
سلیمانی
امریکی حمایت کی وجہ سے اسرائيل تمام وسائل سے فائدہ اٹھا رہا ہے/ مسئلہ فلسطین حق کا معیار
حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصر اللہ نے ذرائع ابلاغ کی اہمیت اور اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے سلسلے منعقد ہونے والی قومی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی تسلط کی وجہ سے اسرائيل تمام وسائل سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ انھوں نے اپنے خطاب میں دشمن کے ساتھ عسکری مقابلے کے ہمراہ ذرائع ابلاغ کے مقابلے کو بھی اہم اور مؤثرقراردیا۔
سید حسن نصر اللہ نے امریکہ اور اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں ذرائع ابلاغ اور میڈيا کے کردار کو اہم قراردیتے ہوئے کہا کہ دشمن کے خلاف عسکری محاذ کے علاوہ ذرائع ابلاغ کے محاذ پر بھی بھر پور مقابلہ ہونا چاہیے۔ امریکہ کے تسلط کی وجہ سے اسرائیل تمام وسائل اور امکانات سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ خطے میں اسرائیل کی منہ زوری اور فلسطینیوں پر ہونے والے جبر و تشدد کی اصل وجہ امریکہ کی حمایت ہے اگر امریکہ، اسرائيل کے ظالمانہ اور مجرمانہ اقدامات کی حمایت ترک کردے تو اسرائیل کا وجود خود بخود ختم ہوجائےگا۔
انھوں نے کہا کہ عراق اور شام میں امریکی فوجیوں کی موجودگی ناجائز اور غیر قانونی ہے عراق اور شام میں موجود امریکی فوجی غاصب اور دشمن کی حیثیت رکھتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ہم مسئلہ فلسطین کو حق کا معیار سمجھتے ہیں اور مسئلہ فلسطین کے بارے میں اسلامی مزاحمتی محاذ کے ذرائع ابلاغ کو اپنا اساسی اور بنیادی کردارادا کرنا چاہیے۔
سید حسن نصر اللہ نے مسئلہ فلسطین کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ ، اسرائیل اور اس کے اتحادی ممالک مسئلہ فلسطین کو فراموش کرنے اور اسے پس پشت ڈالنے کے سلسلے میں بڑے پیمانے پر تلاش و کوشش کررہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اسلامی مزاحمت نے جو وعدہ کیا اسے عملی جامہ پہنایا ہے ہم نے قیدیوں کی آزادی کا وعدہ کیا جسے پورا کردیا۔ جب ہم اسرائیل کے زوال کی بات کرتے ہیں تو یہ بات حقائق پر مبنی ہوتی ہے اسرائیل کا زوال ایک ٹھوس حقیقت ہے ۔ ہم اپنے اہداف میں مبالغہ آرائی نہیں کرتے ہیں۔ سیف القدس کی جنگ نے بیت المقدس کی آزادی کو قریب کردیا ہے۔ ہم دشمن کے کمزور نقاط کو اچھی طرح جانتے ہوئے اس پر غلبہ پانے کی کوشش کرتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ لبنان اور علاقائی سطح پر جاری تمام بحرانوں میں امریکہ کا ہاتھ ہے ۔ امریکہ نے خطے کے امن و اماں کو نشانہ بنا رکھا ہے۔ امریکہ لبنان اورعلاقائي ممالک میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ اسلامی مزاحمت کے ذرائع ابلاغ کو خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار رہنا چآہیے اور صداقت اور حقائق پر مبنی اخبار کو علاقائی اورعالمی سطح پر پہنچانے میں اپنا بنیادی کردار ادا کرنا چاہیے ۔ ذرائع ابلاغ کی جنگ اہم جنگ ہے اور عسکری محاذ کے ساتھ ہمیں ذرائع ابلاغ کے محاذ پر بھی گہری توجہ مبذول کرنی چاہیے۔
مغربی اور سامراجی طاقتیں، مضبوط افغانستان سے کبھی خوش نہیں ہوں گی
اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ کی ثقافتی کمیٹی کے سربراہ حجۃ الاسلام مرتضی آقا تہرانی نے افغانستان کی پارلیمنٹ کی ثقافتی کمیٹی کے سربراہ امیر گل شاہین کے ساتھ ملاقات میں کہا ہے کہ مغربی اور سامراجی طاقتیں، مضبوط افغانستان سے کبھی خوش نہیں ہوں گی ، انھوں نے ہمیشہ جنگ ، دہشت گردی اور اسلام ہراسی کے ذریعہ افغانستان کی غلط تصویر پیش کی ہے۔ آقا تہرانی نے ایران اور افغانستان کے مذہبی ، دینی اور لسانی مشترکات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران اور افغانستان دو برادر اور ہمسایہ ممالک ہیں جن کے دیرینہ ، دوستانہ ، تاریخی اور مذہبی تعلقات ہیں ۔ انھوں نے کہا کہ دونوں ممالک اپنے تاریخی اور ثقافتی اشتراکات کی بنیادوں پر تعلقات کو مزید مضبوط اور مستحکم کرسکتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے ہمیشہ افغانتسان کی ارضی سالمیت کی حمایت کی ہے اور افغانستان میں غیر ملکی افواج کی موجودگی کو امن و صلح کے خلاف قراردیا ہے۔
اس ملاقات میں امیر گل شاہین نے ایران اور افغانتسان کے گہرے اور دوستانہ تعلقات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران افغانستان کا اہم برادر اور ہمسایہ ملک ہے اورایران نے افغان عوام کی جنگ کے دوران بھر پور مدد کی ،افغان عوام ایران کی امداد اور افغان شہریوں کو پناہ دینے کے احسان کو کبھی فراموش نہیں کریں گے۔
افغان پارلیمنٹ کی ثقافتی کمیٹی کے سربراہ نے دونوں ممالک کے درمیان سیاسی، ثقافتی اور اقتصادی شعبوں میں تعلقات کو فروغ دینے پر زوردیا۔
سید حسن نصر اللہ " فلسطین کامیاب ہے" کی قومی کانفرنس سے خطاب کریں گے
حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصر اللہ " فلسطین کامیاب ہے" کے عنوان سے منعقد ہونے والی قومی کانفرنس سے خطاب کریں گے۔
اطلاعات کے مطابق سید حسن نصر اللہ نے ذرائع ابلاغ کی اہمیت اور اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے سلسلے منعقد ہونے والی قومی کانفرنس سے خطاب کریں گے۔ یہ کانفرنس لبنان کے دارالحکومت بیروت میں آج سہ پہر کو منعقد ہوگی۔ جس میں اعلی سیاسی ، علمی ، سماجی شخصیات اور ذرائع ابلاغ کے نمائندے شرکت کریں گے۔
افغان محاذ، شیطان کا شر اور پاکستان
امریکہ نے ویسے تو اعلان کیا ہے کہ وہ افغانستان سے نکل رہا ہے، مگر ’’صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں‘‘ کا مصداق امریکہ افغانستان سے نکل نہیں رہا بلکہ یہاں قیام کا انداز بدل رہا ہے۔ امریکہ پہلے یہاں فوجی طاقت کے طور پر مقیم تھا، لیکن اب سول سٹائل میں اپنا قیام جاری رکھے گا اور خطے میں آگ و خون کا یہ گھناونا کھیل نئے انداز میں کھیلے گا۔ اس حوالے سے امریکہ کے جہاں افغان حکومت کیساتھ رابطے ہیں، وہیں یہ طالبان کو بھی مضبوط بنا رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ، بھارت کے ذریعے افغانستان میں ایک نئے منصوبے پر کام کر رہا ہے۔ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ افغان خفیہ ایجنسی ’’این ڈی ایس‘‘ کیساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔ ایک طرف انڈیا سرکار کے افغان حکومت کیساتھ رابطے ہیں، تو دوسری جانب بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ افغان طالبان کیساتھ بھی مسلسل رابطے میں ہے۔ اس حوالے سے اطلاعات ہیں کہ بھارت افغان طالبان کو انڈیا میں فوجی ٹریننگ دے رہا ہے، اس میں نہ صرف زمینی جنگ کی ٹریننگ بلکہ ٹینک، توپ اور فائیٹر طیارے چلانے کی تربیت بھی شامل ہے۔ ٹریننگ مکمل کرنیوالے طالبان کی باقاعدہ پاسنگ آوٹ پریڈ بھی منعقد کی گئی، جس میں ملا عمر کے بیٹے ملا یعقوب نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔
افغانستان میں طالبان کا بظاہر دشمن امریکہ اپنے دوست بھارت کے ذریعے طالبان کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کر رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ طالبان کو چین، پاکستان اور ایران کیخلاف استعمال کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ طالبان کو امریکہ افغانستان میں تمام دفاعی سہولتیں فراہم کر رہا ہے۔ امریکہ اپنا اسلحہ، ٹینک، توپیں، فوجی گاڑیاں (حماری جیپیں)، بارود اور دیگر دفاعی سامان ساتھ لے کر رخصت نہیں ہو رہا، بلکہ یہ سارا سامان افغانستان میں طالبان کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ وہ طالبان جو کبھی پاکستان کے اشاروں پر جان وار دینے کیلئے تیار دکھائی دیتے تھے، اب انڈیا کے گود میں کھیل رہے ہیں۔ یہی طالبان مستقبل قریب میں مغربی ریمورٹ کنٹرول سے فعال ہوں گے۔ طالبان نے اس وقت افغانستان کے 8 فیصد سے زائد علاقے اور 13 اضلاع پر قبضہ کر لیا ہے۔ ان کی پیش قدمی مسلسل بڑھتی جا رہی ہے، جو آنیوالے دنوں میں سی پیک سمیت خطے کیلئے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ پاکستان کو امریکی انخلا کے بعد مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے حکمت عملی طے کرنا ہوگی۔ اس حوالے سے قومی سلامتی کمیٹی سمیت دفاعی اداروں کو سر جوڑنا ہوں گے۔ اس معاملے میں کسی بھی قسم کی غفلت یا لاپرواہی بہت بڑی تباہی کا پیش خیمہ ہوسکتی ہے۔
دوسری جانب پاکستان کیلئے امریکہ کا رویہ مکمل طور پر بدل چکا ہے۔ امریکہ مختلف حیلے بہانوں سے پاکستان کو پابندیوں کی زد میں لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اب امریکہ نے ’’چائلڈ سولجرز پریوینشن ایکٹ‘‘ کی فہرست میں پاکستان کو بھی شامل کر لیا ہے۔ پاکستان کے دفتر خارجہ نے اس امریکی اقدام کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا نے پاکستان کی غیر ریاستی دھڑوں اور دہشتگرد تنظیموں کیخلاف جنگ اور کوششوں کو واضح طور پر تسلیم کیا ہے۔ دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں یہ کہا گیا ہے کہ اس رپورٹ کی اشاعت سے قبل امریکہ کی جانب سے پاکستان کے کسی ادارے سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا اور نہ ہی امریکہ کی جانب سے پاکستان کو وہ تفصیلات دی گئی ہیں، جن کی بنیاد پر یہ رپورٹ ترتیب دی گئی ہے۔ یاد رہے کہ چائلڈ سولجرز پریوینشن ایکٹ کی خلاف ورزی کی فہرست میں شامل ممالک کی فوجی امداد اور امن مشن کے پروگرام میں شرکت پر پابندیاں عائد ہوسکتی ہیں۔ رواں سال کیلئے جاری ہونیوالے فہرست میں پاکستان اور ترکی کو شامل کیا گیا ہے۔ چائلڈ سولجر پریوینشن ایکٹ میں ان ممالک کو شامل کیا جاتا ہے کہ جنہوں نے کم عمر فوجیوں کو بھرتی کیا ہو۔ اس سلسلہ میں جن اداروں کا جائزہ لیا جاتا ہے، ان میں مسلح افواج، پولیس اور دیگر سکیورٹی فورسز اور حکومت کے حمایت یافتہ مسلح گروہ شامل ہوتے ہیں۔
سال 2021ء کیلئے جاری ہونیوالی اس فہرست میں پاکستان، افغانستان، برما، جمہوریہ کانگو، ایران، عراق، لیبیا، مالی، نائیجریا، صومالیہ، جنوبی سوڈان، شام، ترکی، وینزویلا اور یمن شامل ہیں۔ امریکہ نے چائلڈ سولجرز کے الزامات کیساتھ ساتھ پاکستان پر انسانی سمگلنگ کا الزام بھی عائد کیا ہے۔ امریکہ کی جانب سے یہ حربے اس وقت استعمال کئے جاتے ہیں، جب کسی ملک کو اپنے مفاد کیلئے استعمال کرنا ہو۔ اگر وہ ملک انکار کر دے تو امریکہ مختلف حیلوں بہانوں سے اس ملک کو بلیک میل کرتا ہے، جو اب پاکستان کیساتھ بھی ہو رہا ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے امریکہ کے کچھ مطالبات تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ امریکہ نے دو بڑے مطالبے کئے تھے، جنہیں پاکستان نے تسلیم کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے۔ امریکہ کی جانب سے پہلا مطالبہ یہ کیا گیا تھا کہ پاکستان میں سی آئی اے کو مرکز بنانے کی اجازت دی جائے اور دوسرا مطالبہ چین کیساتھ تعلقات کو محدود کرکے سی پیک کا منصوبہ لپیٹ دیا جائے۔ سی آئی اے کا مرکز یہاں بنانے کا مقصد چین، ایران سمیت خطے کے دیگر ممالک میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنا ہے، جبکہ سی پیک پاکستان کی لائف لائن ہے، اس سے پاکستان معاشی طور پر مضبوط ہوگا، امریکہ کو یہ گوارہ نہیں کہ پاکستان مستحکم ہو، کیونکہ خوشحال پاکستان امریکہ کا دستِ نگر نہیں رہے گا۔
امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان مسلسل اس کی غلامی کا طوق اپنے گلے میں ڈالے رکھے، جبکہ پاکستانی قیادت اب سات سمندر پار اور آزمائے ہوئے دُور کے دوستوں کی بجائے قریب کے اور ہمسایہ ممالک کیساتھ تعلقات میں بہتری لانے کا سوچ رہی ہے۔ پاکستانی قیادت کی اسی سوچ نے امریکہ کی نیندیں اُڑا دی ہیں۔ وزیراعظم نے اسمبلی میں اپنے خطاب میں کہا کہ اب ہم کسی پرائی جنگ میں نہیں کودیں گے، ہم امریکہ کا ساتھ جنگ میں نہیں دیں گے، البتہ ہم امن کیلئے امریکہ کا ساتھ دینے کیلئے تیار ہیں۔ شائد وزیراعظم پاکستان عمران خان یہ بھول گئے ہیں کہ امریکہ نے جتنی بھی جنگیں مسلط کی ہیں، تمام کی تمام امن کے نام پر مسلط کی ہیں۔ امریکہ کا امن کے نام پر ساتھ دینا بھی بدامنی کے فروغ کا باعث ہوتا ہے۔ اس لئے وزیراعظم پاکستان اگر واقعی خطے میں امن اور پاکستان کو مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں کہ امریکہ کو واضح پیغام دیں کہ وہ کسی بھی معاملے میں امریکہ کا ساتھ نہیں دیں گے، کیونکہ شیطان تو شیطان ہوتا ہے، اس کا کام ہی تخریب ہے، شیطان کبھی تعمیر کی طرف نہیں جاتا، اس لئے امریکہ پر واضح کر دینا چاہیئے کہ ’’نو مور‘‘ اب وہ دن گئے جبکہ خلیل خان فاختہ اڑایا کرتے تھے۔ اب امریکہ کا ایک ’’خلیل خان‘‘ برطانیہ میں بیماری کا بہانہ کرکے چھپا ہوا ہے اور دوسرا اور بڑا ’’خلیل خان‘‘ جو کسی سے ڈرتا ورتا نہیں تھا، وہ ڈر کے مارے دبئی میں زیر علاج ہے۔ لہذا حکومت پاکستان واضح کر دے کہ ہم شیطان کے کسی کام میں شریک نہیں ہوں گے۔ شیطان اپنی خیر کی دعوت میں بھی شر رکھتا ہے اور امریکہ دنیا میں ایک شرِ محض ہے۔
متحدہ عرب امارات اور بحرین کے حکمرانوں نے اپنا مقدر صہیونیوں کے ساتھ منسلک کرلیا
سلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ کے اسپیکر کے بین الاقوامی امور کے مشیر حسین امیر عبداللہیان نے اپنے ایک ٹوئیٹر بیان میں اسرائيل کے ساتھ امارات اور بحرین کے سفارتی تعلقات قائم کرنے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ متحدہ عرب امارات اور بحرین کے حکمرانوں نے اپنا مقدر صہیونیوں کے ساتھ منسلک کرلیا ہے۔ امیر عبداللہیان نے کہا کہ اسلامی مزاحمت کے ہاتھوں اسرائیل کی مسلسل شکست کے باوجود امارات اور بحرین نے اسرائیل کی غاصب اور فلسطینی بچوں کی قاتل حکومت کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کئے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ امارات اور بحرین کے حکام کو خطے کے حالات کا صحیح ادراک نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ خطے میں اسرائیل کی کوئی جگہ نہیں ہے اور اسرائیل کا مستقبل تاریک ہے۔ غاصب صہیونی حکومت نے یہودیوں کو بھی یرغمال بنا رکھا ہے۔
خلیج فارس میں ایرانی ایئربس کے 290 مسافروں کی شہادت کے مقام پر پھول برسائے گئے
امریکہ نے ایران و عراق جنگ کے دوران میزائل حملے میں خلیج فارس میں ایران کے مسافر طیارے کو تباہ کردیا تھا جس کے نتیجے میں 290 مسافرشہید ہوگئے تھے۔ مسافروں کی شہادت کے مقام پر ہر سال پھول برسائے جاتے ہیں۔
. وَ اللهُ غالِبٌ عَلي اَمرِه؛ وَلـكِنَّ اَكـثَرَ النّاسِ لا يَعـلَمونَ
رہبر معظم انقلاب اسلامی ایران، ایرانی ویکسین اور چند اہم پیغام
اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے حال ہی میں ایران ساختہ ویکسین کی پہلی ڈوز لگوائی ہے۔ یہ ویکسین "کوو ایران برکت" نامی کمپنی کی تیار کردہ تھی۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی ایران نے ویکسین لگوانے کیلئے دو شرطیں پیش کر رکھی تھیں۔ ایک یہ کہ ویکسین ایران ساختہ ہونی چاہئے اور دوسرا یہ کہ انہیں بھی عام روٹین کے تحت باری آنے پر ویکسین لگائی جائے۔ آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کا یہ عمل عالمی میڈیا خاص طور پر عرب میڈیا میں بہت زیادہ مقبول واقع ہوا ہے۔ عربی زبان کے مختلف چینلز جن میں المیادین، روسیا الیوم، الایام، آسیا، النجباء، الاتجاہ، المنار، العہد اور القرطاس شامل ہیں نے اس کی کوریج دی ہے۔ یہ خبر اس لحاظ سے بھی اہم قرار دی جا رہی ہے کہ ایک اعلی سطحی قومی رہنما نے اپنے جوانوں کے علم اور مہارت پر اعتماد کیا ہے۔
اسی طرح نیوز ویب سائٹس انصاراللہ، العہد، الشرق الاوسط، لبنان 24، المصری الیوم، الیوم السابع وغیرہ نے بھی اسے شائع کیا ہے۔ المیادین نیوز چینل نے اس بارے میں خبر شائع کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ امام سید علی خامنہ ای نے غیر ملکی ویکسین لگوانے سے انکار کر دیا تھا اور ایرانی ویکسین تیار ہونے تک انتظار کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اس چینل پر شائع ہونے والی رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ رہبر معظم انقلاب اسلامی ایران یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ جب تک ملک کے اندر ایک بیماری کی دوا موجود ہے اس وقت تک اسی کو استعمال کرنا چاہئے۔ اسی طرح رہبر معظم انقلاب اسلامی ایران اپنی باری سے پہلے بھی ویکسین لگوانے کیلئے حاضر نہیں ہوئے اور انہوں نے عام شہریوں کی طرح اپنی باری آنے پر ہی ویکسین لگوائی ہے۔
المیادین نیوز چینل نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر نے اپنے ملک کے جوانوں کی علمی صلاحیت پر اعتماد کرتے ہوئے ایرانی ویکسین لگوائی ہے، تاکید کی کہ ایران دنیا میں چھٹا اور مشرق وسطی میں پہلا ملک ہے جو کرونا وائرس کیلئے ویکسین تیار کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ اسی طرح "کوو ایران برکت" نامی ویکسین کرونا وائرس کے خلاف انسانی بدن میں مزاحمت پیدا کرنے میں بہت موثر واقع ہوئی ہے جس کے باعث ایران میں بڑی تعداد میں شہری یہ ویکسین لگوانے کیلئے بے تابی کا اظہار کر رہے ہیں۔ اسی طرح لبنان کی نیوز ویب سائٹ "العہد" نے بھی یہ خبر شائع کرتے ہوئے لکھا کہ ایرانی جوانوں نے کرونا کی ویکسین تیار کر کے اپنے علم اور مہارت کا لوہا منوا لیا ہے۔
المنار نیوز چینل نے بھی اپنی رپورٹ میں کہا کہ امام سید علی خامنہ ای نے اپنے ملک میں ایرانی جوانوں کی جانب سے تیار کردہ ویکسین لگوائی جو ایران ساختہ ویکسین کی تیاری میں ایرانی ماہرین کی علمی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ مشرق وسطی میں ایران ایسا واحد ملک ہے جو کرونا سے مقابلے کیلئے ویکسین تیار کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ یہ کامیابی ایرانی جوانوں کی محنت کا نتیجہ ہے۔ دوسری طرف لبنان کے روزنامے "الاخبار" نے بھی رہبر معظم انقلاب اسلامی ایران کی جانب سے ملک کے اندر تیار کی گئی ویکسین لگوانے کی خبر کو صفحہ اول پر شائع کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ کرونا ویکسین تیار کرنے کی ٹیکنالوجی کا حصول ایرانی ماہرین کی اہم کامیابی ہے۔
العصر الدولیہ نامی نیوز ویب سائٹ نے اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر کی جانب سے ملک میں تیار کردہ ویکسین لگوانے کے عمل کو اہم اور با معنی قرار دیتے ہوئے لکھا کہ ان کا یہ عمل متعدد اہم پیغام لئے ہوئے ہے۔ اس میں سب سے پہلا پیغام یہ ہے کہ امام سید علی خامنہ ای کی جانب سے ایرانی ویکسین تیار ہونے کا انتظار کرنا درحقیقت ایرانی جوانوں اور ماہرین کے علم اور مہارت پر اعتماد کا اظہار ہے۔ دوسرا پیغام دنیا والوں کیلئے ہے اور وہ یہ کہ اسلامی جمہوریہ ایران میڈیکل کے شعبے میں درکار علم اور ٹیکنالوجی کے لحاظ سے خودکفیل ہو چکا ہے۔ گذشتہ چار عشروں سے امریکہ اور مغربی ممالک کی جانب سے شدید ترین اقتصادی پابندیوں کے باوجود اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے جدید ترین وائرس کے خلاف ویکسین کی تیاری ایک عظیم کامیابی ہے۔
رہبر معظم انقلاب نے ایرانی ویکسین لگوا کر ایک اہم پیغام عالمی استکباری طاقتوں کو بھی دیا ہے جو یہ ہے کہ اب وہ زمانہ گزر چکا ہے جب سائنس اور ٹیکنالوجی دنیا کے چند استعماری ممالک تک محدود تھی جو خود کو عالمی طاقت تصور کرتے تھے۔ آج اسلامی جمہوریہ ایران ظالمانہ پابندیوں کے تحت شدید مشکل حالات میں بھی اپنی ویکسین بنا کر شہریوں کو وائرس کے خلاف محفوظ بنانے میں مصروف ہے۔ اسی طرح رہبر معظم انقلاب کا یہ عمل ایرانی شہریوں کیلئے اپنے ملک میں تیار کردہ ویکسین پر اعتماد کرتے ہوئے اسے لگوانے کی ترغیب دلانے کا پیغام بھی لئے ہوئے ہے۔ امام خامنہ ای نے ایسا کام کیا ہے جسے انجام دینے کی جرات دیگر ممالک کے قومی رہنماوں میں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ انہوں نے اپنے اس عمل سے ایران ساختہ ویکسین کو اعتبار بخشا ہے۔
تحریر: فاطمہ محمدی
اسرائیل نے خلیج میں اپنا پہلا سفارت خانہ ابوظبی میں کھول لیا
ابوظبی کے ائیر پورٹ پہنچے پر اسرائیلی وزیرخارجہ یائر لاپڈ نے سوشل میڈیا پر متحدہ عرب امارات کے حکام کی جانب سے گرم جوش استقبال کاشکریہ ادا کیا اور تصاویر بھی جاری کیں۔
بعد ازاں یائرلاپڈ نے ابوظبی میں اسرائیلی سفارتخانے کا افتتاح کیا جب کہ وہ دبئی میں اسرائیل کے قونصلیٹ جنرل کا افتتاح بھی کریں گے اور اپنے ہم منصب شیخ عبداللہ بن زاید سےبھی ملاقات کریں گے۔
خیال رہے کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان گزشتہ سال ستمبر میں تعلقات بحال ہوئے تھے اور رواں سال جنوری میں اسرائیل نے یو اے ای میں باضابطہ طور پر اپنا سفارتخانہ کھولنے کی منظوری دی تھی جب کہ یو اے ای نے بھی تل ابیب میں اپنا سفارتخانہ کھولنے کی منظوری دی تھی۔
اسرائیل اور متحدہ عرب امارات میں سفارتی تعلقات کے بعد سےکسی بھی اسرائیلی وزیرکا یہ پہلا دورہ ہے۔
"ایران کی قومی رصدگاہ" کا افتتاح / ایران ٹیلی اسکوپ بنانے والے دنیا کے 10 ملکوں میں شامل
"ایران کی قومی رصد گاہ" (Observatory) کو بروز پیر 28 جون، 2021 کو اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر حجۃ الاسلام و المسلمین ڈاکٹر حسن روحانی کی موجودگی میں افتتاح کر دیا گیا۔
یہ رصد گاہ کاشان کے اطراف میں واقع ایک اونچی چوٹی پر تعمیر کی گئی ہے۔ ایران کے مختلف حصوں میں چالیس سے زیادہ اونچی پہاڑیوں کا جائزہ لینے کے بعد کاشان کی "گرگش" نامی پہاڑی کو اس پیشہ ور فلکیاتی رصد گاہ کے لیے انتخاب کیا گیا اور ایرانی سائنس دانوں اور اینجینئروں کے ذریعے اس قومی رصد گاہ کو تعمیر کیا گیا۔
صاف آسمان، مناسب اونچائی اور روشنی کی آلودگی سے دوری اس بات کا باعث بنی کہ ملک کی دسیوں اونچی چوٹیوں کو نظر انداز کر کے گرگش کی 3622 میٹر اونچی چوٹی کو ایران کی قومی رصد گاہ کے لیے انتخاب کیا جائے۔
اس رصدگاہ کے گنبد کے تمام اجزاء اور ٹیلی اسکوپ کے تمام آلات ایران میں بنائے گئے ہیں۔ اور اس منصوبے کے نفاذ کے ساتھ، اسلامی جمہوریہ ایران دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہو گیا ہے جنہوں نے دنیا کے بڑے ٹیلی اسکوپ بنائے ہیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے اس افتتاحی تقریب میں کہا: "خدا کا شکر ہے کہ آج ہم اس عظیم اور بڑی رصد گاہ کو افتتاح کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ رصد گاہ علاقے کی اہم رصد گاہوں میں سے ایک ہے۔
ڈاکٹر حسن روحانی نے مزید کہا: "ہم زمین نامی ایک چھوٹے سے سیارے پر زندگی بسر کر رہے ہیں جبکہ یہ دنیا بہت وسیع اور عظیم دنیا ہے، اور خداوند عالم نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:" وَإِنَا لَمُوسِعُون "۔ خدا کائنات کو مسلسل وسعت دے رہا ہے ، کہکشاں ، سیارے اور ستارے سب بڑھ رہے ہیں اور جو ہماری آنکھیں اس وسیع و عریض کائنات میں دوربین سے دیکھ سکتی ہے وہ بہت ہی محدود ہے۔
انہوں نے امریکی مجرمانہ پابندیوں کے باوجود ایران کی ترقی کے بارے میں کہا ، "مجھے خوشی ہے کہ ان برسوں کے دوران ، جو معاشی جنگ کے سال تھے ، ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کے راستے کو جاری رکھنے میں کامیاب رہے۔" ان 8 سالوں میں ، ہمارے ملک نے سائنس اور ٹکنالوجی کی راہ میں ایک نیا باب کھولا ہے۔