سلیمانی

سلیمانی

تہران : ولی امر المسلمین آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ ایران کے حالیہ واقعات لڑکی کی موت کا فطری ردعمل نہیں بلکہ پیشگی منصوبہ بندی سے کیے گئے مہلک فساد تھے جس کی منصوبہ بندی امریکا اور صیہونی حکومت نے کی تھی۔ فوجی اکیڈمیز میں زیر تعلیم کیڈٹس کی مشترکہ گریجویشن تقریب سے خطاب میں ولی امر مسلمین نے کہا کہ نوجوان لڑکی کی موت تلخ واقعہ تھا، ہمیں بھی دلی تکلیف ہوئی لیکن ردعمل میں یہ نہیں ہونا چاہیے تھا کہ کچھ لوگ آ کر سڑکوں پر بدامنی پھیلا دیں، سیکیورٹی کو درہم برہم کردیں، قرآن کو آگ لگا دیں، پردہ دار خواتین کے سروں سے چادر چھین لیں، مساجد،امام بارگاہیں، بینک اور لوگوں کی گاڑیوں کو جلا دیں۔ یہ واقعات فطری نہیں تھے، یہ دنگے، پہلے سے طے شدہ تھے۔ تازہ ترین پیش رفت کے دوران قانون نافذ کرنے والی فورسز، بسیج اور ایرانی قوم کے ساتھ ناانصافی کی گئی۔ لیکن حالیہ واقعات کے دوران ایرانی قوم کافی مضبوط ثابت ہوئی ہے اور مستقبل میں جہاں بھی ضرورت پڑی بہادری کے ساتھ منظرعام پر آئے گی۔

افغانستان میں دہشتگردوں کے حملے میں 43 طالبات کی شہادت پر ہر آنکھ اشکبار ہے۔ افغانستان کے مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ جمعہ کے روز کابل کے کاج تعلیمی سینٹر میں ہونے والے دہشت گردانہ خودکش دھماکے میں شہید ہونے والوں کی تعداد بڑھ کر انچاس ہوگئی ہے، جبکہ 100 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ شہید ہونے والوں میں تینتالیس لڑکیاں اور دو لڑکے شامل ہیں جبکہ چار افراد کی شناخت ابھی تک نہیں ہوئی ہے۔ دھماکہ اتنا شدید تھا کہ جس کی وجہ سے شہداء کی تعداد میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ ابھی تک کسی بھی گروہ نے اس دہشت گردانہ بم دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ گذشتہ مہینوں کے دوران افغانستان کے مختلف علاقوں خاص طور پر کابل میں دہشت گردانہ حملوں اور دھماکوں میں تیزی آئی ہے اور طالبان انتظامیہ سکیورٹی برقرار کرنے کے اپنے تمام دعوؤں کے باوجود اس طرح کے حملوں کو نہیں روک سکی ہے۔ کابل میں زیادہ تر دہشت گردانہ حملوں کی ذمہ داری داعش دہشت گرد گروہ نے قبول کی ہے، جبکہ طالبان اس گروہ کو افغانستان کے لئے خطرہ نہیں سمجھتے۔

ادھر افغان طالب علموں کی خواتین اور لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد نے کابل کے مغرب میں دشت برچی کے علاقے میں ایک مظاہرہ کرکے ہزارہ برادری کے خلاف ٹارگٹڈ دہشت گردانہ حملوں کے خاتمے اور انصاف کا مطالبہ کیا۔ طالبان حکومت کی افواج نے گولیاں مار کر مظاہروں کو کچل دیا۔ کئی صحافی بھی موقع سے بھاگ گئے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ انسانی حقوق کے نام نہاد محافظوں بالخصوص خواتین نے اس بھیانک جرم کے خلاف خاموشی اختیار کر رکھی ہے، جس کا شکار زیادہ تر لڑکیاں ہیں۔ بے شک امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا جو بیس سال سے زائد عرصے سے افغانستان میں جرائم کا ارتکاب کرتے رہے ہیں، یہ اس کا نتیجہ ہے۔ سیاسی امور کے ایک افغان ماہر سید عیسیٰ حسینی کہتے ہیں: “امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے جرائم اور دہشت گردی معمول کی بات ہے۔ خیال رہے کہ امتحان کے دوران طالبات کا قتل امریکی ایجنٹوں نے کیا تھا۔ اس لیے امریکہ کا عدم ردعمل اتنا حیران کن نہیں ہے۔‘‘

حقیقت یہ ہے کہ خواتین کے حقوق کی پامالی کے بارے میں امریکہ کی خاموشی صرف افغانستان تک محدود نہیں ہے بلکہ دنیا کے دیگر خطوں میں بھی دیکھی جا سکتی ہے، جیسا کہ یوکرین سے خواتین اور لڑکیوں کی یورپی ممالک میں سمگلنگ، جرائم اور عصمت دری کے بارے میں امریکہ کی بے حسی ہے۔ شائع شدہ اعداد و شمار کے مطابق خواتین کے جنسی استحصال سے سالانہ منافع 7 ارب یورو بنتا ہے اور یوکرین سمیت دنیا کے مختلف حصوں سے اسمگل ہونے والی لاکھوں خواتین اور لڑکیوں سے حاصل ہونے والا منافع مغربی ممالک کے سرمایہ داروں کی جیبوں میں جاتا ہے۔ سیاسی امور کے ماہر سوروش امیری کہتے ہیں: “دنیا کے مختلف خطوں میں خواتین مغربی منافع خوروں کی لالچ کا شکار ہیں۔ جنسی استحصال کے بھرپور منافع نے اس سمت میں ایک صنعت کو جنم دیا ہے اور خواتین کے حقوق کے دفاع کے بارے میں ان کا کوئی بھی دعویٰ جھوٹ سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔”

بہرحال افغان لڑکیوں اور خواتین کا اپنی حفاظت کے لیے مظاہرہ ان مظلوموں کی فریاد ہے، جو تاریخی طور پر افغانستان میں حکومتی رویوں اور مختلف گروہوں کے ہاتھوں ظلم و ستم کا شکار رہی ہیں، اس لیے عوام بالخصوص افغان خواتین، طالبان گروپ سے یہ توقع رکھتی ہیں کہ عوام کے تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے ضروری اقدامات کرتے ہوئے مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچائیں۔ افغان عوام کے مخالفین کی طرف سے نسلی اور مذہبی تفریق پیدا کرنے کی کوششوں کے پیش نظر یہ مسئلہ اہم اور مزید قابل توجہ ہے۔

واضح رہے کہ خواتین کے حقوق کے بارے میں مغربی میڈیا کے بیانات زیادہ تر بیان بازی اور سیاسی مقاصد کے لیے ہوتے ہیں اور ان ممالک کا میڈیا دوہرا معیار اپناتا ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ میں خواتین کے خلاف جرائم، افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں پر حملوں کے ساتھ ساتھ یوکرین میں بے گھر ہونے والی خواتین کے مصائب اور ان کے جنسی استحصال کو میڈیا میں قابل ذکر کوریج نہیں ملتی اور ان کو نظر انداز کیا جاتا ہے جبکہ وہ  ممالک جو مغرب کے اتحادی نہیں، وہاں خواتین کے معاملے کو سیاسی نظام پر کسی دباؤ کے لیے بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔ ایران میں حالیہ صورت حال مغربی میڈیا کے دوہرے معیار کی ایک مثال ہے۔ ایران میں مرنے والی مہسا امینی اور افغانستان میں جاں بحق ہونے والی بیسیوں لڑکیوں کے بارے میں مغربی میڈیا کا منافقانہ رویہ روز روشن کی طرح واضح ہے۔

 

 تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

بیروت :حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے کہا ہے کہ امریکا ایران میں اختلافات کے بیج بونے اور دراڑیں ڈالنے کی شیطانی سازشوں پر عمل پیرا ہے۔بیروت سے براہ راست نشر ہونے والے ٹیلی ویژن خطاب میں حسن نصر اللہ نے کہا کہ امریکا ایران میں کسی بھی واقعے کا فائدہ اٹھاتا ہے تاکہ قوم کو اسلامی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اکسایا جا سکے، جسکی مثال ایرانی خاتون کی ہلاکت کے بعد شروع ہونے والا احتجاج ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی حمایت یافتہ غنڈوں نے مہسا کی موت سے متعلق غیر واضح حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلامی جمہوریہ کو چیلنج کیا کیونکہ ان کی زیادہ سے زیادہ دباؤ کی نام نہاد مہم بری طرح ناکام ہو گئی۔ انہوں نے کہا کہ ایرانیوں کے خلاف امریکا کی ظالمانہ پابندیوں کا مقصد لوگوں کو اسلامی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کھڑا کرنا ہے تاہم ایران اب پہلے سے زیادہ مضبوط ہے۔ امریکی انتظامیہ نے محسوس کیا ہے کہ ایران ایک مضبوط، باوقار اور قابل ملک ہے۔ اور یہ اس بات کی وضاحت کرتا ہے. امریکا اندرونی تنازعات کو ہوا دینے کے بجائے ملک اور بینکوں کے خلاف جنگ چھیڑنے کی ہمت کیوں نہیں کرتا، ایران کے پاس بڑی صلاحیتیں ہیں، اس لیے امریکا اسلامی جمہوریہ کے خلاف اشتعال انگیزی کے لیے تمام ہتھیار استعمال کرتا ہے۔ مغربی اور خلیج فارس کے ذرائع ابلاغ اسلامی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف لوگوں کو اکسانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔

Monday, 03 October 2022 06:41

ہزاروں خواب

اولاد والدین کی آنکھوں کا تارا ہوتی ہے، جسے ماں جیسی عظیم ہستی ایسے پالتی ہے کہ اس کی اپنی ساری خوبیاں اور اچھائیاں اسکی اولاد میں بھی نظر آنے لگتی ہیں اور باپ اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کیلئے زندگی بھر کا سرمایا اور اپنا سب کچھ قربان کر دیتا ہے۔ یہ ساری قربانیاں اپنی اولاد سے والدین کے بے تحاشا محبت کا نتیجہ ہے۔ وہ اپنے بچوں کو دنیا کا ایک کامیاب انسان دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایک ایسی شخصیت بنانا چاہتے ہیں کہ جس پر نہ صرف انہیں، بلکہ پوری قوم کو فخر ہو۔ مگر ایک لمحہ کیلئے تصور کیجئے کہ اپنی اولاد کی کامیابی کا خواب دیکھنے والے ایک ایسی ریاست میں کس طرح زندگی گزارتے ہونگے، جہاں کسی کی زندگی کی حفاظت کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ ان پر تعلیمی اداروں پر بھی حملہ ہو سکتا ہے، مذہبی اجتماعات کو بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے، مساجد اور عبادت گاہوں کو بھی دھماکے سے اڑایا جا سکتا ہے اور انکے گھروں پر بھی حملے ہو سکتے ہیں۔ افغانستان میں زندگی بسر کرنے والی ہزارہ شیعہ قوم بھی کچھ ایسی ہی صورتحال میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
 
طالبان نے حکومت سنبھالتے ہوئے جس نرم رویہ کا مظاہرہ کیا تھا، اس سے بعض حلقوں میں یہ گمان پایا جا رہا تھا کہ شاید حالات کشیدگی سے بہتری کی طرف نکلنے لگیں گے کیونکہ گزشتہ کئی دہائیوں سے افغانستان میں مقیم شیعہ ہزارہ قوم کو مختلف تعصبات کی بنیاد پر نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ ان پر حملوں کا تسلسل تو برطانوی راج سے ہی جاری ہے۔ برطانیوی دور حکومت میں ہی افغانستان کے امیر عبدالرحمان نے افغان سنی مفتیوں سے شیعہ کو کافر قرار دینے کے فتوے حاصل کئے تھے، جس کی بنیاد پر انہیں واجب القتل قرار دے کر انکے خلاف جہاد کا نعرہ بلند کر دیا گیا تھا اور اپنی بقاء کی جنگ لڑنے والی ہزارہ شیعہ قوم اپنی سرزمین کو چھوڑ کر دنیا کے مختلف ممالک میں بسنے پر مجبور ہوگئی۔ عبدالرحمان کے افکار کی پیروی کرنے والوں نے انکا پیچھا پاکستان میں بھی نہیں چھوڑا۔ کوئٹہ میں سانحہ امام بارگاہ کلاں، سانحہ عاشورہ، سانحہ علمدار روڈ، سانحہ ہزارہ ٹاؤن، سانحہ عیدگاہ سمیت مختلف دیگر سانحات، دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ میں شہادت پانے والوں کی قبروں سے بھرا ہزارہ قبرستان اس کی گواہی دیتا ہے، افغانستان میں بھی جہالت کے مارے لوگ آج بھی شیعہ ہزارہ قوم کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔
 
طالبان حکومت کے قیام کے بعد بھی ایسا لگا کہ شاید برسوں سے جاری رہنے والے اس سلسلے کا خاتمہ ہوگا۔ لوگ اپنے بچوں کی بہتر مستقبل کا خواب پھر سے دیکھنے لگے تھے۔ مگر ان پر حملوں کا تسلسل نہ رک سکا، بلکہ طالبان حکومت کے قیام کے بعد تو ان حملوں میں مزید اضافہ ہوا۔ تقریباً ہر چند ہفتوں بعد جمعہ کے روز ہزارہ شیعہ قوم کے کسی نہ کسی اجتماع کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جمعہ کے دن کا ذکر اس لئے ضروری ہے کہ یہ حملے مذہبی بنیادوں پر ہوتے ہیں۔ طالبان ظاہراً تو ایک اچھا امیج بنانے کی کوشش کر رہا ہے، مگر ہزارہ شیعہ قوم پر حملوں کا طریقہ کار عین وہی ہے جو طالبان کا طریقہ کار ہوا کرتا تھا۔ ممکن ہے کہ انہی میں سے کسی گروہ کا کام ہو، بہرحال اگر افغانستان پر حکمرانی کرنے والے چاہیں تو اس تسلسل کو روک سکتے ہیں۔ مسلسل دھماکوں کا سلسلہ اور اس پر فقط مذمتی بیانات کے بعد خاموشی یہ ثابت کرتی جارہی ہے کہ افغان حکمران اور عالمی ادارے ہزارہ شیعہ قوم کے خون کو اہمیت دینے اور ان کی حفاظت کو اہمیت ہی نہیں دیتے ہیں۔
 
دو روز قبل کابل کے ہزارہ نشین علاقہ دشت برچی کے ایک تعلیمی ادارے کو بھی جنت کے چکر میں مدہوش خودکش حملہ آوروں نے حملے کا نشانہ بنایا اور 40 کے قریب مستقبل کے معماروں کو شہید کردیا۔ دھماکے کے بعد والدین کی آنکھوں میں آنسوؤں اور بکھرے تمناؤں کو بیان کرنا خود کسی کرب سے کم نہیں ہے۔ جگہ جگہ بکھری لاشوں میں چیخ کر اپنے جگر کا ٹکڑا تلاش کرنے والوں کا درد کوئی اور کیسے سمجھ سکتا ہے۔ انہیں یہ خوف بار بار ستا رہا تھا کہ کہیں انکا جوان کسی ظالم کے ہتھے نہ چڑھ جائے۔ کابل میں ہر دھماکے کی آواز یا اطلاع پر وہ اپنے بچوں کو فون کرکے انکی خیریت دریافت کیا کرتے ہونگے اور جلدی گھر آنے کا کہتے ہونگے۔ اگر کوئی کسی اور علاقہ سے تعلیم حاصل کرنے کے غرض سے کابل آیا ہوگا اور اس کا فون بند جا رہا ہوگا تو پریشانی کے اس عالم کو بھی قلم بند کرنا آسان نہیں ہے۔ انکے والدین انہیں درسگاہ بھیجتے ہوئے اس سوچ میں تھے کہ انکے بچے مستقبل کی امید ہیں۔ یہ دنیا کو فکر اور شعور سے روشن کردیں گے۔
 
درسگاہ ایک ایسی جگہ تھی جہاں طلباء و طالبات تعلیم حاصل کرنے اور بہتر انسان بن کر اپنی سرزمین کے لئے کام کرنا چاہتے تھے۔ ان طلباء نے تعلیم حاصل کرنے کے لئے ساری عمر کتنی جدوجہد کی ہوگی۔ طالبان حکمرانوں کے زیر تسلط کتنی مشکلات کا سامنا کیا ہوگا، مگر انہوں نے کتاب کا دامن نہیں چھوڑا۔ کاش کوئی کفر کے فتوؤں کے ٹھیکیداروں کو یہ بھی سمجھا دے کہ دین اسلام امن کا نام ہے، انہیں کوئی پیغمبر اسلامؐ کے بارے میں بتائے کہ حضرت محمد (ص) کا رویہ کیسا تھا اور افغانستان کے ان جاہل دہشتگردوں کا رویہ کیسا ہے، حملہ آوروں نے صرف دلوں میں علم حاصل کرنے کی خواہش رکھنے والے طلباء کو نہیں، بلکہ پوری قوم کے مستقبل کو بھی قتل کردیا ہے۔ تعلیم حاصل کرنے والوں کے بے شمار خواب اور ان کے خوابوں سے وابسطہ نہ جانے کتنے ایسے خواب تھے جو کابل کی جامعہ میں دھماکے کے ساتھ چور چور ہو کر زمین پر بکھر گئے۔ اپنی تعبیر کو ترسنے والے ہزاروں خواب بھی طلباء کے ساتھ کابل کے دھماکے میں شہید ہوگئے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،قائد ملت جعفریہ پاکستان کے سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی کا کہنا ہے کہ خاتم النبین ‘ رحمت اللعالمین ‘ سرورکائنات انسانیت کیلئے مرکز و محور ہیں او رسول اکرم نے قرآن و سنت کی شکل میں ایسا خزانہ چھوڑا کہ جو آپ کے وصال کے صدیوں بعد بھی عالم انسانیت کی مکمل رہنمائی کررہا ہے اور انسانیت کو ہر میدان میں انفرادی و اجتماعی زندگی گزارنے کا طریقہ اور ترقی کا سلیقہ سکھا رہا ہے اگر امت مسلمہ بالخصوص اور عالم انسانیت بالعموم حضوراکرم کی سیرت اور فرامین پر عمل کرے تو خطہ ارض سے تمام مشکلات کا خاتمہ ہوسکتا ہے ۔

وصال نبوی کے بعد اہل بیت اطہار ؑ نے امت کی تمام معاملات میں رہنمائی کی، عالم انسانیت کے انفرادی‘ اجتماعی‘ روحانی‘ دینی و دنیاوی مسائل کا حل اہل بیت ؑ نے اپنے عمل و کردار سے پیش کیا اور خاتم النبین کے بعد ان کے جانشین کے طور پر فرائص انجام دیئے۔

28 صفر المظفر خاتم المرسلین کے یوم وصال اور نواسہ پیغمبر اکرم حضرت امام حسن ؑ کے یوم شہادت کے موقع پر اپنے پیغام میں انہوں نے کہا کہ اگر ہم خواہشمند ہیں کہ سیرت رسول اکرم کا عملی مشاہدہ کریں اور سنت نبوی کی عملی تعبیر و تشریح دیکھیں تو ہمیں سیرت امام حسن ؑ کا مطالعہ و مشاہدہ کرنا ہوگا کیونکہ نبی اکرم نے حضرت علی ؑ اور سیدہ فاطمہ زہرا ؑ کے بعد حضرت امام حسن ؑ کی تربیت اس نہج پر کی کہ حضرت امام حسن ؑ پرہر مرحلے ‘ ہر میدان‘ ہر موڑ اور ہرانداز میں شبیہ پیغمبر نظر آئے۔

علامہ ساجد نقوی نے کہا کہ رسول خدا نے اپنی احادیث میں حضرت امام حسن علیہ السلام کی شان و منزلت اور سخاوت و مرتبت کی نشاندہی فرمادی تھی ۔ جب حضرت امام حسن علیہ السلام کے دور میں فتنہ و فساد نے سراٹھایا اور مسلمان ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے تو امام ؑ نے اپنے جد امجد کی سیرت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے مسلمانوں کو امن و محبت کا درس دیا اور صلح کا راستہ اپناکر ثابت کردیاکہ اہل بیت پیغمبر دین اسلام کی نگہبانی کا فریضہ ادا کرنا جانتے ہیں اور کسی صورت بھی اسلام کے حصے بخرے ہونا گوارہ نہیں کرتے۔

قائد ملت جعفریہ پاکستان نے کہا کہ موجودہ پرفتن دور اور سنگین حالات میں ہمیں باہمی فروعی و جزوی اختلافات کو پس پشت ڈال کر سینکڑوں مشترکات کو سامنے رکھتے ہوئے پیغمبر اکرم اور خاندان رسالت کے اسوہ پر عمل پیرا ہوکر امن‘ محبت‘ رواداری‘ تحمل اور برداشت کا راستہ اختیار کرنا ہوگا اور علم و حلم‘ عقل و شعور‘ تدبر و تحمل اور اخوت و یگانگت کی راہ پر چل کر خداوند تعالی اور خاتم الانبیاءکی خوشنودی حاصل کرنا ہوگی صرف اسی صورت میں دنیوی و اخروی نجات ممکن ہے۔

جمہوری اسلامی ایران میں سابق شاہ(رضا شاہ پہلوی) اور عالمی استعماری قوتوں کے وفادار اور خدمت گزار سیکولر اور نام نہاد لبرلز نے ایک بے حجاب خاتون (مہسا امینی) کی گرفتاری کے بعد موت کو بہانا بنا کر انقلاب اسلامی کے خلاف پرتشدد مظاہروں کا آغاز کیا (درحالانکہ یہ طبی موت تھی) اور پھر اس آڑ میں شعائر اسلامی و مقدسات اسلام کی توہین بھی کی اور سرکاری اور عوامی املاک کو نقصان پہنچانے کے علاؤہ قتل و غارتگری بھی شروع کر دی جس میں ان شرپسندوں کے ہاتھوں متعدد شہری بھی شہید ہوئے۔

یہ غیر ملکی اشاروں پر ناچنے والے اسلام دشمن چاہتے ہیں کہ جمہوری اسلامی میں بے پردگی اور بے حیائی عام ہوجائے۔ ان کے حامی یورپی ممالک میں بیٹھے بعض ایرانی خاندانوں سے تعلق رکھنے والی خواتین نے ان یورپی ممالک میں مہسا امینی کی موت کو بہانہ بنا کر وہاں جو مظاہرے کیئے ہیں ان میں بے حیائی کا عملی مظاہرہ کیا ہے بے حیائی کے ان مناظر کو کوئی بھی غیرت مند انسان نہیں دیکھ سکتا اور نہ ہی انہیں شیئر یا پوسٹ کیا جانا مناسب ہے۔

ان اسلام دشمن سیکولرز اور لبرلز کے پاکستان سمیت کئی دیگر ممالک میں بیٹھے ہمدرد (سیکولر اور لبرلز) بھی سوشل میڈیا کے ذریعہ انقلاب اسلامی کے خلاف اپنی بڑھاس نکال رہے ہیں جو امریکہ، یورپ اور اسرائیلی میڈیا سے اس بارے میں بڑھا چڑھا کر نشر کی جانے والی خبروں کو لیکر انقلاب اسلامی اور اس کے قائدین کے خلاف خوب پراپگنڈا کر رہے ہیں اور خیال کر رہے ہیں ایران سے اسلامی انقلاب کا خاتمہ ہونے کو ہے۔ ان بیگانی شادی کے عبداللہ دیوانوں سے بس اتنی سی گزارش ہے کہ جمہوری اسلامی ایران میں جمعہ 23 ستمبر 2022 کو حجاب اسلامی، شعائر اسلامی اور انقلاب اسلامی کے حق میں اور غیر ملکی امداد اور اشاروں پر ناچنے والے لادین سیکولر عناصر کے خلاف ہونے والے ایرانی عوام (مرد و زن) کی عظیم ریلیوں کی ویڈیوز اور تصاویر کو غور سے دیکھیں تاکہ جان پائیں کہ اس انقلاب پر دست قدرت ہے یہ الہی طاقت کے سہارے سائنسی و معنوی ترقی کی منازل طے کر رہا ہے جسے ایک ایسا شخص، خاندان اور معاشرہ ہی سمجھ سکتا ہے جو حق اور عدل و انصاف کا حقیقی متمنی ہو اور پاکیزہ نفس ہو نہ کہ نجاست میں ڈوبا ہوا مادہ پرست شخص، خاندان اور معاشرہ۔

ایک الہی اور پاکیزہ نفس فرد، خاندان اور معاشرہ ہی انسانیت کے لیے نفع بخش ہو سکتا ہے نہ کہ نجس نفس رکھنے والا فرد، خاندان اور معاشرہ جو دنیا کو صرف مادہ کی آنکھ سے دیکھتا ہو۔ ایسا معاشرہ ایٹم کو انسانی نفع کے لیے استعمال کرنے کے بجائے دیگر اقوام پر اقتدار اور تسلط جمانے کے لیے ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر گراتا ہے تاکہ اس کا دبدبہ قائم ہو اور وہ دیگر اقوام کا استحصال کرکے اپنی تجوریاں بھر سکے ایسا فرد، خاندان اور معاشرہ کسی طور بھی انسانیت کے لیے نفع بخش نہیں ہے۔ اسے اس کوئی غرض نہیں ہوتی کہ اس کے کسی عمل سے انسانیت کی کتنی تذلیل ہوتی ہے یا کتنے انسان ہلاک ہوتے ہیں۔

انبیا علیھم السلام کی بعثت کے مقاصد میں تزکیہ نفس اہم مقصد ہے۔

انبیا علیھم السلام کی بعثت کے مقاصد میں انسان کے نفس کی پاکیزگی سب سے زیادہ اہمیت کی حامل رہی ہے اسی جانب قرآن مجید نے بھی متوجہ کیا ہے *"هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ"* (وہ (اللہ) وہی ہے جس نے اُمّی قوم میں انہیں میں سے ایک رسول(ص) بھیجا جو ان کو اس (اللہ) کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاکیزہ بناتا ہے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ اس سے پہلے یہ لوگ کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا تھے۔) سورہ جمعہ، آیت۔2

الہی معاشرہ کی تشکیل میں عورت کا کردار

ایک الہی اور پاکیزہ معاشرہ میں عورت کا بنیادی کردار ہے کیونکہ وہ نہ صرف نسل انسانی کو جنم دیتی ہے بلکہ اسے پروان بھی چڑھاتی ہے۔ لہذا انسانی معاشرہ میں عورت کی پاکیزگی انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ گناہ میں لتھڑی ہوئی عورت ایک الہی صفات کا حامل معاشرہ کی تشکیل میں بہت بڑی رکاوٹ ثابت ہوتی ہے۔

عورت کی پاکیزگی ہی مرد میں الہی صفات کی ضامن ہے کیونکہ انسان اس کے وجود سے جنم لیتا ہے اور اس کی گود میں پرورش پاتا ہے اور اسی سے سکون حاصل کرتا ہے "وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ" (اور اس کی (قدرت کی) نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو۔ اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت (نرم دلی و ہمدردی) پیدا کر دی۔ بے شک اس میں غور و فکر کرنے والوں کیلئے بہت نشانیاں ہیں۔) سورہ روم، آیت۔21.

لہذا انسان کا نفع اسی میں ہے کہ اس کے خاندان اور معاشرہ کی خواتین پاکیزہ نفس ہوں نہ کہ ہوا و ہوس کی پجاری مادہ پرست ہوں کیونکہ ایسی صورت میں ایک مادہ پرست نسل و قوم پروان چڑھے گی جو انسانی اقدار اور اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر صرف اور صرف اپنی طاقت اور تسلط قائم کرنے کے لیے علم اور ٹیکنالوجی حاصل کرئے گی اور اپنے سے کمزور افراد و اقوام کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ ہی ان کی زندگی کا ہدف ہوگا اور اس معاشرہ میں خود عورت کو کوئی عزت و مقام حاصل نہ ہوگا وہ اپنی ہی گود میں پروان چڑھائے ہوئے انسانی شکل میں موجود درندوں کے نرغہ میں ہوگی اور ہر وقت خوف و دہشت میں مبتلا رہے گی نہ کسی جگہ اطیمنان و سکون سے کام کر پائے گی، نہ سفر اور نہ گھر میں محفوظ ہو گی۔ آج دنیا کے بیشتر ممالک میں اس کی بدترین مثالیں موجود ہیں خصوصاً یورپی ممالک میں جہاں آج بات اس حد تک جا پہنچی ہے کہ بے حیائی اور بدکاری جیسے الفاظ بہت چھوٹے رہ گئے ہیں۔ بعض یورپی ممالک میں تو باقاعدہ قانون سازی کے ذریعہ محرم رشتوں سے بھی جنسی تعلق قائم کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔

عالمی استعماری اور شیطانی قوتیں جن میں امریکہ، برطانیہ، فرانس اور اسرائیل سر فہرست ہیں اسی لیے یہ چاہتی ہیں کہ دنیا میں بالعموم اور جمہوری اسلامی ایران میں بالخصوص عورت کے جسم سے صرف حجاب نہیں بلکہ پورا لباس اتروا دیا جائے تاکہ بے حیائی عام ہو جائے اور وہ اس بے حیائی کو دیگر اقوام کے سامنے بطور ترقی پیش کرکے نہ صرف ان سے ان کا مذہب بلکہ ان کی تہذیب و ثقافت بھی چھین کر عجائب خانوں میں گم کرنا چاہتی ہیں۔ نیز اپنی تہذیب و ثقافت کا نفاذ کرتے ہوئے اس کے ذریعہ دنیا پر اپنا تسلط قائم کرنا اور اپنا عالمی حکم (ورلڈ آرڈر) چلانا چاہتی ہیں۔ جسکی راہ میں صرف سائنس و ٹیکنالوجی میں کسی قوم کی ترقی اور اسحلہ میں طاقتور ہونا ہی رکاوٹ نہیں بلکہ دینی تہذیب اور ثقافت بھی بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ اسی تناظر میں بانی انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ امام خمینی رح نے فرمایا تھا کہ:

"دشمن ہمارے شہدا کے خون سے زیادہ ہماری خواتین کے حجاب سے خوف زدہ ہے۔"

تحریر طویل نہ ہو جائے بس اتنے پر اکتفا کرونگا کہ عصر حاضر میں جمہوری اسلامی ایران کا "اسلامی جمہوری نظام حکومت" نہ صرف دین اسلام بلکہ تمام ادیان الہی کی حقیقی تعلیمات کا محافظ ہے اور اگر باریک بین نگاہوں سے دیکھا جائے تو غیر الہی ادیان کی اخلاقی اقدار کا بھی محافظ ہے نیز یہ نظام حکومت کہ جس کی بنیاد دین پر ہے تمام ادیان کے ماننے والوں کے لیے ایک آئیڈیل کا درجہ رکھتا ہے۔

اہل بیت اطہار علیھم السلام کے ماننے والوں کے لیے یہ فخر ہے کہ یہ حکومت اہل بیت اطہار علیھم السلام کے ماننے والے پاکیزہ ترین نفوس کے ہاتھوں میں ہے جو کہ وحی الٰہی کے تابع (یعنی قرآن و سیرت محمد و آل محمد علیھم السلام کے تابع) عقل اجتماعی یعنی ایک اسلامی شورائی نظام کے تحت فیصلے کرتے ہیں۔ اس لیے انشاء اللہ تعالیٰ یہ انقلاب حجت خدا امام زمانہ (امام مہدی) عجل اللہ تعالیٰ فرجہ شریف کے ظہور پر ان کے ہاتھوں برپا ہونے والے عالمی انقلاب سے متصل ہوگا۔

نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا!

يُرِيدُونَ لِيُطْفِؤُوا نُورَ اللَّہِ بِأَفْوَاہِہِمْ وَاللَّہُ مُتِمُّ نُورِہِ وَلَوْ كَرِہَ الْكَافِرُونَ (سورہ صف، آیت۔8)

یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ (پھونکوں) سے بجھا دیں حالانکہ اللہ اپنے نور کو کامل کرکے رہے گا اگرچہ کافر لوگ ناپسند ہی کریں۔

تحریر: سید شجاعت علی کاظمی
بشکریہ:حوزہ نیوز ایجنسی

– ایرانی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ فلسطین میں ریفرنڈم کے انعقاد سے ناجائز صیہونی ریاست کے قبضے کے خاتمے اور مغربی ایشیا میں طویل عرصے سے جاری تنازع کو حل کرنے میں مدد ملے گی۔

یہ بات حسین امیرعبداللہیان نے ہفتہ کے روز نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر ناوابستہ تحریک کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کی خاموشی کے نتیجے میں فلسطینی عوام کو اسرائیلی قبضے اور حکومت کی جارحیت اور توسیع پسندی کی وجہ سے پیدا ہونے والے غیر انسانی حالات کا سامنا ہے۔

امیرعبداللہیان نے نسل پرست صیہونیوں پر الزام لگایا کہ وہ فلسطینی عوام کے بنیادی حقوق بشمول جینے اور کام کرنے کے حق کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔

انہوں نے مقبوضہ فلسطینی اراضی پر اپنی بستیوں کو توسیع دینے پر بھی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں کو قید اور ہجرت پر مجبور کیا جاتا ہے، جب کہ ان کی زمینیں ضبط کی جاتی ہیں اور ان کی کھیتی باڑی کو تباہ کیا جاتا ہے۔

ایرانی وزير خارجہ نے حالیہ برسوں میں انسانی حقوق کی اہم بین الاقوامی تنظیموں کی طرف سے ناجائز صہیونی ریاست کی بڑھتی ہوئی مذمت کا حوالہ دیا، جنہوں نے اسرائیل کو ایک نسل پرست حکومت قرار دیا ہے۔

انہوں نے ناوابستہ تحریک پر زور دیا کہ وہ فلسطینی عوام کے خلاف قابض اسرائیلی حکومت کے غیر انسانی اقدامات اور جرائم کو روکنے کے لیے اپنی سفارتی صلاحیتوں کو بروئے کار لائے۔

انہوں نے کہا کہ آج فلسطینی نوجوان صیہونیوں کے ساتھ تنازعات کے حل میں مدد کے لیے بعض ممالک اور بین الاقوامی اداروں کی جانب سے پیش کیے جانے والے اقدامات سے پر امید نہیں ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ وہ تمام اقدامات تعطل کا شکار ہو چکے ہیں کیونکہ وہ بحران کی بنیادی وجہ کو حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

امیرعبداللہیان نے وضاحت کی کہ ایران نے یکم نومبر 2019 میں اقوام متحدہ کے سامنے اپنا اقدام پیش کیا جس میں فلسطین میں قومی ریفرنڈم کا مطالبہ کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ جمہوری حل مغربی ایشیا کے خطے میں قبضے اور دیرینہ تنازعہ کو حل کرنے میں مدد دے گا اور فلسطین کے حقیقی باشندے جن میں مسلمان، عیسائی اور یہودی شامل ہیں، اپنی قسمت کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔

– ایرانی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ فلسطین میں ریفرنڈم کے انعقاد سے ناجائز صیہونی ریاست کے قبضے کے خاتمے اور مغربی ایشیا میں طویل عرصے سے جاری تنازع کو حل کرنے میں مدد ملے گی۔

یہ بات حسین امیرعبداللہیان نے ہفتہ کے روز نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر ناوابستہ تحریک کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کی خاموشی کے نتیجے میں فلسطینی عوام کو اسرائیلی قبضے اور حکومت کی جارحیت اور توسیع پسندی کی وجہ سے پیدا ہونے والے غیر انسانی حالات کا سامنا ہے۔

امیرعبداللہیان نے نسل پرست صیہونیوں پر الزام لگایا کہ وہ فلسطینی عوام کے بنیادی حقوق بشمول جینے اور کام کرنے کے حق کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔

انہوں نے مقبوضہ فلسطینی اراضی پر اپنی بستیوں کو توسیع دینے پر بھی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں کو قید اور ہجرت پر مجبور کیا جاتا ہے، جب کہ ان کی زمینیں ضبط کی جاتی ہیں اور ان کی کھیتی باڑی کو تباہ کیا جاتا ہے۔

ایرانی وزير خارجہ نے حالیہ برسوں میں انسانی حقوق کی اہم بین الاقوامی تنظیموں کی طرف سے ناجائز صہیونی ریاست کی بڑھتی ہوئی مذمت کا حوالہ دیا، جنہوں نے اسرائیل کو ایک نسل پرست حکومت قرار دیا ہے۔

انہوں نے ناوابستہ تحریک پر زور دیا کہ وہ فلسطینی عوام کے خلاف قابض اسرائیلی حکومت کے غیر انسانی اقدامات اور جرائم کو روکنے کے لیے اپنی سفارتی صلاحیتوں کو بروئے کار لائے۔

انہوں نے کہا کہ آج فلسطینی نوجوان صیہونیوں کے ساتھ تنازعات کے حل میں مدد کے لیے بعض ممالک اور بین الاقوامی اداروں کی جانب سے پیش کیے جانے والے اقدامات سے پر امید نہیں ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ وہ تمام اقدامات تعطل کا شکار ہو چکے ہیں کیونکہ وہ بحران کی بنیادی وجہ کو حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

امیرعبداللہیان نے وضاحت کی کہ ایران نے یکم نومبر 2019 میں اقوام متحدہ کے سامنے اپنا اقدام پیش کیا جس میں فلسطین میں قومی ریفرنڈم کا مطالبہ کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ جمہوری حل مغربی ایشیا کے خطے میں قبضے اور دیرینہ تنازعہ کو حل کرنے میں مدد دے گا اور فلسطین کے حقیقی باشندے جن میں مسلمان، عیسائی اور یہودی شامل ہیں، اپنی قسمت کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔

تہران، ارنا - ایرانی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ سویڈن کی عدالت کی جانب سے حمید نوری کو سنائی گئی سزا کی کوئی قانونی طاقت نہیں ہے۔

یہ بات حسین امیر عبداللہیان نے ہفتہ کے روز  اپنی سویڈش ہم منصب آن لینڈہ کے ساتھ ایک ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کہی.

ایران اور سویڈن کے وزرائے خارجہ کی یہ ملاقات اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 77ویں اجلاس کے موقع پر ہوئی۔
دونوں وزرائے خارجہ نے بات چیت کے دوران دو طرفہ امور کے علاوہ دو طرفہ قونصلر امور پر تبادلہ خیال کیا۔
امیرعبداللہیان نے کہا کہ حمید نوری کے بارے میں سویڈن کی عدالت کی طرف سے سنائے گئے فیصلے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔
 انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ تیسرے فریق کو ان کے منظم یا سیاسی مفادات کے مطابق دونوں ممالک کے تاریخی اور گہرے تعلقات پر اثر انداز ہونے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔

فارس خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق روس کی جانب سے بڑے پیمانے پر افواج کو متحرک کرنے کے اعلان کے فوراً بعد روسی صدر کے سابق مشیر "ولادیمیر پوتن" نے انگلینڈ کو ایٹمی حملے کی دھمکی دی ہے۔

"دی ٹائمز آف اسرائیل" ویب سائٹ کے مطابق، پوتن کے سابق مشیر "سرگئی مارکوف" نےBBC  نیوز چینل کو بتایا کہ صدر ولادیمیر پوتن نے کہا کہ وہ برطانیہ سمیت مغربی ممالک کے خلاف جوہری ہتھیار استعمال کرنے کے لیے تیار ہیں۔

روس کے سابق قانون ساز اور رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ آپ کے شہروں کو نشانہ بنایا جائے گا ۔

انہوں نے امریکی صدر جو بائیڈن، سابق برطانوی وزیراعظم بورس جانسن اور موجودہ وزیراعظم لز ٹرس کو یوکرین کی جنگ کا ذمہ دار قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ یوکرینی ہمارے بھائی ہیں، لیکن یوکرین پر مغربی ممالک کا قبضہ ہے اور یہی مغربی ممالک یوکرین کے فوجیوں کو غلام بنا کر روسی فوج کے خلاف لڑ رہے ہیں۔

مارکوف نے کہا کہ روس نہیں چاہتا کہ دنیا کے تمام افراد مارے جائیں لیکن روس جو چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ اس جنگ کو ان مغربی ممالک کے ساتھ حل کیا جائے جو یوکرین کی سرزمین پر روس کے خلاف جنگ کر رہے ہیں اور جس پر مغربی ممالک نے دراصل قبضہ کر رکھا ہے۔

مارکوف کا یہ بیان پوتن کی جانب سے روس میں ریزرو فورسز کو متحرک کرنے کے حکم کے چند گھنٹے بعد سامنے آیا ہے۔

تہران: ولی امر مسلمین آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ سابق عراقی حکومت کی ایران کے خلاف آٹھ سالہ جنگ کے خلاف مقدس دفاع نے ثابت کردیا کہ وطن کی حفاظت اور دفاع صرف مزاحمت کے ذریعے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے، ہتھیار ڈالنے سے نہیں۔
ایران پر مسلط 8 سالہ جنگ میں ایران کے مقابل عالمی سامراج تھا جو صدام کی ہر طرح سے مدد کررہا تھا۔ ہفتہ دفاع مقدس کی مناسبت سے کمانڈروں اور جانبازوں سے ملاقات میں ولی امر مسلمین نے کہا کہ مزاحمت نے لوگوں کے حوصلے اور خود اعتمادی کو بلند کیا اور ساتھ ہی دشمن کو اپنے حساب کتاب پر نظر ثانی کرنے اور ایرانی قوم کی طاقت اور مزاحمت کے ادراک کا درس دیا۔
ایران پر مسلط کی گئی جنگ اچانک حملہ نہیں تھا بلکہ صدام کی پشت پر عالمی سامراج تھا۔ ایران کے انقلابی اور اسلامی نظام پر سامراجی حکومتوں کا حملہ غیر فطری نہیں تھا کیونکہ یہ حکومتیں ایران کے اسلامی انقلاب سے سخت چراغ پا تھیں۔ سامراجی طاقتیں سمجھ رہی تھیں کہ یہ انقلاب صرف سامراجی طاقتوں کی ایک وقتی سیاسی شکست نہیں ہے بلکہ اسلامی انقلاب تسلط پسندانہ نظام کے لئے ایک بڑا خطرہ تھا۔ ولی امر مسلمین نے کہا کہ امریکی حکام کے لئے یہ بات ناقابل برداشت تھی کہ ایرانی عوام امریکا جیسی بڑی طاقت سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کریں اسی لئے امریکا نے انتقام لینے کی ٹھان لی اور اس نے طبس کے ناکام ہوائی حملے کے ذریعے بغاوت کرانے اور ایران کے اندر اقوام کو اکسانے جیسے اقدامات کئے لیکن جب اس کو کوئی نتیجہ نہیں ملا تو اس نے صدام کے ذریعے جنگ مسلط کرادی لیکن ایران کے عوام نے امریکا اور اس کے اتحادیوں کے سبھی منصوبوں کو ناکام بنا دیا اور آج سامراجی طاقتوں کے مقابلے میں ایرانی عوام پوری قوت کے ساتھ ڈٹےہوئے ہیں۔ آج ایران دفاعی میدان میں اس قدر توانا ہوگیا ہے کہ دشمن بھی جانتا ہے کہ ایران کو آنکھیں نہیں دکھائی جاسکتیں۔