولادت كے بعد بھی جاری رہتی ہے لہٰذا لڑكی كو یہ سكھانے كہ سخت ضرورت ہے كہ حامل ہونے كا مطلب كیا ہے؟ حاملہ ہونے كی صحیح صورت كیا ہے؟ اور جنین (بچہ) پر توجہ كس طرح سے ركھنی چاہئے اسے حفظان صحت كے تمام اصولوں كی حتی الامكان سیكھانا چاہئے اور اسی طرح اپنی اور بچے كی جسمانی ورزش، پاك و پاكیزہ اور كھلی فضا، سورج كی اہمیت اور خوراك و صاف صفائی كے اصولون كو سكھانا چاہئے اسی طرح مناسب لباس كی قسمیں بچے كو بیماریوں سے بچانے كے طریقے اور اگر بیمار ہو جائے تو اس كے علاج معالجہ سے وابستہ امور كی جانكاری ركھنا چاہئے ۔اور ہر گز ان مہم امور كی تعلیم خرافات اور انسانوں كی مدد سے نہیں ہونا چاہئے ۔

واضح ہے كہ لڑكی، اس طرح كے امور كو صرف كتابوں سے اوركلام استاد سے نہیں سیكھتی، بلكہ مدرسہ اور گھر میں اپنے مشاہدات اور تجربات سے بھی سیكھتی ہے ۔ اسی بنا پر لڑكیوں كی مربیوں كو چاہئے كہ اپنی نصیحتین اور مشوروں كو اپنے شاگردوں كے تجربات كے ساتھ ہم آھنگ كر لیں۔ یعنی اگر ممكن ہو تو كچھ عملی كلاسیں لڑكیوں كے لئے ركھیں، خاص طور سے بچے كی صفائی اور نہلانے دھلانے جیسے امور ہیں۔

اس كے علاوہ كی ماں كی توجہ بچے كی جسمی حوائج كی طرف ہونی چاہئے، اخلاقی اور عقلی جہات كی طرف بھی اھتمام ہونا چاہئے ۔لیكن اس میں بچے كے مراحل زندگی اور پرورش كو بھی ملحوظ نظر ركھنا چاہئے۔ لہٰذا لڑكی كو سیكھنا چاہئے كہ كس بچہ كو بُری عادتوں سے روكا جا سكتا ہے اور كس طرح اطاعت، فرمانبرداری، خود اعتمادی اور دوسروں كے حقوق كا احترام اور اس جیسی اچھی عادتوں كو اس كے اندر پیدا كیا جائے ۔اور جان لے كہ كس طریقے سے كسی مسئلے كو حل كرنا اور اس كا واب ڈھونڈھنے كے احساس كو بچہ كے اندر جگائے اور اس كے اندر تفكر اور استنباط كی طاقت كو ابھارے۔ آئندہ میں ماں بننے كے لئے ایك لڑكی كی تربیت میں بہتر ہے كہ اس جیسی علمی تعلیمات كو عملی طریقوں كے ساتھ مطابقت دی جائے ۔یعنی اسے ذمہ داری دیا جائے كہ گھروں میں اور ٹہلنے كی جگہوں پر بچوں كی دیكھ ریكھ كرے۔ اور بچوں كے سن كی مناسبت سے جو كھیل ہیں انھیں سیكھے تاكہ عملی طور پر بچہ كی حاجتوں كو سمجھ سكے ۔آخر میں اس بات كا ذكر ضروری ہے كہ ماں كی زندگی كا سب سے اہم كردار اور مظاہرہ، وہ پاكیزہ اور پاك محبت ہے كہ جس كے ساتھ اسے اپنے فرزند سے پیش آنا چاہئے ۔

لڑكی، ایك ارزشمند انسان ہے

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب سے بہترین حق كو لڑكیوں كے لئے قرار دیا، اور ایك ایسے زمانے میں جب كہ لڑكیاں، انسانی حقوق اور حیات كے حقوق سے بھی محروم تھیں؛ انھیں زندگی كے تمام حقوق دیئے ۔قرآن مجید، لڑكیوں كی دردناك اور تأسف بار حالت كو عصر جاھلیت میں اس طرح تصویر كشی كرتا ہے: (واذا بشر احدھم بالانثی ظل وجھہ مسوداً وھو كظیم یتواری من القوم من سوء ما بشر بہ ایمسكہ علی ھون ام یدسہ فی التراب؟ الا ساء ما یعملون) 3

اور جب خود ان میں سے كسی كو لڑكی كی بشارت دی جاتی ہے تو اس كا چہرہ سیاہ پڑجاتا ہے اور وہ خون كے گھونٹ پینے لگتا ہے ۔قوم سے منھ چھپاتا ہے كہ بہت بُری خبر سنائی گئی ہے اب اس كو ذلت سمیت زندہ ركھے یا خاك میں ملادے یقیناً یہ لوگ بہت بُرا فیصلہ كررہے ہیں۔

اب جب كہ صدیاں گذر چكی ہیں بشریت كی دنیا متوجہ ہوگئی ہے كہ لڑكی بھی لڑكے كی طرح ایك انسان ہے كہ جسے بھی حقوق زندگی سے بہرہ مند ہو نا چاہئے ۔ رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

(من كان لہ انبۃ فادبھاواحسن ادبھا، وغذاھا فاحسن غذائھا، واسبغ علیھا من النعم التی اسبغ اللہ علیہ، كانت لہ میمنۃ ومیسرۃ من النار الی الجنۃ) 4

جس كے پاس بیٹی ہو اگر وہ اس كے تربیت كرے اور اس كو اچھے عمل كی تعلیم دے اسے كھلائے اور اس كی خوراك میں بہتر ی كو مد نظر ركھے اور جن نعمتوں كو خدا نے اس كے حوالے كیا ھے اسے لڑكی كے اوپر خرچ كرنے میں دریغ نہ كرے تو ایسا شخص آتش جہنم سے دائیں اور بائیں دونوں جانب سے بتچا ہوا وارد بہشت ہوجائے گا۔

ابی عبد اللہ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

(البنون نعیم والبنات حسنات یسئل اللہ عن النعیم و یثیب علی الحسنات) 5

لڑكے نعمت، اور لڑكیاں حسنات ہیں۔

ہاں تك كہ بعض روایات میں آیا ہے كہ عورتیں، مردوں سے زیادہ خدا ان پر رأفت اور مہربانی كرتا ہے:

(عن ابی الحسن الرضا(ع) قال:قال رسول اللہ (ص)، ان اللہ تبارك تعالیٰ علی النساء اراف منہ علی ازكور) 6

امام علی رضا علیہ السلام س روایت ہے كہ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: خدا عورتوں پر مردوں سے زیادہ مہربان ہے۔

اس زمانے میں جب كہ لڑكیوں كو گری ہوئی نظر وں سے دیكھا جاتا تھا جنا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس كی حفاظت اور تربیت كے لئے حكم فرمایا:ایك عاقلانہ تدبیر كے ذریعہ، لوگوں كو اس كی انسانی حیثیت كی طرف متوجہ فرمایا:

حمزۃ بن عمران سے مروی ہے كہ ایك آدمی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كی خدمت میں آیا پیغمبر(ص) كے پاس ایك دوسرا شخص بھی تھا۔ آنے والے آدمی نے اسے بچہ پیدا ہونے كی خوشخبری سنا۴ی اس شخص كا رنگ بدل گیا۔ رسول (ص) نے فرمایا:كیا پیدا؟ اس نے عرض كیا: خٰیر ہے ۔ فرمایا: كہو۔عرض كیا: میں گھر سےنكلاتھا جب كہ میری عورت پیدائش كے درد میں مبتلا تھی مجھے خبر مل كہ اس نے ایك لڑكی كو جنم دیا ہے ۔ پیغمبر (ص) نے فرمایا: زمین اس كی دیكھ بھال كرے گی اور آسمان اس پر سایہ كرے گا اور خدا اسے روزی پہنچاءے گا ۔ اس كے بعد اصحاب كی طرف رخ كیا اور فرمایا: جس كے پاس ایك لڑكی ہے اس كا بوجھ وزنی ہے، اور جس كے پاس دو لڑكیاں ہیں اس كی مدد كرنے چاہئے ۔ اور اگر تین لڑكیاں ہوں تو جنگ كا وجوب اس پر سے ہٹا دیا جاتا ہے، اور جس كے پاس چار لڑكیاں ہوں اے خدا بندے! اسے قرضہ دو، اور اے خدا بندے! اس پر ترحم كرو۔7

امام جعفر صاد ق علیہ السلام نے فرمایا: جب كوئی اپنی لڑكیوں كی موت كی آرزو كرے تو وہ انكی خدمت كے اجرو ثواب سے محروم ہوتا ہے اور گنہ گابن كر خدا كی ملاقات كرے گا۔ 8

لڑكیوں كے حقوق كی تائید و تثبیت كے لئے اور ان كی دیكھ بھال كے لئے لوگوں كو ترغیب دلانے كے لئے، جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

(من قال ثلث بنات اوثلث اخوات وجبت لہ الجنۃ، فیل: یا رسول اللہ واثنین؟ قال: اثنین۔ قیل یا رسول اللہ وواحدۃ ؟ قال: وواحدۃ) 9

اگر كوئی شخص تین لڑكیاں یا تین بہنوں كے زندگی كا خرچ چلائے تو جنت اس پر واجب ہو جاتی ہے ۔ عرض كیا گیا: كیا دو لڑكیاں اور دو بہنیں بھی؟ فرمایا: ہاں۔عرض ہوا: كیا ایك لڑكی اور بہن بھی؟ فرمایا: ایك لڑكی اور ایك بہن بھی۔

لڑكیوں كے لئے اونچی پڑھائی

اسلام میں لڑكیوں اور عورتوں كے لئے علم میں آگے بڑھنے كے لئے، كوئی حد نہیں قرا ر دی گئی ہے۔ اور علوم كو ھر انسان چاہے مر د یا عورت كے لئے جہاں تك ممكن ہو اور استعداد بھی ہو اسلام سے مطلوب اور ضروری سمجھتا ہے ۔ اور عورت كو بھی اس جہت سے كبھی بھی محدود نہیں كیا ہے۔

تاریخ اسلام میں ایسی مشہور و نامور عورتیں گذری ہیں جو كہ درجہ عالیۂ اجتہاد اور بعض علوم میں تخصص كے درجہ پر پہنچ چكی ہیں۔۱۰

بچوں كی تربیت كے لئے عورت كی مستعدی زیادہ ہے

باہر كی ہر مشقت كا موں میں عورتوں كی مردوں كے ساتھ شركت، ایك ایسا موضوع ہے كہ جسے فطرت بشر اور آج كے علوم تمام طور پر اسے تقبیح كرتے ہیں۔ اس لئے كہ عورت طبیعتاً تولید نسل اور تربیت فرزند كے لئے خلق كی گئی ہے ۔ وہ ہر مشقت معاشرتی ذمہ داریوں كو اپنے عہدہ پر نہیں لے سكتی اور مردوں كے ساتھ ان كے طاقت فرساكاموں میں نہیں شریك ہو سكتی ہے ۔ جس كا نتیجہ یہ ہوگا كہ اپنے گھر كو چھوڑ دے اور ان كے بچے ۔ جو كہ ماں كی محبت اور حمایت كے سخت محتاج ہیں گلیوں اور سڑكوں پر رہا ہو جائیں۔

عورت كی زندگی كا مرفہ ہونا ایك فطری بات ہے، اسی لئے كے لوگوں نے درك كر لیا ہے كہ عورتیں كو حتی الامكان اور زیادہ تر گھر كے داخلی كاموں میں مصروف ہونا چاہئے، لیكن بعض جگہوں پر وحشی قوم كے لوگ، افریقا اور آسٹریلیا كے جنگلوں میں دوسری طرح زندگی گذارتے ہیں، یعنی مرد تو گھر پر بیكار بیٹھتے ہیں، اور عورتیں گھر سے باہر، بڑی سختی كے ساتھ ہر مشقت كام كر كے اپنے پریوار كے لئے وسائل زندگی فراہم كرتی ہیں اور شوہر كے لئے كھانا پینا لاتی ہیں۔

علم نے اس باتے میں اپنے آخری بیان اور كلام كو اظہار كیا ہے اور ہم یہاں پر، فرانس كے فلسفہ دان اگوست كنت كی كتاب برنامہ سیاسی میں سے ایك خلاصہ لاتے ہیں۔

شائستہ یہ ہے كہ عورتوں كی زندگی سكون وآرام كے ساتھ ہو۔اور مردوں كے كاموں كی ذمہ رادی ا پر نہ ہو۔ اس لئے كہ یہ اعمال انھیں اپنی طبیعی ذمہ داریوں كے راستے سے ہٹا دیتے اور ان كے فطری مواھب كو تباہ كر دیتے ہیں۔ اسی بنا پر عورت كی زندگی كا خرچہ مرد دیتا ہے بغیر اس كے كہ كوئی مادی نفع والا كام اس سے كرانا چاہئے ۔ جیسا كہ مؤلفین فلاسفہ، شاعر پیشہہ لوگ اور تمام دنشمندوں كو اپنے ذوق اور علم سے فائدہ اٹھانے كے لئے سكون اور آرام اور فراغت كی گھڑیاں چاہئے ہیں۔ اسی طرح عورتیں بھی اپنی انسانی اور سماجی ذمہ داریاں جیسے حمل اور پیدائش، بچوں كی تربیت، گھر داری كے لئے، اسی طرح كے اوقات فراغت كا ہونا ضروری ہے۔

ہ پیروا گراف اس فرانسی فلسفہ دان كے نظریوں كا نچوڑ ھے۔

لیكن بعض محققین نے، عورتوں كے لئے اپنی طبیعی فطرت سے كارج ہونا تجویز كیا ہے اور حقائق علمی سے ۔ تجدید حیات اجتماعی كے دعوے سے اور اپنے نوشتوں كو رواج دینے كے لئے۔ چشم پوشی اختیار كیا ہے ۔

اس جیسی باتوں نے چاہے مشرق اور چاہے مغرب میں اپنا اثر دكھا یا ہے، اس لئے كہ لوگ سطحی كتابیں اور قصے۔ جو كہ ان كی شہوت اور جنسی تمایلات سے موافق ہو۔ پڑھنے كی طرف زیادہ رغبت دكھاتے ہیں ۔ اور نتیجتاً ایك عمومی اتفاق اس نظرے كی اصالت پر حاصل ہو گیا ہے ۔ اور اس كے نتیجے میں، آج كے انسانی معاشرے كو جنون سے دو چار كر دیا ہے اور عورتیں گھروں كو چھوڑ كر باہر كے پر مشقت كاموں كا استقبال كرتی ہیں۔ اور مرد وعورت كے ملاپ كا اثر سماجی زندگی میِ ایسی عادتوں كا رواج ہے جو كہ صحیح زندگی سے موافقت نہیں ركھتی ہیں ۔ لڑكیوں كی عزویت رائج ہو گئی اور جریدوں نے بھی لوگوں كے اس شہرت یافتہ نظرے كی تائید میں مددكیا ہے ۔ اور والدین اپنے لڑكیوں كے لئے ایسے جرائد كو پڑھنے كے لئے فراہم كرتے ہیں ۔ وہ بھی اپنے قیمتی اوقات كو ایسے بے ثمر امور میں ضائع كرتے ہیں۔ اسی طرح سے بچے آئندہ میں ہر كام كے علوم ھنر وسے محروم ہیں ۔ البتہ اس طرح كے نوشتوں كے مطالب بچوں كے مزاج پر بہت بڑا اثر ركھتے ہیں۔

لیكن جب انسان میں كسی چیز كی عادت پو جاتی ہے، وہ عادت ہمیشہ ترقی كرتی رہے گی یہاں تك كہ اپنے منہا درجہ اور سب سے آخری حالت پر پہنچ جائے۔ یہاں تك كہ عورتوں كا نیم برہینہ ہونا، تھیٹر كے اسٹیج پر تقریباً پوری برھنگی میں بدل گئی اور زندگی كے عام مرحلوں میں بھی ایسا ہوا اور اس عادت كا اثر دریاؤں كے كنارے اور فاحشہ خانوں میں عملی طور پر دیكھا جاتا ہے۔

كیا انسان كی ترقی، یہیں پر رك جاتی ہے؟ گر یہ كہ غیر قابل توقع حوادث پیش آئیں:

(ظھر الفساد فی البر والبحر بما كسبت ایدی الناس لیذیقھم بعض الذی عملوا لعلھم یرجعون) 10

لوگوں كے اعمال كے ذریعہ خشكی اور تری میں فساد تباھی ظاہر ہوگئی تاكہ انھیں اپے اعمال كے بعض نیتجے تك پہنچادے، شاید (ان كے بدلے عمل كے نتائج) انھیں اپنے اعمال سے لوٹنے پر مجبور كرے۔

اگر كوئی دنیاوی امور میں مطالعہ كرے اور آج كل كے مختلف معاشروں كے علل اور عوامل میں دقت علمی سے چھان بین كرے، تو سمجھ لے گا كہ عوام كی اكثر شكایتیں اور پیچھے رہنا اور معاشرتی مشكلات اور مالی اور اقتصادی گھبراہٹیں ان كی بنیاد، عورتوں كی بے حدو بی پردگی بیحائی اور تھتك ہے۔

ہاں عورتوں كے عادات اور فطرتوں میں سے ایك، اپنی حفاظت اور حیاء ہے ۔ لیكن مرد ہمیشہ انھیں بہكانے اور اغواكرنے كے چكر میں رہتے ہیں اور رہیں گے ۔ اور چاہتے ہیں كہ اس فطری بات كو ان كے اندر مارڈالیں ۔ اور انھیں بی پردگی اور بیحائی كے میدان میں ڈھكیل دیں۔ اور اس بہكانے میں كامیاب بھی ہوچكے ہیں۔

اور قطعی طور پر، اس بہكانے والی آزادی كے مقابلے میں تسلیم ہونے كی وجہ سے عورتیں اپنے تمام حقوق كھو چكی ہیں اور اس كے عوض میں كطبھ بھی حاصل نہیں كیا ہے ۔

عورت، عفت اور صحیح پردے كے سایہ میں، عزت دار تھی، لیكن اب مبتذل اور بے مقدار ہوگئی ہے ۔ اور عورت كی بے پردگی اور بیحائی حقیقت میں اپنا بدن دكھانے میں مبالغہ ہے اور ہر كھلے طور پر دكھائی جانے والی چیز، دھیرے دھیرے مبتذل اور كم مقدار ہوتی جاتی ہے ۔اور جوانوں كی شادی سے روگردانی عورتوں كی مفرط بے پردگی كے آثار میں سے ہے تو عورت اپنے جسم كو دكھانے كی وجہ سے، اپنی عزت كھو بیٹھی ہے ۔

عورت كا وجود گھر كے اندر روحی ضرورتوں میں سے ایك ضرورت ہے ۔ مردا س كے ذریعہ سے اپنے سكون كو بر قرار ركھتا ہے:

(ومن آیاتہ ان خلق لكم من انفسكم ازواجا لتسكنوا الیھا، وجعل بینكم مودۃ ورحمۃ ان فی ذلك لآیات لقوم یتفكرون) 11

اس كی آیتوں میں سے ایك آیت یہ ہے كہ اس نے تمہارے لئے تم سے ہی زوج قرار دیئے تاكہ اس كے ذریعہ آرام پاسكو، اور تمہارے درمیان محبت اور دوستی كو قرار دیا ۔ اس بات میں كچھ علامتیں ہیں سوچنے والے لوگوں كے لئے۔

عورت، دنیا میں سب سے اونچی اور اہم ذمہ داری نبھانے كے لئے سب سے اہم سرمایہ ہے، اور وہ زمہ داری؛ بچوں اور نونہالوں كی تربیت ہے اسے چاہئے كہ بچوں كو اخلاق اور ادب كے اصول ومبادی اور فضیلت و انسانیت كو سكھائے ۔ فلسفہ دانوں اور مربیوں نے گھر كی اہمیت اور خاندان كے ماحول كے اثر كے بارے میں بہت باتیں كہی ہیں۔ لیكن عورت آج كل كی دنیا میں غلط اور فاسد تعلیم كی وجہ سے اپنی ذمہ داریوں سے بہت بہت دور ہو چكی ہے ۔ اور ایسی ذمہ داریاں اس پر آئیں كہ جس كے دباؤ كے نیچے اس نے اپنے نسوانی عزت واحترام كو كھو دیا ہے اور یہ آج كی ذمہ داریاں، فاحشہ خانوں میں آناجانا اپنے آپ كو دكانوں، سینما ہال، اور ٹی وی پر دكھانا ہے ۔ اور شہرت پرستوں نے ھنر كی حمایت كرنے كی آڑ میں عورتوں كی زندگی میں خطرناك حالات كو ایجاد كیا ہے كہ جس كے مفاسد بشریت كتنے كتنے سالوں تك برداشت كرتی رہے گی۔

آج تمام لووں كے لئے، معاشروں كے اخلاقی فسادات، تماماً قابل دید ہے كہ تاریخ بشریت میں ایسا فساد كبھی نہیں دیكھا گیا ہے ۔ اگر انسان كی حیات اور ترقی، شہوت كے دلدل میں پھسنا ہی ہے؛ تو ایك ایسی طرز حیات منتخب كرنا چاہئے جو كہ تمام بڑے انسانی فطریات جیسے ناموس كے بارے میں غیرت ركھنا اور شرف و عفت و پاكدامنی كو دوست ركھنا، ان سب كو ختم كر دینا چاہئے۔

اگر انسان كی خلقت جانوروں كی طرح اور ان جیسی شرائط كے ساتھ ہوتی تو ظاہر سی بات ہے كہ جانوروں كی طرح زندگی گذارتا لیكن انسان، انسان خلق ہوا ہے ۔ وہ اس كے باوجود كہ شہوت كو اپنے اندر محسوس كتا ہے ۔ لیكن اس كے ساتھ ساتھ كچھ معنوی بر تریاں اپنے ادر دیكھتا ہے كہ قطعاً جن سے جانور محروم ہے ۔ جو لوگ بیحیائی كو مباح تصور كرتے ہیں بہكانے والے بہانوں كے ذریعے چاہتے ہیں كہ حقیقتوں كو پردہ كے نیچے چھپائے ركھیں اور تصور كرتے ہیں كہ عورتون كی عفت كا مطلب ان كا محدود كرنا ہے ۔ كہنا چاہئے:كیا عورتوں كا اپنی طبیعت كی مناسبت سے ظریف ذمہ دار ریوں میں مشغول ہونا، ان كا محدود كرنا ؟ تو اس صورت میں چاہئے كہ جو بھی اپنی ذمہ داریاں پر عمل كرتا ہے، محدود ہے اور تنگنی میں ہے۔

لیكن عورت كے استقلال كا مسئلہ ۔ ایك طرح سے۔ اس بات كے خلاف ہے كہ وہ ایك مرد كی زوجہ ہو، اس لئے كہ مراد اور عورت كے درمیان كچھ ایسے التزام اور پابندیاں متقابلاً موجود ہیں جو كہ ان كے استقلال كی مخالفت كرتے ہیں۔ لیكن چونكہ لكھنے والے اور قصہ گو افراد محبت اور عشق كے علاوہ اور مرد اور عورت كی خیانت كے قصوں كے علاوہ كوئی اور بیان ان كے پاس نہیں ہے، اس استقلال كی عورتوں كو لالچ دیتے ہیں تاكہ اس كو میاں بیوی اور زوجیت كے مابین التزامات اور تعہدات سے كارج كردیں ۔

بعض لوگ كہتے ہیں كہ عورتوں كو مادی فعالیت اور سائل زندگی كے حصول سے محروم نہیں ہو نا چاہئے ۔ اگر چہ ہم یہ جانتے ہیں كہ اسلام نے عورت كو مالی استقلال دیا ہے لیكن ان لوگوں كے جواب میں كہہ سكتے ہیں كہ عورت، شادی كے زریعہ متعلق اسلام میں ۔اپنی زندگی كے خرچ كو شوہر كے وسیلہ سے چلا سكتی ہے اور چونكہ خدا نے عورتوں كی تعداد كو ۔ تھوڑے سے فرق كے ساتھ۔ مردوں كی تعداد كے برابر قرار دیا ہے، تو عورت اگر ھد سے زیادہ آزد ہو اور مردوں سے معاشرت كرتی رہے، تو وہ زندگی اور دانہ پانی سے محروم ہو جائے گی، اس لئے كہ یہ عمل، غیر مستقیم طریقے سے، عزوبت كو رواج دیتی ہے، اور عزوبت كا رواج معاشرے میں عورتوں كا ایك گروہ وجود میں لائے گا كہ جن كے پاس زندگی كا خرچ نہیں ہے ۔ لہٰذ وہ مبور ہو جا۴یں گی كہ مردوں كے ساتھ سادی امور میں تعاون كریں۔ اور ان كا مردون كے ساتھ ساتھ رہنا متعاكساً عزوبت كو ایجاد كرنے كے عوامل میں سے ہے، اور یہ نكتہ كسی سے چھپا ہو انہیں ہے ۔ ایسی صورت میں عورت طاقت گھٹانے والے كام كو انجام دیتے ہوءے اپنے ظرافت اور عورت كی عزت كو كھو دے گی اس لئے كہ عورت دكان چلا نے اور سامان اٹھانے اور ڈڑائیور بننے كے لئے پیدا نہیں كی گئی ہے ۔ بلكہ پیدا كی گئی ہے تاكہ اپنے شور كے لئے ایك اچھی بیوی اور گھر میں بچوں كی تربیت دینے والے ماں بنے ۔ اور گھر اگر ایك ناچیز چھونپڑی بھی ہو تو عورت كے لئے ایك وسیع محل كی حیثیت ركھتی ہے ۔ وہ گھر كے اندر بہتر اپنے امتیازات كی حفاظت كرسكتی نہ كہ تب جب وہ سامان اٹھانے والی ہو یا گاڑی ڈرائیور ہو۔

تو عورت اپنی مناسبت سے جو وظائف ہیں جیسے كہ بچوں كی پرورش اور داخل حوائج كو پورا كرنا اور ایسے معاشرتی مسائل میں شركت كرنا جسے اسلام نے تجویز كیا ہے ۔ ان كے انجام دیكر بہتر اپنی حثیت كی حفاظت كرسكتی ہے ۔

ہمیں بلند آواز سے كہنا چاہئے كہ انسانی فطرت ایك عجیب و غریب مھلكہ می پڑچكی ہے اس لئے كہ حدود و نوامیس الٰہی سے كوسوں دور ہو چكی ہے ۔ اور جلد ہی و تمدن جو كہ بہت زمانہ بیتنے كے بعد بشر كی انتھك كوششوں سے بنا ہے، متلاشی ہو جائے گا۔ (من یتعد حدود اللہ فقد ظلم نفسہ)

جو حدود خداوندی سے گذر جاے، اس نے اپنے آپ پر ظلم كیا ہے ۔

-------

1. محجۃ البیضاء، ج۲، ص۶۴۔

2. بحار الانوار، ج۲۳، ص۱۱۳۔

3. سورہ نحل آیت، ۵۸۔۵۹۔

4. محجۃ البیضاء، ج۲، ص۶۴۔

5. وہی كتاب اور وہی صفحہ'

6. مكارم الاخلاق، ص۱۳۳۔سورہ روم آیت، ۲۰۔

7. بحار الانوارج ۲۳، ص۱۱۴۔

8. وہی كتاب اور وہی صفحہ۔

9. سورہ روم، آیت ۴۰۔

10. سورہ روم، آیت۲۰۔

11. سورہ معارج، آیت ۱۔

Read 5859 times