
سلیمانی
ایران کی خلائی ترقی کا شاندار مظاہرہ، مختلف سیٹلائٹس کی رونمائی
ایران نے تین نئے سیٹلائٹس، نواک-1، پارس-2، اور جدید پارس-1 کی رونمائی کردی ہے۔
خلائی ٹیکنالوجی کے قومی دن کے موقع پر پیر وزارت اطلاعات و مواصلات کی جانب سے تقریب منعقد ہوئی جس میں صدر مسعود پزشکیاں، آئی ٹی وزیر ستار ہاشمی، فوجی حکام اور خلائی ٹیکنالوجی کے ماہرین شریک ہوئے۔
تقریب میں ایران نے اپنی جدید سیٹلائٹ ٹیکنالوجی میں ہونے والی پیش رفت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نواک-1، پارس-2 اور جدید پارس-1 سیٹلائٹس کی رونمائی کی۔
نواک ایک مواصلاتی سیٹلائٹ ہے جو ایرانی خلائی تحقیقاتی مرکز نے ایک پلیٹ فارم پر تیار کیا ہے۔ سیٹلائٹ کا وزن 20 سے 50 کلوگرام کے درمیان ہے۔ اس سیٹلائٹ کو جلد ہی اسے ایک بیضوی مدار میں بھیجے گا۔ اس سیٹلائٹ کے ابعاد 40x40x60 سینٹی میٹر ہیں۔ یہ مختلف سائنسی آلات سے لیس ہے۔
نواک سیٹلائٹ ایران کی خلائی صنعت میں ایک اہم قدم ہے، جو مستقبل میں مزید ترقی کی راہ ہموار کرے گا۔
پارس-2 ایک جدید ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ ہے جس کا وزن 150 کلوگرام ہے اور اسے دو امیجنگ پے لوڈز سے لیس کیا گیا ہے۔
یہ سیٹلائٹ مکمل طور پر ملکی سطح پر تیار کیا گیا ہے اور مختلف شعبوں میں استعمال ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے، جن میں ماحولیاتی نگرانی، جنگلات کی دیکھ بھال، قدرتی آفات سے نمٹنے کے اقدامات وغیرہ شامل ہیں۔
پارس-2 ایران کی خلائی صنعت میں خود انحصاری اور تکنیکی ترقی کی علامت ہے جو مختلف سائنسی اور تجارتی مقاصد کے لیے کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔
پارس-1 کا جدید ورژن ایک ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ ہے، جو 100 سے 150 کلوگرام وزن کے حامل پلیٹ فارم پر تیار کیا گیا ہے۔ اس میں متعدد امیجنگ پے لوڈز شامل کیے گئے ہیں جن میں ملٹی اسپیکٹرل سینسر، شارٹ ویو انفراریڈ سینسر، تھرمل انفراریڈ سینسر شامل ہیں۔
رہبر معظم انقلاب: خدا کے حکم سے غزہ صیہونی حکومت پر غالب آجائے گا/امریکہ جارح اور دروغگو ہے۔
اکتالیسویں بین الاقوامی قرآن کریم مقابلے میں شرکت کرنے والے اساتذہ، قاریوں اور حافظوں نے (اتوار) صبح حسینہ امام خمینی میں رہبر معظم انقلاب اسلامی سے ملاقات اور محفل انس قرآن کریم میں شرکت کی۔
اس موقع پر رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے حاضرین سے مختصر خطاب بھی کیا جس کے اہم نکات یہ ہیں۔
- میں اس مقابلے کے انعقاد اور پورے ملک میں قرآن پاک کو مختلف طریقوں سے فروغ کے لیے انجام پانے والی کوششوں پر خدا کے شکر گزار ہیں۔
- میں آپ کو حضرت امام الحسین علیہ السلام کے یوم ولادت پر مبارکباد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ خدا وند تعالیٰ ہمیں اس عظیم انسان اور معزز خاندان اہلبیت کے پیروکاروں میں شامل فرمائے۔
- اعجاز قرآن اور معجزات نبوی کا تسلسل کائنات کے لیے ایک عظیم نعمت ہے۔
- انشاء اللہ غزہ صیہونی حکومت پر غالب آجائے گا۔
- خدا پر توکل کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں یقین ہونا چاہئے کہ خدا کے حکم سے ناممکن ممکن ہو جاتا ہے۔
- ایرانی قوم میں "امریکہ مردہ باد" کہنے کی ہمت ہے، امریکہ جارح اور دروغگو ہے۔
- ایرانی قوم نے صبر کا مظاہرہ کیا ہے اور ترقی کی منزلیں طے کی ہیں۔
- توکل کی عملی شرط میدان عمل میں موجودگي ہے۔
- ملت اسلامیہ کے مسائل خدا پر توکل کرکے حل ہوسکتے ہیں۔
اللہ کے حکم سے ناممکن ممکن ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی کہتا کہ: غزہ امریکی حکومت جیسی بڑی طاقت سے لڑے گا اور غزہ اس پر غالب آجائے گا، تو کیا آپ یقین کرتے ؟! آپ اس پر یقین نہیں کرتے؛ یہ ناممکنات میں سے ہے، لیکن اللہ کے حکم سے یہ ممکن ہوگیا۔
ایرانی قوم اور دوسری قوموں میں فرق یہ ہے کہ وہ امریکہ کو جارح، جھوٹا اور دھوکے باز کہنے کی جرأت رکھتی ہے لیکن دوسرے لوگ ہمت نہیں کرتے اور اپنے حصے کا کام نہیں کرتے۔ جب وہ ایسا نہیں کریں گے تو کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔
پچھلے چالیس برس میں دنیا کی تمام استکباری طاقتوں نے ایران پر حملہ کرنے کی کوشش کی لیکن ایرانی قوم کو نہ صرف نقصان پہنچا بلکہ اس نے ترقی کی ہے۔
آج کا ایران 40 سال پہلے کا ایران نہیں ہے۔
ایران سے ہر شعبے میں ترقی کی ہے۔
القسام بریگیڈ کے کمانڈر شہید محمد الضیف کون تھے؟
مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، فلسطینی مقاومتی تنظیم حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ کے ترجمان ابوعبیدہ نے کمانڈر محمد الضیف کی شہادت کی تصدیق کی ہے۔
ابوعبیدہ کے مطابق صہیونی حکومت کے حملے میں محمد الضیف کے ساتھ القسام کے دیگر کمانڈرز مروان عیسی، غازی ابوطماعہ، رائد ثابت اور رافع سلامہ بھی شہید ہوگئے ہیں۔ مروان عیسی محمد الضیف کے جانشین تھے۔
"موت کا بیٹا" محمد ضیف کون تھا؟
محمد دیاب ابراہیم المصری جو محمد الضیف کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، حماس کے عسکری ونگ عز الدین القسام بریگیڈ کا کمانڈر تھا۔ انہوں نے صیہونی حکومت کے حملوں سے بچنے کے لئے اپنی مسلسل نقل مکانی کی وجہ سے "ضیف" کا لقب حاصل کیا۔ عربی میں ضیف کا مطلب مہمان ہوتا ہے۔ صہیونی ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ کسی بھی گھر میں ایک سے زیادہ بار نہیں سوتے تھے اور نہ ہی وہ مستقل طور پر کسی جگہ ٹھہرتے تھے۔
محمد ضیف 1965 میں غزہ کے علاقے خان یونس کے ایک پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے یونیورسٹی میں حیاتیات کی تعلیم حاصل کی اور کچھ عرصے تک تھیٹر کی سرگرمیاں کیں۔
گزشتہ 20 سالوں میں انہوں نے صیہونی غاصبوں کے خلاف بے شمار کارروائیوں میں حصہ لیا ہے۔ صیہونی حکومت کی جانب سے انہیں قتل کرنے کی پانچویں کوشش میں ان کی ریڑھ کی ہڈی کو شدید نقصان پہنچا جس کی وجہ سے وہ مفلوج ہو گئے۔ اس کے بعد سے ضیف نے حماس کے عسکری ونگ کی قیادت اپنے نائب احمد جابری کے حوالے کی ہے، جو 2012 میں صیہونی حکومت کے ہاتھوں شہید ہو گئے۔
بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق محمد ضیف ماضی میں قاتلانہ حملوں کے دوران زخمی ہونے کے بعد کئی سالوں سے وہیل چیئر استعمال کر رہے ہیں البتہ بعض ذرائع کا کہنا ہے وہ بغیر کسی مدد کے چل سکتے ہیں۔
القسام کے لئے راکٹوں کے ڈیزائن سے لے کر غزہ میں زیر زمین سرنگوں کی کھدائی تک
انہوں نے 1989 میں حماس اور 1993 میں عز الدین القسام بریگیڈ میں شمولیت اختیار کی۔ محمد ضیف یحیی عیاش کے قریبی لوگوں میں سے ایک تھے۔ انہیں 2002 میں صلاح شحادہ کی شہادت کے بعد بریگیڈ کا کمانڈر مقرر کیا گیا تھا۔
صیہونی حکومت انہیں 1996 سے صیہونیوں کے خلاف فلسطینی خودکش کارروائیوں کے ماسٹر مائنڈوں میں سے ایک سمجھتی تھی۔ محمد الضیف قسام بریگیڈ کے راکٹوں کے تین اہم ڈیزائنرز میں سے ایک تھا اور مئی 2000 سے اپریل 2001 تک فلسطینی اتھارٹی نے ان کو حراست میں لیا تھا۔ غزہ میں زیر زمین سرنگوں کی کھدائی محمد ضیف کے کارناموں میں سے ایک تھا۔ شہید عماد مغنیہ کے ساتھ ان کے اچھے اور قریبی تعلقات تھے۔ شہید مغنیہ کے اور شہید جنرل سلیمانی کے مشورے پر انہوں نے غزہ میں کئی سرنگیں تعمیر کیں۔ ان سرنگوں کی تعمیر میں 10 سال لگے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ انہوں نے وہاں سے حماس کی فوجی کارروائیوں کی قیادت کی تھی۔
محمد الضیف صہیونی حکومت کا نمبر ون دشمن
صہیونی حکومت نے کم از کم سات مرتبہ محمد ضیف کو شہید کرنے کی کوشش کی۔ 2000 کی دہائی میں چار مرتبہ ان پر حملہ کیا گیا۔ 2006 میں حماس کے ایک رکن کے گھر پر حملے میں وہ شدید زخمی ہوئے اور ایک آنکھ کھودی۔ 19 اگست 2014 کو صہیونی جنگی طیاروں نے غزہ میں ایک رہائشی عمارت پر رات کو حملہ کیا جس کے نتیجے میں ایک ہی خاندان کے تین افراد شہید ہوئے۔ صہیونی حکام نے دعوی کیا کہ تیسرا فرد محمد ضیف ہے۔ اگلے دن محمد ضیف کی شہادت کی تردید کی گئی اور کہا گیا کہ ان کی بیوی اور بیٹی شہید ہوگئی ہیں۔
پے در پے کوششوں کے باوجود صہیونی حکومت ناکام ہونے پر ان کو موت کا بیٹا لقب دیا گیا۔ جدید ٹیکنالوجی استعمال کرنے سے گریز کرنے کی وجہ سے ان کو صہیونی حملوں سے بچنے کا موقع ملتا تھا۔ صہیونی محمد ضیف کو اپنا پہلے نمبر کا دشمن سمجھتے تھے۔
پہلی مرتبہ طوفان الاقصی کے بعد ان کی ویڈیو دنیا والوں کے سامنے آگئی جس میں انہوں نے طوفان الاقصی کی خبر دی۔ انہوں نے ویڈیو میں کہا کہ فلسطین کی طرف حرکت کل نہیں بلکہ آج ہی شروع کریں۔ کسی قسم کی سرحدی حدبندی آپ کو مسجد اقصی کی آزادی میں شریک ہونے سے نہ روکے۔
جب صہیونیوں نے محمد ضیف کی شہادت کی ویڈیو جاری کی
یکم اگست 2024 کو صہیونی فوج اور خفیہ ایجنسی شاباک نے کہا کہ غزہ کے شہر خان یونس میں فوجی آپریشن کے دوران امریکی میزائل لگنے سے حماس کے عسکری ونگ کے سربراہ محمد ضیف شہید ہوگئے ہیں۔
صہیونی اخبار ہارٹز کے مطابق صہیونی فوج اور شاباک کو 13 جولائی کو اطمینان بخش خبر ملی تھی کہ محمد ضیف اور رافع سلامہ ایک عمارت میں ملاقات کررہے ہیں۔ صہیونی جنگی طیاروں نے ٹنل سے باہر آنے والے محمد ضیف اور رافع سلامہ پر المواسی کے علاقے میں حملہ کیا۔
صہیونی ذرائع ابلاغ کے مطابق حملے میں 9 ٹن بارودی مواد استعمال کیا گیا جس کی وجہ سے محمد ضیف کے بچنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر تھے۔ صہیونی حکومت نے تاکید کی تھی کہ القسام کے رہنماوں پر حملے کے لئے مدتوں پہلے منصوبہ بندی کی گئی تھی جو شین بٹ اور جنوبی کمانڈ کی نگرانی کی گئی تھی۔
العربیہ نے حماس کے ایک دفاعی ذریعے کے حوالے سے کہا کہ محمد ضیف کی طرف سے رفح میں القسام کے کمانڈر تک پیغام منتقل کرنے والے کے ذریعے محمد ضیف اور رافع سلامہ کے مکان کا کھوج لگایا گیا۔
ماہ شعبان کی فضیلت واعمال
ماہ شعبان کی فضیلت واعمال
معلوم ہونا چاہئے کہ شعبان وہ عظیم مہینہ جو حضرت رسول سے منسوب ہے حضورصلىاللهعليهوآلهوسلم اس مہینے میں روزے رکھتے اور اس مہینے کے روزوں کو ماہ رمضان کے روزوں َ سے متصل فرماتے تھے ۔ اس بارے میں آنحضرت کا فرمان ہے کہ شعبان میرا مہینہ ہے اور جو شخص اس مہینہ میں ایک روزہ رکھے تو جنت اس کیلئے واجب ہو جاتی ہے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
جب شعبان کا چاند نمودار ہوتا تو امام زین العابدین علیہ السلام تمام اصحاب کو جمع کرتے اور فرماتے : اے میرے اصحاب !
جانتے ہو کہ یہ کونسا مہینہ ہے ؟
یہ شعبان کا مہینہ ہے اور رسول ﷲ فرمایا کرتے تھے کہ یہ شعبان میرا مہینہ ہے۔
پس اپنے نبی صلىاللهعليهوآلهوسلم کی محبت اور خدا کی قربت کیلئے اس مہینے میں روزے رکھو ۔
اس خدا کی قسم کہ جس کے قبضہ قدرت میں علی ابن الحسین علیہما السلام کی جان ہے میں نے اپنے پدر بزرگوار حسین ابن علی علیہما السلام سے سنا وہ فرماتے تھے میں نے اپنے والد گرامی امیر المومنین علیہ السلام سے سنا کہ :
جو شخص محبت رسول صلىاللهعليهوآلهوسلم اور تقرب خدا کیلئے شعبان میں روزہ رکھے تو خدائے تعالیٰ اسے اپنا تقرب عطا کریگا قیامت کے دن اس کو عزت و احترم ملے گا اور جنت اس کیلئے واجب ہو جائے گی ۔
شیخ نے صفوان جمال سے روایت کی ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
اپنے قریبی لوگوں کو ماہ شعبان میں روزہ رکھنے پر آمادہ کرو ! میں نے عرض کیا آپ پر قربان ہو جاؤں اس میں کوئی فضیلت ہے ؟
آپ عليهالسلام نے فرمایا ہاں اور فرمایا رسول ﷲ جب شعبان کا چاند دیکھتے تو آپ کے حکم سے ایک منادی یہ ندا کرتا :
اے اہل مدینہ!
میں رسول خدا کا نمائندہ ہوں اور ان کا فرمان ہے کہ شعبان میرا مہینہ ہے ۔ خدا کی رحمت ہو اس پر جو اس مہینے میں میری مدد کرے ۔ یعنی روزہ رکھے۔
صفوان کہتے ہیں امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ :
امیر المؤمنین علیہ السلام فرماتے تھے جب سے منادی رسول صلىاللهعليهوآلهوسلم نے یہ ندا ء دی اس کے بعد شعبان کا روزہ مجھ سے قضا نہیں ہوا اور جب تک زندگی کا چراغ گل نہیں ہو جاتا یہ روزہ مجھ سے ترک نہیں ہوگا
نیز فرمایا کہ شعبان اور رمضان دو مہینوں کے روزے توبہ اور بخشش کا موجب ہیں۔
اسماعیل بن عبد الخالق سے روایت ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھا، وہاں روزۂ شعبان کا ذکر ہوا تو حضرت نے فرمایا :
ماہ شعبان کے روزے رکھنے کی بہت زیادہ فضیلت ہے حتی کہ نا حق خون بہانے والے کو بھی ان روزوں سے فائدہ پہنچ سکتا ہے اور بخشا جا سکتا ہے۔
ماخوذ از کتاب مفاتیح الجنان
اخلاق اورکردار حسینی کے چند نمونے
کرم حسین کی ایک مثال
امام فخرالدین رازی تفسیرکبیرمیں زیرآیة ”علم آدم الاسماء کلہا“ لکھتے ہیں کہ ایک اعرابی نے خدمت امام حسین میں حاضرہوکرکچھ مانگا اورکہاکہ میں نے آپ کے جدنامدارسے سناہے کہ جب کچھ مانگناہوتوچارقسم کے لوگوں سے مانگو :
۱ ۔ شریف عرب سے
۲ ۔ کریم حاکم سے
۳ ۔ حامل قرآن سے ۴ ۔ حسین شکل والے سے ۔
میں آپ آپ میں یہ جملہ صفات پاتاہوں اس لیے مانگ رہاہوں آپ شریف عرب ہیں آپ کے ناناعربی ہیں آپ کریم ہیں ،کیونکہ آپ کی سیرت ہی کرم ہے، قرآن پاگ آپ کے گھرمیں نازل ہواہے آپ صبیح وحسین ہیں، رسول خداکاارشاد ہے کہ جومجھے دیکھناچاہے وہ حسن اورحسین کودیکھے، لہذا عرض ہے کہ مجھے عطیہ سے سرفرازفرمائیے، آپ نے فرمایاکہ جدنامدارنے فرمایاہے کہ ”المعروف بقدرالمعرفة“ معرفت کے مطابق عطیہ دیناچاہئے، تومیرے سوالات کاجواب دے ۔ بتا:
سب سے بہترعمل کیاہے؟
اس نے کہااللہ پرایمان لانا۔ ۲ ۔
ہلاکت سے نجات کاذریعہ ہے؟
اس نے کہااللہ پربھروسہ کرنا۔
۳ ۔ مردکی زینت کیاہے؟
کہا ”علم معہ حلم“ ایساعلم جس کے ساتھ حلم ہو، آپ نے فرمایادرست ہے اس کے بعدآپ ہنس پڑے۔ ورمی بالصرةالیہ اورایک بڑاکیسہ اس کے سامنے ڈال دیا۔
(فضائل الخمسة من الصحاح الستہ جلد ۳ ص ۲۶۸) ۔
امام حسین کی نصرت کے لیے رسول کریم کاحکم
انس بن حارث کابیان ہے جوکہ صحابی رسول اوراصحاب صفہ میں سے کہ میں نے دیکھاکہ حضرت امام حسین علیہ السلام ایک دن رسول خداکی گودمیں تھے اوروہ ان کوپیاررکررہے تھے ،اسی دوران میں فرمایا،
اس حدیث نبوی ؐ کی اہمیت کے پیش نظر ضروری سمجھتے ہیں کہ اسے کامل سند کے ساتھ ذکر کردیا جائے:
’’سعد(سعید)بن عبدالملک بن واقد الحرانی بن عطا بن مسلم الخقاف عن اشعث بن سلیم عن ابیہ قال سمعت انس بن حارث یقول:سمعت رسول اللہؐ یقول:ان ابنی ھذا(یعنی الحسین)یُقتل بارض یقال لھا کربلا فمن شھد منکم فلینصرہ۔‘‘
قال(العسقلانی):’’فخرج انس بن الحرث الی کربلا فقتل مع الحسین۔‘‘
صاحب فرسان نے ابن عساکر سے یوں نقل کیا ہے :
’’وقال ابن عساکر انس بن الحرث کان صحابیاً کبیرا ممن رأی النبیؐ وسمع حدیثہ وذکرہ عبدالرحمٰن السلمی فی اصحاب الصفہ۔۔۔۔۔۔‘‘(فرسان الھیجاء، محلاتی، ص۳۷۔)
«انَّ ابْنى هذا يُقْتَلُ فى ارْضٍ يُقالُ لَهَا الْعِراقُ فَمَنْ ادْرَ کَهُ فَلْيَنْصُرْهُ.»“
کہ میرا یہ فرزندحسین اس زمین پرقتل کیاجائے گاجس کانام کربلاہے دیکھوتم میں سے اس وقت جوبھی موجودہو، اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کی مددکرے۔
راوی کابیان ہے کہ اصل راوی اورچشم دیدگواہ انس بن حارث جوکہ اس وقت موجودتھے وہ امام حسین کے ہمراہ کربلامیں شہیدہوگئے تھے(اسدالغابہ جلد ۱ ص ۱۲۳ و ۳۴۹ ،اصابہ جل ۱ ص ۶۸ ،کنزالعمال جلد ۶ ص ۲۲۳ ،ذخائرالعقبی محب طبری ص ۱۴۶) ۔
امام حسین علیہ السلام کی عبادت
علماء ومورخین کااتفاق ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام زبردست عبادت گزارتھے آپ شب وروزمیں بے شمارنمازیں پڑھتے تھے اورانواع واقسام عبادات سے سرفرازہوتے تھے آپ نے پچس حج پاپیادہ کئے اوریہ تمام حج زمانہ قیام مدینہ منورہ میں فرمائے تھے، عراق میں قیام کے دوران آپ کواموی ہنگامہ آرائیوں کی وجہ سے کسی حج کاموقع نہیں مل سکا۔ (اسدالغابہ جلد ۳ ص ۲۷) ۔
امام حسین کی سخاوت
مسندامام رضا ص ۳۵ میں ہے کہ سخی دنیاکے لوگوں کے سرداراورمتقی آخرت کے لوگوں کے سردارہوتے ہیں امام حسین سخی ایسے تھے جن کی نظیرنہیں اورمتقی ایسے تھے کہ جن کی مثال نہیں، علماء کابیان ہے کہ اسامہ ابن زیدصحابی رسول علیل تھے امام حسین انھیں دیکھنے کے لیے تشریف لے گئے توآپ نے محسوس کیاکہ وہ بے حدرنجیدہ ہیں، پوچھا،ائے میرے ناناکے صحابی کیابات ہے”واغماہ“ کیوں کہتے ہو،عرض کی مولا، ساٹھ ہزاردرہم کامقروض ہوں آپ نے فرمایاکہ گھبراو نہیں اسے میں اداکردوں گا چنانچہ آپ نے ان کی زندگی میں ہی انہیں قرضے کے بارسے سبکدوش فرمادیا۔
ایک دفعہ ایک دیہاتی شہرمیں آیا اوراس نے لوگوں سے دریافت کیاکہ یہاں سب سے زیادہ سخی کون ہے؟
لوگوں نے امام حسین کانام لیا، اس نے حاضر خدمت ہوکربذریعہ اشعارسوال کیا،حضرت نے چارہزاراشرفیاں عنایت فرمادیں،اس نے شعیب خزاعی کاکہناہے کہ شہادت امام حسین کے بعدآپ کی پشت پرباربرداری کے گھٹے دیکھے گئے جس کی وضاحت امام زین العابدین نے یہ فرمائی تھی کہ آپ اپنی پشت پرلادکراشرفیاں اورغلوں کے گٹھربیواؤں اور یتیموں کے گھررات کے وقت پہنچایاکرتے تھے کتابوں میں ہے کہ آپ کے ایک غیرمعصوم فرزندکوعبدالرحمن سلمی نے سورہ حمدکی تعلیم دی،آپ نے ایک ہزاراشرفیاں اورایک ہزارقیمتی خلعتیں عنایت فرمائیں (مناقب ابن شہرآشوب جلد ۴ ص ۷۴) ۔
امام شلبجی اورعلامہ محمدابن طلحہ شافعی نے نورالابصاراورمطالب السؤل میں ایک اہم واقعہ آپ کی صفت سخاوت کے متعلق تحریرکیاہے جسے ہم امام حسن کے حال میں لکھ آئے ہین کیونکہ اس واقعہ سخاوت میں وہ بھی شریک تھے۔
کتاب کا حولہ:
https://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=224
مؤلف: آل البیت محققین ذرائع: مختصر حالات زندگی معصومین علیھم السلام
ماہ شعبان المعظم کی آمد پر حرم حضرت عباس (ع) کے نورانی منظر
پیرس سے تہران تک
یوں تو امام خمینیؒ کی زندگی کا تمام سفر ہی غیر معمولی اور بے نظیر ہے لیکن پیرس سے تہران تک کا ان کا سفر ایسا تھا جس پر دنیا کے تمام ذرائع ابلاغ کی نظریں جمی ہوئی تھیں۔ امام خمینیؒ یکم فروری 1979 کو اپنی طویل جلا وطنی ختم کرکے پیرس سے طہران کی طرف عازم سفر ہوئے۔ فرانس سے نکلتے وقت امام خمینیؒ رات کو ”خیابان نوفل لوشاتو“ گئے اور وہاں کے لوگوں کو خدا حافظ کہا اور ان کی زحمات پر ان سے معذرت چاہی۔ آپ نے فرانس کی عوام کے نام بھی ایک پیغام چھوڑا جس میں ان کی میزبانی کا شکریہ ادا کیا۔ اسی دوران ایک تنظیم نے ”ایسوسی ایٹڈ پریس“ کے دفتر سے رابطہ کرکے خبرداد کیا کہ اگر آیت اللہ نے پیرس سے تہران جانے کی کوشش کی تو ان کے طیارے کو تباہ کر دیا جائے گا۔ ایئر فرانس، سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر امام اور ان کے رفقاء کو تہران منتقل کرنے پر آمادہ نہیں تھی۔ تاہم کچھ ایرانیوں نے ایئر فرانس کے پورے طیارے کو کرائے پر لے لیا اور اس کا بیمہ بھی کروا لیا۔ صبح 5:30 بجے ایئر فرانس کے جمبو جیٹ طیارے 747 نے ٹیک آف کیا۔ تقریباً 500 کے قریب پولیس اور اسپیشل فورسز نے ”چارلس ڈی گال ایئر پورٹ“ اور اس کی طرف جانے والی سڑکوں کی حفاظت کی۔
بی بی سی کا ایک صحافی ”جان سمپسن“ جو اس طیارے میں سفر کر رہا تھا، اپنے سفر کی روداد سناتے ہوئے کہتا ہے کہ ”میں اپنے لیے اور اپنے کیمرہ مین کے لیے اس چارٹرڈ جہاز کے لیے دو ٹکٹ لینے میں کامیاب ہوگیا۔ بی بی سی نے مجھے کہا کہ میں نہ جاؤں لیکن میرے لیے یہ موقع اپنے ہاتھ سے گنوا دینا ممکن نہیں تھا۔ البتہ مجھے جلد ہی احساس ہوا کہ میں نے غلطی کی ہے۔ پرواز کے دوران امام خمینیؒ کے ایک ساتھی نے بتایا کہ ایران کی فضایہ ہمارے طیارے کو مار گرانا چاہتی ہے۔ یہ جان کر جہاز میں سوار تمام صحافیوں پر کومے کی سی کیفیت طاری ہوگئی لیکن امام خمینیؒ کے وفاداروں نے نعرے لگانا شروع کر دیئے کہ ”ہم شہادت کے لیے آمادہ ہیں“۔ میں نے سفر کے دوران امام خمینیؒ کی ویڈیو بھی بنائی۔ امام فرسٹ کلاس میں اپنی سیٹ پر بیٹھے کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے ہمیں نظرانداز کر رہے تھے۔ ایک صحافی نے امام خمینیؒ سے پوچھا کہ آپ اتنے عرصے کے بعد واپس اپنے وطن جاتے ہوئے کیا محسوس کر رہے؟ امام خمینی نے اس کے جواب میں بس اتنا کہا ”ھیچ“ یعنی کچھ بھی نہیں۔
ایرانی فضائیہ ہم پر حملہ کرنے سے تو باز رہی البتہ ہمارا جہاز تہران کے ہوائی اڈے کے اوپر مسلسل چکر لگاتا رہا۔ نیچے موجود حکام کے ساتھ مذاکرات ہو رہے تھے جو طول پکڑ گئے۔ جہاز کے دائرے کی شکل میں گھومنے کی وجہ سے ہمارے دل ڈوبے جا رہے تھے۔ بالآخر ہمارا جہاز زمین پر اتر گیا۔ آیت اللہ کے استقبال کے لیے جو ہجوم اکھٹا ہوا تھا اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع تھا۔ دلچسب بات یہ ہے کہ اس سفر کی منصوبہ بندی فرانس کے ایک ایسے گاؤں میں ہوئی تھی جہاں ٹریفک کا جام ہونا اور برف باری کا ہونا بھی ایک خبر بن جاتا ہے۔“ امام خمینیؒ کا طیارہ تقریباً آدھے گھنٹے کی تاخیر کے ساتھ 9:33 پر تہران کے ہوائی اڈے پر اترا۔ تہران کے ہوائے اڈے سے بہشت زھراء تک عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا ہجوم امام خمینیؒ کے استقبال کے لیے موجود تھا۔ عوام نے امام کی آمد پر سڑکوں پر جھاڑو دیا ہوا تھا اور انہیں پانی سے دھویا ہوا تھا۔ امام کے راستے کو رنگ برنگے پھولوں سے کئی کلو میٹر تک سجایا گیا تھا۔
امام خمینیؒ کے ایئر پورٹ ہال میں داخل ہوتے ہی ایئر پورٹ اللہ اکبر کی صدا سے لرز اٹھا۔ طلباء کے ایک گروہ نے ”خمینی ای امام“ کا ترانہ گاتے ہوئے امام کی آمد کے جوش و خروش کو سامعین کے آنسووں سے جوڑ دیا۔ امام نے ہوائی اڈے پر آنے والی عوام کا شکریہ ادا کیا اور شاہ کی روانگی اور اپنی آمد کو فتح کی جانب پہلا قدم قرار دیا۔ شاہ پور بختیار کی جانب سے وعدے کے باوجود امام کی آمد کی تقریب کی براہ راست نشریات کو چند منٹوں کے بعد ہی منقطع کر دیا گیا جس کی وجہ سے عوام میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ عوامی دباؤ پر گورنر نے تین دن کے لیے مارچ اور مظاہروں کی اجازت دے دی۔ شاہی کونسل کے دوسرے رکن ڈاکٹر علی آبادی کے مستعفی ہونے کی خبر شائع ہوئی۔ یونیورسٹی میں دھرنا دیئے ہوئے علماء نے امام کی آمد کے بعد اپنا حتمی بیان جاری کرکے اپنا دھرنا ختم کردیا۔
توقع سے زیادہ استقبال کو دیکھتے ہوئے آیت اللہ طالقانی اور آیت اللہ بہشتی نے امام خمینیؒ کو بہشت زھرا کا پروگرام منسوخ کرنے کا مشورہ دیا۔ امام نے اطمینان سے پوچھا۔” گاڑی کہاں ہے؟ میں نے بہشت زھرا جانے کا وعدہ کیا ہے۔“ امام کے سفر کے لیے بلیزر کار چند دن قبل ہی تیار کی گئی تھی۔ ڈرائیور کی سیٹ اور اور پچھلی سیٹ کے درمیان بلٹ پروف شیشہ لگایا گیا تھا۔ امام کو جب اس کا علم ہوا تو وہ اگلی سیٹ پر براجمان ہوگئے۔ استقبال کرنے والی کمیٹی نے امام کی حفاظت کے لیے کار کے علاوہ متعدد موٹر سائیکل سوار بھی تیار کئے ہوئے تھے۔ اس گروہ کے سربراہ شہید محمد بروجردی کو بعد میں ”مسیح کردستان“ اور کردستان کا بہادر کمانڈر کا لقب دیا گیا۔ بروجردی اور گروپ کے باقی ارکان رش میں پھنس گئے۔ صرف محمد رضا طالقانی جو بلیرز پر بیٹھے تھے، گاڑی کے ساتھ جا سکے۔ گاڑی ”خیابان رجائی“ کے راستے میں اچانک رک گئی۔ امام نے گاڑی سے اترنے اور بہشت زھراء تک کا باقی رستہ پیدل طے کرنے پر اصرار کیا۔
آخر ہیلی کاپٹر آگیا اور امام اس میں سوار ہوئے۔ امام خمینیؒ دوپہر دو بجے بہشت زھرا کے قطعہء 17 پر پہنچے جہاں 17 شہریور کے شہداء کو دفن کیا گیا تھا۔ سب سے پہلے قیام کے مقام پر قرآن خوانی کی گئی۔ اس کے بعد ترانہ ”برخیزید ای شہیدان راہ خدا“ گایا گیا۔ بعد ازاں امام کی آواز فضا میں گونجی جس نے حق و حقیقت کے مشتاقان اور شیفتگان کی قلب و روح کو سرشار کر دیا۔ امام کا خطاب 3:30 پر ختم ہوا۔ امام خمینیؒ کو لینے کے لیے آنے والے ہیلی کاپٹر نے تین بار اترنے کی کوشش کی لیکن ہجوم کے سبب ناکام رہا۔ حاج احمد آغا اور جناب ناطق نوری امام کو تھامے ہوئے ایک آئل کمپنی کی ایمبولینس تک لے گئے۔ ایمبولینس قم کی جانب محو سفر ہوئی۔ ہیلی کاپٹر اس کے پیچھے پیچھے تھا۔ یہاں تک کہ ہیلی کاپٹر ایک مقام پر اترا اور امام اس میں سوار ہوگئے۔ ہیلی کاپٹر کا پائلٹ ہیلی کاپٹر کو اپنی مرضی کے مقام پر اتارنا چاہتا تھا لیکن اسے ”امام خمینیؒ ہسپتال“ جو انقلاب سے پہلے رضا شاہ پہلوی کے نام سے موسوم تھا، میں اترنے کا مشورہ دیا گیا۔ چنانچہ امام کا ہیلی کاپٹر اس ہسپتال کے احاطے میں اترا۔
امام کے ساتھیوں کا خیال تھا کہ امام بہشت زھرا سے ”مدرسہء رفاہ“ جائیں گے لیکن امام نے اپنی بھتیجی، آقای پسندیدہ کی بیٹی کے گھر جانے کا فیصلہ کیا۔ امام رات دس بجے تک وہاں رہے تاکہ راستہ ذرا پر سکون ہو جائے۔ ادھر مدرسہء رفاہ میں سب پریشان تھے۔ کسی کو امام کے بارے میں خبر نہ تھی۔ آخر رات کے آخری پہر کسی نے خبر دی کہ کسی نے دروازے پر دستک دی ہے۔ دروازہ بند تھا۔ دروازہ کھلا اور ” امام آگئے “۔ امام مدرسے میں داخل ہونے کے بعد مدرسے کی سیڑھیوں کی طرف بڑھے اور سیڑھیوں پر ہی بیٹھ گئے۔ اس کے بعد امام خمینیؒ اپنے عقب میں آنے والے ہجوم کی طرف متوجہ ہوئے اور لوگوں سے چند منٹ تک گفتگو کی۔ رات اپنے اختتام کو پہنچی اور ایران کی اگلی صبح اپنے دامن میں ایک ایسا آفتاب لیے ہوئی تھی جو تمام مستضعفین عالم کے لیے ایک صبح نو کا پیغام لایا تھا۔
عید بعثت منانے کا مقصد کیا ہے؟
روز بعثت، رسول اللہ (ص) کی نبوت کے اعلان کا دن ہے۔ یہ اسلام کی تاریخ کا وہ اہم ترین دن ہے، جس میں بشریت کو ہدایت، حکمت اور انسانی اعلیٰ قدروں پر مبنی نظام ملا۔ عید مبعث منانا نہ صرف معنوی لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے، بلکہ مسلمانوں کی اجتماعی اور انفرادی زندگی کے لیے بے شمار فوائد کا حامل ہے۔ عید بعثت مسلمانوں کو یہ موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ نبی اکرم کی بعثت کے مقصد کو یاد کریں۔ قرآن میں بعثت کا بنیادی مقصد انسان کا تزکیہ نفس سمیت حکمت اور عدل کی تعلیم دینا قرار دیا گیا ہے۔ اس دن کو منانے سے مسلمان اپنے مقصدِ حیات کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں اور اپنی زندگی کو نبی اکرم (ص) کی تعلیمات کے مطابق ڈھال سکتے ہیں۔
آج کے مسلمانوں کو دنیاوی مسائل، اخلاقی گراوٹ اور خود غرضی جیسے چیلنجز کا سامنا ہے۔ عید بعثت ہمیں اس بات کی یاد دہانی کراتی ہے کہ نبی اکرم (ص) کی بعثت کا مقصد اخلاقی بلندی کو فروغ دینا اور انسانوں کو معنوی بلندی کی طرف گامزن کرنا تھا۔ اس دن مسلمانوں کو اپنے اخلاق کو نبی اکرم (ص) کے اخلاق کے مطابق ڈھالنے کی تحریک ملتی ہے۔ عید بعثت کے ذریعے مسلمانوں کو اس بات کی یاد دہانی کرائی جا سکتی ہے کہ نبی کی تعلیمات میں امت مسلمہ کے اتحاد کو خاص اہمیت دی گئی تھی۔ قرآن اور حدیث میں مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا گیا ہے۔ آج کے دور میں جب امت مسلمہ فرقہ واریت اور تنازعات میں تقسیم ہو رہی ہے، عید بعثت اتحاد اور بھائی چارے کو فروغ دینے کا بہترین موقع فراہم کرتی ہے۔
عید بعثت مسلمانوں کو علم حاصل کرنے کی اہمیت کا درس دیتی ہے۔ قرآن کی پہلی وحی "اقرأ" (پڑھو) کے ذریعے علم کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا۔ آج کے مسلمانوں کے لیے اس دن کو منانا اس بات کی یاد دہانی کراتا ہے کہ ترقی اور کامیابی کے لیے علم حاصل کرنا اور اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔ اس کے بغیر ترقی خواب بن کر رہ جائے گی۔ نبی اکرم (ص) کی بعثت کا ایک اہم مقصد معاشرے میں عدل و انصاف قائم کرنا تھا۔ آپ (ص) نے ظلم کے خاتمے، غریبوں کی مدد اور یتیموں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کیا۔ آج کے دور میں عید بعثت کو منانے سے مسلمانوں کو یہ شعور حاصل ہوتا ہے کہ وہ معاشرتی انصاف کے قیام کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
عید بعثت ہمیں دین اسلام کی جامعیت اور اس کی تعلیمات کی آفاقیت کی یاد دلاتی ہے۔ یہ دن مسلمانوں کو موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ اسلام کی معنوی، معاشرتی اور اقتصادی تعلیمات کا مطالعہ کریں اور انہیں اپنی عملی زندگی میں نافذ کریں۔ نبی اکرم (ص) کی بعثت، دعوت و تبلیغ کا پیغام تھی۔ آج کے مسلمانوں کے لیے عید بعثت کا دن اس بات کی یاد دہانی کراتا ہے کہ وہ اسلام کے حقیقی پیغام کو دنیا کے سامنے پیش کریں اور لوگوں کو حکمت، دلیل اور محبت کے ساتھ دین کی طرف راغب کریں۔ عید بعثت ہمیں یہ موقع فراہم کرتی ہے کہ ہم نبی اکرم (ص) کی تعلیمات کی روشنی میں عصر حاضر کے مسائل کا حل تلاش کریں۔ خواہ وہ اخلاقی مسائل ہوں، سماجی ناہمواری، یا سیاسی و اقتصادی چیلنجز، نبی اکرم ﷺ کی سیرت تمام مسائل کے حل کے لیے رہنمائی فراہم کرتی ہے۔
رسول خدا (ص) نے بعثت کے بعد معاشرے کی اصلاح پر زور دیا اور ہر انسان کو اس کی ذمہ داریوں کا شعور دیا۔ آج کے مسلمانوں کے لیے عید بعثت کو منانا اس بات کی یاد دہانی ہے کہ وہ اپنے سماجی فرائض کو سمجھیں اور معاشرے کی بہتری کے لیے کام کریں۔ عید بعثت کا دن مسلمانوں کو اللہ کے قریب ہونے اور اپنی معنوی حالت کا جائزہ لینے کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔ اس دن عبادت، ذکر اور دعا کے ذریعے مسلمان اپنی معنوی زندگی کو مضبوط کرسکتے ہیں اور اللہ کے احکامات پر عمل پیرا ہونے کا عہد کرسکتے ہیں۔ عید بعثت کا حقیقی فائدہ تب ہے، جب مسلمان آنحضرت (ص) کی تعلیمات کو اپنی زندگیوں میں عملی طور پر نافذ کریں۔ آج کے مسلمانوں کو چاہیئے کہ وہ اس دن کو مناتے ہوئے اپنے اندر اخلاقی، روحانی اور سماجی تبدیلی پیدا کریں۔ بعثت کا پیغام صرف ایک تاریخی واقعہ نہیں بلکہ ایک زندہ حقیقت ہے، جو قیامت تک انسانیت کے لیے ہدایت اور رہنمائی فراہم کرتا رہے گا۔
تحریر: محمد حسن جمالی
نبوت و رسالت
اللہ تعالی نے انسانوں کی ہدایت کے لیے سلسلہ انبیاء کا کو جاری فرمایا،تمام کے تمام انبیاء معصوم اور بڑی فضیلتوں کے مالک ہیں ۔حضرت محمد مصطفی ﷺ اللہ کی طرف سے نبی بھی ہیں اور رسول بھی ہیں اللہ تعالی ارشاد فر ماتا ہے:
((إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَىٰ آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَ . ذُرِّيَّةً بَعْضُهَا مِن بَعْضٍ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ٣٤)) (آل عمران ـ33 ـ34)
اللہ نے آدم علیہ السّلام,نوح علیہ السّلام اور آل ابراہیم علیہ السّلام اور آل عمران علیہ السّلام کو منتخب کرلیا ہے۔
((أُولَٰئِكَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ مِن ذُرِّيَّةِ آدَمَ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ وَمِن ذُرِّيَّةِ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْرَائِيلَ وَمِمَّنْ هَدَيْنَا وَاجْتَبَيْنَا ۚ إِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُ الرَّحْمَٰنِ خَرُّوا سُجَّدًا وَبُكِيًّا))(مريم ـ58)
یہ سب وہ انبیاء ہیں جن پر اللہ نے نعمت نازل کی ہے ذرّیت آدم میں سے اور ان کی نسل میں سے جن کو ہم نے نوح علیہ السّلام کے ساتھ کشتی میں اٹھایا ہے اور ابراہیم علیہ السّلام و اسرائیل علیہ السّلام کی ذرّیت میں سے اور ان میں سے جن کو ہم نے ہدایت دی ہے اور انہیں منتخب بنایا ہے کہ جب ان کے سامنے رحمان کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو روتے ہوئے سجدہ میں گر پڑتے ہیں۔
رسول اور نبی کے درمیان عموم خصوص کی نسبت ہے یعنی ہر رسول ﷺ نبی ہے لیکن ہر نبی رسول نہیں ہے۔اللہ تعالی نے بعض انبیاءؑ کو درجہ رسالت پر فائز کیا ہے۔
ان دونوں کی لغوی اور اصطلاحی تعریف کی جائے گی پہلے لغوی تعریف ملاحظہ ہو:
نبی اصل میں نبا سے لیا گیا جس کے معنی خبر کے ہیں نبی آسمانی خبریں لیتا اور بتاتا ہے، اس کی جمع انبیاء ہے۔ نبی اللہ سے خبر دینے والا ہوتا ہے۔
رسول اصل میں رسل سے لیا گیا ہے کسی بھی گروہ کو کہتے ہیں، مرسل اس شخص کو کہا جاتا ہے جو پیغام کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لیکر جاتا ہے،اللہ کے رسول آسمان سے آئے پیغام کو لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔
اصطلاح میں نبی اس شخصیت کو کہا جاتا ہے جو اللہ سے خبریں لیتا ہے اور بندوں تک پہنچاتا ہے،اس کے ساتھ ساتھ اللہ نبی کو عزت و شرف عطا کرتا ہے۔دوسرے الفاظ میں جو آسمانی پیغام اللہ سے لیکر بندوں تک پہنچاتا ہے ،یہ اللہ کی طرف سے عزت و شرف ہے۔
ایک اور طرف سے نبی اور رسول کے درمیان عموم خصوص کی نسبت ہے۔نبی کو مبعوث کیا گیا ہو چاہے انہیں تبلیغ کا حکم دیا گیا ہو یا نہ دیا گیا ہو وہ نبی ہوتا ہے،جبکہ رسول ہوتا ہے تو وہ اللہ کی طرف سے بندوں تبلیغ رسالت پر مشغول ہوتا ہے۔اسی لیے انبیاءؑ کی تعداد زیادہے اور رسولوں کی تعداد کم ہے۔حضرت موسی ؑ منصب رسالت پر فائز کیا گیا اور آپ کے ماننے والے یہودی کہلائے،اسی طرح حضرت مسیح ؑ اس عہدہ پر فائز ہوئے آپ کے ماننے والےمسیحی کہلاتے اور اللہ کے آخری نبی اور رسول حضرت محمد ﷺ ہیں آپ کے پیروکار مسلمان کہلاتے ہیں۔ان کے علاوہ بھی رسول ہیں ہر عہدہ رسالت رکھنے والے پر ہمارا درود و سلام ہو۔
نبی اور سول دونوں اللہ کی طرف سے بھیجے گئے ہوتے ہیں تاکہ جو بھی ان پر نازل ہو اس کو پہنچائیں ۔اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
((وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّىٰ أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ فَيَنسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّهُ آيَاتِهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ)) (الحج ـ 52)
اور ہم نے آپ سے پہلے کوئی ایسا رسول یا نبی نہیں بھیجا ہے کہ جب بھی اس نے کوئی نیک آرزو کی تو شیطان نے اس کی آرزو کی راہ میں رکاوٹ ڈال دی تو پھر خدا نے شیطان کی ڈالی ہوئی رکاوٹ کو مٹا دیا اور پھر اپنی آیات کو مستحکم بنادیا کہ وہ بہت زیادہ جاننے والا اور صاحبِ حکمت ہے۔
نبی اور رسول ہر دو لوگوں کی ہدایت کے لیے آتے ہیں،نبی اللہ کی طرف سے لوگوں کو وہ غیب کی خبریں بھی بتاتا ہے جو اللہ نے اس پر نازل کی ہوتی ہیں رسول کی ذمہ داریاں نبی سے زیادہ ہوتی ہیں۔نبی لوگوں کی معاش،آخرت اور زندگی میں پیش آنے والے معاملات میں رہنمائی کرتا ہے یعنی اصول دین اور فروع دین میں رہنمائی کا فریضہ انجام دیتا ہے،یہ اللہ کی طرف سے لوگوں پر نظر کرم ہے،رسول اللہ کی طرف سے خوشخبری لانے والا اور ڈرانے والا ہوتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
((رُّسُلًا مُّبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا))(النساء ـ165)
یہ سارے رسول بشارت دینے والے اور ڈرانے والے اس لئے بھیجے گئے تاکہ رسولوں کے آنے کے بعد انسانوں کی حجت خدا پر قائم نہ ہونے پائے اور خدا سب پر غالب اور صاحب ه حکمت ہے۔
امام جواد ؑ فرماتے ہیں:
نبی خواب میں دیکھتا اور سنتا ہے لیکن فرشتے کو نہین دیکھتا اور رسول آواز کو سنتا ہے خواب میں دیکھتا ہے اسی طرح فرشتوں کو بھی دیکھتا ہے۔
سب سے اہم فرق یہ ہے کہ رسول کی شان و مرتبہ نبی سے زیادہ ہوتا ہے ،دونوں تبلیغ کرتے ہیں،دونوں پر وحی نازل ہوتی ہے ،نبی پر نیند اور خواب میں وحی ہوتی ہے،رسول حضرت جبرائیلؑ کو دیکھتے ہیں اور آمنے سامنے براہ راست وحی کو وصول کرتے ہیں۔نبوت و رسالت دونوں اعلی شان و مرتبے کے عہدے ہیں البتہ رسالت نبوت سے بڑا مرتبہ ہے۔کبھی ایسا ہوتا ہے کہ پہلے کوئی شخصیت عہدہ نبوت پر فائز ہوتی ہے اور بعد میں اللہ تعالی اس نبی کو عہدہ رسالت بھی عطا کر دیتا ہے جیسا کہ حضرت ابراہیمؑ کے معاملہ میں ہوا۔اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
((وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا))(مريم ـ41)
اور کتاب خدا میں ابراہیم علیہ السّلام کا تذکرہ کرو کہ وہ ایک صدیق پیغمبر تھے۔
اسی طرح حضرت اسماعیلؑ کے بارے میں فرمایا:
((وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِسْمَاعِيلَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَكَانَ رَسُولًا نَّبِيًّا (54))(مريم ـ54)
اور اپنی کتاب میں اسماعیل علیہ السّلام کا تذکرہ کرو کہ وہ وعدے کے سچے ّاور ہمارے بھیجے ہوئے پیغمبر علیہ السّلام تھے۔
حضرت موسیؑ بھی پہلے نبی اور بعد میں رسول ہوئے ارشاد باری تعالی ہے:
((وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مُوسَىٰ ۚ إِنَّهُ كَانَ مُخْلَصًا وَكَانَ رَسُولًا نَّبِيًّا))(مريم ـ51)
اور اپنی کتاب میں موسٰی علیہ السّلام کا بھی تذکرہ کرو کہ وہ میرے مخلص بندے اور رسول و نبی تھے۔
حضرت محمد ﷺ کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے:
((وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۚ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ ۚ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا ۗ وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ))(آل عمران ـ144)
اور محمد تو صرف ایک رسول ہیں جن سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں کیااگر وہ مر جائیں یا قتل ہو جائیں تو تم اُلٹے پیروں پلٹ جاؤ گے تو جو بھی ایسا کرے گا وہ خدا کا کوئی نقصان نہیں کرے گا اور خدا تو عنقریب شکر گزاروں کو ان کی جزا دے گا۔
دوسرے مقام پر ارشاد ہے:
((الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ ۚ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ ۙ أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ))(الأعراف ـ157)
جو لوگ کہ رسولِ نبی امّی کا اتباع کرتے ہیں جس کا ذکر اپنے پاس توریت اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں کہ وہ نیکیوں کا حکم دیتا ہے اور برائیوں سے روکتا ہے اور پاکیزہ چیزوں کو حلال قرار دیتاہے اور خبیث چیزوں کو حرام قرار دیتا ہے اور ان پر سے احکام کے سنگین بوجھ اور قیدوبند کو اٹھا دیتا ہے پس جو لوگ اس پر ایمان لائے اس کا احترام کیا اس کی امداد کی اور اس نور کا اتباع کیا جو اس کے ساتھ نازل ہوا ہے وہی درحقیقت فلاح یافتہ اور کامیاب ہیں۔
ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے:
((مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَٰكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا))(الأحزاب ـ40)
محمد تمہارے مُردوں میں سے کسی ایک کے باپ نہیں ہیں لیکن و ہ اللہ کے رسول اور سلسلہ انبیائ علیہ السّلام کے خاتم ہیں اوراللہ ہر شے کا خوب جاننے والا ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ ہر نبی اور ہر رسول صاحب کتاب نہیں ہوتا کیونکہ کتب سمایہ تو چار ہیں تورات،انجیل،زبور اور قرآن مجید۔ارشاد باری تعالی ہے:
((انَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ ۚ وَمَا اخْتَلَفَ فِيهِ إِلَّا الَّذِينَ أُوتُوهُ مِن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۖ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ ۗ وَاللَّهُ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ))(البقرة ـ213)
( فطری اعتبار سے) سارے انسان ایک قوم تھے . پھر اللہ نے بشارت دینے والے اور ڈرانے والے انبیائ بھیجے اور ان کے ساتھ برحق کتاب نازل کی تاکہ لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کریں اور اصل اختلاف ان ہی لوگوں نے کیا جنہیں کتاب مل گئی ہے اور ان پر آیات واضح ہوگئیں صرف بغاوت اور تعدی کی بنا پر----- تو خدا نے ایمان والوں کو ہدایت دے دی اور انہوں نے اختلافات میں حکم الٰہی سے حق دریافت کرلیا اور وہ تو جس کو چاہتا ہے صراظُ مستقیم کی ہدایت دے دیتا ہے۔
اس سے مراد یہ ہے کہ وہ پیغام الہی کو پہنچانے کے ذمہ دار تھے،ہر وہ شخصیت جن کو اللہ نے اپنا پیغام لوگوں تک پہنچانے کے لیے چن لیا وہ نبی ہے اور جب اس نبی کے لیے عہدہ رسالت بھی عطا ہو جائے تو وہ رسول بھی بن جاتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ایک عہدہ امامت ہے جو اللہ تعالی بعض خاص بندو کو عطا کرتا ہے۔ارشاد باری تعالی ہے:
((وَإِذِ ابتلى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ ۖ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ۖ قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۖ قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ))(البقرة ـ124).
اور اس وقت کو یاد کرو جب خدانے چند کلمات کے ذریعے ابراہیم علیہ السّلام کا امتحان لیا اور انہوں نے پورا کردیا تو اس نے کہا کہ ہم تم کو لوگوں کا امام اور قائد بنا رہے ہیں. انہوں نے عرض کی کہ میری ذریت? ارشاد ہوا کہ یہ عہدئہ امامت ظالمین تک نہیں جائے گا۔
ظافرة عبد الواحد خلف